110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131805
ڈاؤنلوڈ: 4524

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131805 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۹۳ ۔ توکل کی حقیقت اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟

”توکل“ در اصل ”وکالت“ سے مشتق ہے، اور وکیل انتخاب کرنے کے معنیٰ میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ایک اچھا وکیل وہی ہے جو کم از کم چار صفات کا حامل ہو۔

۱ ۔ضروری معلو مات۔

۲ ۔ امانت داری ۔

۳ ۔ طاقت و قدرت۔

۴ ۔ ہمدردی ۔

شاید اس بات کو بیان کرنے کی ضرورت نہ ہو کہ مختلف کاموں کے لئے ایک مدافع وکیل کا انتخاب اس مو قع پر ہو تا ہے جہاں انسان ذاتی طور پر دفاع کرنے پر قادر نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ وہ اس موقع پر دوسرے کی قوت سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور اس کی طاقت و صلاحیت کے ذریعہ اپنی مشکل حل کرتا ہے۔

لہٰذا خدا پر تو کل کرنے کا اس کے علاوہ کوئی اور مفہوم نہیں ہے کہ انسان زندگی کی مشکلات و حوادث ،مخالفین کی دشمنیوں اور سختیوں، پیچیدگیوں اور کبھی اہداف کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو خوددور کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے اپنا وکیل قراردے اور اس پر بھروسہ کرے اور خود بھی ہمت اور کوشش کرتارہے بلکہ جہاں کسی کام کوخود انجام دینے کی طاقت رکھتا ہو وہاں بھی موثر حقیقی ،خدا ہی کو مانے کیونکہ اگر ایک موحّد کی چشم بصیرت سے دیکھا جائے تو تمام قدرتوں اور قوتوں کاسر چشمہ وہی ہے۔

تَوَکَّل عَلَی الله “ کانقطئہ مقابل یہ ہے کہ اس کے غیر پر بھروسہ کیاجائے، یعنی کسی غیر کے سہارے پر جینا، دوسرے سے وابستہ ہونا اور اپنی ذات میں استقلال و اعتماد سے عاری ہونا۔

علمائے اخلاق کہتے ہیں کہ توکل،براہ راست خدا کی توحید افعالی کا نتیجہ ہے کیو نکہ جیسے ہم نے کہا ہے کہ ایک موحّد کی نظر میں ہر حرکت، ہر کوشش، ہر جنبش اور اسی عالم میں ہر چیز آخر کار اس جہان کی پہلی علت یعنی ذات خدا سے ارتباط رکھتی ہے، لہٰذا ایک مو حّد کی نگاہ میں تمام طاقتیں اور کامیابیاں اسی کی طرف سے ہیں۔

توکل کا فلسفہ

( قا رئین کرام ! ) ہماری مذ کورہ گفتگو پر تو جہ کرنے سے معلوم ہو جا تا ہے:

اولا:”تَوَکَّل عَلَی الله “ زندگی کے سخت واقعات و مشکلات میں اس نا قابل فنا مرکز قدرت پر توکل انسان کی استقامت و مقاومت کا سبب بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے میدان احد میں سخت ضرب کھائی اور دشمن میدان چھوڑ نے کے بعد دو بارہ پلٹ آئے تاکہ مسلمانوں پر آخر ی ضرب لگائیں اور یہ خبر مسلمانوں کو پہنچی تو اس موقع پر قرآن کہتا ہے کہ صاحب ایما ن افراد اس خطر ناک لمحہ میں وحشت زدہ نہ ہوئے جب کہ وہ اپنی فعّال قوت کا ایک اہم حصہ کھو چکے تھے بلکہ ”توکل “ اور قوتِ ایمانی نے ان کی استقامت میں اضافہ کردیا اور فاتح دشمن اس آ مادگی کی خبر سنتے ہی تیزی سے پیچھے ہٹ گیا (سورہ آل عمران ، آیت ۱۷۳)

توکل کے سائے میں اس استقامت کے نمونے متعدد آیات میں نظر آتے ہیں، ان میں سے سورہ آل عمران کی ، آیت ۱۲۲ میں قرآن مجیدکہتا ہے :توکل علی اللہ نے مجاہدین کے دو گرو ہوں کو میدان جہاد میں سستی سے بچایا۔

سورہ ابراہیم کی ، آیت نمبر ۱۲ / میں دشمن کے حملوں اور نقصانات کے مقابل میں توکل اور صبر کا با ہم ذکر ہوا ہے۔

آل عمران کی آیت ۱۵۹ / میں اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے پہلے مشورہ اس کے بعد پختہ ارادہ اور پھر ”تَوَکَّل عَلَی الله “ کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ قرآن کہتا ہے :

( إِنَّهُ لَیْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُونَ ) (۱)

”شیطان ہرگز لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان ایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے“۔

ان آیات سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتاہے کہ شدید مشکلات میں انسان ضعف اور کمزوری محسوس نہ کرے بلکہ اللہ کی بے انتہا قدرت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو کامیاب اور فاتح سمجھے، گویا توکل امید آفریں، قوت بخش، تقویت پہچانے والا اور استقامت میں اضافہ کرنے کا باعث ہے، توکل کا مفہوم اگر گوشہ نشینی اختیار کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہوتا تو مجاہدین اور اس قسم کے لوگوں میں تحریک پیدا کرنے کا باعث نہ بنتا۔

اگر کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عالم اسباب اور طبیعی عوامل کی طرف توجہ روح ِ توکل سے مناسبت نہیں رکھتی تووہ انتہائی غلط فہمی میں مبتلا ہیں، کیونکہ طبیعی عوامل کے اثرات کو ارادہ الٰہی سے جدا کرنا ایک طرح کا شرک ہے، کیا ایسا نہیں ہے ،کہ عواملِ طبیعی کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا ہے اور سب کچھ اسی کے ارادہ اور فرمان کے تحت ہے، البتہ اگر عوامل کو ایک مستقل طاقت سمجھا جائے اور انھیں اس کے ارادہ کے مد مقابل قرار دیا جائے تو یہ چیز روحِ توکل سے مطابقت نہیں رکھتی۔

یہ توکل کی ایسی تفسیر کرنا کیسے ممکن ہے جبکہ خود متوکلین کے سید وسردار پیغمبر اکرم (ص) اپنے اہداف کی ترقی کے لئے کسی موقع پر، صحیح منصوبہ، مثبت ٹکنیک اور مختلف ظاہری وسائل سے غفلت نہیں برتتے تھے۔

یہ سب چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ توکل کا منفی مفہوم نہیں ہے۔

ثانیاً: ”تَوَکَّل عَلَی الله “ انسان کو ان وابستگیوں سے نجات دلاتا ہے جو ذلت و غلامی کا سر چشمہ ہیں اور اسے آزادی اور خود اعتمادی عطا کرتا ہے۔

”توکل “ اور ”قناعت“ ہم ریشہ ہیں اور فطرتاً ان دونوں کا فلسفہ بھی کئی پہلوؤں سے ایک دوسرے سے مشباہت رکھتا ہے، اس کے باوجود ان میں فرق بھی ہے یہاں ہم چند اسلامی روایات پیش کرتے ہیں جن سے توکل کا حقیقی مفہوم اور اصلی بنیاد واضح ہوسکے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے: ”إنَّ الغِنَا وَالْعِزَ یَجُولانِ فَإذَا ظَفَرَا بِمُوضَعِ التَّوَکّل وَطَنا(۲) ”بے نیازی اور عزت محو جستجو رہتی ہیں جہاں توکل کو پالیتی ہیں وہیں ڈیرے ڈال دیتی ہے اور اسی مقام کو اپنا وطن بنا لیتی ہیں“۔

اس حدیث میں بے نیازی اور عزت کا اصلی وطن ”توکل“ بیان کیا گیا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

”جب بندہ اس حقیقت سے آگاہ ہوجاتا ہے کہ مخلوق اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ فائدہ ، تو وہ مخلوق سے توقع اٹھا لیتا ہے تو پھر وہ خدا کے علاوہ کسی کے لئے کام نہیں کرتا، اور اس کے سوا کسی سے اُمید نہیں رکھتا ہے ، اور یہی حقیقت توکل ہے“۔(۳)

کسی نے حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے سوال کیا: ”مَا حَدُّ التَّوَکُّل “(توکل کی حد کیا ہے؟):تو آپ نے فرمایا: ”إنّ لَاتَخَافَ مَعَ اللّٰهِ اٴحداً(۴) ”خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی سے نہ ڈرو“۔(۵)(۶)

____________________

(۱) سورہ نحل ، آیت ۹۹

(۲) اصول کافی ، جلد دوم،بَابُ التَّفْوِیضِ إلَی اللهِ وَالتَّوَکُّل عَلَیهِ ، حدیث۳

(۳) بحار الانوار، جلد۱۵، اخلاق کی بحث میں صفحہ ۱۴ ، طبع قدیم

(۴) سفینة البحار ، جلد دوم، صفحہ ۶۸۲

(۵) توکل کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے ”انگیزہ پیدائش مذہب“ کی طرف رجوع فرمائیں

(۶)تفسیر نمو نہ ، جلد ۱۰صفحہ ۲۹۵

۹۴ ۔ دعا و زاری کا فلسفہ کیا ہے؟

دعا کی حقیقت، اس کی روح اور اس کے تربیتی اور نفسیاتی اثر سے بے خبر لوگ دعا پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔

کبھی کہتے ہیں: یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو فعالیت، کوشش، ترقی اور کامیابی کے وسائل کے بجائے اسی راستہ پر لگا دیتی ہے، اور انھیں سعی و کوشش کے بدلے اسی پر اکتفا کرنے کا سبق دیتی ہے ۔

کبھی کہتے ہیں: دعا اصولی طور پر خدا کے معاملات میں بے جا دخل اندازی کا نام ہے، خدا جیسی مصلحت دیکھے گا اسے انجام دے گا، وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمارے مصالح و منافع کو بہتر جانتا ہے، پھر کیوں ہر وقت ہم اپنی مرضی اور پسند کے مطابق اس سے سوال کرتے رہیں؟!

کبھی کہتے ہیں: ان تمام چیزوں کے علاوہ دعا؛ارادہ الٰہی پر راضی رہنے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے منافی ہے!

(قارئین کرام!) جو لوگ اس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں وہ دعا اور تضرع و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی اور معنوی و روحانی آثار سے غافل ہیں، انسان ؛ ارادہ کی تقویت اور دکھ درد کے دور ہونے کے لئے کسی سہارے کا محتاج ہے، اور دعا انسان کے دل میں امید کی کرن چمکا دیتی ہے، جو لوگ دعا کو فراموش کئے ہوئے ہیں وہ نفسیاتی اور اجتماعی طور پر ناپسندیدہ عکس العمل سے دوچار ہوتے ہیں۔

ایک مشہور ماہر نفسیات کا کہنا ہے: ”کسی قوم میں دعا و تضرع کا فقدان اس ملت کی تباہی کے برابر ہے، جس قوم نے دعا کی ضرورت کے احساس کا گلا گھونٹ دیا ہے وہ عموماً فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہ سکتی“۔

البتہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ صبح کے وقت دعا اور عبادت کرنا اور باقی تمام دن ایک وحشی جانور کی طرح گزارنا، بیہودہ اور فضول ہے، دعا کو مسلسل جاری رہنا چاہئے، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اس کے عمیق اثر سے ہاتھ دھو بیٹھے۔(۱)

جو لوگ دعا کو کاہلی اور سستی کا سبب سمجھتے ہیں وہ دعا کے معنی ہی نہیں سمجھے، کیونکہ دعا کا یہ مطلب نہیں کہ مادی وسائل و اسباب سے ہاتھ روک لیا جائے اور صرف دستِ دعا بلند کیا جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام موجودہ وسائل کے ذریعہ اپنی پوری کوشش بروئے کار لائی جائے اور جب معاملہ انسان کے بس میں نہ رہے اور وہ مقصد تک نہ پہنچ پائے تو دعا کا سہارا لے، توجہ کے ساتھ خدا پر بھروسہ کرے اپنے اندر امید کی کرن پیدا کرے اور اس مبدا عظیم کی بے پناہ نصرتوں کے ذریعہ مدد حاصل کرے۔

لہٰذا دعا مقصد تک نہ پہونچنے کی صورت میں ہے نہ کہ یہ فطری اسباب کے مقابلہ میں کوئی سبب ہے۔

مذکورہ ماہر نفسیات لکھتا ہے:

”دعا انسان میں اطمینان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی پیدا کرتی ہے ، باطنی انبساط کا باعث بنتی ہے اور بعض اوقات یہ انسان کے لئے بہادری اور دلاوری کی روح کو ابھارتی ہے، دعا کے ذریعہ انسان پر بہت سی علامات ظاہر ہوتی ہیں ، جن میں سے بعض تو صرف دعا سے مخصوص ہیں، جیسے نگاہ کی پاکیزگی، کردار میں سنجیدگی، باطنی انبساط و مسرت، مطمئن چہرہ، استعداد ہدایت اور حوادث کا استقبال کرنے کا حوصلہ ، یہ سب دعا کے اثرات ہیں، دعا کی قدرت سے پسماندہ اور کم استعداد لوگ بھی اپنی عقلی اور اخلاقی قوت کو بہتر طریقہ سے کار آمد بنالیتے ہیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماری دنیا میں دعا کے حقیقی رخ کو پہچاننے والے لوگ بہت کم ہیں “۔(۲)

(قارئین کرام!) ہمارے مذکورہ بیان سے اس اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ دعا تسلیم و رضا کے منافی ہے، کیونکہ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں دعا؛ پروردگار کے بے انتہا فیض سے زیادہ سے زیادہ کسبِ کمال کا نام ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان دعا کے ذریعہ پروردگار کی زیادہ سے زیادہ توجہ اور فیض کے حصول کی اہلیت اور استعداد حاصل کرلیتا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ تکامل کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ کسب کمال کی سعی قوانین آفرینش کے سامنے تسلیم و رضا ہے ، اس کے منافی نہیں ہے۔

ان سب کے علاوہ دعا ایک طرح کی عبادت، خضوع اور بندگی کا نام ہے، انسان دعا کے ذریعہ ذات الٰہی کے ساتھ ایک نئی وابستگی پیدا کرتا ہے، اور جیسے تمام عبادات ؛ تربیتی تاثیر رکھتی ہیں اسی طرح دعا میں بھی یہی تاثیر پائی جاتی ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا امور الٰہی میں مداخلت ہے اور جو کچھ مصلحت کے مطابق ہو خدا عطا کردیتا ہے، چنانچہ وہ لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہیں کہ عطیات خداوندی استعداد اور لیاقت کے لحاظ سے تقسیم ہوتے ہیں، جتنی استعداد اور لیاقت زیادہ ہوگی انسان کو عطیات بھی اس لحاظ سے نصیب ہوں گے۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”إنَّ عِنْدَ الله عَزَّ وَ جَلَّ مَنْزِلَةٌ لَاتَنَالُ إلاَّ بِمَساٴلةٍ(۳) ”خداوندعالم کے یہاں ایسے مقامات اور منازل ہیں جو بغیر مانگے نہیں ملتے“۔

ایک دانشور کا کہنا ہے: جس وقت ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک ایسی لامتناہی قوت سے متصل کرلیتے ہیں جس نے ساری کائنات کی اشیا کو ایک دوسرے سے پیوستہ کر رکھا ہے“۔(۴)

نیز موصوف کا کہنا ہے: ”آج کا جدید ترین علم یعنی علم نفسیات بھی یہی تعلیم دیتا ہے جو انبیاء کی تعلیم تھی، کیونکہ نفسیاتی ڈاکٹراس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دعا، نماز اور دین پر مستحکم ایمان؛ اضطراب، تشویش، ہیجان اور خوف کو دور کردیتا ہے جو ہمارے دکھ درد کا آدھے سے زیادہ حصہ ہے“۔(۵) (۶)

____________________

(۱) ”نیایش“ تالیف :طبیب و روانشناس مشہور ”الکسیس کارل“

،(۲)”نیایش الکسیس کارل

(۳) اصول کافی ، جلد دوم، صفحہ ۳۳۸ ،بابُ فَضْل الدُّعَا ء والحِثُّ عَلَیه ، حدیث۳

(۴) آئین زندگی ، صفحہ۱۵۶

(۵) آئین زندگی ، صفحہ ۱۵۲

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد اول ، صفحہ ۶۳۹

۹۵ ۔ کبھی کبھی ہماری دعاکیوں قبول نہیں ہوتی؟

دعا کی قبولیت کے شرائط کی طرف توجہ کرنے سے بھی بظاہر دعا کے پیچیدہ مسائل میں نئے حقائق آشکار ہوتے ہیں اور اس کے اصلاحی اثرات واضح ہوجاتے ہیں، اس ضمن میں ہم چند احادیث پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ دعا کی قبولیت کے لئے ہر چیز سے پہلے دل اور روح کی پاکیزگی کی کوشش کرنا، گناہ سے توبہ اور اصلاح نفس ضروری ہے ، اس سلسلہ میں خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں اور رہبروں کی زندگی سے الہام و ہدایات حاصل کرنا چاہئے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:”جب تم میں سے کوئی اپنے ربّ سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب کرنا چاہے تو پہلے خدا کی حمد و ثنا کرے، پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرے اورپھر اپنی حاجت طلب کرے“(۱)

۲ ۔ اپنی زندگی کی پاکیزگی کے لئے غصبی مال اور ظلم و ستم سے بچنے کی کوشش کرے اور حرام غذا نہ کھائے، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے: ”مَنْ اٴحَبَّ اٴنْ یُسْتَجَابَ دُعَائَهُ فَلْیَطِبْ مَطْعَمَهُ وَ مَکْسِبَه(۲) ”جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کے لئے اس کی غذا اور کار وبار کاحلال اور پاکیزہ ہوناضروری ہے “

۳ ۔ فتنہ و فساد کا مقابلہ کرے اور حق کی دعوت دینے میں کوتاہی نہ کرے کیونکہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیتے ہیں ان کی دعا قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ پیغمبر اسلام سے منقول ہے: ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرو ، ورنہ خدا بُرے لو گوں کو تمہارے اچھے لوگوں پر مسلط کردے گا، پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول نہیں ہوگی“۔(۳)

حقیقت میں یہ عظیم ذمہ داری جو ملت کی نگہبان ہے اسے ترک کرنے سے معاشرہ کا نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں بدکاروں کے لئے میدان خالی ہوجاتا ہے، اس صورت میں دعا اس کے نتائج کو زائل نہیں کرسکتی کیونکہ یہ کیفیت ان کے اعمال کا قطعی اور حتمی نتیجہ ہے۔

۴ ۔ دعا قبول ہونے کی ایک شرط خدائی عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے، ایمان، عمل صالح، امانت اور صحیح کام اس عہد و پیمان کا ایک حصہ ہیں، جو شخص اپنے پروردگار سے کئے گئے عہد کی پاسداری نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں ہونا چاہئے کہ پروردگار کی طرف سے دعا قبول ہونے کا وعدہ اس کے شامل حال ہوگا۔

کسی شخص نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے دعا قبول نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہا : خدا کہتا ہے کہ دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں اور وہ قبول نہیں ہوتی!

اس کے جواب میں امام علیہ السلام نے فرمایا: ”إنَّ قُلُوبَکُم خَانَ بِثَمانِ خِصَالِ “ تمہارے دل و دماغ نے آٹھ چیزوں میں خیانت کی ہے، ( جس کی وجہ سے تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی):

۱ ۔ تم نے خدا کو پہچان کر اس کا حق ادا نہیں کیا، اس لئے تمہاری معرفت نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔

۲ ۔ تم اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر پر ایمان تو لے آئے ہو لیکن اس کی سنت کی مخالفت کرتے ہو، ایسے میں تمہارے ایمان کا کیا فائدہ ہے؟

۳ ۔ تم اس کی کتاب کو تو پڑھتے ہومگر اس پر عمل نہیں کرتے، زبانی طور پر تو کہتے ہو کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، لیکن عملی میدان میں اس کی مخالفت کرتے رہتے ہو!

۴ ۔ تم کہتے ہو کہ ہم خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی نافرمانی کی طرف قدم بڑھاتے ہو اور اس کے عذاب سے نزدیک ہوتے رہتے ہو۔

۵ ۔ تم کہتے ہو کہ ہم جنت کے مشتاق ہیں حالانکہ تم ہمیشہ ایسے کام کرتے ہو جو تمہیں اس سے دور لے جاتے ہیں۔

۶ ۔ نعمتِ خدا سے فائدہ اٹھاتے ہو لیکن اس کے شکر کا حق ادا نہیں کرتے!

۷ ۔ اس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو (اور تم اس سے دوستی کا نقشہ بناتے رہتے ہو) تم شیطان سے دشمنی کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن عملی طور پر اس کی مخالفت نہیں کرتے۔

۸ ۔ تم نے لوگوں کے عیوب کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور اپنے عیوب کو مڑکر بھی نہیں دیکھتے۔ ان حالات میں تم کیسے امید رکھتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو جب کہ تم نے خود اس کی قبولیت کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرو، اپنے اعمال کی اصلاح کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو تاکہ تمہاری دعا قبول ہوسکے۔(۴)

یہ پُر معنی حدیث صراحت کے ساتھ اعلان کررہی ہے:

خدا کی طرف سے دعا قبول ہونے کا وعدہ مشروط ہے مطلق نہیں، بشرطیکہ تم اپنے عہد و پیمان پورا کرو حالانکہ تم آٹھ طرح سے پیمان شکنی کرتے ہو، تم عہد شکنی نہ کرو تو تمہاری دعا قبول ہوجائے گی۔

مذکورہ آٹھ احکام جو دعا کی قبولیت کے شرائط ہیں انسان کی تربیت، اس کی توانائیوں کو اصلاح کرنے اور اسے ثمر بخش بنانے کے لئے کافی ہیں۔

۵ ۔ دعا کی قبولیت کے لئے ایک شرط یہ ہے کہ دعا عمل اور کوشش کے ہمراہ ہو، حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے کلمات قصار میں بیان ہوا ہے: ”الداعی بلا عمل کالرامی بلا وتر!“(۷۱) (عمل کے بغیر دعا کرنے والا، بغیر کمان کے تیر چلانے والے کے مانند ہے)۔

اس چیز کی طرف توجہ رکھنا چاہئے کہ چلہ کمان تیر کے لئے عامل حرکت اور ہدف کی طرف پھینکنے کا وسیلہ ہے اس سے تاثیرِ دعا کے لئے عمل کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔

مذکورہ پانچوں شرائط سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ مادی علل و اسباب کے بجائے دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ قبولیت دعا کے لئے دعا کرنے والے کی زندگی میں ایک مکمل تبدیلی بھی ضروری ہے، اسے اپنی فکرکو نئے سانچے میں ڈھالنا چاہئے اور اسے اپنے گزشتہ اعمال پر تجدید نظر کرنا چاہئے۔

ان تمام مطالب کے پیش نظر دعا کو اعصاب کمزور کرنے والی ا ور کاہلی کا سبب قرار دینا کیابے خبری اور غفلت نہیں ہے؟! اور کیا یہ تہمت کسی غرض کے لئے نہیں ہے؟!(۵)

____________________

(۱) سفینة البحار ، جلد اول صفحہ ۴۴۸و ۴۴۹ (۶۸) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۴۴۸، ۴۴۹

(۲) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۴۴۸و ۴۴۹

(۳) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۴۴۸

(۴)نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۳۳۷

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد اول ، صفحہ ۶۴۳