110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131582
ڈاؤنلوڈ: 4499

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131582 / ڈاؤنلوڈ: 4499
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۷۵ ۔ فلسفہ زکوٰة کیا ہے؟

اسلام صرف ایک اخلاقی یا فلسفی اور اعتقادی مکتب کے عنوان سے نہیں آیا ہے بلکہ ایک ”مکمل آئین“ کے عنوان سے پیش ہوا ہے جس میں تمام مادی اور معنوی ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے، اسلام نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے ہی حکومت تشکیل دے کر غریب اور محتاج لوگوں کی حمایت اور طبقاتی نظام کا مقابلہ کیا ہے ، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بیت المال اور زکوٰة جو بیت المال کی در آمد کا راستہ ہے ؛ اسلام کی اہم منصوبہ بندی میں سے ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر معاشرہ میں غریب، محتاج، بیمار، بے سرپرست یتیم اور اپاہج لوگ پائے جاتے ہیں، جن کی حمایت اور مدد ہونی چاہئے۔

اور اسی طرح دشمن کے مقابل اپنی حفاظت کے لئے نگہبان اور مجاہدین کی ضرورت ہوتی ہے جس کا خرچ حکومت کو ادا کرنا ہوتا ہے۔

اسی طرح حکومتی ملازمین، قاضی، دینی ادارے اور تبلیغی وسائل کے لئے بھی کچھ مصارف کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے منظم طور پر مالی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اسلامی نظام بہتر طور پر قائم ہوسکے۔

اسی وجہ سے اسلام نے زکوٰة پر ایک خاص توجہ دی ہے جو در اصل ایک طرح سے ”انکم ٹیکس“ اور ”ذخیرہ شدہ سرمایہ پر ٹیکس“ ہے ، اور زکوٰة کی اہمیت کے پیش نظر اس کو مہم ترین عبادت میں شمار کیا گیا ہے، بہت سے مقامات پر نماز کے ساتھ ذکر ہوا ہے، یہاں تک کہ قبولیتِ نماز کی شرط شمار کی گئی ہے!

بلکہ اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے کہ اگر اسلامی حکومت نے کسی شخص یا اشخاص سے زکوٰة کا مطالبہ کیا اور انھوں نے زکوٰة دینے سے انکار کیا اور حکومت سے مقابلہ کیا تو ان کو مرتد شمار کیا جائے گا، اور اگر ان پر وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہ ہو تو اس صورت میں طاقت کا سہارا لینا جا ئز ہے ،جیسا کہ واقعہ ”اصحاب ردّہ“ (جس گروہ نے پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد زکوٰة دینے سے انکار کیا اور خلیفہ وقت نے ان سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی یہاں تک حضرت علی علیہ السلام نے اس مقابلہ پر رضا مندی دے دی اور خود ایک پرچم دار کے عنوان سے میدان جنگ میں حاضر ہوئے) تاریخ میں مشہور ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہوا ہے: ”مَنْ مَنَعَ قِیْرَاطاً مِنَ الزَّکٰاةِ فَلَیسَ هُوَ بِمَومِنٍ، وَلَا مُسْلِمٍ، وَلا کَرَامَةٍ !“(۱) ”جو شخص زکوٰة کی ایک قیراط(۲) ادا نہ کرے تو وہ نہ مومن ہے اور نہ مسلمان، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے“۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ زکوٰة کے سلسلہ میں بیان شدہ روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام نے زکوٰة کی ”حدود“ اور ”مقدار“ اس قدر دقیق معین کی ہے کہ اگر تمام مسلمان اپنے مال کی زکوٰة صحیح اور مکمل طریقہ سے ادا کریں تو اسلامی ممالک میں کوئی غریب اور فقیر نہیں پایا جائے گا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے: ”اگر تمام مسلمان اپنے مال کی زکوٰة ادا کریں تو کوئی مسلمان غریب نہیں رہ سکتا، لوگ غریب، محتاج، بھوکے اور ننگے نہیں ہوتے مگر مالداروں کے گناہوں کی بدولت“۔(۳)

اسی طرح روایات سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ زکوٰة کی ادائیگی سے ملکیت کا تحفظ ہوتا ہے کہ اگر مسلمان اس اسلامی اہم اصل کو بالائے طاق رکھ دیں تو لوگوں کے درمیان (غریب او رامیر میں) اس قدر فاصلہ ہوجائے کہ مالدار لوگوں کا مال خطرہ میں پڑ جائے گا۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ ”حَصِّنُوا اٴمْوَالُکُمْ بِالزَّکَاةِ(۴) ”زکوٰة کے ذریعہ اپنے مال کی حفاظت کرو“۔

یہی مضمون خود پیغمبر اکرم (ص) اور امیر المومنین علی علیہ السلام سے دوسری احادیث میں نقل ہوا ہے۔(۵)

____________________

(۱) وسائل الشیعہ ، جلد ۶، صفحہ ۲۰، باب ۴، حدیث۹

(۲) درہم کے بارہویں حصے کے برابر ایک وزن

(۳) وسائل الشیعہ ، جلد ۶، صفحہ۴ (باب ۱،حدیث ۶ از ابواب زکوٰة )

(۴) وسائل الشیعہ ،جلد ۶، صفحہ ۶،(باب۱، حدیث ۱۱ از ابواب زکوٰة )

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۸، صفحہ ۱۰

۷۶۔ فلسفہ اور اسرار حج کیا ہیں؟

حج کے یہ عظیم الشان مناسک در اصل چار پہلو رکھتے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے اہم اور مفید تر ہے:

۱ ۔ حج کا اخلاقی پہلو:

حج کا سب سے مہم ترین فلسفہ یہی اخلاقی انقلاب ہے جو حج کرنے والے میںرونما ہوتا ہے، جس وقت انسان ”احرام“ باندھتا ہے تو ظاہری امتیازات، رنگ برنگ کے لباس اور زر و زیور جیسی تمام مادیات سے باہر نکال دیتا ہے، لذائذ کا حرام ہونا اور اصلاح نفس میں مشغول ہونا (جو کہ مُحرِم کا ایک فریضہ ہے) انسان کو مادیات سے دور کردیتا ہے اور نور و پاکیزگی اور روحانیت کے عالم میں پہنچا دیتا ہے اور عام حالات میں خیالی امتیازات اور ظاہری افتخارات کے بوجھ کو اچانک ختم کردیتا ہے جس سے انسان کو راحت اور سکون حا صل ہوتاہے۔

اس کے بعد حج کے دوسرے اعمال یکے بعد دیگرے انجام پاتے ہیں، جن سے انسان ،خدا سے لمحہ بہ لمحہ نزدیک ہوتا جاتا ہے اور خدا سے رابطہ مستحکم تر ہوتا جاتا ہے، یہ اعمال انسان کوگزشتہ گناہوں کی تاریکی سے نکال کر نور وپاکیزگی کی وادی میں پہنچا دیتے ہیں۔

حج کے تمام اعمال میں قدم قدم پر بت شکن ابراہیم، اسماعیل ذبیح اللہ اور ان کی مادر گرامی جناب ہاجرہ کی یاد تازہ ہوتی ہے جس سے ان کا ایثار اور قربانی انسان کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہوجاتی ہے ، اور اس بات پر بھی توجہ کہ رہے سرزمین مکہ عام طور پر اور مسجد الحرام و خانہ کعبہ خاص طور پر پیغمبر اسلام (ص) ،ائمہ علیہم السلام اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے جہاد کی یاد تازہ کردیتے ہیں،چنانچہ یہ اخلاقی انقلاب عمیق تر ہوجاتا ہے گویا انسان مسجد الحرام اور سر زمین مکہ کے ہر طرف اپنے خیالات میں پیغمبر اکرم (ص) ،حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کے نورانی چہروں کی زیارت کرتا ہے اور ان کی دل نشین آواز کو سنتا ہے۔

جی ہاں! یہ تمام چیزیں مل کر انسان کے دل میں ایک روحی اور اخلاقی انقلاب پیدا کردیتی ہیں گویا انسانی زندگی کی ناگفتہ بہ حالت کے صفحہ کو بند کردیا جاتا ہے اور اس کی بہترین زندگی کا نیا صفحہ کھل جاتا ہے۔

یہ بات بلا وجہ اسلامی روایات میں بیان نہیں ہوا ہے کہ ”یُخْرِجُ مِنْ ذُنُوبِهِ کَهَیئَته یَوم وُلِدتُّهُ اٴُمُّهُ !“(۱) ”حج کرنے والا اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے ابھی شکم مادر سے پیدا ہوا ہو“۔

جی ہاں! حج مسلمانوں کے لئے ایک نئی پیدائش ہے جس سے انسان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔

البتہ یہ تمام آثار و برکات ان لوگوں کے لئے نہیں ہیں جن کا حج صرف ظاہری پہلو رکھتا ہے جو حج کی حقیقت سے دور ہبں، اور نہ ہی ان لوگوں کے لئے جو حج کو ایک سیر و تفریح سمجھتے ہیں یا ریاکاری اور سامان کی خرید و فرو خت کے لئے جاتے ہیں ، اور جنھیں حج کی حقیقت کا علم نہیں ہے، ایسے لوگوں کا حج میں وہی حصہ ہے جو انھوں نے حاصل کرلیا ہے!

۲ ۔ حج کا سیاسی پہلو:

ایک عظیم الشان فقیہ کے قول کے مطابق : حج در عین حال کہ خالص ترین اور عمیق ترین عبادت ہے، اس کے ساتھ اسلامی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہترین وسیلہ ہے۔

روحِ عبادت ،خدا پر توجہ کرنا،روحِ سیاست یعنی خلق خدا پر توجہ کرنا ہے اور یہ دونوں چیزیں حج کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہیں!

حج مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کا بہترین سبب ہے۔

حج نسل پرستی اور علاقائی طبقات کے فرق کو ختم کرنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔

حج اسلامی ممالک میں فوجی ظلم و ستم کے خاتمہ کا وسیلہ ہے۔

حج اسلامی ممالک کی سیاسی خبروں کو دوسرے مقامات تک پہنچانے کا وسیلہ ہے، خلاصہ یہ کہ حج؛ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور استعمار کی زنجیروں کو کاٹنے اور مسلمانوں کو آزادی دلانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ حج کے موسم میں بنی امیہ اور بنی عباس جیسی ظالم و جابر حکومتیں اس موقع پر حجاج کی ملاقاتوں پر نظر رکھتی تھیں تاکہ آزادی کی تحریک کو وہیں کچل دیا جائے، کیونکہ حج کا موقع مسلمانوں کی آزادی کے لئے بہترین دریچہ تھا تاکہ مسلمان جمع ہوکر مختلف سیاسی مسائل کو حل کریں۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام جس وقت فرائض اور عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہیں تو حج کے بارے میں فرماتے ہیں: ”الحَجُّ تَقْوِیَةُ لِلدِّینِ(۲) (خداوندعالم نے حج کو آئین اسلام کی تقویت کے لئے واجب قرار دیا ہے)

بلا وجہ نہیں ہے کہ ایک غیر مسلم سیاست داں اپنی پُر معنی گفتگو میں کہتا ہے: ”وائے ہو مسلمانوں کے حال پر اگر حج کے معنی کو نہ سمجھیں اور وائے ہو اسلام کے دشمنوں پر کہ اگر حج کے معنی کوسمجھ لیں“!

یہاں تک اسلامی روایات میں حج کو ضعیف او رکمزور لوگوں کا جہاد قرار دیا گیا ہے اور ایک ایسا جہاد جس میں کمزور ضعیف مرد اور ضعیف عورتیں بھی حاضر ہوکر اسلامی شان و شوکت میں اضافہ کرسکتی ہیں، اور خانہ کعبہ میں نماز گزراوں میں شامل ہوکر تکبیر اور وحدت کے نعروں سے اسلامی دشمنوں کو خوف زدہ کرسکتے ہیں۔

۳ ۔ ثقافتی پہلو:

مسلمانوں کا ایام حج میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے ثقافتیرابطہ اور فکر و نظر کے انتقال کے لئے بہترین اور موثر ترین عامل ہوسکتا ہے۔

خصوصاً اس چیز کے پیش نظر کہ حج کا عظیم الشان اجتماع دنیا بھر کے مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی ہے (کیونکہ حج کے لئے جانے والوں کے درمیان کوئی مصنوعی عامل موثر نہیں ہے، اور تمام قبائل، تمام زبانوں کے افراد حج کے لئے جمع ہوتے ہیں)

جیسا کہ اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے کہ حج کے فوائد میں سے ایک فائد ہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث اور اخبار ؛عالم اسلام میں نشر ہوں۔

”ہشام بن حکم“ حضرت امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں کہتے ہیں: میں نے امام علیہ السلام سے فلسفہ حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”خداوندعالم نے ان تمام بندوں کو پیدا کیا ہے اور دین و دنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے، ان میں مشرق و مغرب سے (حج کے لئے) آنے والے لوگوں کے لئے حج واجب قرار دیا تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں، ہر گروہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث و آثار کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کرلیں ان کو کبھی فراموش نہ کریں، (اور دوسروں تک پہونچائیں)(۳)

اسی وجہ سے ظالم و جابر خلفاء اور سلاطین ؛مسلمانوں کو ان چیزوں کے نشر کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ، وہ خود اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مشکلوں کو دور کرتے تھے اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور بزرگ علمائے دین سے ملاقات کرکے قوانین اسلامی اور سنت پیغمبر پر پردہ ڈالتے تھے۔

اس کے علا وہ حج ؛عالمی پیمانہ پر ایک عظیم الشان کانفرنس کا نام ہے جس میں دنیا بھر کے تمام مسلمان مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے افکار اورابتکارات کو دوسرے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

اصولی طور پر ہماری سب سے بڑی بد بختی یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی سرحدوں نے مسلمانوں کی ثقافت میں جدائی ڈال دی ہے، ہر ملک کا مسلمان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے، جس سے اسلامی معاشرہ کی وحدت نیست و نابود ہوگئی ہے، لیکن حج کے ایام میں اس اتحاد اور اسلامی ثقافت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔

چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے (اسی ہشام بن حکم کی روایت کے ذیل میں): جن قوموں نے صرف اپنے ملک ،شہروں اور اپنے یہاں در پیش مسائل کی گفتگو کی تو وہ ساری قومیں نابود ہوجائیں گی اور ان کے ملک تباہ و برباد اور ان کے منافع ختم ہوجائیں گے اور ان کی حقیقی خبریں پشتِ پردہ رہ جائیں گی۔(۴)

۴ ۔ حج کا اقتصادی پہلو:

بعض لوگوں کے نظریہ کے برخلاف ؛ حج کا موسم اسلامی ممالک کی اقتصادی بنیاد کو مستحکم بنانے کے لئے نہ صرف ”حقیقتِ حج“ سے کوئی منافات نہیں رکھتا بلکہ اسلامی روایات کے مطابق؛ حج کا ایک فلسفہ ہے۔

اس میں کیا حرج ہے کہ اس عظیم الشان اجتماع میں اسلامی مشترک بازار کی بنیاد ڈالیں اور تجارتی اسباب و وسائل کے سلسلہ میں ایسا قدم اٹھائیں جس سے دشمن کی جیب میں پیسہ نہ جائے اور نہ ہی مسلمانوں کا اقتصاد دشمن کے ہاتھوں میں رہے، یہ دنیا پرستی نہیں ہے بلکہ عین عبادت اور جہاد ہے۔

ہشام بن حکم کی اسی روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے حج کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے صاف صاف اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمانوں کی تجارت کو فروغ دینا اور اقتصادی تعلقات میں سہولت قائم کرنا ؛حج کے اغراض و مقاصدمیں سے ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے آیہ شریفہ( لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اٴَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ ) (۵) کے ذیل میں بیان ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: اس آیت سے مراد کسب روزی ہے، ”فاذااحل الرجل من احرامه و قضی فلیشتر ولیبع فی الموسم “() ”جس وقت انسان احرام سے فارغ ہوجاتا ہے اور مناسکِ حج کو انجام دے لیتا ہے تو اسی موسم حج میں خرید و فروخت کرے (اور یہ چیز نہ صرف حرام نہیں ہے بلکہ اس میں ثواب بھی ہے)(۶)

اور حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول فلسفہ حج کے بارے میں ایک تفصیلی حدیث کے ذیل میںیہی معنی بیان ہوئے ہیں جس کے آخر میں ارشاد ہوا ہے: ”لِیَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُم(۷)

آیہ شریفہ”لیشھدوا منافع لھم“ معنوی منافع کو بھی شامل ہوتی ہے اور مادی منافع کو بھی، لیکن ایک لحاظ سے دونوں معنوی منافع ہیں۔

مختصر یہ کہ اگر اس عظیم الشان عبادت سے صحیح اور کامل طور پر استفادہ کیا جائے ، اور خانہ خدا کے زائرین ان دنوں میں جبکہ وہ اس مقدس سر زمین پر بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ حاضر ہیں اور ان کے دل آمادہ ہیں تو اسلامی معاشرہ کی مختلف مشکلات دور کرنے کے لئے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی کانفرنس کے ذریعہ فا ئدہ اٹھائیں، یہ عبادت ہر پہلو سے مشکل کشا ہوسکتی ہے، اور شاید اسی وجہ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”لایزال الدین قائما ما قامت الکعبة(۸) ”جب تک خانہ کعبہ باقی ہے اس وقت تک اسلام بھی باقی رہے گا“۔

اور اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: خانہ خدا کو نہ بھلاؤ کہ اگر تم نے اسے بھلا دیا تو ہلاک ہوجاؤ گے، ”الله الله فِی بَیتِ ربّکُم لاتَخْلُوهُ مَا بَقِیتُمْ فَإنّهُ إنْ َترَکَ لَم تَنَاظَرُوا(۴۲) (خدا کے لئے تمہیں خانہ خدا کے بارے میں تلقین کرتا ہوں اس کو خالی نہ چھوڑ نا، اور اگر تم نے چھوڑ دیا تو مہلت الٰہی تم سے اٹھالی جائے گی۔)

اور اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسلامی روایات میں ایک فصل اس عنوان سے بیان کی گئی کہ اگر ایک سال ایسا آجائے کہ مسلمان حج کے لئے نہ جا ئیں تو اسلامی حکومت پر واجب ہے کہ مسلمانوں کو مکہ معظمہ جانے پر مجبور کرے۔(۹)(۱۰)

”حج“ ایک اہم انسان ساز عبادت ہے

حج کا سفر در اصل بہت عظیم ہجرت ہے، ایک الٰہی سفر ہے اور اصلاح نیز جہاد اکبر کا وسیع میدان ہے۔

اعمال حج؛ حقیقت میں ایک ایسی عبادت ہے جس میں جناب ابراہیم اور ان کے بیٹے جناب اسماعیل اور ان کی زوجہ حضرت ہاجرہ کی قربانیوں اور مجاہدت کی یاد تازہ ہوتی ہے ، اور اگر ہم اسرار حج کے بارے میں اس نکتہ سے غافل ہوجائیں تو بہت سے اعمال ایک معمہ بن کر رہ جائیں گے ، جی ہاں! اس معمہ کو حل کرنے کی کنجی انھیں عمیق مطالب پر توجہ دینا ہے۔

جس وقت ہم سر زمین منیٰ کی قربانگاہ میں جاتے ہیں تو تعجب کرتے ہیں، یہ اس قدرقربانی کس لئے؟ کیا حیوانات کی قربانی عبادت ہوسکتی ہے؟!

لیکن جس وقت قربانی کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے نور نظر ،پارہ جگر اور اپنے ہر دل عزیز بیٹے کو راہ خدا میں قربان کردیا، جو ایک سنت ابراہیمی بن گیا اور منی میں اس یاد میں قربانی ہونے لگی تو اس کام کا فلسفہ سمجھ میں اجا تا ہے۔

قربانی کرنا خدا کی راہ میں تمام چیزوں سے گزرنے کا راز ہے، قربانی کرنا یعنی اس بات کا ظاہر کرنا ہے کہ اس کا دل غیر خدا سے خالی ہے،حج کے اعمال سے اسی وقت ضروری مقدار میں تربیتی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب ذبح اسماعیل اور قربانی کے وقت اس باپ کے احساسات کو مد نظر رکھا جائے، اور وہی احساسات ان کے اندر جلوہ گر ہوجائیں۔(۱)

جس وقت ہم ”جمرات“ کی طرف جاتے ہیں ( یعنی وہ تین مخصوص پتھر جن پر حجاج کو کنکری مارنا ہوتی ہیں، اور ہر بار سات کنکر مارنا ہوتی ہیں) توہمارے سامنے یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس مجسمہ

(۱) افسوس کہ ہمارے زمانہ میں منی میں قربانی کا طریقہ کار رضایت بخش نہیں ہے لہٰذا علمائے اسلام کو اس سلسلہ میں توجہ دینا چاہئے

پر سنگ باری کا کیا مقصد ہے؟ اور اس سے کیا مشکل حل ہوسکتی ہے؟ لیکن جس وقت ہم یاد کرتے ہیں کہ یہ سب بت شکن قہر مان جناب ابراہیم علیہ السلام کی یاد ہے ، آپ کی راہ میں تین بار شیطان آیا تا کہ آپ کو اس عظیم ”جہاد اکبر“سے رو ک دے یا شک و شبہ میں مبتلا کردے لیکن ہر بار توحید کے علمبر دار نے شیطان کو پتھر مار کر دور بھگا دیا،لہٰذا اگر اس واقعہ کو یاد کریں تو پھر ”رمی جمرات“ کا مقصد سمجھ میں آجاتا ہے۔

رمی جمرات کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب جہاد اکبر کے موقع پر شیطانی وسوسوں سے روبرو ہوتے ہیں اور جب تک ان کو سنگسار نہ کریں گے اور اپنے سے دور نہ بھگائیں گے تواس پر غالب نہیں ہوسکتے۔

اگر تمہیں اس بات کی امید ہے کہ خداوندعالم نے جس طرح جناب ابراہیم علیہ السلام پر درود و سلام بھیجا اور ان کی یاد کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا ہے اگر تم بھی یہ چاہتے ہو کہ وہ تم پر نظر رحمت کرے تو پھر راہ ابراہیم پر قدم بڑھاؤ۔

یا جس وقت ”صفا“ اور ”مروہ“ پر جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حجاج گروہ در گروہ ایک چھوٹی پہاڑی سے دوسری چھوٹی پہاڑی پر جاتے ہیں، اور پھر وہاں سے اسی پہاڑی پر واپس آجاتے ہیں ، اور پھر اسی طرح اس عمل کی تکرار کرتے ہیں، کبھی آہستہ چلتے ہیں تو کبھی دوڑتے ہیں، واقعاً تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیا ہے؟! اور اس کا مقصد کیا ہے؟!

لیکن جب ایک نظر اس با ایمان خاتون حضرت ہاجرہ کے واقعہ پر ڈالتے ہیں جو اپنے شیر خوار فرزند اسماعیل کی جان کے لئے اس بے آب و گیاہ بیابان میں اس پہاڑی سے اس پہاڑی پر جاتی ہیں، اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں کہ خداوندعالم نے حضرت ہاجرہ کی سعی و کوشش کو کس طرح منزل مقصود تک پہنچایا اور اور ان کے نو مولود بچہ کے پیروں کے نیچے چشمہ زمزم جاری کیا، تو اچانک زمانہ پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے اور پردے ہٹ جاتے ہیں اور ہم اپنے کو جناب ہاجرہ کے پاس دیکھتے ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ سعی و کوشش میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ راہ خدا میں سعی و کوشش کے بغیر منزل نہیں مل سکتی!

(قارئین کرام!) ہماری مذکورہ گفتگوکے ذریعہ آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ ”حج“ کو ان اسرار و رموز کے ذریعہ تعلیم دیا جائے اور جناب ابراہیم، ان کی زوجہ اور ان کے فرزند اسماعیل کی یاد کو قدم قدم پر مجسم بنایا جائے تاکہ اس کے فلسفہ کو سمجھ سکیں، اور حجاج کے دل و جان میں حج کی اخلاقی تاثیر جلوہ گر ہو ، کیونکہ ان آثار کے بغیر حج کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(۱۱)

____________________

(۱) بحار الانوار ، جلد ۹۹، صفحہ ۲۶

(۲) نہج البلاغہ، کلمات قصار ، نمبر ۲۵۲

(۳) وسائل الشیعہ ، جلد ۸، صفحہ ۹ (۴) وسائل الشیعہ ، جلد ۸، صفحہ ۹

(۴) سورہ بقرہ ، آیت ۱۹۸ (ترجمہ آیت: ”تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے پروردگار کے فضل وکرم کو تلاش کرو“)

(۵) تفسیر عیاشی، تفسیر المیزان ، جلد ۲ ، صفحہ ۸۶ کی نقل کے مطابق

(۶) بحار الاانوار ، جلد ۹۹، صفحہ ۳۲

(۷) وسائل الشیعہ ، ، جلد ۸، صفحہ ۱۴

(۸) نہج البلاغہ ،وصیت نامہ سے اقتباس۴۷

(۹) وسائل الشیعہ ، جلد۸، صفحہ ۱۵”باب وجوب اجبار الوالی الناس علی الحج“

(۱۰) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۷۶

(۱۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹، صفحہ ۱۲۵

۷۷ ۔ جہاد کا مقصد کیا ہے؟ اور ابتدائی جہاد کس لئے؟

اسلامی جہاد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۱ ۔ ابتدائی جہاد (آزادی کے لئے)

خداوندعالم نے انسان کی سعادت و خوشبختی، آزادی اور کمال تک پہنچنے کے لئے احکام بیان کئے ہیں، اور اپنے مرسلین کو ذمہ داری دی ہے تاکہ یہ احکام لوگوں تک پہنچائیں، اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ اسلامی احکام کو اپنے منافع میں مزاحم سمجھے اور ان کے پہچانے میں مانع اور رکاوٹ بنے تو انبیاء علیہم السلام کو اس بات کا حق ہے کہ پہلے انھیں گفتگو کے ذریعہ سمجھائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو طاقت کے ذریعہ ان کو راستہ سے ہٹا دیں اور آزاد طریقہ سے تبلیغ کے فر ائض انجام دیں۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ہر معاشرہ کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ راہ حق کے منادی افراد کی ندا کو سنیں اور اس دعوت کے قبول کرنے میں آزاد ہوں، لہٰذا اگر کوئی ان کو اس جائز حق سے محروم کرنا چاہے اور ان کو راہ خدا کے منادی افرادکی آواز سننے سے روکے ، تو ان کو یہ حق ہے کہ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی طاقت کا سہار ا لیں، یہیں سے اسلام اور دیگر آسمانی ادیان میں ”ابتدائی جہاد “ کی ضرورت واضح و روشن ہوجاتی ہے۔

اور اسی طرح اگر کچھ لوگ مومنین پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے گزشتہ مذہب کی طرف لوٹ جائیں تو اس موقع پر بھی کسی طاقت کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

۲ ۔ دفاعی جہاد :

اگر کسی شخص یا گروہ پر دشمن کی طرف سے حملہ کیا جاتا ہے تو اس موقع پر تمام آسمانی اور انسانی قوانین اس بات کا حق دیتے ہیں کہ انسان اپنے دفاع کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور اپنے دفاع کے لئے اپنی پوری طاقت لگادے، اور اپنی حفاظت کے لئے کوئی بھی حربہ اپنانے میں چون و چرانہ کرے، اس قسم کے جہاد کو ”دفاعی جہاد“ کہا جاتا ہے، اسلام کی مختلف جنگیں اسی طرح کی تھیں جیسے جنگ احزاب، جنگ احد، جنگ موتہ، جنگ تبوک، جنگ حنین وغیرہ، یہ تمام جنگیں دفاعی پہلو رکھتی تھیں۔

۳ ۔ کفر اور شرک کی نابودی کے لئے جہاد

اسلام ؛ اگرچہ دنیا بھر کے لوگوں کو اس دین (جو سب سے عظیم اور آخر ی دین ہے)کے انتخاب کے لئے دعوت دیتا ہے لیکن ان کے عقیدہ کی آزادی کا احترام کرتا ہے اسی وجہ سے جو اقوام آسمانی کتاب رکھتی ہیں ان کو اسلام قبول کرنے کے لئے غور و فکر کے لئے کافی فرصت دیتا ہے، او راگر انھوں نے اسلام قبول نہ کیا تو ان کے ساتھ ایک ”ہم پیمان اقلیت“ کے عنوان سے معاملہ کرتا ہے اور خاص شرائط کے تحت (جو نہ مشکل ہیں اور نہ پیچیدہ) ان کے ساتھ آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے کا سبق دیتا ہے۔

لیکن کفر و شر ک نہ دین ہے ،نہ کوئی مذہب اور نہ ہی قابل احترام ہے، بلکہ ایک قسم کی خرافات، انحراف اور حماقت ہے، در اصل ایک فکری اور اخلاقی بیماری ہے جس کو کسی نہ کسی طرح ختم ہونا چاہئے۔

دوسروں کی ”آزادی“ اور ”احترام“کی بات ان مقامات پرکیجا تی ہے جہاں فکر و عقیدہ میں کوئی ایک صحیح اصل پائی جاتی ہو لیکن انحرافات، گمراہی اور فکری بیماری قابل احترام نہیں ہے اسی وجہ سے اسلام کا حکم ہے کہ کفر و شرک کا دنیا بھر سے نام و نشان تک مٹا دیا جائے ،چاہے جنگ کرنی پڑے، اگر بت پرستی کے بُرے آثار گفتگو کے ذریعہ ختم نہ ہوں تو جنگ کے ذریعہ ان کا خاتمہ کردیا جائے۔(۱)

ہماری مذکورہ باتوں سے گرجا گھروں کے زہریلے پروپیگنڈے کا جواب بھی واضح ہوجاتا ہے کیونکہ اس سلسلہ میں( لاَ اِکْرَاهَ فِی الدِّینِ ) (۲) سے واضح آیت قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔

البتہ وہ لوگ اسلامی جہاد اور اسلامی جنگوں میں تحریف کرنے کے لئے مختلف بہانہ بازی کرتے ہیں جبکہ اسلامی جنگوں کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے بہت سی جنگیں دفاعی پہلو رکھتی تھیں اور بعض وہ جنگیں جو ”ابتدائی جہاد “ کی صورت میں تھیں وہ بھی دوسرے ملکوں پر غلبہ کرنے اور مسلمانوں کو طاقت کے بل پر اسلام قبول کرانے کے لئے نہیں تھی بلکہ اس ملک میں حکم فرما ظالمانہ نظام کے خاتمہ کے لئے تھیں تاکہ اس ملک کے با شندے مذہب قبول کرنے میں آزاد رہیں۔

اس گفتگو پر تاریخ اسلام گواہ ہے،جن میں یہ بات بارہا بیان کی گئی ہے کہ جب مسلمان کسی ملک کو فتح کرتے تھے تودوسرے مذاہب کے پیرووں کو مسلمانوں کی طرح آزادی دیتے تھے اور اگر ان سے ایک معمولی جزیہ حاصل کرتے تھے جو امنیت اور حافظ امنیت لشکر کے خرچ کے لئے ہوتا تھا کیونکہ ان کی جان و مال اور ناموس اسلام کی حفاظت میں تھی یہاں تک کہ وہ اپنے دینی پروگرام کرنے میں بھی آزاد تھے۔

تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے افراد اس حقیقت کو جانتے ہیں یہاں تک کہ اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے والے اور کتاب لکھنے والے عیسائی محققین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے مثلاً کتاب ”تمدن اسلام و عرب“ میں تحریر ہے: ”دوسرے مذاہب کے ساتھ مسلمانوں کا طریقہ کار اتنا ملائم تھا کہ مذہبی روساء کو مذہبی پروگرام کرنے کی اجازت تھی“۔

یہاں تک کہ بعض اسلامی تاریخ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جو عیسائی اسلامی تحقیق کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میںحاضر ہوتے تھے اپنی مذہبی دعاؤں کا پروگرام آزادطریقے سے مسجد النبی(مدینہ) میں انجام دیا کرتے تھے۔(۳)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۱۵

(۲) سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۶، ترجمہ: ”دین (قبول کرنے) میں کوئی جبر نہیں ہے“

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۲۰۵