مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مرج البحرین فی مناقب الحسنین 0%

مرج البحرین فی مناقب الحسنین مؤلف:
زمرہ جات: امام حسن(علیہ السلام)

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
زمرہ جات: مشاہدے: 7294
ڈاؤنلوڈ: 2742

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7294 / ڈاؤنلوڈ: 2742
سائز سائز سائز
مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فصل : ۲۰

من أبغض الحسن و الحسين عليهما السلام أبغضه اﷲ

(جس نے حسنین علیہما السلام سے بغض رکھا وہ اﷲ کے ہاں مبغوض ہو گیا)

۷۷. عن سلمان رضي الله عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من أبغضهما أبغضني، و من أبغضني أبغضه اﷲ، ومن أبغضه اﷲ أدخله النار.

’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اﷲ کے ہاں مبغوض ہوا، اُسے اللہ نے آگ میں داخل کر دیا۔‘‘

حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۱، رقم : ۴۷۷۶

۷۸. عن سلمان ص، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم للحسن و الحسين من أبغضهما أو بغي عليهما أبغضته، ومن أبغضته أبغضه اﷲ، ومن أبغضه اﷲ أدخله عذاب جهنم وله عذاب مقيم.

’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا : جس نے ان سے بغض رکھا یا ان سے بغاوت کی وہ میرے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو میرے ہاں مبغوض ہو گیا وہ اﷲ کے غضب کا شکار ہو گیا اور جو اﷲ کے ہاں غضب یافتہ ہو گیا تو اﷲ تعالیٰ اسے جہنم کے عذاب میں داخل کرے گا (جہاں) اس کے لئے ہمیشہ کا ٹھکانہ ہو گا۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۵۰، رقم : ۲۶۵۵

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۱

۳. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابه والصحابه : ۳۰۷

فصل : ۲۱

قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : اللهم عاد من عاداهم و وال من والاهم

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ)

۷۹. عن أم سلمة رضي اﷲ عنها قالت : جاء ت فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم متورکة الحسن و الحسين، في يدها برمة للحسن فيها سخين حتي أتت بها النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلما وضعتها قدامه، قال لها : أين أبو الحسن؟ قالت : في البيت. فدعاه، فجلس النبي صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة و الحسن و الحسين يأکلون، قالت أم سلمة رضي اﷲ عنها : وما سامني النبي صلي الله عليه وآله وسلم وما أکل طعاما قط إلا و أنا عنده إلا سامنيه قبل ذلک اليوم، تعني سامني دعاني إليه، فلما فرغ التف عليهم بثوبه ثم قال : اللهم عاد من عاداهم و وال من والاهم.

’’اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا بنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کو پہلو میں اٹھائے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ کے ہاتھ میں پتھر کی ہانڈی تھی جس میں حسن کے لئے گرم سالن تھا۔ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے جب اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لا کے رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : ابوالحسن (علی) کہاں ہے تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے جواب دیا : گھر میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم بیٹھ کر کھانا تناول فرمانے لگے۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نہ بلایا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری موجودگی میں کھانا کھایا ہو اور مجھے نہ بلایا ہو۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے سے فارغ ہوئے تو ان سب کو اپنے کپڑے میں لے لیا اور فرمایا : اے اﷲ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ۔‘‘

۱. ابويعلیٰ، المسند، ۱۲ : ۳۸۳، رقم : ۶۹۱۵

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۶۶

۳. حسيني، البيان والتعريف، ۱ : ۱۴۹، رقم : ۳۹۶

فصل : ۲۲

النبي صلي الله عليه وآله وسلم حرب لمن حارب الحسن والحسين عليهما السلام

(جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے جنگ کی اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان جنگ فرما دیا)

۸۰. عن زيد بن أرقم رضي اﷲ عنه، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي و فاطمة و الحسن و الحسين رضي اﷲ عنهم : أنا حرب لمن حاربتم، و سلم لمن سالمتم.

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اﷲ علیہم سے فرمایا : جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہو گی، اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہو گی۔‘‘

۱. ترمذی، الجامع الصحيح، ۵ : ۶۹۹، ابواب المناقب، رقم : ۳۸۷۰

۲. ابن ماجه، السنن، ۱ : ۵۲، رقم : ۱۴۵

۳. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۳۴، رقم : ۶۹۷۷

۴. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۷۸، رقم : ۳۲۱۸۱

۵. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۶۱، رقم : ۴۷۱۴

۶. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۴۰، رقم : ۲۰ - ۲۶۱۹

۷. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۸۴، رقم : ۳۱ - ۵۰۳۰

۸. طبراني، المعجم الاوسط، ۵ : ۱۸۲، رقم : ۵۰۱۵

۹. هيثمي، موارد الظمآن، ۱ : ۵۵۵، رقم : ۲۲۴۴

۱۰. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ : ۶۲

۱۱. ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ۲ : ۱۲۵

۱۲. مزی، تهذیب الکمال، ۱۳ : ۱۱۲

۸۱. عن زيد بن ارقم رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال لفاطمة و الحسن و الحسين : أنا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم.

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اﷲ علیہم (تینوں) سے فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا۔‘‘

۱. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۳۴، رقم : ۶۹۷۷

۲. طبراني، المعجم الاوسط، ۳ : ۱۷۹، رقم : ۲۸۵۴

۳. طبراني، المعجم الصغير، ۲ : ۵۳، رقم : ۷۶۷

۴. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (۹ : ۱۶۹)‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے ’الاوسط‘ میں روایت کیا ہے۔

۵. هيثمي، موارد الظمآن : ۵۵۵، رقم : ۲۲۴۴

۶. محاملي، الامالي : ۴۴۷، رقم : ۵۳۲

۷. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، ۷ : ۲۲۰

۸۲. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : نظر النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلي علي و فاطمة و الحسن و الحسين، فقال : أنا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہما السلام کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا، جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا (یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۴۴۲

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۷۶۷، رقم : ۱۳۵۰

۳. حاکم نے ’المستدرک (۳ : ۱۶۱، رقم : ۴۷۱۳)‘ میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے اس میں کوئی جرح نہیں کی۔

۴. طبرانی، المعجم الکبير، ۳ : ۴۰، رقم : ۲۶۲۱

۵. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۷ : ۱۳۷

۶. ذهبي، سير اعلام النبلاء، ۲ : ۱۲۲

۷. ذهبي، سير اعلام النبلاء، ۳ : ۵۸ - ۲۵۷

۸. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (۹ : ۱۶۹)‘ میں کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی تلیدبن سلیمان میں اختلاف ہے جبکہ اس کے بقیہ رجال حدیث صحیح کے رجال ہیں۔

۸۳. عن أبی بکر الصديق رضي الله عنه قال : رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خيم خيمة و هو متکئ علي قوس عربية و في الخيمة علي و فاطمة والحسن والحسين فقال : معشر المسلمين أنا سلم لمن سالم أهل الخيمة حرب لمن حاربهم ولي لمن والاهم لا يحبهم إلا سعيد الجد طيب المولد ولا يبغضهم إلا شقي الجد ردئ الولادة.

’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خیمہ میں قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عربی کمان پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور خیمہ میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین بھی موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے مسلمانوں کی جماعت جو اہل خیمہ سے صلح کرے گا میری بھی اس سے صلح ہو گی جو ان سے لڑے گا میری بھی اس سے لڑائی ہو گی۔ جو ان کو دوست رکھے گا میری بھی اس سے دوستی ہو گی، ان سے صرف خوش نصیب اور برکت والا ہی دوستی رکھتا ہے اور ان سے صرف بدنصیب اور بدبخت ہی بغض رکھتا ہے۔‘‘

محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، ۳ : ۱۵۴

فصل : ۲۳

قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : بأبي و أمي أنتما

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ماں باپ آپ پر قربان)

۸۴. عن سلمان رضي الله عنه قال : کنا حول النبي صلي الله عليه وآله وسلم فجاء ت ام ايمن فقالت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! لقد ضل الحسن و الحسين، قال : و ذلک راد النهار يقول ارتفاع النهار. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’قوموا فاطلبوا ابني.‘‘ قال : و اخذ کل رجل تجاه وجهه و اخذت نحو النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم يزل حتي اتي سفح جبل و إذا الحسن و الحسين ملتزق کل واحد منهما صاحبه، و إذا شجاع قائم علي ذنبه يخرج من فيه شه النار، فاسرع اليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فالتفت مخاطبا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، ثم انساب فدخل بعض الأحجرة، ثم اتاهما فافرق بينهما و مسح وجههما و قال : بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما علي اﷲ.

’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا : حسن و حسین علیہما السلام گم ہو گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں دن خوب نکلا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو، راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا اپنا راستہ لیا اور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چلتے رہے حتی کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر سکڑ گیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور ان کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر قربان، تم اﷲ کے ہاں کتنی عزت والے ہو۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۶۵، رقم : ۲۶۷۷

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۲

۳. شوکاني، درالسحابه في مناقب القرابة والصحابه : ۳۰۹

۸۵. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي و الحسن و الحسين علي ظهره، فباعدهما الناس، و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم دعوهما بأبي هما و أمي.

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو چھوڑ دو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۴۷، رقم : ۲۶۴۴

۲. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۲۶، رقم : ۶۹۷۰

۳. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۷۸، رقم : ۳۲۱۷۴

۴. هيثمي، مواردالظمآن، ۱ : ۵۵۲، رقم : ۲۲۳۳

فصل : ۲۴

فزع النبي صلي الله عليه وآله وسلم ببکاء الحسن والحسين عليهما السلام

(حسنین کریمین علیہما السلام کے رونے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پریشان ہو گئے)

۸۶. عن يحيي بن أبي کثير : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم سمع بکاء الحسن و الحسين، فقام فزعا، فقال : إن الولد لفتنة لقد قمت إليهما و ما أعقل.

’’یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین علیہما السلام کے رونے کی آواز سنی تو پریشان ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا : بے شک اولاد آزمائش ہے، میں ان کے لئے بغیر غور کئے کھڑا ہو گیا ہوں۔‘‘

ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۷۹، رقم : ۳۲۱۸۶

۸۷. عن يزيد بن أبي زياد قال : خرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم من بيت عائشة فمر علي فاطمة فسمع حسينا يبکي، فقال : ألم تعلمي أن بکاء ه يؤذيني.

’’یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے اور سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر کے پاس سے گزرے تو حسینں کو روتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ اس کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۱۱۶، رقم : ۲۸۴۷

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۲۰۱

۳. ذهبي، سير أعلام النبلاء، ۳ : ۲۸۴

فصل : ۲۵

نزل النبی صلی الله عليه وآله وسلم من المنبر للحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر اپنے منبر شریف سے نیچے اتر آئے)

۸۸. عن أبي بريدة رضي الله عنه يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطبنا إذ جاء الحسن و الحسين عليهما السلام، عليهما قميصان أحمران يمشيان و يعثران، فنزل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من المنبر فحملهما و وضعهما بين يديه، ثم قال : صدق اﷲ : (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنةٌ) فنظرت إلي هذين الصبيين يمشيان و يعثران، فلم أصبر حتي قطعت حديثي و رفعتهما

’’حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام تشریف لائے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ (صغرسنی کی وجہ سے) لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (انہیں دیکھ کر) منبر سے نیچے تشریف لے آئے، دونوں (شہزادوں) کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا : اﷲ تعالیٰ کا ارشاد سچ ہے : (بیشک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں۔ ) میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۶۵۸، ابواب المناقب، رقم : ۳۷۷۴

۲. نسائي، السنن، ۳ : ۱۹۲، کتاب صلاة العيدين، رقم : ۱۸۸۵

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۳۴۵

۴. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۷۷۰، رقم : ۱۳۵۸

۵. ابن حبان، الصحيح، ۱۳ : ۴۰۳، رقم : ۶۰۳۹

۶. بيهقي، السنن الکبري، ۳ : ۲۱۸، رقم : ۵۶۱۰

۷. هيثمي، مواردالظمآن، ۱ : ۵۵۲، رقم : ۲۲۳۰

۸. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، ۱۸ : ۱۴۳

۹. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۴ : ۳۷۷

۱۰. مزي، تهذيب الکمال، ۶ : ۴۰۳

۱۱. ابن جوزي، التحقيق، ۱ : ۵۰۵، رقم : ۸۰۵

فصل : ۲۶

الحسن والحسين عليهما السلام کانا يمصّان لسان النبي صلي الله عليه وآله وسلم

(حسنین کریمین علیہما السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک چوستے تھے)

۸۹. عن أبي هريرة رضي الله عنه فقال : أشهد لخرجنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي إذا کنا ببعض الطريق سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صوت الحسن و الحسين، و هما يبکيان و هما مع أمهما، فأسرع السير حتي أتاهما، فسمعته يقول لها : ما شأن ابني؟ فقالت : العطش قال : فاخلف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الي شنة يبتغي فيها ماء، و کان الماء يومئذ أغدارا، و الناس يريدون الماء، فنادي : هل أحد منکم معه مائ؟ فلم يبق أحد الا أخلف بيده الي کلابه يبتغي الماء في شنة، فلم يجد أحد منهم قطرة، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ناوليني أحدهما، فناولته اياه من تحت الخدر، فأخذه فضمه الي صدره و هو يطغو ما يکست، فأدلع له لسانه فجعل يمصه حتي هدأ أو سکن، فلم أسمع له بکاء، و الآخر يبکي کما هو ما يسکت فقال : ناوليني الآخر، فناولته اياه ففعل به کذلک، فسکتا فما أسمع لهما صوتا

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) نکلے، ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کی آواز سنی دونوں رو رہے تھے اور دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ) کے پاس ہی تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تیزی سے پہنچے۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا : میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے بتایا انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی لینے کے لئے مشکیزے کی طرف بڑھے۔ ان دنوں پانی کی سخت قلت تھی اور لوگوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو آواز دی : کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ ہر ایک نے کجاؤوں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں پانی دیکھا مگر ان کو قطرہ تک نہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا : ایک بچہ مجھے دیں اُنہوں نے ایک کو پردے کے نیچے سے دے دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا اور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی وہ اُسے چوسنے لگا حتی کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آ گیا میں نے دوبارہ اُس کے رونے کی آواز نہ سنی، جب کہ دوسرا بھی اُسی طرح (مسلسل رو رہا تھا) پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوسرا بھی مجھے دے دیں تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے دوسرے کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی وہی معاملہ کیا (یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی) سو وہ دونوں ایسے خاموش ہوئے کہ میں نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۵۰، رقم : ۲۶۵۶

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۱

ہیثمی نے اس کے راوۃ ثقہ قرار دیئے ہیں۔

۳. مزي، تهذيب الکمال، ۶ : ۲۳۱

۴. ابن عساکر، تاريخِ دمشق، ۱۳ : ۲۲۱

۵. عسقلاني، تهذيب التهذيب، ۲ : ۲۹۸

۶. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابه و الصحابه : ۳۰۶

۷. سيوطي، الخصائص الکبریٰ، ۱ : ۱۰۶

فصل : ۲۷

الحسن والحسين عليهما السلام کانا يلعبان علي بطن النبي صلي الله عليه وآله وسلم

(حسنین کریمین علیہما السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیلتے تھے)

۹۰. عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه قال : دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والحسن والحسين يلعبان علي بطنه، فقلت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! أتحبهما؟ فقال : و مالي لا أحبهما و هما ريحانتاي.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیل رہے تھے، تو میں نے عرض کی : یا رسول اﷲ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ وہ دونوں میرے پھول ہیں۔‘‘

۱. بزار، المسند، ۳ : ۲۸۷، رقم : ۱۰۷۹

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۱

۳. شوکاني، درالسحابه : ۳۰۷

ہیثمی نے اس کے رواۃ صحیح قرار دیئے ہیں۔

۹۱. عن انس بن مالک رضي الله عنه قال : دخلت أو ربما دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والحسن والحسين يتقلبان علي بطنه، قال : و يقول : ريحانتي من هذه الأمة.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتا یا (فرمایا) اکثر اوقات حاضر ہوتا (اور دیکھتا کہ) حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہوتے : یہ دونوں ہی تو میری امت کے پھول ہیں۔‘‘

۱. نسائي، السنن الکبریٰ، ۵ : ۴۹، رقم : ۸۱۶۷

۲. نسائي، السنن الکبریٰ، ۵ : ۱۵۰، رقم : ۸۵۲۹

فصل : ۲۸

رکب الحسن والحسين عليهما السلام علي ظهر النبي صلي الله عليه وآله وسلم خلال الصلوة

(حسنین کریمین علیہما السلام دورانِ نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے )

۹۲. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقا و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلاته، أقعدهما علي فخذيه.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی کے ساتھ پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو شہزادگان نے دوبارہ ایسے ہی کیا (یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کر لی اس کے بعد دونوں کو اپنی مبارک رانوں پر بٹھا لیا۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۵۱۳، رقم : ۱۰۶۶۹

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۵۱، رقم : ۲۶۵۹

۳. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۳، رقم : ۴۷۸۲

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۱

۵. ابن عدي، الکامل، ۶ : ۸۱، رقم : ۱۶۱۵

۶. ذهبي، سير أعلام النبلاء، ۳ : ۲۵۶

۷. عسقلاني، تهذيب التهذيب، ۲ : ۲۵۸

۸. شوکاني، نيل الاوطار، ۲ : ۱۲۴

۹. سيوطي، الخصائص الکبري، ۲ : ۱۳۶

۱۰. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۶ : ۱۵۲

۹۳. عن زر بن جيش رضي الله عنه قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذات يوم يصلي بالناس فأقبل الحسن و الحسين عليهما السلام و هما غلامان، فجعلا يتوثبان علي ظهره إذا سجد فأقبل الناس عليهما ينحيانهما عن ذلک، قال : دعوهما بأبي و أمي.

’’زر بن جیش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ حسنین کریمین علیہما السلام جو اس وقت بچے تھے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہونے لگے، لوگ انہیں روکنے کے لئے آگے بڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں! انہیں چھوڑ دو۔ ۔ ۔ یعنی سوار ہونے دو۔‘‘

بيهقي، السنن الکبریٰ، ۲ : ۲۶۳، رقم : ۳۲۳۷

۹۴. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا أرادوا أن يمنعوهما أشار إليهم أن دعوهما، فلما صلي وضعهما في حجره.

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے، جب سجدے میں گئے تو حسنین کریمین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب لوگوں نے انہیں روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اشارہ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو. یعنی سوار ہونے دو، پھر جب نماز ادا فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔‘‘

۱. نسائي، السنن الکبریٰ، ۵ : ۵۰، رقم : ۸۱۷۰

۲. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، ۲ : ۷۱

۳. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۲۲

۹۵. عن البراء بن عازب رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي فجاء الحسن و الحسين عليهما السلام (أو أحدهما)، فرکب علي ظهره فکان إذا سجد رفع رأسه أخذ بيده فأمسکه أو أمسکهما، ثم قال : نعم المطية مطيتکما

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھاتے تو حسن و حسین علیہما السلام دونوں میں سے کوئی ایک آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو جاتا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے اگر ایک ہوتا تو اس کو یا دونوں ہوتے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو تھام لیتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : تم دو سواروں کے لئے کتنی اچھی سواری ہے۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۴ : ۲۰۵، رقم : ۳۹۸۷

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۲

۹۶. عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال : کتب النبي صلي الله عليه وآله وسلم لرجل عهدا فدخل الرجل يسلم علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي، فرأي الحسن والحسين يرکبان علي عنقه مرة و يرکبان علي ظهره مرة و يمران بين يديه و من خلفه، فلما فرغ الصلاة قال له الرجل : ما يقطعان الصلاة؟ فغضب النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال : ناولني عهدک. فأخذه فمزقه، ثم قال : من لم يرحم صغيرنا و لم يؤقر کبيرنا فليس مناولا أنا منه.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کو عہدنامہ لکھ کر دیا تو اس شخص نے حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالت نماز میں سلام عرض کیا، پھر اس نے دیکھا کہ حسن اور حسین علیہما السلام کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک اور کبھی پشت مبارک پر سوار ہوتے ہیں اور حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے سے گزر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا : کیا وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہیں توڑتے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلال میں آ کر فرمایا : مجھے اپنا عہد نامہ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لے کر پھاڑ دیا اور فرمایا : جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں اور نہ ہی میں اس سے ہوں۔‘‘

محب طبري، ذخائر العقبیٰ، ۱ : ۱۳۲

۹۷. عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال : صلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صلاة العصر، فلما کان في الرابعة أقبل الحسن والحسين حتي رکبا علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما سلم وضعهما بين يديه و أقبل الحسن فحمل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الحسن علي عاتقه الأيمن والحسين علي عاتقه الأيسر.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ عصر ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوتھی رکعت میں تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو ان دونوں کو اپنے سامنے بٹھا لیا حسن رضی اللہ عنہ کے آگے آنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دائیں کندھے پر اور حسین رضی اللہ عنہ کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۶ : ۲۹۸، رقم : ۶۴۶۲

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۶۶، رقم : ۲۶۸۲

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۴

فصل : ۲۹

قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم للحسنين : نعم الراکبان هما

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام سے فرمانا : یہ دونوں کیسے اچھے سوار ہیں)

۹۸. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کندھے پر حسنں اور دوسرے کندھے پر حسینں سوار تھے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۴۴۰، رقم : ۹۶۷۱

۲. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۲، رقم : ۴۷۷۷

حاکم اس کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں

۳. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۷۷۷، رقم : ۱۳۷۶

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۷۹

۵. مزي، تهذيب الکمال، ۶ : ۲۲۸

۶. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، ۲ : ۷۱

۷. مناوي، فيض القدير، ۶ : ۳۲

ہیثمی نے اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے۔

۹۹. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : رأيت الحسن والحسين عليهما السلام علي عاتقي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فقلت : نعم الفرس تحتکما قال : و نعم الفارسان هما

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین علیہما السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر (سوار) دیکھا تو حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا : ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔‘‘

۱.بزار، المسند، ۱ : ۴۱۸

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۱

ہیثمی نے ابو یعلیٰ کی بیان کردہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے

۳. حسيني، البيان والتعريف، ۲ : ۲۶۳، رقم : ۱۶۷۲

۴. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة و الصحابه : ۳۰۸

۵. ابن عدي، الکامل، ۲ : ۳۶۲

۱۰۰. عن سلمان رضي الله عنه قال : کنا حول النبي صلي الله عليه وآله وسلم فجاء ت أم أيمن فقالت : يا رسول اﷲ لقد ضل الحسن و الحسين عليهما السلام قال : و ذلک راد النهار يقول ارتفاع النهار. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : قوموا فاطلبوا ابني. قال : و أخذ کل رجل تجاه وجهه و أخذت نحو النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم يزل حتي أتي سفح جبل و اذا الحسن والحسين عليهما السلام ملتزق کل واحد منهما صاحبه و اذا شجاع قائم علي ذنبه يخرج من فيه شه النار، فأسرع اليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فالتفت مخاطبا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ثم انساب فدخل بعض الأحجرة ثم أتاهما فأفرق بينهما و مسح و جههما و قال : بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما علي اﷲ ثم حمل أحدهما علي عاتقه الأيمن والآخر علي عاتقه الأيسر فقلت : طوباکما نعم المطية مطيتکما فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : و نعم الراکبان هما

’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا حسن و حسین علیہما السلام گم ہو گئے ہیں راوی کہتے ہیں، دن خوب نکلا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو، راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا راستہ لیا اور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل پڑا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چلتے رہے حتیٰ کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے۔ (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے کھڑے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اُس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر سکڑ گیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حسنین کریمین علیہما السلام) کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور اُن کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر قربان، تم اللہ کے ہاں کتنی عزت والے ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ایک کو اپنے دائیں کندھے پر اور دوسرے کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔ میں نے عرض کیا : تمہاری سواری کتنی خوب ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی تو دیکھو کہ دونوں سوار کتنے خوب ہیں۔‘‘

۱.طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۶۵، رقم : ۲۶۷۷

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۲

۳.شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة والصحابه : ۳۰۹

۱۰۱. عن أبي جعفرص قال : مر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بالحسن و الحسين عليهما السلام و هو حاملهما علي مجلس من مجالس الأنصار، فقالوا : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! نعمت المطية قال : و نعم الراکبان.

’’حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کو اٹھائے ہوئے انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو انہوں نے کہا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کیا خوب سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سوار بھی کیا خوب ہیں۔‘‘

ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۸۰، رقم : ۳۲۱۸۵

۱۰۲. عن جابر رضي الله عنه قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم و هو يمشي علي أربعة، و علي ظهره الحسن و الحسين عليهما السلام، و هو يقول : نعم الجمل جملکما، و نعم العدلان أنتما

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار (دو ٹانگوں اور دونوں ہاتھوں کے بل) پر چل رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر حسنین کریمین علیہما السلام سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : تمہارا اونٹ کیا خوب ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۵۲، رقم : ۲۶۶۱

۲. صيداوي، معجم الشيوخ، ۱ : ۲۶۶، رقم : ۲۲۷

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۲

۴. رامهرمزي، امثال الحديث : ۱۲۸ رقم : ۹۸

۵. ذهبي، سير اعلام النبلاء، ۳ : ۲۵۶

۶. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، ۲ : ۱۰۹

۷. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۳۲

۱۰۳. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : وقف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم علي بيت فاطمة فسلم، فخرج إليه الحسن و الحسين عليهما السلام، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ارق بأبيک أنت عين بقة و أخذ بأصبعيه فرقي علي عاتقه، ثم خرج الآخر الحسن او الحسين مرتفعة احدي عينيه، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مرحبا بک ارق بأبيک أنت عين البقة و أخذ بأصبعيه فاستوي علي عاتقه الآخر.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر کے سامنے رکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمۃ الزھراء کو سلام کیا۔ اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام میں سے ایک شہزادہ گھر سے باہر آ گیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ہاتھ سے پکڑا پس وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔ پھر دوسرا شہزادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تکتا ہوا باہر آگیا تو اسے بھی فرمایا : خوش آمدید، اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی انگلیوں کے ساتھ پکڑا پس وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۴۹، رقم : ۲۶۵۲

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۰