110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131722
ڈاؤنلوڈ: 4518

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131722 / ڈاؤنلوڈ: 4518
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۸۱ ۔ فلسفہ متعہ کیا ہے؟

یہ ایک عام اور کلی قانون ہے کہ اگر انسان کی طبیعی خواہشات صحیح طریقہ سے پوری نہ ہوں تو پھر اس کو پورا کرنے کے لئے غلط راستہ اپنانا پڑتا ہے، کیونکہ اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طبیعی خواہشات کا گلا نہیں گھوٹا جاسکتا ، اور اگر بالفرض ایسا کربھی لیا جائے تو ایسا کام عقلی نہیں ہے، کیونکہ یہ کام ایک طرح سے قانونِ خلقت سے جنگ ہے۔

اس بنا پر صحیح راستہ یہ ہے کہ اس کو معقول طریقہ سے پورا کیا جائے اور اس سے زندگی بہتربنانے کے لئے فائدہ اٹھایا جائے۔

اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جنسی خواہش انسان کی بہت بڑی خواہش ہوتی ہے، یہاں تک کہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جنسی خواہش ہی انسان کی اصل خواہش ہوتی ہے اور باقی دوسری خواہشات کی بازگشت اسی طرف ہوتی ہیں۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے مواقع ایسے ہیں جن میں انسان خاص عمر میں شادی نہیں کرسکتا، یا شادی شدہ انسان طولانی سفر میں یہ جنسی خواہش پوری نہیں کرسکتا۔

یہ موضوع خصوصاً ہمارے زمانہ میں تعلیم کی مدت طولانی ہونے کے سبب اور بعض دیگرمسائل اور مشکلات کی بنا پر شادی دیر سے ہوتی ہے، اور بہت ہی کم نوجوان ایسے ہیں جو جوانی کے شروع اور اس خواہش کے شباب کے وقت شادی کرسکتے ہیں، لہٰذا یہ مسئلہ بہت مشکل بن گیا ہے۔ اس موقع پر کیا کیا جائے؟ کیاایسے مواقع پر لوگوں کی اس خواہش کا (راہبوں کی طرح) گلا گھوٹ دیا جائے ؟ یا یہ کہ ان کو جنسی آزادی دے دی جائے اور عصر حاضر کی شرمناک حالت کو ان کے لئے جائز سمجھ لیا جائے؟

یاایک تیسرا راستہ اپنایا جائے جس میں نہ شادی جیسی مشکلات ہوں اور نہ ہی جنسی آزادی؟

المختصر: ”دائمی ازدواج“ (شادی) نہ گزشتہ زمانہ میں تمام لوگوں کی اس خواہش کا جواب بن سکتی تھی اور نہ آج، اور ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے دو راستے نکلتے ہیں، یا ”فحاشی“ کو جائز مان لیں، (جیسا کہ مغربی ممالک میں آج کل رسمی طور پر صحیح مانا جارہا ہے) یا ”وقتی ازواج“ (یعنی متعہ)کوقبول کریں، معلوم نہیں ہے جو لوگ متعہ کے مخالف ہیں انھوں نے اس سوال کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ہے؟!

متعہ کا مسئلہ نہ تو شادی جیسی مشکلات رکھتا ہے کہ انسان کو اقتصادی یا تعلیمی مسائل اجازت نہیں دیتے کہ فوراً شادی کرلے اور نہ ہی اس میںفحاشی کے درد ناک حادثات پیش آتے ہیں۔

متعہ پر ہونے والے اعتراضات

ہم یہاں متعہ کے سلسلہ میں کئے گئے کچھ اعتراضات کا مختصر جواب پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ کبھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ ”متعہ“ اور ”فحاشی“ میں کیا فرق ہے؟ دونوں ایک خاص مَبلَغ کے عوض”جسم فروشی“ ہی توہیں، در اصل یہ تو فحاشی اور جنس بازی کے لئے ایک نقاب ہے ، صرف ان دونوں میں چند صیغوں کا فرق ہے!!۔

جواب: ان لو گوں کے اعتراض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ متعہ کے سلسلہ میں معلومات نہیں رکھتے، کیونکہ متعہ صرف دو جملہ کہنے سے تمام نہیں ہوتابلکہ بعض قوانین، شادی کی طرح ہوتے ہیں، یعنی ایسی عورت متعہ کی مدت میں صرف اسی مرد سے مخصوص ہے، اور مدت تمام ہونے کے بعد عدہ رکھنا ضروری ہے یعنی کم سے کم ۴۵ دن تک کسی دوسرے سے شادی یا متعہ نہیں کرسکتی، تاکہ اگر پہلے شوہر سے حاملہ ہوگئی ہے توواضح ہوجائے، یہاں تک کہ اگر مانعِ حمل چیزیں استعمال کی ہوں تو اس مدت کی رعایت کرنا واجب ہے، اور اگر اس مرد سے حاملہ ہوگئی ہے تو یہ بچہ اس مرد کا ہوگا اور اولاد کے تمام مسائل اس پر نافذ ہوں گے، جبکہ فحاشی میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے، پس معلوم یہ ہوا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔

اگرچہ (میاں بیوی کے درمیان) میراث ، خرچ اور دوسرے احکام میں شادی اور متعہ میں فرق پایا جاتا ہے،(۱) لیکن اس فرق کی وجہ سے متعہ کو فحاشی کی صف میں قرار نہیں دیا جاسکتا، بہر حال یہ بھی شادی کی ایک قسم ہے اور شادی کے متعدد قوانین اس پر نافذ ہوتے ہیں۔

۲ ۔ متعہ پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس قانون کے پیچھے بہت سے عیاش لوگ غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور متعہ کی آڑ میں ہر طرح کی فحاشی کرسکتے ہیں، جبکہ اس کی اجازت نہ ہونے کی صورت میں بعض شریف انسان متعہ سے دور رہتے ہیں، اور شریف خواتین اس سے پرہیز کرتی ہیں۔

جواب: دنیا میں کس قانون سے غلط فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے؟ کیا ہر فطری قانون کو اس لئے ختم کردیا جائے کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جارہا ہے! ہمیں غلط فائدہ اٹھانے والوں کو روکنا چاہئے۔

مثال کے طور پر اگر بہت سے لوگ حج کے موقع سے غلط فائدہ اٹھانا چاہیں (جیسا کہ دیکھا گیا ہے) اور اس مبارک سفر میں منشیات کی تجارت کے لئے جائیں، تو کیا اس صورت میں لوگوں کو حج سے روکا جائے یا غلط فائدہ اٹھانے والوں کو روکا جائے؟!

(۱) اسلام کا یہ مسئلہ ہے کہ متعہ سے پیدا ہونے والے بچوں کے احکام شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کی طرح ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتاور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج شریف انسان اس اسلامی قانون سے پرہیز کرتے ہیں، تو یہ قانون کا نقص نہیں ہے بلکہ قانون پر عمل کرنے والوں یا غلط فائدہ اٹھانے والوں کا نقص ہے، اگر آج ہمارے معاشرہ میں صحیح طریقہ پر متعہ کا رواج ہوجائے اور اسلامی حکومت خاص قوانین کے تحت اس سلسلہ میںصحیح منصوبہ بندی کرے ، تو اس صورت میں غلط فائدہ اٹھانے والوں کی روک تھام ہوسکتی ہے (اور ضرورت کے وقت ) شریف لوگ بھی اس سے کراہت نہیں کریں گے۔

۳ ۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں: متعہ کی وجہ سے معاشرہ میں (ناجائز بچوں کی طرح) بے سرپرست بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔

جواب: ہماری مذکورہ گفتگو مکمل طور پر اس اعتراض کا جواب ہے، کیونکہ ناجائز بچے قانونی لحاظ سے نہ باپ سے ملحق ہیں اور نہ ماں سے، جبکہ متعہ کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچوں میں میراث اور اجتماعی حقوق کے لحاظ سے شادی سے پیدا ہونے والے بچوں سے کوئی فرق نہیں ہے، گویا اس حقیقت پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ اعتراض کیا گیا ہے۔

”راسل“ اور ”وقتی شادی“

آخر کلام میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی یاد دہانی کرادی جائے کہ مشہور و معروف انگریزی دانشور ”برٹرانڈ راسل “ کتاب ”زنا شوئی و اخلاق“ میں ”آزمائشی شادی“ کے عنوان سے اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

وہ ایک جج بنام ” بن بی لینڈسی“ کی تجویز ”دوستانہ شادی“ یا ”آزمائشی شادی“ کا ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے:

جج صاحب موصوف کی تجویز کے مطابق جوانوں کو یہ اختیار ملنا چاہئے کہ ایک نئی قسم کی شادی کرسکیں جو عام شادی (دائمی نکاح) سے تین امور میں مختلف ہو:

الف: طرفین کا مقصد صاحب اولاد ہونا نہ ہو، اس سلسلہ میں ضروری ہے کہ انھیں حمل روکنے کے طریقہ سکھائے جائیں۔

ب۔ ان کی جدائی آسانی کے ساتھ ہوسکے۔

ج۔ طلاق کے بعد عورت کسی قسم کا نان و نفقہ کا حق نہ رکھتی ہو۔

راسل جج لینڈسی کا مقصد بیان کرنے کے بعد کہتا ہے: ”میرا خیال ہے کہ اس قسم کی شادی کو قانونی حیثیت دے دی جائے تو بہت سے نوجوان خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم وقتی نکاح پر تیار ہوجائیں گے اور وقتی مشترک زندگی میں قدم رکھیں گے، ایسی زندگی سے جو ان کی آزادی کا سبب بنے، تو اس طرح معاشرہ کی بہت سی خرابیوں، لڑائی جھگڑوں خصوصاً جنسی بے راہ روی سے نجات مل جائے گی۔(۱)

بہر حال جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ وقتی شادی کے بارے میں مذکورہ تجویز کس لحاظ سے اسلامی حکم کی طرح ہے، لیکن جو شرائط اور خصوصیات اسلام نے وقتی شادی کے لئے تجویز کی ہیں وہ کئی لحاظ سے زیادہ واضح اور مکمل ہیں، اسلامی وقتی شادی میں اولاد نہ ہونے کو ممنوع نہیں کیا گیا ہے اور فریقین کا ایک دوسرے سے جدا ہونا بھی آسان ہے، جدائی کے بعد نان و نفقہ بھی نہیں ہے۔(۲)

متعہ کی تاریخی حیثیت

علمائے اسلام کا اتفاق ہے بلکہ دین کے ضروری احکام میں سے ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں ”متعہ“ تھا، (اور سورہ نساء کی آیہ شریفہ( فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ اٴُجُورَهُنَّ فَرِیضَة ) (۳) متعہ کے جواز پر دلیل ہے ، کیونکہ مخالف اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ متعہ کا جواز سنت پیغمبر سے ثابت ہے) یہاں تک صدر اسلام میں مسلمان اس پر عمل کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عمر کا یہ مشہور و معروف قول مختلف کتابوں میں ملتا ہے :”مُتْعَتَانِ کَانَتَا عَلَی عَهْدِ رَسُولِ الله وَاٴنَا اُحرِّمُهُمَا وَ مُعَاقِب عَلَیْهِمَا: مُتعَةُ النِّسَاءِ وَ مُتْعَةُ الحجِّ(۴) ”دو متعہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں رائج تھے اور میں ان کو حرام قرار دیتا ہوں، اورانجام دینے والوں کو سزا دوں گا، متعة النساء اور حج تمتع (جو حج کی ایک خاص قسم ہے)، چنانچہ حضرت عمر کا یہ قول اس بات کی واضح دلیل ہے کہ متعہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں ہوتا تھا، لیکن اس حکم کے مخالف کہتے ہیں کہ یہ حکم بعد میں نسخ ہوگیا ہے اور حرام قرار دیا گیا ہے۔

لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ جن روایات کو ”حکم متعہ کے نسخ“ کے لئے دلیل قرار دیا جاتا ہے ان میں بہت اختلا ف پایا جا تا ہے، چنانچہ بعض روایات کہتی ہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) نے اس حکم کو نسخ کیا ہے، لہٰذا اس حکم کی ناسخ خود پیغمبر اکرم (ص) کی سنت اور حدیث ہے، بعض کہتی ہیں کہ اس حکم کی ناسخ سورہ طلاق کی درج ذیل آیت ہے:

( إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاٴَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللهَ رَبَّکُمْ ) (۵)

”جب تم لو گ عورتوں کو طلاق دو تو انھیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو“۔

حالانکہ اس آیہ شریفہ کا محل بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس آیت میں طلاق کی گفتگو ہے، جبکہ متعہ میں طلاق نہیں ہوتی متعہ میں مدت ختم ہونے سے جدائی ہوجاتی ہے۔

یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں متعہ قطعی طور پر پایا جاتا تھا، اور اس کے نسخ ہونے پر کوئی محکم دلیل ہمارے پاس نہیں ہے، لہٰذا علم اصول کے قانون کے مطابق اس حکم کے باقی رہنے پر حکم کیا جائے گا، (جسے علم اصول کی اصطلاح میں استصحاب کہا جاتا ہے)۔

حضرت عمر سے منقول جملہ بھی اس حقیقت پر واضح دلیل ہے کہ متعہ کا حکم پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں نسخ نہیں ہوا تھا۔

اور یہ بات بھی واضح ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے علاوہ کوئی بھی شخص احکام کو نسخ کرنے کا حق نہیں رکھتا، اور صرف آنحضرت (ص) کی ذات مبارک ہی حکم خدا کے ذریعہ بعض احکام کو نسخ کرسکتی ہے، پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد باب نسخ بالکل بند ہوچکا ہے ، اور اگر کوئی اپنے اجتہاد کے ذریعہ بعض احکام کو منسوخ کرے تو پھر اس دائمی شریعت میں کوئی چیز باقی نہیں رہے گی ، اور اصولی طور پر پیغمبر اکرم (ص) کی گفتگو کے مقابل اجتہاد کرے تو یہ ”اجتہاد مقابلِ نص“ ہوگا جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ صحیح ترمذی جو اہل سنت کی مشہور صحیح ترین کتابوں میں سے ہے،اور”دار قطنی“(۶۶) میں تحریر ہے: ”ایک شامی شخص نے عبد اللہ بن عمر سے”حج تمتع“ کے بارے میں سوال کیا توعبد اللہ بن عمر نے کہا: یہ کام جائز اور بہتر ہے ، اس شامی نے کہا: تمہارے باپ نے اس کو ممنوع قراردیا ہے، تو عبداللہ بن عمر بہت ناراض ہوئے اور کہا: اگر میرا باپ کسی کام سے نہی کرے، جبکہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس کی اجازت دی ہو تو کیا تم لوگ سنت پیغمبر کو چھوڑ کر میرے باپ کی پیروی کروگے؟ یہاں سے چلے جاؤ۔(۷)

متعہ کے سلسلہ میں اسی طرح کی روایت”عبد اللہ بن عمر “ سے صحیح ترمذی میں بھی نقل ہوئی ہے، ۸)

اور ”محاضرات“ راغب سے نقل ہوا ہے کہ ایک مسلمان نے متعہ کیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ اس کام کے جوازکا حکم کس سے حاصل کیا ہے؟ تو اس نے کہا: ”عمر“ سے! لوگوں نے تعجب کے ساتھ سوال کیا: یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جبکہ خود عمر نے اس کام سے روکا ہے یہاں تک کہ انجام دینے والے کے لئے سزا کا وعدہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا: ٹھیک ہے، میں بھی تو اسی وجہ سے کہتا ہوں، کیونکہ عمر نے کہا: پیغمبر اکرم (ص)نے اس کو حلال کیا تھالیکن میں اس کو حرام کرتا ہوں، میں نے اس کا جواز پیغمبر اکرم (ص) سے لیا، لیکن اس کی حرمت کسی سے قبول نہیں کروں گا!(۹)

یہاں پر اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ اس حکم کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی متضاد بیانات رکھتے ہیں اور تناقض اور تضاد گوئی کے شکار نظر آتے ہیں:

اہل سنت کی معتبر کتابوں میں متعدد روایات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ یہ حکم پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں ہرگز منسوخ نہیں ہوا تھا، بلکہ عمر نے اس کو ممنو ع قرار دیاہے، لہٰذا اس حکم کو

(۱) ”متعہ حج“ سے مراد جس کو عمر نے حرام قرار دیا تھا یہ ہے کہ اس حج تمتع سے قطع نظر کی جائے ، حج تمتع یہ ہے کہ انسان حج کے لئے جاتا ہے تو پہلے محرم ہوتا ہے اور ”عمرہ“ انجام دینے کے بعد احرام سے آزاد ہوجاتا ہے(اور اس کے لئے حالت احرام کی حرام چیزیں یہاں تک کہ ہمبستری بھی جائز ہوجاتی ہے) اور اس کے بعد دوبارہ حج کے دوسرے اعمال نویں ذی الحجہ کو انجام دیتا ہے، دور جاہلیت میں اس کام کو صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا اور تعجب کیا جاتا تھا کہ جو شخص ایام حج میں مکہ معظمہ میں وارد ہوا ہو اور حج انجام دینے سے پہلے عمرہ بجالائے، اور اپنا احرام کھول دے، لیکن اسلام نے واضح طور پر اس بات کی اجازت دیدی، اور سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۶ میں اس موضوع کی وضاحت فرمادی

منسوخ ماننے والی ان تمام روایات کا جواب دیں، ان روایات کی تعداد ۲۴ ہے، جن کو علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی نامور کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی جلد میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے،ہم یہاں پر ان میں سے دو نمونے پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا: ہم پیغمبر اکرم کے زمانہ میں بہت آسانی سے متعہ کرلیتے تھے، اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ عمر نے ”عمر بن حریث“ کے مسئلہ میں اس کام سے بالکل روک دیا۔(۶۸)

۲ ۔ دوسری حدیث کتاب ”موطا بن مالک“، ”سنن کبریٰ بیہقی“ اور ”عروہ بن زبیر“ سے نقل ہوئی ہے کہ ”خولہ بن حکیم“ نامی عورت حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں دربار میں حاضر ہوئی اور اس نے خبر دی کہ مسلمانوں میں ایک شخص ”ربیعہ بن امیہ“ نامی نے متعہ کیا ہے، تو یہ سن کر حضرت عمر نے کہا: اگر پہلے سے اس کام کی نہی کی ہوتی تو اس کو سنگسار کردیتا ،(لیکن آج سے اس کام پر پابندی لگاتا ہوں!)(۶۹)

کتاب بدایة المجتہد، تالیف ابن رشد اندلسی میں بھی تحریر ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں: ”پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اور ”ابوبکر“ کی خلافت اور”عمر“ کی آدھی خلافت تک متعہ پر عمل ہو تا تھا اس کے بعد عمر نے منع کردیا“۔(۱۰)

دوسری مشکل یہ ہے کہ اس حکم کے منسوخ ہونے کی حکایت کرنے والی روایات میں ضد ونقیض باتیں ہیں، بعض کہتی ہیں: یہ حکم جنگ خیبر میں منسوخ ہوا ہے، بعض کہتی ہیں کہ ”روز فتح مکہ“

منسوخ ہوا اور بعض کہتی ہیں جنگ تبوک میں، نیز بعض کہتی ہیں کہ جنگ اوطاس میں منسوخ ہوا، لہٰذا ان تمام چیزوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام روایات جعلی ہیں جن میں اس قدر تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتا ہے۔

(قارئین کرام!) ہماری گفتگو سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ صاحب تفسیر المنار (دور حاضر کے سنی عالم ) کی گفتگو تعصب اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے، جیسا کہ موصوف کہتے ہیں: ”ہم نے پہلے تفسیر المنارکی تیسری اور چوتھی جلد میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ عمر نے متعہ سے منع کیا ہے لیکن بعد میں ایسی روایات ملی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ کا حکم خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں منسوخ ہوگیا تھا نہ کہ زمانہ عمر میں منسوخ ہوا، لہٰذا اپنی گزشتہ بات کی اصلاح کرتے ہیں اور اس سے استغفار کرتے ہیں“۔(۱۰) یہ تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟! کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں متعہ کا حکم منسوخ ہونے کی حکایت کرنے والی ضد و نقیض روایات کے مقابل ایسی روایات موجود ہیں جو اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ یہ حکم حضرت عمر کے زمانہ میں بھی تھا، لہٰذا نہ تو معافی کی گنجائش ہے اور نہ توبہ و استغفار کی ، اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس معاصر کا پہلا نظریہ حقیقت ہے اور دوسرے نظریہ میں حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے!

یہ بات یونہی ظاہر ہے کہ نہ تو ”عمر“ اور نہ کوئی دوسرا شخص یہاں تک ائمہ معصومین علیہم السلام جو کہ پیغمبر اکرم (ص) کے حقیقی جانشین ہیں، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں موجود احکام کو منسوخ کرے، اور اصولی طور پر آنحضرت (ص) کی وفات کے بعد اور وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد نسخ معنی نہیں رکھتا، اور جیسا کہ بعض لوگوں نے ”کلامِ عمر“ کو اجتہاد پر حمل کیا ہے کہ یہ حضرت عمر کا اجتہاد ہے، یہ بھی تعجب کا مقام ہے کیونکہ ”نص“ کے مقابلہ میں ”اجتہاد“ ممکن ہی نہیں۔(۱۲)

____________________

(۱) کتا ب زنا شوئی و اخلاق صفحہ ۱۸۹و ۱۹۰

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۴۱

۳)سورہ نساء ، آیت ۲۴ ”جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت بطور فریضہ دے دے“۔

(۴) کنز العرفان ، جلد دوم، صفحہ ۱۵۸، اور تفسیر قرطبی ، تفسیر طبری میں مذکورہ جملہ کے مانند تحریر نقل ہوئی ہے، نیز سنن بیہقی ، جلد ۷ کتاب نکاح میں بھی وہ جملہ ذکر ہوا ہے

(۵) سورہ طلاق ، پہلی آیت

(۶)تفسیر قرطبی ، جلد ۲ ، صفحہ ۷۶۲ ، سورہ بقرہ، آیت ۱۹۵ کے ذیل میں

(۷) الغدیر ، جلد ۶، صفحہ ۲۰۶

(۶۹)الغدیر ، جلد ۶، صفحہ ۲۱۰

(۸) بدایة المجتہد ،کتاب النکاح

(۹) شرح لمعہ ، جلد ۲ ،کتاب النکاح

(۱۰) کنز العرفان ، جلد دوم، صفحہ ۱۵۹(حاشیہ)

(۱۱)تفسیر المنار ، جلد ۵، صفحہ ۱۶ (۱۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۳۷

۸۲ ۔ عدّہ کا فلسفہ کیا ہے؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا :( وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ ) (۱) ”مطلقہ عورتیں تین حیض تک انتظار کر یں گی، (اور عدہ رکھیں گی)“۔

یہاں پر سوال یہ ہوتا ہے کہ اس اسلامی قانون کا فلسفہ کیا ہے؟

چونکہ طلاق کے ذریعہ معمولاً گھر اجڑنے لگتا ہے اور معاشرہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ایسا قانون پیش کیا ہے تاکہ آخری منزل تک طلاق سے روک تھام ہو سکے، ایک طرف تو ”اس کوجائز کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت“ قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف شادی بیاہ کے مسائل میں اختلاف کی صورت میں طرفین میں صلح و مصالحت کے اسباب فراہم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ حتی الامکان اس کام سے روک تھام ہو سکے۔

انہی قوانین میں سے طلاق میں تاخیر اور خود طلاق کو متزلزل کرنا ہے یعنی طلاق کے بعد عدہ کو واجب کیا ہے جس کی مدت تین ”طہر“ یعنی عورت کا تین مرتبہ خون حیض سے پاک ہونا۔

”عدّہ“ یا صلح و مصالحت اور واپس پلٹنے کا وسیلہ کبھی کبھی بعض وجوہات کی بنا پر انسان میں ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک چھوٹے سے اختلاف یا معمولی تنازع سے انتقام کی آگ بھڑک جاتی ہے اورعقل وجدان پر غالب آجاتی ہے۔

معمولاً گھریلو اختلاف اسی وجہ سے پیش آتے ہیں، لیکن اس کشمکش کے کچھ ہی بعد میاں بیوی ہوش میں آتے ہیں اور پشیمان ہوجاتے ہیں، خصوصاً جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے پریشان ہیں تو مختلف پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔اس موقع پر مذکورہ آیت کہتی ہے: عورتیں ایک مدت عدّہ رکھیں تاکہ اس مدت میں غصہ کی جلد ختم ہوجانے والی لہریں گزر جائیں اور ان کی زندگی میں دشمنی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں۔

خصوصاً اسلام نے اس عدّہ کی مدت میں عورت کو حکم دیا ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلے، جس کے پیش نظر اس عورت کوغور فکر کا مو قع ملتا ہے جو میاں بیوی میں تعلقات بہتر ہونے کے لئے ایک موثر قدم ہے۔لہٰذا سورہ طلاق کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں:( لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُیُوتِهِن لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ اٴَمْرًا ) ”ان کو گھروں سے نہ نکالو تم کیا جانو شاید خداوندعالم کوئی ایسا راستہ نکال دے کہ جس سے آپس میں صلح و مصالحت ہوجائے“۔ اکثر اوقات طلاق سے پہلے کے خوشگوار لحظات ، محبت اور پیار کے گزرے ہوئے لمحات کو یاد کرلینا کافی ہوجاتا ہے اور پھیکی پڑجانے والی محبت میں نمک پڑ جاتا ہے۔

عدّہ؛ نسل کی حفاظت کا وسیلہ

عدّہ کا دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ عدہ کے ذریعہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ طلاق شدہ عورت حاملہ ہے یا نہیں؟ یہ صحیح ہے کہ ایک دفعہ حیض دیکھنا حاملہ نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ عورت حاملہ ہونے کی صورت میں بھی شروع کے چند ماہ تک حیض دیکھتی ہے، لہٰذا اس موضوع کی مکمل رعایت کا حکم دیا گیا ہے کہ عورت تین دفعہ تک حیض دیکھے اور پاک ہوجائے، تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ اپنے گزشتہ شوہر سے حاملہ نہیں ہے، پھر اس کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔(۲)

____________________

(۱)سورہ بقرہ ، آیت۲۲۸

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۱۰۶

۸۳ ۔ غنا؛ کیا ہے اور اس کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

غنا (گانا) کی حرمت میں کوئی خاص مشکل نہیں ہے ، صرف موضوعِ غنا کو معین کرنا مشکل ہے۔

آیا ہر خوش آواز اور مترنم لہجہ غنا ہے؟

مسلّم طور پر ایسا نہیں ہے، کیونکہ اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے اور مسلمین کی سیرت اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ قرآن اور اذان وغیرہ کو بہترین آواز اور خوش لہجہ میں پڑھا جائے۔

کیا ہر وہ آواز جس میں ”ترجیع“ (گٹگری) یعنی آواز کا اتار چڑھاؤ پایا جاتا ہو، وہ غنا ہے؟ یہ بھی ثابت نہیں ہے۔

اس سلسلہ میں شیعہ اور اہل سنت کے فقہا کے بیان سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ غنا، طرب انگیز آواز اور لہو باطل ہے۔

واضح الفاظ میں یوں کہا جائے: غنا اس آہنگ اور طرز کو کہا جاتا ہے جو فسق و فجور اور گناہگاروں، عیاشوں اور بدکاروں کی محفلوں سے مطابقت رکھتا ہو۔

یا اس کے لئے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ غنا اس آواز اور طرز کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کی شہوانی طاقت ہیجان میں آجائے، اور انسان اس حال میں احساس کرے کہ اگر اس طرز اور آواز کے ساتھ شراب اور جنسی لذت بھی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا!۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ کبھی ایک ”آہنگ“ اور ”طرز“ خود بھی غنا اور لہو و باطل ہوتا ہے اور اس کے الفاظ اور مفہوم بھی، اس لحاظ سے عاشقانہ فتنہ انگیز اشعار کو مطرب طرز میں پڑھا جاتا ہے، لیکن کبھی صرف آہنگ اور طرز غنا ہوتا ہے لیکن اشعار یا قرآنی آیات یا دعا اور مناجات کو ایسی طرز سے پڑھیں جو عیاشوں اور بدکاروں کی محفلوں سے مناسب ہے، لہٰذا یہ دونوں صورتیں حرام ہیں۔ (غور کیجئے )

اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ غنا کے سلسلہ میں دو معنی بیان کئے گئے ہیں: ”عام معنی“ ، ”خاص معنی“ ، معنی خاص وہی ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں یعنی شہوانی طاقت کو ہیجان میں لانے والی اور فسق و فجور کی محافل کے موافق طرز اور آواز ۔

لیکن عام معنی : ہر بہترین آواز کو غنا کہتے ہیں، لہٰذا جن حضرات نے غنا کے عام معنی کئے ہیں انھوں نے غنا کی دو قسمیں کی ہیں، ”حلال غنا “، ”حرام غنا “۔

حرام غنا سے مراد وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے اور حلال غنا سے ہر وہ دلکش اور بہترین آواز ہے جو مفسدہ انگیز نہ ہو اور محافل فسق و فجور سے مناسبت نہ رکھتی ہو۔

اس بنا پر غنا کی حرمت تقریباً اختلافی نہیں ہے، بلکہ اس کے معنی میں اختلاف ہے۔

اگرچہ ”غنا“ کے کچھ مشکوک موارد بھی ہیں (دوسرے تمام مفاہیم کی طرح) جس میں انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ فلاں طرز یا فلاں آواز فسق و فجور کی محفلوں سے مناسبت رکھتی ہے یا نہیں؟ اس صورت میں یہ آواز ”اصل برائت“(۱) کے تحت جواز کا حکم رکھتی ہے (البتہ غنا کی مذکورہ تعریف کے پیش نظر اس کے مفہوم سے کافی معلومات کے بعد)

(۱) یہ قاعدہ علم اصول میں ثابت ہے کہ اگر کسی کام کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو تو اصل برائت جاری کی جائے گی یعنی وہ کام جائز ہے۔ (مترجم)

یہیں سے یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ وہ رزمیہ ترانہ جو میدان جنگ اور ورزش کے وقت مخصوص آہنگ و آواز کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اس کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

البتہ غنا کے سلسلہ میں دوسری بحثیں بھی پائی جاتی ہیں جیسے غنا سے کیا کیا مستثنیٰ ہیں؟ اس سلسلہ میں کہ کس نے کس کو قبول کیا ہے اور کس نے کس کا انکار کیا ہے، فقہی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔

یہاں پر جس آخری بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ اوپر بیان کیا ہے وہ پڑھنے سے متعلق ہے، لیکن موسیقی کے آلات اور ساز و سامان کی حرمت کے بارے میں دوسری بحث ہے جس کا ہماری بحث سے تعلق نہیں ہے۔

حرمت غنا کا فلسفہ

مذکورہ شرائط کے ساتھ ”غنا“ کے معنی اور مفہوم میں غور و فکر کرنے سے غنا کی حرمت کا فلسفہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔

ہم یہاں پر ایک مختصر تحقیق کی بنا پر اس کے مفاسد اور نقصانات کو بیان کرتے ہیں:

الف: برائیوں کی طرف رغبت

تجربات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں (اور تجربات بہترین شاہد اور گواہ ہوتے ہیں) کہ غنا (یعنی ناچ گانے) سے متاثر ہونے والے افراد تقویٰ اور پرہیزگاری کی راہ کو ترک کرکے جنسی بے راہ روی کے اسیر ہوگئے ہیں۔

غنا کی محفلیں عام طور پر فساد کے مرکز ہوتی ہیں، یعنی اکثر گناہوں اور بدکاریوں کی جڑ یہی غنا اور ناچ گانا ہوتا ہے۔

بیرونی جرائد کی بعض رپورٹوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ ایک پروگرام میں لڑکے اور لڑکیاں شریک تھیں وہاں ناچ گانے کا ایک مخصوص ”شو“ ہوا جس کی بنا پر لڑکوں اور لڑکیوں میں اس قدر ہیجان پیدا ہوا کہ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگئے اور ایسے واقعات پیش آئے جن کے ذکر کرنے سے قلم کو شرم آتی ہے۔

تفسیر ”روح المعانی“ میں ”بنی امیہ“ کے ایک عہدہ دار کے حوالہ سے نقل ہوا ہے جو کہتا تھا: غنا اور ناچ گانے سے پرہیز کرو، کیونکہ اس سے حیا کم ہوتی ہے، شہوت میں اضافہ ہوتا ہے، انسان کی شخصیت پامال ہوتی ہے، اور (یہ ناچ گانا) شراب کا جانشین ہوتا ہے، کیونکہ ایسا شخص وہ سب کام کرتا ہے جو ایک مست انسان (شراب کے نشہ میں) انجام دیتا ہے۔(۱)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بھی ناچ گانے کے فسادات اور نقصانات سے واقف تھے۔اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی روایات میں بارہا بیان ہوا ہے کہ ناچ گانے کے ذریعہ انسان کے دل میں روحِ نفاق پرورش پاتی ہے، تو یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے، روح نفاق وہی گناہوں اور برائیوں سے آلودہ ہونا اور تقویٰ و پرہیزگاری سے دوری کا نام ہے۔

نیز اگر روایات میں بیان ہوا ہے کہ جس گھر میں غنا اور ناچ گانا ہوتا ہے اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے تو یہ بھی انھیں فسادات سے آلودگی کی وجہ سے ہے کیونکہ فرشتے پاک و پاکیزہ ہیں اور پاکیزگی کے طالب ہیں نیز آلودہ فضا سے بیزار ہیں۔

ب: یاد خدا سے غفلت

بعض اسلامی روایات میں ”غنا“ کے معنی میں ”لہو “ کا استعمال ہونے والا لفظ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان اتنا مست ہوجاتا ہے کہ یاد خداسے غافل ہوجاتا ہے۔

حضرت امام علی علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”کل ما الہی عن ذکر الله فہو من المیسر“(۱) (یاد خدا سے غافل کرنے والی (اور شہوت میں غرق کرنے والی) ہر چیز جوے کا حکم رکھتی ہے۔

ج۔ اعصاب کے لئے نقصان دہ آثار

غنا اور ناچ گانا نیز موسیقی، در اصل انسانی اعصاب کے نشہ کے عوامل میں سے ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ نشہ کبھی منھ کے ذریعہ انسان کے بدن میں پہنچتا ہے (جیسے شراب)

اور کبھی حس شامہ اور سونگھنے سے ہوتا ہے (جیسے ہیروئن)

اور کبھی انجکشن کے ذریعہ ہوتا ہے (جیسے مرفین)

اور کبھی حس سامعہ یعنی کانوں کے ذریعہ نشہ ہوتا ہے (جیسے غنا اور موسیقی)

اسی وجہ سے کبھی کبھی غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان بہت زیادہ مست ہوجاتا ہے، اگرچہ کبھی اس حد تک نہیں پہنچتا لیکن پھر بھی نشہ کا تھوڑا بہت اثر ہوتا ہے۔

اور اسی وجہ سے غنا میں نشہ کے بہت سے مفاسد موجود ہیں چاہے اس کا نشہ کم ہو یا زیادہ۔

” اگر مشہور موسیقی داں افراد کی زندگی پر دقیق توجہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی عمر میں نفسیاتی مشکلات میں گرفتار ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اعصاب جواب دے دیتے ہیں، اور بہت سے افراد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بعض لوگ اپنی عقل و شعور کھو بیٹھتے ہیں اور پاگل خانوں کے مہمان بن جاتے ہیں، بعض لوگ مفلوج اور ناتواں ہوجاتے ہیں، یہاں تک بعض لوگوں کا موسیقی کا پروگرام کرتے ہوئے بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا ہے اور وہ موقع پر ہی دم توڑ جاتے ہیں“۔(۲)

مختصر یہ کہ غنا اور موسیقی کے آثار جنون کی حد تک ، بلڈ پریشر کا بڑھنا اور دوسرے خطرناک آثار اس درجہ ہیں کہ اس کے بیان کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔

عصر حاضر میں ناگہانی اموات کے سلسلہ میں ہونے والے اعداد و شمار سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گزشتہ کی بنسبت اس زمانہ میں ناگہانی اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، جس کی مختلف وجوہات ہیں ان میں سے ایک وجہ یہی عالمی پیمانہ پر غنا اور موسیقی کی زیادتی ہے۔

د۔ غنا ،استعمار کا ایک حربہ عالمی پیمانہ پر استعمار ،عام لوگوں خصوصاً نسل جوان کی بیداری سے خوف زدہ ہے، اسی وجہ سے استعمار کے پاس اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی منصوبہ بندی ہے کہ جس سے مختلف قوموں کوجہالت اور غفلت میں رکھنے کے لئے غلط سرگرمیوں کو رائج کرے۔

عصر حاضر میں منشیات صرف تجارتی پہلو نہیں رکھتی، بلکہ ایک اہم سیاسی حربہ ہے یعنی استعمار کی ایک اہم سیاست ہے، فحاشی کے اڈّے، جوے خانے اور دوسری غلط سرگرمی، منجملہ غنا اور موسیقی کو وسیع پیمانہ پر رائج کرنا استعمار کا ایک اہم ترین حربہ ہے، تاکہ عام لوگوں کے افکار کو منحرف کردیں، اسی وجہ سے دنیا بھر کی ریڈیو سرویسوں میں زیادہ تر موسیقی ہوتی ہے، اسی طرح ٹیلی ویژن وغیرہ میں بھی موسیقی کی بھر مار ہے۔(۳)

____________________

(۱) تفسیر روح المعانی ، جلد ۲۱، صفحہ ۶۰

(۲) تاثیر موسیقی بر روان و اعصاب، صفحہ ۲۶

(۳)تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷ صفحہ ۲۲