110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131593
ڈاؤنلوڈ: 4501

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131593 / ڈاؤنلوڈ: 4501
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۹۱ ۔ جن ّ اور فرشتہ کی حقیقت کیا ہے؟

”جنّ“کی حقیقت (جیسا کہ جن کے لغوی معنی سے معلوم ہوتا ہے کہ) ایک ایسی دکھائی نہ دینے والی مخلوق ہے جس کے لئے قرآن مجید میں بہت سے صفات بیان ہوئے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

۱ ۔ ایک ایسی مخلوق ہے جو آگ کے شعلوں سے پیدا کی گئی ہے، انسان کی خلقت کے برخلاف جو مٹی سے خلق ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے:( وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ ) (۱) ”اور جنات کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا ہے“

۲ ۔ یہ مخلوق علم و ادراک، حق و باطل میں تمیز کرنے اور منطق واستدلال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے(سورہ جن کی مختلف آیات میں اس مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے)

۳ ۔ جنوں پر تکالیف اور ذمہ داریاں ہیں، (سورہ جن اور رحمن کی آیات کا مطالعہ کریں)

۴ ۔ ان میں سے بعض گروہ مومن اور صالح ہیں اور بعض گروہ کافر ہیں:( وَاٴَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِکَ ) (۲) ”اور ہم میں سے بعض نیک کردار ہیں اور بعض اس کے علاوہ ہیں“۔

۵ ۔ ان کا بھی قیامت میں حشر و نشر اور حساب و کتاب ہوگا:( وَاٴَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ) (۳) ”اور نافرمان تو جہنم کے کندے ہوگئے ہیں “۔

۶ ۔ جن آسمانوں میں نفوذ کی قدرت رکھتے ہیں اور دوسروں کی باتوں کو سن لیا کرتے تھے، لیکن بعد میں ان کی یہ قدرت سلب کر لی گئی، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:( وَاٴَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ یَسْتَمِعْ الْآنَ یَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا ) (۴) ”اور ہم پہلے بعض مقامات پر بیٹھ کر باتیں سن لیا کرتے تھے لیکن اب کوئی سننا چاہے گا تو اپنے لئے شعلوں کو تیار پائے گا“۔

۷ ۔جن ؛بعض انسانوں سے رابطہ برقرار کرلیتے ہیں اور بعض محدود اسرار سے مطلع ہونے کے بعد انسانوں کو اغوا کرلیتے ہیں:( وَاٴَنَّهُ کَانَ رِجَالٌ مِنْ الْإِنسِ یَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنْ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا ) (۵) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات کے بعض لوگوں کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انھوں نے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا“۔

۸ ۔ جنوں کے درمیان بہت سے بہت زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، جیسا کہ بعض طاقتور لوگ انسانوں کے درمیان بھی ہوتے ہیں:( قَالَ عِفْریتٌ مِنْ الْجِنِّ اٴَنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ اٴَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِکَ ) (۶) ”جنات میں سے ایک دیو نے کہا کہ میں اتنی جلدی لے آؤں گا کہ آپ اپنی جگہ سے بھی نہ اٹھیں گے “۔

۹۔ جن؛ انسانوں کے بعض ضروری کاموں کو انجام دینے کی طاقت رکھتے ہیں: ( وَمِنْ الْجِنِّ مَنْ یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ یَعْمَلُونَ لَهُ مَا یَشَاءُ مِنْ مَحَارِیبَ وَتَمَاثِیلَ

وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ) (۷) ” اور جنات میں ایسے افراد بنا دئے جو خدا کی اجازت سے ان کے سامنے کام کرتے تھے یہ جنات سلیمان کے لئے جو وہ چاہتے تھے بنا دیتے تھے جیسے محرابیں، تصویریں اور حوضوں کے برابر پیالے اور بڑی بڑی زمین میں گڑی ہوئی دیگیں“۔

۱۰ ۔ زمین پر ان کی خلقت انسانوں کی خلقت سے پہلے ہوچکی تھی:( وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ ) (۸) ”اور جنات کو اس سے پہلے زہیریلی آگ سے پیدا کیا“۔

(قارئین کرام!) ان کے علاوہ بھی جنوں کی دوسری خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔

جبکہ عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ جنات انسانوں سے بہترہیں، لیکن قرآنی آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان ، جنوں سے بہتر ہیں کیونکہ خداوندعالم نے جتنے بھی انبیاء اور مرسلین ہدایت کے لئے بھیجے ہیں وہ سب انسانوں میں سے تھے، اور انھیں میں سے پیغمبر اکرم (ص) بھی ہیں، ان پر جنوں کا ایمان تھا اور آپ کی اتباع و پیروی کی ، اسی طرح شیطان کا جناب آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنا جس کی وضاحت قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے، یہ جنوں کے سرداروں میں سے تھا، (سورہ کہف ، آیت نمبر ۵۰) یہ خود انسان کی فضیلت کی دلیل ہے۔

یہاں تک ان چیزوں کے بارے میں بیان ہوا ہے جو قرآن مجید میں اس دکھائی نہ دینے والی مخلوق کے بارے میں بیان ہوا ہے اور جو ہر طرح کے خرافاتی اور غیر علمی مسائل سے خالی ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ جاہل عوام الناس نے جنوں کے سلسلہ میں بہت سے خرافات گڑھ لئے ہیں جو عقل و منطق سے دور ہیں، اور اسی وجہ سے اس موجود کا ایک خرافاتی اور غیر منطقی چہرہ پیش کیا گیا کہ جس وقت لفظ ”جن“ زبان پر جاری کیا جاتا ہے تو اس کے سلسلہ میں چند خرافاتی چیزیں بھی ذہن میں آتی ہیں، منجملہ:عجیب و غریب اور وحشتناک شکل و صورت، دُمدار اور سُم دار موجود! آزار و اذیت پہچانے والے، حسد و کینہ رکھنے والے اور برا سلوک کرنے والے وغیرہ وغیرہ۔

حالانکہ اگر جنوں کو ان تمام خرافات اور بے بنیاد چیزوںسے الگ رکھا جائے تو اصل مطلب قابل قبول ہے ، کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ موجودات صرف وہی ہیں جس کو ہم دیکھ سکتے ہوں،اس سلسلہ میں علمااور دانشوروں کا کہنا ہے کہ جن موجودات کو ہم اپنے حواس کے ذریعہ درک کرسکتے ہیں وہ ان موجودات کے مقابلہ میں بہت کم ہیں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے۔

ادھر چند سال پہلے تک کہ جب ذرہ بینی موجودات کشف نہیں ہوئی تھی، کسی کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ ایک قطرہ پانی یا ایک قطرہ خون میں ہزاروں زندہ موجودات پائے جاتے ہیں، جن کو انسان دیکھنے سے قاصر ہے۔اور اسی طرح دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہماری آنکھیں محدود رنگوں کو دیکھ سکتی ہیں اور ہمارے کان صرف محدود آواز کو سن سکتے ہیں، جبکہ ہم جن رنگ اور آواز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں، اور ہمارے دائرہ ادراک سے باہر ہیں۔

لہٰذا جب اس دنیا کی یہ حالت ہے تو کونسے تعجب کی بات ہے کہ اس جہان میں دوسری زندہ موجوات بھی ہوں جن کو ہم نہیں دیکھ سکتے، اور اپنے حواس کے ذریعہ درک نہیں کرسکتے، اور جب ایک سچی خبر دینے والے صادق پیغمبر اسلام (ص) نے خبر دی ہے تو پھر ہم اس کو کیوں نہ قبول کریں ؟

بہر حال ایک طرف قرآن کریم جنّات کے بارے میں مذکورہ خصوصیات کے ساتھ خبر دے رہا ہے اور دوسری طرف ان کے نہ ہونے پر کوئی عقلی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے، تو ہمیں قبول کرلینا چاہئے ، اور غلط تاویلات سے پرہیز کرنا چاہئے ، اسی طرح اس سلسلہ میں عوامی خرافات سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔

اس نکتہ پر توجہ کرنا چاہئے کہ کبھی کبھی جنّات کا اطلاق ایک وسیع مفہوم پر ہوتا ہے جن میں نظر نہ آنے والی کئی موجودات شامل ہیں، چاہے ہماری عقل ان کو درک کرے یا نہ کرے، یہاں تک کہ بعض وہ حیوانات جو آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں جو عام طور پر آشیانوں میں چھپے رہتے ہیں، اس وسیع معنی میں داخل ہیں۔اس بات پر پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ایک حدیث شاہد ہے جس میں آنحضرت (ص) نے فرمایا: ”خداوندعالم نے جنوں کی پانچ قسم پیدا کی ہیں، ایک قسم وہ جو ہوا کی طرح دکھائی نہیں دیتے، دوسری قسم سانپ کی طرح، ایک قسم بچھووں کی طرح، ایک قسم زمین کے حشرات اور ایک قسم انسان کی طرح ہے جن کے لئے حساب و کتاب رکھا گیا ہے“۔(۹)

اس روایت اور اس کے وسیع مفہوم کے پیش نظر جنوں کے حوالہ سے بعض روایات اور واقعات میں بیان ہونے والی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔

مثال کے طور پر ہم حضرت علی علیہ السلام سے منقول روایات میں پڑھتے ہیں: ”لاتَشْرِبِ المَاءَ مِن ثلمةِ الإنَاءِ وَلا مِنْ عروَتِهِ فَإنَّ الشَّیْطَانَ یَقعَدُ عَلٰی العُروةِ وَالثلْمَةِ“ ”ٹوٹے ہوئے ظرف یا دستہ کی طرف سے پانی نہ پیو کیونکہ شیطان ٹوٹے ہوئے کنارے اور دستہ کی طرف بیٹھتا ہے۔

چونکہ ”شیطان“ بھی جنّاتمیں سے ہے، اور چونکہ ظرف کا ٹوٹا ہوا حصہ اور دستے کی طرف جراثیم ہوتے ہیں، لیکن بعید از نظر دکھائی دیتا ہے کہ ”جنّات اور شیطان“ ، ”عام معنی“ کے لحاظ اس طرح کی موجودات کو بھی شامل ہوجائے، اگرچہ خاص معنی رکھتے ہیں یعنی (جنّات) ایسی موجود کو کہا جاتا ہے جن کے یہاں فہم و شعور اور ذمہ داری و فرائض ہوتے ہیں۔

اس سلسلہ میں اور بہت سی روایات موجود ہیں۔(۱۰)(۱۱)

فرشتہ کی حقیقت :

جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ بہت سے مقامات پر ملائکہ اور فرشتوں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ملائکہ کی صفات، خصوصیات ،ان کے کام اور ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں یہاں تک کہ ملائکہ پر ایمان رکھنے کو؛ خدا، انبیاء اور آسمانی کتابوں کی صف میں قرار دیا گیا ہے، جو اس مسئلہ کی اہمیت کی دلیل ہے:( آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلاَئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ ) (۱۲)

”رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر نازل کی گئی ہیں اور سب مومنین بھی اللہ اور ملائکہ اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں“۔

بے شک فرشتوں کا وجود ”غیبی“ چیزوں میں سے ہے جن کو ان صفات اور خصوصیات کے ساتھ پہچاننے کے لئے صرف قرآن و روایات ہی کو دلیل بنایا جاسکتا ہے، اور غیب پر ایمان لانے کے حکم کی وجہ سے ان کو قبول کیا جانا چاہئے۔

۱ ۔ فرشتے ؛ صاحب عقل و شعور اور خدا کے محترم بندے ہیں، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:( بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُوْنَ ) (۱۳) ” بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہیں“۔

ملائکہ؛ خداوندعالم کے حکم کی فوراً اطاعت کرتے ہیں اور کبھی بھی اس کی معصیت نہیں کرتے:( لاٰ یَسْبَقُوْنَهُ بِالْقُوْلِ وَهُمْ بِاٴَمْرِهِ یَعْمَلُوْنَ ) (۱۴) ”جو کسی بات پر اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اس کے احکام پر برابر عمل کرتے ہیں“۔

۳ ۔ ملائکہ؛ خداوندعالم کی طرف سے مختلف قسم کی بہت سی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں:

ایک گروہ ؛ عرش کو اٹھائے ہوئے ہے۔ (سورہ حاقہ ، آیت ۱۷)

ایک گروہ ؛ مدبرات امر ہے۔ (سورہ نازعات ، آیت ۵)

ایک گروہ ؛ قبض روح کرتا ہے۔ (سورہ اعراف ، آیت ۳۷)

ایک گروہ ؛ انسان کے اعمال کا نگراں ہے۔ (سورہ انفطار ، آیت ۱۰ تا ۱۳)

ایک گروہ ؛ انسان کو خطرات اور حوادث سے محفوظ رکھتا ہے۔ (سورہ انعام ، آیت ۶۱) ایک گروہ؛ سرکش اقوام پر عذاب نازل کرتا ہے۔ (سورہ ہود ، آیت ۷۷) اور ایک گروہ ؛ جنگوں میں مو منین کی امداد کرتا ہے ۔(سورہ احزاب ، آیت ۹) اور بعض گروہ انبیاء علیہم السلام پر وحی اور آسمانی کتابیں نازل کرنے والے ہیں۔ (سورہ نحل، آیت ۲)

کہ اگر ہم ان کے ایک ایک کام اور ذمہ داری کو شمار کرنا چاہیں تو بحث طولانی ہوجائے گی۔

۴ ۔ ملائکہ؛ ہمیشہ خداوندعالم کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَالْمَلاَئِکَةُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِی الْاٴَرْض ) (۱۵)

”اور ملائکہ بھی اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں استغفار کر رہے ہیں“۔

۵ ۔ان تمام چیزوں کے باوجود انسان استعداد اور تکامل و ترقی کے لحاظ سے ان سے بلند و برتر ہے یہاں تک کہ سب فرشتوں نے جناب آدم کو سجدہ کیا اور جناب آدم علیہ السلام ان کے معلم قرار پائے۔ (سورہ بقرہ ، آیت ۳۰ تا ۳۴)

۶ ۔ ملائکہ؛ کبھی کبھی انسان کی صورت میں آجاتے ہیں اور انبیاء بلکہ غیر انبیاء کے سامنے ظاہر ہوجاتے ہیں، جیسا کہ سورہ مریم میں پڑھتے ہیں:( فَاٴَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا ) (۱۶) ”تو ہم نے اپنی روح(جبرا ئیل) کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک اچھا خاصا آدمی بن کر پیش ہوا“۔

ایک دو سرے مقام پر جنا ب ابراہیم اور جناب لوط کے سامنے انسانی صورت میں آئے۔ (سورہ ہود ، آیت ۶۹ و ۷۷)

یہاں تک کہ درج ذیل آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط نے ان کو انسانی شکل و صورت میں دیکھا تھا۔ (سورہ ہود ، آیت ۷۸)

کیا انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہونا ایک حقیقت ہے؟ یا صرف خیالی اور سمجھنے کی حد تک؟ قرآن مجید کی آیات سے پہلے معنی ظاہر ہوتے ہیں، اگرچہ بعض مفسرین نے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں۔

۷ ۔ اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ کسی بھی انسان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں پڑھتے ہیں: جس وقت امام علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ فرشتوں کی تعداد زیادہ ہے یا انسانوں کی؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”قسم اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، زمین میں مٹی کے ذرات سے کہیں زیادہ آسمان میں فرشتوں کی تعداد ہے، آسمان میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر کسی فرشتہ نے خداوندعالم کی تسبیح و تقدیس نہ کی ہو“۔(۱۷)

۸ ۔ وہ نہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ پانی پیتے ہیں، اور نہ ہی شادی کرتے ہیں، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہو اہے: ”فرشتے نہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ پانی پیتے ہیں اور نہ ہی شادی کرتے ہیں بلکہ نسیم عرش الٰہی کی وجہ سے زندہ ہیں“۔(۱۸)

۹ ۔ وہ نہ سوتے ہیں ،نہ سستی اور غفلت کا شکار ہوتے ہیں، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہو اہے ”ان میں سستی ہے اور نہ غفلت، اور وہ خدا کی نافرمانی نہیں کرتے ان کو نیند بھی نہیں آتی ان کی عقل کبھی سہو و نسیان کا شکار نہیں ہوتی، ان کا بدن سست نہیں ہوتا، اور وہ صلب پدر اور رحم مادر میں قرار نہیں پاتے۔(۱۹)

۱۰ ۔ ان کے مختلف مقامات اور مختلف درجات ہوتے ہیں، ان میں بعض ہمیشہ رکوع میں رہتے ہیں اور بعض ہمیشہ سجدہ کی حالت میں:

( وَمَا مِنَّا إِلاَّ لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّون وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ) (۲۰)

”اور ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک مقام معین ہے اور ہم اس کی بارگاہ میں صف بستہ کھڑے ہونے والے ہیں اور ہم اس کی تسبیح کرنے والے ہیں“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوندعالم نے کچھ فرشتوں کو ایسا خلق کیا ہے جو روز قیامت تک رکوع میں رہیں گے اور بعض فرشتے ایسے ہیں جوقیامت تک سجدہ کی حالت میں رہیں گے۔۲۱)(۲۲)

اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ تمام فرشتے ان تمام اوصاف کے ساتھ مجرد موجود ہیںیا مادی؟! اس میں شک نہیں ہے کہ یہ تمام صفات کسی مادی عنصر کے نہیں ہوسکتے، لیکن ان کے ”لطیف اجسام “سے پیدا ہونے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے، جو اس معمولی مادہ سے مافوق ہو۔

فرشتوں کے لئے ”مطلق طور پر مجرد“ یہاں تک کہ زمان ومکان اور اجزا سے بھی مجرد ہونے کا اثبات کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس سلسلہ میں تحقیق کرنے کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہم فرشتوں کو قرآن میں بیان ہوئے اوصاف کے ذریعہ پہچانیں، اور ان کو خداوندعالم کی بلند و بالا مخلوق مانیں، اور ان کے لئے صرف مقام بندگی و عبادت کے قائل ہوں،اور ان کو خداوندعالم کے ساتھ خلقت یا عبادت میں شریک نہ مانیں، اور اگر کوئی ان کو شریک مانے گا تو یہ شرک اور کفر ہوگا۔

فرشتوں کے سلسلہ میں ہم اتنی بحث و گفتگو کو کافی سمجھتے ہیں اور تفصیلی بحث کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کامطالعہ فرمائیں۔ توریت میں بہت سے مقامات پر فرشتوں کو ”خدا“ کہا گیا ہے جو نہ صر ف یہ کہ شرک ہے بلکہ اس وقت کی توریت میں تحریف کی دلیل ہے، لیکن قرآن مجید اس طرح کے الفاظ سے پاک و منزہ ہے، کیونکہ قرآن میں صرف ان کے لئے مقام بندگی، عبادت اور حکم خدا کی تعمیل کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانِ کامل کا درجہ فرشتوں سے بلند و بالا ہے۔(۲۳)

____________________

(۱) سورہ رحمن ، آیت ۱۵ (۲) سورہ جن ، آیت ۱۱ (۳) سورہ جن ، آیت ۱۵

(۴)سورہ جن ، آیت ۹

(۵)سورہ جن ، آیت ۶

(۶) سورہ نمل ، آیت ۳۹

(۷) سورہ سبا، آیت ۱۲۔۱۳ (۸) سورہ حجر ، آیت ۲۷(۹) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۱۸۶(مادہ جن)

(۱۰) کتاب ”کافی“، جلد ۶، صفحہ ۳۸۵ ،() کتاب الاطعمة والاشربة،باب الاوانی،حدیث۵

(۱۱) اولین درسگاہ آخرین پیامیر ، جلد اول میں تقریبا ً۲۳ روایتیں اس سلسلہ میں بیان ہوئی ہیں

(۱۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۵، صفحہ ۱۵۴

(۱۳) سورہ بقرہ ، آیت ۲۸۵ (۱۴) سورہ انبیاء ، آیت ۲۶

(۱۵) سورہ انبیاء ، آیت ۲۷

(۱۶) سورہ شوریٰ ، آیت ۵(۱۷) سورہ مریم ، آیت ۱۷(۱۸) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۶ (حدیث ۷) ، اس کے علاوہ اور بہت سی دوسری روایتیں اس بارے میں نقل ہوئی ہیں (۱۹) بحار الانوار، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۴ (حدیث ۴)

۱۹) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۵

(۲۰) سورہ صافات ، آیت ۱۶۴۔ ۱۶۶

(۲۱) بحار الانوار ، جلد۵۹، صفحہ ۱۷۴

(۲۲)ملائکہ کے اوصاف اور ان کی اقسام کے سلسلہ میں کتاب ”السماء و العالم“، بحار الانوار ”ابواب الملائکہ“ (جلد ۵۹ صفحہ ۱۴۴ تا ۳۲۶ پر رجوع فرمائیں، اسی طرح نہج البلاغہ خطبہ نمبر ا، ۹۱، ۱۰۹، ۱۷۱ /پر رجوع فرمائیں

(۲۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۸، صفحہ ۱۷۳

۹۲ ۔ رجعت کیا ہے اور کیا اس کا امکان پایا جاتا ہے؟

”رجعت“ ؛ شیعوں کا معروف عقیدہ ہے اور ایک مختصر جملہ میں اس کے معنی یہ ہیں: ”امام زمانہ (ع) کے ظہور کے بعد اور روز قیامت سے پہلے ”خالص مومنین“ کا ایک گروہ اور ”کفار اور بہت سرکش و شریر لوگوں کا ایک گروہ“ اس دنیا میں لوٹایا جائے گا، پہلا گروہ (یعنی مومنین) کمال کی منزلوں کو طے کرے گا اور دوسرا گروہ بہت سخت سزا پائے گا“۔

جلیل القدر شیعہ عالم دین ”سید مرتضی“ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”امام مہدی (ع) کے ظہور کے بعد خداوندعالم بہت سے لوگوں کو مر نے کے بعد پھر اس دینا میں پلٹائے گا، تاکہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی مدد کا افتخار اور ثواب حاصل کریں ، عالمی حکومت حق (و عدالت) میں شریک ہوں، اور اسی طرح سخت ترین دشمنوں کو بھی اس دنیا میں لوٹا ئے گا تاکہ ان سے انتقام لیا جاسکے۔

اس کے بعد موصوف مزید بیان کرتے ہیں: اس عقیدہ کے صحیح ہونے پر دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی عاقل اس کام پر خدا کی قدرت سے انکار نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ مسئلہ کوئی محال کام نہیں ہے، حالانکہ ہمارے بعض مخالفین اس موضوع کا اس طرح انکار کرتے ہیں کہ گویا یہ کام محال اور غیر ممکن ہے۔

اس کے بعدسید بزر گوار فرماتے ہیں: اس عقیدہ کی دلیل” فرقہ امامیہ کا اجماع“ ہے، کیونکہ اس عقیدہ میں کسی نے بھی مخالفت نہیں کی ہے۔(۱)

اگرچہ بعض قدیم شیعہ علمااور اسی طرح مرحوم طبرسی صاحب مجمع البیان کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بہت ہی کم شیعہ علمانے اس عقیدہ کی مخالفت کی ہے، اور ”رجعت“ کے معنی ”حکومت اہل بیت علیہم السلام کی بازگشت “کئے ہیں، نہ لوگوں کی بازگشت اور مردوں کا زندہ ہونا، لیکن ان افراد کی مخالفت کچھ اس طرح ہے جس سے اجماع پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہاں پر بہت سی بحثیں ہیں لیکن ہم ان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ بے شک اس دنیا میں مردوں کا زندہ ہونا کوئی محال کام نہیں ہے، جیسا کہ قیامت میں تمام انسانوں کا زندہ ہونا مکمل طور پر ممکن ہے، اور اس (رجعت) پر تعجب کرنا گویا زمانہ جاہلیت میں قیامت کے مسئلہ پر تعجب کی طرح ہے ، اس کا مذاق اڑانا، مشرکین کا قیامت کے مذاق اڑانے کی طرح ہے ،کیونکہ عقل اس طرح کے کام کو محال نہیں مانتی، اور خدا کی وسیع قدرت کے سامنے یہ کام بہت آسان ہے۔

۲ ۔ قرآن مجید میں اجمالی طور پر گزشتہ امتوں کے پانچ مواقع پر ”رجعت“ کا واقعہ پیش آیا ہے۔

الف۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ایک بنی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: یا اس بندہ (نبی) کی مثال جس کا گزر ایک قریہ سے ہوا جس کے سارے ستون اور چھتیں گرچکی تھیں تو اس بندہ نے کہا کہ خداان سب کو موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا؟ تو خدا نے اس بندہ کو سو سال کے لئے موت دیدی اور پھر زندہ کیا او ر پوچھا کہ کتنی دیر پڑے رہے؟ تو اس نے کہا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم، فرمایا: نہیں، سو سال، ذرا اپنے کھانے اور پینے کو تو دیکھو کہ خراب تک نہیں ہوا اور اپنے گدھے پر نگاہ کرو (کہ سڑ گل گیا ہے) اور ہم اسی طرح تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں(سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۹)

اس نبی کا نام عزیر تھا یا کچھ اور ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ وہ موت کے بعد اسی دنیا میں دوبارہ زندہ ہوئے۔( فَاٴَمَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ )

ب۔ قرآن کریم کے سورہ بقرہ میں ان لوگوں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے: ”جو ہزاروں کی تعداد میں موت کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل پڑے (اور بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہ لوگ طاعون کی بیماری کا بہانہ بنا کر میدان جہاد میں جانا نہیں چا ہتے تھے )اور خدا نے انھیں موت کا حکم دیدیا اور پھر زندہ کردیا:( فَقَالَ لَهُمْ اللهُ مُوتُوا ثُمَّ اٴَحْیَاهُمْ ) (۲)

اگرچہ اس غیر معمولی واقعہ کو ہضم نہ کرنے والے مفسرین نے اس کو صرف ایک مثال شمار کیا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے الفاظ؛ ظہور بلکہ آیت کی صراحت کے مقابل ، قابل قبول نہیں ہیں۔

ج۔ سورہ بقرہ کی آیات میں ”بنی اسرائیل“ کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ دیدار خدا کے تقاضا کے بعد ان لوگوں پر ہلاک کرنے والی بجلی گری اور وہ لوگ مرگئے، اس کے بعد خدا نے ان کو زندہ کیا تاکہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں:( ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ) (۳) ” پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندہ کردیا کہ شاید اب شکر گزار بن جاؤ“۔

د۔ سورہ مائدہ ، آیت نمبر ۱۱۰ میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو شمار کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے:( وَإذَا تَخْرجُ المَوتٰی بِاذنِي ) ”تم مردوں کو میرے حکم سے زندہ کرتے تھے“۔

یہ الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اپنے اس معجزہ (یعنی مردوں کو زندہ کرنے) سے فائدہ اٹھاتے تھے، بلکہ آیت میں ”تخرج“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو تکرار پر دلیل ہے اور یہ خود رجعت کی ایک قسم شمار ہوتی ہے۔

ھ۔ اور آخر ی موقع سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۷۳ میں بنی اسرائیل کے مقتول کے بارے میں بیان ہوا کہ جب بنی اسرائیل میں اس کے قاتل کی پہچان کےسلسلہ میں اختلاف ہوا، چنا نچہ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے:( فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا کَذَلِکَ یُحْیِ اللهُ الْمَوْتَی وَیُرِیکُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ) ”تو ہم نے کہا کہ مقتول کو گائے کے ٹکڑے سے مس کردو ،خدا اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے“۔

ان پانچ موارد کے علاوہ قرآن مجید میں اور دیگر واقعات ملتے ہیں جیسا کہ اصحاب کہف کا واقعہ جو تقریباً ”رجعت“ سے مشابہ ہے، اسی طرح جناب ابراہیم علیہ السلام کا چار پرندوں کو ذبح کرنا اور ان کا دوبارہ زندہ ہونا، تاکہ انسانوں کے لئے قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کا تصور مجسم ہوجائے، یہ واقعہ بھی رجعت کے سلسلہ میں قابل توجہ ہے۔

اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی قرآن مجید پر ایک آسمانی کتاب کے عنوان سے عقیدہ رکھتا ہو،لیکن ان تمام آیات کے پیش نظر رجعت کے امکان کا منکر ہوجائے؟ کیا رجعت کے معنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے علاوہ کچھ اور ہیں؟

کیا اسی دنیا میں قیامت کا ایک نمونہ رجعت نہیں ہے؟

جو شخص قیامت کو اس کی تفصیل کے ساتھ مانتا ہے تو پھر ایسے شخص کے لئے رجعت کا انکار کرنا یا اس کا مذاق اڑانا یا احمد امین مصری کی طرح کتاب ”فجر الاسلام“ میں کہنا کہ ”الیَھُودِ یَّةُ ظَھرَتْ بِالتَّشیُّعْ بِالقُولِ بِالرَّجْعَةِ“(۴) ”یہودیت کا ایک دوسرا رخ شیعوں کے لباس میں ”رجعت“ کے عقیدہ کے ساتھ ظاہر ہوا ہے“واقعا ً جائے تعجب ہے ۔

احمد امین کے اس قول اور دور جاہلیت کے مشرکین کے جسمانی معاد کے انکار میں کیا فرق ہے ؟!

۳ ۔ یہاں تک جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے ”رجعت“ کا ممکن ہونا ثابت ہوجاتا ہے، اور رجعت کے واقع ہونے کی تائید کر نے والی بہت سی روایات ہیں جن کو ائمہ معصومین علیہم السلام سے بہت سے موثق راویوں نے نقل کیا ہے، اور چونکہ ہم یہاں پر ان تمام کو نقل نہیں کرسکتے ، لیکن صرف ان کے اعدادو شمار کو نقل کرتے ہیں جیسا کہ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں:

”کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اہل بیت علیہم السلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہو لیکن رجعت کے بارے میں متواتر احادیث کو قبول نہ کرے؟ بہت ہی واضح احادیث جن کی تعداد تقریباً دو سو ہے اور تقریباً چالیس موثق راویوں اور علمانے نقل کی ہیں ،اور پچاس سے زیادہ کتابوں میںوارد ہوئی ہیں اگر یہ حدیث متواتر نہیں ہے تو پھر کون سی حدیث متواتر ہو سکتی ہے؟!(۵)(۶)

رجعت کا فلسفہ

اسلامی روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رجعت سب لوگوں کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ اعمال صالحہ انجام دینے والے مومنین کے لئے ہے جو ایمان کے بلند درجہ پر فائز ہیں، اور اسی طرح ان ظالم و سرکش کفار کے لئے ہے جو کفر و ظلم میں غرق ہیں۔

ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ زندگی مومنین کے لئے کمال کے درجات حاصل کرنے کے لئے ہے اور دوسرے گروہ کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ وہ مخلص مومنین جو معنوی کمال حاصل کرنے میں موانع اور مشکلات سے دوچار ہوگئے تھے اور ان کی معنوی ترقی نامکمل رہ گئی تھی تو حکمت الٰہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسے مومنین کودوبارہ زندگی دی جائے اور وہ کمال کی منزلوں کو مکمل کریں، حق و عدالت کی عالمی حکومت کو دیکھیں، اور اس حکومت میں شریک ہوں کیونکہ ایسی حکومت میں شریک ہونا ہی بہت بڑا افتخار ہے۔

ان کے برخلاف کفار و منافقین اور بڑے بڑے ظالم و جابر روزِ قیامت عذاب کے علاوہ اس دنیا میں بھی سزا بھگتیں گے جیسا کہ گزشتہ سرکش اقوام جیسے قومِ فرعون ، قومِ عاد، قومِ ثمود اور قومِ لوط اپنے کیفر کردار تک پہنچی ہیں، اور یہ صرف رجعت کی صورت میں ممکن ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”إنَّ الرَّجْعةَ لَیْسَتْ بِعَامَةٍ، وَهِیَ خَاصَّةٍ لَا یَرْجعُ إلّاَ مَنْ مَحضَ الإیمَانُ مَحْضاً، اٴوْ مَحضَ الشِّرْکِ مَحَضا ً“(۷) ” رجعت عام نہیں ہوگی بلکہ خاصہوگی، رجعت صرف انھیں افراد کے لئے ہے جو خالص مومن یا جو خالص مشرک ہیں“۔

ممکن ہے کہ سورہ انبیاء کی آیت نمبر ۹۵ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ ارشاد ہواہے:( وَحَرَامٌ عَلٰی قَرْیَةٍ اٴَهْلَکْنَاهَا اٴَنَّهُمْ لاَیَرْجِعُونَ ) ”اور جس بستی کو ہم نے تباہ کر دیا ہے اس کے لئے بھی نا ممکن ہے کہ قیا مت کے دن ہمارے پا س پلٹ کر نہ آئے“کیونکہ نہ لوٹایا جانا انھیں لوگوں کے بارے میں ہے جو اسی دنیا میں اپنے کیفر کردار تک پہنچ چکے ہیں، اور اس سے یہ بھی

روشن ہوجاتا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے عذاب میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں ان کو دوبارہ اس دنیا میں لوٹا کر ان کو سزا دی جائے گی۔ (غور کیجئے )

یہاں یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے کہ ان دو جماعتوں کی بازگشت تاریخ بشریت کے اس خاص زمانہ میں (قیامت کے لئے ) دو عظیم درس اور عظمت خدا کی دو نشانیاں ہوں گی ،تاکہ مو منین ا ن کو دیکھنے کے بعد معنوی کمال اور ایمان کے بلند درجات تک پہنچ جائیں اور کسی طرح کی کوئی کمی باقی نہ رہ جائے۔(۸)

____________________

(۱) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۵۱۱ (مادہ رجع)

(۲)سورہ بقرہ ، آیت ۲۴۳

(۳)سورہ بقرہ ، آیت ۵۶

(۴) ”عقائد الامامیہ “شیخ محمد رضا المظفر صفحہ ۷۱

(۵) بحار الانوار ، جلد ۵۳، صفحہ ۱۲۲

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۵، صفحہ ۵۵۵

(۷) بحار الانوار ، جلد ۵۳، صفحہ ۳۹

(۸) تفسیر نمونہ ، جلد۱۵، صفحہ ۵۵۹