110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131633
ڈاؤنلوڈ: 4501

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131633 / ڈاؤنلوڈ: 4501
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۸۸ ۔ خلقت انسان کا مقصد کیا ہے؟

یہ سوال اکثر افراد کے ذہن میں آتا ہے اور بہت سے لوگ یہ سوال کرتے بھی ہیں کہ ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اس دنیا سے چل بستے ہیں اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجاتے ہیں، تو پھر اس آمد و رفت کا مقصد کیا ہے؟۔

اور اگر ہم تمام انسان اس دنیا میں نہ آتے تو کیا خرابی پیش آتی؟ اور کیا مشکل ہوتی؟ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں؟ اور کیوں اس دنیا سے چل بسے ؟ اور اگر ہم اس مقصد کو سمجھنا چاہیں تو کیا ہم میں سمجھنے کی طاقت ہے؟ اس طرح اس سوال کے بعد انسان کے ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

یہ سوال جب مادیوں کی طرف سے کیا جائے تو ظاہراً کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ”مادہ“ عقل و شعور نہیں رکھتا اسی وجہ سے انھوں نے اپنے کو آسودہ خاطر کرلیا ہے اور اس بات کے قائل ہیں کہ ہماری خلقت کا کوئی مقصد نہیں ہے! اور واقعاً کس قدر تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے ہدف او رمقصد معین کرے اور اپنی زندگی کے لئے منصوبہ بندی کرے مثال کے طور پر تعلیم، کاروبار، ورزش اور علاج وغیرہ کے لئے انسان کا ایک مقصد ہو، لیکن ان تمام کے مجموعہ کو بے ہدف اور بے معنی شمار کیا جائے!

لہٰذا جائے تعجب نہیں ہے کہ جب یہ لوگ اپنی بے معنی اور بے مقصد زندگی کے در پیش مشکلات پر غور کرتے ہیں تو اپنی زندگی سے سیر ہوجاتے ہیں اورخود کشی کرلیتے ہیں۔

لیکن جب ایک خدا پرست انسان یہی سوال خود اپنے سے کرتا ہے تو لاجواب نہیں ہوتا،کیونکہ ایک طرف تو وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کا خالق حکیم ہے لہٰذا اس کی خلقت کا کوئی مقصد ضرور ہوگا اگرچہ ہمیں معلوم نہیں ہے، اور دوسری طرف جب انسان اپنے اعضا وجوارح کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مقصد کے لئے خلق ہوا ہے، نہ صرف دل و دماغ اور اعصاب جیسے اعضا با مقصد خلق کئے گئے ہیں بلکہ ناخن، پلکیں اور انگلیوں کی لکیریں، ہتھیلی اور پیروں کی گہرائی وغیرہ ان سب کا ایک فلسفہ ہے جن کے بارے میں آج کل سائنس نے بھی تائیدکی ہے۔

کتنے سادہ فکر لوگ ہیں کہ ان سب چیزوں کے لئے تو ہدف او رمقصد کے قائل ہیں لیکن ان تمام کے مجموعہ کو بے ہدف تصور کرتے ہیں!

واقعاً کس قدر سادہ لوحی ہے کہ ہم ایک شہر کی عمارتوں کے لئے تو منصوبہ بندی اور ہدف کے قائل ہوں لیکن پوری دنیا کوبے مقصد تصور کریں!

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انجینئرکسی عمارت کے کمروں، دروازوں، کھڑکیوں ،ہال اور چمن کے لئے حساب و کتاب کے ساتھ اور خاص مقصد کے لئے بنائے، لیکن ان تمام کے مجموعہ کا کوئی ہدف اور مقصد نہ ہو؟!

یہی تمام چیزیں ایک خدا پرست اور مومن انسان کو اطمینان دلاتی ہیں کہ اس کی خلقت کا ایک عظیم مقصد ہے، جس کے سلسلہ میں کوشش کی جائے اور علم و عقل کے ذریعہ اس مقصد کو حاصل کیا جا ئے۔

عجیب بات تو یہ ہے کہ خلقت کو بے ہدف بتانے والے لوگ سائنس کے سلسلہ میں مختلف نئی چیزوں کے لئے ایک ہدف رکھتے ہیں اور جب تک اس مقصد تک نہیں پہنچ جاتے سکون سے نہیں بیٹھتے ،یہاں تک کہ بدن کے کسی حصے میں ایک غدے کو بے کار اور بے مقصد ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، اور اس کے فلسفہ کے لئے برسوں تحقیق اور آزمائش کرتے ہیں، لیکن جس وقت انسان کی خلقت کی بات آتی ہے تو واضح طور پر کہتے ہیں کہ انسان کی خلقت کا کوئی مقصد نہیں ہے!

واقعاً ان باتوں میں کس قدر تضاد و اختلاف پایا جاتا ہے ؟!

بہر حال،ایک طرف حکمت خدا پر ایمان اور دوسری طرف انسان کے اعضا و جوارح کے فلسفہ پر توجہ، انسان کو یقین کی منزل تک پہنچا دیتی ہیں کہ انسان کی خلقت کا ایک عظیم مقصد ہے۔

اب ہمیں اس ہدف کو تلاش کرنا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو اس ہدف کو معین کریں اور اس راستہ میں قدم بڑھائیں۔

ایک بنیادی نکتہ پر توجہ کرنے سے ہمیں راستہ میں روشنی ملتی ہے ۔

ہم ہمیشہ اپنے کاموں میں ایک ہدف اور مقصد رکھتے ہیں،عام طور پر یہ ہدف ہماری کمیوں کو ختم اور ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، یہاں تک کہ اگر کسی پریشاں حال کی مدد کرتے ہیں یا اس کو مشکلات سے نجات دلاتے ہیں یا اگر کسی کے لئے ایثار و قربانی کرتے ہیں تو یہ بھی ایک طرح سے معنوی خامیوں کو بر طرف کرنے کے لئے ہے،جن سے ہماری روحانی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔

اور چونکہ خداوندعالم کی صفات اور اس کے افعال کو معمولاًہم اپنے سے مو ازنہ کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ تصور ذہن میں آسکتا ہے کہ خدا کے پاس کیا چیز کم تھی جو انسان کی خلقت سے پوری ہوجاتی؟! اور اگر قرآنی آیات میں پڑھتے ہیں کہ انسان کی خلقت کا ہدف عبادت خداوندی ہے، تو اسے ہماری عبادت کی کیا ضرورت تھی؟

حالانکہ یہ طرز فکر اسی وجہ سے ہے کہ صفاتِ خالق کو صفاتِ مخلوق اور صفات واجب الوجود کا ممکن الوجود سے مو ازنہ کرتے ہیں۔

ہمارا وجود چونکہ محدود ہے تو اپنی کمی اور خامی کو دور کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور ہمارے اعمال بھی اسی راہ کا ایک قدم ہوتے ہیں، لیکن ایک نا محدود وجود کے لئے یہ معنی ممکن نہیں ہے، لہٰذا اس کے افعال کے مقصد کواس کے وجود کے علاوہ تلاش کریں۔

وہ چشمہ فیاض اور ایسا نعمت آفرین مبدا ہے جس نے تمام موجوادت کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے رکھی ہے اور ان کی پرورش کرتا ہے، ان کی کمی اور خامی کو دور کرتا ہے اور کمال کی منزل پر پہنچانا چاہتا ہے، اور یہی عبادت اور بندگی کا حقیقی ہدف اور مقصدہے، اور یہی عبادات اور دعا کا فلسفہ ہے جو ہماری تربیت اور تکامل و ترقی کے لئے ایک درس گاہ ہے۔

لہٰذا ہم یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ ہماری خلقت کا مقصد ہماری ترقی اور کمال ہے۔

بنیادی طور پر اصل خلقت ایک عظیم الشان تکاملی و ارتقائی قدم ہے، یعنی کسی چیز کو عدم سے وجود کی منزل تک لانا، اور نیستی سے ہستی کے مرحلہ میں لانا اور صفر سے عدد کے مرحلہ تک پہچانا ہے۔

اور اس عظیم مرحلہ کے بعد کمال و ترقی کے دوسرے مراحل شروع ہوتے ہیں اور تمام دینی احکام و قوانین اسی راستہ میں قرار پاتے ہیں۔(۱)

____________________

(۱)تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۳۸۹

۸۹ ۔ کیا انسان کی سعادت اور شقاوت ذاتی ہے؟

قرآن مجید کے سورہ ہود میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

( یَوْمَ یَات لَاتُکَلَّمُ نَفْسٌ إِلاّٰبِإذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَ سَعِیْدٌ ) (۱)

”اس کے بعد جب وہ دن آجا ئے گا توکو ئی شخص بھی اذن خدا کے بغیر کسی سے بات بھی نہ کر سکے گا اس دن کچھ بد بخت ہو ں گے اور کچھ نیک بخت “

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آیت انسانی سعادت اور شقاوت کے ذاتی ہونے پر دلیل نہیں ہے؟

یہاں پر چند نکات پر توجہ کرنا چاہئے:

۱ ۔ بعض افراد نے مذ کورہ آیت سے انسان کی سعادت و شقاوت کے ذاتی ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ مذکورہ آیت نہ صرف اس امر پر دلالت نہیں کرتی بلکہ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ سعادت و شقاوت اکتسابی ہیں کیونکہ فرمایاگیا :”فا ما الذین شقوا “یعنی وہ شقی ہوئے اسی طرح فرمایا گیا ہے :”اٴمَّا الذِّیْنَ سَعَدُوا “ یعنی وہ لو گ جو سعادت مند ہوئے،اگر شقا وت و سعا د ت ذاتی ہو تیں تو کہنا چا ہئے تھا ”اماالا شقیا ء واما السعد اء “، یا ایسی ہی کوئی اور عبارت ہو تی ۔

اس سے واضح ہو جا تاہے کہ فخر الدین رازی کی یہ بات بالکل بے بنیاد ہے جو اس نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:ان آیات میں خدا ابھی سے یہ حکم لگا رہا ہے کہ قیا مت میں ایک گروہ سعادت مند ہو گا اورایک شقاوت مند ہو گا اور جنہیں خدا ایسے حکم سے محکو م کرتا ہے اور جانتا ہے کہ آخر کار قیا مت میں سعید یا شقی ہوں گے، محال ہے کہ وہ تبدیل ہو جا ئیں ورنہ خدا کا جھو ٹی خبر دینا لازم آئے گااور اس کا علم، جہالت میں تبدیل ہو جائے گاجبکہ یہ محال ہے۔

یہ مسئلہ جبر و اختیار میں”علم خدا“کے حوالے سے مشہور اعتراض ہے کہ جس کا جواب ہمیشہ دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم اپنے خود ساختہ افکار کو آیات پر حمل نہ کریں تو ان کے مفا ہیم روشن اور وا ضح ہیں ،یہ آیات کہتی ہیں کہ اس دن ایک گروہ اپنے کردار کے باعث شقی ہوگا اور خدا جانتا ہے کہ کون سے افراد اپنے کردار، خواہش اور اختیار سے سعادت کی راہ اپنائیں گے اور کونسے اپنے ارادہ سے راہ شقاوت پر گامزن ہوں گے، اس بنا پر اگر اس کے کہنے کے برخلاف لوگ یہ راہ منتخب کرنے پر مجبور ہوں تو علم خدا جہل ہوجائے گا کیونکہ سب کے سب اپنے ارادہ و اختیار سے اپنی راہ انتخاب کریں گے۔

ہماری گفتگو کی دلیل یہ ہے کہ مذکورہ آیات گزشتہ قوموں کے واقعات کے بعدنازل ہوئی ہیں، ان واقعات کے مطابق ان لوگو ں کی بڑی تعداد اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے، حق و عدالت کے راستہ سے منحرف ہو نے کے باعث، شدید اخلاقی مفاسد کے سبب اور خدائی رہبروں کے خلاف جنگ کی وجہ سے اس جہان میںدرد ناک عذابوں میں مبتلاہوئی، یہ واقعات قرآن نے ہماری تربیت و رہنمائی کے لئے، راہ حق کو باطل سے جدا کرکے نمایاں کرنے کے لئے اور راہ سعادت کو راہ شقاوت سے جدا کرکے دکھانے کے لئے بیان کئے ہیں۔

اصولی طور پر جیسا کہ فخر رازی اور اس کے ہم فکر افراد خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم پر ذاتی سعادت و شقاوت کا حکم نافذ ہو اور ہم بغیر ارادہ و اختیار کے برائیوں اور نیکیوں کی طرف کھینچے جائیں تو تعلیم و تربیت لغو اور بے فائدہ ہو گی،انبیا ء کی بعثت ،کتب آسمانی کا نزول، پند و نصیحت، تشویق و توبیخ، سرزنش و ملامت مواخذہ و سوال غرض یہ سزا و جزا سب کچھ بے فائدہ یا ظالمانہ امور شمارہوں گے۔

انسان کو نیک و بد کی انجام دہی میں مجبور سمجھنے والے ،چاہے اس جبر کو جبر خدائی سمجھیں یا جبر طبیعی، چاہے جبر اقتصادی سمجھیں، یا جبر ماحول، صرف گفتگو اور کتابی دنیا تک اس مسلک کی طرفداری کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ خود بھی ہرگز یہ عقیدہ نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ اگر ان کے حقوق پر تجاوز ہو تو وہ زیادتی کرنے والے کو سرزنش، ملامت اور سزا کا مستحق سمجھتے ہیں اور اس بات کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے کہ اسے مجبور قرار دے کر اس سے صرف نظر کرلیں، یا اس کی سزا کو ظالمانہ خیال کریں یا کہیں کہ وہ یہ کام کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تھا چونکہ خدا نے ایسا ہی چاہا تھا یا ماحول اور طبیعت کا جبر تھا، چنانچہ یہ خود اصل اختیار کے فطری ہونے پر ایک دوسری دلیل ہے ۔

بہر حال ہمیں کوئی جبری مسلک والا ایسا نہیں ملتا جو اپنے روز مرہ کے کاموں میں اس عقیدہ کا پابند ہو بلکہ وہ تمام افراد سے ان کے آزاد، مسئول، جواب دہ اور مختار ہونے کے لحاظ سے ملتا اور پیش آتا ہے، دنیا کی تمام اقوام نے عدالتیں قائم کر رکھی ہیں، قوانین بنائے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں، عملی طور پریہ سب چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ ارادہ کی آزادی اور انسان کے مختار ہونے کو قبول کیا گیا ہے، دنیا کے تمام تربیتی ادارے ضمنی طور پر اس بنیادی نظریہ کو قبول کرتے ہیں کہ انسان اپنے میل و رغبت اور ارادہ و اختیار سے کام کرتا ہے، اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ صرف اس کی رہنمائی کی جاسکتی ہے، اور اسے خطاؤں، غلطیوں اور کج فکریوں سے روکا جاسکتا ہے۔

۲ ۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ آیات میں ”شقوا“ فعل معروف اور ”سعدوا“فعل مجہول کی صورت میں آیا ہے، ہوسکتا ہے کہ تعبیر کا یہ اختلاف شاید اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ انسان راہ شقاوت کو اپنے قدموں سے طے کرتا ہے لیکن راہ سعادت پر چلنے کے لئے جب تک خدائی امداد اور تعاون نہ ہو اور اس راہ میں وہ اس کی نصرت نہ کرے اس وقت تک انسان کامیاب نہیں ہوتا، اس میں شک نہیں ہے کہ یہ امداد اور تعاون صرف ان لوگوں کے شامل حال ہوتا ہے جنھوں نے ابتدائی قدم اپنے ارادہ و اختیار سے اٹھائے ہوں اور اس طرح ایسی امداد کی اہلیت اور صلاحیت پیدا کرلی ہو۔ (غور کیجئے )(۲)

____________________

(۱) سورہ ہود ، آیت ۱۰۵

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۲۳۶

۹۰ ۔ اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟

جیسا کہ ہم قرآن مجید کے سورہ حجرات میں پڑھتے ہیں:( قَالَتِ الْاٴَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا اٴَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ ) (۱) ”یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے“

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟

مذکورہ آیت کے مطابق ”اسلام“ اور ”ایمان“ کا فرق یہ ہے کہ اسلام ظاہری قانون کا نام ہے اور جس نے کلمہ شہادتین زبان پر جاری کرلیا وہ مسلمانوں کے دائرہ میں داخل ہوگیا، اور اسلامی احکامات اس پر نافذ ہوں گے۔

لیکن ایمان ایک واقعی اور باطنی امر ہے، جس کا مقام انسان کا دل ہے نہ کہ اس کی زبان اور اس کا ظاہری چہرہ۔

”اسلام“ کے لئے انسان کے ذہن میں بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں یہاں تک مادی اور ذاتی منافع کے لئے انسان مسلمان ہوسکتا ہے، لیکن ”ایمان“ میں معنوی مقصد ہوتا ہے جس کا سر چشمہ علم و بصیرت ہوتی ہے، اور جس کاحیات بخش ثمرہ یعنی تقویٰ اسی کی شاخوں پر ظاہر ہوتا ہے۔

یہ وہی چیز ہے جس کے لئے پیغمبر اکرم (ص) نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے: ”الإسْلَامُ عَلَانِیَةَ ،وَالإیْمَانُ فِي الْقَلْبِ(۲) ”اسلام ایک ظاہری چیز ہے اور ایمان کی جگہ انسان کا دل ہے“۔

اور ایک دوسری حدیث میںحضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے : ”الإسْلَامُ یُحُقِّنُ بِهِ الدَمُ وَ تُودیٰ بِهِ الاٴمَانَةُ ،وَ تُسْتَحِلُّ بِهِ الفُرُوجِ ،وَالثَّوابُ عَلٰی الإیِمَانِ(۳) ’ ’اسلام کے ذریعہ انسان کے خون کی حفاظت، امانت کی ادائیگی ہوتی ہے اور اسی کے ذریعہ شادی کا جواز اپیدا ہوتا ہے اور(لیکن) ایمان پر ثواب ملتا ہے“۔

اور یہی دلیل ہے کہ کچھ روایات میں ”اسلام“ کا مفہوم صرف لفظی اقرار میں منحصر کیا گیا ہے جبکہ ایمان کو عمل کے ساتھ قرار دیا گیاہے: ”الإیِمَانُ إقَرارٌ وَ عَمَلٌ، وَالإسلامُ إقْرَارُ بِلَا عَمَلٍ(۴) ”ایمان ؛ اقرار و عمل کا نام ہے، جبکہ اسلام، بغیر عمل کے صرف اقرار کا نام ہے“۔

یہی معنی دوسرے الفاظ میں ”اسلام و ایمان“ کی بحث میں بیان ہوئے ہیں، فضل بن یسار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: ”إنَّ الإیِمَانَ یُشَارِکُ الإسْلاَم وَ لا یُشَارِکْهُ الإسْلام ،إنَّ الإیْمَانَ مَا وَقرَ فِی القُلُوبِ، وَالإسْلاَمُ مَا عَلَیْهِ المَنَاکِحَ وَ المَوَارِیث وَ حُقِنَ الدِّمَاءُ(۵) (ایمان ؛ اسلام کے ساتھ شریک ہے، لیکن اسلام؛ ایمان کے ساتھ شریک نہیں ہے، (دوسرے الفاظ میں: ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر

مسلمان مومن نہیں ہے) ایمان؛ انسان کے دل میں ہوتا ہے، لیکن اسلام کی بنا پر نکاح، میراث اور جان و مال کے حفاظتی قوانین جاری ہوتے ہیں۔

اس مفہوم کا فرق اس صورت میں ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک ساتھ استعمال ہوں، لیکن اگر جدا جدا استعمال ہوں تو ممکن ہے کہ اسلام کے وہی معنی ہیں جو ایمان کے لئے ہیں، یعنی دونوں الفاظ ایک ہی معنی کے لئے استعمال ہوں۔(۶)

____________________

(۱)سورہ حجرات ، آیت ۱۴

(۲) مجمع البیان ، جلد ۹، صفحہ ۱۳۸

(۳) کافی ، جلد دوم، ”باب ان الاسلام یحقن بہ الدم“ حدیث ۱و۲

(۴) کافی ، جلد دوم، ”باب ان الاسلام یحقن بہ الدم“ حدیث ۱و۲

(۵) کافی ، جلد دوم ”باب ان الاسلام یحقن بہ الدم“ حدیث ۳

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۲۱۰