110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب5%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۱۰ سوال اور جواب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140529 / ڈاؤنلوڈ: 6375
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

۱۱۰ سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

۸۴ ۔ زنا کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

۱ ۔ زنا کے ذریعہ خاندانی نظام درہم و برہم ہوجاتاہے، ماں باپ اوراولادکے درمےان رابطہ ختم ہوجاتاہے جبکہ یہ وہ رابطہ ہے جو نہ صرف معاشرے کی شناخت کا سبب ہے بلکہ خود اولاد کی نشو ونما کا موجب بھی ہے، یہی رابطہ ساری عمر محبت کے ستونوں کو قائم رکھتا ہے اور انہیں دوام بخشتاہے۔

المختصر : جس معاشرے میںغیر شرعی اور بے باپ کی او لاد زیادہ ہواس کے اجتماعی روابط سخت متزلزل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان روابط کی بنیاد خاندانی روابط ہی ہوتے ہیں۔

اس مسئلہ کی اہمیت سمجھنے کے لئے ایک لمحہ اس بات پر غور کرنا کافی ہے کہ اگر سارے انسانی معاشرے میں زنا جائز اور مباح ہوجائے اور شادی بیاہ کا قانون ختم کردیا جائے تو ان حالات میں غیر معین اور بے ٹھکانہ اولاد پیدا ہوگی، اس اولاد کو کسی کی مدد اور سر پرستی حاصل نہ ہوگی، اسے نہ پیدائش کے وقت کوئی پوچھے گا اور نہ بڑا ہونے کے بعد۔

اس سے قطع نظر برائیوں، سختیوں اور مشکلات میں محبت کی تاثیر تسلیم شدہ ہے جبکہ ایسی اولاد اس محبت سے بالکل محروم ہوجائے گی، اور انسانی معاشرہ پوری طرح تمام پہلوؤں سے حیوانی زندگی کی شکل اختیار کرلے گا۔

۲ ۔ یہ شرمناک اور قبیح عمل ہوس باز لوگوں کے درمیان طرح طرح کے جھگڑوں اور کشمکش کا باعث ہوگا، وہ واقعات جو بعض افراد نے بد نام محلوں اور غلط مراکز کی داخلی کیفیت کے بارے میں لکھے ہیں ان سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جنسی بے راہ روی بدترین جرائم کو جنم دیتی ہے۔

۳ ۔ یہ بات علم اور تجربہ نے ثابت کردی ہے کہ زنا طرح طرح کی بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتا ہے، چنانچہ اسی بنا پر اس کے بُرے نتائج کی روک تھا م کے لئے آج کے دور میں بہت سے اداروں کی بنا رکھی گئی ہے اور بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود اعداد وشمار نشاندہی کرتے ہیں بہت سے افراد اس راستہ میں اپنی صحت و سلامتی کھو بیٹھے ہیں۔

۴ ۔ اکثر اوقات یہ عمل اسقاط حمل، قتل ِ اولاد اور نسل کے قطع ہونے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ایسی عورتیں ایسی اولاد کی نگرانی کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتیں، اصولاً اولاد ان کے لئے ایسا منحوس عمل جاری رکھنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے، لہٰذا وہ ہمیشہ اسے پہلے سے ختم کردینے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ فرضیہ بالکل خیال خام ہے کہ ایسی اولاد حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں میں رکھی جاسکتی ہے کیو نکہ اس فرض کی ناکامی عملی طور پر واضح ہوچکی ہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ اس صورت میں بن باپ کی اولاد کی پرورش کس قدر مشکلات کا باعث ہے، اور نتیجتاً بہت ہی نامطلوب اور غیر پسندیدہ ہے، ایسی اولاد سنگدل، مجرم، بے حیثیت اور ہر چیز سے عاری ہوتی ہے۔

۵ ۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ شادی بیاہ کا مقصد صرف جنسی تقاضے پورے کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مشترکہ زندگی کی تشکیل ، روحانی محبت، فکری سکون، اولاد کی تربیت اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کرنا شادی کے نتائج میں سے ہیں، اور ایسا بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے سے مخصوص ہوں اور عورتیں دوسروں پر حرام ہوں۔

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں: ”میں نے پیغمبر اکرم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: زنا کے چھ بُرے اثرات ہیں، ان میں سے تین دنیا سے متعلق ہیں اور تین آخرت سے:

دنیاوی برے اثراث یہ ہیں کہ یہ عمل ،انسان کی نورانیت کو چھین لیتا ہے، روزی منقطع کردیتا ہے اور موت کو نزدیک کر دیتا ہے۔

اور اُخروی آثار یہ ہیں کہ یہ عمل پروردگار کے غضب ، حساب و کتاب میں سختی اور آتش جہنم میں داخل ہونے (یا اس میں دوام) کا سبب بنتا ہے۔(۱)(۲)

____________________

(۱)مجمع البیان ، جلد ۶، صفحہ ۴۱۴

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۰۳

۸۵ ۔ ہم جنس بازی کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

اگرچہ مغربی دنیا میں جہاں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ رائج ہے ایسی برائیوں سے نفرت نہیں کی جاتی ، یہاں تک کہ سننے میں آیا ہے کہ بعض ممالک مثلاً برطانیہ میں پارلیمنٹ نے اس کام کو انتہائی بے شرمی سے قانونی جواز دے دیا ہے، لیکن ان برائیوں کے عام ہونے سے ان کی برائی اور قباحت میں ہرگز کوئی کمی نہیں آتی، اور اس کے اخلاقی، نفسیاتی اور اجتماعی مفاسد اپنی جگہ پر ثابت ہیں۔

بعض اوقات مادی مکتب کے بعض پیرو جو اس قسم کی آلودگیوں میں مبتلا ہیں اپنے عمل کی توجیہ کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ اس میں طبی نکتہ نظر سے کوئی خرابی نہیں ہے لیکن وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ اصولی طور پر ہر قسم کا جنسی انحراف انسانی وجود کے تمام ڈھانچے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کا اعتدال درہم و برہم کردیتا ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان فطری اور طبیعی طور پر صنف مخالف کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے اور یہ میلان انسانی فطرت میں بہت مضبوط جڑیں رکھتا ہے اور انسانی نسل کی بقا کا ضامن ہے، ہر وہ کام جو طبیعی میلان سے ہٹ کر انجام پذیر ہوتا ہے وہ انسان میں ایک قسم کی بیماری اور نفسیاتی انحراف پیدا کرتا ہے۔

وہ مرد جو جنسِ موافق کی طرف میلان رکھتا ہے اور وہ مرد جو اپنے کو اس کام کے لئے پیش کرتا ہے ہرگز کامل مرد نہیں ہے، جنسی امور کی کتاب میں ہم جنس بازی کو ایک اہم ترین انحراف قرار دیا گیا ہے۔

اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو انسان میں جنس مخالف کا میلان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے اور اس کام کے مفعول میں آہستہ آہستہ زنانے احساسات پیدا ہونے لگتے ہیں اور دونوں میں بہت زیادہ جنسی ضعف پیدا ہوتا ہے جسے اصطلاح کے مطابق ”سرد مزاجی“ کہا جاتا ہے، اس طرح سے کہ ایک مدت کے بعدوہ (جنس مخالف سے) طبیعی اور فطری ملاپ کرنے پر قادر نہیں رہتے۔

اس چیز کے پیش نظر کہ مرد اور عورت کے جنسی احساسات جہاں ان کے بدن کے ارگانیزم ( Organism )میں موثر ہیں وہاں ان کے روحانی اور مخصوص اخلاقی پہلوؤں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، یہ بات واضح ہے کہ طبیعی اور فطری احساسات سے محروم ہوکر انسان کے جسم اور روح پر کس قدر ضرب پڑتی ہے، یہاں تک کہ ممکن ہے کہ اس طرح کے انحراف میں مبتلا افراد اس قدر سرد مزاجی کا شکار ہوجائیں کہ پھر اولاد پیدا کرنے کی طاقت سے بھی محروم ہوجائیں۔

اس قسم کے افراد عموماً نفسیاتی طور پر صحیح و سالم نہیں ہوتے اور اپنی ذات میں اپنے آپ سے ایک طرح کی بیگانگی محسوس کرتے ہیں اور جس معاشرہ میں رہتے ہیں اس سے خود کو لاتعلق سا محسوس کرنے لگتے ہیں، ایسے افراد قوت ارادی جو ہر قسم کی کامیابی کی شرط ہے آہستہ آہستہ کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی روح میں حیرانی و سرگردانی آشیانہ بنالیتی ہے۔

ایسے فراد اگر جلد اپنی اصلاح کا ارادہ نہ کریں بلکہ لازمی طور پر جسمانی اور روحانی طبیب سے مدد نہ لیں اور یہ عمل ان کی عادت میں شامل ہوجائے تو اس بُری عادت کا ترک کرنا مشکل ہوجائے گا، بہر حال اگر مصمم ارادہ کرلیا جائے تو کسی بھی حالت میں اس عادت کو ترک کرنے میں دیر نہیں لگتی، بہر صورت مستحکم ارادہ ہونا ضروری ہے۔

بہر حال نفسیاتی سرگردانی انھیں آہستہ آہستہ منشیات اور شراب کی طرف لے جاتی ہے اور ایسے لو گ مزید اخلاقی انحراف کا شکار ہوجاتے ہیں، یہ ایک اور بڑی بد بختی ہے۔

یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ اسلامی روایات میں مختصر اور پُر معنی عبارات کے ذریعہ ان مفاسد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان میں ایک روایت حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے، کسی نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: خدا نے لواط کو کیوں حرام کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اگر لڑکوں سے ملاپ حلال ہوتا تو مرد عورتوں سے بے نیاز ہوجاتے (اور ان کی طرف مائل نہ ہوتے) اور یہ چیز نسلِ انسانی کے منقطع ہونے کا باعث بنتی، اور جنس مخالف سے فطری ملاپ کے ختم ہونے کا باعث بنتی، اور یہ کام بہت سی اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں کا سبب بنتا۔(۱)

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام ایسے افراد کے لئے جن سزاؤں کا قائل ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ فاعل پر مفعول کی بہن، ماں اور بیٹی سے نکاح حرام ہے یعنی اگر یہ کام نکاح سے پہلے ہوا ہو تو یہ عورتیں اس کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہیں۔(۲)

____________________

(۱) وسائل الشیعہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۲۵۲

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۱۹۴

۸۶ ۔ شراب کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

انسان کی عمر پرشراب کا اثر

ایک مغربی دانشور کا کہنا ہے کہ ۲۱/ سے ۲۳/ سالہ جوانوں میں ۵۱/ فی صد شراب کے عادی مرجاتے ہیں جبکہ شراب نہ پینے والوں میں سے ۱۰ / افراد بھی نہیں مرتے۔

ایک دوسرے مشہور دانشور نے کہا: بیس سالہ جوان جن کے بارے میں ۵۰/ سال تک زندہ رہنے کی توقع کی جاتی ہے وہ شراب کی وجہ سے ۳۵/ سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے۔

بیمہ کمپنیوں کے تجربات سے ثابت ہوچکا ہے کہ شرابیوں کی عمر دوسروں کی نسبت ۲۵/ سے ۳۰/ فیصد کم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے اعداد و شمار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شرابیوں کی اوسط عمر ۳۵/ سے ۵۰/ سال ہے، جبکہ اصول صحت کا یہ اوسط ۶۰/ سال سے زیادہ ہے۔

انسانی نسل میں شراب کی تاثیر

انعقاد نطفہ کے وقت اگر مرد نشہ میں تو ”الکلسیم حاد “ ( Alcoalism ) کی ۳۵/ فیصد بیماریاں بچہ میں منتقل ہوتی ہیں اور اگر مرد اور عورت دونوں نشہ میں ہوں تو ”الکلسیم حاد “ ( Alcoalism )کی سو فیصد بیماریاں بچہ میں ظاہر ہوتی ہیں، اس بنا پر اولاد کے بارے میں شراب کی تاثیر پر زیادہ توجہ دینا ضروری ہے، ہم یہاں کچھ مزید اعداد و شمار پیش کرتے ہیں:

طبیعی وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں ۴۵/ فیصد ماں باپ دونوں کی شراب نوشی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، ۳۱/ فیصد ماں کی شراب نوشی کے باعث ہوتے ہیں اور ۱۷/ فیصد باپ کے شرابی ہونے کی وجہ سے، پیدائش کے وقت زندگی کی توانائی سے عاری سو بچوں میں ۶ شرابی باپ کی وجہ سے اور ۴۵/ فیصد شرابی ماں کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں، شرابی ماں کی وجہ سے ۷۵ فیصد اور شرابی باپ کی وجہ سے ۴۵ فیصد بچے پست قد پیدا ہوتے ہیں شرابی ماؤں کی وجہ سے ۷۵ فیصد اور شرابی باپ کی وجہ سے بھی ۷۵ فیصد بچے کافی عقلی اور روحانی طاقت سے محروم ہوتے ہیں۔

اخلاق پر شراب کا اثر شرابی شخص گھروالوں سے ہمدردی اور اہل و عیال سے کم محبت کرتا ہے بارہا دیکھا گیا ہے کہ شرابی باپ نے اپنی اولاد کو قتل کردیا ۔

شراب کے اجتماعی نقصانات

ایک انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۶۱ ءء میں ”نیون“ شہر کے شرابیوں کے اجتماعی جرائم کچھ اس طرح ہیں:

عام قتل : ۵۰ فی صد مار پیٹ اور زخم وارد کرنے کے جرائم ۸/۷۷ فیصد

جنسی جرائم ۸/۸۸ فیصد۔

ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے جرائم زیادہ ترنشہ کی حالت میں انجام پاتے ہیں۔

شراب کے اقتصادی نقصانات

نفسیاتی امراض کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے: ” افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومتیں شراب کے ٹیکس اور منافع کا حساب تو کرتی ہیں لیکن ان اخراجات کو نظر میں نہیں رکھتی جو شراب کے بُرے اثرات کی روک تھام پر ہوتے ہیں، نفسیاتی بیماریوں کی زیادتی، ایسے بُرے معاشرہ کے نقصانات، قیمتی اوقات کی بربادی، حالت نشہ میں ڈرائیورنگ حادثات، پاک نسلوں کی تباہی، سستی، بے راہ روی، ثقافت و تمدن کی پسماندگی، پولیس کی زحمتیں اور گرفتاری، شرابیوں کی اولاد کے لئے پرورش گاہیں اور ہسپتال، شراب سے متعلقہ جرائم کے لئے عدالتوں کی مصروفیات، شرابیوں کے لئے قید خانے مختصر یہ کہ اگر شراب نوشی سے ہونے والے دیگر نقصانات کو جمع کیا جائے تو حکومتوں کو معلوم ہوگا کہ وہ آمدنی جو شراب سے ہوتی ہے وہ مذکورہ نقصانات کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔

ان کے علاوہ شراب نوشی کے افسوسناک نتائج کا موازنہ نہ صرف ڈالروں سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ احساسات کی موت، گھروں کی تباہی، آرزوؤں کی بربادی اور صاحبان فکر افراد کی دماغی صلاحیتوں کا نقصان، یہ سب کچھ پیسے کے مقابل نہیں لائے جاسکتے۔

خلاصہ یہ کہ شراب کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک دانشور کے بقول اگر حکومتیں یہ ضمانت دیں کہ وہ شراب خانوں کا آدھا دروازہ بند کردیں تو یہ ضمانت دی جاسکتی ہے کہ ہم آدھے ہسپتالوں اور آدھے پاگل خانوں سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

اگر شراب کی تجارت میں نوعِ بشر کے لئے کوئی فائدہ ہو یا فرض کریں کہ چند لمحوں کے لئے انسان اس کی وجہ سے اپنے غموں سے بے خبر ہوجاتا ہے تب بھی اس کا نقصان کہیں زیادہ، بہت وسیع ہے کہ اس کے فوائد اور نقصانات کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔(۱)

ہم یہاں پر ایک اور نکتہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں، یہ نکتہ مختلف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ہے جن میں سے ہر ایک تفصیلی بحث کا محتاج کرتا ہے جس سے شراب کے نقصانات کا اندازہ ہوتا ہے۔

۱ ۔ برطانیہ میں شرابیوں کے دیوانہ پن کے سلسلہ میں ایک اعداد و شمار کے مطابق اس جنون کا دوسرے جنونوں سے مو ازنہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۲۴۹/ دیوانوں میں سے صرف ۵۳ دیوانے دوسری وجوہات کی بنا پر دیوانگی کا شکار ہوئے ہیں، اور باقی سب شراب کی وجہ سے دیوانہ ہوئے ہیں۔(۲)

۲ ۔ امریکہ کے ہسپتالوں کے ایک اعداد و شمار کے مطابق نفسیاتی بیماروں میں ۸۵ فی صد صرف شرابی تھے۔(۳)

۳ ۔ برطانوی دانشور ”بنٹم“ لکھتا ہے: شراب ؛ انسان کے اندر شمالی ممالک میں کم عقلی اور بے وقوفی اور جنوبی ممالک میں اس کے اندر دیوانہ پن پیدا کرتی ہے، اس کے بعد کہتا ہے کہ اسلامی قوانین نے ہر طرح کی شراب کو حرام قرار دیا ہے اور یہ اسلام کا ایک امتیاز ہے۔(۴)

۴ ۔ اگر ان لوگوں کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے جنھوں نے نشہ کی حالت میں خود کشی، ظلم و جنایت،گھروں کی بربادی اور عورتوں کی عصمت دری کی ہے تو واقعاً انسان کے ہوش اڑ جائیں گے۔(۵)

۵ ۔ فرانس میں ہر روز ۴۴۰/ لوگ شراب پر اپنی جان قربان کرتے ہیں۔( ۵)

۶ ۔ امریکہ کے ہسپتالوں میں نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے ایک سال میں مرنے والوں کی تعداد”دوسری عالمی جنگ“ کے دو برابر ہے، امریکہ میں ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق نفسیاتی بیماریوں میں ”شراب“ اور ”سگریٹ“ بنیادی وجہ ہے۔( ۶)

۷ ۔ ”ماہنامہ علوم ابزار“ کی بیسوی سالگرہ کی مناسبت سے”ہوگر“ نامی دانشور کے اعداد و

(۱) کتاب سمپوزیوم الکل ، صفحہ ۶۵ (۲) کتاب سمپوزیوم الکل، صفحہ ۶۵

( ۳) تفسیر طنطاوی ، جلد اول، صفحہ ۱۶۵ (۴) دائرة المعارف ،فرید وجدی ، جلد ۳ ، صفحہ ۷۹۰

( ۵) بلاہای اجتماعی قرن ما، صفحہ ۲۰۵ (۶) مجمو عہ انتشارات جوان

شمار کے مطابق : ۶۰/ فی صد عمدی قتل، ۷۵/ فی صد مار پیٹ اور زخمی کرنا، ۳۰/ فیصد اخلاقی جرائم (منجملہ ماں بہن کے ساتھ زنا!) ۲۰/ فی صد چوری شرابی پینے والوں سے متعلق ہیں، اور اسی دانشور کی تحقیق کے مطابق ۴۰/ فیصد مجرم بچوں میں شراب کا سابقہ پایا جاتا ہے۔(۱)

۸ ۔اقتصادی لحاظ سے صرف برطانیہ میں شراب پینے والے ملازمین کی غیر حاضری کی وجہ سے ۵۰ ملین ڈالر (۲۲۵.۰۰۰.۰۰۰روپیہ) کا نقصان ہوا ہے، جس رقم سے بچوں کے لئے ہزاروں اسکول اور کالج بنائے جا سکتے ہیں۔( ۲)

۹ ۔ فرانس میں ایک اعداد و شمار کے مطابق شراب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی شرح اس طرح ہے: شراب کی وجہ سے ۱۳۷ / ارب فرانک فرانس کے بجٹ میں اضافہ کرنا پڑا: ۶۰/ ارب فرانک ، کورٹ اور قید خانوں کا خرچ۔

۴۰/ ارب فرانک ، عمومی فا ئد ہ مند امورکے لئے تعاون۔

۱۰/ ارب فرانک ، شرابیوں کے ہسپتالوں کا خرچ۔

۷۰/ ارب فرانک ، اجتماعی امنیت کے لئے خرچ۔

اس لحاظ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رو حا نی بیماروں ، ہسپتالوں، قتل و غارت، لڑائی جھگڑوں، چوری اور ایکسیڈنٹ وغیرہ کی تعداد براہ راست شراب خانوں کی تعداد سے متعلق ہے۔(۳)(۴)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۷۴

۲) کتاب سمپوزیوم الکل، صفحہ ۶۶

(۳) مجموعہ انتشارات نسل جوان ، سال دوم صفحہ ۳۳۰

(۴) نشریہ مر کز مطالعہ پیشرفتہای ایران (دربارہ الکل و قمار)

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۵، صفحہ ۷۴

۸۷ ۔ محارم سے شادی کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں:

( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّهَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالاَتُکُمْ وَبَنَاتُ الْاٴَخِ وَبَنَاتُ الْاٴُخْتِ وَاٴُمَّهَاتُکُمْ اللاَّتِی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ وَاٴُمَّهَاتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمْ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ اللاَّتِی دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلاَئِلُ اٴَبْنَائِکُمْ الَّذِینَ مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ وَاٴَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاٴُخْتَیْنِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللهَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا ) (۱)

”تمہارے اوپر تمہاری مائیں، بیٹیاں ،بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، وہ مائیں جنھوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے تمہاری رضاعی (دودھ شریک) بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں، تمہاری پروردہ عورتیں جو تمہاری آغوش میں ہیں اور ان عورتوں کی اولاد جن سے تم نے دخول کیا ہے، ہاں اگر دخول نہیں کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، اور تمہارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمہارے صلب سے ہیں اور دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا سب حرام کردیا گیا ہے، علاوہ اس کے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے“۔

اس آیہ شریفہ میں یہ بیان ہوا کہ محرم عورتیں کون کون ہے جن سے شادی کرنا حرام ہے، اور اس لحاظ سے تین طریقوں سے محرمیت پیدا ہوسکتی ہے:

۱ ۔ ولادت کے ذریعہ، جس کو ”نسبی رشتہ“ کہا جاتا ہے۔

۲ ۔ شادی بیاہ کے ذریعہ، جس کو ”سببی رشتہ“ کہا جاتا ہے۔

۳ ۔ دودھ پلانے کے ذریعہ ، جس کو ”رضاعی رشتہ“ کہتے ہیں۔

پہلے نسبی محارم کا ذکر کیا گیا ہے جن کی سات قسمیں ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّهَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَا تُکُمْ وَبَنَاتُ الْاٴَخِ وَبَنَاتُ الْاٴُخْتِ)

”تمہارے اوپر تمہاری مائیں، بیٹیاں ،بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں حرام ہیں“۔

یہاں پر یہ توجہ رہے کہ ماں سے مراد صرف وہ ماں نہیں ہے جس سے انسان پیدا ہوتا ہے، بلکہ دادی ، پردادی، نانی اور پر نانی کو بھی شامل ہے، اسی طرح بیٹیوں سے مراد اپنی بیٹی مراد نہیں ہے بلکہ ، پوتی اور نواسی اور ان کی بیٹیاں بھی شامل ہیں، اسی طرح دوسری پانچ قسموں میں بھی ہے۔

یہ بات یونہی واضح ہے کہ سبھی اس طرح کی شادیوں سے نفرت کرتے ہیں اسی وجہ سے تمام قوم و ملت (کم لوگوں کے علاوہ) محارم سے شادی کو حرام جانتے ہیں، یہاں تک کہ مجوسی جو اپنی کتابوں میں محارم سے شادی کو جائزما نتے تھے، لیکن آج کل وہ بھی انکار کرتے ہیں۔

اگرچہ بعض لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ اس موضوع کو ایک پرانی رسم و رواج تصور کریں، لیکن ہم یہ بات جانتے ہیں کہ تمام نوعِ بشر میں قدیم زمانہ سے ایک عام قانون کا پایا جانا اس کے فطری ہونے کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ رسم و رواج ایک عام اور دائمی صورت میں نہیں ہوسکتا۔

اس کے علاوہ آج یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ ہم خون کے ساتھ شادی کرنے میں بہت سے نقصانات پائے جاتے ہیں یعنی پوشیدہ اور موروثی بیماریاں ظاہر اور شدید ہوجاتی ہیں، (نہ یہ کہ خود ان سے بیماری پیدا ہوتی ہے) یہاں تک کہ بعض محارم کے علاوہ دیگر رشتہ داری میں شادی کو اچھا نہیں مانتے جیسے دو بھائیوں کی لڑکی لڑکا شادی کریں، دانشوروں کا ماننا ہے کہ اس طرح کی شادیوں میں ارثی بیماریوں میں شدت پیدا ہوتی ہے(۱)

لیکن یہ مسئلہ دور کی رشتہ داریوں میں کوئی مشکل پیدا نہیں کرتا (جیسا کہ معمولاً نہیں کرتا) البتہ قریبی رشتہ داری (یعنی ایک خون )میں بہت سی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ محارم کے درمیان معمولاً جنسی جذابیت اور کشش نہیں پائی جاتی کیونکہ غالباً محارم ایک ساتھ بڑے ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لئے عام طریقہ سے ہوتے ہیں، مگر بعض نادر اور استثنائی موارد میں جن کو عام قوانین کا معیار نہیں بنایا جاسکتا، اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ جنسی خواہشات شادی بیاہ کے برقرار رہنے کے لئے ضروری ہے، لہٰذا اگر محارم کے ساتھ شادی ہو بھی جائے تو ناپائیدار اور غیر مستحکم ہوگی۔

اس کے بعد رضاعی محارم کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:( وَاٴُمَّهَاتُکُمْ اللاَّتِی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ ) ”وہ مائیں جنھوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے، اور تمہاری رضاعی (دودھ شریک) بہنیں تم پر حرام ہیں“۔

اگرچہ آیت کے اس حصہ میں صرف رضاعی ماں اور بہن کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن متعددروایات معتبر کتابوں میں موجود ہیں جن میں بیان ہو ا ہے کہ رضاعی محرم صرف انھیں دو میں منحصر

(۱) البتہ اسلام نے چچا زاد بھائی بہن میں شادی کو حرام قرار نہیں دیا ہے، کیونکہ ان کی شادی محارم سے شادی کی طرح نہیں ہے، اور اس طرح کی شادیوں میں خطرہ کم پایا جاتا ہے، اور ہم نے اس طرح کی بہت سی شادی دیکھی ہیں جن کے بچے صحیح و سالم ہیں اور استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے بھی کوئی مشکل نہیں ہے

نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور و معروف حدیث کے پیش نظر دوسرے افراد میں شامل ہیں، جیسا آنحضرت (ص)نے ارشاد فرمایا: ”یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب“ (یعنی تمام وہ افراد جو نسب کے ذریعہ حرام ہوتے ہیں (رضاعت) دودھ کے ذریعہ بھی حرام ہوجاتے ہیں)

البتہ محرمیت ایجاد ہونے کے لئے کتنی مقدار میں دودھ پلایا جائے اس کی کیفیت کیا ہونی چاہئے اس کی تفصیل کے لئے فقہی کتابوں (یاتوضیح المسائل وغیرہ) کا مطالعہ فرمائیں۔

رضاعی محارم کی حرمت کا فلسفہ یہ ہے کہ دودھ کے ذریعہ انسان کے گوشت اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں لہٰذا اگر کوئی عورت کسی بچہ کو دودھ پلاتی ہے تووہ اس کی اولاد جیسی ہوجاتی ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی عورت کسی بچہ کو ایک مخصوص مقدار میں دودھ پلائے تو اس دودھ سے اس بچہ کے بدن میں رشد و نمو ہوتا ہے جس سے اس بچہ اور اس عورت کے بچوں میں شباہت پیدا ہوتی ہے، در اصل دونوں اس عورت کے بدن کا ایک حصہ شمار ہوں گے جس طرح دو نسبی بھائی۔

اس کے بعد قرآن مجید نے محارم کی تیسری قسم کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو چند عنوان کے تحت بیان کیا ہے:

۱ ۔ وَ امِّہَاتُ نِسَائِکُمْ: ”تمہاری بیویوں کی مائیں“ یعنی جب انسان کسی عورت سے نکاح کرتا ہے اور صیغہ عقد جاری کرتا ہے تو اس عورت کی ماں اور اس کی ماں کی ماں اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہیں۔

۲ ۔( وَرَبَائِبُکُمْ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ اللاَّتِی دَخَلْتُمْ بِهِنَّ ) ”تمہاری پروردہ لڑکیاں جو تمہاری آغوش میں ہیں یعنی تمہاری ان بیویوں کی اولاد جن سے تم نے دخول کیا ہے، وہ تم پر حرام ہیں“ گویا اگرکسی عورت سے صرف نکاح کیا ہے اور اس کے ساتھ ہمبستری نہیں کی اور اس عورت کی پہلے شوہر سے کوئی لڑکی ہو تو وہ حرام نہیں ہوگی،مگر اس بیوی سے ہمبستری کی ہو تو اس صورت میں وہ لڑکی بھی حرام ہوجائے گی، یہاں اس قید کا ہونا اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ساس (خوش دامن)کے سلسلہ میں یہ شرط نہیں ہے (کیونکہ خوشدامن اس صورت میں حرام ہوتی ہے کہ جب بیوی کے ساتھ ہمبستری کی ہو) لہٰذا وہاں حکم مطلق ہے یعنی چاہے اپنی بیوی سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو ہر صورت میں ساس حرام ہے۔

اگرچہ ”فِی حُجُورِکُمْ“ کی ظاہری قید (یعنی تمہارے گھر میں ہو) سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر بیوی کے پہلے شوہر سے لڑکی ہو ، اور وہ تمہارے گھر میں پرورش نہ پائے تو وہ اس صورت میں حرام نہیں ہے، لیکن دوسری روایات کے قرینہ اور اس حکم کے قطعی ہونے کی بنا پر یہ ”قید احترازی“ نہیں ہے ، ( یعنی یہ قید موضوع کو محرز اور معین کرنے کے لئے نہیں ہے) بلکہ اس سے حرمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس جیسی لڑکیوں کی عمر کم ہوتی ہے جن کی مائیں دوبارہ شادی کرتی ہیں اور وہ معمولاً سوتیلے باپ کی گھر میں اس کی لڑکیوں کی طرح پرورش پاتی ہیں، آیہ شریفہ کہتی ہے کہ در اصل یہ تمہاری بیٹیوں کی طرح ہیں، کیا کوئی اپنی بیٹی سے شادی کرتا ہے؟! چنانچہ اسی وجہ سے انھیں ”ربیبہ“ کہا گیا ہے جس کے معنی پرورش پانے والی ہے۔

اس حصہ میں اس کی مزید تاکید ہوتی ہے کہ اگر اس زوجہ سے ہمبستری نہ کی ہو تو ان کی لڑکیاں تم پر حرام نہیں ہیں،( فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ )

۳ ۔( وَحَلاَئِلُ ( ۱ ) اٴَبْنَائِکُمْ الَّذِینَ مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ ) ”اور تمہارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمہارے صلب سے ہیں “

در اصل ”مِنْ اَصْلاَبِکُمْ “ (تمہارے صلب سے ہو نے ) کی قید دور ِجاہلیت کی ایک غلط رسم کو ختم کرنے کے لئے ہے کیونکہ اس زمانہ میں رائج تھا کہ بعض افراد کو اپنا بیٹا بنا لیتے تھے، یعنی اگر

(۱) ”حلائل “جمع” حلیلہ“مادہ ”حل“سے ہے اور اس سے وہ عورت مراد ہے جو انسان پر حلال ہے ،یا مادہ” حلول “ سے ہے جس سے مراد وہ عورت ہے جو ایک انسان کے پاس ایک ساتھ زندگی گزارتی ہو اور اس سے جنسی تعلقات رکھتی ہو

کوئی کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنالے تو اس پر حقیقی بیٹے کے تمام احکام نافذ کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے منھ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح نہیں کرتے تھے، لیکن اسلام نے منھ بولے بیٹے کو بیٹا قرار نہیں دیا اور اس غلط رسم و رواج کو بے بنیاد قرار دیدیا۔

۴ ۔( وَاٴَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاٴُخْتَیْنِ ) ”اور تمہارے لئے دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا حرام کردیا گیا ہے“، یعنی ایک وقت میں دو بہنوں کا رکھنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر دو بہنوں سے مختلف زمانہ میں اور پہلی بہن کی جدائی کے بعد نکاح کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔کیونکہ دور جاہلیت میں دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھنے کا رواج تھا اور چونکہ بعض لوگ ایسا کئے ہوئے تھے لہٰذا قرآن مجید میں اضافہ کیا گیا:( إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ) ”علاوہ اس کے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے “ ، یعنی یہ حکم (دوسرے احکام کی طرح) گزشتہ پر عطف نہیں کیا جائے گا اور جن لوگوں نے اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا ہے ان کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی اگرچہ اب ان دونوں میں سے ایک بیوی کا انتخاب کرے اور دوسری کو آزاد کردے۔اور شاید اس طرح کی شادی سے روکنے کا راز یہ ہو کہ دو بہنیں نسبی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت اور تعلق رکھتی ہیں، لیکن جس وقت ایک دوسرے کی رقیب ہوجائیں تو پھر اس گزشتہ رابطہ کو محفوظ نہیں رکھ سکتیں، اس طرح ان کی ”محبت میں تضاد“ پیدا ہوجائے گا جو ان کی زندگی کے لئے نقصان دہ ہے، کیونکہ ”محبت“ اور ”رقابت“ میں ہمیشہ کشمکش اور مقابلہ پایا جاتا ہے۔(۲)

____________________

(۱)سورہ نساء آیت۲۳

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۶

۲۵ ۔ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم کی بشارت دی گئی ہے؟

جیسا کہ ہم سوہ اعراف میں پڑھتے ہیں:( الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْاٴُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَهُ مَکْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ ) (۱) ”جو لوگ ہمارے رسول نبیِّ امی کا اتباع کرتے ہیں جس (کی بشارت ) کو وہ اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں “۔

مذکورہ آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے؟

اگرچہ یقینی قرائن اور اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں دور حاضر کی موجودہ ”مقدس کتابوں “ (توریت و انجیل) کے مطالب اس بات پر یہ دونوں گواہ ہیں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی یہ دونوں کتابیں اصل نہیں ہیں ، بلکہ ان میں بہت زیادہ تبدیلی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ بعض تو بالکل ہی ختم ہوگئی ہے، اور جو کچھ اس وقت کی موجودہ مقدس کتابوں میں موجود ہے وہ انسانی فکر اور بعض خدا کی طرف سے موسیٰ و عیسیٰ علیہماالسلام پر نازل ہونے والے مطالب کا ایک مرکب مجموعہ ہے، جس کو ان کے بعض شاگردوں نے جمع کیا ہے۔(۲)

اس بنا پر؛ ان مو جودہ کتا بوں میں اگر کوئی ایسا جملہ نہ ملے جس میں صراحت کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت دی گئی ہو ، تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

لیکن تحریف کے باوجود بھی ان کتابوں میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت پردلالت کرتے ہیں، جن کو مسلمان دانشوروں نے اپنی کتابوں اور مضا مین میں تحریر کیا ہے،چونکہ ان تمام مطالب کو ذکر کرنااس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا نمونہ کے طور پر چند چیزوں کو بیان کرتے ہیں:

۱ ۔ توریت کے سِفْر تکوین فصل ۱۷ ،نمبر ۱۷ سے ۲۰ تک میں اس طرح مر قوم ہے:

”اور ابراہیم نے خداوندعالم سے فرمایا :کہ اے کاش !اسماعیل تیرے حضور میں زندگی کرت اور اسماعیل کے حق میں تیری دعاکو سنا، اس وجہ سے اس کو صاحب برکت قرار دیا اور اس کو پھل دار بنادیا ہے، اور آخر کا راس کی اولاد کو کثیر قرار دیا، اس کے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور اس کو ایک عظیم امت قرار دوں گا“۔

۲ ۔ سِفْر پیدائش باب ۴۹ ، نمبر ۱۰ میں وارد ہوا ہے:

عصای سلطنت یہودا سے اور ایک فرمان روا اس کے پیروں کے آگے سے قیام کرے گا تااینکہ ”شیلوہ“ آجائے کہ اس پر تمام امتیں اکٹھا ہوجائیں گی۔

یہاں پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ شیلوہ کے ایک معنی ”رسول“ یا ”رسول اللہ“ کے ہیں، جیسا کہ مسٹر ہاکس نے کتاب ”قاموس مقدس“ میں بیان کیا ہے۔

۳ ۔ کتاب انجیل یوحنا، باب ۱۴ ،نمبر ۱۵ ، ۱۶ میں یوں بیان ہوا ہے:

”اگر تم لوگ مجھے دوست رکھتے ہو تو میرے احکام کی رعایت کرو، میں پدر سے درخواست کروں گا وہ تمہیں ایک اور تسلی دینے والا عطا کرے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا“۔

۴ ۔اسی طرح مذکورہ کتاب انجیل یوحنا، باب ۱۵ ،نمبر ۲۶ میں اس طرح وارد ہوا ہے:

”جب وہ تسلی دینے والا آجائے گا جس کو میں پدر کی طرف سے بھجواؤں گا یعنی وہ سچی روح جو پدر کی طرف سے آئے گی، وہ میرے بارے میں شہادت دی گی“۔

۵ ۔ نیز اسی انجیل یوحنا باب ۱۶ ،نمبر ۱۷ کے بعد میں وارد ہوا ہے:

”لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر میں تمہارے درمیان سے چلاجاؤں تویہ تمہارے لئے مفید ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو تمہارے پاس وہ تسلی دینے والا نہیں آئے گا، اور اگر میں چلا گیا تو اس کو تمہارے لئے بھیج دوں گا لیکن جب وہ سچی روح تمہارے پاس آجائے گی تو تمہیں تمام سچائیوں کی طرف ہدایت کردے گی، کیونکہ وہ اپنی طرف سے کچھ کلام نہیں کرے گا بلکہ جو کچھ اس کو سنائی دے گا وہی کہے گا، اور تمہیں آئندہ کے بارے میں خبر(بھی) دے گا“(۳)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ فارسی انجیل میں ”تسلی دینے والے “ کی جگہ عربی انجیل مطبوعہ لندن ( ویلیام وٹس پریس ، ۱۸۵۷ ءء) میں اس کی جگہ ”فارقلیطا“ ذکر ہوا ہے۔(۴)

ایک اور زندہ گواہ

”فخر الاسلام “جو کتاب ”انیس الاعلام “کے مولف ہیںپہلے عیسا ئی عالم تھے ،انھوں نے اپنی تعلیم عیسائی پادریوں میں مکمل کی تھی اور ان کے درمیان ایک بلند مقام حاصل کر لیاتھا وہ انیس الا علام کے مقدمہ میں اپنے مسلمان ہونے کے عجیب و غریب واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

”بڑی جستجو ،زحمتوں اور کئی ایک شہر وں میں گردش کے بعد میں ایک عظیم پادری کے پاس پہنچا جو زہد و تقویٰ میں ممتاز تھا ، ”کیتھولک‘ فرقہ کے بادشاہ و غیرہ اپنے مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے تھے ،ایک مدت تک میں اس کے پاس نصاریٰ کے مختلف مذاہب کی تعلیم حاصل کرتا رہا ،اس کے بہت سے شاگر د تھے لیکن اتفاقاً مجھ سے اسے کچھ خاص ہی لگاو تھا ،اس کے گھر کی تمام کنجیاں میرے ہاتھ میں تھیں، صرف ایک صندوق خانے کی کنجی اس کے پاس ہوا کرتی تھی ۔

اس دوران وہ پادری بیمار ہو گیا تواس نے مجھ سے کہا کہ شاگردوں سے جاکر کہہ دو کہ آج میں درس نہیں دے سکتا ،جب میں طالب علموں کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ سب بحث و مباحثے میں مصروف ہیں یہ بحث سریانی کے لفظ ”فارقلیطا“ اور یونانی زبان کے لفظ ”پریکلتوس “کے معنی تک جاپہنچی اور وہ کافی دیر تک جھگڑتے رہے ،ہر ایک کی الگ رائے تھی ،واپس آنے پر استاد نے مجھ سے پوچھا تم لوگوں نے آج کیا بحث کی ہے؟تو میں نے لفظ فارقلیطا کا اختلاف اس کے سامنے بیان کیا وہ کہنے لگا :تونے ان میں کس قول کا انتخاب کیا ہے ،میں نے کہا کہ فلاں مفسرکے قول کوپسند کیا ہے ۔

استاد پادری کہنے لگا :تونے کوتاہی تو نہیں کی لیکن حق و حقیقت ان تمام اقوال کے خلاف ہے کیونکہ اس کی حقیقت کو ” رَاسِخُونَ فِي العِلمِ“کے علاوہ دوسرے لوگ نہیں جانتے اور ان میں سے بھی بہت کم اس حقیقت سے آشنا ہیں ،میں نے اصرار کیا کہ اس کے معنی مجھے بتائےے، وہ بہت رویا اور کہنے لگا:میں کوئی چیز تم سے نہیں چھپاتا ،لیکن اس نام کے معنی معلوم ہو جانے کا نتیجہ تو بہت سخت ہوگا کیونکہ اس کے معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے اور تمہیں قتل کر دیا جائے گا،اب اگر تم وعدہ کرو کہ کسی سے نہیں کہو گے تو میں اسے ظاہر کر دیتا ہوں۔

میں نے تمام مقدسات مذہبی کی قسم کھائی کہ اسے فاش نہیں کروں گا تو اس نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے پیغمبر کے ناموں میںسے ایک نام ہے اور اس کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ہیں ۔

اس کے بعد اس نے اس چھوٹے کمرے کی کنجی مجھے دی اور کہا کہ فلاں صندوق کا دروازہ کھولو اور فلاں فلاں کتاب لے آو ، چنا نچہ میںوہ کتابیں اس کے پاس لے آیا ، یہ دونوں کتابیں رسول اسلام (ص) کے ظہور سے پہلے کی تھیں اور چمڑے پر لکھی ہوئی تھیں۔

دونوں کتابوں میں لفظ ”فارقلیطا“کا ترجمہ ”احمد“اور” محمد“کیا گیا تھا اس کے بعد استاد نے مزید کہا کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے علمائے نصاریٰ میں کوئی اختلاف نہ تھا کہ فارقلیطا کے معنی احمد و محمد ہیں، لیکن ظہور محمد( (ص))کے بعد اپنی سرداری اور مادی فوائد کی بقا کے لئے اس کی تاویل کر دی اور اس کے لئے دوسرے معنی گڑھ لئے حالانکہ صا حب انجیل کی مراد وہ معنی یقینا نہیں ہیں۔

میں نے سوال کیا کہ دین ِنصاریٰ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ،اس نے کہا دین اسلام کے آنے سے منسوخ ہوگیا ہے اس جملہ کی اس نے تین مرتبہ تکرار کی ۔

پس میں نے کہا کہ اس زمانہ میں طریقِ نجات اور صراطِ مستقیم ،کونساراستہ ہے ؟۔

اس نے کہا :مختصر یہ ہے کہ محمد (ص) کی پیروی و اتباع کرو ۔

میں نے کہا :کیا اس کی پیروی کرنے والے اہل نجات ہیں ؟ اس نے کہا :ہاں !خدا کی قسم (اور تین مرتبہ قسم کھائی )

پھر استاد نے گریہ کیا اور میں بھی بہت رویا اور اس نے کہا : اگر آخرت اور نجات چاہتے ہوتودین حق ضرور قبول کر لو،میں ہمیشہ تمہارے لئے دعا کروں گا اس شرط کے ساتھ کہ قیامت کے دن گواہی دو کہ میں باطن میں مسلمان اور حضرت محمد (ص) کا پیروکار ہوں اور علمائے نصاریٰ کے ایک گروہ کی باطن میں مجھ جیسی حالت ہے اور ظاہراً میری طرح اپنے دنیاوی مقام سے کنارہ کش نہیں ہو سکتے ورنہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس وقت روئے زمین پر دین خدا دین اسلام ہی ہے ۔“!!(۵)

آپ دیکھیں کہ علمائے اہل کتاب نے پیامبراسلام (ص)کے ظہور کے بعد اپنے ذاتی مفاد کے لئے آنحضرت (ص) کے نام اور نشانیوں کو بدل ڈالا ۔!!(۶)

____________________

(۱) سورہ اعراف ، آیت ۱۵۷

(۲) اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے کتاب ”رہبر سعادت یا دین محمد“ اور کتاب ”قرآن و آخرین پیامبر“ کو ملاحظہ فرمائیں

(۳) مذکورہ تمام تحریریں، جن کو عہد قدیم اور عہد جدید سے نقل کیا گیا ہے ، اس فارسی ترجمہ سے ہے جو ۱۸۷۸ءء میں لندن سے عیسائی مترجمین کے ذریعہ عبرانی زبان سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا ہے

(۴)تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۳

(۵) اقتباس از کتاب ہدایت دوم ،مقدمہ کتاب انیس الاعلام، اختصار کے ساتھ

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۲۱۱

۲۶ ۔ اولوالعزم پیغمبر کون ہیں؟

جیسا کہ سورہ احقاف آیت ۳۵ میں ہم پڑھتے ہیں:( فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اٴُوْلُوا الْعَزْمِ مِنْ الرُّسُلِ ) اے پیغمبر ! آپ اسی طرح صبر کریں جس طرح پہلے اولوا العزم رسولوں نے صبر کیا ۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولوالعزم پیغمبر کون ہیں؟

اس سلسلہ میں مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، قبل اس کے کہ اس سلسلہ میں تحقیق کریں پہلے ”عزم“ کے معنی کو دیکھیں کیونکہ ” اولوالعزم “ یعنی صاحبان ”عزم“۔

”عزم“ کے معنی مستحکم اور مضبوط ارادہ کے ہیں، راغب اصفہانی اپنی مشہورو معروف کتاب ”مفردات“ میں کہتے ہیں: عزم کے معنی کسی کام کے لئے مصمم ارادہ کرنا ہے، ”عقد القلب علی امضاء الامر“

قرآن مجید میں کبھی ”عزم“ کے معنی صبر کے لئے گئے ہیں، جیسا کہ ارشاد خداوند ہے:

( وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاٴُمُورِ ) (۱)

”اور یقینا جو صبر کرے اور معاف کردے تو اس کا یہ عمل بڑے صبرکا کام ہے“۔

اور کبھی ”وفائے عہد“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا:

( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ) (۲)

”اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہد لیا مگر انھوں نے اسے ترک کردیا اور ہم نے ان کے پاس عزم و ثبات نہیں پایا“۔

لیکن چونکہ صاحب شریعت انبیاء علیہم السلام ایک نئی اور تازہ شریعت لے کر آتے تھے، جس کی بنا پر ان کو بہت سی مشکلات پیش آتی تھی، جن سے مقابلہ کرنے کے لئے ان کو مستحکم اور مصمم ارادہ کی ضرورت ہوتی تھی، لہٰذا ان انبیاء کو ”اولو العزم“ پیغمبر کہا گیا، اور مذکورہ آیت بھی ظاہراً انھیں معنی کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

ضمنی طور پر ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ان ہی اولو العزم پیغمبر وں میں سے ہیں، کیونکہ ارشاد ہوا ”آپ بھی اسی طرح صبر کریں جس طرح سے آپ سے پہلے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر سے کام لیا ہے“۔

اگر بعض مفسرین نے ”عزم “ اور ”عزیمت“ کے معنی ”حکم و شریعت“ مراد لیتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے ورنہ لغوی اعتبار سے ”عزم“ کے معنی ”شریعت“ نہیں ہے۔

بہر حال ان معنی کے لحاظ سے ”من الرُسل“ میں ”من“ ”تبعیضیہ“ ہے جس سے کچھ خاص بزرگ پیغمبر مراد ہیں جو صاحب شریعت تھے، جیسا کہ سورہ احزاب میں بھی اسی چیز کی طرف اشارہ ہے:

( وَإِذْ اٴَخَذْنَا مِنْ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاٴَخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا ) (۳)

”اور اس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیاء سے اور بالخصوص آپ سے اور نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا “۔

یہاں پر تمام انبیاء علیہم السلام کو صیغہ جمع کی صورت میں بیان کرنے کے بعد ان پانچ اولوالعزم پیغمبروں کا نام لینایہ ان کی خصوصیت پر بہترین دلیل ہے۔

اسی طرح سورہ شوریٰ میں بھی اولوالعزم پیغمبر کے بارے میں بیان ہوا ہے، ارشاد خداوندعالم ہے:

( شَرَعَ لَکُمْ مِنْ الدِّینِ مَا وَصَّیٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِی اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ) (۴)

”اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی اے پیغمبر !تمہاری طرف بھی کی ہے، اور جس کی نصیحت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ہے“۔

اسی طرح شیعہ اورسنی معتبر کتابوں میں روایات بیان ہوئی ہیں کہ اولوالعزم یہی پانچ پیغمبر تھے،جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث کے ضمن میں بیان ہواہے:

”مِنُهُم خَمْسةٌ :اٴوّلهُم نُوح، ثُمَّ إبراهِیمَ ،ثُمَّ موسیٰ ، ثُمَّ عِیسیٰ ، ثُمَّ مُحَمَّد (ص)(۵)

”اولوالعزم پیغمبر پانچ ہیں، پہلے جناب نوح ، ان کے بعد جناب ابراہیم ، ان کے بعد جناب موسیٰ ،ان کے بعد حضرت عیسیٰ اور آخر میں حضرت محمد (ص)“۔

اور جب سائل نے سوال کیا : ”لم سموا اولوالعزم“ ان کو اولوالعزم کیوں کہا جاتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:

لاٴنَّهُم بَعثُوا إلیٰ شَرقِهَا وَ غَرْبِهَا وَجِنِّها وَ إنْسِها(۶)

”کیونکہ (یہ اولوالعزم) پیغمبر مشرق و مغرب اور جن و انس کے لئے مبعوث ہوئے ہیں“۔

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”سَادَةُ النبیّین وَالمُرسَلِینَ خَمْسةٌ وَهُمْ اولوا العزمِ مِنَ الرُّسِل و علیهم دارة الرَّحی نوح و إبراهیم وموسیٰ و عیسیٰ ومحمد (ص)“ (۷)

”انبیاء و مرسلین کے سردار پانچ نبی ہیں اور نبوت و رسالت کی چکی ان ہی کے دم پر چلتی ہے، اور وہ یہ ہیں جناب نوح، جناب ابراہیم، جناب موسیٰ، جناب عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی (ص) “۔

تفسیر ”الدر المنثور “ میں ابن عباس سے یہی روایت کی گئی ہے کہ اولوالعزم یہی پانچ پیغمبر ہیں۔(۸)

لیکن بعض مفسرین نے ان انبیاء کو اولو العزم پیغمبر بتایا ہے جو دشمنوں سے جنگ کرنے پر مامور ہوئے ہیں۔

اسی طرح بعض مفسرین نے اولو العزم پیغمبر کی تعداد ۳۱۳ / بیان کی ہے، ( ۴) جبکہ بعض مفسرین نے تمام انبیاء علیہم السلام کو اولو العزم پیغمبر قرار دیا ہے(۹) اور اس نظریہ کے مطابق ”مِن الرُسل“ میں ”من“”بیانیہ“ ہوگا”تبعیضیہ“ نہیں، لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ صحیح ہے اور اسلامی روایات سے بھی اس کی تاکید ہوتی ہے۔(۱۰)

____________________

(۱) سورہ شوریٰ ، آیت۴۳

(۲) سورہ طہ ، ، آیت۱۱۵ (۳) سورہ احزاب ، آیت ۷

(۴) سورہ شوریٰ ، آیت۱۳

(۵) ”مجمع البیان محل بحث آیات کے ذیل میں ،(جلد ۹، صفحہ ۹۴)

(۶) بحا رالانوار ، جلد ا۱، صفحہ ۵۸، (حدیث ۶۱) ،اور اسی جلد میں صفحہ ۵۶ ،حدیث ۵۵، میں بھی صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے

(۷) اصول کافی ، جلد ۱،باب”طبقات الانبیاء والرسل “حدیث۳

(۱۰،۹،۸) الدرالمنثور ، جلد ۶، صفحہ ۴۵ (۶) تفسیر نمونہ ، جلد ا۲، صفحہ ۳۷۷

۲۷ بچپن میں نبوت یا امامت ملنا کس طرح ممکن ہے؟

سا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں:( یَایَحْیَیٰ خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صَبِیًّا ) (۱)

”(اے) یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انھیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی“۔

یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان کو مقام نبوت یا امامت بچپن میں ہی مل جائے؟

یہ بات صحیح ہے کہ عام طور پر انسان کی عقل کی ترقی ایک موقع پر ہوتی ہے، لیکن ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیشہ معاشرہ میں کچھ عجیب و غریب قسم کے افراد پائے جاتے ہیں،ان کی عقل کی پرواز بہت زیادہ ہوتی ہے، تو پھر کیا ممانعت ہے کہ خداوندعالم اس وقت کو بعض مصلحت کی بنا پر مختصر کردے اور بعض انسان کے لئے کم مدت میں اس مرحلہ کو طے کرالے، کیونکہ عام طور پر بچہ ایک سال کے بعد بولنا شروع کرتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ولادت کے وقت ہی بولنے لگے اور وہ بھی پُر معنی مطالب جو بڑے بڑے ذہین لوگوں کے الفاظ ہوتے ہیں۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ شیعوں کے بعض ائمہ کس طرح بچپن میں مقام امامت تک پہنچ گئے، ان کا یہ اعتراض بے بنیاد ہے۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے صحابی” علی بن اسباط“ نے روایت کی ہے کہ میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا (جبکہ امام علیہ السلام کی عمر کم تھی) میں امام کے قد و قامت کو غور سے دیکھ رہا تھا تاکہ ذہن نشین کرلوں اورجب مصر واپس جاؤں تو دوستوں کے لئے آپ کے قدو قامت کو ہو بہو بیان کروں، بالکل اسی وقت جب میں یہ سوچ رہا تھا تو امام علیہ السلام بیٹھ گئے (گویا امام میرے سوال کوسمجھ گئے ) اور میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے علی بن اسباط! خداوندعالم نے امامت کے سلسلہ میں وہی کیا جونبوت کے بارے میں انجام دیا ہے، کبھی ارشاد ہوتا ہے:( وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صَبِیًّا ) ( ہم نے یحییٰ کو بچپن میں نبوت و عقل و درایت عطا کی“ اور کبھی انسان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:( حَتّٰی إذَا بَلَغَ اَشدهُ وَبَلَغَ اٴرْبَعِیْنَ سَنَة ) (احقاف/ ۱۵) ( جب انسان بلوغ کامل کی حد تک پہنچا تو چالیس سال کا ہوگیا) ، پس جس طرح خدا کے لئے یہ ممکن ہے کہ انسان کو بچپن ہی میں نبوت و حکمت عطا فرمائے جبکہ وہی چیز انسان کی عقل کو چالیس سال میں مکمل فرمائے۔(۲)

مذکورہ آیت ان لوگوں کے لئے ایک دندان شکن جواب ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں اعتراض کرتے ہیں کہ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں حضرت علی علیہ السلام نہیں ہیں کیونکہ اس وقت آپ کی عمر ۱۰ سال تھی اور دس سال کے بچہ کا ایمان قابل قبول نہیں ہے۔

(قارئین کرام!) یہاں پر اس نکتہ کا ذکر بےجانہ ہوگا جیساکہ ہم حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں پڑھتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانہ کے کچھ بچے

ان کے پاس آئے اور کہا: ”اذہب بنا نلعب“( آؤ چلو آپس میں کھیلتے ہیں) تو جناب یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: ”ما للعب خلقنا“ ( ہم کھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں) اس موقع پر خداوندعالم نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:( وآتَیْنَاهُ الحُکْمَ صَبِیِّاً ) (۳)

البتہ اس چیز پر توجہ رکھنا چاہئے کہ یہاں پر ”کھیل“ سے مراد بیہودہ اوربے فائدہ کھیل مراد ہے ورنہ اگر کھیل سے کوئی منطقی اور عاقلانہ فا ئد ہ ہو تو اس کا حکم جدا ہے۔(۴)

____________________

(۱)سورہ مریم ، آیت ۱۲

(۲) نور الثقلین ،، جلد ۳، صفحہ ۳۲۵

(۳) نور الثقلین ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۵(سورہ مریم، آیت ۱۲)

۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۳، صفحہ ۲۷

۲۸ ۔ وحی کی اسرار آمیز حقیقت کیا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ”وحی“ کی حقیقت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ وحی ایک ایسا”ادراک“ ہے جوہمارے ادراک اور سمجھ کی حد سے باہرہے، بلکہ یہ ایک ایسا رابطہ ہے جوہمارے جانے پہچانے ہوئے ارتباط سے باہر ہے، پس ہم عالم وحی سے اس لئے آشنا نہیں ہو سکتے کہ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

لہٰذاایک خاکی انسان عالم ہستی سے کس طرح رابطہ پیداکرسکتا ہے؟ اور خداوندعالم جو ازلی، ابدی اور ہر لحاظ سے لامحدود ہے کس طرح محدود او رممکن الوجود سے رابطہ برقرار کرتا ہے؟ وحی نازل ہوتے وقت پیغمبر اکرم (ص) کس طرح یقین کرتے تھے کہ یہ رابطہ خدا کی طرف سے ہے؟!

یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینا مشکل ہے، اور اس کے سمجھنے کے لئے زیادہ کوشش کرنا (بھی) بے کار ہے۔

ہم یہاں یہ عر ض کرتے ہیں کہ اس طرح کارابطہ موجود ہے،چنانچہ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اس طرح کے رابطہ کی نفی پر کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ اس کے برخلاف اپنی اس دنیا میں بھی کچھ ایسے راز ہوتے ہیں جن کو ہم بیان کرنے سے عاجز ہیں، اور ان خاص رابطوں کے پیش نظر ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے احساس اور رابطہ کے مافوق بھی احساس، ادراک اور آنکھیں موجود ہیں۔

مناسب ہے کہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال کا سہارا لیا جائے۔

فرض کیجئے کہ ہم کسی ایسے شہر میں زندگی بسر کرتے ہوں جہاں پر صرف اور صرف نابینا لوگ رہتے ہوں (البتہ پیدائشی نابینا ) اوروہاں صرف ہم ہی دیکھنے والے ہوں، شہر کے تمام لوگ”چار حسّ “ والے ہوں (اس فرض کے ساتھ کہ انسان کی پانچ حس ہوتی ہیں)اور صرف ہم ہی ”پانچ حس “والے ہوں، ہم اس شہر میں ہونے والے مختلف واقعات کو دیکھتے ہیں اور شہر والوں کو خبر دیتے ہیں، لیکن وہ سب تعجب کرتے ہیں کہ یہ پانچویں حس کیا چیز ہے،جس کی کارکردگی کا دائرہ اتنا وسیع ہے؟ اور ان کے لئے جس قدر بھی بینائی کے بارے میں بحث و گفتگو کریں تو بے فائدہ ہے، ان کے ذہن میں ایک نامفہوم شکل کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا، ایک طرف سے اس کا انکار بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کے مختلف آثار و فوائد کا احساس کرتے ہیں، دوسری طرف چونکہ بینائی کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں دیکھا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ وحی ”چھٹی حسّ“ کا نام ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا ادارک اور عالم غیب اور ذات خداسے رابطہ ہے جوہمارے یہاں نہیں پایا جاتاہے، جس کی حقیقت کو ہم نہیں سمجھ سکتے، اگرچہ اس کے آثار کی وجہ سے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

ہم تو صرف یہی دیکھتے ہیں کہ صاحب عظمت افراد ایسے مطالب جو انسانی فکر سے بلند ہیں؛ اس کے ساتھ انسانوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو خدا اور دین الٰہی کی طرف بلاتے ہیں، اورایسے معجزات پیش کرتے ہیں جو انسانی طاقت سے بلند و بالاہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عالم غیب سے رابطہ ہے، جس کے آثار واضح و روشن ہیں لیکن اس کی حقیقت مخفی ہے۔

کیا ہم نے اس دنیا کے تمام رازوں کو کشف کرلیا ہے کہ اگر وحی کی حقیقت کو نہ سمجھ سکیں تو اس کا انکار کر ڈالیں؟

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہم حیوانات کے یہاں بعض پُراسرار چیزیں دیکھتے ہیں جن کی تفسیر و توضیح سے عاجز ہیں، مگر مہاجر پرندے جو کبھی کبھی ۱۸۰۰۰/ کلومیٹر کا طولانی سفر طے کرتے ہیں اور قطب شمال سے جنوب کی طرف یا اس کے برعکس جنوب سے شمال کی طرف سفر کرتے ہیں، کیا ان کی پُراسرار زندگی ہمارے لئے واضح ہے؟

یہ پرندے کس طرح سمت کا پتہ لگاتے ہیں اوراپنے راستہ کو صحیح پہچانتے ہیں؟ کبھی دن میں اور کبھی اندھیری رات میں دور دراز کا سفر طے کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم ان کی طرح بغیر کسی وسیلہ اور گائڈ کے ایک فی صدبھی سفر کریں تو بہت جلد راستہ بھٹک جائیں گے، یہ وہ چیز ہے جس کے سلسلہ میں علم و دانش بھی ابھی تک پردہ نہیں اٹھاسکی، اسی طرح بہت سی مچھلیاں دریا کی گہرائی میں رہتی ہیں اور انڈے دینے کے وقت اپنی جائے پیدائش تک چلی جاتی ہیں کہ شاید ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہو، یہ مچھلیاں کس طرح اپنی جائے پیدائش کو اتنی آسانی سے تلاش کرلیتی ہیں؟

ان کے علاوہ اس دنیا میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں جو ہمیں انکار اور نفی سے روک دیتی ہیں،اس جگہ ہمیں شیخ الرئیس ابو علی سینا کا قول یاد آتا ہے ”کْلُّ ما قرَع سمَعکَ مِن الغرائبِ فضعہ فی بقعة لإمکان مالم یذدکَ عنہ قاطعُ البرہانِ“ (اگر کوئی عجیب و غریب چیز سننے میں آئے تو اس کا انکار نہ کرو ، بلکہ اس کے بارے میں یہ کہو کہ ممکن ہے، جب تک کہ اس کے برخلاف کوئی مضبوط دلیل نہ مل جائے!)

منکر ِوحی کی دلیل

جب بعض لوگوں کے سامنے وحی کا مسئلہ آتا ہے تو جلد بازی میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: یہ چیز علم اور سائنس کے برخلاف ہے!

اگر ان سے سوال کیا جائے کہ یہ کہاں علم اور سائنس کے برخلاف ہے؟ تو یقین کے ساتھ اور مغرور لہجہ میں کہتے ہیں :جس چیز کوعلوم طبیعی اور سائنس ثابت نہ کرے تو اس کے انکار کے لئے یہی کافی ہے، اصولی طور پر وہی مطلب ہمارے لئے قابل قبول ہے جو علوم اور سائنس کے تجربوں سے ثابت ہوجائے!!

اس کے علاوہ سائنس کی ریسرچ نے اس بات کو ثابت نہیں کیا ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی حس موجود ہے جس سے ماوراء طبیعت کا پتہ لگایا جاسکے، انبیاء بھی ہماری ہی طرح انسان تھے ان کی اور ہماری جنس ایک ہی ہے، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کے یہاں ایسا احساس اور ادراک پایا جاتا ہو جو ہم میں نہ ہو؟

ہمیشہ کا اعتراض اور ہمیشہ کاجواب مادہ پر ستوں کا اعتراض صرف ”وحی“ کے سلسلہ میں نہیں ہے وہ تو ”ما وراء طبیعت“ کے تمام مسائل کا انکار کرتے رہتے ہیں، اور ہم اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہر جگہ یہی جواب پیش کرتے ہیں:

یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائنس کا دائرہ ،صرف(مادی ) دنیا تک ہے ، اور سائنس کی بحث و گفتگو کا معیار اور آلات :لیبریٹری ، ٹلسکوپ، میکرواسکوپ وغیرہ ہیں اور اسی دائرے میں گفتگو ہوتی ہے، سائنس ان معیار اور وسائل کے ذریعہ ”جہان مادہ“ کے علاوہ کوئی بات نہیں کہہ سکتی نہ کسی چیز کو ثابت کرسکتی ہے اور نہ کسی چیز کا انکار کرسکتی ہے، اس بات کی دلیل بھی روشن ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام وسائل محدود اور خاص دائرے سے مخصوص ہیں۔

بلکہ علم و سائنس کے مختلف آلات کسی دوسرے علم میں کارگر نہیں ہوسکتے، مثال کے طور پر اگر ”سِل“ کے جراثیم کو بڑی بڑی نجومی ٹلسکوپ کے ذریعہ نہ دیکھا جاسکے تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اگر ”پلوٹن“ ستارے کو میکروسکوپ اور ذرہ بین کے ذریعہ نہ دیکھا جاسکے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے!!

کسی چیز کی پہچان اور شناخت کے لئے اسی علم کے آلات اوروسائل ہونا ضروری ہے، لہٰذا ”ماوراء طبیعت“ کی پہچان کے صرف عقلی دلائل ہی کارگر ہوسکتے ہیں جن کے ذریعہ اس عظیم دنیا کے راستے ہمارے لئے کھل جاتے ہیں۔

جو افراد علم کو اس کی حدود سے خارج کرتے ہیں وہ نہ عالم ہیں اور نہ فیلسوف، یہ لوگ صرف دعو یٰ کرتے ہیں حالانکہ خطاکار اور گمراہ ہیں۔ہم صرف یہی دیکھتے ہیں کہ کچھ عظیم انسان آئے اور ہمارے سامنے کچھ مطالب بیان کئے، جو نوع بشر کی طاقت سے باہر تھے، جس کی بنا پر ہم سمجھ گئے کہ ان کا ”ماوراء طبیعت“ سے رابطہ ہے، لیکن یہ رابطہ کیسا ہے؟ یہ ہمارے لئے بہت زیادہ اہم نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ ہاں اس طرح کا رابطہ موجود ہے۔(۱)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۴۹۶

۲۹ ۔ کیا پیغمبر اکرم (ص) امّی تھے؟

”اُمّی“ کے معنی میں تین مشہور احتمال پائے جاتے ہیں: پہلا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے سبق نہ پڑھا ہو، دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس کی جائے پیدائش مکہ ہو اور مکہ میںظاہر ہوا ہو، اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے قوم او رامت کے درمیان قیام کیا ہو، لیکن سب سے زیادہ مشہور و معروف پہلے معنی ہیں، جو استعمال کے موارد سے بھی ہم آہنگ ہیں، اور ممکن ہے تینوں معنی باہم مراد ہوں۔

اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کہ”پیغمبر اکرم (ص)کسی مکتب اور مدرسہ میں نہیں گئے “اور قرآن کریم نے بھی بعثت سے پہلے آنحضرت (ص) کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے:( وَمَا کُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ کِتَابٍ وَلاََتخُطُّهُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ) (۱)

”اور اے پیغمبر! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہ میں پڑجاتے“۔

یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت پورے حجاز میں پڑھے لکھے لوگ اتنے کم تھے کہ ان کی تعداد انگشت شمار تھی اور سبھی ان کوجا نتے تھے، مکہ میں جو حجاز کا مرکز شمار کیا جاتا تھا لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد ۱۷/ سے زیادہ نہیں تھی اور عورتوں میں صرف ایک عورت پڑھی لکھی تھی۔(۲)

ایسے ماحول میں اگر پیغمبر اکرم (ص) نے کسی استاد سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو یقینی طور پریہ بات مشہور ہوجاتی، بالفرض اگر (نعوذ باللہ) آنحضرت (ص)کی نبوت کو قبول نہ کریں، تو پھر آپ اپنی کتاب میں اس موضوع کی نفی کیسے کرسکتے تھے؟ کیا لوگ اعتراض نہ کرتے کہ تم نے تعلیم حاصل کی ہے، لہٰذا یہ بہترین شاہدہے کہ آپ نے کسی کے پاس تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔

بہر حال پیغمبر اکرم (ص) میں اس صفت کا ہونا نبوت کے اثبات کے لئے زیادہ بہتر ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس شخص نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو وہ اس طرح کی عمدہ گفتگوکرتا ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آنحضرت (ص) کا خداوندعالم اور عالم ماوراء طبیعت سے واقعاً رابطہ ہے۔

یہ آنحضرت (ص) کی بعثت نبوت سے پہلے، لیکن بعثت کے بعد بھی کسی تاریخ نے نقل نہیں کیا کہ آپ نے کسی کے پاس لکھناپڑھنا سیکھا ہو، لہٰذا معلوم یہ ہو ا کہ آپ اولِ عمر سے آخر ِعمر تک اسی ”اُمّی“ صفت پر باقی رہے۔

لیکن یہاں پر سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے معنی جاہل ہونا نہیں ہے، اور جو لوگ لفظ ”اُمّی“ کے جاہل معنی کرتے ہیں وہ اس فرق کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔

اس بات میں کوئی مانع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) تعلیم الٰہی کے ذریعہ ”پڑھنا“ یا ”پڑھنا اور لکھنا“ جانتے ہوں، بغیر اس کے کہ کسی انسان کے پاس تعلیم حاصل کی ہو، بے شک اس طرح کی معلومات انسانی کمالات میں سے ہیں اور مقام نبوت کے لئے ضروری ہیں۔

حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات اس بات پر بہترین شاہد ہیں، جن میں بیان ہوا ہے : پیغمبر اکرم (ص) لکھنے پڑھنے کی قدرت رکھتے تھے۔(۳)

لیکن ان کی نبوت میں کہیں کوئی شک نہ کرے اس قدرت سے استفادہ نہیں کرتے تھے،اور جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کی طاقت کوئی کمال محسوب نہیں ہوتی، بلکہ یہ دونوں علمی کمالات تک پہنچنے کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ علم واقعی اور کمال حقیقی، تو اس کا جواب بھی اسی میں مخفی ہے کیونکہ کمالات کے وسائل سے آگاہی رکھنا خود ایک واضح کمال ہے۔لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا تصور ہے جس طرح کہ سورہ جمعہ میں بیان ہوا ہے:

( یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَکِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ) (۴) یا اس کے ماننددوسری آیات، اس بات کی دلیل ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کے سامنے لکھی ہوئی کتاب (قرآن) سے پڑھتے تھے، یہ بھی ایک غلط فہمی ہے، کیونکہ تلاوت کے معنی لکھی ہوئی کتاب پڑھنا بھی ہیں اور زبانی طور پر پڑھنا بھی، جو لوگ قرآن، اشعار یا دعاؤں کو زبانی پڑھتے ہیں ان پر بھی تلاوت کا اطلاق بہت زیادہ ہو تا ہے۔(۵)

____________________

(۱) سورہ عنکبوت ، آیت ۴۸

(۲) فتوح البلدان بلاذری ،مطبوعہ مصر، صفحہ ۴۵۹

(۳) تفسیر برہان ، جلد ۴، صفحہ ۳۳۲، سورہ جمعہ کی پہلی آیت کے ذیل میں

(۴) سورہ جمعہ ، آیت ۲”(وہ رسول) انھیں کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“۔

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۰


8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36