110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب5%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۱۰ سوال اور جواب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140511 / ڈاؤنلوڈ: 6369
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

۱۱۰ سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

۱۰۹ ۔ تقیہ کا مقصد کیا ہے؟

تقیہ ایک دفاعی ڈھال

یہ صحیح ہے کہ انسان کبھی بلند مقاصد ، شرافت کے تحفظ اور حق کی تقویت اور باطل کے تزلزل کے لئے اپنی عزیز جان قربان کرسکتا ہے، لیکن کیا کوئی عاقل یہ کہہ سکتا ہے کہ انسان کے لئے بغیر کسی خاص مقصد کے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا جائز ہے ؟!

اسلام نے واضح طور پر اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر انسان کی جان، مال اور عزت خطرہ میں ہو اور حق کے اظہار سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو، تو وقتی طور پر اظہار حق نہ کرے بلکہ مخفی طریقہ سے اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا رہے، جیسا کہ قرآن مجید کے سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۲۸/ اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے(۱) یا دوسرے الفاظ میں سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:( مَنْ کَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِهِ إِلاَّ مَنْ اٴُکْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَان ) (۲) ”جو شخص بھی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لے علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو “۔

( ۱ )( لاَیَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ اٴَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنْ اللهِ فِی شَیْءٍ إِلاَّ اٴَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ) (سورہ آل عمران ، آیت ۲۸)” خبردار صاحبان ایمان ؛مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی و سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگامگر یہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے“

کتب احادیث اور تواریخ میں جناب ”عمار یاسر“ اور ان کے والدین کا واقعہ سب کے سامنے ہے، جو مشرکین اور بت پرستوں کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، ان کو سخت تکلیفیں پہنچا ئی گئی تھیں تاکہ اسلام سے بیزاری کریں،اسلام کو چھوڑ دیں، لیکن جناب عمار کے ماں باپ نے ایسا نہیں کیا جس کی بنا پر مشرکین نے ان کو قتل کردیا، لیکن جناب عمار نے ان کی مرضی کے مطابق اپنی زبان سے سب کچھ کہہ دیا، اور خوف خدا کی وجہ سے روتے ہوئے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے ، (واقعہ بیان کیا) تو آنحضرت (ص) نے ان سے فرمایا: ”إنْ عَادُوا لَکَ فَعَدّلَہُم“ اگر پھر کبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو جو تم سے کہلائیں کہہ دینا، اور اس طرح آنحضرت (ص) نے ان کے خوف و پریشانی کو دور کردیا۔

مزید توجہ کا حامل ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تقیہ کا حکم سب جگہ ایک نہیں ہے بلکہ کبھی واجب، کبھی حرام اور کبھی مباح ہوتا ہے۔

تقیہ کرنا اس وقت واجب ہے جب بغیر کسی اہم فائدہ کے انسان کی جان خطرہ میں ہو، لیکن اگر تقیہ باطل کی ترویج، لوگوں کی گمراہی اور ظلم و ستم کی تقویت کا سبب بن رہا ہو تو اس صورت میں حرام اور ممنوع ہے۔

اس لحاظ سے تقیہ پر ہونے والے اعتراضات کا جواب واضح ہوجاتا ہے، در اصل اگر تقیہ پر ا عتراض کرنے والے تحقیق و جستجو کرتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ یہ عقیدہ صرف شیعوں کا نہیں ہے بلکہ تقیہ کا مسئلہ اپنی جگہ پر عقل کے قطعی حکم اور انسانی فطرت کے موافق ہے۔(۳)

کیونکہ دنیا بھرکے تمام صاحبان عقل و خرد جس وقت ایک ایسی جگہ پہنچتے ہیں جہاں سے دو راستہ ہوں یا تو اپنے اندرونی عقیدہ کے اظہار سے چشم پوشی کریں یا اپنے عقیدہ کا اظہار کرکے اپنی جان و مال اور عزت کو خطرہ میں ڈال دیں، توایسے موقع پر انسان تحقیق کرتا ہے کہ اگر اس عقیدہ کے اظہارسے اس کی جان و مال اور عزت کی قربانی کی کوئی اہمیت اور فائدہ ہے تو ایسے موقع پر اس فدا کاری اور قربانی کو صحیح مانتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں کہ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے تو اپنے عقیدہ کے اظہار سے چشم پوشی کرتے ہیں۔

تقیہ یا مقابلہ کی دوسری صورت

مذہبی، اجتماعی اور سیاسی مبارزات اور تحریک کی تاریخ میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ جب ایک مقصدکا دفاع کرنے والے اگر علی الاعلان جنگ یا مقابلہ کریں تو وہ خود بھی نیست و نابود ہوجائیں گے اور ان کے مقاصد بھی خاک میں مل جائیں گے یا کم سے کم ان کے سامنے بہت بڑا خطرہ ہوگاجیسا کہ غاصب حکومت بنی امیہ کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں نے ایسا ہی کردار ادا کیا تھا، ایسے موقع پر صحیح اور عاقلانہ کام یہ ہے کہ اپنی طاقت کو یونہی ضائع نہ کریں اور اپنے اغراض و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے غیر مستقیم اور مخفی طریقہ سے اپنی فعالیت و تحریک جاری رکھیں، در اصل تقیہ اس طرح کے مکاتب اور ان کے پیرووں کے لئے ایسے موقع پر جنگ و مبارزہ کی ایک دوسری شکل شمار ہوتا ہے جو ان کو نابودی سے نجات دیتا ہے اوروہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تقیہ کو نہ ماننے والے افراد نامعلوم اس طرح کے مواقع پر کیا نظر یہ رکھتے ہیں؟ کیا ان کا نابود ہونا صحیح ہے یا صحیح اور منطقی طریقہ پر اس مبارزہ کو جاری رکھنا؟ اسی دوسرے راستہ کو تقیہ کہتے ہیں جبکہ کوئی بھی صاحب عقل اپنے لئے پہلے راستہ کو پسند نہیں کرتا۔(۴)

حقیقی مسلمان ، اور پیغمبر اسلام کا تربیت یافتہ انسان دشمن سے مقابلہ کا عجیب حوصلہ رکھتا ہے، اور ان میں سے بعض ”عمار یاسر کے والد“ کی طرح دشمن کے دباؤپر بھی اپنی زبان سے کچھ کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اگرچہ ان کا دل عشق خدا و رسول سے لبریز ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس راستہ میں اپنی جان بھی قربان کردیتے ہیں۔

ان میں سے بعض خود ”عمار یاسر“ کی طرح اپنی زبان سے دشمن کی بات کہنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر خوف خدا طاری ہوتا ہے، اور خود کو خطا کار اور گناہگار تصور کرتے ہیں، جب تک خود پیغمبر اسلام (ص) اطمینان نہیں دلا دیتے کہ ان کا یہ کام اپنی جان بچانے کے لئے شرعی طور پر جائز ہے؛ اس وقت تک ان کو سکون نہیں ملتا!

جناب ”بلال “ کے حالات میں ہم پڑھتے ہیں کہ جس وقت وہ اسلام لائے اور جب اسلام اور پیغمبر اکرم (ص) کی حمایت میں دفاع کے لئے اٹھے تو مشرکین نے بہت زیادہ دباؤ ڈالا، یہاں تک کہ ان کو تیز دھوپ میں گھسیٹتے ہوئے لے جاتے تھے اور ان کے سینہ پر ایک بڑا پتھر رکھ دیتے تھے اور ان سے کہتے تھے: تمہیں ہماری طرح مشرک رہنا ہوگا۔

لیکن جناب بلال اس بات پر آمادہ نہیں ہوتے تھے حالانکہ ان کی سانس لبوں پر آچکی تھی لیکن ان کی زبان پر یہی کلمہ تھا: ”احد، احد“ (یعنی اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے) اس کے بعد کہتے تھے: خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس کلام سے ناگوارتر تمہارے لئے کوئی اور لفظ ہے تو میں وہی کہتا!(۵)

اسی طرح ”حبیب بن زید“ کے حالات میں ملتا ہے کہ جس وقت ”مسیلمہ کذاب“ نے ان کو گرفتار کرلیا اور ان سے پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد رسول خدا ہیں؟ تو اس نے کہا : جی ہاں!

پھر سوال کیا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں؟ تو حبیب نے اس کی بات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ میں نے تیری بات کو نہیں سنا! یہ سن کر مسیلمہ اور اس کے پیروکاروں نے ان کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، لیکن وہ پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہے۔(۵)

اس طرح کے دل ہلا دینے والے واقعات تاریخ اسلام میں بہت ملتے ہیں خصوصاً صدر اسلام کے مسلمانوں اور ائمہ علیہم السلام کے پیرووں میں بہت سے ایسے واقعات مو جود ہیں۔

اسی بنا پر محققین کا کہنا ہے کہ ایسے مواقع پر تقیہ نہ کرنا اور دشمن کے مقابل تسلیم نہ ہونا جائز ہے اگرچہ ان کی جان ہی چلی جائے کیونکہ ایسے مواقع پر، پرچم اسلام اور کلمہ اسلام کی سرفرازی مقصود ہے، خصوصاً پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے آغاز میں اس مسئلہ کی خاص اہمیت تھی۔

لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کے مواقع پر تقیہ بھی جائز ہے اور ان سے زیادہ خطرناک مواقع پر واجب ہے، اور کچھ جاہل اور نادان لوگوں کے بر خلاف تقیہ (البتہ خاص مواقع پر نہ سب جگہ) نہ تو ایمان کی کمزوری کا نام ہے اور نہ دشمن کی کثرت سے گھبرانے کا نام ہے اور نا ہی دشمن کے دباؤ میں تسلیم ہونا ہے بلکہ تقیہ انسان کی حفاظت کرتا ہے اور مومنین کی زندگی کو چھوٹے اور کم اہمیت موضوع کے لئے برباد نہ ہونے نہیں دیتا۔

یہ بات پوری دنیا میں رائج ہے کہ مجاہدین اور جنگجو لوگوں کی اقلیت؛ ظالم و جابر اکثریت کا تختہ پلٹنے کے لئے عام طور پر خفیہ طریقہ پر عمل کرتی ہے، اور انڈر گراؤنڈ کچھ لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے اور مخفی طور پر منصوبہ بندی ہو تی ہے، بعض اوقات کسی دوسرے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں، اور اگر کسی موقع پر گرفتار بھی ہوجاتے ہیں تو ان کی اپنی گروہ کے اسرار کو فاش نہ کرنے کی پوری کوشش ہوتی ہے ، تاکہ ان کی طاقت فضول نیست و نابود نہ ہونے پائے، اور آئندہ کے لئے اس کو ذخیرہ کیا جاسکے۔

عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مجاہدین کی ایک اقلیت اپنے کو ظاہری اور علی الاعلان پہچنوائے، اور اگر ایسا کیا تو دشمن پہچان لے گا اور بہت ہی آسانی سے ان کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔

اسی دلیل کی بنا پر ”تقیہ“ اسلامی قانون سے پہلے تمام انسانوں کے لئے ایک عقلی اور منطقی طریقہ ہے جس پر طاقتور دشمن کے مقابلہ کے زمانہ میں عمل ہوتا چلا آیا ہے اور آج بھی اس پر عمل ہوتا ہے۔

اسلامی روایات میں تقیہ کو ایک دفاعی ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ”التقیة ترس المو من والتقیة حرز المومن “(۶) ”تقیہ مومن کے لئے ڈھال ہے، اور تقیہ مومن کی حفاظت کا سبب ہے“۔

(محترم قارئین ! اس بات پر توجہ رہے کہ یہاں تقیہ کو ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ معلوم ہے کہ ڈھال کو صرف دشمن کے مقابلہ اور میدان جنگ میں استعمال کیاجاتا ہے)

اور اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ احادیث اسلامی میں تقیہ کو دین کی نشانی اور ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے اور دین کے دس حصوں میں سے نو حصہ شمار کیا گیا ہے، تو اس کی و جہ یہی ہے۔

البتہ تقیہ کے سلسلہ میں بہت زیادہ تفصیلی بحث ہے جس کا یہ موقع نہیں ہے، ہمارا مقصد یہ تھا کہ تقیہ کے سلسلہ میں اعتراض کرنے والوں کی جہالت اور نا آگاہی معلوم ہوجائے کہ وہ تقیہ کے شرائط اور فلسفہ سے جاہل ہیں، بے شک بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں تقیہ کرنا حرام ہے ، اور وہ اس موقع پر جہاں انسان کی جان کی حفاظت کے بجائے مذہب کے لئے خطرہ ہو یا کسی عظیم فساد کا خطرہ ہو، لہٰذا ایسے مواقع پر تقیہ نہیں کرنا چاہئے اس کا نتیجہ جو بھی ہو قبول کرنا چاہئے۔(۷)

____________________

(۱) سورہ نحل ، آیت ۱۰۶

(۲) اقتباس ، کتاب آئین ما، صفحہ ۳۶۴

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۳۷۳

(۴) تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۴

(۵) تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۴

(۶) وسائل الشیعہ ، جلد ۱۱حدیث ۶ ، باب ۲۴ /از ابواب امر بالمعروف

(۷) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۴۲۳

۳۴ ۔ جناب آدم کا ترک اولیٰ کیا تھا؟

جیسا کہ ہم سورہ طہ آیت نمبر ۱۲۱ میں پڑھتے ہیں:( وَ عصیٰ آدمُ ربَّه فغویٰ )

” اورجناب آدم نے اپنے پروردگار کی نصیحت پر عمل نہ کیا، تو ثواب کے راستہ سے بے راہ ہوگئے“۔

تو یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جناب آدم علیہ السلام کس ترک اولیٰ کے مرتکب ہوئے؟

اسلامی منابع اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کوئی بھی پیغمبر گناہ کا مرتکب نہیں ہوا، اور اللہ کے بندوں کی ہدایت کی ذمہ داری کسی گناہگار شخص کو نہیں دی جاسکتی، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جناب آدم علیہ السلام خدا کے بھیجے ہوئے نبیوں میں سے تھے، مذکورہ آیت اور اس سے مشابہ آیتوں میں دوسرے انبیاء کی طرف عصیان کی نسبت دی گئی ہے لیکن سب جگہ یہ نسبت ” نسبیعصیان“ اور ”ترک اولیٰ“ کے معنی میں ہے، یعنی مطلق گناہ کے معنی میں نہیں ہے۔

وضاحت:

گناہ کی دو قسم ہوتی ہیں ”مطلقِ گناہ “ اور ”نسبی گناہ“ مطلق گناہ یعنی نہی تحریمی کی مخالفت اور خداوندعالم کے قطعی حکم کی نافرمانی کا نام ہے اور ہر طرح کے واجب کو ترک کرنا اور حرام کا مرتکب ہونا مطلقِ گناہ کہلاتا ہے۔

لیکن نسبی گناہ،وہ گناہ ہوتا ہے جو کسی بزرگ انسان کی شان کے خلاف ہے ممکن ہے کہ کوئی مباح کام بلکہ مستحب کام عظیم انسان کی شان کے مطابق نہ ہو، تو اس صورت میں یہ عمل اس کی شان میں ”نسبیگناہ “ شمار کیا جائے گا، مثلاً اگر کوئی مالدار مومن کسی غریب کی بہت کم مدد کرے ، تو اگرچہ یہ امداد کم ہے اور کوئی حرام کام نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن جو شخص بھی اس کو سنے گا وہ اس طرح مذمت کرے گا جیسے اس نے کوئی برا کام کیا ہو، کیونکہ ایسے مالدار اور باایمان شخص سے اس سے کہیں زیادہ امید تھی۔

(دوسرے لفظوں میں جناب آدم علیہ السلام کا گناہ ان کی حیثیت سے گناہ تھا لیکن مطلق گناہ نہ تھا،مطلق گناہ وہ گناہ ہوتا ہے جس کے لئے سزا معین ہو (جیسے شرک،کفر ،ظلم اور ستم وغیر ہ)اور نسبت کے اعتبار سے گناہ کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اوقات کچھ مباح اعمال بلکہ مستحب اعمال بھی بڑے لوگوں کی عظمت کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے ،انہیں چا ہئے کہ ان اعمال سے پر ہیز کریں اور اہم کام بجالائیں ورنہ کہا جائے گا کہ انہوں نے ترک اولی کیا ہے ۔)

اسی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کے اعمال ایک ممتاز ترازو میں تولے جاتے ہیں اور کبھی ان پر ”عصیان“ اور ”ذنب“ کا اطلاق ہوتا ہے، مثال کے طور پر ایک نماز عام انسان کے لئے بہترین نماز شمار کی جائے لیکن وہی نماز اولیاء الٰہی کے لئے ترک اولیٰ شمار کی جائے، کیونکہ ان کے لئے نماز میں پَل بھر کی غفلت ان کی شان کے خلاف ہے، بلکہ ان کے علم، تقویٰ اور عظمت کے لحاظ سے ان کو عبادت میں خدا کے صفات جلال و جمال میں غرق ہونا چاہئے۔

عبادت کے علاوہ ان کے دوسرے اعمال بھی اسی طرح ہیں، ان کی عظمت اور مقام کے لحاظ سے تولے جاتے ہیں اسی وجہ سے اگر ان سے ایک ”ترک اولیٰ“ بھی انجام پاتا ہے تو خداوندعالم کی طرف سے مورد سرزنش ہوتے ہیں ( ترک اولیٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان بہتر کام کو چھوڑ کرکم درجہ کاکام انجام دے)

اسلامی احادیث میں بیان ہوا ہےکہ جناب یعقوب علیہ السلام نے فراق فرزند میں جس قدر پریشانیاں اٹھائیں ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ مغرب کے وقت ایک روزہ دار ان کے در پر آیا، اور اس نے مدد کی درخواست کی لیکن انھوں نے اس سے غفلت کی، وہ فقیر بھوکا اور دل شکستہ ان کے در سے واپس چلا گیا۔

یہ کام اگرچہ ایک عام انسان انجام دیتا تو شاید اتنا اہم نہ تھا، لیکن اس عظیم الشان پیغمبر کی طرف سے اس کام کو بہت اہمیت دی گئی کہ خداوندعالم کی طرف سے سخت سزا معین کی گئی۔(۱)(۲)

(۲) مذکورہ روایت کی تفصیل یہ ہے

کہ ابو حمزہ ثمالی نے ایک روایت امام سجاد علیہ السلام سے نقل کی ہے ابو حمزہ کہتے ہیں :

جمعہ کے دن میں مدینہ منورہ میں تھا نماز صبح میں نے امام سجادعلیہ السلام کے ساتھ پڑھی جس وقت امام نماز اور تسبیح سے فارغ ہوئے تو گھر کی طرف چل پڑے میں آپ کے سا تھ تھا ،آپ نے خادمہ کو آوازدی اور کہا : خیال رکھنا ، جو سائل اور ضرورت مند گھر کے دروازے سے گزرے اسے کھانا دینا کیو نکہ آج جمعہ کا دن ہے ۔

ابو حمزہ کہتے ہیں : میں نے کہا : ہر وہ شخص جو مدد کا تقاضا کرتا ہے مستحق نہیں ہو تا ، تو امام نے فرمایا :

ٹھیک ہے ، لیکن میں اس سے ڈر تا ہوں کہ ان میں مستحق افراد ہوں اور انہیں غذا نہ دیں اور اپنے گھر کے در واز ے سے دھتکار دیں تو کہیں ہمارے گھر والوں پر وہی مصیبت نہ آن پڑے جو یعقوب اور آل یعقوب پر آن پڑی تھی اس کے بعد آپ نے فرمایا :

ان سب کو کھا نا دو کہ ( کیا تم نے نہیںسنا ہے کہ ) یعقوب کے لئے ہر روز ایک گو سفند ذبح کیاجا تا تھا اس کا ایک حصہ مستحقین کو دیا جاتا تھا ایک حصہ وہ خود اور ان کی اولاد کھا تے تھے ایک دن ایک سائل آیا وہ مو من اور روزہ دار تھا خدا کے نزدیک اس کی بڑی قدر ومنزلت تھی وہ شہر ( کنعا ن ) سے گزر ا شب جمعہ تھی افطار کے وقت وہ دروازہ یعقوب پر آیا اور کہنے لگا بچی کچی غذا سے مدد کے طالب غریب ومسافر بھو کے مہمان کی مدد کرو ،اس نے یہ بات کئی مر تبہ دہرائی انہوں نے سنا تو سہی لیکن اس کی بات کو باور نہ کیا جب وہ مایوس ہوگیا اور رات کی تاریکی ہر طرف چھا گئی تو وہ لوٹ گیا، جاتے ہو ئے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے بارگا ہ الٰہی میں بھوک کی شکا یت کی رات اس نے بھوک ہی میں گزاری اور صبح اسی طرح روزہ رکھا جب کہ وہ صبر کئے ہو ئے تھا اور خدا کی حمدد ثنا کر تا تھا لیکن حضرت یعقوب اور ان کے گھر والے مکمل طور پر سیر تھے اور صبح کے وقت ان کا کچھ کھا نا بچ بھی گیا تھا ۔

امام نے اس کے بعد مزید فرمایا :خدا نے اسی صبح یعقوب کی طرف وحی بھیجی : اے یعقوب ! تو نے میرے بند ے کو ذلیل و خوار کیا ہے اور میرے غضب کو بھڑکا یا ہے اور تو اور تیری اولاد نزول سزا کی مستحق ہو گئی ہے اے یعقوب ! میں اپنے دوستوں کو زیادہ جلدی ۷

جناب آدم علیہ السلام کو ”شجرہ ممنوعہ“ کے نزدیک جانے سے منع کیا گیا تھا جو کہ تحریمی نہی نہیں تھی بلکہ ایک ترک اولیٰ تھا، لیکن جناب آدم علیہ السلام کی عظمت اور شان کے لحاظ سے اہمیت دی گئی، اور اس مخالفت (نہی کراہتی) پر اس قدر تنبیہ کی گئی۔(۳)

۸سر زنش و ملامت کرتا اور سزا دیتا ہوں اور یہ اس لئے کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس حدیث کے بعد ابو حمزہ ثما لی کہتے ہیں : میں نے امام سجاد علیہ السلام سے پوچھا :یو سف نے وہ خواب کس مو قع پر دیکھا تھا ؟ امام نے فرمایا :اسی رات۔

اس حدیث سے اچھی طرح معلوم ہو تا ہے کہ انبیاء واولیاء کے حق میں ایک چھو ٹی سی لغزش یا زیادہ صریح الفاظ میں ایک ”ترک اولیٰ“ کہ جو گنا ہ اور معصیت بھی شمار نہیں ہو تا ( کیو نکہ اس سائل کی حالت حضرت یعقوب علیہ السلام پر واضح نہیں تھی ) بعض او قات خدا کی طرف سے ان کی تنبیہ کا سبب بنتا ہے اور یہ صرف اس لئے ہے کہ ان کا بلند وبا لا مقام تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات اور عمل کی طرف متوجہ رہیں کیونکہ:”حسنات الا برار سیئا ت المقربین “(نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین (خدا) کے لئے برائی ہوتی ہیں)

____________________

(۱) نور الثقلین ، جلد ۲، صفحہ ۴۱۱، نقل کتاب علل الشرایع

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۱۲۳

۳) سورہ طٰہ ، آیت ۵

۳۵ ۔ کیا معجزہ”شق القمر“ سائنس کے لحاظ سے ممکن ہے؟

ہم سورہ قمرکی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں:( اقتربت الساعة و انشقّ القمر ) (قیامت آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے)

اس آیہ شریفہ میں معجزہ شق القمر کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔

مشہور روایات میں کہ جن کے سلسلہ میں بعض لوگوں نے تواتر(۱) کا دعویٰ بھی کیا ہے، بیان ہوا ہے کہ مشرکین مکہ پیغمبراکرم (ص) کے پاس آئے اور کہا: اگر آپ سچ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں، تو آپ چاند کے دو ٹکڑے کردیجئے! آنحضرت (ص) نے فرمایا: اگر میں اس کام کو کردوں تو کیا تم ایمان لے آؤگے؟ سب نے کہا: ہاں ، ہم ایمان لے آئیں گے، (وہ چودھویں رات کا چاند تھا) اس وقت پیغمبر اکرم نے خدا کی بارگاہ میں دعا کی کہ جو یہ لوگ طلب کررہے ہیں وہ عطا کردے، چنانچہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ چاند د و ٹکڑے ہوگیا، اس موقع پر رسول اللہ (ص) ایک ایک کو آواز دیتے جاتے تھے اور فرماتے تھے: دیکھو دیکھو!(۲)

اس طرح کے سوالات کا جواب دانشوروں اور نجومیوں کے مطالعات او ران کے انکشافات کے پیش نظر کوئی پیچیدہ نہیں ہے، کیونکہ جدید انکشافات کہتے ہیں: اس طرح کی چیز نہ صرف یہ کہ محال نہیں ہے بلکہ اس طرح کے واقعات بارہا رونما ہوئے ہیں، اگرچہ ہر واقعہ میں مخصوص عوامل کار فرما تھے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہیں

نظام شمسی اور دوسرے آسمانی کرّات میں سے کسی آسمانی کرہ کا اس طرح شق ہوجانا اور پھر مل جانا ایک ممکن امر ہے، نمونے کے طور پر چند چیزیں درج ذیل ہیں:

الف۔ پیدائش نظام شمسی: اس نظریہ کو تقریباً سبھی ماہرین نے مانا ہے کہ نظام شمسی کے تمام کرّات ابتدا میں سورج کے اجزا تھے بعد میں سورج سے الگ ہوئے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں گردش کرنے لگا۔

مسٹر ”لاپلاس“ کا نظریہ یہ ہے کہ کسی چیز کے الگ ہونے کے اس عمل کا سبب مرکز سے گریز کی وہ قوت ہے جو سورج کے منطقہ استوائی میں پائی جاتی ہے وہ اس طرح کہ جس وقت سورج ایک جلانے والی گیس کے ٹکڑے کی شکل میں تھا، (اور اب بھی ویسا ہی ہے) اور اپنے گرد گردش کرتا تھا تو اس کی گردش کی سرعت منطقہ استوائی میں اس بات کا سبب بنی کہ سورج کے کچھ ٹکڑے اس سے الگ ہوجائیں اور فضا میں بکھر جائیں، اور مرکز ِاصلی یعنی خود سورج کے گرد گردش کرنے لگیں۔

لیکن لاپلاس کے بعد بعض دانشوروں نے تحقیقات کیں جس کی بنا پر ایک دوسرا فرضیہ پیش کیا کہ اس جدائی کا سبب سورج کے مقابل سمندر میں ہونے والے شدید مدر و جزر(۱) ہے جوسورج کی سطح پر ایک بہت بڑے ستارے کے گزرنے کے سبب ایجاد ہوتا ہے۔

اس فرضیہ سے اتفاق کرنے والے اس وقت کی سورج کی حرکتِ وصفی کو سورج کے ٹکڑوں کے علیحدہ ہونے کی توجیہ کو کافی نہیں سمجھتے وہ اس مفروضہ کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ مدّ و جزر نے سورج کی سطح پر بہت بڑی بڑی لہریں اس طرح پیدا کیں جیسے پتھر کا کوئی بہت بڑا ٹکڑا سمندر میں گرے اور اس سے لہریں پیدا ہوں، اس طرح سورج کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے باہر نکل کر سورج کے گرد گردش کرنے لگے، بہر حال اس علیحدگی کا سبب کچھ بھی ہو اس پر سب متفق ہیں کہ نظام شمسی کی تخلیق انشقاق کے نتیجہ میں ہوئی ہے۔

ب۔ بڑے شہاب: یہ بڑے بڑے آسمانی پتھرہیں جو نظام شمسی کے گرد گردش کررہے ہیں اور جو کبھی کبھی چھوٹے کرّات اور سیاروں سے مشابہت رکھنے والے قرار دئے جاتے ہیں، بڑے اس وجہ سے کہ ان کا قطر ۲۵ کلو میٹر ہوتا ہے لیکن وہ عموماً چھوٹے ہوتے ہیں، ماہرین کا نظریہ ہے کہ ”استروئید ہا“ (بڑے شہاب) ایک عظیم سیارے کے بقیہ جات ہیں جو مشتری اور مریخ کے درمیان مدار میں حرکت کررہا تھا اور اس کے بعد نامعلوم اسباب کی بنا پر وہ پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اب تک پانچ ہزار سے زیادہ اس طرح کے شہاب کے ٹکڑے معلوم کئے جاچکے ہیں اور ان میں سے جو بڑے ہیں ان کے نام بھی رکھے جاچکے ہیں، بلکہ اان کا حجم، مقدار اور سورج کے گرد ان کی گردش کا حساب بھی لگایا جاچکا ہے، بعض ماہرین فضا ان استروئیدوں کی خاص اہمیت کے قائل ہیں، ان کا

(۱)مدر و جزر : دریا کے پانی میں ہونے والی تبدیلی کو کہا جاتا ہے ، شب وروز میں دریاکا پانی ایک مرتبہ گھٹتا ہے اس کو ” جزر“ کہا جاتاہے اور ایک مرتبہ بڑھتا ہے جس کو ”مد“ کہا جاتاہے ، اور پانی میں یہ تبدیلی سورج اور چاندکی قوہ جاذبہ کی وجہ سے ہوتی ہے(مترجم)

نظریہ ہے کہ فضا کے د ور دراز حصوں کے جانب سفر کرنے کے لئے اولین قدم کے عنوان سے ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

آ سمانی کرات کے انشقاق کا ایک دوسرانمونہ شہاب ثاقب ،یہ چھوٹے چھوٹے آسمانی پتھر ہیں جو کبھی کبھی چھوٹی انگلی کے برابر ہوتے ہیں، بہر حال وہ سورج کے گرد ایک خاص مدار میں بڑی تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں، اور جب کبھی ان کا راستہ مدارِزمین کو کاٹ کر نکلتا ہے تووہ زمین کا رخ اختیار کرلیتے ہیں۔

یہ چھوٹے پتھر اس ہوا سے شدت کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے کہ جو زمین کا احاطہ کئے ہوئے ہے او رتھرتھراہٹ پیدا کرنے والی اس تیزی کی وجہ سے کہ جو ان کے اندر ہے زیادہ گرم ہوکر اس طرح بھڑک اٹھتے ہیں کہ ان میں سے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ہم انھیں ایک پرنور اور خوبصورت لکیر کی شکل میں آسمانی فضا میں دیکھتے ہیں اور انھیں ”شہاب کے تیر“ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک دور دراز کا ستارہ ہے جو گررہا ہے حالانکہ وہ چھوٹا شہاب ہے کہ جو بہت ہی قریبی فاصلہ پر بھڑک کر خاک ہوجاتا ہے۔

شہابوں کی گردش کا مدار زمین کے مدار سے دو نقطوں پر ملتا ہے اسی بنا پر ستمبر اور اکتو بر میں جو دو مداروں کے نقطہ تقاطع ہیں شہاب ثاقب زیادہ نظر آتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دمدار ستارے کے باقی حصے ہیں جو نا معلوم حوادث کی بنا پر پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہیں۔

آسمانی کرات کے پھٹنے کا ایک اور نمونہ بہر حال آسمانی کرّات کا انشقاق یعنی پھٹنا اور پھٹ کر بکھر نا کوئی بے بنیاد بات نہیں ہے اور جدید علوم کی نظر میں یہ کوئی محال کام نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ معجزہ کا تعلق امر محال کے ساتھ نہیں ہوا کرتا، یہ سب باتیں انشقاق یعنی پھٹنے کے سلسلہ کی ہیں، دو ٹکڑوں میں قوت جاذبہ ہوتی ہے اس بنا پر اس انشقاق کی بازگشت ناممکن نہیں ہے۔

اگرچہ ہیئت قدیم میں بطلیموس کے نظریہ کے مطابق نو آسمان پیاز کے تہہ بہ تہہ چھلکوں کی طرح ہیں اور گھومتے رہتے ہیں اور اس طرح یہ نو آسمان ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں جن کا ٹوٹنا اور جڑنا ایک جماعت کی نظر میں امر محال تھا، اس لئے اس نظریہ کے حامل افراد معراج آسمانی کے بھی منکر تھے اور ”شق القمر“ کے بھی، لیکن اب جبکہ ہیئت بطلیموسی کا مفروضہ خیالی افسانوں اور کہانیوں کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور نو آسمانوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا تو اب ان باتوں کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔

یہ نکتہ کسی یاد دہانی کا محتاج نہیں ہے کہ ”شق القمر“ ایک عام طبیعی عامل کے زیر اثر رونما نہیں ہوا بلکہ اعجاز نمائی کا نتیجہ تھا، لیکن چونکہ اعجاز، محال عقلی سے تعلق نہیں رکھتا ،لہٰذا یہاں اس مقصد کے امکان کو بیان کرنا تھا۔ (غور کیجئے )

____________________

(۱) علم حدیث میں ”حدیث تواتر“ اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے راویوں کی تعداد اس حد تک ہو کہ ان کے ایک ساتھ جمع ہوکر سازش کرنے کا قابلِ اعتماد احتمال نہ ہو (مترجم)

(۲) ”مجمع البیان “اور دیگر تفاسیر ، مذکورہ آیت کے ذیل میں یہاں پر ممکن ہے اس طرح کے سوالات کئے جائیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اتنا عظیم کرہ (چاند) دو ٹکڑے ہوجائے، پھر اس عظیم واقعہ کا کرہ زمین اور نظام شمسیپر کیا اثر ہوگا؟ اور چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد کس طرح آپس میں مل گئے، اور کس طرح ممکن ہے کہ اتنا بڑا واقعہ رونما ہو جائے لیکن تاریخ بشریت اس کو نقل نہ کرے؟!

۳۶ ۔ بعض آیات و احادیث میں غیر خدا سے علم غیب کی نفی اور بعض میں ثابت ہے، اس اختلاف کا حل کیا ہے؟

اس اختلاف کو حل کرنے کے لئے چند راہ حل ہیں:

۱ ۔ اس اختلاف کے حل کا مشہور و معروف طریقہ یہ ہے کہ جن آیات و روایات میں علم غیب کو خداوندعالم سے مخصوص کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ علم غیب ذاتی طور پر خداوندعالم سے مخصوص ہے، لہٰذا دوسرے افراد مستقل طور پر علم غیب نہیں رکھتے، جو کچھ بھی وہ غیب کی خبریں بتاتے ہیں وہ خداوندعالم کی طرف سے اس کی عنایت سے ہوتی ہیں ،چنا نچہ اس راہ حل کے لئے قرآن مجید کی آیت بھی شاہد اورگواہ ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے:

( عَالِمُ الْغَیْبِ فَلایُظْهِرُ عَلَی غَیْبِهِ اٴَحَدًا ، إِلاَّ مَنْ ارْتَضَیٰ مِن رَسُول ) (۲)

” وہ عالم غیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے مگر جس رسول کو پسند کرے“۔

اسی چیز کی طرف نہج البلاغہ میں اشارہ ہوا ہے : جس وقت حضرت علی علیہ السلام آئندہ کے واقعات کو بیا ن کررہے تھے (اور اسلامی ممالک پر مغلوں کے حملہ کی خبر دے رہے تھے) تو آپ

کے ایک صحابی نے عرض کیا: یا امیر المومنین! کیا آپ کو غیب کا علم ہے؟ تو حضرت مسکرائے اور فرمایا:”لَیسَ هُوَ بِعلمِ غَیبٍ ،وَإنَّماهو تَعلّم مِن ذِی عِلم(۳)

”یہ علم غیب نہیں ہے، یہ ایک علم ہے جس کوصاحب علم (یعنی پیغمبر اکرم (ص)) سے حاصل کیا ہے“۔

۲ ۔ غیب کی باتیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو خداوندعالم سے مخصوص ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا، جیسے قیامت، میزان وغیرہ اور غیب کی دوسری قسم وہ ہے جس کو خداوند عالم اپنے انبیاء اور اولیاء کو تعلیم دیتا ہے، جیسا کہ نہج البلاغہ کے اسی مذکورہ خطبہ کے ذیل میں ارشاد ہوتا ہے:

”علم غیب صرف قیامت کا اور ان چیزوں کا علم ہے جن کو خدا نے قرآن مجید میں شمار کردیا ہے کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے: قیامت کے دن کا علم خداسے مخصوص ہے، اور وہی باران رحمت نازل کرتا ہے، اور جو کچھ شکم مادر میں ہوتا ہے اس کو جانتا ہے، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ کل کیا کام انجام دے گا اور کس سر زمین پر موت آئے گی“۔

اس کے بعد امام علی علیہ السلام نے اس چیز کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: خداوندعالم جانتا ہے کہ رحم کا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ حسَین ہے یا قبیح؟ سخی ہے یا بخیل؟ شقی ہے یا سعید؟ اہل دوزخ ہے یا اہل بہشت؟ یہ غیبی علوم ہیں جن کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اور اس کے علاوہ دوسرے علوم خداوندعالم نے اپنے پیغمبر کو تعلیم دئے ہیں اور انھوں نے مجھے تعلیم دئے ہیں“۔(۴)

ممکن ہے کہ بعض ماہر افراد بچے یا بارش وغیرہ کے بارے میں علمِ اجمالی حاصل کرلیں لیکن اس کا تفصیلی علم اور اس کی جزئیات صرف خداوندعالم ہی کو معلوم ہے،جیسا کہ قیامت کے بارے میں

ہمیں علم اجمالی ہے لیکن اس کی جزئیات اور خصوصیات سے بے خبر ہیں، اگربعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) یا ائمہ علیہم السلام نے بعض بچوں کے بارے میں یا بعض لوگوں کی موت کے بارے میں خبر دی کہ فلاں شخص کی موت کیسے آئے گی تو یہ اسی علم اجمالی سے متعلق ہے۔

۳ ۔ ان مختلف آیات و روایات کا ایک راہ حل یہ ہے کہ غیب کی باتیں دو مقام پر لکھی ہوئی ہیں: ایک ”لوح محفوظ“ (یعنی خداوندعالم کے علم کا مخصوص خزانہ ) میں جس میں کسی بھی طرح کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا، اور کوئی بھی اس سے باخبر نہیں ہے، دوسرے ”لوح محو واثبات“ جس میں صرف مقتضی کا علم ہوتا ہے اور علت تامہ کا علم نہیں ہوتا، اسی وجہ سے اس میں تبدیلی ہوسکتی ہے اور جو کچھ دوسرے حضرات جانتے ہیں اسی حصہ سے متعلق ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث میں پڑھتے ہیں: خداوندعالم کے پاس ایک ایسا علم ہے جو کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے، اور دوسراعلم وہ ہے جس کو اس نے ملائکہ، انبیاء اور مرسلین کو عطا کیا ہے، اور جو کچھ ملائکہ ، انبیاء اور مرسلین کو عطا ہوا ہے وہ ہم بھی جانتے ہیں۔(۵)

اس سلسلہ میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے ایک اہم روایت نقل ہوئی ہے، جس میں امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اگر قرآن مجید میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں ماضی اور روز قیامت تک پیش آنے والے تمام واقعات بتادیتا ، کسی نے عرض کیا کہ وہ کون سی آیت ہے؟ تو امام علیہ السلام نے درج ذیل آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی:( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ ) (۶) ”اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے، اور ام الکتاب (لوح محفوظ) اس کے پاس ہے۔(۷)

اس راہ کے لحاظ سے علوم کی تقسیم بندی ”حتمی ہونے“ اور حتمی نہ ہونے کے لحاظ سے ہے اور گزشتہ راہ حل معلومات کی مقدار کے لحاظ سے ہیں۔ (غور کیجئے )

۴ ۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خداوندعالم تمام اسرار ِغیب کو بالفعل (ابھی) جانتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ انبیاء اور اولیاء الٰہی ،علم غیب کی بہت سی باتوں کو نہ جانتے ہوں ہاں جس وقت وہ ارادہ کرتے ہیں تو خداوندعالم ان کو تعلیم دے دیتا ہے، البتہ یہ ارادہ بھی خداوندعالم کی اجازت سے ہوتا ہے۔

اس راہ حل کی بنا پر وہ آیات و روایات جو کہتی ہیں کہ غیب کی باتوں کو خدا کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا تو ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی دوسرے کو بالفعل علم نہیںہے اوریہ آیات وروایات فعلی طور پر نہ جاننے کے بارے میں ہیں، اور جو کہتی ہیں کہ دوسرے جانتے ہیں وہ امکان کی صورت کو بیان کرتی ہیںیعنی دو سروں کے لئے ممکن ہے ۔

یہ بالکل اس شخص کی طرح ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو ایک خط دے تاکہ فلاں شخص تک پہنچادے، تو یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ خط کے مضمون سے آگاہ نہیں ہے، حالانکہ وہ خط کھول کر اس کے مضمون سے باخبر ہوسکتا ہے، لیکن کبھی صاحب خط کی طرف سے خط پڑھنے کی اجازت ہوتی ہے تو وہ اس صورت میں خط کے مضمون سے آگاہ ہوسکتا ہے اور کبھی کبھی خط کے کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

اس راہ حل کے لئے بہت سی احادیث گواہ ہیں جو (عظیم الشان) کتاب اصول کافی باب”إنَّ الاٴَئمَّةَ إذَا شَاوا اٴن یَعلَموا عَلِمُوا “ (ائمہ جب کوئی چیز جاننا چاہتے ہیں تو ان کو تعلیم ہوجاتا ہے) میں بیان ہوئی ہیں، ان میں سے ایک حدیث حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے:

”إذَا اٴرادَ الإمامُ اٴن یَعلَمَ شیئًا اٴعلمهُ الله بِذلکَ“ (۸)

” جب امام کسی چیز کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہے تو خداوندعالم تعلیم کردیتا ہے“۔

یہی راہ حل پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیہم السلام کے علم کے سلسلہ میں بہت سی مشکلات کو حل کردیتا ہے، مثال کے طور پر:کس طرح ائمہ علیہم السلام زہر آلود کھا ناکھالیتے ہیں جبکہ ایک عام انسان کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ نقصان دینے والے کام کو انجام دے اس طرح کے مواقع پر پیغمبر اکرم (ص) یا ائمہ علیہم السلام کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ ارادہ کریں تاکہ غیب کے اسرار ان کے لئے کشف ہوجائیں۔

اسی طرح کبھی کبھی مصلحت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) یا ائمہ علیہم السلام کو کسی بات کا علم نہ ہو، یا اس کے ذریعہ ان کا امتحان ہوتا ہے تاکہ ان کے کمال اور فضیلت میں مزید اضافہ ہوسکے، جیسا کہ شب ہجرت کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بستر پر لیٹ گئے ، حالانکہ خود حضرت کی زبانی نقل ہوا ہے کہ میں نہیں جانتا تھا کہ پیغمبر اکرم کے بستر پر جب مشرکین قریش حملہ کریں تو میں شہیدہوجاؤں گا یا جان بچ جائے گی؟

اس موقع پر مصلحت یہی ہے کہ امام علیہ السلام اس کام کے انجام سے آگاہ نہ ہوں تاکہ خدا امتحان لے سکے اور اگر امام علیہ السلام کو یہ معلوم ہوتا کہ میری جان کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے تو یہ کوئی افتخار اور فضیلت کی بات نہیں تھی، اس بنا پر قرآن اور احادیث میں اس قربانی کے فضائل و مناقب بیان ہوتے ہیں وہ قابل توجہ نہ رہتے۔

جی ہاں ! علم ارادی کا مسئلہ اس طرح کے تمام اعتراضات کے لئے بہترین جواب ہے۔

۵ ۔ علم غیب کے بارے میں بیان ہوئی مختلف روایات کے اختلاف کا ایک حل یہ ہے

(اگرچہ یہ راہ حل بعض روایات پر صادق ہے) کہ ان روایات کے سننے والے مختلف سطح کے لوگ تھے، جو لوگ ائمہ علیہم السلام کے بارے میں علم غیب کو قبول کرنے کی استعداد اور صلاحیت رکھتے تھے ،ان کے سامنے حق مطلب بیان کیا گیا، لیکن مخالف یا کم استعداد لوگوں کے سامنے ان کی سمجھ ہی کے اعتبار سے بیان ہوا ہے۔

مثال کے طور پر ایک حدیث میں بیان ہوا کہ ابو بصیر اورامام صادق علیہ السلام کے چند اصحاب ایک مقام پر بیٹھے ہوئے تھے امام علیہ السلام حالتغضب میں وارد مجلس ہوئے اور جب امام علیہ السلام تشریف فرماہوئے تو فرمایا: عجیب بات ہے کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ ہم علم غیب جانتے ہیں، جبکہ خدا کے علاوہ کوئی بھی علم غیب نہیں رکھتا، میں چاہتا تھا کہ اپنی کنیز کو تنبیہ کروں، لیکن بھاگ گئی اور نہ معلوم گھر کے کس کمرہ میں چھپ گئی!!“۔(۹)

راوی کہتا ہے: جس وقت امام علیہ السلام وہاں سے تشریف لے گئے ،میں اور بعض دوسرے اصحاب اندرون خانہ وارد ہوئے تو امام علیہ السلام سے عرض کی: ہم آپ پر قربان! آپ نے اپنی کنیز کے بارے میں ایسی بات کہی،، جبکہ ہمیں معلوم ہے آپ بہت سے علوم جانتے ہیں اور ہم علم غیب کا نام تک نہیں لیتے؟ امام علیہ السلام نے اس سلسلہ میں وضاحت فرمائی کہ ہمارا مقصد اسرار غیب کا علم تھا۔

یہ بات واضح رہے کہ اس مقام پر ایسے بھی لوگ بیٹھے تھے جن کے یہاں امام کی معرفت اور علم غیب کے معنی کو سمجھنے کی استعداد نہیں پائی جاتی تھی۔

(قارئین کرام!) توجہ فرمائیں کہ یہ پانچ راہ حل آپس میں کوئی تضاد اور تنا قض نہیں رکھتی اور سبھی صحیح ہوسکتی ہیں۔ (غور کیجئے )

۲ ۔ ائمہ علیہم السلام کے لئے علم غیب ثابت کرنے کے دیگر طریقے

یہاں پر اس حقیقت کو ثابت کرنے کے دو طریقے اور بھی ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام اجمالاً غیب کے اسرار سے واقف تھے۔

۱ ۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ان کی نبوت یا امامت کا دائرہ کسی زمان و مکان سے مخصوص نہیں تھا، بلکہ پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت اور ائمہ علیہم السلام کی امامت عالمی اور جاویدانی ہے، لہٰذا یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اس قدر وسیع ذمہ داری رکھتا ہو، حالانکہ اس کو اپنے زمانہ اور محدود دائرہ کے علاوہ کسی چیز کی خبر نہ ہو؟ مثال کے طور پر اگر کسی کو کسی بڑے صوبہ کی امارت یا کلکٹری دی جائے اور اسے اس کے بارے میں آگاہی نہ ہو، تو کیا وہ اپنی ذمہ داری کو خوب نبھاسکتا ہے؟!

دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیہم السلام اپنی (ظاہری) زندگی میں اس طرح احکام الٰہی کو بیان اور نافذ کریں تاکہ ہر زمانہ اور ہر جگہ کے تمام انسانوں کی ضرورتوں کو مد نظر رکھیں، اور یہ ممکن نہیں ہے مگر اسی صورت میں کہ اسرار غیب کے کم از کم ایک حصہ کو جانتے ہوں۔

۲ ۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں تین آیات ایسی موجود ہیں کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کردیں تو پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے علم غیب کا مسئلہ واضح ہوجاتا ہے، پہلی آیت میں ارشاد ہو تا ہے کہ ایک شخص (آصف بن بر خیا ) نے تخت بلقیس چشم زدن میں جناب سلیمان کے پاس حا ضر کردیا،ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ الَّذِی عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنْ الْکِتَابِ اٴَنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ اٴَنْ یَرْتَدَّ إِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقَرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی ) (۱۰)

”ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کے ایک حصہ کاعلم تھا اس نے کہا کہ میں اتنی جلدی

لے آؤں گا کہ آپ کی پلک بھی نہ جھپکنے پائے، اس کے بعد سلیمان نے تخت کو اپنے سامنے حاضر دیکھا تو کہنے لگے: یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے “۔

دوسری آیت میں بیان ہوتا ہے:

( قُلْ کَفَی بِاللهِ شَهِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْکِتَابِ ) (۱۱)

”(اے رسول آپ ) کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے “۔

سنی و شیعہ معتبر کتابوں میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا (ص) سے ”الذی عندہ علم من الکتاب“ کے بارے میں سوال کیا ، تو آنحضرت نے فرمایا: وہ میرے بھائی جناب سلیمان بن داؤد کے وصی تھے، میں نے پھر دوبارہ یہ سوال کیا کہ ”من عندہ علم الکتاب“ سے کون مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”ذاک اخِي عليّ بن ابی طالب“! ( اس سے مراد میرے بھائی علی بن ابی طالب ہیں)(۱۲)

اور آیت ” علم من الکتاب“ کے پیش نظر جو کہ آصف بن برخیا کے بارے میں ہے ”جزئی علم“ کو بیان کرتی ہے، اور ”علم الکتاب“ جو کہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے ”کلی علم“ کو بیان کرتی ہے ، لہٰذا اس آیت سے آصف بن برخیا اور حضرت علی علیہ السلام کا علمی مقام واضح ہوجاتا ہے۔

تیسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ ) (۱۳)

”اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شئے کی وضاحت موجود ہے“۔

یہ بات واضح ہے کہ ایسی کتاب کے اسرار کا علم رکھنے والا ، اسرار غیب بھی جانتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) یا امام علیہ السلام حکمِ خدا کے ذریعہ اسرارِ غیب سے آگاہ ہوں۔(۱۴)

____________________

(۲) سورہ جن ، آیت ۲۶

(۴،۳) -- نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۸

(۵) بحار الانوار ، جلد ۲۶، صفحہ ۱۶۰ (حدیث۵) (۶) سورہ رعد ، آیت ۳۹

(۷) ”نور الثقلین ، جلد ۲، صفحہ ۵۱۲ ، (حدیث۱۶۰)

(۸) ” اصول کافی“ باب ”ان الائمة اذا شاوا ان یعلموا علموا“ (حدیث ۳)اور اسی مضمون کی دوسری روایتیں بھی اسی باب میں نقل ہوئی ہیں

(۹) اصول کافی ، جلد اول، باب نادر فیہ ذکر الغیب حدیث ۳

(۱۰)سورہ نمل ، آیت۴۰

(۱۱) سورہ رعد ، آیت۴۳

(۱۲) ”احقا ق الحق“ ، جلد ۳،صفحہ۲۸۰۔ ۲۸۱، اور ”نور الثقلین “ ، جلد ۲، صفحہ ۵۲۳ پر رجو ع کریں

(۱۳)سورہ نحل ، آیت ۸۹

(۱۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۵، صفحہ ۱۴۶


10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36