110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131789
ڈاؤنلوڈ: 4524

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131789 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۹۶ ۔ جبر اور اختیار کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟

علمائے اسلام کے درمیان یہ مسئلہ زمانہ قدیم سے مورد نزاع رہا ہے ، ایک جماعت انسان کی آزادی اور اختیار کی قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ جبر کے نظریہ کا طرفدار ہے، اور ہر جماعت اپنے مقصد کے اثبات کے لئے دلائل پیش کرتی ہے۔

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ”جبر کے قائل“ بھی اور ”اختیار کے طرفدار“ بھی مقام عمل میں اختیار اور آزادی کو ہی صحیح مانتے ہیں، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ یہ تمام بحث و گفتگو صرف علمی میدان تک ہے، مقام عمل میں نہیں، جس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ تمام انسانوں میں آزادی، ارادہ اور اختیار اصل ہے، اور اگر اس سلسلہ میں مختلف وسوسے نہ پائے جائیں تو سبھی انسان آزادی اور اختیار کے طرفدار ہوں گے۔

عام فکر وخیال اور فطرتِ انسان ”نظریہ اختیار“ کی واضح دلیل ہے، جو انسانی زندگی کے مختلف مواقع پر جلوہ گر ہے،کیونکہ اگر انسان اپنے اعمال میں خود کو مجبور سمجھے اور اپنے لئے اختیار کا قائل نہ ہو ، تو پھر کیوں:

۱ ۔ انسان اپنے کئے ہوئے بعض کاموں پر یا بعض کاموں کے نہ کرنے پر پشیمان اور شرمندہ ہوتا ہے، اور یہ طے کرلیتا ہے کہ اپنے گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھائے، ”جبر کا عقیدہ رکھنے والوں “کو (بھی) یہ شرمندگی بہت سے موارد میں پیش آتی ہے، اگر نظریہ اختیار صحیح نہیں ہے تو پھر یہ شرمندگی کیسی؟!

۲ ۔ بُرے لوگوں کی سب مذمت کرتے ہیں، اگر جبر کا نظریہ صحیح ہے تو ملامت کیسی؟!

۳ ۔ نیک اور اچھے لوگوں کی سب تعریفیں کرتے ہیں، اگر جبر کا نظریہ صحیح ہے تو تعریف کیوں؟!

۴ ۔ سبھی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ خوش بخت ہوجائیں، اگر سبھی مجبور ہیں تو پھر تعلیم و تربیت کیا معنی رکھتی ہے؟!

۵ ۔ معاشرہ میں اخلاقی سطح کو بلند کرنے کے لئے سبھی علمااور دانشور کوشش کرتے ہیں۔

۶ ۔ انسان اپنی خطاؤں سے توبہ کرتا ہے، لیکن اگر جبر کے نظریہ کو قبول کیا جائے تو پھر توبہ کی کیا حیثیت ہے؟!

۷ ۔ انسان اپنی کوتاہی اور خامیوں پر حسرت اور افسوس کرتا ہے، کیوں؟

۸ ۔ پوری دنیا میں مجرم اور بُرے لوگوں کو سزا ملتی ہے اور سختی کے سا تھ سوال و جواب ہو تے ہیں،لیکن جو کام ان کے اختیار میں نہیں ہے تو پھر یہ سزا اور بازپرس کیسی؟!

۹ ۔ پوری دنیا اور تمام مذہب و ملت میں چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم سبھی کے یہاں مجرموں کے لئے سزا معین ہے، لیکن انسان جس کام پر مجبور ہو تو پھر سزا کیسی؟!

۱۰ ۔ یہاں تک کہ جبری مکتب کے قائل لوگوں کا اگر کوئی نقصان کر دیتا ہے یا کو ئی ان پر ظلم و ستم کرتا ہے تو ان کی فریاد بلند ہوجاتی ہے، اس کو خطاکار شمار کرتے ہیں اور اس کو عدلیہ تک لے جاتے ہیں!

خلاصہ یہ کہ اگر حقیقت میں انسان مختار نہیں ہے تو پشیمانی کیوں؟!

مذمت اور ملامت کس لئے؟ اگر کسی کا ہاتھ بے اختیار لرزتا ہو تو کیا اس کو ملامت کی جائے گی؟ کیوں نیک افراد کی مدح و ثنا کی جاتی ہے، کیا انھوں نے اپنے اختیار سے کچھ کیا ہے جو نیک کام کی طرف ترغیب دلانے سے نیک کام کرتے رہتے ہیں؟!

اصولی طور پر تعلیم و تربیت کی تاثیر کو قبول کرتے ہوئے جبری نظریہ کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔

اس کے علاوہ آزادی اور اختیار کو قبول کئے بغیر اخلاقی مسائل کا ہرگز کوئی مفہوم نہیں نکلتا۔

اگر ہم اپنے کاموں میں مجبور ہوں تو پھر توبہ کیوں؟ کیوں حسرت کی جائے؟ اس لحاظ سے مجبور شخص کو سزا دینا سب سے بڑا ظلم ہے۔

یہ سب چیزیں واضح کرتی ہیں کہ تمام انسانوں میں آزادی اور اختیار اصل ہے اور نوعِ بشر کا دل بھی اسی چیز کی گواہی دیتا ہے، نہ صرف عوام الناس بلکہ تمام علمااور فلاسفہ مقام عمل میں اسی طرح ہیں ، یہاں تک کہ جبری نظریہ رکھنے والے بھی مقام عمل میں اختیار کے نظریہ کو مانتے ہیں: ”الجَبریُّونَ إخْتِیَاریُّونَ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ “!

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اسی مسئلہ پر بارہا تاکید کی ہے، ارشاد خداوندی ہے:( فَمَنْ شَاءَ إتَّخِذَ اِلٰی رَبَّهِ مَآبَا ) (۱) ”(یہی بر حق دین ہے )تو جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف ٹھکانا بنا لے“۔

قرآن مجید کی دیگر آیات میں انسان کے ارادہ و اختیار پر بہت زیادہ اعتماد کیا گیا ہے ، ان سب کو یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے صرف دو آیتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

( إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا ) (۲) ”یقینا ہم نے انسان کو راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے“۔

اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:( فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ) (۳) ”اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہوجائے“۔ (لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کافروں کے لئے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے)

”جبر و تفویض“ کے سلسلہ میں گفتگو بہت طویل ہے، اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں، لیکن اس مسئلہ میں صرف قرآن و وجدان کی روشنی میں لکھا گیا ہے، ہم اس گفتگو کو ایک ”اہم نکتہ“ کی یاد دہانی کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں:

مسئلہ جبر سے ایک گروہ کی طرفداری فلسفی یا استدلالی مشکلات کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس عقیدہ کی پیدائش میں اجتماعی اور نفسیاتی عوامل کا دخل تھا۔

”جبر“ یا ”جبری زندگی“ اور جبر کے معنی میں ”قضا و قدر“ کا عقیدہ رکھنے والے متعدد افراد بعض ذمہ داریوں سے فرار کرنے کے لئے اس عقیدہ کا سہارا لیتے ہیں، جو اس عقیدہ کی آڑ میں ہر غلط کام اور شکست کی توجیہ کرنا چاہتے ہیں جو خود ان کی سستی اور کاہلی کی بنا پر ہوتا تھا۔

یا اپنی ہوس اور بے راہ روی پر اس عقیدہ کا پردہ ڈال کر ہر کام کو جائز کرنا چاہتے تھے۔

اور کبھی استعمار،عوام الناس کی تحریک کو کچلنے اور قوم و ملت کے قہر و غضب کی آگ کو خاموش کرنے کے لئے اپنے عقیدہ کو لوگوں پر حمل کرتا ہے کہ شروع سے تمہاری قسمت میں یہی تھا لہٰذا اس پر راضی اور تسلیم ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں !

اس (غلط) نظریہ کے تحت اپنے تمام ظلم و ستم اور غلط اعمال کی توجیہ کرلیتے ہیں، اور سبھی گناہگاروں کے گناہوں کی منطقی اور عقلی توجیہ ہوجاتی ہے، اس صورت میں اطاعت گزار اور مجرم کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔(۴)

انسان کی آزادی اور اختیار کے لئے سورہ فصلت کی یہ آیہ کریمہ واضح دلیل ہے :( وَمَا رَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ ) (۵) یہ آیہ شریفہ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ خداوندعالم کسی کو بلا وجہ عذاب نہیں دیتا اور نہ ہی کسی کے عذاب میں دلیل کے بغیر اضافہ کرتا، اس کے کام صرف عدالت پر مبنی ہوتے ہیں، کیونکہ ظلم و ستم کا سر چشمہ؛ کمی اور خامی، جہل و نادانی یا ہوائے نفس ہوتے ہیں، جبکہ خداوندعالم کی ذات اقدس ان تمام چیزوں سے پاک و منزہ ہے۔

قرآن مجید اپنی واضح آیات (بینات) میں ”جبری نظریہ“ ( جس کے پیش نظر معاشرہ میں ظلم و فساد پھیلتا ہے ، برائیوں کی تائید ہوتی ہے اور انسان ہر طرح کی ذمہ داری سے بچ جاتا ہے) کو باطل قرار دیتی ہیں، اور سبھی انسانوں کو اپنے اعمال کا ذمہ دار شمار کرتی ہیں، اور ہر انسان کے اعمال کے نتائج (جزا یا سزا) اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہواہے، کہ آپ کے ایک صحابی نے سوال کیا:”هَلْ یجبَرُ الله عِبَاده عَلَی المُعَاصِی؟ فَقَالَ:لا ، بَل یُخَیُّرهُم وَ یُمَهِّلُهُم حَتّٰی یَتُوبُوا

”کیا خداوندعالم اپنے بندوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:نہیں، بلکہ ان کو آزاد چھوڑ دیتا ہے اور ان کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں“

اس صحابی نے دوبارہ سوال کیا: ”هل کلف عباده ما لایطیقون ؟“ کیا خداوندعالم اپنے بندوں کو ”تکلیف ما لایطاق“ دیتا ہے ؟ (یعنی ایسی چیز کے انجام دینے کے لئے کہتا ہے جس کی انسان میں طاقت نہ ہو۔)

اس وقت امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”کَیفَ یَفْعَلُ ذَلکَ؟ وَ هُوَیَقُولُ :( وَمَا رَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ ) (۶) ” وہ کس طرح ایسا کرسکتا ہے جبکہ خود اس نے فرمایا ہے: ’اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے“۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے مزید فرمایا: ہمارے پدر بزرگوار موسیٰ بن جعفر علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار جعفر بن محمد علیہ السلام سے اس طرح نقل فرمایا ہے: ”جو شخص یہ گمان کرے کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے یا تکلیف ما لا یطاق دیتا ہے، تو ایسے شخص کے ہاتھوں کا ذبیحہ نہ کھاؤ ، اس کی گواہی قبول نہ کرو، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو، اور اس کو زکوٰة نہ دو، (خلاصہ یہ کہ اس پر اسلام کے احکام جاری نہ کرو)(۷)

(قارئین کرام!) مذکورہ حدیث سے ضمنی طور پر یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ایک ظریف نکتہ ہے کہ ”مکتب جبری“ تکلیف مالا یطاق کا دوسرا چہرہ ہے، کیونکہ اگر انسان ایک طرف گناہ کرنے پر مجبور ہو اور دوسری طرف اس کو نہی کی جائے تو یہ تکلیف ما لا یطاق کا واضح مصداق ہوگا۔(۸)

اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( إِنَّ هَذِهِ تَذْکِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَی رَبِّهِ سَبِیلًا ) () ” بے شک یہ ایک نصیحت کا سامان ہے اب جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستہ کو اختیار کرلے“،(یہ خود ایک یاد دہانی ہے جس کے ذریعہ انسان خداوندعالم کے بتائے ہوئے راستہ کا انتخاب کرسکتاہے)

اور چونکہ ممکن تھا کہ کم ظرف لوگ اس مذکورہ تعبیر سے مطلق طور پر ”تفویض“ کا تصور کرلیں، اسی وجہ سے بعد والی آیت میں ”تفویض“ کی نفی کے لئے ارشاد ہوا ہے:( وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ ) ” اور تم لوگ صرف وہی چاہتے ہو جو پروردگار چاہتا ہے“۔ ”بے شک اللہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحب حکمت ہے“۔( إِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا ) (۱۰)

در اصل یہ مشہور و معروف قاعدہ”الامر بین الامرین“( ۲) کا اثبات ہے، ایک طرف تو خداوندعالم فرماتا ہے: ”خدا نے راستہ دکھا دیا ہے ، راستہ کا انتخاب تمہارا کام ہے“ ، دوسری طرف فرماتا ہے: ”تمہارا انتخاب مشیت الٰہی پر موقوف ہے“، یعنی تم مکمل طور پر استقلال نہیں رکھتے بلکہ تمہاری قدرت، آزادی اور ارادہ خدا کی مرضی اور اس کی طرف سے ہے، وہ جس وقت بھی ارادہ کرے تمہاری قدرت اور آزادی کو سلب کرسکتا ہے۔

اس لحاظ سے نہ مکمل ”تفویض“ ہے اور نہ ”اجبار اور سلبِ اختیار“ بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک دقیق و لطیف حقیقت ہے، بالفاظِ دیگر: ایک قسم کی آزادی ہے لیکن مشیت الٰہی سے وابستہ ،یعنی جب بھی خدا چاہے اس آزادی کو واپس لے سکتا ہے، تاکہ بندگان خدا تکالیف اور ذمہ داریوں کا احساس کریں دوسری طرف سے خدا سے بے نیازی کا تصور بھی پیدانہ ہو۔

مختصر: یہ تعبیرات اس وجہ سے ہیں کہ بندے ہدایت، حمایت، توفیق اور تائید ذات مقدس سے بے نیازی کا تصور نہ کریں، اپنے کاموں کے عزم و ارادہ کو خداوندعالم کے سپرد کریں اور اس کی حمایت کے زیر سایہ قدم اٹھائیں۔

یہاں سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ بعض جبری مسلک رکھنے والے مفسرین اس آیت کا سہارا لیتے ہیں البتہ وہ اس مسئلہ میں پہلے سے فیصلہ کرچکے ہیں (یعنی جبری نظریہ کو پہلے سے قبول کرچکے ہیں) جیسا کہ فخر رازی کا کہنا ہے: ”وَ اعلم اٴنَّ هَذِه الآیةِ مِن جُمْلَةِ الآیَاتِ التی تَلاطمتْ فِیْهَا اٴمْوَاجُ الجَبْرِ وَ القَدْرِ!“ (۱۱) ”جاننا چاہئے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن میں ”جبر“ کی موجیں متلاطم ہیں“،جی ہاں! اگر اس آیت کو پہلی آیات سے الگ کرلیں تو اس طرح کا وہم و گمان کیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ ایک آیت میں ”اختیار“ کی تاثیر کو بیان کیا گیا ہے اور دوسری آیت میں ”مشیتِ پروردگار“ کی تاثیر کو بیان کیا گیا ہے، جس سے ”الامر بین الامرین“ کا مسئلہ ثابت ہوجاتا ہے۔عجیب بات تو یہ ہے کہ ”تفویض“ کے طرفدار افراد بھی اسی آیت کو دلیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ آیت ”مطلقِ اختیار “ کو بیان کرتی ہے، جبکہ ”جبر“ کے طرفدار بھی اس آیت، کہ جس سے صرف جبر کی بو آتی ہے، تمسک کرتے ہیں اور دونوں پہلے سے اپنے کئے ہوئے فیصلہ کی توجیہ کرتے ہیں، جبکہ کلام الٰہی (بلکہ کسی بھی کلام) کو صحیح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے نظریہ کو دور رکھیں اور تعصب سے کام نہ لیتے ہوئے فیصلہ کریں۔آیت کے ذیل میں فرمایا گیا ہے:( ان الله کان علیماً حکیما ) جو اسی بات کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کیونکہ خداوندعالم کی حکمت اور اس کا علم اس بات کا مو جب ہے کہ انسان کمال اور ترقی کی منزلوں کو طے کرنے میں آزاد ہے ورنہ اجباری تکامل و ترقی کوئی کمال نہیں ہے۔

اس کے علاوہ خداوندعالم کا علم اور اس کی حکمت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کچھ لوگوں کو نیک کام پر مجبور کرے اور کچھ لوگوں کو برُے کاموں پر مجبور کرے ، پہلے گروہ کو جزا یا انعام دے اور دوسرے گروہ کو سزا اور عذاب میں مبتلا کرے۔(۱۲)

____________________

(۱) سورہ نباء ، آیت ۳۹

(۲) سورہ دہر ، آیت ۳

(۳) سورہ کہف ، آیت ۲۹

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد۲۶، صفحہ ۶۴

(۵) سورہ فصلت ، آیت ۴۶: ”اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے“

(۶) سورہ فصلت ، آیت ۴۶

(۷) عیون اخبار الرضا ، نور الثقلین ، جلد ۴، صفحہ ۵۵۵ کے نقل کے مطابق

(۸) تفسیر نمونہ ، جلد۲۰، صفحہ ۳۰۸ (۴) سورہ انسان (دہر)، آیت ۲۹

(۱۰)سورہ انسان (دہر) ، آیت ۳۰ (۲) یعنی نہ جبر ہے اور نہ تفویض، بلکہ ان دونوں کا درمیانی راستہ صحیح ہے

(۱۱) تفسیر فخر رازی ، جلد ۳۰ ، صفحہ ۲۶۲ (۱۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۵، صفحہ ۳۸۵

۹۷۔ کیا نظر ِبد کی کوئی حقیقت ہے؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( وَإِنْ یَکَادُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِاٴَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ ) (۱) ”اور یہ کفار قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلا دیں گے “۔

اس آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظر بد کی کو ئی حقیقت ہے؟

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ بعض لوگوں کی آنکھوں میں ایک مخصوص اثر ہوتا ہے کہ جس وقت وہ کسی چیز کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ممکن ہے وہ خراب ہوجائے یا نیست و نابود ہوجائے، یا اگر کسی انسان کو اس نگاہ سے دیکھ لے تو یاوہ بیمار یا پاگل ہوجائے۔

عقلی لحاظ سے یہ مسئلہ محال نہیں ہے کیونکہ آج کل کے متعدد دانشورں کا ماننا ہے کہ بعض لوگوں کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی طاقت ہوتی ہے جس سے بہت کام لیا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کی تمرین اور ممارست سے اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے، ”مقناطیسی نیند‘ ‘ (ہیپناٹزم Hypnotism ) بھی آنکھ کی اسی مقناطیسی طاقت کے ذریعہ ہوتی ہے۔

آج جبکہ ”لیزری شعاعیں“ دکھائی نہ دینے والی لہریں ایسا کام کرتی ہیں جو کسی خطرناک اور تباہ کن ہتھیار سے نہیں ہوسکتا، تو بعض لوگوں کی آنکھوں میں اس طاقت کا پایا جانا جو مخصوص لہروں کے ذریعہ مد مقابل پر اثر انداز ہوتی ہے، جائے تعجب نہیں رہ جاتا۔

متعدد لوگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے بعض لو گوں کی آنکھوں میں ایسی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے جنھوں نے اپنی نظر سے انسان یا حیوان یا دوسری چیزوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔

لہٰذا نہ صرف اس چیز کے انکار پر اصرار کیا جائے بلکہ عقلی اور علمی لحاظ سے اس کو قبول کیا جاناچاہئے۔

بعض اسلامی روایات میں بھی ایسے الفاظ ملتے ہیں جن سے اجمالی طور پر اس چیز کی تائید ہوتی ہے۔

چنانچہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ”اسماء بنت عمیس“ نے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں عرض کی: جعفر کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے کیا میں ان کے لئے ”رقیہ“ لے لوں (”رقیہ“ اس دعا کو کہتے ہیں جو نظر لگنے سے روکنے کے لئے لکھی جاتی ہے اور اس کا تعویذ بنایا جاتا ہے)

تو پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ”نَعَمْ، فَلَو کَانَ شَیءٍ یسبقُ القَدْرِ لَسَبَقَهُ العَیْنِ(۲) ”ہاں، کوئی حرج نہیں ہے، اگر کوئی چیز قضا و قدر پر سبقت لینے والی ہو تی تو وہ نظر بد ہو تی ہے“۔

ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اکرم (ص) نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے لئے تعویذ بنایا اور اس دعا کو پڑھا: ”اٴعِیذُ کَمَا بِکَلِمَاتِ التَّامةِ وَ اٴسْمَاءِ اللّٰهِ الحُسْنٰی کُلِّهَا عَامة، مِنْ شرِّ السَّامَةِ وَ الهَّامَةِ، وَ مِنْ شرِّکُلُّ عَینٍ لَامَّةِ، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَد “ (تمہیں تمام کلمات اور اللہ کے اسماء حسنی کی پناہ میں دیتا ہوں ،بری موت، موذی حیوانات، بری نظر اور حسد کرنے والے کے شر سے) ، اور اس کے بعد ہماری طرف دیکھ کر فرمایا: ”جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل اور اسحاق کے لئے یہی تعویذ بنایا تھا۔(۳)

اسی طرح نہج البلاغہ میں بیان ہوا ہے: ”العَیْنُ حَقٌّ وَ الرقيٌّ حَقٌّ(۴) چشم بد اور دعا کے ذریعہ اس کو دفع کرنا حقیقت رکھتے ہیں“۔(۵)

____________________

(۱) سورہ قلم ، آیت ۵۱(۲) مجمع البیان ، جلد ۱۰ ، صفحہ ۳۴۱

(۳) نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۴۰۰

(۴)نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر ۴۰۰، (یہ حدیث صحیح بخاری، جلد ۷، صفحہ ۱۷۱، باب ”العین حق“ میں بھی اسی صورت سے نقل ہوئی ہے: العین حق) ، نیز ”معجم لالفاظ الحدیث النبوی“ میں بھی مختلف منابع سے اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے، (جلد ۴، صفحہ ۴۵۱)

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۴، صفحہ ۴۲۶

۹۸ ۔ کیا فال نیک اور بد شگونی حقیقت رکھتے ہیں ؟

شاید ہمیشہ سے مختلف قوم و ملت کے درمیان فال نیک اور بد شگونی کا رواج پایا جاتا ہے بعض چیزوں کو ”فال نیک“قرار دیتے ہیں جس کو کامیابی کی نشانی اور بعض چیزوں کو ”بد شگونی“ ناکامی اور شکست کی نشانی سمجھتے تھے، جبکہ ان چیزوں کا کامیابی اور شکست سے کوئی منطقی تعلق نہیں پایا جاتا،خصوصاً بد شگونی کے سلسلہ میں بہت سی نامعقول اور خرافات قسم کی چیزیں رائج ہیں۔

اگرچہ ان دونوں کا طبیعی اثر نہیں ہے لیکن نفسیاتی اثر ہوسکتا ہے، فالِ نیک انسان کے لئے امید اور تحریک کا باعث ہے اور بدشگونی ناامید اور سستی کا سبب بن سکتی ہے۔

شاید اسی وجہ سے اسلامی روایات میں فالِ نیک سے ممانعت نہیں کی گئی ہے لیکن فالِ بد اور بد شگونی کے لئے شدت سے ممانعت کی گئی ہے، چنانچہ ایک مشہور و معروف حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے: ”تَفَاٴلُوا بِالخَیْرِ تَجِدُوْهُ “ (اپنے کاموں میں فال نیک کرو (اور امیدوارر ہو) تاکہ اس کے انجام تک پہنچ جاؤ) اس حد یث میں اس موضوع کا اثباتی پہلو منعکس ہے، اور خود آنحضرت (ص) ،ائمہ دین علیہم السلام کے حالات میں بھی یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ یہ حضرات بعض مسائل کو فال نیک سمجھے تھے ،مثال کے طور پر جب سر زمین ”حدیبیہ“ میں مسلمان کفار کے مقابل قرارپائے اور ”سہیل بن عمرو“ کفارِ مکہ کا نمائندہ بن کر پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آیا،جب آنحضرت (ص) اس کے نام سے با خبر ہوئے تو فرمایا: ”قدْ سهلَ علیکم اٴمرَکمْ “ (یعنی میں ”سہیل“ کے نام سے تفال کرتا ہوں کہ تمہارا کام سہل اور آسان ہوگا“۔(۱)

چھٹی صدی ہجری کے ”دمیری“ نامی مشہور و معروف دانشور مولف نے اپنی ایک تحریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اس وجہ سے فالِ نیک کیا کرتے تھے کیونکہ جب انسان فضل پروردگار کا امیدوار ہوتا ہے تو راہ خیر میں قدم بڑھاتا ہے لیکن جب رحمت پروردگار کی امید ٹوٹ جاتی ہے تو پھر برے راستہ پر لگ جاتاہے، اور فال بد یا بد شگونی کرنے سے بدگمانی پیدا ہوتی ہے اور انسان بلا اور بدبختی سے خوف زدہ رہتا ہے۔(۲) فال بد یا بد شگونی کے بارے میں اسلامی روایات نے بہت شدت کے ساتھ مذمت کی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے(۳) ، نیز پیغمبر اکرم (ص) کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”الطَّیْرةُ شِرْکٌ(۴) (بد شگونی کرنا (اور انسان کی زندگی میں اس کو موثر ماننا) ایک طرح سے خدا کے ساتھ شرک ہے)

اسی طرح ایک دوسری جگہ بیان ہوا ہے کہ اگر بد شگونی کا کوئی اثر ہے تو وہی نفسیاتی اثر ہے، حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”بد شگونی کا اثر اسی مقدار میں ہے جتنا تم اس کو قبول کرتے ہو، اگر اس کو کم اہمیت مانو گے تو اس کا اثر کم ہوگا اور اگر اس سلسلہ میں تم بہت معتقد ہوگئے تو اس کا اثر بھی اتنا ہی ہوگا، اور اگر اس کی بالکل پروا نہ کرو تو اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا“۔(۵)

اسلامی روایات میں پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ بد شگونی سے مقابلہ کرنے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ اس پر توجہ نہ کی جائے، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے: ”تین

چیزوں سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا، (جنّات کا وسوسہ اکثر لوگوں کے دلوں پر اثر کر جاتا ہے) فال بد یا بد شگونی، حسد اور سوء ظن، اصحاب نے سوال کیا کہ ان سے بچنے کے لئے ہم کیا کریں؟ تو آنحضرت نے فرمایا: جب کوئی تمہارے لئے بد شگونی کرے تو اس پر توجہ نہ کرو، جس وقت تمہارے دل میں حسد پیدا ہو تو اس کے مطابق عمل نہ کرو اور جب تمہارے دل میں کسی کی طرف سے سوء ظن (اوربد گمانی) پیدا ہو تو اس کو نظر انداز کردو“۔

عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ فال نیک اور بد شگونی کا موضوع ترقی یافتہ ممالک اور روشن فکر یہاں تک کہ مشہور و معروف نابغہ افراد کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر مغربی ممالک میںزینہ کے نیچے سے گزرنا، یا نمکدانی کا گرنا یا تحفہ میں چاقو دینا وغیرہ کو بد شگونی کی علامت سمجھا جاتا ہے!

البتہ فالِ نیک کا مسئلہ کوئی اہم نہیں بلکہ اکثر اوقات اس کا اثر مثبت ہوتا ہے، لیکن بد شگونی سے مقابلہ کرنا چاہئے اور اپنے ذہن سے دور کرنا چاہئے، جس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان خداوندعالم پر توکل اور بھر پور بھروسہ رکھے، جیساکہ اسلامی روایات میں اس چیز کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔(۶)

____________________

(۱) المیزان ، جلد ۱۹، صفحہ ۸۶

(۲)سفینة البحار ، جلد دوم، صفحہ ۱۰۲

(۳) مثلاً: سورہ یس ، آیت ۱۹، سورہ نمل ، آیت ۴۷، سورہ اعراف آیت۱۳۱

(۵،۴)المیزان ، محل بحث آیت کے ذیل میں