110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131794
ڈاؤنلوڈ: 4524

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131794 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۲۵ ۔ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم کی بشارت دی گئی ہے؟

جیسا کہ ہم سوہ اعراف میں پڑھتے ہیں:( الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْاٴُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَهُ مَکْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ ) (۱) ”جو لوگ ہمارے رسول نبیِّ امی کا اتباع کرتے ہیں جس (کی بشارت ) کو وہ اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں “۔

مذکورہ آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے؟

اگرچہ یقینی قرائن اور اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں دور حاضر کی موجودہ ”مقدس کتابوں “ (توریت و انجیل) کے مطالب اس بات پر یہ دونوں گواہ ہیں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی یہ دونوں کتابیں اصل نہیں ہیں ، بلکہ ان میں بہت زیادہ تبدیلی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ بعض تو بالکل ہی ختم ہوگئی ہے، اور جو کچھ اس وقت کی موجودہ مقدس کتابوں میں موجود ہے وہ انسانی فکر اور بعض خدا کی طرف سے موسیٰ و عیسیٰ علیہماالسلام پر نازل ہونے والے مطالب کا ایک مرکب مجموعہ ہے، جس کو ان کے بعض شاگردوں نے جمع کیا ہے۔(۲)

اس بنا پر؛ ان مو جودہ کتا بوں میں اگر کوئی ایسا جملہ نہ ملے جس میں صراحت کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت دی گئی ہو ، تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

لیکن تحریف کے باوجود بھی ان کتابوں میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت پردلالت کرتے ہیں، جن کو مسلمان دانشوروں نے اپنی کتابوں اور مضا مین میں تحریر کیا ہے،چونکہ ان تمام مطالب کو ذکر کرنااس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا نمونہ کے طور پر چند چیزوں کو بیان کرتے ہیں:

۱ ۔ توریت کے سِفْر تکوین فصل ۱۷ ،نمبر ۱۷ سے ۲۰ تک میں اس طرح مر قوم ہے:

”اور ابراہیم نے خداوندعالم سے فرمایا :کہ اے کاش !اسماعیل تیرے حضور میں زندگی کرت اور اسماعیل کے حق میں تیری دعاکو سنا، اس وجہ سے اس کو صاحب برکت قرار دیا اور اس کو پھل دار بنادیا ہے، اور آخر کا راس کی اولاد کو کثیر قرار دیا، اس کے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور اس کو ایک عظیم امت قرار دوں گا“۔

۲ ۔ سِفْر پیدائش باب ۴۹ ، نمبر ۱۰ میں وارد ہوا ہے:

عصای سلطنت یہودا سے اور ایک فرمان روا اس کے پیروں کے آگے سے قیام کرے گا تااینکہ ”شیلوہ“ آجائے کہ اس پر تمام امتیں اکٹھا ہوجائیں گی۔

یہاں پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ شیلوہ کے ایک معنی ”رسول“ یا ”رسول اللہ“ کے ہیں، جیسا کہ مسٹر ہاکس نے کتاب ”قاموس مقدس“ میں بیان کیا ہے۔

۳ ۔ کتاب انجیل یوحنا، باب ۱۴ ،نمبر ۱۵ ، ۱۶ میں یوں بیان ہوا ہے:

”اگر تم لوگ مجھے دوست رکھتے ہو تو میرے احکام کی رعایت کرو، میں پدر سے درخواست کروں گا وہ تمہیں ایک اور تسلی دینے والا عطا کرے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا“۔

۴ ۔اسی طرح مذکورہ کتاب انجیل یوحنا، باب ۱۵ ،نمبر ۲۶ میں اس طرح وارد ہوا ہے:

”جب وہ تسلی دینے والا آجائے گا جس کو میں پدر کی طرف سے بھجواؤں گا یعنی وہ سچی روح جو پدر کی طرف سے آئے گی، وہ میرے بارے میں شہادت دی گی“۔

۵ ۔ نیز اسی انجیل یوحنا باب ۱۶ ،نمبر ۱۷ کے بعد میں وارد ہوا ہے:

”لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر میں تمہارے درمیان سے چلاجاؤں تویہ تمہارے لئے مفید ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو تمہارے پاس وہ تسلی دینے والا نہیں آئے گا، اور اگر میں چلا گیا تو اس کو تمہارے لئے بھیج دوں گا لیکن جب وہ سچی روح تمہارے پاس آجائے گی تو تمہیں تمام سچائیوں کی طرف ہدایت کردے گی، کیونکہ وہ اپنی طرف سے کچھ کلام نہیں کرے گا بلکہ جو کچھ اس کو سنائی دے گا وہی کہے گا، اور تمہیں آئندہ کے بارے میں خبر(بھی) دے گا“(۳)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ فارسی انجیل میں ”تسلی دینے والے “ کی جگہ عربی انجیل مطبوعہ لندن ( ویلیام وٹس پریس ، ۱۸۵۷ ءء) میں اس کی جگہ ”فارقلیطا“ ذکر ہوا ہے۔(۴)

ایک اور زندہ گواہ

”فخر الاسلام “جو کتاب ”انیس الاعلام “کے مولف ہیںپہلے عیسا ئی عالم تھے ،انھوں نے اپنی تعلیم عیسائی پادریوں میں مکمل کی تھی اور ان کے درمیان ایک بلند مقام حاصل کر لیاتھا وہ انیس الا علام کے مقدمہ میں اپنے مسلمان ہونے کے عجیب و غریب واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

”بڑی جستجو ،زحمتوں اور کئی ایک شہر وں میں گردش کے بعد میں ایک عظیم پادری کے پاس پہنچا جو زہد و تقویٰ میں ممتاز تھا ، ”کیتھولک‘ فرقہ کے بادشاہ و غیرہ اپنے مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے تھے ،ایک مدت تک میں اس کے پاس نصاریٰ کے مختلف مذاہب کی تعلیم حاصل کرتا رہا ،اس کے بہت سے شاگر د تھے لیکن اتفاقاً مجھ سے اسے کچھ خاص ہی لگاو تھا ،اس کے گھر کی تمام کنجیاں میرے ہاتھ میں تھیں، صرف ایک صندوق خانے کی کنجی اس کے پاس ہوا کرتی تھی ۔

اس دوران وہ پادری بیمار ہو گیا تواس نے مجھ سے کہا کہ شاگردوں سے جاکر کہہ دو کہ آج میں درس نہیں دے سکتا ،جب میں طالب علموں کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ سب بحث و مباحثے میں مصروف ہیں یہ بحث سریانی کے لفظ ”فارقلیطا“ اور یونانی زبان کے لفظ ”پریکلتوس “کے معنی تک جاپہنچی اور وہ کافی دیر تک جھگڑتے رہے ،ہر ایک کی الگ رائے تھی ،واپس آنے پر استاد نے مجھ سے پوچھا تم لوگوں نے آج کیا بحث کی ہے؟تو میں نے لفظ فارقلیطا کا اختلاف اس کے سامنے بیان کیا وہ کہنے لگا :تونے ان میں کس قول کا انتخاب کیا ہے ،میں نے کہا کہ فلاں مفسرکے قول کوپسند کیا ہے ۔

استاد پادری کہنے لگا :تونے کوتاہی تو نہیں کی لیکن حق و حقیقت ان تمام اقوال کے خلاف ہے کیونکہ اس کی حقیقت کو ” رَاسِخُونَ فِي العِلمِ“کے علاوہ دوسرے لوگ نہیں جانتے اور ان میں سے بھی بہت کم اس حقیقت سے آشنا ہیں ،میں نے اصرار کیا کہ اس کے معنی مجھے بتائےے، وہ بہت رویا اور کہنے لگا:میں کوئی چیز تم سے نہیں چھپاتا ،لیکن اس نام کے معنی معلوم ہو جانے کا نتیجہ تو بہت سخت ہوگا کیونکہ اس کے معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے اور تمہیں قتل کر دیا جائے گا،اب اگر تم وعدہ کرو کہ کسی سے نہیں کہو گے تو میں اسے ظاہر کر دیتا ہوں۔

میں نے تمام مقدسات مذہبی کی قسم کھائی کہ اسے فاش نہیں کروں گا تو اس نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے پیغمبر کے ناموں میںسے ایک نام ہے اور اس کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ہیں ۔

اس کے بعد اس نے اس چھوٹے کمرے کی کنجی مجھے دی اور کہا کہ فلاں صندوق کا دروازہ کھولو اور فلاں فلاں کتاب لے آو ، چنا نچہ میںوہ کتابیں اس کے پاس لے آیا ، یہ دونوں کتابیں رسول اسلام (ص) کے ظہور سے پہلے کی تھیں اور چمڑے پر لکھی ہوئی تھیں۔

دونوں کتابوں میں لفظ ”فارقلیطا“کا ترجمہ ”احمد“اور” محمد“کیا گیا تھا اس کے بعد استاد نے مزید کہا کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے علمائے نصاریٰ میں کوئی اختلاف نہ تھا کہ فارقلیطا کے معنی احمد و محمد ہیں، لیکن ظہور محمد( (ص))کے بعد اپنی سرداری اور مادی فوائد کی بقا کے لئے اس کی تاویل کر دی اور اس کے لئے دوسرے معنی گڑھ لئے حالانکہ صا حب انجیل کی مراد وہ معنی یقینا نہیں ہیں۔

میں نے سوال کیا کہ دین ِنصاریٰ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ،اس نے کہا دین اسلام کے آنے سے منسوخ ہوگیا ہے اس جملہ کی اس نے تین مرتبہ تکرار کی ۔

پس میں نے کہا کہ اس زمانہ میں طریقِ نجات اور صراطِ مستقیم ،کونساراستہ ہے ؟۔

اس نے کہا :مختصر یہ ہے کہ محمد (ص) کی پیروی و اتباع کرو ۔

میں نے کہا :کیا اس کی پیروی کرنے والے اہل نجات ہیں ؟ اس نے کہا :ہاں !خدا کی قسم (اور تین مرتبہ قسم کھائی )

پھر استاد نے گریہ کیا اور میں بھی بہت رویا اور اس نے کہا : اگر آخرت اور نجات چاہتے ہوتودین حق ضرور قبول کر لو،میں ہمیشہ تمہارے لئے دعا کروں گا اس شرط کے ساتھ کہ قیامت کے دن گواہی دو کہ میں باطن میں مسلمان اور حضرت محمد (ص) کا پیروکار ہوں اور علمائے نصاریٰ کے ایک گروہ کی باطن میں مجھ جیسی حالت ہے اور ظاہراً میری طرح اپنے دنیاوی مقام سے کنارہ کش نہیں ہو سکتے ورنہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس وقت روئے زمین پر دین خدا دین اسلام ہی ہے ۔“!!(۵)

آپ دیکھیں کہ علمائے اہل کتاب نے پیامبراسلام (ص)کے ظہور کے بعد اپنے ذاتی مفاد کے لئے آنحضرت (ص) کے نام اور نشانیوں کو بدل ڈالا ۔!!(۶)

____________________

(۱) سورہ اعراف ، آیت ۱۵۷

(۲) اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے کتاب ”رہبر سعادت یا دین محمد“ اور کتاب ”قرآن و آخرین پیامبر“ کو ملاحظہ فرمائیں

(۳) مذکورہ تمام تحریریں، جن کو عہد قدیم اور عہد جدید سے نقل کیا گیا ہے ، اس فارسی ترجمہ سے ہے جو ۱۸۷۸ءء میں لندن سے عیسائی مترجمین کے ذریعہ عبرانی زبان سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا ہے

(۴)تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۳

(۵) اقتباس از کتاب ہدایت دوم ،مقدمہ کتاب انیس الاعلام، اختصار کے ساتھ

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۲۱۱

۲۶ ۔ اولوالعزم پیغمبر کون ہیں؟

جیسا کہ سورہ احقاف آیت ۳۵ میں ہم پڑھتے ہیں:( فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اٴُوْلُوا الْعَزْمِ مِنْ الرُّسُلِ ) اے پیغمبر ! آپ اسی طرح صبر کریں جس طرح پہلے اولوا العزم رسولوں نے صبر کیا ۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولوالعزم پیغمبر کون ہیں؟

اس سلسلہ میں مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، قبل اس کے کہ اس سلسلہ میں تحقیق کریں پہلے ”عزم“ کے معنی کو دیکھیں کیونکہ ” اولوالعزم “ یعنی صاحبان ”عزم“۔

”عزم“ کے معنی مستحکم اور مضبوط ارادہ کے ہیں، راغب اصفہانی اپنی مشہورو معروف کتاب ”مفردات“ میں کہتے ہیں: عزم کے معنی کسی کام کے لئے مصمم ارادہ کرنا ہے، ”عقد القلب علی امضاء الامر“

قرآن مجید میں کبھی ”عزم“ کے معنی صبر کے لئے گئے ہیں، جیسا کہ ارشاد خداوند ہے:

( وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاٴُمُورِ ) (۱)

”اور یقینا جو صبر کرے اور معاف کردے تو اس کا یہ عمل بڑے صبرکا کام ہے“۔

اور کبھی ”وفائے عہد“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا:

( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ) (۲)

”اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہد لیا مگر انھوں نے اسے ترک کردیا اور ہم نے ان کے پاس عزم و ثبات نہیں پایا“۔

لیکن چونکہ صاحب شریعت انبیاء علیہم السلام ایک نئی اور تازہ شریعت لے کر آتے تھے، جس کی بنا پر ان کو بہت سی مشکلات پیش آتی تھی، جن سے مقابلہ کرنے کے لئے ان کو مستحکم اور مصمم ارادہ کی ضرورت ہوتی تھی، لہٰذا ان انبیاء کو ”اولو العزم“ پیغمبر کہا گیا، اور مذکورہ آیت بھی ظاہراً انھیں معنی کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

ضمنی طور پر ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ان ہی اولو العزم پیغمبر وں میں سے ہیں، کیونکہ ارشاد ہوا ”آپ بھی اسی طرح صبر کریں جس طرح سے آپ سے پہلے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر سے کام لیا ہے“۔

اگر بعض مفسرین نے ”عزم “ اور ”عزیمت“ کے معنی ”حکم و شریعت“ مراد لیتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے ورنہ لغوی اعتبار سے ”عزم“ کے معنی ”شریعت“ نہیں ہے۔

بہر حال ان معنی کے لحاظ سے ”من الرُسل“ میں ”من“ ”تبعیضیہ“ ہے جس سے کچھ خاص بزرگ پیغمبر مراد ہیں جو صاحب شریعت تھے، جیسا کہ سورہ احزاب میں بھی اسی چیز کی طرف اشارہ ہے:

( وَإِذْ اٴَخَذْنَا مِنْ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاٴَخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا ) (۳)

”اور اس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیاء سے اور بالخصوص آپ سے اور نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا “۔

یہاں پر تمام انبیاء علیہم السلام کو صیغہ جمع کی صورت میں بیان کرنے کے بعد ان پانچ اولوالعزم پیغمبروں کا نام لینایہ ان کی خصوصیت پر بہترین دلیل ہے۔

اسی طرح سورہ شوریٰ میں بھی اولوالعزم پیغمبر کے بارے میں بیان ہوا ہے، ارشاد خداوندعالم ہے:

( شَرَعَ لَکُمْ مِنْ الدِّینِ مَا وَصَّیٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِی اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ) (۴)

”اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی اے پیغمبر !تمہاری طرف بھی کی ہے، اور جس کی نصیحت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ہے“۔

اسی طرح شیعہ اورسنی معتبر کتابوں میں روایات بیان ہوئی ہیں کہ اولوالعزم یہی پانچ پیغمبر تھے،جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث کے ضمن میں بیان ہواہے:

”مِنُهُم خَمْسةٌ :اٴوّلهُم نُوح، ثُمَّ إبراهِیمَ ،ثُمَّ موسیٰ ، ثُمَّ عِیسیٰ ، ثُمَّ مُحَمَّد (ص)(۵)

”اولوالعزم پیغمبر پانچ ہیں، پہلے جناب نوح ، ان کے بعد جناب ابراہیم ، ان کے بعد جناب موسیٰ ،ان کے بعد حضرت عیسیٰ اور آخر میں حضرت محمد (ص)“۔

اور جب سائل نے سوال کیا : ”لم سموا اولوالعزم“ ان کو اولوالعزم کیوں کہا جاتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:

لاٴنَّهُم بَعثُوا إلیٰ شَرقِهَا وَ غَرْبِهَا وَجِنِّها وَ إنْسِها(۶)

”کیونکہ (یہ اولوالعزم) پیغمبر مشرق و مغرب اور جن و انس کے لئے مبعوث ہوئے ہیں“۔

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”سَادَةُ النبیّین وَالمُرسَلِینَ خَمْسةٌ وَهُمْ اولوا العزمِ مِنَ الرُّسِل و علیهم دارة الرَّحی نوح و إبراهیم وموسیٰ و عیسیٰ ومحمد (ص)“ (۷)

”انبیاء و مرسلین کے سردار پانچ نبی ہیں اور نبوت و رسالت کی چکی ان ہی کے دم پر چلتی ہے، اور وہ یہ ہیں جناب نوح، جناب ابراہیم، جناب موسیٰ، جناب عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی (ص) “۔

تفسیر ”الدر المنثور “ میں ابن عباس سے یہی روایت کی گئی ہے کہ اولوالعزم یہی پانچ پیغمبر ہیں۔(۸)

لیکن بعض مفسرین نے ان انبیاء کو اولو العزم پیغمبر بتایا ہے جو دشمنوں سے جنگ کرنے پر مامور ہوئے ہیں۔

اسی طرح بعض مفسرین نے اولو العزم پیغمبر کی تعداد ۳۱۳ / بیان کی ہے، ( ۴) جبکہ بعض مفسرین نے تمام انبیاء علیہم السلام کو اولو العزم پیغمبر قرار دیا ہے(۹) اور اس نظریہ کے مطابق ”مِن الرُسل“ میں ”من“”بیانیہ“ ہوگا”تبعیضیہ“ نہیں، لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ صحیح ہے اور اسلامی روایات سے بھی اس کی تاکید ہوتی ہے۔(۱۰)

____________________

(۱) سورہ شوریٰ ، آیت۴۳

(۲) سورہ طہ ، ، آیت۱۱۵ (۳) سورہ احزاب ، آیت ۷

(۴) سورہ شوریٰ ، آیت۱۳

(۵) ”مجمع البیان محل بحث آیات کے ذیل میں ،(جلد ۹، صفحہ ۹۴)

(۶) بحا رالانوار ، جلد ا۱، صفحہ ۵۸، (حدیث ۶۱) ،اور اسی جلد میں صفحہ ۵۶ ،حدیث ۵۵، میں بھی صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے

(۷) اصول کافی ، جلد ۱،باب”طبقات الانبیاء والرسل “حدیث۳

(۱۰،۹،۸) الدرالمنثور ، جلد ۶، صفحہ ۴۵ (۶) تفسیر نمونہ ، جلد ا۲، صفحہ ۳۷۷

۲۷ بچپن میں نبوت یا امامت ملنا کس طرح ممکن ہے؟

سا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں:( یَایَحْیَیٰ خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صَبِیًّا ) (۱)

”(اے) یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انھیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی“۔

یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان کو مقام نبوت یا امامت بچپن میں ہی مل جائے؟

یہ بات صحیح ہے کہ عام طور پر انسان کی عقل کی ترقی ایک موقع پر ہوتی ہے، لیکن ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیشہ معاشرہ میں کچھ عجیب و غریب قسم کے افراد پائے جاتے ہیں،ان کی عقل کی پرواز بہت زیادہ ہوتی ہے، تو پھر کیا ممانعت ہے کہ خداوندعالم اس وقت کو بعض مصلحت کی بنا پر مختصر کردے اور بعض انسان کے لئے کم مدت میں اس مرحلہ کو طے کرالے، کیونکہ عام طور پر بچہ ایک سال کے بعد بولنا شروع کرتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ولادت کے وقت ہی بولنے لگے اور وہ بھی پُر معنی مطالب جو بڑے بڑے ذہین لوگوں کے الفاظ ہوتے ہیں۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ شیعوں کے بعض ائمہ کس طرح بچپن میں مقام امامت تک پہنچ گئے، ان کا یہ اعتراض بے بنیاد ہے۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے صحابی” علی بن اسباط“ نے روایت کی ہے کہ میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا (جبکہ امام علیہ السلام کی عمر کم تھی) میں امام کے قد و قامت کو غور سے دیکھ رہا تھا تاکہ ذہن نشین کرلوں اورجب مصر واپس جاؤں تو دوستوں کے لئے آپ کے قدو قامت کو ہو بہو بیان کروں، بالکل اسی وقت جب میں یہ سوچ رہا تھا تو امام علیہ السلام بیٹھ گئے (گویا امام میرے سوال کوسمجھ گئے ) اور میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے علی بن اسباط! خداوندعالم نے امامت کے سلسلہ میں وہی کیا جونبوت کے بارے میں انجام دیا ہے، کبھی ارشاد ہوتا ہے:( وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صَبِیًّا ) ( ہم نے یحییٰ کو بچپن میں نبوت و عقل و درایت عطا کی“ اور کبھی انسان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:( حَتّٰی إذَا بَلَغَ اَشدهُ وَبَلَغَ اٴرْبَعِیْنَ سَنَة ) (احقاف/ ۱۵) ( جب انسان بلوغ کامل کی حد تک پہنچا تو چالیس سال کا ہوگیا) ، پس جس طرح خدا کے لئے یہ ممکن ہے کہ انسان کو بچپن ہی میں نبوت و حکمت عطا فرمائے جبکہ وہی چیز انسان کی عقل کو چالیس سال میں مکمل فرمائے۔(۲)

مذکورہ آیت ان لوگوں کے لئے ایک دندان شکن جواب ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں اعتراض کرتے ہیں کہ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں حضرت علی علیہ السلام نہیں ہیں کیونکہ اس وقت آپ کی عمر ۱۰ سال تھی اور دس سال کے بچہ کا ایمان قابل قبول نہیں ہے۔

(قارئین کرام!) یہاں پر اس نکتہ کا ذکر بےجانہ ہوگا جیساکہ ہم حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں پڑھتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانہ کے کچھ بچے

ان کے پاس آئے اور کہا: ”اذہب بنا نلعب“( آؤ چلو آپس میں کھیلتے ہیں) تو جناب یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: ”ما للعب خلقنا“ ( ہم کھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں) اس موقع پر خداوندعالم نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:( وآتَیْنَاهُ الحُکْمَ صَبِیِّاً ) (۳)

البتہ اس چیز پر توجہ رکھنا چاہئے کہ یہاں پر ”کھیل“ سے مراد بیہودہ اوربے فائدہ کھیل مراد ہے ورنہ اگر کھیل سے کوئی منطقی اور عاقلانہ فا ئد ہ ہو تو اس کا حکم جدا ہے۔(۴)

____________________

(۱)سورہ مریم ، آیت ۱۲

(۲) نور الثقلین ،، جلد ۳، صفحہ ۳۲۵

(۳) نور الثقلین ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۵(سورہ مریم، آیت ۱۲)

۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۳، صفحہ ۲۷

۲۸ ۔ وحی کی اسرار آمیز حقیقت کیا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ”وحی“ کی حقیقت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ وحی ایک ایسا”ادراک“ ہے جوہمارے ادراک اور سمجھ کی حد سے باہرہے، بلکہ یہ ایک ایسا رابطہ ہے جوہمارے جانے پہچانے ہوئے ارتباط سے باہر ہے، پس ہم عالم وحی سے اس لئے آشنا نہیں ہو سکتے کہ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

لہٰذاایک خاکی انسان عالم ہستی سے کس طرح رابطہ پیداکرسکتا ہے؟ اور خداوندعالم جو ازلی، ابدی اور ہر لحاظ سے لامحدود ہے کس طرح محدود او رممکن الوجود سے رابطہ برقرار کرتا ہے؟ وحی نازل ہوتے وقت پیغمبر اکرم (ص) کس طرح یقین کرتے تھے کہ یہ رابطہ خدا کی طرف سے ہے؟!

یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینا مشکل ہے، اور اس کے سمجھنے کے لئے زیادہ کوشش کرنا (بھی) بے کار ہے۔

ہم یہاں یہ عر ض کرتے ہیں کہ اس طرح کارابطہ موجود ہے،چنانچہ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اس طرح کے رابطہ کی نفی پر کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ اس کے برخلاف اپنی اس دنیا میں بھی کچھ ایسے راز ہوتے ہیں جن کو ہم بیان کرنے سے عاجز ہیں، اور ان خاص رابطوں کے پیش نظر ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے احساس اور رابطہ کے مافوق بھی احساس، ادراک اور آنکھیں موجود ہیں۔

مناسب ہے کہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال کا سہارا لیا جائے۔

فرض کیجئے کہ ہم کسی ایسے شہر میں زندگی بسر کرتے ہوں جہاں پر صرف اور صرف نابینا لوگ رہتے ہوں (البتہ پیدائشی نابینا ) اوروہاں صرف ہم ہی دیکھنے والے ہوں، شہر کے تمام لوگ”چار حسّ “ والے ہوں (اس فرض کے ساتھ کہ انسان کی پانچ حس ہوتی ہیں)اور صرف ہم ہی ”پانچ حس “والے ہوں، ہم اس شہر میں ہونے والے مختلف واقعات کو دیکھتے ہیں اور شہر والوں کو خبر دیتے ہیں، لیکن وہ سب تعجب کرتے ہیں کہ یہ پانچویں حس کیا چیز ہے،جس کی کارکردگی کا دائرہ اتنا وسیع ہے؟ اور ان کے لئے جس قدر بھی بینائی کے بارے میں بحث و گفتگو کریں تو بے فائدہ ہے، ان کے ذہن میں ایک نامفہوم شکل کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا، ایک طرف سے اس کا انکار بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کے مختلف آثار و فوائد کا احساس کرتے ہیں، دوسری طرف چونکہ بینائی کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں دیکھا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ وحی ”چھٹی حسّ“ کا نام ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا ادارک اور عالم غیب اور ذات خداسے رابطہ ہے جوہمارے یہاں نہیں پایا جاتاہے، جس کی حقیقت کو ہم نہیں سمجھ سکتے، اگرچہ اس کے آثار کی وجہ سے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

ہم تو صرف یہی دیکھتے ہیں کہ صاحب عظمت افراد ایسے مطالب جو انسانی فکر سے بلند ہیں؛ اس کے ساتھ انسانوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو خدا اور دین الٰہی کی طرف بلاتے ہیں، اورایسے معجزات پیش کرتے ہیں جو انسانی طاقت سے بلند و بالاہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عالم غیب سے رابطہ ہے، جس کے آثار واضح و روشن ہیں لیکن اس کی حقیقت مخفی ہے۔

کیا ہم نے اس دنیا کے تمام رازوں کو کشف کرلیا ہے کہ اگر وحی کی حقیقت کو نہ سمجھ سکیں تو اس کا انکار کر ڈالیں؟

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہم حیوانات کے یہاں بعض پُراسرار چیزیں دیکھتے ہیں جن کی تفسیر و توضیح سے عاجز ہیں، مگر مہاجر پرندے جو کبھی کبھی ۱۸۰۰۰/ کلومیٹر کا طولانی سفر طے کرتے ہیں اور قطب شمال سے جنوب کی طرف یا اس کے برعکس جنوب سے شمال کی طرف سفر کرتے ہیں، کیا ان کی پُراسرار زندگی ہمارے لئے واضح ہے؟

یہ پرندے کس طرح سمت کا پتہ لگاتے ہیں اوراپنے راستہ کو صحیح پہچانتے ہیں؟ کبھی دن میں اور کبھی اندھیری رات میں دور دراز کا سفر طے کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم ان کی طرح بغیر کسی وسیلہ اور گائڈ کے ایک فی صدبھی سفر کریں تو بہت جلد راستہ بھٹک جائیں گے، یہ وہ چیز ہے جس کے سلسلہ میں علم و دانش بھی ابھی تک پردہ نہیں اٹھاسکی، اسی طرح بہت سی مچھلیاں دریا کی گہرائی میں رہتی ہیں اور انڈے دینے کے وقت اپنی جائے پیدائش تک چلی جاتی ہیں کہ شاید ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہو، یہ مچھلیاں کس طرح اپنی جائے پیدائش کو اتنی آسانی سے تلاش کرلیتی ہیں؟

ان کے علاوہ اس دنیا میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں جو ہمیں انکار اور نفی سے روک دیتی ہیں،اس جگہ ہمیں شیخ الرئیس ابو علی سینا کا قول یاد آتا ہے ”کْلُّ ما قرَع سمَعکَ مِن الغرائبِ فضعہ فی بقعة لإمکان مالم یذدکَ عنہ قاطعُ البرہانِ“ (اگر کوئی عجیب و غریب چیز سننے میں آئے تو اس کا انکار نہ کرو ، بلکہ اس کے بارے میں یہ کہو کہ ممکن ہے، جب تک کہ اس کے برخلاف کوئی مضبوط دلیل نہ مل جائے!)

منکر ِوحی کی دلیل

جب بعض لوگوں کے سامنے وحی کا مسئلہ آتا ہے تو جلد بازی میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: یہ چیز علم اور سائنس کے برخلاف ہے!

اگر ان سے سوال کیا جائے کہ یہ کہاں علم اور سائنس کے برخلاف ہے؟ تو یقین کے ساتھ اور مغرور لہجہ میں کہتے ہیں :جس چیز کوعلوم طبیعی اور سائنس ثابت نہ کرے تو اس کے انکار کے لئے یہی کافی ہے، اصولی طور پر وہی مطلب ہمارے لئے قابل قبول ہے جو علوم اور سائنس کے تجربوں سے ثابت ہوجائے!!

اس کے علاوہ سائنس کی ریسرچ نے اس بات کو ثابت نہیں کیا ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی حس موجود ہے جس سے ماوراء طبیعت کا پتہ لگایا جاسکے، انبیاء بھی ہماری ہی طرح انسان تھے ان کی اور ہماری جنس ایک ہی ہے، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کے یہاں ایسا احساس اور ادراک پایا جاتا ہو جو ہم میں نہ ہو؟

ہمیشہ کا اعتراض اور ہمیشہ کاجواب مادہ پر ستوں کا اعتراض صرف ”وحی“ کے سلسلہ میں نہیں ہے وہ تو ”ما وراء طبیعت“ کے تمام مسائل کا انکار کرتے رہتے ہیں، اور ہم اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہر جگہ یہی جواب پیش کرتے ہیں:

یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائنس کا دائرہ ،صرف(مادی ) دنیا تک ہے ، اور سائنس کی بحث و گفتگو کا معیار اور آلات :لیبریٹری ، ٹلسکوپ، میکرواسکوپ وغیرہ ہیں اور اسی دائرے میں گفتگو ہوتی ہے، سائنس ان معیار اور وسائل کے ذریعہ ”جہان مادہ“ کے علاوہ کوئی بات نہیں کہہ سکتی نہ کسی چیز کو ثابت کرسکتی ہے اور نہ کسی چیز کا انکار کرسکتی ہے، اس بات کی دلیل بھی روشن ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام وسائل محدود اور خاص دائرے سے مخصوص ہیں۔

بلکہ علم و سائنس کے مختلف آلات کسی دوسرے علم میں کارگر نہیں ہوسکتے، مثال کے طور پر اگر ”سِل“ کے جراثیم کو بڑی بڑی نجومی ٹلسکوپ کے ذریعہ نہ دیکھا جاسکے تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اگر ”پلوٹن“ ستارے کو میکروسکوپ اور ذرہ بین کے ذریعہ نہ دیکھا جاسکے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے!!

کسی چیز کی پہچان اور شناخت کے لئے اسی علم کے آلات اوروسائل ہونا ضروری ہے، لہٰذا ”ماوراء طبیعت“ کی پہچان کے صرف عقلی دلائل ہی کارگر ہوسکتے ہیں جن کے ذریعہ اس عظیم دنیا کے راستے ہمارے لئے کھل جاتے ہیں۔

جو افراد علم کو اس کی حدود سے خارج کرتے ہیں وہ نہ عالم ہیں اور نہ فیلسوف، یہ لوگ صرف دعو یٰ کرتے ہیں حالانکہ خطاکار اور گمراہ ہیں۔ہم صرف یہی دیکھتے ہیں کہ کچھ عظیم انسان آئے اور ہمارے سامنے کچھ مطالب بیان کئے، جو نوع بشر کی طاقت سے باہر تھے، جس کی بنا پر ہم سمجھ گئے کہ ان کا ”ماوراء طبیعت“ سے رابطہ ہے، لیکن یہ رابطہ کیسا ہے؟ یہ ہمارے لئے بہت زیادہ اہم نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ ہاں اس طرح کا رابطہ موجود ہے۔(۱)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۴۹۶

۲۹ ۔ کیا پیغمبر اکرم (ص) امّی تھے؟

”اُمّی“ کے معنی میں تین مشہور احتمال پائے جاتے ہیں: پہلا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے سبق نہ پڑھا ہو، دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس کی جائے پیدائش مکہ ہو اور مکہ میںظاہر ہوا ہو، اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے قوم او رامت کے درمیان قیام کیا ہو، لیکن سب سے زیادہ مشہور و معروف پہلے معنی ہیں، جو استعمال کے موارد سے بھی ہم آہنگ ہیں، اور ممکن ہے تینوں معنی باہم مراد ہوں۔

اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کہ”پیغمبر اکرم (ص)کسی مکتب اور مدرسہ میں نہیں گئے “اور قرآن کریم نے بھی بعثت سے پہلے آنحضرت (ص) کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے:( وَمَا کُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ کِتَابٍ وَلاََتخُطُّهُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ) (۱)

”اور اے پیغمبر! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہ میں پڑجاتے“۔

یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت پورے حجاز میں پڑھے لکھے لوگ اتنے کم تھے کہ ان کی تعداد انگشت شمار تھی اور سبھی ان کوجا نتے تھے، مکہ میں جو حجاز کا مرکز شمار کیا جاتا تھا لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد ۱۷/ سے زیادہ نہیں تھی اور عورتوں میں صرف ایک عورت پڑھی لکھی تھی۔(۲)

ایسے ماحول میں اگر پیغمبر اکرم (ص) نے کسی استاد سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو یقینی طور پریہ بات مشہور ہوجاتی، بالفرض اگر (نعوذ باللہ) آنحضرت (ص)کی نبوت کو قبول نہ کریں، تو پھر آپ اپنی کتاب میں اس موضوع کی نفی کیسے کرسکتے تھے؟ کیا لوگ اعتراض نہ کرتے کہ تم نے تعلیم حاصل کی ہے، لہٰذا یہ بہترین شاہدہے کہ آپ نے کسی کے پاس تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔

بہر حال پیغمبر اکرم (ص) میں اس صفت کا ہونا نبوت کے اثبات کے لئے زیادہ بہتر ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس شخص نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو وہ اس طرح کی عمدہ گفتگوکرتا ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آنحضرت (ص) کا خداوندعالم اور عالم ماوراء طبیعت سے واقعاً رابطہ ہے۔

یہ آنحضرت (ص) کی بعثت نبوت سے پہلے، لیکن بعثت کے بعد بھی کسی تاریخ نے نقل نہیں کیا کہ آپ نے کسی کے پاس لکھناپڑھنا سیکھا ہو، لہٰذا معلوم یہ ہو ا کہ آپ اولِ عمر سے آخر ِعمر تک اسی ”اُمّی“ صفت پر باقی رہے۔

لیکن یہاں پر سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے معنی جاہل ہونا نہیں ہے، اور جو لوگ لفظ ”اُمّی“ کے جاہل معنی کرتے ہیں وہ اس فرق کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔

اس بات میں کوئی مانع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) تعلیم الٰہی کے ذریعہ ”پڑھنا“ یا ”پڑھنا اور لکھنا“ جانتے ہوں، بغیر اس کے کہ کسی انسان کے پاس تعلیم حاصل کی ہو، بے شک اس طرح کی معلومات انسانی کمالات میں سے ہیں اور مقام نبوت کے لئے ضروری ہیں۔

حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات اس بات پر بہترین شاہد ہیں، جن میں بیان ہوا ہے : پیغمبر اکرم (ص) لکھنے پڑھنے کی قدرت رکھتے تھے۔(۳)

لیکن ان کی نبوت میں کہیں کوئی شک نہ کرے اس قدرت سے استفادہ نہیں کرتے تھے،اور جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کی طاقت کوئی کمال محسوب نہیں ہوتی، بلکہ یہ دونوں علمی کمالات تک پہنچنے کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ علم واقعی اور کمال حقیقی، تو اس کا جواب بھی اسی میں مخفی ہے کیونکہ کمالات کے وسائل سے آگاہی رکھنا خود ایک واضح کمال ہے۔لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا تصور ہے جس طرح کہ سورہ جمعہ میں بیان ہوا ہے:

( یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَکِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ) (۴) یا اس کے ماننددوسری آیات، اس بات کی دلیل ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کے سامنے لکھی ہوئی کتاب (قرآن) سے پڑھتے تھے، یہ بھی ایک غلط فہمی ہے، کیونکہ تلاوت کے معنی لکھی ہوئی کتاب پڑھنا بھی ہیں اور زبانی طور پر پڑھنا بھی، جو لوگ قرآن، اشعار یا دعاؤں کو زبانی پڑھتے ہیں ان پر بھی تلاوت کا اطلاق بہت زیادہ ہو تا ہے۔(۵)

____________________

(۱) سورہ عنکبوت ، آیت ۴۸

(۲) فتوح البلدان بلاذری ،مطبوعہ مصر، صفحہ ۴۵۹

(۳) تفسیر برہان ، جلد ۴، صفحہ ۳۳۲، سورہ جمعہ کی پہلی آیت کے ذیل میں

(۴) سورہ جمعہ ، آیت ۲”(وہ رسول) انھیں کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“۔

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۰