110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131793
ڈاؤنلوڈ: 4524

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131793 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۶ ۔ خدا کے ”سمیع“ اور ”بصیر“ ہونے کا کیا مطلب ہے؟

تمام اسلامی علمااور دانشوروں نے خداوندعالم کو سمیع و بصیر ما ناہے، کیونکہ یہ دونوں صفات قرآن مجید میں بار ہا بیان ہوئی ہیں، البتہ اس سلسلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے:

چنا نچہ محققین کا اس بات پر عقیدہ ہے کہ خدا کے سمیع و بصیر ہونے کا مطلب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ خدا وندعالم ”آواز“ اور ”یعنی دکھائی دینے والی چیزوں“ کی نسبت علم و آگاہی رکھتا ہے، اگرچہ یہ دونوں الفاظ سننے اور دیکھنے کے معنی میں وضع ہوئے تھے، جن کے لئے ہمیشہ”کان“ اور ”آنکھ“ ضروری ہوتے ہیں، لیکن جب یہ الفاظ خدا کے بارے میں استعمال ہوں تو پھر جسمانی آلات و اعضا کے تصور سے خالی ہوتے ہیں، چونکہ ذات خدا جسم و جسمانیات سے پاک و پاکیزہ ہے۔

اور یہ معنی مجازی نہیں ہے، او راگر اس کو مجاز کہیں بھی تو یہ مجاز مافوق حقیقت ( یعنی معنی حقیقی سے بالاتر) ہے کیونکہ خداآواز اور مناظر پر اس طرح احاطہ رکھتا ہے اور یہ چیزیں اس کے پاس اس طرح حاضر ہیں کہ ہر آنکھ کان سے بالاتر ہے، لہٰذا دعاؤں میں خدا وندعالم کو ”اٴسمعُ السَّامِعِین “ (سب سے زیادہ سننے والا) اور ”اٴبصرَ الناظِرین “( سب سے زیادہ دیکھنے والے) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔(۱)

لیکن بعض قدیم متکلمین کا عقیدہ تھا کہ خدا کے ”سمیع“ اور ”بصیر“ ہونے کا مطلب صفت ”علم“ کے علاوہ ہے، یہ لوگ مجبور ہیں کہ صفات ”سمیع“ اور ”بصیر“ کو زائد بر ذات مانیں، اور صفات ازلی متعدد ہوجائیں جو ایک طرح کا شرک ہے، وگرنہ خداوندعالم کا ”سمیع“ اور ”بصیر“ ہونا سنی جانے والی آوازوں اور مناظر کے علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔(۲)

کتاب ”بحار الانوار“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے کہ ایک شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ کے محبوں میں سے ایک شخص کا کہنا ہے: خداوندعالم کان کے ذریعہ سمیع ہے اور آنکھوں کے ذریعہ بصیر ہے! اور علم کی وجہ سے عالم ہے! (یعنی خداکی صفات زائد بر ذات ہیں) اور قادر ہے اپنی قدرت کی وجہ سے (یعنی اس کے صفات زائد بر ذات ہیں)

امام علیہ السلام نے ناراض ہوتے ہوئے فرمایا: ”مَنْ قَال ذَلک و دَانَ بِهِ فَهوَ مشرکٌ، وَ لَیْسَ مِنْ ولایتنا علٰی شیءٍ ؛ إنَّ اللهَ تبارکَ و تعالیٰ ذات علامة سمیعة بصیرة قادرة(۳) (۴)

”جو شخص یہ کہے اور اس پر عقیدہ رکھے تو ایسا شخص مشرک ہے، اور ہماری ولایت سے دور ہے، خداوندعالم کی ذات عین عالم ،عین سمیع، اور عین بصیر و قادر ہے (اور یہ صفات اس کی ذات پر زائد نہیں ہیں)“۔

____________________

(۱) ماہ رجب میں ہر روزپڑھی جانے والی دعا میں وارد ہوا ہے: ”یااسمع السامعین وابصر الناظرین واسرع الحاسبین “ (اے سب سے زیادہ سننے والے اور سب سے زیادہ دیکھنے والے اور سب سے زیادہ جلدی حساب کرنے والے!).

(۲) اشاعرہ خداوندعالم کی سات صفات ( علم، قدرت،ارادہ، سمع، بصر، حیات اور تکلم) کو قدیم اور زائد بر ذات جانتے ہیں، جن میں سے بعض افراد خدا وندعالم کی ذات اور سات صفات کے قدماء ثمانیہ (یعنی آٹھ ازلی وجود) کہتے ہیں جبکہ ہماری نظر میں یہ عقیدہ باطل اور شرک ہے( کیو نکہ اس صورت میں تعدد الٰہ لا زم آتا ہے )

(۳) بحار الانوار، جلد ۴، صفحہ ۶۳

(۴) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۱۱۶

۷ ۔ صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟

خداوندعالم کی صفات کو معمولاً دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

”صفاتِ ذات“ اور ”صفات ِفعل“۔

اس کے بعد صفات ذات کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا ہے :”صفاتِ جمال“ اور ”صفاتِ جلال“۔

”صفات جمال“ سے وہ صفات مراد ہیں جو خداوندعالم کے لئے ثابت ہیں جیسے علم، قدرت، ازلیت، ابدیت، لہٰذا ان صفات کو ”صفات ثبوتیہ“ کہا جاتا ہے، اور ”صفات جلال“ سے مراد وہ صفات ہیں جو خدا میں نہیں پائی جاتیں، جیسے جہل، عجز، جسم وغیرہ لہٰذا ان صفات کو ”صفات سلبیہ“ کہا جاتا ہے، اور یہ دونوں صفات خداوندعالم کی”صفات ذات“ ہیں، اور اس کے افعال سے قطع نظر قابل درک ہیں۔

”صفات فعل “ سے مراد وہ صفات ہیں جو خداوندعالم کے افعال سے متعلق ہوتی ہیں، یعنی جب تک خداوندعالم اس فعل کو انجام نہ دے تو اس صفت کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا، جب وہ فعل انجام دیتا ہے تو اس صفت سے متصف ہوتا ہے جیسے ”خالق“، ”رازق“اور”محی“، ”ممیت“ (یعنی خلق کرنے والا، روزی دینے والا، زندہ کرنے والا اور موت دینے والا)

ہم ایک بار پھر اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ خداوندعالم کی ”صفات ذات“ اور ”صفات فعل “ لامحدود ہیں، کیونکہ نہ اس کے کمالات ختم ہونے والے ہیں اور نہ اس کے افعال و مصنوعات، لیکن پھر بھی ان میں سے بعض صفات دوسری صفات کی اصل اور سرچشمہ شمار ہوتی ہیں، نیز وہ ان کی شاخیں شمار کی جاتی ہیں، لہٰذا اس نکتہ کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خداوندعالم کی درج ذیل پانچ صفات خداوندعالم کی ذات اقدس کے تمام اسما و صفات کے لئے اصل و سرچشمہ ہیں اور باقی ان کی شاخیں ہیں:

وحدانیت، علم، قدرت، ازلیت اور ابدیت۔(۱)

____________________

(۱) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۵۹

۸ ۔ خداوندعالم کے ارادہ کی حقیقت کیا ہے؟

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ارادہ جن معنی میں انسان کے بارے میں استعمال ہوتا ہے ان معنی میں خداوندعالم کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے۔

کیونکہ انسان پہلے کسی چیز کا تصور کرتا ہے، (مثلاً پانی پینا) پھر اس کے فوائد کے بارے میں سوچتا ہے، اور اس کے فائدہ کی تصدیق کے بعد اس کام کو انجام دینے کا شوق پیدا ہوتا ہے، اور جس وقت انسان کا شوق آخری درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو اعضا کے لئے حکم صادر ہوتا ہے اور انسان اس کام کو شروع کردیتا ہے۔(۱)

لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں ( تصور، تصدیق، شوق، حکم ،نفس اور اعضا کی حرکت) خداوندعالم کے سلسلہ میں بے معنی ہیں، کیونکہ یہ تمام چیزیں حادث ہیں ، پس خدا کے ارادہ کا کیا مفہومہے؟۔

اس سلسلہ میں علم عقائد اور اسلامی علماو فلاسفہ نے ایک ایسا مفہوم بیان کیا ہے کہ ”بسیط“ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی و تغیر نہیں ہوتا۔

ان حضرات کا کہنا ہے کہ خداوند عالم کا ارادہ دوطرح کا ہوتا ہے:

۱ ۔ ذاتی ارادہ ۔

۲ ۔ فعلی ارادہ ۔

۱ ۔ ”ذاتی ارادہ “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا و مافیہا کے بہترین نظام اور نظام خلقت کا علم رکھتا ہے اور احکام شرعی میں بندوں کے خیر و صلاح کا علم رکھتا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کا بہترین نظام کیا ہے، اور کس علاقہ میں کیا چیز پیدا ہونی چاہئے، یہی ”علم“ مختلف زمانوں میں موجودات اور حوادث کے پیدا ہونے کا سرچشمہ ہوتا ہے۔

اسی طرح وہ یہ بھی جانتا ہے کہ قوانین و احکام کے لحاظ سے کس چیز میں بندوں کی مصلحت ہے؟ اور ان قوانین و احکام کی روح اس کا یہی علم ہے جو مصالح و مفاسد کے بارے میں ہے۔(غور کیجئے)

۲ ۔ خداوندعالم کا فعلی ارادہ”عین ایجاد“ ہے اور صفات فعل کا جز شمار ہوتا ہے، اس بنا پر زمین و آسمان کی خلقت کے بارے میں اس کا ارادہ ”عین ایجاد“ ہے، نماز کے واجب ہونے اور جھوٹ کے حرام ہونے پر ارادہ ،عین وجوب و حرام ہے، (یعنی اس نے نماز کے واجب کرنے کا ارادہ کیا وہ واجب ہوگئی)

خلاصہ یہ کہ خدا وندعالم کا ذاتی ارادہ اس کا ”عین علم“ اور ”عین ذات“ ہے، اور خدا وندعالم کا فعلی ارادہ اس کام کا ”عین ایجاد“ ہے۔(۲)

____________________

(۱) بعض فلاسفہ، ارادہ کو وہی ”شوقِ موکد “ کا نام دیتے ہیں، جبکہ بعض دوسرے فلاسفہ ”شوق موکد “ کے علاوہ نفس کے ایک فعل اور حرکت کے بھی قائل ہیں، اور ارادہ کو وہی انسانی فعل شمار کرتے ہیں، (غور کیجئے)

(۲) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۱۵۳

۹ ۔ اسم اعظم کیا ہے؟

اسم اعظم کے سلسلہ میں مختلف روایات بیان کی گئی ہیں جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص بھی اسم اعظم سے باخبر ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے بلکہ وہ شخص اس اسم اعظم کے ذریعہ اس دنیا کی بہت سی چیزوں میں دخل و تصرف کرسکتا ہے اور بہت سے عجیب و غریب کام انجام دے سکتا ہے۔

خدا کے ناموں میں سے کونسا نام ”اسم اعظم“ ہے ؟اس سلسلہ میں علمائے اسلام نے بہت زیادہ بحث و گفتگو کی ہے، اور اس موضوع پر اکثر بحثیں ہوا کرتی ہیں کہ خدا کے ناموں میں اس اسم کو تلاش کریں جو عجیب و غریب خاصیت رکھتا ہو۔

لیکن ہمارے نظریہ کے مطابق جس چیز پر زیادہ توجہ ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ خدا کے اسما اور صفات کا پتہ لگائیں ان کے مفہوم کو اپنے اندر پیدا کریں اور روحانی تکامل و پیشرفت حاصل کریں جن کے ذریعہ ہماری ذات پر اثر ہوسکے۔

دوسرے الفاظ میں اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندر ان صفات کو پیدا کریں اور اپنے کر دار کو ان صفات سے مزین کریں، ورنہ گناہوں میں آلودہ شخص اور ایک ذلیل انسان کیا ”اسم اعظم“ کا علم حاصل کرنے سے ”مستجاب الدعوة“ ہوسکتا ہے؟!

اگر ہم سنتے ہیں کہ ”بلعم“ نامی شخص اسم اعظم کا علم رکھتا تھا لیکن بعد میں اس سے ہاتھ دھوبیٹھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ایمان و عمل صالح اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعہ اس روحانی درجہ کو حاصل کرلیا تھا لہٰذا اس کی دعا قبول ہوجاتی تھی، لیکن اپنی خطاؤں کے ذریعہ (کیونکہ انسان خطا و غلطی سے پاک نہیں ہے) اور اپنے زمانہ کے فرعونی اور طاغوتی طاقتوں اور اپنی ہوا وہوس کی بنا پر اس روحانی طاقت کو بالکل کھو دیا ، اور اس مرتبہ سے گرگیا، اسم اعظم کے بھول جانے سے یہی معنی مراد ہوسکتے ہیں۔

اور اسی طرح اگر ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام اسم اعظم سے آگاہ تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے وجود میں خدا کے اسم اعظم کی حقیقت جلوہ گر ہوتی تھی، اور اسی وجہ سے خدا وندعالم نے ان کو اس عظیم مرتبہ پر فائز کیا تھا (کہ ان کی دعائیں مستجاب ہوتی تھیں)(۱) .

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۷ ،صفحہ ۳۰

۱۰ ۔ کیا خداوندعالم کو دیکھا جاسکتا ہے؟

عقلی دلائل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خداوندعالم کو ہرگز آنکھوں کے ذریعہ نہیں دےکھاجا سکتا، کیونکہ آنکھ تو کسی چیز کے جسم یا صحیح الفاظ میں چیزوں کی کیفیتوں کو دیکھ سکتی ہیں، اور جس چیز کا کوئی جسم نہ ہو بلکہ اس میں جسم کی کوئی کیفیت بھی نہ ہو تو اس چیز کو آنکھ کے ذریعہ نہیں دیکھا جاسکتا، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ آنکھ اس چیز کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں مکان، جہت اور مادہ ہو ، حالانکہ خداوندعالم ان تمام چیزوں سے پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا وجود لامحدود ہے اسی وجہ سے وہ ہمارے اس مادی جہان سے بالاتر ہے، کیونکہ مادی جہان میں سب چیزیں محدود ہیں۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات ،منجملہ بنی اسرائیل سے متعلق آیات جن میں خداوندعالم کے دیدار کی درخواست کی گئی ہے، ان میں مکمل وضاحت کے ساتھ خداوندعالم کے دید ار کے امکان کی نفی کی گئی ہے، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سے اہل سنت علمایہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر خداوندعالم اس دنیا میں نہیں دکھائی دے سکتا تو روز قیامت ضرور دکھائی دے گا!! جیسا کہ مشہور و معروف اہل سنت عالم، صاحب تفسیر المنار کہتے ہیں:”هَذا مَذْهبُ اهل السُّنة والعِلم بالحدیثِ “ (یہ عقیدہ اہل سنت اور علمائے اہل حدیث کا ہے)(۱)

اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ عصر حا ضر کے علمائے اہل سنت جو اپنے کو روشن فکر بھی سمجھتے ہیں وہ بھی اسی عقیدہ کا اظہارکرتے ہیں اور کبھی کبھی تو اس سلسلہ میں بہت زیادہ ہٹ دھرمی کرتے ہیں!

حالانکہ اس عقیدہ کا باطل ہونا اس قدر واضح ہے کہ بحث و گفتگو کی بھی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سلسلہ میں (جسمانی معاد کے پیش نظر) دنیا و آخرت میں کوئی فرق نہیں ہے ، کیو نکہ جب خداوندعالم کی ذات اقدس مادی نہیں ہے وہ مادہ سے پاک و منزہ ہے، تو کیا وہ روز قیامت ایک مادی وجود میں تبدیل ہوجائے گا، اور اپنی لامحدود ذات سے محدود بن جائے گا، کیا اس دن خدا جسم یا عوارض جسم میں تبدیل ہوجائے گا؟ کیا خداوندعالم کے عدم دیدار کے عقلی دلائل دنیا و آخرت میں کوئی فرق کرتے ہیں؟ ہر گز نہیں، کیونکہ عقلی حکم کوئی استثنا نہیں ہوتا ۔

اسی طرح بعض لوگوں کا یہ غلط توجیہ کرنا کہ ممکن ہے انسان کو روز قیامت دوسری آنکھیں مل جائیں یا انسان کو ایک دوسرا ادراک مل جائے جس سے وہ خداوندعالم کا دیدار کرسکے، تو یہ بالکل بے بنیاد ہیں، کیونکہ اگر اس دید اور آنکھ سے یہی عقلانی اور فکری دید مراد ہے تو یہ تو اس دنیا میں بھی موجود ہے اور ہم اپنے دل اور عقل کی آنکھوں سے خدا کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور اگر اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو آنکھوں سے دیکھا جائے گا تو اس طرح کی چیز خداوندعالم کے بارے میں محال اور ناممکن ہے، چاہے وہ اس دنیا سے متعلق ہو یا اُس دنیا سے،لہٰذا کسی کا یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں خدا کو نہیں دیکھ سکتا مگر مومنین روز قیامت خداوندعالم کا دیدار کریں گے، یہ بات غیر منطقی اور ناقابل قبول ہے۔

یہ لوگ اپنی معتبر کتابوں میں موجود بعض احادیث کی بنا پر اس عقیدہ کا دفاع کرتے ہیں جن احادیث میں روز قیامت خدا کے دیدار کی بات کہی گئی ہے،لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ان روایات کے باطل ہونے کو عقل کے ذریعہ پرکھیں اور ان روایات کو جعلی اور جن کتابوں میں یہ روایات بیان ہوئی ہیں ان کو بے بنیاد مانیں، مگر یہ کہ ان روایات کو دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کے معنی میں تفسیر کریں، کیا یہ صحیح ہے کہ اس طرح کی روایات کی بناپر اپنی عقل کو الوداع کہہ دیں ، اور اگر قرآن کریم کی بعض آیات میں اس طرح کے الفاظ موجود ہیں جن کے ذریعہ پہلی نظر میں دیدار خدا کا مسئلہ سمجھ میں اتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَی رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ) (۲)

”اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے۔اپنے پروردگار( کی نعمتوں) پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے“۔

مذکورہ آیت درج ذیل آیت کی طرح ہے:

( یَدُ اللهِ فَوْقَ اٴَیْدِیهِمْ ) (۳)

”اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے“۔

جس میں کنایةً قدرت پروردگار کی بات کی گئی ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی کوئی بھی آیت اپنے حکم کے برخلاف حکم نہیں دے گی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات میں اس باطل عقیدہ کی شدت سے نفی اور مخالفت کی گئی ہے، اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں پر مختلف انداز میں تنقید کی گئی ہے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے مشہور و معروف صحابی جناب ہشام کہتے ہیں:

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھاکہ امام علیہ السلام کے ایک دوسرے صحابی معاویہ بن وہب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے فرزند رسول! آپ اس روایت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس میں بیان ہوا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے خدا کا

دیدارکیا ہے؟(اے فرزند رسول آپ بتائیے کہ ) آنحضرت (ص) نے کس طرح خدا کو دیکھا ہے؟ اور اسی طرح آنحضرت (ص) سے منقول روایت جس میں بیان ہوا ہے کہ مومنین جنت میں خدا کا دیدار کریں گے، تو یہ دیدار کس طرح ہوگا؟!

اس موقع پر امام صادق علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا: اے معاویہ بن وہب! کتنی بری بات ہے کہ انسان ۷۰ ، ۸۰ سال کی عمر پائے ، خدا کے ملک میں زندگی گزارے اس کی نعمتوں سے فیضیاب ہو، لیکن اس کو صحیح طریقہ سے نہ پہچان سکے، اے معاویہ! پیغمبر اکرم (ص) نے ان آنکھوں سے خدا کا دیدار نہیں کیا ہے، دیدار اور مشاہدہ کی دو قسمیں ہوتی ہیں: دل کی آنکھوں سے دیدار ، اور سر کی آنکھوں سے دیدار، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس نے دل کی آنکھوں سے خدا کا دیدار کیا ہے تو صحیح ہے لیکن اگر کوئی کہے کہ ان ظاہری آنکھوں سے خدا کا دیدار کیا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور خدا اور اس کی آیات کاانکار کرتا ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جو شخص خداوندعالم کو مخلوق کی شبیہ اور مانند قرار دے تو وہ کافر ہے۔(۴)

اسی طرح ایک دوسری روایت جو ”کتاب توحید “شیخ صدوق میں اسماعیل بن فضل سے نقل ہوئی ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا روز قیامت خداوندعالم کا دیدار ہوسکتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوندعالم اس چیز سے پاک و پاکیزہ ہے اور بہت ہی پاک و پاکیزہ ہے:

” إنَّ الاٴَبصَار لا تُدرک إلاَّ ما لَه لون والکیفیة والله خالق الاٴلوان والکیفیات(۵)

”آنکھیں صرف ان چیزوں کو دیکھ سکتی ہیں جن میں رنگ اور کیفیت ہو جبکہ خداوندعالم رنگ اور کیفیت کا خالق ہے“۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حدیث میں لفظ ”لَون“ (یعنی رنگ) پر خاص توجہ دی گئی ہے اور آج کل ہم پر یہ بات واضح و روشن ہے کہ ہم خود جسم کو نہیں دیکھ سکتے بلکہ کسی چیز کے جسم کا رنگ دیکھا جاتا ہے، اور اگر کسی جسم کا کوئی رنگ نہ ہو تو وہ ہرگز دکھائی نہیں دے سکتا۔(۶)

جناب موسیٰ (ع) نے دیدارخدا کی درخواست کیوں کی؟

سورہ اعراف آیت نمبر ۱۴۳/ میں جناب موسیٰ علیہ السلام کی زبانی نقل ہوا کہ انھوں نے عرض کی:( ربِّ اٴرني اٴنظرُ إلیکَ ) (پالنے والے! مجھے اپنا دیدار کرادے) ، اس آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ جیسا بزرگ اور اولو العزم نبی یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ خداوندعالم نہ جسم رکھتا ہے اور نہ مکان اور نہ ہی قابل دیدار ہے، تو پھر انھوں نے ایسی درخواست کیوں کی جو کہ ایک عام آدمی سے بھی بعید ہے؟

اگر چہ مفسرین نے اس سلسلہ میں مختلف جواب پیش کئے ہیں لیکن سب سے واضح جواب یہ ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے یہ درخواست اپنی قوم کی طرف سے کی تھی، کیونکہ بنی اسرائیل کے بہت سے جاہل لوگ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ خدا پر ایمان لانے کے لئے پہلے اس کودیکھیں گے، (سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۵۳/ اس بات کی شاہد ہے) جناب موسیٰ علیہ السلام کو خدا کی طرف سے حکم ملا کہ اس درخواست کو بیان کریں، تاکہ سب لوگ واضح جواب سن سکیں، چنا نچہ کتاب عیون اخبار الرضا علیہ السلام میں امام علی بن موسیٰ الرضا سے مروی حدیث بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے۔(۷)

انھیں معنی کو روشن کرنے والے قرائن میں سے ایک قرینہ یہ ہے کہ اسی سورہ کی آیت نمبر ۵۵ میں جناب موسی علیہ السلام اس واقعہ کے بعد عرض کرتے ہیں: ”( اٴتهلُکنا بِما فَعَلَ السُّفَهاء مِنَّا ) “ ( کیا اس کام کی وجہ سے ہمیں ہلاک کردے گا؟ جس کو ہمارے بعض کم عقل لوگوں نے انجام دیا ہے؟)

اس جملہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے نہ صرف اس طرح کی درخواست نہیں کی تھی بلکہ شاید وہ ۷۰/ افراد جو آپ کے ساتھ کوہِ طور پر گئے تھے ان کا بھی یہ عقیدہ نہیں تھا، وہ صرف بنی اسرائیل کے دانشور اورلوگوں کی طرف سے نمائندے تھے، تاکہ ان جاہل لوگوں کے سامنے اپنی آنکھوں دیکھی کہانی کو بیان کریں جو خدا کے دیدار کے لئے اصرار کررہے تھے۔

____________________

(۱) تفسیر المنار ، جلد ۷، صفحہ ۶۵۳

(۲) سورہ قیامت ، آیت۲۳ ۔۲۴.

(۳)سورہ فتح ،آیت۱۰.

(۴) معانی الاخبار بنا بر نقل تفسیر المیزان ، جلد ۸، صفحہ ۲۶۸

(۵) نور الثقلین ، جلد اول، صفحہ ۷۵۳.

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد ۵، صفحہ ۳۸۱ (۲) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۲، صفحہ ۶۵

(۷) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۳۵۶

۱۱ ۔ عرش خدا کیا ہے؟

قرآن مجید کی آیات میں تقریباً بیس مرتبہ ”عرش الٰہی“ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس کی بنا پر یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرش الٰہی سے کیا مراد ہے؟

ہم نے مکرر عرض کیا ہے کہ ہماری محدود زندگی کے لئے وضع شدہ الفاظ عظمت خدا یا اس کی عظیم مخلوق کی عظمت کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، لہٰذا ان الفاظ کے کنائی معنی اس عظمت کا صرف ایک جلوہ دکھاسکتے ہیں، اسی طرح لفظ ”عرش“ بھی ہے جس کے معنی ”چھت“ یا ”بلند پایہ تخت“ کے ہیں اس کرسی کے مقابلہ میں جس کے پائے چھوٹے ہوتے ہیں،لیکن اس کے بعد قدرت خدا کی جگہ ”عرش پروردگار “ استعمال ہونے لگا۔

اب اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”عرش الٰہی“ سے کیا مراد ہے اور اس لفظ کے استعمال سے کیا معنی مراد لئے جاتے ہیں؟ اس سلسلہ میں مفسرین، محدثین اور فلاسفہ حضرات کے یہاں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔

کبھی ”عرش الٰہی“ سے ”خداوندعالم کا لامحدود علم“ مراد لیا جاتاہے۔

کبھی ”خداوندعالم کی مالکیت اور حا کمیت “کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

اور کبھی خدا وندعالم کی صفات کمالیہ اور صفات جلالیہ مراد لی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر صفت ؛خداکی عظمت کو بیان کرنے والی ہے، جیسا کہ بادشاہوں کے تخت ان کی عظمت اور شان و شوکت کی نشانی ہوا کرتی ہے۔

جی ہاں!خداوندعالم ؛عرش علم، عرش قدرت، عرش رحمانیت اور عرش رحیمیت رکھتا ہے۔

(قارئین کرام!) مذکورہ تینوں تفسیر وں کے لحاظ سے ”عرش“ کالفظ خداوندعالم کی صفات کی طرف اشارہ ہے ، کسی وجود خارجی کی طرف نہیں، ( مثلاً کوئی چیز خارج میں موجود ہو)

اہل بیت علیہم السلام سے منقول بعض روایات میں بھی اسی بات کی تائید ہوئی ہے، جیسا کہ حفص بن غیاث امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے( وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ ) (۱) کے بارے میں سوال کیا ، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اس سے مراد خداوندعالم کا ”علم“ ہے“۔(۲)

امام صادق علیہ السلام سے ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ”عرش“ یعنی وہ علم جس کو انبیاء کو عطا کیا ہے اور ”کرسی“ وہ علم جو کسی کو عطا نہیں ہوا ہے۔(۳)

حالانکہ بعض دوسرے مفسرین نے دیگر روایات سے الہام لیتے ہوئے ”عرش“ اور ”کرسی“ کے معنی خداوندعالم کی دو عظیم مخلوق تحریر کئے ہیں۔

ان میں سے بعض لوگوں کا کہنا ہے: عرش سے تمام کائنات مراد ہے۔

بعض کہتے ہیں: تمام زمین و آسمان ”کرسی“ کے اندر قرار دئے گئے ہیں، بلکہ زمین و آسمان ”کرسی“ کے مقابلہ میں وسیع و عریض بیابان میں پڑی ایک انگوٹھی کی طرح ہے، اور خود ”کرسی“ خداوندعالم کے ”عرش“ کے مقابلہ میں وسیع و عریض بیابان میں پڑی ایک انگوٹھی کی طرح ہے۔

اور کبھی انبیاء علیہم السلام ،اوصیاء اور کامل مومنین کے ”دل“ کو ”عرش“ کہا گیاہے، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے:

إنَّ قَلبَ المومن عَرش الرَّحمٰن(۴)

”بے شک مومن کا دل، عرش الٰہی ہے“۔

اور حدیث قدسی میں بھی بیان ہوا ہے:

لَمْ یسعني سمائي ولا اٴرضي و وسعني قلب عبدي المومن(۵)

”میرے زمین و آسمان ، میری وسعت کی گنجائش نہیں رکھتے لیکن میرے مومن بندہ کا دل میرا مقام واقع ہوسکتاہے“۔

(لیکن جہاں تک انسان کی قدرتِ تشخیص اجازت دیتی ہے) معنی ”عرش“ سمجھنے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں لفظ ”عرش“ استعمال ہوا ہے ان کی دقیق طریقہ سے تحقیق و جستجو کریں۔

قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے:

( ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ ) (۶)

”اور اس کے بعد عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا “

بعض آیات میں ان جملوں کے بعد ”یدبر الامر“ آیاہے یاایسے جملے آئے ہیں جو خداوندعالم کے علم اور اس کی تدبیر کی حکایت کرتے ہیں۔

یا قرآن کریم کی بعض دوسری آیات میں ”عرش“ کے لئے”عظیم“ جیسی صفت بیان ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:( و هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ) (۷) ”اور وہی عرش اعظم کا پروردگار ہے“۔

اورکبھی حاملان عرش کے سلسلہ میں گفتگو ہوئی ہے جیسے محل بحث آیہ شریفہ۔

کبھی ان ملائکہ کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو عرش کو گھمانے والے ہیں، مثلاً:( وَتَرَی الْمَلاَئِکَةَ حَافِّینَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ ) (۸) ”اور تم دیکھو گے کہ ملائکہ عرش الٰہی کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کررہے ہیں“۔

کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ عرش الٰہی پانی پر ہے:( وَکاَنَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ ) (ہود/ ۷)

قرآن کریم کے ان الفاظ اور اسلامی روایات میں بیان ہوئی دورسری عبارتوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ لفظ ”عرش“ کا مختلف معنی پر اطلاق ہوتا ہے، اگرچہ سب کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔

”عرش“ کے ایک معنی وہی مقام ”حکومت، مالکیت اور عالم ہستی کی تدبیر ہے“، کیونکہ بعض معمولی اوقات میں عرش کہہ کر کنایةً ایک حاکم کا اپنی رعایا پر مسلط ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے: ”فلان ثل عرشہ“ یہ کنایہ ہے کہ فلاں بادشاہ کی طاقت ختم ہوگئی، جیسا کہ فارسی زبان میں بھی کہا جاتا ہے: ”پایہ ہای تخت او درہم شکست“ (یعنی اس کی حکومت کی چولیں ہل گئیں)

”عرش“ کے ایک معنی ”عالم ہستی کا مجموعہ“ ہے، کیونکہ دنیا کی تمام چیزیں اس کی عظمت و بزرگی کی نشانی ہیں، اور کبھی ”عرش“ سے ”آسمان“ اور ”کرسی“ سے ”زمین“ کو مراد لیا جاتا ہے۔

اور کبھی ”عرش“ سے ”عالم ماوراء طبیعت“ اور کرسی سے عالم مادہ (چاہے وہ زمین ہو یا آسمان) مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ آیة الکرسی میں بیان ہوا ہے:( وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ )

اور چونکہ خداوندعالم کی مخلوقات اور اس کی معلومات اس کی ذات سے جدا نہیں ہیں لہٰذا کبھی کبھی ”عرش“ سے ”علم خدا“ مراد لیا جاتا ہے۔

اوراگر پاک اور مومن بندوں کے دلوں کو ”عرش الرحمن“ کہا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مومنین کے قلوب خداوندعالم کی ذات پاک کی معرفت کی جگہ اور اس کی عظمت اور قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

لہٰذا ہر جگہ پر استعمال ہونے والے لفظ ”عرش“کو اس جگہ موجود قرائن سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس جگہ ”عرش“ سے کون سے معنی مراد ہیں، لیکن یہ تمام معانی اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ ”عرش“ خدا کی عظمت و بزرگی کی نشانی ہے۔

محل بحث آیہ شریفہ( جس میں حاملان عرش الٰہی کی گفتگو ہے) میں ممکن ہے کہ اس سے وہی حکومت خدا اور عالم ہستی میں اس کی تدبیر مراد ہو ، اور حاملان عرش سے مراد خداوندعالم کی حاکمیت اور اس کی تدبیر کو نافذ کرنے والے مراد ہوں۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ تمام کائنات، یا عالم ماوراء طبیعت کے معنی میں ہو، اور حاملان عرش سے مراد وہ فرشتے ہوں جو حکم خدا سے اس کائنات کی تدبیر کے ستون اپنے شانوں پر اٹھائے ہوئے ہوں۔

____________________

(۱ اور ۲)سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۵ بحار الانوار ، جلد ۵۸، صفحہ ۲۸ (حدیث ۴۶ و۴۷)”اس کی کرسی، علم و اقتدار زمین و آسمان سے وسیع تر ہے“۔

(۳) بحار الانوار ، جلد ۵۸، صفحہ ۲۸ (حدیث ۴۶ و۴۷)

(۴) بحار الانوار ، جلد ۵۸، صفحہ ۳۹

(۵) بحار الانوار ، جلد ۵۸، صفحہ ۳۹

(۶) سورہ اعراف ، آیت۵۴۔ سورہ یونس ، آیت۳۔ سورہ رعد ،آیت۲۔ سورہ فرقان ، آیت۵۹ سورہ سجدہ ،آیت۴۔ سورہ حدید ، آیت۴.سورہ توبہ آیت۱۲۹ (۲)سورہ زمر آیت۷ ۵

(۷) تفسیر نمونہ ج۲۰، صفحہ ۳۵

۱۲ ۔ عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟

جیساکہ ہم سورہ اعراف آیت نمبر ۱۷۲ میں پڑھتے ہیں:

( وَإِذْ اٴَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَاٴَشْهَدَهُمْ عَلَی اٴَنفُسِهِمْ اٴَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی شَهِدْنَا اٴَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِینَ )

” اور جب تمہارے پروردگار نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت کو لے کر انھیں خود ان کے اوپر گواہ بنا کر سوال کیا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں ہوں؟ تو سب نے کہا بے شک ہم اس کے گواہ ہیں یہ عہد اس لئے لیا کہ روز قیامت یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اس عہد سے غافل تھے“۔

اس آیت میں بنی آدم کے عہد و پیمان کو مجمل طور سے بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ عہد و پیمان کیا تھا؟ (یہ سوال ذہن میں آتا ہے۔)

اس عالم اور اس عہد و پیمان سے مراد وہی ”عالم استعداد“ ، ”پیمان فطرت“ اور تکوین و آفرینش ہے، وہ بھی اس طرح سے کہ جب انسان ”نطفہ“ کی صورت میں صلب پدر سے رحم مادر میں منتقل ہوتاہے جس وقت انسان کی حقیقت ذرات سے زیادہ نہیں ہوتی، اس وقت خداوندعالم حقیقت توحید کو قبول کرنے کی استعداد اور آمادگی عنایت فرماتا ہے، لہٰذا انسان کی فطرت اور اس کی ذات میں یہ الٰہی راز ایک حس باطنی کی صورت میں ودیعت ہو تا ہے، نیز انسان کی عقل میں ایک حقیقت کی شکل میں قراردیاجاتا ہے!۔

اس بنا پر تمام انسانوں کے یہاں روحِ توحید پائی جاتی ہے، اور خداوندعالم نے انسان سے زبان تکوین و آفرینش میں سوال کیا ہے اور اس کا جواب بھی اسی زبان میں ہے۔

اس طرح کی تعبیریں ہمارے روز مرّہ کی گفتگو میں ہوتی ہے جیساکہ ہم کہتے ہیں کہ انسان کے چہرہ کے رنگ سے اس کے اندرونی حالات کا پتہ لگ جاتا ہے، یا انسان کی سر خ آنکھوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شخص رات میں نہیں سویا ہے۔

ایک عرب ادیب اور خطیب سے نقل ہوا ہے :

”سَلْ الاٴرضَ مَن شَقَ اٴنهارکِ وغرسَ اٴشجارکِ واٴینعَ ثِمَارِکِ فإنْ لَمْ تُجبکَ حواراً إجابتکَ إعتباراً

”اس زمین سے سوال کرو کہ تیرے اندر یہ نہریں کس نے جاری کی ہیں اور کس نے یہ درخت اگائے ہیں اور کس نے پھلوں میں رس گھولا ہے؟ تو اگر وہ سادہ زبان میں جواب نہ دے تو پھر زبان حال سے گویا ہوگی“۔

اسی طرح قرآن مجید میں بھی بعض مقامات پر زبان حال سے گفتگو کا بیان ہوا ہے:

( فَقَالَ لَهَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْهًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِینَ ) (۱)

”اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بکراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں“۔(۲) .

____________________

(۱)سورہ فصلت ، آیت ۱۱

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ ۶