110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131823
ڈاؤنلوڈ: 4527

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131823 / ڈاؤنلوڈ: 4527
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۷۸ ۔ اسلام خواتین کے لئے کن حقوق کا قائل ہے؟

ظہور اسلام اور اس کی مخصوص تعلیمات کے ساتھ عورت کی زندگی ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوئی جوپہلے مراحل سے بہت مختلف تھی، یہ وہ دور تھا جس میں عورت مستقل اور تمام انفرادی، اجتماعی اور انسانی حقوق سے فیض یاب ہوئی، عورت کے سلسلہ میں اسلام کی بنیادی تعلیمات وہی ہیں جن کا ذکر قرآنی آیات میں ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہوتا ہے:( لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوف ) (۱) ” عورتوں کے لئے ویسے ہی حقوق بھی ہیں جیسی ذمہ داریاں ہیں“۔

اسلام عورت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح ،ارادہ اور اختیار کا حامل سمجھتا ہے اور اسے سیرِ تکامل اور ارتقا کے عالم میں دیکھتا ہے جو مقصد خلقت ہے، اسی لئے اسلام دونوں کو ایک ہی صف میں قرار دیتا ہے اور دونوں کو ”یا ایہا الناس“ اور ”یا ایہا الذین آمنوا“ کے ذریعہ مخاطب کرتا ہے، اسلام نے دونوں کے لئے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دئے ہیں، ارشاد الٰہی ہوتا ہے:

( وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثَی وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلَئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ ) (۲)

”اور جو نیک عمل کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان بھی ہو اسے جنت میں داخل کیا جائے گا“۔

ایسی سعادتیں دونوں صنف حاصل کرسکتی ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنثَی وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیَاةً طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ اٴَجْرَهُمْ بِاٴَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) (۳)

”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انھیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے“۔

مذ کورہ آیات اس بات کو واضح کردیتی ہیں کہ مرد ہو یا عورت اسلامی قوانین و اعمال پر عمل کرتے ہوئے معنوی اور مادی کمال کی منزلوں پر فائز ہوسکتے ہیں اور ایک طیب و طاہر زندگی میں قدم رکھ سکتے ہیں جو آرام و سکون کی منزل ہے۔

اسلام عورت کو مرد کی طرح مکمل طور پر آزاد سمجھتا ہے ، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے:

( کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِینَةٌ ) (۴) ”ہر نفس اپنے اعمال کا رہین ہے“۔

یا ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ اٴَسَاءَ فَعَلَیْهَا ) (۵) ”جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو بُرا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا“۔

اسی طرح یہ آیت بھی مرد اور عورت دونوں کے لئے ہیں، اسی لئے سزا کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِاٴةَ جَلْدَةٍ ) (۶)

”زنا کار عورت اور زنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جا ئیں“۔

اس کے علاوہ دیگر آیات میں بھی ایک جیسے گناہ پردونوں کے لئے ایک جیسی سزا کا حکم سنایا گیا ہے۔

ارادہ و اختیار سے استقلال پیدا ہوتا ہے، اور اسلام یہی استقلال اقتصادی حقوق میں بھی نافذ کرتا ہے، اسلام بغیر کسی رکاوٹ کے عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کے مالی معاملات انجام دے اور عورت کو اس سرمایہ کا مالک شمار کرتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( ٍ لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ ) (۷)

”مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے“۔

لغت میں ”اکتساب“ کے معنی کسب اور حاصل کرنے کے ہیں،(۸) اسی طرح ایک دو سرا قانون کلی ہے:

”النَّاسُ مُسَلِّطُونَ عَلَی امْوَالِھِمْ“ یعنی تمام لوگ اپنے مال پر مسلط ہیں۔

اس قانون کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام عورت کے اقتصادی استقلال کا احترام کرتا ہے اور عورت مرد میں کسی فرق کا قائل نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام کی نظر میں عورت؛ معاشرہ کا ایک بنیادی رکن ہے اسے ایک بے ارادہ، محکوم ، سر پرست کا محتاج سمجھنا خیال خام ہے۔

مساوات کے معنی میں غلط فہمی نہ ہو:

اسلام نے مساوات کی طرف خاص توجہ دی ہے اور ہمیں بھی متوجہ ہونا چاہئے لیکن خیال رہے کہ بعض لوگ بے سوچے سمجھے جذبات میں آکر افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں اور مرد و عورت کے روحانی و جسمانی فرق اور ان کی ذمہ داریوں کے اختلاف تک سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔

ہم جس چیز کا چاہیں انکار کریں تاہم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ دو صنفوں میں جسمانی اور روحانی طور پر بہت فرق ہے، مختلف کتابوں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں ،یہاں اس کی تکرار کی ضرورت نہیں، خلاصہ یہ کہ عورت وجودِ انسانی کی پیدائش کا ظرف ہے، نونہالوں کا رشد اسی کے دامن میں ہوتا ہے، جیسے وہ جسمانی طور پر آنے والی نسلوں کی پیدائش ،تربیت اور پرورش کے لئے پیدا کی گئی ہے اسی طرح روحانی طور پر بھی اسے عواطف ،احساسات اور جذبات کا زیادہ حصہ دیا گیا ہے ۔

ان وسیع اختلافات کے باوجود کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرد عورت کو تمام حالات میں ہم قدم ہونا چاہئے اور تمام کاموں میں سو فیصد مساوی ہونا چاہئے ؟!

کیا عدالت اور مساوات کے حامیوں کو معاشرے کے تقاضوں کے حوالے سے بات کرنا چاہئے ؟کیا یہ عدالت نہیں ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری پوری کرے اوراپنے وجود کی نعمتوں اور خوبیوں سے فیض یاب ہو؟اس لئے کیا عورت کا ایسے کاموں میں دخل اندازی کرنا جو اس کی روح اورجسم سے مناسبت نہیں رکھتے ،خلاف ِعدالت نہیںہے!

یہی وہ مقام ہے جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام جو عدالت کا طرفدار ہے کئی ایک اجتماعی کاموں میں سختی یا زیادہ دقتِ نظروالے کاموں مثلاً گھر کے معاملات کی سر پرستی وغیرہ میں مرد کو مقدم رکھتا ہے اور معاونت وکمک کا مقام عورت کے سپرد کر دیتا ہے ۔

ایک گھر اور ایک معاشرے کومنتظم ہونے کی ضرورت ہو تی ہے اور نظم و ضبط کا آخری مرحلہ ایک ہی شخص کے ذریعہ انجام پانا چاہئے ورنہ کشمکش اور بے نظمی پیدا ہوگی۔

اگر تمام تعصبات سے بے نیاز ہو کر غور کیا جائے تو یہ واضح ہو جا ئے گا کہ مرد کی ساخت کے پیش نظر ضروری ہے کہ گھر کی سر پرستی اس کے ذمہ کی جائے اور عورت اس کی معاون ہو، اگر چہ کچھ لوگ ان حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنے پرمُصر ہیں۔

آج کی دنیا میں بھی بلکہ ان اقوام میں بھی جو عورتوں کو مکمل آزادی ومساوات دینے کا دعویٰ کرتے ہیں،خارجی حالات زندگی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عملی طور پر وہی بات ہے جوہم بیان کر چکے ہیں اگر چہ باتیں اس کے برخلاف بناتے ہیں۔(۹)

عورت اور مرد کے معنوی اقدار قرآن مجید نے مرد و عورت کو بارگاہ خداوندی اور معنوی مقامات کے لحاظ سے برابر شمار کیا ہے، اور جنس و جسمانی اختلاف ، نیزاجتماعی ذمہ داریوں کے اختلاف کو ترقی و کمال کی منزل حاصل کرنے کے لئے دلیل شمار نہیں کیا ہے بلکہ اس لحاظ سے دونوں کو بالکل برابر قرار دیا ہے، اسی وجہ سے دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے، قرآن مجید کی بہت سی آیات اس وقت نازل ہوئی ہیں جس زمانہ میں متعدد اقوام و ملل عورت کو انسان سمجھنے میں شک کرتی تھیں اور اس کو نفرت و ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا نیز عورت کو گناہ ، انحراف اور موت کا سر چشمہ سمجھا جاتا تھا!!

بہت سی گزشتہ اقوام تو یہاں تک مانتی تھی کہخداوندعالم کی بارگاہ میں عورت کی عبادت قبول نہیں ہے، بہت سے یونانی عورت کے وجود کو پست و ذلیل اور شیطانی عمل جانتے تھے، رومیوں اور بعض یونانیوں کایہ بھی عقیدہ تھا کہ عورت میں انسان کی روح نہیں ہوتی بلکہ انسانی روح صرف اور صرف مرد میں ہوتی ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ انھیں آخری صدیوں میں اسپین کے عیسائی علمااس سلسلہ میں بحث و گفتگو کرتے تھے کہ کیا عورت؛ مرد کی طرح انسانی روح رکھتی ہے یا نہیں یا مرنے کے بعد اس کی روح جاویداں ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اور بحث و گفتگو کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے : چونکہ عورت کی روح؛ انسان و حیوان کے درمیان برزخ ہے (یعنی ایک حصہ انسانی روح ہے تو ایک حصہ حیوانی روح) لہٰذا اس کی روح جاویدانی نہیں ہے سوائے جناب مریم کے۔(۱۰)

یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ تہمتیں جیسا کہ اسلام کو صحیح طور پر نہ سمجھنے والے افراد اعتراض کردیتے ہیں کہ اسلام تو صرف مردوں کا دین ہے ، عورتوں کا نہیں، واقعاً یہ بات کس قدر بیہودہ ہے، اصولی طور پر اگر عورت مرد کے جسمی اور عاطفی اور اجتماعی ذمہ داری کے فرق کے پیش نظر اسلامی قوانین پر غور و فکر کیا جائے تو عورت کی اہمیت اور عظمت پر ذرا بھی حرف نہیں آئے گا، اور اس لحاظ سے عورت مرد میں ذرا بھی فرق نہیں پایا جاتا، سعادت و خوشبختی کے دروازے دونوں کے لئے کھلے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ ) (سب ایک جنس اور ایک معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں)(۱۱)

____________________

(۱) سورہ بقرہ ،آیت۲۲۸ (۲)سور ہ غافر(مومن)، آیت ۴۰

(۳)سورہ نحل ، آیت ۹۷

(۴)سورہ مدثر ، آیت ۳۸

(۵) سورہ فصلت ، آیت ۴۶

(۶) سورہ نور ، آیت نمبر ۲

(۷) سورہ نساء ، آیت ۳۲

(۸)دیکھئے مفردات راغب اصفہانی ،البتہ یہ نکتہ اس وقت ہے جب ”کسب“ اور ”اکتساب“ایک ساتھ استعمال ہو

(۹) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۱۱۳

(۱۰) ”و سٹر مارک“ ، عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد (ص)، اور ”حقوق زن در اسلام“ اور اس سلسلہ میں دوسری کتابیں دیکھے

(۱۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۲۲۳

۷۹ ۔ پردہ کا فلسفہ کیا ہے؟

بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ہے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ہے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ہیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ہیں۔

لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارہی ہیں اتنا ہی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارہی ہے۔

البتہ اسلامی اور مذہبی معاشرہ میں خصوصاً ایرانی انقلاب کے بعد بہت سے مسائل حل ہوچکے ہیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ہے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ (بہت ہی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ہمبستری کے علاوہ) سننے ، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ہیں یا صرف ان کے شوہروں سے مخصوص ہیں؟!

بحث اس میں ہے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتہا مقابلہ میں جوانوں کی شہوتوں کو بھڑکائیں اور آلودہ مردوں کی ہوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوہروں سے متعلق ہیں؟!

اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ہے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ہے، حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پہلے نظریہ کے قائل ہیں۔

اسلام کہتا ہے کہ جنسی لذت اور دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوہر سے مخصوص ہے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ہے۔

فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نہیں ہے، کیونکہ:

۱ ۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ہیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ہیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں،انسان کے احساسات کتنے ہیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نہیں کہتے کہہمیشہ انسان میں ہیجان سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ہوتی ہے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعددخطر ناک حوادث اور واقعات ملتے ہیں جس کی بنیاد یہی چیز تھی،یہاں تک بعض لوگوں کا کہنا ہے: ”کوئی بھی اہم واقعہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ہاتھ ضرور ہوگا“!

ہمیشہ بازاروں اور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساس کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نہیں ہے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ہے؟!

اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رہیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے۔

۲ ۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواہی دیتی ہیں کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ہے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیونکہ ”ہر چہ دیدہ بیند دل کند یاد“ انسان جس کا عاشق ہوجاتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان ہر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ہے تو دوسرے کو الوداع کہتا ہوا نظر آتا ہے۔

جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ہے (اور اسلامی دیگر شرائط کی رعایت کی جاتی ہے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ہوتا ہے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔

لیکن ”اس آزادی کے بازار“ میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ہیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عہد و پیمان کوئی مفہوم نہیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ہی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور بچے بے سر پرست ہوجاتے ہیں۔

۳ ۔ فحاشی کا اس قدر عام ہوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ہونا؛ بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ہے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ہے جس کے بارے میں بیان کرناسورج کو چرا غ دکھاناہے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یہی بے حجابی ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نہیں ہے، بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ہے۔

فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ہوا ہے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پہلو واضح ہوجاتے ہیں۔

جس وقت ہم سنتے ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہم سنتے ہیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عہدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ہے، (انھوں نے اخلاقی اور مذہبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نہیں کیا ہے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ہے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دین و مذہب کو بھی نہیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ہیں، لہٰذامعاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ہوتی ہے اور اس کے خطر ناک نتائج ہر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہیں۔

تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی ہے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور اداروں میں کام کم ہوتا ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ہے۔

۴ ۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ہے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاہے گا تو فطری بات ہے کہ ہر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ہوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر ساز و سامان کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاہوں میں دل لگی کا سامان ہوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ہوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔

اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ہواو ہوس پوری کرنے کے آلہ کار میں بدل جائے گی!۔

ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگہی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ہے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ہے؟!

واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ہے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ہے خود ہمارے ملک ایران میں انقلاب سے پہلے یہ حالت تھی کہ نام، شہرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ”فنکار“ اور آرٹسٹ کے نام سے مشہور تھیں، جہاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔

اللہ کا شکر ہے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ گوشہ نشین ہوگئی ہو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یہاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

حجاب کے مخالفین کے اعتراضات

(قارئین کرام!) ہم یہاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ہیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ہوتی ہیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ہوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر عورتیں پردہ میں رہیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رہے گی! اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔

لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ چند چیزوں سے غافل ہیں یا انھوں نے اپنے کو غافل بنا لیا ہے، کیونکہ:

اولاً : یہ کون کہتا ہے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ہوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب (ایران) نے ثابت کر دکھایا ہے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ میں ہر جگہ حاضر ہیں، اداروں میں، کار خانوں میں، سیاسی مظاہروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ہسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی نگہداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ہر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

مختصر یہ کہ موجودہ حالات خوداس اعتراض کا دندان شکن جواب ہیں، اگرچہ ہم گزشتہ زمانہ میں ان جوابات کے لئے ”امکان“ کی باتیں کرتے تھے (یعنی عورتیں پردہ میں رہ کر کیا اجتماعی امور کو انجام دے سکتی ہیں) لیکن آج کل یہ دیکھ رہے ہیں، اور فلاسفہ کا کہنا ہے کہ کسی چیز کے امکان کی دلیل خود اس چیز کا واقع ہونا ہے، یہ بات خود آشکار ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ثانیاً: اگر ان چیزوں سے قطع نظر کریں تو کیا عورتوں کے لئے گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو آئندہ کے لئے بہترین انسان بنانا تاکہ معاشرہ کے لئے بہترین اور مفید واقع ہوں، کیا یہ ایک بہتر ین اور مفید کام نہیں ہے؟

جو لوگ عورتوں کی اس ذمہ داری کو مثبت اور مفید کام نہیں سمجھتے، تو پھر وہ لوگ تعلیم و تربیت، صحیح و سالم اور پر رونق معاشرہ کی اہمیت سے بے خبر ہیں، ان لوگوں کا گمان ہے کہ مردو عورت مغربی ممالک کی طرح اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لئے نکل پڑیں اور اپنے بچوں کو شیر خوار گاہوں میں چھوڑ دیں، یا کمرہ میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے اور ان کو اسی زمانہ سے قید کی سختی کا مزا چکھادیں۔

وہ لوگ اس چیز سے غافل ہیں کہ اس طرح بچوں کی شخصیت اور اہمیت درہم و برہم ہوجاتی ہے، بچوں میں انسانی محبت پیدا نہیں ہوتی،جس سے معاشرہ کو خطرہ در پیش ہوگا۔

۲ ۔ پردہ کے مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پردہ کے لئے برقع یا چادر کے ساتھ اجتماعی کاموں کو انجام نہیں دیا جاسکتا خصوصاً آج جبکہ ماڈرن گاڑیوں کا دور ہے، ایک پردہ دار عورت اپنے کو سنبھالے یا اپنی چادر کو ، یا اپنے بچہ کو یا اپنے کام میں مشغول رہے؟!۔

لیکن یہ اعتراض کرنے والے اس بات سے غافل ہیں کہ حجاب ہمیشہ برقع یاچادر کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حجاب کے معنی عورت کا لباس ہے اگر چادر سے پردہ ہوسکتا ہو تو بہتر ہے ورنہ اگر امکان نہیں ہے تو صرف اسی لباس پر اکتفا کرے (یعنی صرف اسکاف کے ذریعہ اپنے سر کے بال اور گردن وغیرہ کو چھپائے رکھیں)

ہمارے دیہی علاقوں کی عورتوں نے زراعتی کاموں میں اپنا پردہ با قی رکھتے ہو ئے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ ایک بستی کی رہنے والی عورت اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے بہت سے اہم کام بلکہ مردوں سے بہتر کام کرسکتی ہیں، اور ان کا حجاب ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتا۔

۳ ۔ ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے مرد اور عورت میں ایک طرح سے فاصلہ ہوجاتا ہے جس سے مردوں میں دیکھنے کی طمع بھڑکتی ہے، اور ان کے جذبات مزید شعلہ ور ہوتے ہیں کیونکہ ”الإنسَانُ حَرِیصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ“!( جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ہے اس کی طرف مزید دوڑتا ہے) اس اعتراض کا جواب یا صحیح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ آج کے معاشرہ کا شاہ کے زمانہ سے موازنہ کیا جائے آج ہر ادارہ میں پردہ حکم فرما ہے، اور شاہ کے زمانہ میں عورتوں کو پردہ کرنے سے روکا جاتا تھا۔

اس زمانہ میں ہر گلی کوچہ میں فحاشی کے اڈے تھے، گھروں میں بہت ہی عجیب و غر یب ماحول پایا جاتا تھا، طلاق کی کثرت تھی ناجائز اولاد کی تعداد زیادہ تھی، وغیرہ وغیرہ۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اب یہ تمام چیزیں بالکل ختم ہوگئی ہیں لیکن بے شک اس میں بہت کمی واقع ہوئی ہے، ہمارے معاشرہ میں بہت سدھار آیا ہے اور اگر فضل خدا شامل حال رہا اور یہی حالات باقی رہے اور دوسری مشکلات بر طرف ہو گئی تو ہمارا معاشرہ اس برائی سے بالکل پاک ہوجائے گا اور عورت کی اہمیت اجاگر ہوتی جائے گی۔(۱)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۴۴۲

۸۰ ۔ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر کیوں ہے؟

اگرچہ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر ہے ، لیکن اگر غور و فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے دو برابر ہے! اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حمایت کی ہے۔

وضاحت: اسلام نے مرد کے کاندھوں پر ایسی ذمہ داری رکھی ہے جس سے اس کی در آمد کا آدھا حصہ عورتوں پر خرچ ہوتا ہے، جبکہ عورتوں کے ذمہ کوئی خرچ نہیں ہے،چنا نچہ ایک شوہر پر واجب ہے کہ اپنی زوجہ کو ؛ مکان، لباس، کھانا اور دوسری چیزوں کا خرچ ادا کرے، اور اپنے بچوں کا خرچ بھی اسی کی گردن پر ہے، جبکہ عورتوں پر کسی طرح کا کوئی خرچ نہیں ہے یہاں تک کہ اپنا ذاتی خرچ بھی اس کے ذمہ نہیں ہے، لہٰذا ایک عورت میراث سے اپنا پورا حصہ بچا کر بینک میں رکھ سکتی ہے، جبکہ مرد اپنے حصہ کو بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مرد کی آمدنی کا آدھا حصہ اہل و عیال پر خرچ ہوگا، اور آدھا اس کے لئے باقی رہے گا، جبکہ عورت کا حصہ اسی طرح محفوظ رہے گا۔

یہ مسئلہ وا ضح ہو نے کے لئے اس مثال پر توجہ کریں: فرض کریں کہ پوری دنیا کا مال و دولت ۳۰ / ارب روپیہ ہے، جو میراث کے عنوان سے مردووں اور عورتوں میں تقسیم ہونا ہے، تو اس میں ۲۰/ ارب مردوں کا اور ۱۰/ ارب عورتوں کا حصہ ہوگا، لیکن عورتیں عام طور پر شادی کرتی ہیں اور ان کی زندگی کا خرچ مردوں کے ذمہ ہوتا ہے، تو اس صورت میں عورتیں اپنے ۱۰/ ارب کو بینک میں جمع کر سکتی ہیں، اور عملی طور پر مردوں کے حصہ میں شریک ہوتی ہیں، کیونکہ خود ان پر اور بچوں پر بھی مرد ہی کا حصہ خرچ ہوگا۔ اس بنا پر حقیقت میں مردوں کا آدھا حصہ یعنی ۱۰/ ارب عورتوں پر خرچ ہوگا، اور وہ دس ارب جو ان کے پاس محفوظ ہے سب ملاکر ۲۰/ ارب (یعنی دو تہائی) عو رتوں کے اختیار میں ہوگا، جبکہ عملی طور پر مردوں کے خرچ کے لئے صرف دس ارب ہی باقی رہے گا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں کا حقیقی خرچ اور فائدہ کے لحاظ سے مردوں کے دو برابر ہے، اور یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ ان کے یہاں کاروبار کرنے کی قدرت کم پائی جاتی ہے، اور یہ ایک طرح سے منطقی اور عادلانہ حمایت ہے جس پر اسلام نے عورتوں کے لئے توجہ دی ہے، حقیقت میں ان کا حصہ زیادہ رکھا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر ان کا حصہ مردوں سے آدھا رکھا ہے۔

اسلامی روایات کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ سوال پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے لوگوں کے ذہن میں موجود تھا جس کی بنا پر دینی رہبروں سے یہ سوال ہوتا رہا ہے، اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے اس کا جواب دیا گیا ہے جن میں سے اکثر کا مضمون ایک ہی ہے، اور وہ جواب یہ ہے: ”خداوندعالم نے زندگی کا خرچ اور مہر مرد کے ذمہ رکھا ہے، اسی وجہ سے ان کا حصہ زیادہ قرار دیا ہے“۔

کتاب ”معانی الاخبار“ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”میراث میں عورتوں کا حصہ مردوں کے حصہ سے آدھا اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ عورت جب شادی کرتی ہے تو وہ مہر لیتی ہے اور مرد دیتا ہے، اس کے علاوہ بیوی کا خرچ شوہر پر ہے، جبکہ عورت خود اپنی اور شوہر کی زندگی کے خرچ کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نہیں رکھتی“۔(۱)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۲۹۰