کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ0%

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہر القادری
زمرہ جات: مشاہدے: 11995
ڈاؤنلوڈ: 2719

تبصرے:

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11995 / ڈاؤنلوڈ: 2719
سائز سائز سائز
کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کنزالمطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب

تالیف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

تحقیق و تدوین : محمد علی قادری، فیض اﷲ بغدادی (منہاجینز)

زیر اِہتمام : فرید ملت (رح) ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ

www.research.com.pk

مطبع : منہاجُ القرآن پرنٹرز، لاہور

اِشاعتِ اوّل : اپریل ۲۰۰۵ء

تعداد : ۱۱۰۰

مَوْلَاي صَلِّ وَ سَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا

عَلٰي حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ کُلِّهِم

وَ الآلِ وَ الصَّحْبِ ثُمَّ التَّابِعِيْنَ لَهُمْ

أَهْلِ التُّقٰي وَ النُّقٰي و الْحِلْمِ وَ الْکَرَم

(صَلَّي اﷲُ تَعَالٰي عَلَيْهِ وَ عَلٰي آلِه وَ اَصْحَابِه وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ)

باب۱

(۱)بَابٌ فِيْ کَوْنِهِ رضي الله عنه أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَ صَلَّي

(قبولِ اسلام میں اوّل اور نماز پڑھنے میں اوّل)

۱. عَنْ أَبِيْ حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱ : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، ۵ / ۶۴۲، الحديث رقم : ۳۷۳۵، و الطبراني في المعجم الکبير، ۱۱ / ۴۰۶، الحديث رقم : ۱۲۱۵۱، والهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۰۲.

۲. فِي رِوَايَةٍ عَنْهُ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ رضي الله عنه رَوَاهُ أَحْمَدُ.

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔

’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۲ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۴ / ۳۶۷، و الحاکم في المستدرک، ۳ / ۴۴۷، الحديث رقم : ۴۶۶۳، و ابن أبي شيبة في المصنف، ۶ / ۳۷۱، الحديث رقم : ۳۲۱۰۶، و الطبراني في المعجم اکبير، ۲۲ / ۴۵۲، الحديث رقم : ۱۱۰۲.

۳. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّي عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۳ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، ۵ / ۶۴۰، الحديث رقم : ۳۷۲۸، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، ۳ / ۱۲۱، الحديث رقم : ۴۵۸۷، و المناوي في فيض القدير، ۴ / ۳۵۵.

۴. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّي عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ قَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيْ هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّيْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُوْبَکْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلَامٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِيْنَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَّاءِ خَدِيْجَةُ.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور بعض نے کہا : سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام لائے جبکہ بعض محدثین کا کہنا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے اور عورتوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘

الحديث رقم ۴ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، ۵ / ۶۴۲، الحديث رقم : ۳۷۳۴.

۵. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِيْجَةَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۵ : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۳۳۰، الحديث رقم : ۳۰۶۲، و ابن ابي عاصم في السنة، ۲ / ۶۰۳، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۱۹، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، ۳ / ۲۱.

۶. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، بَعْدَ خَدِيْجَةَ، عَلِيٌّ، وَ قَالَ مَرَّةً : أَسْلَمَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد سب سے پہلے جو شخص اسلام لایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۶ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۳۷۳، الحديث رقم : ۳۵۴۲، و الطيالسي في المسند، ۱ / ۳۶۰، الحديث رقم : ۲۷۵۳.

۷. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ إِيَاسِ بْنِ عَفِيْفٍ الْکِنْدِيِّ عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّه، قَالَ : کُنْتُ امْرَءً ا تَاجِرًا، فَقَدِمْتُ الْحَجَّ فَأَتَيْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لأَبْتَاعَ مِنْهُ بَعْضَ التِّجَارَةِ وَ کَانَ امْرَءً ا تَاجِرًا، فَوَاﷲِ إِنِّيْ لَعِنْدَهُ بِمِنًی، إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ خِبَاءٍ قَرِيْبٍ مِْنهُ فَنَظَرَ إِلَی الشَّمْسِ، فَلَمَّا رَهَا مَالَتْ، يَعْنِي قَامَ يُصَلِّي قَالَ : ثُمَّ خَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ ذَلِکَ الْخِبَاءِ الَّذِيْ خَرَجَ مِنْهُ ذَلِکَ الرَّجُلُ، فَقَامَتْ خَلْفَهُ تُصَلِّي، ثُمَّ خَرَجَ غُلَامٌ حِيْنَ رَهَقَ الْحُلُمَ مِنْ ذَلِکَ الْخِبَاءِ، فَقَامَ مَعَهُ يُصَلِّي. قَالَ : فَقُلْتُ لِلْعَبَّاسِ : مَنْ هَذَا يَا عَبَّاسُ؟ قَالَ : هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنُ أَخِيْ قَالَ : فَقُلْتُ : مَنِ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ : هَذِهِ امْرَأَتُهُ خَدِيْجَةُ ابْنَةُ خُوَيْلَدٍ قَالَ : قُلْتُ : مَنْ هَذَا الْفَتَی؟ قَالَ : هذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ابْنُ عَمِّهِ قَالَ : فَقُلْتُ : فَمَا هذَا الَّذِيْ يَصْنَعُ؟ قَالَ : يُصَلِّيْ وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَ لَمْ يَتْبَعْهُ عَلَی أَمْرِهِ إِلاَّ امْرَأْتُهُ وَ ابْنُ عَمِّهِ هَذَا الْفَتٰی وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَيُفْتَحُ عَلَيْهِ کُنُوْزُ کِسْرَی وَ قَيْصَرَ قَالَ : فَکَانَ عَفِيْفٌ وَ هُوَ ابْنُ عَمِّ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ يَقُوْلُ : وَ أَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِکَ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ لَوْ کَانَ اﷲُ رَزَقَنِيَ اْلإِسْلَامَ يَوْمَئِذٍ، فَأَکُوْنَ ثَالِثًا مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت اسماعیل بن ایاس بن عفیف کندی صاپ نے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک تاجر تھا، میں حج کی غرض سے مکہ آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا تاکہ آپ سے کچھ مال تجارت خرید لوں اور آپ رضی اللہ عنہ بھی ایک تاجر تھے۔ بخدا میں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس منی میں تھا کہ اچانک ایک آدمی اپنے قریبی خیمہ سے نکلا اس نے سورج کی طرف دیکھا، پس جب اس نے سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں : پھر اسی خیمہ سے جس سے وہ آدمی نکلا تھا ایک عورت نکلی اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوگئی پھر اسی خیمہ میں سے ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا نکلا اور اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا اے عباس! یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ میرابھتیجا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہے۔ میں نے پوچھا : یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا : یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میں نے پوچھا : یہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ ان کے چچا کا بیٹا علی بن ابی طالب ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیا کام کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نبی ہیں حالانکہ ان کی اتباع سوائے ان کی بیوی اور چچا زاد اس نوجوان کے کوئی نہیں کرتا اور وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں : عفیف جو کہ اشعث بن قیس کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے بعد اسلام لائے، پس اس کا اسلام لانا اچھا ہے مگر کاش اﷲ تبارک و تعالیٰ اس دن مجھے اسلام کی دولت عطا فرما دیتا تو میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تیسرا اسلام قبول کرنے والا شخص ہو جاتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۷ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۲۰۹ و الحديث رقم : ۱۷۸۷، و ابن عبد البر في الإستيعاب، ۳ / ۱۰۹۶، و المقدسي في الأحاديث المختارة، ۸ / ۳۸۸، الحديث رقم : ۶۴۷۹.

۸. عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُوْلُ : أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ صَلَّی مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۸ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۱۴۱، الحديث رقم : ۱۱۹۱، وابن ابي شيبة في المصنف، ۶ / ۳۶۸، الحديث رقم : ۳۲۰۸۵، و الشيباني في الآحاد و المثاني، ۱ / ۱۴۹، الحديث رقم : ۱۷۹.

۹. عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا ضَحِکَ عَلَی الْمِنْبَرِ، لَمْ أَرَهُ ضَحِکَ ضِحْکًا أَکْثَرَ مِنْهُ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ثُمَّ قَالَ : ذَکَرْتُ قَوْلَ أَبِيْ طَالِبٍ ظَهَرَ عَلَيْنَا أَبُوْطَالِبٍ وَ أنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ نَحْنُ نُصَلِّيْ بِبَطْنِ نَخْلَةَ، فَقَالَ : مَا تَصْنَعَانِ يَا بْنَ أَخِيْ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ : مَا بِالَّذِيْ تَصْنَعَانِ بَأْسٌ أَوْ بِالَّذِيْ تَقُوْلَانِ بَأْسٌ وَ لَکِنْ وَاﷲِ! لَا تَعْلُوْنِيْ سِنِّيْ أَبَدًا! وَضَحِکَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أَبِيْهِ ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ! لَا أَعْتَرِفُ أَنَّ عَبْدًا لَکَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَبَدَکَ قَبْلِيْ، غَيْرَ نَبِيِّکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ لَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ سَبْعًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اپنے والد ابو طالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس آئے جبکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم وادیء نخلہ میں نماز ادا کر رہے تھے، پس انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : جو کچھ آپ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی اس بات پر ہنس دئیے پھر فرمایا : اے اﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا : تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۹۹، الحديث رقم : ۷۷۶، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۰۲، و الطيالسي في المسند، ۱ / ۳۶، الحديث رقم : ۱۸۸.

۱۰. عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ : أَوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَرُوْدًا عَلَي نَبِيِّهَا صلی الله عليه وآله وسلم أَوَّلُهَا إِسْلَامًا، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه. رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَه وَ الطَّبَرَانِيٌّ وَالْهَيْثَمِيُّ.

’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، امام طبرانی اور امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۰ : أخرجه ابن أبي شيبه في المصنف، ۷ / ۲۶۷، الحديث رقم : ۳۵۹۵۴، و الطبراني في المعجم الکبير، ۶ / ۲۶۵، الحديث رقم : ۶۱۷۴، والهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۰۲، والشيباني في الآحاد والمثاني، ۱ / ۱۴۹، الحديث رقم : ۱۷۹

۱۱. عَنْ مُجَاهِدٍ أَوَّلُ مَنْ صَلَّی عَلِيٌّ، وَ هُوَ ابْنُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ : أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَ هُوَ ابْنُ تِسْعِ سِنِيْنَ وَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ، حِيْنَ دَعَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ کَانَ ابْنَ تِسْعِ سِنِيْنَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ زَيْدٍ وَ يُقَالُ : دُوْنَ تِسْعِ سِنِيْنَ وَ لَمْ يَعْبُدِ الْأَوْثَانَ قَطُّ لِصِغَرِهِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی.

’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی اور وہ اس وقت دس سال کے تھے اور حضرت محمد بن عبد الرحمٰن بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نو سال سے بھی کم عمر میں اسلام لائے لیکن آپ نے اپنے بچپن میں بھی کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۱ : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، ۳ / ۲۱

باب۲

(۲)بَابٌ فِي إِخْتِصَاصِ زِوَاجِهِ رضی الله عنه بِسَيِّدَةِ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ رضی اﷲ عنها

(سیدہ کائنات فاطمہ الزھراء رضی اﷲ عنہا سے شادی کا اعزاز پانے والے)

۱۲. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اﷲ عنهما، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِيْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۲ : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، ۱۰ / ۱۵۶، رقم؛ ۱۰۳۰۵، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۲۰۴، والمناوي في فيض القدير، ۲ / ۲۱۵، و الحسيني في البيان و التعريف، ۱ / ۱۷۴.

۱۳. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ عَنْ أُمِّ أَيْمَنَ قَالَتْ : زَوَّجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ابْنَتَهُ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَی فَاطِمَةَ حَتَّی يَجِيْئَهُ. وَکَانَ الْيَهُوْدُ يُؤَخِّرُوْنَ الرَّّجُلَ عَنْ أَهْلِهِ. فَجَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی وَقَفَ بِالْبَابِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَقَالَ : أَثَمَّ أَخِيْ؟ فَقَالَتْ أُمُّ أَيْمَنَ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَارَسُوْلَ اﷲِ! مَنْ أَخُوْکَ؟ قَالَ : عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ : وَکَيْفَ يَکُوْنُ أَخَاکَ وَقَدْ زَوَّجْتَهُ ابْنَتَکَ؟ قَالَ : هُوَ ذَاکَ يَا أُمَّ أَيْمًنَ، فَدَعَا بِمَاءِ إِنَاءٍ فَغَسَلَ فِيْهِ يَدَيْهِ ثُمَّ دَعَا عَلِيًّا فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَنَضَخَ عَلَی صَدْرِهِ مِنْ ذَلِکَ الْمَاءِ وَبَيْنَ کَتِفَيْهِ، ثُمَّ دَعَا فَاطِمَةَ فَجَاءَتْ بِغَيْرِ خِمَارٍ تَعْثُرُ فِي ثَوْبِهَا ثُمَّ نَضَخَ عَلَيْهَا مِنْ ذَلِکَ الْمَاءِ، ثُمَّ قَالَ : واﷲِ مَا أَلَوْتُ أَنْ زَوَّجْتُکِ خَيْرَ أَهْلِيْ وَ قَالَتْ أُمُّ أَيْمَنَ : وُلِيْتُ جِهَازَهَا فَکَانَ فِيْمَا جَهَزْتُهَا بِهِ مِرْفَقَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيْفٌ، وَبَطْحَاءُ مَفْرُوشٌ فِي بَيْتِهَا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَیٰ

’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ حضرت اُم ایمن رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ فاطمہ کے پاس جائیں یہاں تک کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آگئے (یہ حکم اس لیے فرمایا گیا کہ یہودیوں کی مخالفت ہو کیونکہ یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ شوہر کی اپنی بیوی سے پہلی ملاقات کرانے میں تاخیر کرتے تھے)۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہاں میرا بھائی ہے؟ تو ام ایمن نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں. آپ کا بھائی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا بھائی علی بن ابی طالب ہے پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ آپ کے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح ان کے ساتھ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ام ایمن ! وہ اسی طرح ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اس میں اپنے ہاتھ مبارک دھوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پانی میں سے کچھ آپ رضی اللہ عنہ کے سینہ پر اور کچھ آپ رضی اللہ عنہ کے کندھوں کے درمیان چھڑکا۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بلایا پس آپ اپنے کپڑوں میں لپٹی ہوئی آئیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پانی آپ رضی اﷲ عنہا پر بھی چھڑکا پھر فرمایا : خدا کی قسم! اے فاطمہ! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں سے بہترین شخص کے ساتھ کر دی ہے اور تمہارے حق میں کوئی تقصیر نہیں کی۔ حضرت ام ایمن فرماتی ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے جہیز کی ذمہ داری سونپی گئی پس جو چیزیں آپ رضی اﷲ عنہا کے جہیز میں تیار کی گئیں ان میں ایک چمڑے کا تکیہ تھا جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا اور ایک بچھونا تھا جو آپ رضی اﷲ عنہا کے گھر بچھایا گیا۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳ : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، ۸ / ۲۴.

۱۴. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ : هَذَا جِبْرِيْلُ يُخْبِرُنِيْ أَنَّ اﷲَ عزوجل زَوَّجَکَ فَاطِمَةَ، وَ أَشْهَدَ عَلَی تَزْوِيْجِکَ أَرْبَعِيْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، وَ أَوْحٰی إِليَ شَجَرَةِ طُوْبٰی أَنِ انْثُرِيْ عَلَيْهِمُ الدُّرَّ وَاليَاقُوْتَ، فَنَثَرَتْ عَلَيْهِمُ الدُّرَّ وَ اليَاقُوْتَ، فَابْتَدَرَتْ إِلَيْهِ الْحُوْرُ الْعِيْنُ يَلْتَقِطْنَ مِنْ أَطْبَاقِ الدُّرِّ وَ اليَاقُوْتِ، فَهُمْ يَتَهَادُوْنَهُ بَيْنَهُمْ إِليَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبْرِيُّ فِي الرِّيَاضِ النَّضِرَةِ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں جو مجھے خبر دے رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے فاطمہ سے تمہاری شادی کر دی ہے۔ اور تمہارے نکاح پر (ملاء اعلیٰ میں) چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا، اور شجر ہائے طوبی سے فرمایا : ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو، پھردلکش آنکھوں والی حوریں اُن موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے) فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحائف دیتے رہیں گے۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۴ : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ / ۱۴۶ و في ذخائر العقبي في مناقب ذَوِي القربي : ۷۲

۱۵. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَتَانِي مَلَکٌ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اﷲَ تَعَالٰي يَقْرَأُ عَلَيْکَ السَّلَامَ، وَ يَقُوْلُ لَکَ : إِنِّيْ قَدْ زَوَّجْتُ فَاطِمَةَ ابْنَتَکَ مِنْ عَلِيِّّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ فِيْ المَلَأِ الْأَعْلَي، فَزَوِّجْهَا مِنْهُ فِي الْأَرْضِ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبْرِيُّ فِي ذَخَائِرِ الْعُقْبَي.

’’حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس ایک فرشتے نے آ کر کہا ہے اے محمد! اﷲ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے : میں نے آپ کی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح ملاء اعلیٰ میں علی بن ابی طالب سے کر دیا ہے، پس آپ زمین پر بھی فاطمہ کا نکاح علی سے کر دیں۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا۔‘‘

الحديث رقم ۱۵ : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : ۷۳