110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131753
ڈاؤنلوڈ: 4520

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131753 / ڈاؤنلوڈ: 4520
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۳۰ ۔ معراج؛ جسمانی تھی یا روحانی اور معراج کا مقصد کیا تھا؟

شیعہ ،سنی تمام علمائے اسلام کے درمیان مشہور ہے کہ رسول اسلام کو یہ عالم بیداری میں معراج ہوئی، چنا نچہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی آیات کا ظاہری مفہوم بھی اس بات پر گواہ ہے کہ یہ بیداری کی حالت میں معراج ہوئی۔

اسلامی تواریخ بھی اس بات پر گواہ ہیں چنا نچہ بیان ہوا ہے : جس وقت رسول اللہ نے واقعہ معراج کو بیان کیا تو مشرکین نے شدت کے ساتھ اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بہانہ بنالیا۔

یہ بات خود اس چیز پرگواہ ہے کہ رسول اللہ (ص)ہرگز خواب یا روحانی معراج کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اتناشور وغل نہ کرتے ۔

لیکن جیساکہ حسن بصری سے روایت ہے : ”کان فی المنام رویا رآها “ (یہ واقعہ خواب میں پیش آیا )

اور اسی طرح حضرت عائشہ سے روایت ہے : ”والله ما فقد جسد رسول الله (ص) ولکن عرج بروحه

”خداکی قسم بدن ِرسول اللہ (ص)ہم سے جدا نہیں ہوا صرف آپ کی روح آسمان پر گئی“۔

ظاہراً ایسی روایات سیاسی پہلو رکھتی ہیں۔(۱)

معراج کا مقصد

یہ بات ہمارے لئے واضح ہے کہ معراج کا مقصد یہ نہیں کہ رسول اکرم دیدار خدا کے لئے آسمانوں پر جائیں، جیسا کہ سادہ لوح افرادخیال کرتے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مغربی دانشور بھی ناآگاہی کی بنا پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چہرہ بگاڑکر پیش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ہیں جس میں سے ایک مسڑ” گیور گیو“ بھی ہیں وہ بھی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ہیں جنہیں پھرسے پہچاننا چاہئے“(۲) میں کہتے ہیں:”محمد اپنے سفرِ معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انہیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی، انہوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حساب کتاب میں مشغول ہے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سنتے تھے مگر انہیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نہیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں“

یہ عبارت نشاندھی کرتی ہے کہ وہ قلم لکڑی کا تھا، اور وہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتاتھا اور اس سے آواز پیدا ہوتی تھی ،اوراسی طرح کی اور بہت سے خرافات اس میں موجود ہیں “۔

جب کہ مقصدِ معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات بالخصوص عالم بالا میں موجودہ عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت ورہبری کے لئے ایک نیا احساس اور ایک نئی بصیرت حاصل کریں ۔ معراج کاہدف واضح طورپر سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی آیت ۱۸ میں بیان ہوا ہے۔

اس سلسلہ میں ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے بیان ہوئی ہے جس میں آپ سے مقصد معراج پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

”إنَّ الله لا یُوصف بمکانٍ ،ولایُجری علیه زمان ،ولکنَّه عزَّوجلَّ اٴرادَ اٴنْ یشرف به ملائکته وسکان سماواته، و یکرَّمهم بمشاهدته ،ویُریه من عجائب عظمته مایخبر به بعد هبوطه(۳)

”خدا ہرگز کوئی مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتاہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باشندوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپ کی زیارت کا شرف عطاکرے نیزآپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکران کولوگوں کے سا منے بیان کریں“۔(۴)

____________________

(۱)تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۵

(۲)مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمہ کا نام ہے “ محمد پیغمبری کہ از نوباید شناخت “ صفحہ ۱۲۵

(۳) تفسیر برہان ، جلد ۲، صفحہ ۴۰۰

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۶

۳۱ ۔ کیا معراج ،آج کے علوم سے ہم آہنگ ہے؟

گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح تہہ بہ تہہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں واقعہ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یہی نظریہ تھا ان کے خیال میں اس طرح تویہ ماننا پڑتا ہے کہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پھر آپس میں مل گئے؟

لیکن” بطلیموسی “نظریہ ختم ہو گیا تو آسمانوں کے شگافتہ ہونے کا مسئلہ ختم ہوگیا البتہ علم ہیئت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابھر ے ہیں مثلاً:

۱ ۔ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کششِ ثقل ہے جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مداراور مرکزِ ثقل سے نکلنے کےلئے کم از کم چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔

۲ ۔دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا

(۱) بعض قدیم فلاسفہ کا یہ نظریہ تھا کہ آسمانوں میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ، اصطلاح میں وہ کہتے تھے کہ افلاک میں --”خرق “(پھٹنا)اور ”التیام“(ملنا)ممکن نہیں

۳ ۔ایسے سفر میں تیسری رکاوٹ اس حصہ میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے جبکہ جس حصہ پر سورج کی بلا واسطہ روشنی پڑرہی ہے اور اسی طرح اس حصہ میں جان لیوا سردی ہے جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ہے۔

۴ ۔ اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطرناک شعاعیں ہیں کہ جو فضا ئے زمین کے اوپر موجود ہیں مثلا کا سمک ریز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ریز ultra violet ravs اور ایکس ریز x ravs یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے ارگانزم organism کے لئے نقصان دہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں (زمین پر رہنے والوں کے لئے زمین کے اوپر موجودہ فضاکی وجہ سے ان کی تپش ختم ہوجاتی ہے )

۵ ۔اس سلسلہ میں ایک اور مشکل یہ ہے کہ خلامیں انسان کا وزن ختم ہوجاتا ہے اگرچہ تدریجاًبے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باشندہ بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلا میں جا پہنچیں تو اس کیفیت سے نمٹنا بہت ہی مشکل ہے ۔

۶ ۔اس سلسلہ میں آخری مشکل زمانہ کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دورحاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہو گاکہ اس کی رفتار اس سے زیادہ ہو ۔

ان سوالات کے پیش نظر چندچیزوں پر توجہ ضروری ہے:

۱ ۔ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام تر مشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔

۲ ۔اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا تھابلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعہ صورت پذیر ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے۔

زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معجزہ عقلاً محال نہیں ہونا چاہئے اور جب معجزہ بھی عقلاً ممکن ہے ، توباقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل ہوجاتے ہیں ۔جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں ، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں، اور ایسے لباس پہنے کہ جو اسے انتہائی گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ سکیں اور مشق کے ذریعہ بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ،یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعہ یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لا محدود طاقت کے ذریعہ یہ کام نہیں کرسکتا ؟

ہمیں یقین ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لئے انتہائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفرمیں در پیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے انہیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ،ہاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا، براق ؟ رفرف ؟ یا کوئی اور ؟یہ مسئلہ قدرت کاراز ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ۔ان تمام چیزوں سے قطع نظر تیز ترین رفتار کے بارے میں مذکورہ نظریہ آج کے سائنسدانوں کے درمیان متزلزل ہوچکا ہے اگر چہ آئن سٹائن اپنے مشہور نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہے۔

آج کے سائنسداں کہتے ہیں کہ امواج جاذبہ Rdvs of at f fion " " زمانے کی احتیاج کے بغیر آن واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہیں اور اپنا اثر چھوڑتی ہیں یہاں تک کہ یہ احتمال بھی ہے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے نظام موجودہیں کہ جوروشنی کی رفتارسے زیادہ تیزی سے مرکزِ جہان سے دور ہوجاتے ہیں (ہم جانتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے اور ستارے اورشمسی نظام تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں) (غور کیجئے )

مختصر یہ کہ اس سفر کے لئے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نہیں ہے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں کہ واقعہ معراج کو عقلی طورپر محال سمجھا جائے ،اس راستہ میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے جو وسائل درکار ہیں وہ موجود ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے ۔بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالہ سے ناممکن ہے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے ، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ ہونے کو سب قبول کرتے ہیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہئے۔(۱) (۲)

____________________

(۱)معراج ، شق القمر اور دونوں قطبوں میں عبادت کے سلسلہ میں ہماری کتاب ”ہمہ می خو اہند بدا نند“ میں رجو ع فر مائیں

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷

۳۲ ۔کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟

بہت سے لوگ جب عصمت انبیاء کی بحث کا مطالعہ کرتے ہیں تو فوراً ان کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مقام عصمت ایک الٰہی عطیہ ہے جو انبیاء اور ائمہ (علیہم السلام) کو لازمی طور پر دیا جاتا ہے، اور جس کو یہ خدا داد نعمت مل جاتی ہے تو وہ گناہ اور خطاؤں سے محفوظ ہوجاتا ہے، لہٰذا ان کا معصوم ہونا کوئی فضیلت اور قابل افتخار نہیں ہوگا، جو شخص بھی اس الٰہی نعمت سے بہرہ مند ہوجائے تو وہ (خود بخود) تمام گناہوں اور خطاؤں سے پرہیز کرے گا ، اور یہ اللہ کی طرف سے جبری طورپر ہے۔

لہٰذا مقامِ عصمت کے ہوتے ہوئے گناہ اور خطا کا مرتکب ہونا محال ہے، جبکہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ”محال کو چھوڑ دینا“ کوئی فضیلت نہیںہوتی، مثال کے طور پر اگر ہم سو سال بعد پیدا ہونے والے یا سو سال پہلے گزرنے والوں پر ظلم و ستم نہیں کرسکتے،تو یہ ہمارے لئے کوئی باعث افتخار نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا ہمارے امکان سے باہر ہے!!

مذ کورہ اعتراض اگرچہ ”عصمت انبیاء“ پر نہیں ہے بلکہ عصمت کی فضیلت گھٹانے کے لئے ہے، لیکن پھر بھی درج ذیل چند نکات پر توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجائے گا۔

۱ ۔ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں، ان کی توجہ ”عصمت انبیاء“ پر نہیں ہوتی، بلکہ ان لوگوں کا گمان ہے کہ مقام عصمت ، بیماریوں کے مقابلہ میں بچاؤ کی طرح ہے، جیسا کہ بعض بیماریوں سے بچنے کے لئے ٹیکے لگائے جاتے ہیں، جن کی بنا پر وہ بیماریاں نہیں آتیں۔

لیکن معصومین میں گناہ کے مقابل یہ تحفظ ان کی معرفت ،علم اور تقویٰ کی بنیاد پر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہم بعض چیزوں کا علم رکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ کام بُرا ہے، مثلاً ہم کبھی بھی بالکل برہنہ ہوکر گلی کوچوں میں نہیں گھومتے، اسی طرح جو شخص نشہ آور چیزوں کے استعمال کے نقصان کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے کہ اس سے انسان آہستہ آہستہ موت کی آغوش میں چلاجاتاہے؛ وہ اس کے قریب تک نہیں جاتا، یقینا اس طرح نشہ آور چیزوں کو ترک کرنا انسان کے لئے فضیلت اور کمال ہے، لیکن اس میں کسی طرح کا کوئی جبری پہلو نہیں ہے، کیونکہ انسان نشہ آورچیزوں کے استعمال میں آزاد ہے۔

اسی وجہ سے ہم کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں میں تعلیم و تربیت کے ذریعہ علم ومعرفت اور تقویٰ کی سطح کو بلند کریں تاکہ ان کو بڑے بڑے گناہوں اوربرے اعمال کے ارتکاب سے بچالیں۔

جو لوگ اس تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں بعض بُرے اعمال کو ترک کرتے ہوئے نظر آئیں تو کیا ان کے لئے یہ فضیلت اور افتخارکا مقام نہیں ہے؟!

دوسرے الفاظ میں یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ انبیاء کے لئے یہ ”محالِ عادّی“ ہے ”محالِ عقلی“ نہیں ، کیونکہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ”محال عادّی“ انسان کے اختیار میں ہوتا ہے، ”محال عادّی“ کی مثال اس طرح تصور کریں کہ ایک عالم اور مومن مسجد میں شراب لے جاسکتا ہے اور نماز جماعت کے دوران شراب پی سکتا ہے،( لیکن عادتاً مومن افراد اس طرح نہیں کرتے) یہ محال عقلی نہیں بلکہ ”محال عادّی“ ہے۔

مختصر یہ کہ انبیاء علیہم السلام چونکہ معرفت و ایمان کے بلند درجہ پر فائز ہوتے ہیں جو خود ایک عظیم فضیلت اور افتخار ہے، جو دوسری فضیلت اور افتخار کا سبب ہوتے ہیں اسی فضیلت کو عصمت کہتے ہیں۔(غور فرمائیے گا)

اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایمان اور معرفت کہاں سے آئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عظیم ایمان اور معرفت خداوندعالم کی امداد سے حاصل ہوئی ہے، لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ خداوندعالم کی امداد بے حساب و کتاب نہیں ہے، بلکہ ان میں ایسی لیاقت اور صلاحیت موجود تھی ، جیسا کہ قرآن مجید حضرت ابراہیم خلیل خدا کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ جب تک انھوں نے الٰہی امتحان نہ دے لیا تو ان کو لوگوں کا امام قرار نہیں دیا گیا، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ ابْتَلَی إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ) (۱)

یعنی جناب ابراہیم علیہ السلام اپنے ارادہ و اختیار سے ان مراحل کو طے کرنے کے بعد عظیم الٰہی نعمت سے سرفراز ہوئے۔

اسی طرح جناب یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ” جس وقت وہ بلوغ اور طاقت نیز جسم و جان کے تکامل و ترقی تک پہنچے (اور وحی قبول کرنے کے لئے تیار ہوگئے) تو ہم نے ان کو علم و حکمت عنایت فرمایا اور اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں“

( وَلَمَّا بَلَغَ اٴَشُدَّهُ آتَیْنَاهُ حُکْمًا وَعِلْمًا وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ) (۲)

آیت کا یہ حصہ( َکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ) ہماری بات پربہترین دلیل ہے کیونکہ اس میں ارشاد ہوتا ہے کہ (جناب) یوسف کے نیک اور شائستہ اعمال کی وجہ سے ان کو خدا کی عظیم نعمت حاصل ہوئی۔

اسی طرح جناب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جو اسی حقیقت کو واضح کرتے ہیں، ارشاد خداوندی ہوتا ہے: ” ہم نے بارہا تمہارا امتحان لیا ہے، اور تم نے برسوں اہل ”مدین“ کے یہاں قیام کیا ہے (اور ضروری تیار ی کے بعد امتحانات کی بھٹی سے سرفراز اور کامیاب نکل آئے) تو آپ کو بلند مقام اور درجات حاصل ہوئے:

( وَفَتَنَّاکَ فُتُونًا فَلَبِثْتَ سِنِینَ فِی اٴَهْلِ مَدْیَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَی قَدَرٍ یَامُوسَی ) (۳)(۴) ”اور تمہارا باقاعدہ امتحان لیا پھر تم اہل مدین میں کئی برس تک رہے اس کے بعد تم ایک منزل پر آگئے اے موسیٰ“۔

یہ بات معلوم ہے کہ ان عظیم الشان انبیا ء میں استعداد اور صلاحیت پائی جاتی تھی لیکن ان کو بروئے کار لانے کے لئے کوئی جبری پہلو نہیں تھا، بلکہ اپنے ارادے و اختیار سے اس راستہ کو طے کیا ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں بہت سی صلاحیت اور لیاقت پائی جاتی ہیں لیکن ان سے استفادہ نہیں کرتے، یہ ایک طرف ۔

دوسری طرف اگر انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی عنایات حاصل ہوئی ہیں تو ان کے مقابل ان کی ذمہ داریاں بھی سخت تر ہیں، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ خداوندعالم جس مقدار میں انسان کو ذمہ داری دیتا ہے اسی لحاظ سے اسے طاقت بھی دیتا ہے، اور پھر اس ذمہ داری کے نبھانے پر امتحان لیتا ہے۔

۲ ۔ اس سوال کا ایک دوسرا جواب بھی دیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ فرض کیجئے کہ انبیاء علیہم السلام خدا کی جبری امداد کی بنا پرہر طرح کے گناہ اور خطا سے محفوظ رہتے ہیں تاکہ عوام الناس کے اطمینان میں مزید اضافہ ہوجائے، اور یہ چیز ان کے لئے چراغ ہدایت بن جائے، لیکن ”ترک اولیٰ“ کا احتمال باقی رہتا ہے، یعنی ایسا کام جو گناہ نہیں ہے لیکن انبیاء علیہم السلام کی شان کے مطابق نہیں ہے۔

رسالت حاصل کرنے کے لئے جو زمانہ معین کیا گیا تھا اس کے معنی کئے گئے ہیں

انبیاء کا افتخار یہ ہے کہ ان سے ترک اولیٰ تک نہیں ہوتا، اور یہ ان کے لئے ایک اختیاری چیزہے، اور اگر بعض انبیاء علیہم السلام سے بہت ہی کم ترک اولیٰ ہوا ہے تو اسی لحاظ سے مصائب و بلا میں گرفتار ہوئے ہیں، تو اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوگی کہ وہ اطاعت الٰہی میں کوئی ترک اولیٰ بھی نہیں کرتے۔

اس بنا پر انبیاء علیہم السلام کے لئے با عث افتخارہے کہ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے مقابل ذمہ داری بھی زیاہ ہوتی ہے اور ترک اولیٰ کے قریب تک نہیں جاتے، اور اگر بعض موارد میں ترک اولیٰ ہوتا ہے تو فوراً اس کی تلافی کردیتے ہیں۔(۵)

____________________

(۱) سورہ بقرہ ، آیت۱۲۴ (۲) سورہ یوسف ، آیت۲۲

(۳)سورہ طہ ، آیت۴۰

۴) جملہ < ثُمَّ جِئْتَ عَلَی قَدَرٍ یَامُوسَی ٰ> سے کبھی وحی کے قبول کرنے کی لیاقت اور صلاحیت کے معنی لئے گئے ہیں اور کبھی

(۵) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۱۹۳

۳۳ ۔ جادوگروں اور ریاضت کرنے والوں کے عجیب وغریب کاموں اور معجزہ میں کیا فرق ہے؟

۱ ۔ معجزات ، خداداد طاقت کے بل بوتہ پر ہوتے ہیں۔

جبکہ جادوگری اور ان کے غیر معمولی کارنامے انسانی طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں، لہٰذا معجزات بہت ہی عظیم اور نامحدود ہوتے ہیں، جبکہ جادوگروں کے کارنامے محدود ہوتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں : جادوگر فقط وہی کام انجام دے سکتے ہیں جن کی انھوں نے تمرین کی ہے، اور اس کام کے انجام دینے کے لئے کافی آمادگی رکھتے ہوں، اگر ان سے کو ئی دوسرا کام انجام دینے کے لئے کہا جائے تو وہ کبھی نہیں کرسکتے، اب تک آپ نے کسی ایسے جادوگر اور ریاضت کرنے والے کو نہیں دیکھا ہوگا کہ جو یہ کہتا ہوا نظر آئے کہ جو کچھ بھی تم چاہو میں اس کوکر دکھاؤں گا، کیونکہ جادوگروں کو کسی خاص کام میں مہارت اور آگاہی ہوتی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ انبیاء علیہم السلام لوگوں کی درخواست کے بغیر خود اپنے طور پر بھی معجزہ پیش کرتے تھے (جیسے پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کریم پیش کیا، جناب موسیٰ علیہ السلام نے عصا کو اژدہا بنادیا، اور آپ کا معجزہ ”ید بیضا“ اسی طرح جناب عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کا زندہ کرنا) لیکن جس وقت ان کی امت ایک نئے معجزہ کی فرمائش کرتی تھی جیسے ”شق القمر“ یا فرعونیوں سے بلاؤں کا دور ہونا، یا حواریوں کے لئے آسمان سے غذائیں نازل ہونا وغیرہ، تو انبیاء علیہم السلام ہرگز اس سے ممانعت نہیں کرتے تھے (البتہ اس شرط کے ساتھ کہ ان کی فرمائش حقیقت کی تلاش کے لئے ہو ،نہ صرف بہانہ بازی کے لئے)

لہٰذا جناب موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ملتا ہے کہ فرعونیوں نے ایک طولانی مدت کی مہلت مانگی تاکہ تمام جادوگروں کو جمع کرسکیں، اور پروگرام کے تمام مقدمات فراہم کرلیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَاٴَجْمِعُوا کَیْدَکُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا ) (۱) ”لہٰذا تم لوگ اپنی تدبیروں کو جمع کرو اور صف باندھ کر اس کے مقابلہ میں آجاؤ“۔

اپنی تمام طاقت و توانائی کو جمع کرلیں اور اس سے استفادہ کریں، جبکہ جناب موسیٰ علیہ السلام کو ان مقدمات کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اور ان تمام جادوگروں سے مقابلہ کرنے کے لئے کسی طرح کی کوئی مہلت نہ مانگی، چونکہ وہ قدرت خدا پر بھروسہ کئے ہوئے تھے، اور جادوگر انسانی محدود طاقت کے بل پر یہ کام انجام دینا چاہتے تھے۔

اسی وجہ سے انسان کے غیر معمولی کام کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے یعنی اس کی طرح کوئی دوسرا شخص بھی اس کام کو انجام دے سکتا ہے، اسی وجہ سے کوئی بھی جادوگر یہ چیلنج نہیں کرسکتا کہ کوئی دوسرا مجھ جیسا کام انجام نہیں دے سکتا، جبکہ (معصوم کے علاوہ) کوئی دوسرا شخص (انسانی طاقت سے)معجزہ نہیں دکھاسکتا، لہٰذا اس میں ہمیشہ چیلنج ہوتا ہے ، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام جن و انس مل کر قرآن کے مثل لانا چاہیں تو نہیں لاسکتے!

یہی وجہ ہے کہ جب انسان کے غیر معمولی کارنامے، معجزہ کے مقابل آتے ہیں تو بہت ہی جلد مغلوب ہوجاتے ہیں اور جادو کبھی بھی معجزہ کے مقابل نہیں آسکتا، جس طرح کوئی بھی انسان خداوندعالم سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔

چنا نچہ نمونہ کے طور پر قرآن مجید میں جناب موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ فرعون نے مصر کے تمام شہروں سے جادوگروں کو جمع کیا اور مدتوں اس کے مقدمات فراہم کرتا رہا تاکہ اپنے پروگرام کو صحیح طور پر چلا سکے لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کے سامنے چشم زدن میں مغلوب ہو گیا۔

۲ ۔ معجزات چونکہ خداوندعالم کی طرف سے ہوتے ہیں لہٰذا خاص تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ جادوگرمدتوں سیکھتے ہیں اوربہت زیادہ تمرین کرتے ہیں،اس طرح سے کہ اگر شاگرد نے استاد کی تعلیمات کو خوب اچھے طریقہ سے حاصل نہ کیاہوتو ممکن ہے کہ لوگوں کے سامنے صحیح طور پر کارنامہ نہ دکھاسکے، جس کے نتیجہ میں وہ ذلیل ہوجائے، لیکن معجزہ کسی بھی وقت بغیر کسی مقدمہ کے دکھا یا جا سکتا ہے جبکہ غیر معمولی کارنامے آہستہ آہستہ مختلف مہارتوں کے ذریعہ انجام دئے جاتے ہیں یعنی کبھی بھی اچانک انجام نہیں پاتے۔

جناب موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا کہ فرعون نے جادوگروں پر الزام لگایا کہ موسیٰ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں سحر اور جادو سکھایا ہے:

( إِنَّهُ لَکَبِیرُکُمْ الَّذِی عَلَّمَکُمْ السِّحْر ) (۲) اسی وجہ سے جادوگر اپنے شاگردوں کو مہینوں یا برسوں سکھاتے ہیں اور ان کے ساتھ تمرین کرتے ہیں۔

۳ ۔ معجزنما کے اوصاف خود ان کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے۔

سحر و جادو اور معجزہ کی پہچان کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صاحب معجزہ اور جادوگروں کے صفات کو دیکھا جاتا ہے، کیونکہ معجزہ دکھانے والا خدا کی طرف سے لوگوں کی ہدایت پر مامور ہوتا ہے لہٰذا اسی لحاظ سے اس میں صفات پائے جاتے ہیں، جبکہ ساحراور جادوگراور ریاضت کرنے والے نہ تو لوگوں کی ہدایت پر مامور ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا یہ مقصد ہو تا ہے ، درج ذیل چیزیں ان کا مقصد ہوا کر تی ہیں:

۱ ۔ سادہ لوح لوگوں کو غافل کرنا۔

۲ ۔ عوام الناس کے درمیان شہرت حاصل کرنا۔

۳ ۔ لوگوں کو تماشا دکھا کر کسب معاش کرنا۔

جب انبیاء علیہم السلام اور جادوگر میدان عمل میں آتے ہیں تو طولانی مدت تک اپنے مقاصد کو مخفی نہیں رکھ سکتے، جیسا کہ فرعون نے جن جادوگروں کو جمع کیا تھا انھوں نے اپنا کارنامہ دکھانے سے پہلے فرعون سے انعام حا صل کرنے کی درخواست کی اور فرعون نے بھی ان سے اہم انعام کا وعدہ دیا:

( قَالُوا إِنَّ لَنَا لَاٴَجْرًا إِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ # قَالَ نَعَمْ وَإِنَّکُمْ لَمِنْ الْمُقَرَّبِینَ ) (۳)

(جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوگئے اور) انھوں نے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہمیں اس کی اجرت ملے گی؟ فرعون نے کہا بے شک تم میرے دربار میں مقرب ہوجاؤ گے“۔

جبکہ انبیاء علیہم السلام نے اس بات کا بارہا اعلان کیا ہے:

( وَمَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اٴَجْرٍ ) (۴)

”ہم تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتے“۔

((قارئین کرام!) ذکورہ آیت قرآن مجید میں متعدد انبیاء کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے۔)

اصولی طور پر اگر جادوگروں کو فرعون جیسے ظالم و جابر کی خدمت میں دیکھا جا ئے تو ”جادو“ اور ”معجزہ“ کی پہچان کے لئے کافی ہے۔

یہ بات کہے بغیر ہی واضح ہے کہ انسان اپنے افکار کو مخفی رکھنے میں خواہ کتنا ہی ماہر ہو پھر بھی اس کے اعمال و کردار سے اس کا حقیقی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ان جیسے لوگوں کی سوانح عمری اور ان کے غیر معمولی کارناموں کو انجام دینے کے طریقہ کار ، اسی طرح مختلف اجتماعی امور میں ان کی یکسوئی اور ان کی رفتار و گفتار اور ان کا اخلاق ”سحر و جادو“ اور ”معجزہ“ میں تمیز کرنے کے لئے بہترین رہنما ہے، اور گزشتہ بحث میں بیان کئے ہوئے فرق کے علاوہ یہ راستہ بہت آسان ہے جس سے انسان سحرو جادو اور معجزہ کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔

قرآن مجید نے بہت دقیق و عمیق الفاظ کے ساتھ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ مُوسَیٰ مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللهَ سَیُبْطِلُهُ إِنَّ اللهَ لایُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ ) (۵)

”پھر جب ان لوگوں نے رسیوں کو ڈال دیا تو موسیٰ نے کہا کہ جو کچھ تم لے آئے ہو یہ جادو ہے اور اللہ اس کو بے کار کردے گا کہ وہ مفسدین کے عمل کو درست نہیں ہونے دیتا“۔

جی ہاں جادو گر،مفسد ہوتے ہیں اور ان کے اعمال باطل ہوتے ہیں، اور ان کے اس کام کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح نہیں کی جاسکتی۔

ایک دوسرے مقام پر خداوند عالم نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے خطاب فرمایا:( لاَتَخَفْ إِنَّکَ اٴَنْتَ الْاٴَعْلیٰ ) (۶) ”(ہم نے کہا کہ) موسیٰ ڈرو نہیں تم بہر حال غالب رہنے والے ہو“۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

( وَاٴَلْقِ مَا فِی یَمِینِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا کَیْدُ سَاحِرٍ وَلاَیُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اٴَتَیٰ ) (۷)

” اور جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اُسے ڈال دو یہ ان کے سارے کئے دھرے کو چن لے گا، ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے وہ صرف جادوگر کی چال ہے اور بس،اور جادوگر جہاں بھی جائے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا “۔

جی ہاں جادوگر چا ل بازی اور دھوکہ دھڑی سے کام لیتے ہیں اور طبیعی طور پر یہی مزاج رکھتے ہیں، یہ لوگ دھوکہ دھڑی کرتے رہتے ہیں ان کے صفات اور کارناموں کو دیکھ کر بہت ہی جلد ان کو پہچانا جاسکتا ہے، جبکہ انبیاء علیہم السلام کا اخلاص، صداقت او رپاکیزگی ان کے لئے ایک سند ہے جو معجزہ کے ساتھ مزید ہدایت گر ثابت ہوتی ہے۔(۸)

____________________

(۱) سورہ طہ ، آیت۶۴

(۲) سورہ طہ ، آیت۷۱

(۳) سورہ اعراف ، آیت۱۱۳۔ ۱۱۴ (۴)سورہ شعراء ، آیت۱۰۹

(۵) سورہ یونس ، آیت۸۱

(۶) سورہ طہ ، آیت۶۸

(۶)سورہ طہ ، آیت۶۹

(۸) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۲۸۸