مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مرج البحرین فی مناقب الحسنین 0%

مرج البحرین فی مناقب الحسنین مؤلف:
زمرہ جات: امام حسن(علیہ السلام)

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
زمرہ جات: مشاہدے: 7250
ڈاؤنلوڈ: 2665

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7250 / ڈاؤنلوڈ: 2665
سائز سائز سائز
مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

فصل : ۱

تسمية النبي صلي الله عليه وآله وسلم الحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے شہزادوں کا نام حسن و حسین علیہما السلام رکھنا)

۱. عن علی رضی الله عنه قال : لما ولد حسن سماه حمزة، فلما ولد حسين سماه بإسم عمه جعفر. قال : فدعاني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و قال : إني اُمرت أن أغير إسم هٰذين. فقلت : أﷲ و رسوله أعلم، فسماهما حسنا و حسيناً.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حسن پیدا ہوا تو اس کا نام حمزہ رکھا اور جب حسین پیدا ہوا تو اس کا نام اس کے چچا کے نام پر جعفر رکھا. (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا کر فرمایا : مجھے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے عرض کیا : اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے نام حسن و حسین رکھے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۵۹

۲. ابو يعلي، المسند، ۱ : ۳۸۴، رقم : ۴۹۸

۳. حاکم، المستدرک، ۴ : ۳۰۸، رقم : ۷۷۳۴

۴. مقدسي، الاحاديث المختاره، ۲ : ۳۵۲، رقم : ۷۳۴

۵. هيثمي، مجمع الزوائد، ۸ : ۵۲

۶. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۷ : ۱۱۶

۷. ذهبي، سير أعلام النبلاء، ۳ : ۲۴۷

۸. مزي، تهذيب الکمال، ۶ : ۳۹۹، رقم : ۱۳۲۳

۲. عن سلمان رضي الله عنه قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : سميتهما يعني الحسن والحسين باسم ابني هارون شبرا و شبيرا.

’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ان دونوں یعنی حسن اور حسین کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۶ : ۲۶۳، رقم : ۶۱۶۸

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۸ : ۵۲

۳. ديلمي، الفردوس، ۲ : ۳۳۹، رقم : ۳۵۳۳

۴. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، ۲ : ۵۶۳

۳. عن سالم رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : اني سميت ابني هذين حسن و حسين بأسماء ابني هارون شبر و شبير.

’’حضرت سالم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے ان دونوں بیٹوں حسن اور حسین کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۷۷۴، رقم : ۱۳۶۷

۲. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۷۹، رقم : ۳۲۱۸۵

۳. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۹۷، رقم : ۲۷۷۷

۴. عن عکرمة قال : لما ولدت فاطمة الحسن بن علی جاء ت به الی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فسماه حسنا، فلما ولدت حسينا جاء ت به الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقالت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! هذا أحسن من هذا تعني حسينا فشق له من اسمه فسماه حسينا.

’’حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے ہاں حسن بن علی علیہما السلام کی ولادت ہوئی تو وہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا اور جب حسین کی ولادت ہوئی تو انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لا کر عرض کیا! یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! یہ (حسین) اس (حسن) سے زیادہ خوبصورت ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے نام سے اخذ کرکے اُس کا نام حسین رکھا.‘‘

۱. عبدالرزاق، المصنف، ۴ : ۳۳۵، رقم : ۷۹۸۱

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۴ : ۱۱۹

۳. ذهبي، سير أعلام النبلا، ۳ : ۴۸

۴. مزي، تهذيب الکمال، ۶ : ۲۲۴

۵. عن جعفر بن محمد عن ابيه أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اشتق اسم حسين من حسن و سمي حسنا و حسينا يوم سابعهما.

’’حضرت جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین کا نام حسن سے اخذ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کے نام حسن اور حسین علیہما السلام ان کی پیدائش کے ساتویں دن رکھے۔

۱. محب طبري، ذخائر العقبیٰ، ۱ : ۱۱۹

۲. دولابی، الذرية الطاهره، ۱ : ۸۵، رقم : ۱۴۶

۶. عن علی بن ابی طالب رضی الله عنه قال : لما ولدت فاطمة الحسن جاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا فقال : بل هو حسن فلما ولدت الحسين جاء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا قال : بل هو حسين ثم لما ولدت الثالث جاء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : أروني ابني ما سميتموه؟ قلت : سميته حربا. قال : بل هو محسن. ثم قال : إنما سميتهم بإسم ولد هارون شبر و شبير و مشبر.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب فاطمہ کے ہاں حسن کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسن ہے پھر جب حسین کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسین ہے۔ پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ اس کا نام محسن ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : میں نے ان کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۰، رقم : ۴۷۷۳

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۱۸، رقم : ۹۳۵

۳. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۱۰، رقم : ۶۹۸۵

۴. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۹۶، رقم : ۲۷۷۳، ۲۷۷۴

۵. هيثمي، مجمع الزوائد، ۸ : ۵۲

۶. عسقلاني، الاصابه، ۶ : ۲۴۳، رقم : ۸۲۹۶

عسقلانی نے اس کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

۷. بخاری، الادب المفرد، ۱ : ۲۸۶، رقم : ۸۲۳

فصل : ۲

الحسن والحسين من أسماء الجنة حجبهما اﷲ

(حسن اور حسین جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے حجاب میں رکھا)

۷. عن المفضل قال : إن اﷲ حجب اسم الحسن والحسين حتي سمي بهما النبي صلي الله عليه وآله وسلم ابنيه الحسن والحسين.

’’مفضل سے روایت ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔‘‘

۱. نبهاني، الشرف المؤبد : ۴۲۴

۲. نووي، تهذيب الأسماء، ۱ : ۱۶۲، رقم : ۱۱۸

۳. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، ۲ : ۱۳

۸. عن عمران بن سليمان قال : الحسن و الحسين اسمان من أسماء أهل الجنة لم يکونا في الجاهلية.

’’عمران بن سلیمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جو کہ دورِ جاہلیت میں پہلے کبھی نہیں رکھے گئے تھے۔‘‘

۱. دولابي، الذرية الطاهره، ۱ : ۶۸، رقم : ۹۹

۲. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه : ۱۹۲

۳. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، ۲ : ۲۵

۴. مناوي، فيض القدير، ۱ : ۱۰۵

فصل : ۳

قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : الحسن والحسين هما أبناي

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسنین کریمین علیہما السلام میرے بیٹے ہیں)

۹. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أخذ بيد الحسن والحسين و يقول : هذان أبناي.

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ میرے بیٹے ہیں۔‘‘

۱. ذهبي، سير أعلام النبلاء، ۳ : ۲۸۴

۲. ديلمي، الفردوس، ۴ : ۳۳۶، رقم : ۶۹۷۳

۳. ابن جوزي، صفوة الصفوه، ۱ : ۷۶۳

۴. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۲۴

۱۰. عن فاطمة سلام اﷲ عليها قالت : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أتاها يوما. فقال : أين ابناي؟ فقالت : ذهب بهما علي، فتوجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فوجدهما يلعبان في مشربة و بين أيدهما فضل من تمر. فقال : يا علیّ! ألا تقلب ابني قبل الحر.

’’سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا : میرے بیٹے کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا : علی رضی اللہ عنہ ان کو ساتھ لے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تلاش میں متوجہ ہوئے تو انہیں پانی پینے کی جگہ پر کھیلتے ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچھ کھجوریں بچی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! خیال رکھنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے پہلے واپس لے آنا۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۰، رقم : ۴۷۷۴

۲. دولابي، الذرية الطاهره، ۱ : ۱۰۴، رقم : ۱۹۳

۱۱. عن المسيب بن نجبة قال : قال علیّ بن أبي طالب : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : إن کل نبي اعطي سبعة نجباء أو نقباء، و أعطيت أنا أربعة عشر. قلنا : من هم؟ قال : أنا و أبناي و جعفر و حمزة و أبوبکر و عمر و مصعب بن عمير و بلال و سلمان والمقداد و حذيفة و عمار و عبد اﷲ بن مسعود.

’’مسیب بن نجبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کو سات نجیب یا نقیب عطا کئے گئے جبکہ مجھے چودہ عطا کئے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ کون ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بتایا : میں، میرے دونوں بیٹے، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، مقداد، حذیفہ، عمار اور عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنھم۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۶ : ۱۲۳، کتاب المناقب، رقم : ۳۷۸۵

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۴۲، رقم : ۱۲۰۵

۳. شيباني، الآحاد والمثاني، ۱ : ۱۸۹، رقم : ۲۴۴

۴. طبراني، المعجم الکبير، ۶ : ۲۱۵، رقم : ۶۰۴۷

۵. ابن موسي، معتصر المختصر، ۲ : ۳۱۴

۶. طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۱ : ۲۲۵، رقم : ۷، ۸

۷. ابن عبدالبر، الاستيعاب في معرفة الاصحاب، ۳ : ۱۱۴۰

۸. حلبي، السيرة الحلبيه، ۳ : ۳۹۰

۹. ابن احمد خطيب، وسيلة الاسلام، ۱ : ۷۷

۱۲. عن علی رضی الله عنه قال : ان اﷲ جعل لکل نبی سبعة نجباء و جعل لنبينا أربعة عشر، منهم : أبوبکر و عمر و علیّ و الحسن والحسين و حمزة و جعفر و أبوذر و عبداﷲ بن مسعود و المقداد و عمار و سلمان و حذيفة و بلال.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کے سات نجباء بنائے جبکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چودہ نجیب عطا کئے۔ ان میں ابوبکر، عمر، علی، حسن، حسین، حمزہ، جعفر، ابوذر، عبداﷲ بن مسعود، مقداد، عمار، سلمان، حذیفہ اور بلال رضی اللہ عنھم شامل ہیں۔‘‘

۱. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۱۲ : ۴۸۴، رقم : ۶۹۵۷

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۱ : ۲۲۸، رقم : ۲۷۶

۳. دارقطني، العلل، ۳ : ۲۶۲، رقم : ۳۹۵

۴. ابن جوزي، العلل المتناهية، ۱ : ۲۸۲، رقم : ۴۵۵

فصل : ۴

الحسن و الحسين عليهما السلام أهل البيت

(حسنین کریمین علیہما السلام اہل بیت ہیں)

۱۳. عن أم سلمة رضی اﷲ عنها أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جمع فاطمة و حسنا و حسينا ثم أدخلهم تحت ثوبه ثم قال : اللهم هؤلاء أهل بيتي.

’’ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ سلام اﷲ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۵۳، رقم : ۲۶۶۳

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۲۳ : ۳۰۸، رقم : ۶۹۶

۳. ابن موسیٰ، معتصر المختصر، ۲ : ۲۶۶

۴. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۵۸، رقم : ۴۷۰۵

۵. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، ۲۲ : ۸

۶. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۴۸۶

۱۴. عن سعد بن ابي وقاص رضی اﷲ عنه قال : لما نزلت هذه الاية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ) دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : عليا و فاطمة و حسنا و حسينا فقال : اللهم هؤلاء اهلي.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘

۱. مسلم، الصحيح، ۴ : ۱۸۷۱، کتاب فضائل الصحابه، رقم : ۲۴۰۴

۲. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۲۲۵، کتاب تفسير القرآن، رقم : ۲۹۹۹

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۸۵، رقم : ۱۶۰۸

۴. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۶۳، رقم : ۴۷۱۹

۵. بيهقي، السنن الکبریٰ، ۷ : ۶۳، رقم : ۱۳۱۷۰

۶. دورقي، مسند سعد، ۱ : ۵۱، رقم : ۱۹

۷. محب طبري، ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۲۵

۱۵. عن ابي سعيد الخدري رضی اﷲ عنه في قوله (اِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ) قال : نزلت في خمسة في رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة والحسن والحسين.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان ’’اے نبی کے گھر والو! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : یہ آیت مبارکہ ان پانچ ہستیوں کے بارے میں نازل ہوئی : حضور نبی اکرم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام۔‘‘

(۱۵) ۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۳ : ۸۰، رقم : ۳۴۵۶

۲. طبراني، المعجم الصغير، ۱ : ۲۳، رقم : ۳۲۵

۳. ابن حيان، طبقات المحدثين، ۳ : ۳۸۴

۴. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۱۰ : ۲۷۸

۵. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، ۲۲ : ۶

فائدہ : انہی پانچ ہستیوں کی متذکرہ تخصیص کے باعث عامۃ المسلمین میں ’’پنج تن‘‘ کی اِصطلاح مشہور ہے۔ جو شرعاً درست ہے اس میں کوئی مبالغہ یا اعتقادی غلو ہرگز نہیں۔

فصل : ۵

النبي صلي الله عليه وآله وسلم هو عصبتهما و وليهما و أبوهما

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی حسنین کریمین علیہما السلام کا نسب، ولی اور باپ ہیں)

۱۶. عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : کل بني انثي فان عصبتهم لأبيهم ما خلا ولد فاطمة، فإني أنا عصبتهم و أنا أبوهم.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ہر عورت کے بیٹوں کی نسبت ان کے باپ کی طرف ہوتی ہے ماسوائے فاطمہ کی اولاد کے، کہ میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۴۴، رقم : ۲۶۳۱

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۲۲۴

۳. شوکاني، نيل الاوطار، ۶ : ۱۳۹

۴. صنعاني، سبل السلام، ۴ : ۹۹

اس روایت میں بشر بن مہران کو ابن حبان نے ’(الثقات، ۸ : ۱۴۰)‘ میں ثقہ شمار کیا ہے

۵. حسيني، البيان والتعريف، ۲ : ۱۴۴، رقم : ۱۳۱۴

۶. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۲۱

۱۷. عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : کل سبب و نسب منقطع يوم القيامة ما خلا سببي و نسبي کل ولد أب فان عصبتهم لأبيهم ما خلا ولد فاطمه فإني أنا ابوهم و عصبتهم.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا. ہر بیٹے کی باپ کی طرف نسبت ہوتی ہے ماسوائے اولادِ فاطمہ کے کہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۶۲۶، رقم : ۱۰۷۰

۲. حسيني، البيان والتعريف، ۲ : ۱۴۵، رقم : ۱۳۱۶

۳. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۶۹

مختصراً ی ہ روایت درج ذیل محدثین ن ے روایت کی ہے :

۴. عبدالرزاق، المصنف، ۶ : ۱۶۴، رقم : ۱۰۳۵۴

۵. بيهقي، السنن الکبریٰ، ۷ : ۶۴، رقم : ۱۳۱۷۲

۶. طبراني، المعجم الاوسط، ۶ : ۳۵۷، رقم : ۶۶۰۹

۷. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۴۴، رقم : ۲۶۳۳

۸. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۲۷۲

۱۸. عن جابر رضی اﷲ عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لکل بني أم عصبة ينتمون اليهم إلا إبني فاطمة فأنا و ليهما و عصبتهما.

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ماں کے بیٹوں کا آبائی خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۷۹، رقم : ۴۷۷۰

۲. ابو يعلیٰ، المسند، ۲ : ۱۰۹، رقم : ۶۷۴۱

۳. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۴۴، رقم : ۲۶۳۲

۴. سخاوي، استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول و ذوي الشرف : ۱۳۰

۱۹. عن فاطمة الکبري سلام اﷲ عليها قالت : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لکل بني أنثي عصبة ينتمون إليه إلا ولد فاطمة، فأنا وليهم و أنا عصبتهم.

’’سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اﷲ علیہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر عورت کے بیٹوں کا خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں ماسوائے فاطمہ کی اولاد کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۲۲ : ۴۲۳، رقم : ۱۰۴۲

۲. ابويعلیٰ، المسند، ۱۲ : ۱۰۹، رقم : ۶۷۴۱

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۲۲۴

۴. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۱۱ : ۲۸۵

۵. ديلمي، الفردوس، ۳ : ۲۶۴، رقم : ۴۷۸۷

۶. مزي، تهذيب الکمال، ۱۹ : ۴۸۳

۷. عجلوني، کشف الخفا، ۲ : ۱۵۷، رقم : ۱۹۶۸