اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20524
ڈاؤنلوڈ: 2838

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20524 / ڈاؤنلوڈ: 2838
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

ہے، بلکہ بزرگا ن اہل لغت نے اس واقعہ کو لغت کی کتابوں میں بھی نقل کیا ہے، مثال کے طور پر ابن درید نے جمهرة اللغة میں کها ہے :((غدیر معروف وهوالموضع الذی قام فیه رسول اللّٰه(ص)خطیبا یفضّل ا مٔیر المو مٔنین علی ابن ابی طالب (ع) (۱)

اور تاج العروس میں کلمہ ((ولی ))کے ضمن میں کها کہ :((الذی یلی علیک ا مٔرکومنه الحدیث : من کنت مولاه فعلی مولاه ))اور ابن اثیر، ”نهایہ“ میں کلمہ ((ولی ))کے ضمن میں کہتا ہے ((وقول عمر لعلیّ: ا صٔحبت مولی کل مومن، ا یٔ ولی کل مومن ))

اور حدیث غدیر اہل سنت کے نزدیک صحیح سلسلہ اسناد کے ساته نقل ہوئی ہے، اگرچہ سلسلہ هائے اسناد اتنے زیادہ ہیں کہ صحت سند کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

حافط سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی نے ینابیع المودة میں کها ہے :” مشهور و معروف مو رٔخ جریر طبری نے حدیث غدیر خم کو پچهتر مختلف سلسلہ اسناد کے ساته نقل کیا ہے اور اس موضوع پر ((الولایة ))کے نام سے مستقل کتاب بھی لکهی ہے۔ اسی طرح حدیث غدیرکو ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ نے بھی روایت کیا ہے اور اس موضوع پر ((الموالاة ))کے نام سے مستقل کتاب لکهی ہے اور اس حدیث کو ایک سو پچاس مختلف سلسلہ اسناد کے ساته ذکر کیا ہے۔“

اور اس کے بعد لکها ہے کہ :”علامہ علی بن موسی اور ابو حامد غزالی کے استاد امام الحرمین علی ابن محمد ابی المعالی الجوینی تعجب کرتے ہو ئے کها کرتے تھے : میں نے بغداد میں ایک جلد ساز کے پاس روایات غدیر کے موضوع پر ایک جلد دیکھی کہ اس پر لکها تھا :یہ پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول ((من کنت مولاه فعلی مولاه ))کے سلسلہ هائے اسناد کے سلسلے میں اٹهائیسویں جلد ہے۔ انتیسویں جلد اس کے بعد آئے گی۔“(۲)

ابن حجر اپنی کتاب تہذیب التہذیب(۳) میں حضرت علی(ع) کے حالات زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے، ابن عبد البر سے اس حدیث کو حضرت علی(ع)، ابوہریرہ، جابر، براء بن عازب اور زید ابن ارقم کے واسطوں سے نقل کرنے کے بعدکہتا ہے:”اس حدیث کے ذکر شدہ سلسلہ هائے اسناد کے کئی گنا دوسرے سلسلہ هائے اسناد، ابن جریر طبری نے اپنی کتاب میں جمع کیے ہیں۔اور ابوالعباس بن عقدہ نے سلسلہ اسناد کو جمع کرنے میں خاص توجہ کی ہے اور حدیث کو ستّر یا اس سے زیادہ اصحاب سے نقل کیا ہے۔“

امیر المومنین(ع) کی ولایت اور خلافت بلا فصل پر اس حدیث کی دلالت واضح و روشن ہے۔

اگرچہ لفظ ((مولیٰ )) متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن جن قرائن سے یہ بات ثابت ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ سے ولایت امر مراد ہے ان میں سے بعض کو ہم یهاں ذکر کرتے ہیں :

۱۔ اس مطلب کوبیان کرنے سے پهلے حضرت رسول خدا(ص) نے اپنی رحلت کی خبر دی اور قرآن وعترت کی پیروی کی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد اس عنوان کے ساته کہ جس جس کامیں مولاہوں علی (ع)اس کے مولاہیں، حضرت علی(ع) کا تعارف کروانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے آنحضرت(ص) کا مقصد ایسے شخص کی پہچان کروانا ہے کہ جس شخص اور قرآن سے تمسک رکھتے ہوئے امت، آپ(ص)کے بعد ضلالت وگمراہی سے نجات پا سکتی ہے۔

____________________

۱ جمهرة اللغة، جزء اول ص ۱۰۸ ۔

۲ ینابیع المو دة، ج ۱ص ۱۱۳ ۔

۳ تہذیب التہذیب، ج ۷، ص ۲۹۷ ۔

۲۔اس عظیم اجتماع کو حج سے واپسی کے دوران فقط یہ بتانے کے لئے کہ علی(ع) اہل ایمان کا دوست، اور مددگار ہے، تپتے ہوئے صحراء میں روکنا اور پالان شتر سے منبر بنانا، آپ(ص) کے مقام خاتمیت کے ساته تناسب نہیں رکھتا، بلکہ یہ خصوصیات اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کوئی اہم اعلان کرنا مقصود تھا اور لفظ مولا سے ولایت امرہی مراد ہو سکتی ہے۔

۳۔واحدی نے اسباب النزول میں ابی سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ( يَا ا ئَُّهَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا ا نُْٔزِل إِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه وَاللّٰهُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ) (۱) غدیر خم کے روز، علی بن ابی طالب(ع) کی شان میں نازل ہوئی(۲) ۔

آیت کریمہ کے شان نزول سے معلوم ہوتاہے کہ جس مطلب کی تبلیغ کے لئے رسول خدا(ص)مامور تھے اس کی دو خصوصیات تہیں:

اول۔مرتبے کے اعتبار سے اس کی تبلیغ اتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ خداوند متعال فرما رہا ہے :”اگر اسے انجام نہ دیا تو تبلیغ رسالت ہی کو انجام نہ دیا۔“

دوم۔یہ کہ اس تبلیغ میں خدا تمہیں بچانے والا ہے، یعنی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان کے بعد منافقین کی سازشوں کا سلسلہ چل پڑے گاجو آپ(ص)کے ظهور اورتوسیع حکومت کے بارے میں اہل کتاب سے سن کر اس حکومت کو حاصل کرنے کے لئے آنحضرت(ص) سے آملے تھے، لہٰذا ((مولیٰ))کے معنی، ولایت امرکے علاوہ اورکچھ نہیں ہوسکتے۔

۴ ۔خطیب بغدادی نے ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ:”جو اٹهارہ ذی الحجہ کو روزہ رکہے اس کے لئے ساٹه ماہ کے روزے لکہے جاتے ہیں اور یہ غدیر خم کا دن ہے، جب نبی اکرم(ص) نے علی بن ابی طالب(ع) کا هاته پکڑ کر فرمایا : آیا میں مومنین کا مولاہوں ؟سب نے کها :هاں، یا رسول الله(ص)،تو فرمایا: جس جس کا میں مولاہوں علی(ع) بھی اس کے مولاہیں۔

یہ سن کر عمر بن خطاب نے کها :بخٍّ بخٍّ یا ابن ابی طالب ، آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا قرار پائے ، پھر خدا نے یہ آیت نازل فرمائی( اَلْيَوْمَ ا کَْٔمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ ) (۳)

وہ چیز جس کے ذریعے اکمال دین واتمام نعمت خدا ہے اور جس کی وجہ سے دین اسلام خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے، وہ احکامِ خدا کے معلم اور انہیں عملی جامہ پهنانے والے کا تعین ہے۔

۵ ۔نور الابصار میں شبلنجی نے لکهاہے(۴) :”امام ابو اسحاق ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ: سفیان بن عیینہ سے پوچها گیا کہ

____________________

۱ سورہ مائدہ ، آیت ۶۷ ۔”اے پیغمبر آپ اس حکم کو پهنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور آگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پهنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکہے گا“۔۲۵۷ و ۴۰۲ ، و ج ۲، ص ۳۹۱ و ۴۵۱ ؛ الدرّ ،۲۵۵ ،۲۵۴ ، ۲ اسباب النزول ص ۱۳۵ ؛ شواہد التنزیل، ج ۱، ص ۲۴۹ المنثور، ج ۲، ص ۲۹۸ ؛ الفتح الغدیر، ج ۲، ص ۶۰ ؛ المعیار و الموازنة، ص ۲۱۴ ، تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲ ، ص ۲۳۷ ؛ ینابع ۲۸۵ ، و ج ۳، ص ۲۷۹ ۔ ، المودة، ج ۱، ص ۳۵۹ ، و ج ۲، ص ۲۴۸ ؛ دعائم الاسلام، ج ۱، ص ۱۵ ؛ رسائل المرتضیٰ، ج ۳، ص ۲۰ ، و ج ۴، ص ۱۳۰ ؛ الکافی، ج ۱، ص ۲۸۹ ، و ۲۹۰ ؛ الامالی، للصدوق، ص ۴۳۵ ، مجلس نمبر ۵۶ ، ح ۱۰ ، و ص ۵۸۴ ؛ کشف الغطاء، ج ۱، ص ۱۰ ؛ التوحید، ص ۲۵۴ ، و ۲۵۶ ۳۸۲ ؛ المسترشد، ص ، ۹۲ ؛ مناقب امیر المومنین (ع)، ج ۱، ص ۱۴۰ ، و ۱۷۱ ، و ج ۲، ص ۳۸۰ ، روضة الواعظین، ص ۹۰ ۴۶۵ ، و ۴۷۰ ، و ۶۰۶ ؛ شرح اخبار، ج ۱، ص ۱۰۴ ، و ج ۲، ص ۲۷۶ ، و ۳۷۴ ؛ الارشاد، ج ۱، ص ۱۷۵ ؛ الاحتجاج، ج ۱، ص ۱۵۲ ؛ تفسیر ابی حمزة الثمالی، ص ، ۷۰ ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ۳، ص ۲۱ ، و ۲۳ ؛ العمدة، ص ۹۹ ؛ الطرائف، ص ۱۲۱ و ۱۴۹ ۱۷۴ ، و ج ۲، ص ۲۰۱ ؛ تفسیر ، ۳۳۱ وغیرہ، و ج ۲، ص ۹۷ ؛ تفسیر القمّی، ج ۱، ص ۱۷۱ ، ۱۶۰ ، تفسیر عیاشی، ج ۱، ص ۳۲۸ ۱۲۹ وغیرہ، إعلام الوری، ج ۱، ص ۲۶۱ ، اور شیعوں کے دیگر منابع و مدارک۔ ، فرات الکوفی، ص ۱۲۴ ۳ تاریخ بغداد ج ۸ ص ۲۸۴ ؛ شواہد التنزیل، ج ۱، ص ۲۰۰ وغیرہ، و ج ۲، ص ۳۹۱ ؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲ ، ص ۲۳۴ ؛ البدایة و النهایة، ج ۷، ص ۳۸۶ ، المعیار و الموازنة، ص ۲۱۲ ، ینابیع المودة، ج ۲، ص ۲۴۹ ؛ نیز اہل سنت کے ،۲۳۳ دیگر منابع۔ ۲۴۴ ؛ الطرائف، ص ۱۴۷ ؛ رسائل المرتضیٰ، ج ۴، ص ۱۳۱ ؛ الاقتصاد، ص ۲۲۰ ؛ الامالی ، العمدة، ص ۱۰۶ و ۱۷۰ للصدوق، ص ۵۰ ، مجلس نمبر ۱، ح ۲؛ روضة الواعظین، ص ۳۵۰ ؛ تفسیر فرات کوفی، ص ۵۱۶ ؛ خصائص الوحی المبین، ص ۹۷ ؛ اور شیعوں کے دیگر منابع و مآخذ۔

۴ نور الابصار، ص ۸۷ ۔(فصل مناقب سیدنا علی بن ابی طالب ابن عم الرسول و سیف الله المسلول میں ذکر کیا ہے)۳۷۰ ، شواہد ، اسی طرح رجوع فرمائی، نظم درر السمطین، ص ۹۳ ، الجامع لاحکام القرآن، ج ۱۸ ، ص ۲۷۹ ، ینابع المودة، ج ۲التنزیل، ج ۲، ص ۳۸۱ ، اور اہل سنت کے دیگر منابع۔

آیت( سَا لََٔ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ) (۱) کس کی شان میں نازل ہوئی ہے؟

اس _______نے کها:مجه سے تم نے ایسے مسئلے کے بارے میں سوال کیا ہے جسے تم سے پهلے کسی اور نے نہیں پوچها۔ میرے لئے میرے والد نے جعفر بن محمد اورانهوں نے اپنے اجداد سے حدیث بیان کی ہے کہ غدیر خم کے مقام پر جب رسول خدا(ص) نے لوگوں کو بلایا اور سب جمع ہوچکے تو آپ(ص)نے علی علیہ السلام کا هاته پکڑکر فرمایا:((من کنت مولاه فَعلیّ مولاه ))،اس طرح یہ بات شهروں میں مشهور ہونے لگی اور جب یہ خبر حارث بن نعمان فهری تک پهنچی تو وہ رسول خدا(ص) کے پاس آیا اور کها: اے محمد(ص)! تو نے حکم دیا تھا کہ خدا کی وحدانیت اور تیری رسالت کااقرار کریں، سو ہم نے اقرار کیا، تو نے حکم دیا کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑہیں، ہم نے قبول کیا، زکات دینے کو کها، ہم نے قبول کیا، حکم دیا کہ رمضان کے روزے رکہیں ہم نے قبول کیا، حج کرنے کا حکم دیا، ہم نے یہ بھی مان لیا،لیکن تم اس پر بھی راضی نہ ہوئے اور اپنے چچا زاد بهائی کا هاته پکڑکر اسے ہم پر فضیلت دینا چاہی اور کها ((من کنت مولاه فعلیّ مولاه ))،آیا یہ تمهارا فیصلہ ہے یا خداوند عزوجل کا حکم ہے ؟

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:والذی لا إله إلا هو ، یقینا یہ خداوند عزوجل کا حکم ہے۔

حارث بن نعمان سوار ہونے کے لئے اپنی سواری کی طرف بڑهااور کها:بار الها! جو کچہ محمد(ص) کہہ رہا ہے اگر یہ سچ ہے تو ہم پر آسمان سے سنگ یا دردناک عذاب نازل فرما۔

ابھی وہ اپنی سواری تک نہ پهنچا تھا کہ خدا وند عزوجل نے پتهر نازل فرمایا جو اس کے سر پر آیااور دوسری طرف سے نکل گیا او ر وہ وہیں مر گیا۔ اس موقع پرخداوند عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی( سَا لََٔ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِع ة لِّلْکَافِرِيْنَ لَيْسَ لَه دَافِعٌة مِّنَ اللّٰهِ ذِی الْمَعَارِجِ ) (۲)

اس میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں کہ علی(ع) کے بارے میں، لوگوں نے رسول خدا(ص) سے فضائل سن رکہے تھے۔ وہ بات جو حارث بن نعمان جیسے افراد کے لئے نئی،شهروں میں منتشر شدہ اور نا قابل یقین فضیلت تھی، وہ رسول خد ا(ص) کی جانب سے، علی(ع) کے لئے،مولیٰ اور ولی ہونے کا اعلان تھا، جو اس جیسے افراد برداشت نہ کر سکتے تھے، نہ یہ کہ مولی کے کوئی دوسرے معنی ہوں۔

۶ ۔احمد بن حنبل نے مسند میں(۳) ، فخر رازی نے تفسیرمیں(۴) ،خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں(۵) اور ان کے علاوہ دوسروں(۶) نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے، لیکن ہم فقط مسند احمد کی روایت پر اکتفا کرتے ہیں :

احمد نے براء بن عازب سے نقل کیا ہے کہ اس نے کها: ہم رسول خدا(ص) کے ساته ہمسفر تھے۔ غدیر خم کے مقام پر رکے، نماز جماعت کے لئے بلایا گیا، رسول خدا(ص) کے لئے دو درختوں کے نیچے جهاڑو دی گئی،آپ(ص) نے نماز ظهر ادا کی اور علی(ع) کا هاته پکڑ کر فرمایا: کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میں مومنین سے ان کی اپنی نسبت اولی ہوں؟ سب نے کها:ها ں، فرمایا:کیا تم نہیںجانتے ہو کہ میںهر مومن سے خود اس کی نسبت اولی ہوں ؟سب نے کها:هاں، پھر آپ نے علی(ع) کا هاته بلند کر کے فرمایا ((من کنت مولاه فعلی مولاه اللّٰهم وال من والاه وعاد من عاداه ))۔براء بن عازب کہتا ہے: اس کے بعد عمر نے علی (ع)کے ساته ملاقات کی اور آپ سے کها((هنیئاً یا ابن ابی طالب، اصحبت وامسیت مولی کل مومن ومومنة ))۔

شرح الاخبار، ج ۱، ص ۲۳۰ ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ۳، ص ۴ ۰ ، تفسیر فرات کوفی، ص ۵ ۰ ۵ ؛ الطرائف، ص ۱ ۵ ۲ ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ۳، ص ۴ ۰ ، اور شیعوں کے دیگر منابع۔

____________________

۱ سورہ معارج، آیت ۱۔”ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا“۔

۲ سورہ معارج، آیت ۱،۲،۳ ۔”ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا۔جس کا کافروں کے حق میں کوئی واقع کرنے والا نہیں ہے۔ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے“۔

۳ مسند احمد بن حنبل ، ج ۴، ص ۲۸۱ ۔

۴ تفسیر کبیر ، ج ۱۲ ، ص ۴۹ ،آیہ( ٔیا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک ) کی تفسیر کے ذیل میں۔

۵ تاریخ بغداد، ج ۸، ص ۲۸۴ ۔

۶ نظم درر السمطین، ص ۱۰۹ ؛ ذخائر العقبیٰ، ص ۶۷ ؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲ ، ص ۲۲۰ وغیرہ؛ البدایة و النهایة،۲۸۵ ؛ اور اہل سنت کے دیگر منابع و مآخذ۔ ، ۱۰۱ ، ج ۲، ص ۱۵۸ ،۹۸ ، ج ۷،ص ۳۸۶ ؛ ینابیع المودة، ج ۱اور شیعہ منابع میں بھی ذکر ہے: مناقب امیر المومنین علیہ السلام، ج ۱، ص ۴۴۳ ، ج ۲، ص ۴۴۱ ؛ المسترشد، ص ۴۵ ؛ الطرائف، ص ۱۵۰ ؛ اختیار معرفة الرجال، ج ۱، ص ۸۷ ، اور شیعوں کے دیگر منابع و ، ۴۷۲ ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ۳ مآخذ۔

عمر جیسے شخص سے اس طرح کی مبارک باد، ایک ایسی چیز کے لئے جس میں حضرت علی(ع) کے ساته دوسرے مومنین بھی شریک ہوں، دوستی کے معنی میں نہیں، بلکہ بلا شبہ مبارک باد کا یہ انداز کسی خاص فضیلت کے لئے ہی ہوسکتا ہے اور وہ فضلیت زعامت امت ومنصب خلافت رسول خدا(ص) کے سواکچھ نہیں۔

۷۔اکابر اہل سنت کی ایک جماعت مثلاابن حجر عسقلانی نے الا صابة میں(۱) ، ابن اثیر نےاسد الغابةمیں(۲) اور دیگر علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔هم ابن اثیر کی روایت پر اکتفا کرتے ہیں :

”ابو اسحاق کہتا ہے :میرے لئے اس حدیث کو بیان کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا، کہ علی(ع) نے رحبہ کے مقام پر رسول خدا(ص) کے اس قول ((من کنت مولاه فعلی مولاه اللّٰهم وال من والاه وعاد من عاداه ))کو سننے والوں کو طلب کیا، ایک گروہ نے اٹه کر گواہی دی کہ انهوں نے اسے رسول خدا(ص) سے سنا ہے،جب کہکچھ لوگوںنے اسے چهپایا اور جنهوں نے وہاں گواہی نہ دی تھی،اندہے ہونے اور آفت میں گرفتار ہونے سے پهلے نہ مرے۔“

حضرت علی(ع) کا اس روایت کے ذریعے اتمام حجت کرنا اور گواہی کے لئے لوگوں کو طلب کرنا اس بات کا کهلا ثبوت ہے کہ حدیث میں، منصب ولایت امر اور زعامت امت ہی مراد ہے۔

۸۔ولایت علی ابن ابی طالب(ع) کو بیان کرنے سے پهلے آنحضرت(ص) نے فرمایا: ”خدا میر ا مولاہے اور میں ہر مومن کا مولاہوں۔“ خدا آپ(ص)کا مولاہے یعنی خدا کے علاوہ کسی اور کو آنحضرت(ص) پر ولایت حاصل نہیں اور جس طرح سے خدا آپ(ص) کا مولاہے، آپ بھی اسی طرح ہر مومن کے مولاہیں اور اہل ایمان پر جو ولایت آنحضرت(ص) کو حاصل ہے حضرت علی(ع) کو بھی وہی ولایت حاصل ہے۔ اور واضح وروشن ہے کہ اس ولایت سے رسول خدا(ص) کی خلافت مراد ہے۔

۹۔حضرت علی(ع) کا اس طرح تعارف کرانے سے پهلے آپ(ص)نے اس جملے کے ذریعے اعتراف واقرار لیا کہ ((ا لٔست ا ؤلی بکم)) سب نے کها:هاں یارسول الله، اور یہ وہی اولویت ہے جسے خداوند متعال نے قرآن میں فرمایا ہے( اَلنَّبِیُّ ا ؤَْلیٰ بِالْمُو مِْٔنِيْنَ مِنْ ا نَْٔفُسِهِمْ ) (۳)

اور اس کے بعد یہ فرمایا: ”جس جس کا میں مولاہوں، علی بھی اس کے مولاہیں“،اور جملہ ((ا لٔست ا ؤلی بکم ))کو پهلے ذکر فرما کر کلمہ ولی کے بارے میں تمام شبهات کو برطرف کر دیا، اور اس طرح یہ مطلب واضح کر دیا کہ مومنین کی نسبت جو اولیت آپ(ص) کو حاصل ہے، حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی وہی الوہیت ثابت ہے۔

حدیث چهارم:

چوتهی حدیث جناب ختمی مرتبت(ص) کا وہ فرمان ہے جس میں آپ نے جناب امیرعلیہ السلام سے یوں فرمایا: ”انت منی وانا منک“ ٤ اس حدیث کو بخاری کے علاوہ دیگر اکابر ائمہ حدیث نے بھی نقل کیا ہے۔

____________________

۱ الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج ۴، ص ۳۰۰ ،پهلی قسم عبد الرحمن بن مد لج۔

۱۰۷ ، السنن الکبری ، ۲ اسد الغابہ ، ج ۳، ص ۳۲۱ ، مسند احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۱۱۹ ، مجمع الزوائد، ج ۹، ص ۱۰۵، للنسائی، ج ۵، ص ۱۳۱ وغیرہ، مسند ابی یعلی، ج ۱، ص ۴۲۸ ؛ البدایة والنهایة، ج ۵، ص ۲۲۹ ؛ السیرة النبویة، ابن کثیر، ج ۴،۱۷۱ ، ۱۰۰ وغیرہ، ۱۳۲ ؛ المعجم الاوسط، ج ۷، ص ۷۰ ، المعجم الکبیر، ج ۵ ، ۴۱۸ ، خصائص امیرالمومنین علیہ السلام، ص ۹۶شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحدید، ج ۱۹ ، ص ۲۱۷ ؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲ ، ص ۲۰۵ اور اہل سنت کے دیگر منابع۔۳۳۴ وغیرہ؛ ، ۱۰۰ ؛ الامالی للطوسی، ص ۲۷۲ ، مناقب امیر المومنین علیہ السلام، ج ۲، ص ۳۷۲ ، شرح الاخبار، ج ۱العمدة، ۹۳ ؛ الطرائف، ص ۱۵۱ اور شیعوں کی دیگر کتابیں۔

۳ سورہ احزاب ، آیت ۶۔”بے شک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے“۔

۴ صحیح بخاری ، ج ۳، ص ۱۶۸ ، کتاب الصلح باب کیف یکتب هذا۔۔۔، وج ۴، ص ۲۰۷ ، باب مناقب علی بن ابی طالب،

ج ۵، ص ۸۵ ، باب عمرة القضاء؛ مسند احمد بن حنبل ،ج ۱، ص ۹۸ و ۱۱۵ ، وج ۵، ص ۲۰۴ ؛وصحیح ابن حبان، ج ۱۱ ، ص ۲۲۹ و ۲۳۰ ؛ سنن الکبریٰ للبیہقی، ج ۸، ص ۵؛ مجمع الزوائد، ج ۹، ص ۲۷۵ ؛ المنصف لعبد الرزاق، ج ۱۱ ، ص ۲۲۷ ؛ مصنف ابن ابی شیبہ، ج ۷، ص ۴۹۹ ؛ سنن الکبریٰ للنسائی، ج ۵، ص ۱۲۷ و ۱۴۸ و ۱۶۸ و ۱۶۹ ؛ خصائص امیر المومنین علیہ السلام ، ص ۸۸ و ۸۹و ۱۲۲ و ۱۵۱ ؛ کنز العمال، ج ۵، ص ۵۷۹ ، وج ۱۱ ، ص ۵۹۹ و ۶۳۹ و ۷۵۵ و ج ۱۳ ص ۲۵۵ ،معانی قرآن، ج ۵، ص ۴۰ ، شواہد التنزیل، ج ۲، ص ۱۴۳ ، الجامع لاحکام القرآن، ج ۱۳ ، ص ۶۰ ، وج ۱۵ ، ص ۲۱۵ ؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۳، ص ۴۷۵ و ج ۴؛ ص ۲۱۸ ؛تاریخ بغداد، ج ۴، ص ۳۶۴ ؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۱۹ ، ص ۳۶۲ ،وج ۴۲ ، ص ۵۳ و ۶۳ و ۱۷۹ ؛تہذیب الکمال، ج ۵، ص ۵۴ البدایة االنهایة،ج ۴، ص ۲۶۷ ؛ اور اہل سنت کے دوسرے حوالہ جات ۔؛ مناقب امیر المومنین علیہ السلام ، ص ۴۷۳ ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ۱، س ۳۹۶ ؛ الخصال ، ص ۴۹۶ و ۵۷۳ و ۶۵۲عیون اخبار الرضا علیہ السلام ،ج ۲، ص ۵۸ ،، باب ۳۱ ، ح ۲۲۴ ؛ الامالی للصدوق، ص ۶۶ المجلس الرابع، ح ۲، ص ۱۵۶ ، المجلس الحادی والعشرون، ج ۱، ص ۳۴۲ ، المجلس الخامس والاربعون، ح ۲،اس کتاب سے دوسرے مورد ؛ کمال الدین وتمام النعمة،، ص ۲۴۱ ؛ کفایة الاثر، ص ۱۵۸ ؛ روضة الواعظین، ص ۱۱۲ ،و ۲۹۶ ؛ المسترشد ، ص ۶۲۱ و ۶۳۴ و۔۔۔شرح الاخبار، ج ۱، ص ۹۳وج ۲، ص ۲۵۰ ؛ الارشاد، ج ۱، ص ۴۶ ؛ الامالی للمفید، ص ۲۱۳ ؛ الامالی للطوسی، ص ۲۰۰ و ۳۵۱ ؛ العمدة ، ص ۱۴۶ و ۲۰۱ ؛ اور دوسرے حوالاجات شیعہ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کمال عالم هستی، عقل ،علم، عبودیت اور اپنے اختیار سے اطاعت الٰهی کی بنا ء پر ہے۔ اور انسان کی خلقت کا امتیازی پهلو بھی اسی عقل اور اپنے اختیار سے اطاعت الٰهی کے سبب ہے۔ نیز انسان کی خلقت کا ہدف و مقصد بھی یهی ہے۔

بنا بر ایں انسان کا کمال عالم غیب سے اس کے مرتبہ اتصال اور نور وحی کے ذریعے اس کی عقل کے نورانی ہونے سے وابستہ ہے اور یهی مرتبہ نبوت ہے۔

اور کمال مرتبہ نبوت، خالق کی جانب سے مخلوق کے لئے سفارت الٰهی کے عهدے پر فائز ہوکر، ان کی عقول کو نور حکمت الٰهی سے منور کرنے سے وابستہ ہے اور یہ مرتبہ رسالت ہے اور کمال مرتبہ رسالت، مرتبہ خاتمیت تک رسائی ہے جو تا ابد زندہ رہنے والی شریعت کے ساته مبعوث ہونے کا مقام ہے اور انسانی کمال کی آخری حد بھی یهی ہے۔ اور اس مرتبے کا مالک خاتم ماسبق اور فاتح مااستقبل ،صاحب اسم اعظم اور مثل اعلی یعنی حضرت محمد مصطفی(ص) ہیں ۔

امیر المومنین علیہ السلام اس هستی کے مرتبے پر فائز ہیں کہ جن کے بارے میں خداوند تعالی نے فرمایا:( وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَی ) (۱)

اور اس هستی نے آپ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ”علیّ منی“ (علی مجه سے ہے) یعنی عالم امکان کے اس گوہر یکتا سے علی کا اشتقاق ہوا ہے جو نفس قدسی بھی ہے نینر تخلیق کائنات اور خلافت آدم کی علت غائیہ بھی۔

اور آنحضرت(ص)نے صرف اسی جملے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کے بعد فرمایا: - ” وانا منہ“ تا کہ اس نکتے کو سمجها سکیں کہ ختمی مرتبت کے وجود اور ان کی بعثت کا مقصد و ہدف اور اس بعثت کی حفاظت کی بنیاد (یعنی دین قویم و صراط مستقیم کی جانب ابتداء اً و استمراراً ہدایت بجز علی اور ان کی معصوم اولاد کے علاوہ کسی اور کے ذریعے ممکن ہی نہیں۔

بنا بر ایں یہ کس طرح ممکن ہے کہ جو شخص پیغمبر سے اور پیغمبر اس سے ہوں اس کے اور پیغمبر کے درمیان کوئی اور خلافت حد فاصل واقع ہوجائے ۔

پانچویں حدیث:

فریقین کے اکابر ائمہ حدیث ، اس حدیث کی صحت پر متفق ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا:

علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض (۲) اس حدیث کے معنی، قرآن مجید کی شناخت کے بعد ہی واضح ہوسکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل سطور میں بطور اختصار چند نکات ذکر کئے جارہے ہیں۔

۱۔ آسمانی کتب میں قرآن مجید سے افضل کتاب موجود نہیں( اللهُ نَزَّلَ ا حَْٔسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِهًا ) (۳)

____________________

۱ سورہ نجم آیت ۳: وہ تو اپنی نفسانی خواہش سےکچھ بولتے نہیں ہیں۔

۲ علی(ع) قرآن کے ساته ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساته جو کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے، یهاںتک حوض کوثر پر میرے پاس پهنچ جائیں۔المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۲۴ ، نیز اس کتاب کے خلاصہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے، المعجم الصغیر،، ج ۱، ص ۲۵۵ ، المعجم الاوسط، ج ۵، ص ۱۳۵ ، الجامع الصغیر، ج ۲، ص ۱۷۷ ، کنز العمال، ج ۱۱ ، ص ۶۰۳ ، فیض القدیر، ج ۴ص ۴۷۰ ، سبل الهدیٰ و الرشاد، ج ۱۱ ، ص ۲۹۷ ، ینابیع المودة، ج ۱، ص ۱۲۴ و ۲۶۹ ، نیز اہل سنت کے دیگر منابع۔

، ۲۹۷ ، الطرائف، ص، ۱۰۳ ، الاربعون حدیثاً، ص ۷۳ ، کشف الغمّہ، ج ۱، ص ۱۴۸ ، الاحتجاج، ج ۱، ص ۲۱۴،۲۲۵الامالی شیخ طوسی، ص ۴۶۰ ، المجلس السادس عشر، ح ۳۴ ، و ص ۴۷۹ ، و ۵۰۶ ، نیز شیعوں کے دیگر منابع۔۳ سورہ زمر آیہ ۲۳ ، خدا نے قرآن کو نازل فرمایا جو کہ بہترین حدیث ہے ایسی کتاب جس کی آیات متشابہ ہیں۔

( إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِی لِلَّتِی هِیَ ا قَْٔوَمُ ) (۱)

۲۔ خداوند متعال نے قرآن کریم کو ایسے اوصاف سے متصف فرمایا ہے کہ زبان ان کے بیان سے اور قلم ان کی تحریر سے عاجز ہے ۔

( بَلْ هو قُرْآنٌ مَجِیدٌ فِی لَوْحٍ مَحْفُوظٍ ) (۲)

( إِنَّهُ لَقُرْآنٌ کَرِیمٌ فِی کِتَابٍ مَکْنُونٍ ) (۳)

( وَلَقَدْ آتَيْنَاکَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ ) (۴)

( يَس وَالقُرْآنِ الْحَکِيْمِ ) (۵)

۳۔ خداوند تعالی نے اپنے آپ کو معلم قرآن قرار دیا ہے۔( اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ) (۶)

۴ ۔ جبروت الٰهی سے جب امور نے اس کتاب میں تجلی کی ہے ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد پروردگار ہے۔( لَوْ ا نَْٔزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَرَا ئَْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللهِ ) (۷)

۵ ۔ اسراز و رموز کے پردے میں مخفی، خداوند تعالیٰ کے قدرت نے آیات قرآن میں تجلّی کی ہے۔ اس کی نشاندہی کرتے ہوئے خداوند تعالی نے فرمایا:( وَلَوْ ا نََّٔ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ ا ؤَْ قُطِّعَتْ بِه الْا رَْٔضُ ا ؤَْ کُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَی ) (۸)

۶ ۔ یہ کتاب، مظهر علم و حکمت الٰهی ہے( وَإِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ عَلِیمٍ ) (۹)

( وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًی وَرَحْمَةً ) (۱۰)

۷۔ اس کتاب کے نازل کرنے پر خداوند تعالی نے خود اپنی تعریف و تمجید فرمائی ہے۔( اَلْحَمْد لِلَّهِ الَّذِی ا نَٔزَلَ عَلَی عَبْدِهِ الْکِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجَا ) (۱۱)

۸۔ اس کتاب عزیز سے تمسک رکھنے کے سلسلے میں آنحضرت فرماتے ہیں: پس جب بھی فتنے اور آشوب تم پر مشتبہ ہوکر تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیں تو قرآن کا رخ کرو کیونکہ قرآن یقینا ایسا شفیع ہے کہ جس کی شفاعت قبول کرلی گئی ہے، برائیوں کی خبر دینے والا ایسا مخبر ہے جس کی خبر مصدقہ ہے ۔ جو بھی اسے اپنا رہبر بنائے گا یہ جنت کی جانب اس کی رہبری کرے گا جو بھی اسے پس پشت رکہے گا یہ اسے جهنم کی جانب لے جائے گا قرآن بہترین راہوں کی جانب راہنمائی کرنے والا راہنما ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں تفصیل و بیان ہے اور حصول حقائق کا طریقہ یہ حق کو باطل سے جدا کرتی ہے اس کا کلام قطعی اور نپا تلا ہے۔ شوخی و مزاح نہیں۔ اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ ا س کا ظاہرحکم اور باطن علم ہے۔ اس کے ظاہر حسین و جمیل اور باطن عمیق اور گهرا ہے ۔

اس کی حدود ہیں اور ان حدود کی بھی حدود ہیں۔ اس کی محيّر العقول باتیں نا قابل شمار ہیں اور اس کے عجائب و جدتیں کبھی پرانی نہ ہونگی۔ اس میں ہدایت کے چراغ ہیں۔ نور حکمت کے پرتو اسی سے نکلتے ہیں جو اسے سمجه لے تو یہ کتاب طریق معرفت کے لئے اس کی دلیل و راہنما ہے-“۔(۱۲)

____________________

۱ سورہ اسراء آیہ ۹ ، بے شک قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے، جو سب سے زیادہ سیدہی ہے۔

۲ سورہ بروج آیہ ۲۰ ۔ ۲۱ ،بلکہ یہ قرآن مجید جو لوح محفوظ میں لکها ہوا ہے۔

۳ سورہ واقعہ آیہ ۷۷ ۔ ۷۸ ،بے شک یہ بڑے رتبہ کا قرآن ہے جو کتا ب (لوح) محفوظ میں لکها ہوا ہے۔

۴ سورہ حجر آیہ ۸۷ ، اور ہم نے تم کو سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطاء کیا ہے۔

۵ سورہ یس ۱۔ ۲، یس (اس) پر از حکمت قرآن کی قسم۔

۶ سورہ رحمن۔ ۱۔ ۲۔، خدای مهربان۔ تعلیم دی قرآن کی۔

۷ سورہ حشر آیہ ۲۱ ، اگر نازل کرتے قرآن کو پهاڑ پر تو تم دیکھتے کہ کس طرح پهاڑ خشیت خدا سے ریزہ ریزہ ہوجاتے۔

۸ سورہ رعد۔ آیہ ۳۱ ، ترجمہ: اور اگر کوئی ایسا قرآن (بھی نازل ہوا) ہوتا جس کی برکت سے پهاڑ (اپنی جگہ سے)چل کهڑے ہوتے یا اس کی وجہ سے زمین (کی مسافت) طے کی جاتی اور اس کی برکت سے مردے بول اٹهتے۔

۹ سورہ نمل آیہ ۶۔، اے رسول آیات قرآن عظیم از طرف خدای حکیم و دانا آپ پر وحی القاء ہوتی ہے۔

۱۰ سورہ نحل آیہ ۸۹ ، ہم نے اس قرآن عظیم کو تم پر نازل کیا جو کہ ہر چیز کی حقیقت کو روشن کرتا ہے اور ہدایت و رحمت ہے۔

۱۱ سورہ کہف آیت ۱۔ ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جس نے اپنے بندے محمد ((ص)) پر کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی (خرابی) نہ رکھی۔

۱۲ الکافی، ج ۲، ص ۵۹۹ ۔

جی هاں، خداوند متعال نے اس کتاب میں اپنی مخلوق کے لئے تجلی کی ہے۔ جس ذات نے اس کتاب کو نازل کیا ہے اسی نے قرآنی آیات میں اور جس پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے اس نے اپنی بالائی سطور میں اس قرآن کی تعریف کی ہے۔ کیا عظیم قدر و منزلت ہے اس شخص کی جسے ختمی مرتبت نے قرآن کے ہمراہ اور قرآن کو اس کے ہمراہ قرار دیا ہے۔

حامل حکمت قرآن ہونے کی بناء پر وہ ظاہر قرآن کے ہمراہ اور علم قرآن کا حامل ہونے کی بناء پر وہ باطن قرآن کے ہمراہ ہے ۔ یہ هستی شمار نہ کئے جانے والے عجائبات اور کبھی ختم نہ ہونے والے محيّر العقول غرائبات کے ساته ہے۔ اور اس معیت و ہمراہی کی بنا ء پر گذشتہ تمام انیباء پر نازل ہونے والی حکمت و کتاب، اس کے پاس ہے۔

فریقین کے اکابر مفسرین و محدثین(۱) سے منقول روایات کے مطابق کلام مجید میں مذکور ”اُذُن واعیہ“ (تمام چیزوں کو اچهی طرح سے سننے والا کان) علی ہی ہے۔ جهاں ارشاد قدرت ہے:( وَ تَعِیهَا اُذُنٌ وَاعِيَةٌ ) (۲)

وہی جس نے کها: (سلونی فوالله لاتسا لٔونی عن شی یکون إلی یوم القیامة الاَّ حدثتکم به و سلونی عن کتاب الله، فو الله ما من آیة إلاَّ و ا نٔا ا عٔلم ا بٔلیل نزلت ا مٔ بنهار (۳) اس هستی کی کیا عظیم منزلت ہوگی کہ جسے رسول اکرم(ص) نے قرآن کے ہمراہ قرار دیا ہو۔

واضح ہے کہ ہمراہی اور معیت ہمیشہ دو طرفہ ہوا کرتی ہے یعنی جب علی قرآن کے ساته ہیں تو قرآن بھی یقینا علی کے ساته ہے لیکن اس کے باوجود آنحضرت نے علی مع القرآن فرما نے پر اکتفا ء نہ کیا بلکہ آپ علیہ السلام کی عظمت میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: والقرآن مع علی، اور اس نکتے کو صرف اولوالالباب ہی درک کرسکتے ہیں۔

اس حدیث کے پهلے جملے میں علی سے کلام کی ابتداء کرنا اور قرآن پر ختم کرنا نیز دوسرے جملے میں قرآن سے ابتداء اور علی پر جملے کا اختتام کرنا وہ بھی فصیح و بلیغ ترین هستی کی زبان سے، ایسے باریک و دقیق نکات پر مشتمل ہے کہ جس کی تشریح و تفسیر اس مختصر کتاب میں نہیں کی جاسکتی۔

المختصر یہ کہ انبیاء و مرسلین کے درمیان رسول امین سے افضل کوئی نہیں اور کیونکہ علی

____________________

۱-علیہ السلام آنحضرت(ص)سے اور آنحضرت(ص)علی علیہ السلام سے ہیں (انت منی و انا منک) لہٰذا خدا کی افضل ترین مخلوق کے بعد بلا فصل آپ علیہ السلام ہی کا رتبہ ہے۔ادہر دوسری طرف تمام آسمانی کتب میں قرآن مبین سے اعلی و ارفع کوئی کتاب نہیں، اور کیونکہ علی قرآن کے اور قرآن علی کے ساته ہے (علیّ مع القرآن والقرآن مع علی ) لہٰذا قلب علی بن ابی ؛۱۷۷ ، ۱ شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۲۲۰ ؛ نظم درر السمطین، ص ۹۲ ؛ کنز العمّال، ج ۱۳ ، ص ۱۳۵ ، ۳۶۲ وغیرہ؛ الجامع لاحکام القرآن، ج ۱۸ ، جامع البیان، ج ۲۹ ، ص ۶۹ ؛ اسباب النزول، ص ۲۹۴ ؛ شواہد التنزیل، ج ۲، ص ۳۶۱ ، ص ۲۶۴ ؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۴، ص ۴۴۱ ؛ الدر المنثور، ج ۶، ص ۲۶۰ ؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۳۸ ، ص ۳۴۹ ، ج ۴۱ ، ص ۴۵۵ ج ۴۲ ، ص ۳۶۱ ، اور اہل سنت کی دیگر کتابیں۔ بصائر الدرجات، ص ۵۳۷ ، الجزء العاشر، باب ۱۷ ، ح ۴۸ ؛ الکافی، ج ۱، ص ۴۲۳ ؛ عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج ۲، ص ۶۲ ، باب ۳۱ ، ح ۲۵۶ ؛ روضة الواعظین، ص ۱۰۵ ؛ مناقب امیر المومنین علیہ السلام، ج ۱، ص ۱۴۲ وغیرہ؛ دلائل الامامة،

ص ۲۳۵ ؛ تفسیر العیاشی، ج ۱، ص ۱۴ ؛ تفسیر فرات الکوفی، ص ۴۹۹ ؛ التبیان، ج ۱۰ ، ص ۹۸ ؛ مجمع البیان، ج ۱۰ ، ص ۱۰۷ اور شیعوں کی دیگر کتابیں۔ ۲ سورہ حاقہ، آیت ۱۲ ، اور اسے یاد رکھنے والے کان سن کر یاد رکہیں۔

۳ مجه سے سوال کرو، خدا کی قسم مجه سے کوئی چیز نہیں پوچهوگے قیامت تک مگر یہ کہ میں اس کے بارے میں خبر دوں گا، قرآن کے بارے میں سوال کرو، خدا کی قسم کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں میں نہ جانتا ہوں کہ یہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں۔ ، فتح الباری، ج ۸، ص ۴۵۹ ، کنز العمال، ج ۳، ص ۵۶۵ ، اور تهوڑے سے فرق کے ساته شواہد التنزیل، ج ۱، ص ۴۲ تفسیر ثعالبی، ج ۱، ص ۵۲ ، الجامع لاحکام القرآن، ج ۱، ص ۳۵ ، الجرح و التعدیل، ج ۶، ص ۱۹۲ ، تہذیب الکمال، ج ۲۰ ، ص ، ۴۸۷ ، تہذیب التہذیب، ج ۷، ص ۲۹۷ ، ا نٔساب الاشراف، ص ۹۹ ، ینابیع المودة، ج ۲، ص ۱۷۳ ، و ۴۰۸ ، ذخائر العقبیٰ، ص ۸۳ تفسیر القرآن عبد الرزاق، ج ۳، ص ۲۴۱ ، الطبقات الکبری، ج ۲، ص ۳۳۸ ، تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲ ، ص ۳۹۸ میں، اور اہل سنت کے دیگر مصادر۔ مناقب آل ابی طالب، ج ۱، ص ۶۴ ؛ وصول الاخیار الی اصول الاخبار، ص ۴؛ المناقب، ص ۹۴ ؛ کشف الغمة، ج ۱، ص ۱۱۷ ؛ سعد السعود، ص ۲۸۴ ، تفسیر العيّاشی، ج ۲، ص ۲۸۳ ، اور شیعوں کے دیگر منابع و مآخذ۔