اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20498
ڈاؤنلوڈ: 2821

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20498 / ڈاؤنلوڈ: 2821
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب نامہ: اصول دین سے آشنائی

حضرت آیة الله العظمیٰ حاج شیخ حسین وحید خراسانی مدظلہ العالی کی توضیح المسائل کا مقدمہ

ناشر: مدرسة الامام الباقر العلوم علیہ السلام

دوسرا ایڈیشن: ۱ ۴ ۲۸ ھ، مطابق ۲۰۰۷ ء

پریس: نگارش

ملنے کا پتہ:

قم، صفائیہ روڈ، گلی نمبر ۳۷ ، مکان نمبر ۲۱ ، ٹیلیفون: ۷۷ ۴ ۳۲ ۵۶ ۔ ۰۲ ۵ ۱

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَصَلَّی اللّٰهُ عَلیٰ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ الطَّاهِرِيْنَ، لاَ سِيِّمَا بَقِيَّةِ اللّٰهِ فِی اْلا رََٔضِيْن

پیش گفتار

یہ کتا ب فروع دین سے متعلق ہے،لیکن یہ مقدمہ اصول دین سے آگاہی کی غرض سے لکها گیاہے۔جس طرح نور کے مراتب ہیں اور سورج وشمع کا نور بھی حقیقی نور کے مراتب میں سے ہیں، اسیطرح اصول دین کی معرفت کے بھی مراتب ہیں۔یہ مقدمہ کوئی عمیق تحقیق نہیں، بلکہ اس راہ میں قدم رکھنے والوں کے لئے اصول دین سے آشنائی کی حد تک ایک شمع کی مانند ہے۔

اس مقدمے میں عقلی اعتبار سے نهایت آسان تمهیدات پر مبنی دلائل سے استدلال کیا گیا ہے اورروائی اعتبار سے ان منقولات پر مشتمل ہے جو سنی اور شیعہ کی کتبِ احادیث اور مشہور تواریخ میں مذکور ہیں اور اس بارے میں خبر دینے کے لئے،اگر چہ راوی ثقہ ہے یا جو بات نقل کی گئی ہے موردوثوق ہے،ہمارا مستند وہی کتب ہیں جهاں سے ہم نے انہیں نقل کیا ہے۔

مبانیِ دین میں انوار آیات وروایات سے پر تو افشانی اس لئے کی گئی ہے کہ قرآن وسنت، فطرت کو بیدار کرنے والے اور حکمت کے دقیق ترین قواعد پر مشتمل ہیں۔

روایات کے ترجمے میں مضمون حدیث کے تقریباًمطابق، مختصر مضمون کو پیش کیا گیا ہے،عمومی جہت کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض دقیق علمی نکات سے صرف نظر کی گئی ہے اور اختصار کے پیش نظر مطالب سے مربوط تمام جهات کو پیش نہیں کیا گیا ہے۔

اصول دین کی مقدماتی بحثیں

اصول دین کے بیان سے پهلے چند امور کی جانب توجہ ضروری ہے:

۱۔تحصیل معرفت کا ضروری ہونا :

مبدا ومعاد کے وجود کا احتمال، معرفت دین اور اس سلسلے میں تلاش و جستجو کو ضروری قرار دیتا ہے، کیونکہ اگر خالقِ جهاں، علیم وحکیم ہو،زندگی کا اختتام موت نہ ہو،خالق انسان نے اسے کسی مقصد و ہدف کے تحت خلق کیا ہو اور اس کے لئے ایک ایسا نظام معین کیا ہو جس کی مخالفت ابدی بد بختی کاسبب ہو تو انسانی جبلت وفطرت اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ چاہے یہ احتمال کم ہی کیوں نہ ہو، لیکن جس چیز کا احتمال دیا جارہا ہے اس کی عظمت واہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، تاکہ تحقیق کے ذریعے منفی یا مثبت نتیجے تک پهنچا جا سکے۔جیسا کہ اگر بجلی کے تار میں شارٹ سرکٹ کا احتمال ہو اور طے ہو کہ اس صورت میں زندگی آگ کا لقمہ بن سکتی ہے تو انسان اس وقت تک آرام وچین سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے خطرہ ٹلنے کا یقین نہ ہوجائے۔

۲۔انسان کو دینِ حق کی ضرورت :

انسان کا وجودجسم وروح اور عقل وہوس کا مرکب ہے اور اسی کا اثر ہے کہ اس کی فطرت مادی ومعنوی سعادت اور کمال مقصد تخلیق کو پانے کی جستجو میں ہے۔

ادہر انسان کی زندگی کے دو پهلو ہیں، فردی او ر اجتماعی،بالکل ایسے ہی جیسے انسانی بدن کا ہر عضو اپنی ذاتی زندگی سے قطع نظر دوسرے اعضاء کے ساته بھی متقا بلاًتاثیر و تا ثر رکھتا ہے۔

لہٰذا ، انسان کو ایسے قانون وآئین کی ضرورت ہے جو اسے مادی ومعنوی سعادت اور پاک وپاکیزہ انفرادی اوراجتماعی زندگی کی ضمانت دے اور ایسا آئین، دین حق ہے کہ جس کی انسان کو فطری طور پر ضرورت ہے( فَا قَِٔمْ وَجْهَکَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ) (۱)

____________________

۱ سورہ روم، آیت ۳۰ ۔ ”پس (اے نبی!) تم خالص دل سے دین کی طرف اپنا رخ کئے رہو خدا کی بنائی ہوئی سرشت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے “۔

هر موجود کے لئے ایک کمال ہے جس تک رسائی،اس کے مربوطہ تکامل وتربیت کے لئے معین کردہ قاعدے و قانون کی اتباع کے بغیر ناممکن ہے اور انسان بھی اس عمومی قاعدے و قانون سے مستشنیٰ نہیں( قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْ ا عَْٔطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَه ثُمَّ هَدیٰ ) (۱)

۳۔انفرادی زندگی میں دین کا کردار

انسان کی زندگی متن وحاشیہ اور اصل وفرع پر مشتمل ہے۔متن واصل، خود اس کا اپنا وجود ہے اور حواشی وفروع وہ چیزیںہیں جو اس انسان سے تعلق رکھتی ہیں جیسے مال،مقام،شریک حیات،اولاد اور رشتہ دار۔

اپنی ذات اور اس سے متعلق اشیاء کی محبت نے انسانی زندگی کو دو آفتوں،غم واندوہ اور خوف وپریشانی کا آمیزہ بنا رکھا ہے۔جوکچھ اس کے پاس نہیں ہے اسے حاصل کرنے کا غم واندوہ اورجوکچھ اس کے پاس ہے،حوادث زمانہ کے تحت اسے کهو دینے کا خوف و اضطراب۔

خداوندِ متعال پر ایمان ان دونوں آفتوں کو جڑ سے اکهاڑ پهینکتا ہے،کیونکہ عالم وقادر اور حکیم ورحیم پروردگار پر ایمان، اسے اپنی مقررہ ذمہ داریوں سے عهدہ بر آہونے پر ابهارتا ہے اور فرائض بندگی پر عمل پیرا ہو کر وہ جان لیتا ہے کہ خداوندِمتعال اپنی حکمت ورحمت کے وسیلے سے، خیر وسعادت کا باعث بننے والی چیزیں اسے عنایت فرمائے گا اور اسبابِ شر و شقاوت کو اس سے دور فرمائے گا۔

بلکہ، اس حقیقت مطلق کو پا لینے کے بعد، کہ جس کے مقابلے میں ہر حقیقت مجاز ہے اور جس کے علاوہ باقی سب بظاہر پانی دکهائی دینے والے سراب ہیں،اس نےکچھ کهویا ہی نہیں اور اس امر پر یقین و ایمان رکھتے ہوئے کہ( مَا عِنْدَکُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَاللّٰهِ بَاقٍ ) (۲)

کسی بھی فانی وناپائدار چیز میں اس کے لئے جاذبیت ہی نہیں کہ اس کے نہ ہونے سے غمگین اور چهن جانے سے مضطرب ہو( ا لَٔاَ إِنَّ ا ؤَْلِيَاءَ اللّٰهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُوْنَة الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ کَانُوْا يَتَّقُوْنَةلَهُمُ الْبُشْریٰ فِی الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ فِی اْلآخِرَةِ لاَ تَبْدِيْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰهِ ذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ) (۳)

اس زندگی میں انسانی اعصاب کو کهوکهلا کر دینے والی چیز، مادی خواہشات کو پانے کی خوشی اور انہیں نہ پانے کے دکه سے حاصل ہونے والی اضطرابی وہیجانی کیفیت ہے اور لنگر ایمان ہی ان طوفانی امواج میں مومن کو آرام واطمینان عطا کیا کرتاہے( لِکَيَلاَ تَا سَْٔوْا عَلیٰ مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَا ا تََٔاکُمْ ) (۴)

( اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِکْرِ اللّٰهِ ا لَٔاَ بِذِکْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ) (۵)

۴ ۔اجتماعی زندگی میں دین کا کردار

زیادہ سے زیادہ پانے کی ہوس کے غریزئہ افزون طلبی کی بدولت انسان میں موجود شہوت وغضب کسی حد تک محدود نہیں۔اگر مال کی شہوت اس پر غلبہ کر لے تو زمین کے خزانے بھی اسےقانع نہیں کر سکتے اور اگر مقام کی شہوت اس پر سوار ہو جائے تو روئے زمین کی حکومت و بادشاہی

____________________

۱ سورہ طہٰ، آیت ۵۰ ۔”موسیٰ نے کها ہمارارب وہ ہے جس نے ہر شئے کو اس کی خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے“۔

۲ سورہ نحل، آیت ۹۶ ۔”جوکچھ تمهارے پاس ہے وہ سب تمام ہو جائے گا اور جوکچھ الله کے پاس ہے وہی باقیرہنے والا ہے“۔

۶۴ ۔۶۳ ، ۳ سور ہ یونس ، آیت ۶۲” آگاہ ہو جاو کہ اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور ،زنجیدہ ہوتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور خدا سے ڈرتے رہے ۔ان کے لئے زندگانی دنیا اور آخرت دونوں مقاماتپر بشارت اور خوشخبری ہے اور کلمات خدا میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے اور یهی در حقیقت عظیم کامیابی ہے“۔

۴ سورہ حدید ، آیت ۲۳ ۔ ”جو چیز تم سے جاتی رہی تو تم اس کا رنج نہ کیا کرو اور جب کوئی چیز (نعمت) تم کو خدادے تو اس پر نہ اِتریا کرو“۔

۵ سورہ رعد ، آیت ۲۸ ۔”یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ہو تاہے اور آگاہ ہو جاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہو تا ہے“۔

اس کے لئے ناکافی ثابت ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسرے سیاروں پر اپنی قدرت و حاکمیت کا پرچم لهرائے( وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَاهَامَانُ ابْنِ لِیْ صَرْحاً لَعَلِّیْ ا بَْٔلُغُ اْلا سَْٔبَابَة ا سَْٔبَابَ السَّمَاوَاتِ ) (۱)

انسان کا سر کش نفس، شکم ودامن، مال و مقام کی شہوت اور کبھی ختم نہ ہونے والی اندہی ہوس کے لئے قوتِ غضب کو کام میں لانے کے بعد کسی حدو حدود کو خاطر میں نہیں لاتا اور کسی بھی حق کو پامال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ ایسی نفسانی شہوت کا نتیجہ بربادی اور ایسے غضب کا انجام خونریزی اور خاندانوں کے اجڑنے کے علاوہکچھ اور نہیں ہو سکتا، کیونکہ انسان اپنی قوتِ فکر کے ذریعے اسرار طبیعت کے طلسم کو توڑنے اور اس کی قوتو ں کو اپنا غلام بنا کر اپنی نامحدود نفسانی خواہشات کو پا نے کے لئے حیات، بلکہ کرہ ارض کو جو انسانی حیات کا گہوارہ ہے،نابودی کی طرف لے جا رہا ہے( ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ ا ئَْدِی النَّاسِ ) (۲)

مبدا ومعاد اور ثواب وعقاب پر ایمان کی طاقت ہی اس سر کش نفس کو مهار،انسانی شہوت وغضب کو تعادل اور فردی واجتماعی حقوق کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے،کہ ایسے خدا پر اعتقاد جو( وَهُوَ مَعَکُمْ ا ئَْنَ مَا کُنْتُمْ ) (۳)

اور اعمال کی ایسی جزا وسزا جو( فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهة وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَه ) (۴) پر ایمان کی وجہ سے، انسان ہر خیر کی جانب گامزن اور ہر شر سے دور ہو گا اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس کی بنیاد بقاء کے لئے ٹکراو کے بجائے بقاء کے لئے مصالحت کے فلسفے پر ہوگی۔

۵ ۔اصول دین سے آگاہی کی فضیلت و عظمت

فطری طور پر انسان علم کا پیاسا ہے، اس لئے کہ جو چیز انسان کو انسان بناتی ہے،عقل ہے اور عقل کا پهل علم ہے۔ یهی وجہ ہے کہ جب کسی جاہل کو جاہل کها جائے تو یہ جاننے کے باوجود بھی کہ جاہل ہے غمگین ہو جاتا ہے اور اگر اسے علم سے نسبت دیں تو خوش ہوجاتا ہے۔

اسلام نے، جو دین فطرت ہے،علم کے مقابلے میں جهالت کو وہی مقام دیا ہے جو نور کے مقابلے میں ظلمت اور زندگی کے مقابلے میں موت کو حاصل ہے ((إنما هو نور یقع فی قلب من یرید اللّٰه تبارک وتعالی ا نٔ یهدیه ))(۵) ((العالم بین الجهال کا لحی بین الا مٔوات ))(۶)

لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ علم ذاتی طور پربا فضیلت ہونے کے باوجود مختلف مراتب کا حامل ہے،مثال کے طور پر علم کی فضیلت میں اس کے موضوع،نتیجے اور اس علم سے متعلق استدلال کی روش کے لحاظ سے تفاوت پایا جاتا ہے، جیسا کہ نباتات شناسی کی نسبت انسان شناسی اسی قدر افضل ہے جس قدر نباتات پر انسان کو فوقیت و فضیلت حاصل ہے۔انسانی زندگی کو سلامتی عطا کرنے والا علم اس کے مال کی حفاظت کرنے والے علم سے اتنا ہی اشرف و با فضیلت ہے جتنا انسانی زندگی کو اس کے مال پر برتری وفضیلت حاصل ہے اور وہ علم جس کی بنیاد دلیل و برہان پر قائم ہے فرضی نظریات کی بنیاد پر قائم شدہ علم سے اتنا ہی زیادہ باشرف ہے جتنا گمان کے مقابلے میں یقین کو برتری وشرافت حاصل ہے۔

لہٰذا، تمام علوم میں وہ علم اشرف وافضل ہے جس کا موضوع خالقِ کائنات کی ذات ہے، لیکن یہ بات مدّنظر رہے کہ غیرِ خدا کو خدا کے مقابلے میں وہ نسبت بھی حاصل نہیں ہے جو قطرے کو اقیانوس اور ذرے کو سورج کے مقابلے میں حاصل ہے۔ ان کے درمیان لا متناہی او رمتناہی کی نسبت ہے،بلکہ

____________________

۱ سورہ غافر، آیت ۳۶ ۔۳۷”اور فرعون نے کها کہ (هامان) میرے لئے ایک قلعہ تیار کر کہ میں اس کے اسباب تک ، پهنچ جاو ںٔ۔ اور جو آسمان کے راستے ہیں“۔

۲ سورہ روم ، آیت ۴۱ ۔”خود لوگوں ہی کے اپنے هاتهوں کی کارستانیوں کی بدولت خشک و تر میں فساد پهیل گیا“۔

۳ سورہ حدید ، آیت ۴ ۔”اور وہ تمهارے ساته ہے تم جهاں بھی رہو“۔

۴ سورہ زلزلة ، آیت ۷،۸ ۔”پھر جس شخص نے ذرہ بهر برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا۔اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا“۔

۵ بحار الانوار،جلد ۱، صفحہ ۲۲۵ ۔”بے شک صرف وہ ”علم “نور ہے کہ خدای متعال جس کی ہدایت چاہتا ہے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے“۔

۶ بحارالانوار جلد ۱، صفحہ ۱۷۲ ۔”جاہلوں کے درمیان ایک عالم ایسا ہے جیسے مردوں میں زندہ“۔

دقیق نظر سے دیکھیں تولا شئی اور فقیر بالذات کا غنی بالذات سے کوئی مقابلہ ہی نہیں( وَعَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَیِّ الْقَيُّوْمِ ) (۱)

اور اس علم کا ثمر ونتیجہ ایمان وعملِ صالح ہیں جن کی بدولت انسان کو دنیوی اور اخروی سعادت کے علاوہ انفردی و اجتماعی حقوق حاصل ہوتے ہیں( مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ ا ؤًْ اُنْثٰی وَهُوَ مُو مِْٔنٌ فَلَنُحْيِيَنَّه حَيَاةً طَيِّبَةً ) (۲) اور اس علم کی بنیاد،یقین و برہان پرہے،ظن وگمان کی پیروی پر نہیں۔( اُدْعُ إِلیٰ سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ ) (۳) ( وَلاَ تَقْفُ مَالَيْسَ لَکَ بِه عِلْمٌ ) (۴) ( إِنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ) (۵)

اب تک کی گفتگوسے اس حدیث کے معنی واضح ہو جاتے ہیں کہ ((إن ا فٔضل الفرائض وا ؤجبها علی الإنسان معرفة الرّب والإقرار له بالعبودیة ))(۶)

۶ ۔ایمان ومعرفتِ پر وردگار تک رسائی کی شرط

انسان، ہر اثر کے مؤثر کی تلاش وجستجو میں ہے اور فطرتِ انسانی، سر چشمہ وجود کو پانے کی پیاسی ہے۔

لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ گوہرِ ایمان اور معرفت پر وردگارِعالم، جو گنجینہ علم ومعرفت کے انمول جواہر ہیں، عدل وحکمت کے قاعدے وقانون کے مطابق کسی ایسے شخص کو نصیب نہیں ہو سکتے جو ایمان و معرفتِ پروردگار عالم کے حق میںظلم سے آلودہ ہو، کیونکہ نا اہل کو حکمت عطاکرنا حکمت کے ساته ظلم ہے اور اہل سے دریغ کرنا اہل حکمت کے ساته ظلم وزیادتی ہے۔

اور یہ جاننا نهایت ضروری ہے کہ خدا اور قیامت کا انکار اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان تمام هستی کا احاطہ کر نے اورعلل ومعلولات کے تمام سلسلوں تک پهنچنے کے بعد بھی مبدا ومعادکو نہ پا سکے اور جب تک مذکورہ امور پر محیط فهم وادراک پیدا نہ ہوگا، مبدا ومعا د کے نہ ہونے کا یقین محال ہے، بلکہ جو ممکن ہے وہ مبدا ومعاد کو نہ جاننا ہے۔

لہٰذا، عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس کسی کو بھی الله کے وجود کے بارے میں شک ہے اسے چاہئے کہ قولی اور عملی طور پر مقتضائے شک پر عمل کرے۔مثال کے طورپر اگر کوئی شخص ایسے خدا کے وجود کا احتمال دے کہ جس پر ایمان کی بدولت ابدی سعادت اور ایمان نہ ہونے کی صورت میں ابدی شقاوت اسے نصیب ہو سکتی ہے،عقلی نکتہ نظر سے اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دل وزبان سے اس کے وجود کا انکار نہ کرے اور عملی میدان میں جس قدر ممکن ہو اس حقیقت کی تلاش و جستجو میں کوشاں رہے اور منزلِ عمل میں احتیاط کا دامن نہ چهوڑے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پروردگا رکی ذات موجود ہو جس کے احکامات سے سر تابی ابدی شقاوت کا باعث ہو، بالکل اسی طرح جیسے لذیذ ترین کهانے میں زهر کا احتمال دینے پربحکم عقل اس کهانے سے پرہیز ضروری ہے۔

خدا کے وجود میں شک کرنے والا ہر شخص، اگرعقل کے اس منصفانہ حکم کے مطابق عمل کرے تو بغیر کسی شک وتردید کے، معرفت وایمانِ خدا کو پالے گا( وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ) (۷)

ورنہ اس حقیقت کی ظلم سے آلودگی کے ساته اس قدوس و متعال ذات کی معرفت حاصل نہ ہوگی( يُو تِْٔی الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يُّو تَْٔ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُْتِیَ خَيْرًا کًثِيْراً ) (۸)

____________________

۱ سورہ طہ ، آیت ۱۱۱ ۔”اس دن سار ے چهرے خدائے حی وقیوم کے سامنے جهکے ہوں گے“۔

۲ سورہ نحل ، آیت ۹۷ ۔” جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہوہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے“۔

۳ سورہ نحل، آیت ۱۲۵ ۔”آپ دعوت دیں اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت سے“۔

۴ سورہ اسراء، آیت ۳۶ ۔”اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کی پیروی مت کرنا“۔

۵ سورہ یونس، آیت ۳۶ ۔”بے شک گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پهنچا سکتا“۔

۶ بحارالانوار، جلد ۴،صفحہ ۵۵ٔ ۔”سب بڑا واجب انسان پر یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے اور اس کی عبودیت (بندگی) کا اقرار کرے“۔

۷ سورہ عنکبوت، آیت ۶۹ ۔”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جهاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے“ ۔

۸ سورہ بقرة، آیت ۲۶۹ ۔”وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اسے گویاخیر کثیر عطا کردیا گیا “۔

( وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظَّالِمِيْنَ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاءُ ) (۱)

مذکورہ بالا نکات کی وضاحت کے بعد اب ہم اصول دین کی بحث شروع کرتے ہیں:

خدا پر ایمان لانے کا راستہ :

خدا پر ایمان لانے کی راہیں متعدد ہیں :

اہل الله کے لئے اس کی دلیل ومعرفت کا ذریعہ خود اس کی ذات ہے( ا ؤََ لَمْ يَکْفِ بِرَبِّکَ ا نََّٔه عَلیٰ کُلِّ شَیْء شَهِيْد ) (۲) ((یا من دل علی ذاته بذاته ))(۳) ،((بک عرفتک وا نٔت دللتنی علیک ))(۴)

اوراہل الله کے علاوہ بقیہ افراد کے لئے چند راہوں کی طرف مختصر طور پر اشارہ کرتے ہیں :

الف):انسان جب بھی خود اپنے یا اپنے حیطہ ادراک میں موجود، موجودات کے کسی بھی جزء کے متعلق غور کرے تو اس نتیجے پر پهنچے گا کہ اس جزء کا نہ ہونا محال نہیں ہے اور اس کا ہونا یا نہ ہونا ممکن ہے۔اس کی ذات عدم کی متقاضی ہے اور نہ ہی وجود کی۔اور مذکورہ صفت کی حامل ہر ذات کوموجود ہونے کے لئے ایک سبب کی ضرورت ہے، اسی طرح جس طرح ترازو کے دو مساوی پلڑوں میں سے کسی ایک پلڑے کی دوسرے پر ترجیح بغیرکسی بیرونی عامل وسبب کے ناممکن ہے، اس فرق کے ساته کہ ممکن الوجود اپنے سبب کے ذریعے موجود ہے اور سبب نہ ہونے کی صورت میں عدم کا شکار ہے اور چونکہ اجزاء عالم میں سے ہر جزء کا وجود اپنے سبب کا محتاج ہے، لہٰذااس نے یا توخود اپنے آپ کو وجود عطا کیا ہے یا موجودات میں سے اسی جیسے موجود نے اسے وجود بخشا ہے۔

لیکن جب اس کا اپنا وجود ہی نہ تھا تو خود کو کیسے وجود عطا کرسکتا ہے او راس جیساممکن الوجودجس چیز پر خود قادر نہیں غیر کو کیا دے گا۔اور یہ حکم وقاعدہ جوکائنات کے ہر جزء میں جاری ہے، کل کائنات پر بھی جاری وساری ہے۔

جیسا کہ ایک روشن فضاکا وجود،جس کی اپنی ذاتی روشنی کوئی نہیں اس بات کی دلیل ہے کہ اس روشنی کامبدا ضرور ہے جو اپنے ہی نور سے روشن ومنور ہے ورنہ ایسے مبدا کی غیر موجودگی میں فضا کا روشن ومنور ہونا ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ ذاتی طور پر تاریک موجو د کا غیر ، تو درکنار خود کو روشن کرنا بھی محال ہے۔

اسی لئے وجود کائنات اور اس کے کمالات ،مثال کے طورپر حیات، علم اور قدرت، ایک ایسی حقیقت کے وجود کی دلیل ہیں جس کا وجود، حیات، علم اورقدرت کسی غیر کے مرہون منت نہیں( ا مَْٔخُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَیْءٍ ا مَْٔ هُمُ الْخَالِقُوْنَ ) (۵) ((عن ابی الحسن بن موسی الرضا (ع) ا نٔه دخل علیه رجل فقال له: یا ابن رسول اللّٰه! ما الدلیل علی حدوث العالم؟ فقال (ع): ا نٔت لم تکن ثم کنت وقد علمت ا نٔک لم تکوّن نفسک ولا کوّنک من هو مثلک ))(۶)

ابو شاکر دیصانی نے چھٹے امام (ع) سے پوچها: اس بات کی کیا دلیل ہے کہ آپ (ع) کو کوئی خلق کرنے والا ہے؟ امام نے فرمایا: ((وجدت نفسی لا تخلو من إحدی الجهتین، إما ا نٔ ا کٔون صنعتها ا نٔا ا ؤ صنعها غیری، فإن کنت صنعتها ا نٔا فلا ا خٔلو من ا حٔد المعنیین،إما ا نٔ ا کٔون صنعتها وکانت موجودة، ا ؤ صنعتها وکانت معدومة فإن کنت صنعتها وکانت موجودة فقد استغنیت بوجودها عن صنعتها، و إن کانت معدومة فإنک تعلم ا نٔ المعدوم لا یحدث شیئًا، فقد ثبت المعنی الثالث ا نٔ لی صانعاً وهو اللّٰه رب العالمین ))(۷)

____________________

۱ سورہ ابراہیم، آیت ۲۷ ۔”اور ظالمین کو گمراہی میں چهوڑ دیتا ہے اور وہ جو بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے‘ ‘۔

۲ سورہ فصلت، آیت ۵۳ ۔”اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شئے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے“۔

۳ بحار الانوار،جلد ۸۴ ، صفحہ ۳۳۹ ، بیان مولی الموحدین علیہ السلام۔”اے وہ کہ جس کی ذات دلالت کرتی ہے اس کی ذات پر (اپنی شناخت میں کسی کا محتاج نہیں)

۴ بحارالانوار، جلد ۹۵ ، صفحہ ۸۲ ، بیان حضرت امام زین العابدین علیہ السلام۔”تجه کو تیرے ہی ذریعہ پہچانا ہے اور تو خوداپنی ذات پر دلالت کرتا ہے“۔

۵ سورہ طور، آیت ۳۵ ۔”کیایہ بغیر کسی چیز کے از خود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خودہی پیدا کرنے والے ہیں“۔

۶ بحارالانوار جلد ۳، صفحہ ۳۶ ۔حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ کے پاس آکر پوچهتا ہے : ”یابن رسول الله عالَم کے حادث ہونے پر کیا دلیل ہے؟حضرت فرماتے ہیں:تم پهلے نہیں تھے پھر تم ہوگئے باتحقیق تم جانتے ہو کہ تم نے اپنے آپ کو نہیں پیدا کیا(اور یہ بھی جانتے ہو کہ)جس نے تم کو وجود بخشا ہے وہ تمهارے جیسا نہیں ہے“۔

. ۷ سورہ توحید، صحفه ۲۹۰

جو چیز نہ تھی اور موجود ہوئی یا تو خود اس نے خود کو وجود عطاکیا یا کسی غیر نے۔ اگرخود اس نے خود کو موجود کیا، یا تو وہ خودپهلے سے موجود تھی اور اس نے خود کو موجود کیا یا پهلے سے موجود نہ تھی،پهلی صورت میں موجود کو وجود عطا کرنا ہے جو محال ہے اور دوسری صورت میں معدوم کو وجود کی علت وسبب قرار دینا ہے اور یہ بھی محال ہے۔ اگر کسی دوسرے نے اسے وجود عطا کیا ہے اور وہ بھی پهلے نہ تھا اور بعد میں موجود ہوا ہے تو وہ اسی کی مانند ہے۔

لہٰذا، بحکم عقل جو بھی چیز پهلے نہ تھی اور بعد میں موجود ہوئی اس کے لئے ایسے خالق کا ہونا ضروری ہے جس کی ذات میں عدم ونابودی کا سرے سے کوئی عمل دخل نہ ہو۔

اسی لئے، کائنات میں رونما ہونے والی تمام تبدیلیاں اور موجودات اس خالق کے وجود پر دلیل ہیں جسے کسی دوسرے نے خلق نہیں کیا ہے اور وہ مصنوعات ومخلوقات کا ایسا خالق ہے جو خود مصنوع و مخلوق نہیں ہے۔

ب):اگر کسی بیابان میںکوئی ایسا ورق پڑا ملے جس پر الف سے یاء تک تمام حروف تهجی ترتیب سے لکہے ہوں،هر انسان کا ضمیر یہ گواہی دے گا کہ ان حروف کی لکهائی اور ترتیب، فهم وادراک کا نتیجہ ہیں اور اگر انهی حروف سے کلمہ اور کلمات سے لکها ہوا کلام دیکھے تو اس کلام کی بناوٹ و ترکیب میں موجود دقّت نظر کے ذریعے مو لٔف کے علم وحکمت پر استدلال کرے گانیز اگر کسی کی گفتار میں انهی خصوصیات کا مشاہدہ کرے گا تو مقرر کے علم وحکمت کا معترف ہو جائے گا۔کیا ایک پودے میں موجود عناصر اولیہ کی ترکیب،کتاب کی ایک سطر کی جملہ بندی سے کم تر ہے، جولکھنے والے کے علم پر نا قابل انکار دلیل ہے؟!

وہ کونسا علم اور کیسی حکمت ہے جس نے پانی اور مٹی میں بیج کے چهلکے کے لئے موت اور بوسیدگی کا مادہ فراہم کیا ہے اور اس بیج کے مغز کو پودے کی شکل میں زندگی عطا کی ہے ؟!

جڑ کو وہ قدرت وطاقت عطا کی ہے کہ زمین کے دل کو چیرکر مٹی کی تاریک تہوں سے پودے کے لئے خوراک جذب کرتی ہے اور مٹی کے حصوں سے مختلف درختوں کے لئے خوراک فراہم کی ہے، تاکہ ہر پودا اور ہر درخت اپنی مخصوص خوراک حاصل کر سکے اور درختوں کی جڑوں کو ایسا بنا یا ہے کہ وہ اپنی مخصوص خوراک کے علاوہ جو ا س درخت کے مخصوص پهل کو جاملتی ہے،

کوئی اور خوراک جذب نہ کریں اور زمین کی کشش ثقل کا مقابلہ کرتے ہوئے پانی اور خوراک درخت کے تنے اور شاخوں تک پهنچائیں۔جس وقت جڑیں زمین سے پانی اور خوراک لے کر درخت کے تنے اور شاخوں تک پهنچانے میں مصروف عمل ہوتی ہیں، اسی دوران تنا بھی فضا سے ہوا اور روشنی لینے کے عمل کو انجام دے رہا ہوتا ہے ((کلّ میسّر لما خلق له ))(۱) ،جس قدر بھی کوشش کی جائے کہ جڑ، جسے مٹی کے اعماق تک جانے اور تنا جسے فضا میں سر بلند کرنے کے لئے بنا یا گیا ہے،کو اس حکیمانہ سنت سے روکیں اور اس کے برعکس جڑ کو فضا اور تنے کو مٹی میں قرار دیں تو یہ دونوں قانون کی اس خلاف ورزی کا مقابلہ کرتے ہوئے طبیعی طریقہ کار کے مطابق اپنی نشونما جاری رکہیں گے( وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلاً ) (۲)

فقط ایک درخت اور ان رگوں کی جو اس کی جڑوں سے ہزار ها پتوں تک حیرت انگیز نظام کے ساته پهنچائی گئی ہیں، بناوٹ اور پتوں کے ہر خلیے کو دی جانے والی قدرت وتوانائی میں غور وفکر، جس کے ذریعے وہ جڑو ں سے اپنی خوراک اورپانی کوجذب کرتے ہیں، اس بات کے لئے کافی ہے کہ انسان لا متناہی علم وحکمت پر ایمان لے آئے( ا مََّٔنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ وَ ا نَْٔزَلَ لَکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَا نَْٔبَتْنَا بِه حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا کَانَ لَکُمْ ا نَْٔ تُنْبِتُوْا شَجَرَهَا ا إِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ ) (۳) ( ا ا نَْٔتُمْ ا نَْٔشُا تُْٔمْ شَجَرَتَهَا ا مَْٔ نَحْنُ الْمُنْشِو نَُٔ ) (۴) ( وَ ا نَْٔبَتْنَا فِيْهَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ ) (۵)

____________________

۱ بحارالانور،جلد ۴، صفحہ ۲۸۲ ۔”جو چیز جس امر کے لئے پیدا کی گئی ہے اس کے لئے سهل وآسان ہے“۔

۲ سورہ احزاب ، آیت ۶۲ ۔”اور خدائی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے“۔

۳ سورہ نمل ، آیت ۶۰ ۔”بهلا وہ کون ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور تمهارے لئے آسمان سے پانی برسایا ہے پھر ہم نے اس سے خوشنما باغ اگائے ہیں کہ تم ان کے درختوں کو نہیں اگا سکتے تھے کیا خدا کے ساته کوئی اور خدا ہے نہیں بلکہ یہ قوم وہ ہے جس نے حق سے عدول کیا ہے۔

۴ سورہ واقعہ، آیت ۷۲ ۔”اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں“۔

۵ سورہ حجر، آیت ۱۹ ۔”اور ہر چیز کو معینہ مقدار کے مطابق پیدا کیا ہے “۔

نیز جس پودے اوردرخت کو دیکھیں، جڑ سے لے کر پهل تک حق تعالی کے علم،قدرت اور حکمت کی آیت ونشانی ہے اور ان کی نشونما کے لئے جو آئین مقرر کیا گیا ہے اس کے سامنے سر جهکائے ہوئے ہے( وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدْانِ ) (۱)

جیسا کہ کسی بھی جاندار کی زندگی میں غوروفکر، انسان کے لئے خدا کی طرف رہنماہے۔

ابو شاکر دیصانی نے چھٹے امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر کها :اے جعفر بن محمد (علیہما السلام)! مجھے میرے معبود کی جانب رہنمائی فرمائیں۔ ایک چهوٹا بچہ مرغی کے انڈے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔

امام (ع) نے اس بچے سے انڈا لے کر فرمایا :”اے دیصانی!اس انڈے کے گرد محکم حصار ہے، اس کا چهلکا سخت ہے اور اس چهلکے کے نیچے باریک جهلی ہے۔ اس باریک جهلی کے نیچے پگهلا ہوا سونا اور سیال چاندی موجود ہے جو آپس میں نہیں ملتے۔نہ تو اندر سے کوئی مصلح باہر آیا ہے جو اس کے بارے میں اصلاح کی خبر دے اور نہ ہی کوئی مفسد باہر سے اندر گیا ہے جو فساد کی اطلاع دے اور نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ انڈا نر کے لئے بنا یا گیا ہے یا مادہ کے لئے۔“(۲)

آیا تصفیہ شدہ چونے کے ذریعے محکم حصار کو، جس میں بے انتها اسرار پوشیدہ ہیں، کس صاحب تدبیر نے مرغی کے کهائے ہوئے دانوں سے جدا کر کے اس کے تخم دان میں چوزے کی پرورش کے لئے ایسا مقام امن بنایا اور اس کے اندر نطفے کو، صدف میں گوہر کی مانند جگہ دی۔ چونکہ چوزہ اس دوران ماں سے دور ہے اور رحم مادر میں نہیں ہے جهاں سے اپنی خوراک حاصل کر سکے، لہٰذا اس کے لئے اسی محکم حصار کے اندر اس کے قریب ہی خوراک کا انتظام کیا۔چونے کی سخت دیوار اور چوزے اور اس کی خوراک کے درمیان نرم ونازک جهلی بنا ئی تاکہ چوزہ اور اس کی خوراک حصار کی سختی سے محفوظ رہیں۔ اس اندہیری اور تاریک فضا میں اس کے اعضاء وجوارح کو ہڈیوں، پٹهوں،رگوں، اعصاب اور حواس، جن میں سے فقط اس کی آنکه کا دقیق مطالعہ محيّرا لعقول ہے، کے ذریعے پایہ تکمیل تک پهنچا کر ہر ایک کو مناسب جگہ قرار دیا۔

اورچونکہ اس چوزے کو اپنی خوراک کے لئے مٹی اور پتهروں کے درمیان سے دانے چننے ہیں، لہٰذا اس کی چونچ ہڈی کی ایک خاص قسم سے بنائی تاکہ زمین پر موجود پتهر وں کے ساته ٹکرانے سے اسے کوئی نقصان نہ پهنچے۔ اورکہیں اپنی خوراک سے محروم نہ ہوجائے، لہٰذااسے سنگدانہ عطا کیا تاکہ جو بھی دانہ ملے اسے کهاکر اس میں محفوظ کر لے اور پھر اسے بتدریج نظامِ ہضم کے حوالے کرے۔اس کی نازک کهال کو پروں کے ذریعے ڈهانپ کر سردی،گرمی، چوٹ اور جانوروں کے آزار سے محفوظ کیا۔ ضروریات وواجباتِ زندگی عطا کرنے کے علاوہ ظاہری خوبصورتی جیسے مستحبات سے غفلت نہیں برتی اور اس کے پروں کو دل موہ لینے والے رنگوں سے رنگ دیا، جیسا کہ امام (ع) نے فرمایا :((تنفلق عن مثل ا لٔوان الطواویس ))(۳)

اور چونکہ چوزے کے تکامل کے لئے مرغی کے سینے کی مناسب حرارت کی ضرورت ہے،

وہ مرغی جسے فقط رات کی تاریکی ہی سعی و کوشش اورحرکت سے روک سکتی ہے اچانک اس کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ تلاش وجستجو کو چهوڑ کر جب تک حرارت کی ضرورت ہو، اس انڈے پر بیٹھی رہتی ہے۔

وہ کونسی حکمت ہے جس نے مرغی پر خمار جیسی کیفیت طاری کر دی ہے تاکہ وہ چوزے میں زندگی کی حرکت کو وجود میں لاسکے؟! اور وہ کونسا استاد ہے جس نے اسے دن رات انڈوں کے رخ تبدیل کرنا سکهایا ہے تاکہ چوزے کے اعضاء میں تعادل برقرار رہے،جو چوزے کی راہنمائی کرتا ہے کہ خلقت مکمل ہونے کے بعد انڈے کے اس محکم حصار کو چونچ سے توڑدے اور اس میدانِ زندگی میں قدم رکہے جس کے لئے اسے یہ اعضاء وجوارح عطا کئے گئے ہیں۔اور وہ مرغی جو اپنی حیوانی جبلّت کے تحت، فقط اپنی زندگی سے نقصان دہ چیزوں کو دور اورفائدہ مند چیزوں کو انتخاب کرنے کے

____________________

۱ سورہ الرحمن، آیت ۶۔”اور ستارے اور درخت سب اسی کا سجدہ کررہے ہیں“۔

۲ بحارالانوار، جلد ۳، صفحہ ۳۱ ۔

۳ بحارالانوار، جلد ۳، صفحہ ۳۲ ۔ ”اور موروں کے رنگ کی طرح مختلف رنگ پهوٹیں گے“۔