مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مرج البحرین فی مناقب الحسنین 0%

مرج البحرین فی مناقب الحسنین مؤلف:
زمرہ جات: امام حسن(علیہ السلام)

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
زمرہ جات: مشاہدے: 7292
ڈاؤنلوڈ: 2741

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7292 / ڈاؤنلوڈ: 2741
سائز سائز سائز
مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فصل : ۶

إن الحسن و الحسين عليهما السلام خير الناس نسباً

(حسنین کریمین علیہما السلام لوگوں میں سے سب سے بہتر نسب والے ہیں)

۲۰. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أيها الناس! ألا أخبرکم بخير الناس جدا و جدة؟ ألا أخبرکم بخير الناس عما و عمة؟ ألا أخبرکم بخير الناس خالا و خالة؟ ألا أخبرکم بخير الناس أباً و أماً؟ هما الحسن و الحسين، جدهما رسول اﷲ، و جدتهما خديجة بنت خويلد، و أمهما فاطمة بنت رسول اﷲ، و أبوهما علي بن أبي طالب، و عمهما جعفر بن أبي طالب، و عمتهما أم هاني بنت أبي طالب، و خالهما القاسم بن رسول اﷲ، و خالاتهما زينب و رقية و أم کلثوم بنات رسول اﷲ، جدهما في الجنة و أبوهما في الجنة و أمهما في الجنة، و عمهما في الجنة و عمتهما في الجنة، و خالاتهما في الجنة، و هما في الجنة.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) نانا نانی کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے نہ بتاؤں جو (اپنے) چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو (اپنے) ماموں اور خالہ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) ماں باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسین ہیں، ان کے نانا اﷲ کے رسول، ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد، ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ، ان کے والد علی بن ابی طالب، ان کے چچا جعفر بن ابی طالب، ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب، ان کے ماموں قاسم بن رسول اﷲ اور ان کی خالہ رسول اﷲ کی بیٹیاں زینب، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔ ان کے نانا، والد، والدہ، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ (سب) جنت میں ہوں گے اور وہ دونوں (حسنین کریمین) بھی جنت میں ہوں گے۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۶۶، رقم : ۲۶۸۲

۲. طبراني، المعجم الاوسط، ۶ : ۲۹۸، رقم : ۶۴۶۲

۳. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۳ : ۲۲۹

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۴

۵. هندي، کنز العمال، ۱۲ : ۱۱۸، رقم : ۳۴۲۷۸

۶. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۳۰

فصل : ۷

الحسن و الحسين عليهما السلام هما ريحانتاي من الدنيا

(حسنین کریمین علیہما السلام ہی میرے گلشن دُنیا کے پھول ہیں)

۲۱. عن ابن ابي نعم : سمعت عبداﷲ ابن عمر رضي اﷲ عنهما و سأله عن المحرم، قال شعبة : أحسبه بقتل الذباب، فقال : أهل العراق يسألون عن الذباب و قد قتلوا ابن ابنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : هما ريحا نتاي من الدنيا.

’’ابن ابونعم فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے حالت احرام کے متعلق دریافت کیا۔ شعبہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں (محرم کے) مکھی مارنے کے بارے میں پوچھا تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : اہل عراق مکھی مارنے کا حکم پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے (حسین) کو شہید کر دیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : وہ دونوں (حسن و حسین علیہما السلام) ہی تو میرے گلشن دُنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘

۱. بخاري، الصحيح، ۳ : ۱۳۷۱، کتاب فضائل الصحابه، رقم : ۳۵۴۳

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۸۵، رقم : ۵۵۶۸

۳. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۲۵، رقم : ۶۹۶۹

۴. طيالسي، المسند، ۱ : ۲۶۰، رقم : ۱۹۲۷

۵. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، ۵ : ۷۰

۶. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، ۷ : ۱۶۸

۷. بيهقي، المدخل، ۱ : ۵۴، رقم : ۱۲۹

۲۲. عن عبدالرحمن بن ابی نعم : أن رجلا من أهل العراق سأل ابن عمر رضي اﷲ عنهما عن دم البعوض يصيب الثوب؟ فقال ابن عمر رضي اﷲ عنهما : انظروا إلي هذا يسأل عن دم البعوض و قد قتلوا ابن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ان الحسن و الحسين هما ريحانتي من الدنيا.

’’حضرت عبدالرحمن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ ایک عراقی نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے پوچھا کہ کپڑے پر مچھر کا خون لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : اس کی طرف دیکھو، مچھر کے خون کا مسئلہ پوچھتا ہے حالانکہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے (حسینں) کو شہید کیا ہے اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : حسن اور حسین ہی تو میرے گلشن دُنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۶۵۷، ابواب المناقب، رقم : ۳۷۷۰

۲. بخاري، الصحيح، ۵ : ۲۲۳۴، کتاب الادب، رقم : ۵۶۴۸

۳. نسائي، السنن الکبریٰ، ۵ : ۵۰، رقم : ۸۵۳۰

۴. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۹۳، رقم : ۵۶۷۵

۵. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۱۱۴، رقم : ۵۹۴۰

۶. ابو يعلیٰ، المسند، ۱۰ : ۱۰۶، رقم : ۵۷۳۹

۷. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۱۲۷، رقم : ۲۸۸۴

۸. حکمي، معارج القبول، ۳ : ۱۲۰۱

۲۳. عن أبي أيوب الأنصاري رضی اﷲ عنه قال : دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والحسن والحسين عليهما السلام يلعبان بين يديه أو في حجره، فقلت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم أتحبهما؟ فقال : و کيف لا أحبهما وهما ريحانتي من الدنيا أشمهما.

’’حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یا گود میں کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ میرے گلشن دُنیا کے یہی تو دو پھول ہیں جن کی مہک کو سونگھتا رہتا ہوں (اُنہی پھولوں کی خوشبو سے کیف و سرور پاتا ہوں)۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۴ : ۱۵۵، رقم : ۳۹۹۰

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۱

۳. عسقلاني، فتح الباري، ۷ : ۹۹

۴. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، ۶ : ۳۲

۵. ذهبي، سير أعلام النبلاء، ۳ : ۲۸۲

فصل : ۸

تأذين النبي صلي الله عليه وآله وسلم في أُذن الحسن والحسين عليهما السلام

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام کے کانوں میں اَذان کہنا)

۲۴. عن أبي رافع رضي الله عنه : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم أذن في أذن الحسن والحسين عليهما السلام حين ولدا.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حسن اور حسین پیدا ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان کے کانوں میں اذان دی۔‘‘

۱. روياني، المسند، ۱ : ۴۲۹، رقم : ۷۰۸

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۱ : ۳۱۳، رقم : ۹۲۶

۳. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۳۱، رقم : ۲۵۷۹

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۶۰

۵. ابن ملقن انصاري، خلاصة البدر المنير، ۲ : ۳۹۲، رقم : ۲۷۱۳

۶. شوکاني، نيل الاوطار، ۵ : ۲۳۰

۷. صنعاني، سبل السلام، ۴ : ۱۰۰

۲۵. عن ابي رافع رضي الله عنه قال : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اذن في اذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کے ہاں حسن بن علی کی ولادت ہونے پر ان کے کانوں میں نماز والی اذان دی۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۴ : ۹۷، کتاب الاضاحي، رقم : ۱۵۱۴

۲. ابوداؤد، السنن، ۴ : ۳۲۸، کتاب الادب، رقم : ۵۱۰۵

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۶ : ۳۹۱

۴. روياني، المسند، ۱ : ۴۵۵، رقم : ۶۸۲

۵. طبراني، المعجم الکبير، ۱ : ۳۱۵، رقم : ۹۳۱

۶. عبدالرزاق، المصنف، ۴ : ۳۳۶، رقم : ۷۹۸۶

۷. بيهقي، السنن الکبریٰ، ۹ : ۳۰۵

۲۶. عن ابي رافع رضي الله عنه قال : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اذن في اذن الحسين حين ولدته فاطمة. هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ کے ہاں حسین کی ولادت پر ان کے کانوں میں اذان دی۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۹۷، رقم : ۴۸۲۷

حاکم نے اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی

۲. عسقلاني، تلخيص الحبير، ۴ : ۱۴۹، رقم : ۱۹۸۵

۳. ابن ملقن انصاري، خلاصة البدر المنير، ۲ : ۳۹۱، رقم : ۲۷۱۳

۴. شوکاني، نيل الاوطار، ۵ : ۲۲۹

فصل : ۹

عقيقة النبي صلي الله عليه وآله وسلم عن الحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام کی طرف سے عقیقہ کرنا)

۲۷. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين کبشاً کبشاً.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔‘‘

۱. ابوداؤد، السنن، ۳ : ۱۰۷، کتاب الصحايا، رقم : ۲۸۴۱

۲. ابن جارود، المنتقي، ۱ : ۲۲۹، رقم : ۱۲ - ۹۱۱

۳. بيهقي، السنن الکبري، ۹ : ۳۰۲

۴. طبراني، المعجم الکبير، ۱۱ : ۳۱۶، رقم : ۱۱۸۵۶

۵. ابن عبدالبر، التمهيد، ۴ : ۳۱۴

۶. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۱۰ : ۱۵۱، رقم : ۵۳۰۲

۷. صنعاني، سبل السلام، ۴ : ۹۷

۸. ابن رشد، بداية المجتهد، ۱ : ۳۳۹

۹. ابن موسیٰ، معتصر المختصر، ۱ : ۲۷۶

۲۸. عن أنس رضي اﷲ عنه : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين بکبشين.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے دو دنبے عقیقہ کے لئے ذبح کئے۔‘‘

۱. ابويعلي، المسند، ۵ : ۳۲۳، رقم : ۲۹۴۵

۲. طبراني، المعجم الاوسط، ۲ : ۲۴۶، رقم : ۱۸۷۸

۳. مقدسي، الاحاديث المختاره، ۷ : ۸۵، رقم : ۲۴۹۰

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۵۷

۵. وادياشي، تحفة المحتاج، ۲ : ۵۳۸، رقم : ۱۷۰۱

۲۹. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : عق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن الحسن و الحسين بکبشين کبشين.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقے میں دو دو دنبے ذبح کئے۔‘‘

۱. نسائی، السنن، ۷ : ۱۶۵، کتاب العقيقه، رقم : ۴۲۱۹

۲. نسائي، السنن الکبري، ۳ : ۷۶، رقم : ۴۵۴۵

۳. سيوطي، تنوير الحوالک، ۱ : ۳۳۵، رقم : ۱۰۷۱

۴. زرقاني، شرح الموطا، ۳ : ۱۳۰

۵. شوکاني، نيل الاوطار، ۵ : ۲۲۷

۶. مبارکپوري، تحفة الاحوذی، ۵ : ۸۷

۷. صنعاني، سبل السلام، ۴ : ۹۸

۳۰. عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين، عن کل واحد منهما کبشين اثنين مثلين متکافئين.

’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین میں سے ہر ایک کی طرف سے ایک ہی جیسے دو دو دنبے عقیقہ میں ذبح کئے۔‘‘

حاکم، المستدرک، ۴ : ۲۶۵، رقم : ۷۵۹۰

۳۱. عن عائشة رضي اﷲ عنها أنها قالت : عق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن حسن شاتين و عن حسين شاتين، ذبحهما يوم السابع.

’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی طرف سے دو دو بکریاں عقیقہ میں ذبح کیں۔‘‘

۱. عبدالرزاق، المصنف، ۴ : ۳۳۰، رقم : ۷۹۶۳

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۵۸

۳. ابن حبان، الصحيح، ۱۲ : ۱۲۷، رقم : ۵۳۱۱

۴. وادياشي، تحفة المحتاج، ۲ : ۵۳۷، رقم : ۱۷۰۰

۵. هيثمي، موارد الظمآن، ۱ : ۲۶۰، رقم : ۱۰۵۶

۶. دولابي، الذرية الطاهرة، ۱ : ۸۵، رقم : ۱۴۸

۳۲. عن علي رضي الله عنه أن رسول صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين. (۳۲)

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقہ کیا۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۲۹، رقم : ۲۵۷۲

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۵۸

فصل : ۱۰

الحسن والحسين عليهما السلام کانا أشبه بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم

(حسنین کریمین علیہما السلام . سراپا شبیہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے)

۳۳. عن علي رضي الله عنه قال : الحسن أشبه برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما بين الصدر إلي الراس، والحسين أشبه بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ما کان أسفل من ذلک.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حسن سینہ سے سر تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ تھے اور حسین سینہ سے نیچے تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ تھے۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۶۶۰، ابواب المناقب، رقم : ۵۷۷۹

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۹۹، رقم : ۷۷۴

۳. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۳۰ : رقم : ۶۹۷۴

۴. طيالسي، المسند، ۱ : ۹۱، رقم : ۱۳۰

۵. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۷۷۴، رقم : ۱۳۶۶

۶. مقدسي، الاحاديث المختارة، ۲ : ۳۹۴، رقم : ۷۸۰، ۷۸۱

۷. هيثمي، مواردالظمآن، ۱ : ۵۵۳، رقم : ۲۲۳۵

۸. ابن جوزي، صفوة الصفوه، ۱ : ۷۶۳

۹. ذهبي، سير أعلام النبلاء، ۳ : ۲۵۰

۳۴. عن علي رضی الله عنه، قال : من سره أن ينظر الي أشبه الناس برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما بين عنقه الي وجهه فلينظر إلي الحسن بن علي، و من سره أن ينظر إلي أشبه الناس برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما بين عنقه الي کعبه خلقا و لونا فلينظر إلي الحسين بن علي.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے چہرے تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسن بن علی کو دیکھ لے اور جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے ٹخنے تک رنگت اور صورت دونوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسین بن علی کو دیکھ لے۔‘‘

طبرانی، المعجم الکبير، ۳ : ۹۵، رقم : ۲۷۶۸، ۲۷۵۹

۳۵. عن انس رضی الله عنه قال : کان الحسن و الحسین أشبههم برسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم .

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن و حسین علیہما السلام دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔‘‘

عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، ۲ : ۷۷، رقم : ۱۷۲۶

۳۶. عن محمد بن الضحاک الحزامی قال : کان وجه الحسن بن علی یشبه وجه رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم و کان جسد الحسین یشبه جسد رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم

’’محمد بن ضحاک حزامی روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی علیہما السلام کا چہرہ مبارک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی شبیہ تھا اور حسین کا جسم مبارک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کی شبیہ تھا۔‘‘

ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۴ : ۱۲۷

فصل : ۱۱

يرث الحسن والحسين عليهما السلام أوصاف النبي صلي الله عليه وآله وسلم

(حسنین کریمین علیہما السلام . وارثان اوصافِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )

۳۷. عن فاطمة بنت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنها أتت بالحسن والحسين أباها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في شکوة التي مات فيها، فقالت : تورثهما يا رسول اﷲ شيئاً. فقال : أما الحسن فله هيبتي و سؤددي و أما الحسين فله جراتي و جودي.

’’سیدہ فاطمہ صلوات اﷲ علیھا سے روایت ہے کہ وہ اپنے بابا حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال کے دوران حسن اور حسین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن میری ہیبت و سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات و سخاوت کا۔‘‘

۱. شيباني، الآحاد والمثاني، ۱ : ۲۹۹، رقم : ۴۰۸

۲. شيباني، الآحاد والمثاني، ۵ : ۳۷۰، رقم : ۲۹۷۱

۳. طبراني، المعجم الکبير، ۲۲ : ۴۲۳، رقم : ۱۰۴۱

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۵

۵. شوکاني، درالسحابه : ۳۱۰

۶. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، ۱ : ۱۲۹

۷. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، ۲ : ۵۶۰

۳۸. عن أم أيمن رضي اﷲ عنها قالت : جاءَ ت فاطمة بالحسن و الحسين إلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فقالت : يا نبي اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! انحلهما؟ فقال : نحلت هذا الکبير المهابة والحلم، و نحلت هذا الصغير المحبة والرضي.

’’حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حسنین کریمین علیہما السلام کو ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! ان دونوں بیٹوں حسن و حسین کو کچھ عطا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے اس بڑے بیٹے (حسن) کو ہیبت و بردباری عطا کی اور چھوٹے بیٹے (حسین) کو محبت اور رضا عطا کی۔‘‘

۱. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، ۴ : ۲۸۰، رقم : ۶۸۲۹

۲. هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۷۶۰، رقم : ۳۷۷۱۰

۳۹. عن زينب بنت أبي رافع : أتت فاطمة بابنيها إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في شکواه الذي توفي فيه، فقالت لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : هذان ابناک فورثهما شيئا. قال : أما حسن فان له هيبتي و سؤددي، و أما حسين فإن له جراتي و جودي.

’’حضرت زینب بنت ابی رافع سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال کے دوران اپنے دونوں بیٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یہ آپ کے بیٹے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن کے لئے میری ہیبت و سرداری کی وراثت ہے اور حسین کے لئے میری جرات و سخاوت کی وراثت۔‘‘

۱. عسقلاني، تهذيب التهذيب، ۲ : ۲۹۹، رقم : ۶۱۵

۲. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، ۷ : ۶۷۴، رقم : ۱۱۲۳۲

۳. مزي، تهذيب الکمال، ۶ : ۴۰۰

۴۰. عن أبي رافع رضي الله عنه قال : جاء ت فاطمة بنت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بحسن و حسين إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الذي قبض فيه، فقالت : هذان ابناک فورثهما شيئا. فقال لها : أما حسن فان له ثباتي و سؤددي، و أما حسين فان له حزامتي و جودي.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال میں اپنے دونوں بیٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض پرداز ہوئیں : یہ آپ کے بیٹے ہیں انہیں کچھ وراثت میں عطا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن کے لئے میری ثابت قدمی اور سرداری کی وراثت ہے اور حسین کے لئے میری طاقت و سخاوت کی وراثت۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۶ : ۲۲۲

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۵

فصل : ۱۲

الحسن و الحسين عليهما السلام سيدا شباب أهل الجنة

(حسنین کریمین علیہما السلام تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں)

۴۱. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۶۵۶، ابواب المناقب، رقم : ۳۷۶۸

۲. نسائي، السنن الکبري، ۵ : ۵۰، رقم : ۸۱۶۹

۳. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۱۲، رقم : ۶۹۵۹

۴. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۳، رقم : ۱۱۰۱۲

۵. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۷۸، رقم : ۳۲۱۷۶

۶. طبراني، المعجم الاوسط، ۲ : ۳۴۷، رقم : ۲۱۹۰

۷. طبراني، المعجم الاوسط، ۶ : ۱۰، رقم : ۵۶۴۴

۸. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۲، رقم : ۴۷۷۸

۹. هيثمي، مواردالظمآن، ۱ : ۵۵۱، رقم : ۲۲۲۸

۱۰. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (۹ : ۲۰۱)‘ میں اس کے رواۃ کو صحیح قرار دیا ہے

۱۱. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، ۵ : ۴۸۹

۱۲. نسائي، خصائص علي، ۱ : ۱۴۲، رقم : ۱۲۹

۱۳. حکمي، معارج القبول، ۳ : ۱۲۰۰

۴۲. عن حذيفة رضي الله عنه قال : سألتني أمي : متي عهدک تعني بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم فقلت : ما لي به عهد منذ کذا و کذا، فنالت مني، فقلت لها : دعيني آتي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فأصلي معه المغرب و أسأله أن يستغفرلي ولک، فأتيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فصليت معه المغرب، فصلي حتي صلي العشاء ثم أنفتل فتبعته فسمع صوتي فقال : من هذا؟ حذيفة! قلت : نعم، قال : ما حاجتک؟ غفر اﷲ لک ولأمک. قال : ان هذا ملک لم ينزل الأرض قط قبل هذه الليلة، استأذن ربه أن يسلم علي و يبشرني بأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة و أن الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھ سے پوچھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا میرا معمول کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اتنے دنوں سے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکا۔ وہ مجھ سے ناراض ہوئیں۔ میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ابھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں، ان کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھوں گا اور ان سے عرض کروں گا کہ میرے اور آپ کے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ پس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوافل ادا فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا فرمائی پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آواز سنی تو فرمایا یہ کون ہے؟ حذیفہ! میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تمہاری کیا حاجت ہے؟ اﷲ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری ماں کو بخش دے پھر فرمایا : یہ ایک فرشتہ ہے جو اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہیں اترا۔ اس نے اپنے رب سے اجازت چاہی کہ مجھ پر سلام عرض کرے اور مجھے بشارت دے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۶۶۰، ابواب المناقب، رقم : ۳۷۸۱

۲. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۱۳، رقم : ۶۹۶۰

۳. نسائي، السنن الکبریٰ، ۵ : ۸۰، رقم : ۸۲۹۸

۴. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۳۹۱، رقم : ۲۳۳۷۷

۵. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۷۸، رقم : ۳۲۱۷۷

۶. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۳۷، رقم : ۲۶۰۶

۷. حاکم، المستدرک، ۳ : ۴۳۹، رقم : ۵۶۳۰

۸. هيثمي، موارد الظمآن، ۱ : ۵۵۱، رقم : ۲۲۲۹

۹. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۳

۱۰. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، ۲ : ۵۶۰

۴۳. عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘

۱. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۷۸، رقم : ۳۲۱۷۹

۲. بزار، المسند، ۳ : ۱۰۲، رقم : ۸۸۵

۳. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۳۶، رقم : ۳۶۰۱

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۴۱۸۲

۴۴. عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : نحن ولد عبدالمطلب سادة أهل الجنة : أنا و حمزة و علي و جعفر والحسن والحسين والمهدي.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم عبدالمطلب کی اولاد اہل جنت کے سردار ہیں جن میں میں، حمزہ، علی، جعفر، حسن، حسین اور مہدی شامل ہیں۔‘‘

۱. ابن ماجه، السنن، ۲ : ۱۳۶۸، کتاب الفتن، رقم : ۴۰۸۷

۲. حاکم، المستدرک، ۳ : ۲۳۳، رقم : ۴۹۴۰

۳. ابن حيان، طبقات المحدثين بأصبهان، ۲ : ۲۹۰، رقم : ۱۷۷

۴. کناني، مصباح الزجاجة، ۴ : ۲۰۴، رقم : ۱۴۵۲

۵. ديلمي، الفردوس، ۱ : ۵۳، رقم : ۱۴۲

۶. عسقلاني، تهذيب التهذيب، ۷ : ۲۸۳، رقم : ۵۴۴

۷. مزي، تهذيب الکمال، ۵ : ۵۳

۴۵. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۳۵، رقم : ۲۵۹۸

طبرانی نے ’المعجم الاوسط (۵ : ۲۴۳، رقم : ۵۲۰۸)‘ میں حضرت اُسامہ بن زید سے مروی حدیث بھی بیان کی ہے

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۴ : ۱۳۲

۳. هثيمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۲

۴۶. عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

۱. ابن ماجه، السنن، ۱ : ۴۴، باب فضائل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۱۱۸

۲. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۲، رقم : ۴۷۸۰

۳. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، ۱۴ : ۱۳۳

۴. کناني، مصباح الزجاجه، ۱ : ۲۰، رقم : ۴۸

۵. ذهبي، ميزان الاعتدال، ۶ : ۴۷۴

۴۷. عن الحسين بن علي رضي اﷲ عنهما قال سمعت جدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لا تسبوا الحسن والحسين، فانهما سيدا شباب أهل الجنة من الأولين والأخرين.

’’حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے اپنے نانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : حسن اور حسین کو گالی مت دینا کیونکہ وہ پہلی اور پچھلی تمام امتوں کے جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

۱. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، ۱۴ : ۱۳۱

۲. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (۹ : ۱۸۴)‘ میں اِسے مختصراً روایت کیا ہے۔

۳. طبراني، المعجم الاوسط، ۱ : ۱۱۸، رقم : ۳۶۶

۴. شوکاني، درالسحابه في مناقب القرابه والصحابه : ۳۰۱

۴۸. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۲، رقم : ۴۷۷۹

۲. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، ۵ : ۵۸

۳. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، ۱۴ : ۱۳۳

۴۹. عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : إن ملکا من السماء لم يکن زارني، فأستأذن اﷲل في زيارتي، فبشرني أن الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان کے ایک فرشتے نے (اس سے پہلے) میری زیارت کبھی نہیں کی تھی، اس نے میری زیارت کے لئے اﷲ تعالیٰ سے اجازت طلب کی اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۳۶، رقم : ۲۶۰۴

۲. نسائي، السنن الکبري، ۵ : ۱۴۶، رقم : ۸۵۱۵

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۳

۴. مزي، تهذيب الکمال، ۲۶ : ۳۹۱

۵. ذهبي، سير أعلام النبلاء، ۲ : ۱۶۷

۶. ذهبي، ميزان الاعتدال، ۶ : ۳۲۹

۵۰. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : خير شبابکم الحسن و الحسين.

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے جوانوں میں سے سب سے بہتر (جوان) حسن اور حسین ہیں۔‘‘

۱. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۴ : ۳۹۱، رقم : ۲۲۸۰

۲. هندي، کنز العمال، ۱۲ : ۱۰۲، رقم : ۳۴۱۹۱

۳. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۴ : ۱۶۷