اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20589
ڈاؤنلوڈ: 2866

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20589 / ڈاؤنلوڈ: 2866
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

طالب علیہ السلام خداوند تعالی کی جانب سے نازل کردہ تمام امور کا آئینہ ہے اب خواہ وہ امر ہدایت ہو،نور ہو، حکمت ہو یا کوئی بھی اور شئے۔

کیا ان تمام صفات سے متصف ہونے کے بعد بھی کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ رسول اکرم(ص) کی خلافت اور قرآن عظیم کی تفسیر کے لئے علی علیہ السلام کی ذات شائستہ ترین ہے؟

کیا اس بات میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ علی علیہ السلام خدا پر ایمان رکھنے والے ہر انسان کے مولا ہیں کہ جس نے فرمایا:( وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ) (۱) ( وَمَا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِینُ ) (۲)

حدیث ششم:

وہ حدیث ہے جس کی سند کے صحیح ہونے کا محدثین اور رجالِ اہل سنت نے اعتراف کیا ہے۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہکچھ لوگ ابن عباس کے پاس آئے جو امیر المومنین(ع) کے بارے میں ناروا الفاظ استعمال کر رہے تھے، تو ابن عباس نے کها:ایسے شخص کے بارے میں ناروا کہہ رہے ہو جو ایسی دس فضیلتوں کا مالک ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہیں۔

۱۔جنگ خیبر میں (جب دوسرے گئے اور عاجز ہو کر پلٹ آئے تو) رسول خدا(ص) نے فرمایا:

ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدانے ہر گز ذلیل ورسوا نہیں کیا وہ خدا ورسول(ص)سے محبت کرتا ہے اور خدا اور رسول(ص) اس سے محبت کرتے ہیں۔

سب گردنیں اٹها اٹها کر دیکھنے لگے کہ وہ کون ہے ؟ آنحضرت(ص) نے فرمایا: علی(ع) کهاں ہیں؟ آپ دکهتی آنکهوں کے ساته آئے، رسول خدا سے شفا پانے کے بعد، آنحضرت(ص)نے علم کو تین مرتبہ لهرانے کے بعد علم علی(ع) کو دیا۔

۲۔فلاں کو رسول خدا(ص) نے سورہ توبہ کے ساته مشرکین کی جانب روانہ کیا، پھر اس کے پیچہے علی(ع) کو بھیجا اور اس سے سورہ لے کر فرمایا: یہ سورہ اس فرد کے علاوہ کوئی نہیں لے جاسکتا جو مجه سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

۳۔رسول خد ا(ص) نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو دنیا او رآخرت میں میرا ولی ہو؟ کسی نے قبول نہ کیا، علی(ع)سے فرمایا:دنیا وآخرت میں تم میرے ولی ہو۔

۴ ۔ خدیجہ کے بعد علی(ع) سب سے پهلے ایمان لائے۔

۵ ۔ رسول خدا(ص) نے چار افراد علی و فاطمہ وحسن وحسین علیهم السلام پر اپنی چادر اوڑها کر فرمایا:( إِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ ا هَْٔلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرًا )

۶ ۔ علی(ع) وہ ہے جس نے اپنی جان کو رسول خدا(ص) پر فدا کیا، آنحضرت(ص) کا لباس پهن کر رات بهر آپ(ص) کے بستر پر سوئے اور صبح ہونے تک مشرکین آپ(ع) کو پیغمبر سمجه کر پتهر برساتے رہے۔

۷۔ غروہ تبوک میں علی(ع) کو اپنا نائب بنا کر مدینہ میں رہنے کو کها۔ جب علی(ع) رسول خدا(ص) کے فراق کی وجہ سے آبدیدہ ہوئے تو آپ(ص) نے فرمایا:آیا تم راضی نہیں ہوکہ تمهاری نسبت مجه سے وہی ہو، جوہارون کو موسی سے تھی،سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔

یقینامیرا جانا اسی وقت سزاوار ہے جب تم میرے خلیفہ ہو۔

۸۔رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا:میرے بعد تم ہر مومن ومومنہ کے ولی ہو۔

۹۔رسول خدا(ص) نے علی(ع) کے گهر کے دروازے کے علاوہ مسجد نبوی میں کهلنے والے تمام دروازوں کو بند کیا۔

۱۰ ۔رسو ل خدا(ص) نے فرمایا :((من کنت مولاہ فعلی مولاہ))(۳)

____________________

۱ سورہ حشر آیہ ۷، اور جو تم کو رسول دے دیں وہ لے لیا کرو۔

۲ سورہ نور آیہ ۵۴ ، اور رسول پر رسالت کامل کے ابلاغ کے علاوہکچھ فرض نہیں ہے۔

۳ مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۱۳۲ ،مسند احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۳۳۰ ؛ سنن کبریٰ، ج ۵، ص ۱۱۲ ، معجم کبیر،ج ۱۲ ، ص ۷۷ ، فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، ج ۲، ص ۶۸۲ ، حدیث نمبر ۱۱۶۸ ، اور اہل سنت کی دوسری کتابیں۔تفسیر فرات الکوفی، ص ۳۴۱ ؛ شرح الاخبار، ج ۲، ص ۲۹۹ ، العمدة، ص ۸۵ و ص ۲۳۸ ، کشف الغمةفی معرفة الائمة،ج ۱، ص ۸۰ اور شیعوں کی دوسری کتابیں۔

آیا پیغمبر(ص) کی اس نص کے باوجود کہ تمام اصحاب کے ہوتے ہوئے فتح کاعلم علی(ع) کو دیا،صرف اس کو خدا اور رسول(ص)کا حبیب و محبوب کها، خدا کے پیغام کو دوسروں سے لے کراسے دیا کہ ضروری ہے کہ علی(ع) مبلّغ کلام خدا ہو، کیونکہ وہ مجه سے او رمیں اس سے ہوں، اسی طرح آنحضرت(ص) کی یہ تصریح کہ میرا جانا اس وقت تک سزاوار نہیں جب تک کہ تم میرے خلیفہ نہ ہو،

علی(ع) کی ولایت مطلقہ و کلیہ کا بیان ((ا نٔت ولی کل مومن بعدی ومومنة )) اور ((من کنت مولاه فعلی مولاه ))۔کیا اس سنت صحیحہ کے باوجود علی(ع) کی خلافت بلا فصل میں اہل نظر وانصاف کے لئے کسی قسم کے شک و تردید کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟!

اس مختصر مقدمے میں اس موضوع سے متعلق آیات واحادیث کی گنجائش نہیں، جیسا کہ پانچویں صدی هجری کے نامور افراد میں سے حسکانی حنفی نے مجاہد جیسے بزرگ تابعین اور اعلام مفسرین سے نقل کیا ہے کہ علی(ع) کے لئے ستر فضیلتیں ایسی ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی، پیغمبر اکرم(ص) کی کسی صحابی کو حاصل نہیں ہے، جب کہ اصحاب پیغمبر(ص) کے تمام فضائل میں علی(ع)

ان کے شریک ہیں(۱) اور ابن عبا س سے روایت کی ہے کہ قرآن کی( اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ) جیسی تمام آیا ت کے مصادیق میں علی(ع) سب کے سید وسردار ہیں اور اصحاب محمد(ص)میں سے کوئی ایسا نہیں جس پر خدا نے ناراضگی کا اظهار نہ کیا ہو، جب کہ علی(ع) کو اچهائی کے علاوہ یاد نہیںکیا(۲) علی(ع) میں اٹهارہ فضیلتیں ایسی ہیں کہ اس امت کے کسی فرد کے پاس اس جیسی ایک فضیلت بھی ہو تو اس کے ذریعے نجات یافتہ ہوجائے اور بارہ فضیلتیں ایسی ہیں جو اس امت میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ہیں(۳) ابن ابی الحدید کہتا ہے:”ہمارے استاد ابوالہذیل سے پوچها گیا:خدا کے نزدیک علی(ع) کا مقام زیادہ بلند ہے یا ابو بکر کا ؟“

جواب دیا:” خدا کی قسم! خندق کے دن علی(ع) کا عمرو سے مقابلہ، تمام مهاجرین وانصار کے اعمال واطاعت کے برابر ہے، تم تنهاابو بکر کی بات کرتے ہو“(۴)

حنبلی مذهب کے امام، احمد کا کهنا ہے:((ماجاء لا حٔد من ا صٔحاب رسول اللّٰه من الفضائل ماجاءلعلیّ بن ا بٔی طالب ))(۵)

لغت وادب کے ماہر اور علم عروض کے بانی، خلیل بن احمد کے بقول:”کسی کے بھی فضائل یا دوستوں کے ذریعہ نشر ہوتے ہیں یا دشمنوں کے ذریعے۔ علی بن ابی طالب(ع) کے فضائل کو دوستوں نے خوف اور دشمنوں نے حسد کی وجہ سے چهپایا، اس کے باوجود آپ کے فضائل اس طرح سے نشر ہوگئے“(۶)

اگر دشمنوں کا حسد اور دوستوں کو خوف نہ ہوتا اور حکومتِ بنو امیہ و بنی عباس کی اندہیری راتوں کی تاریکیاں اس سورج پر پردے نہ ڈالتیں تو علی(ع) کی فضیلتوں کا نور آفاق کو کس طرح روشن و منور کر دیتا؟!

اس مقدس گفتگو کو آپ(ع) کی شان میں دو آیتوں کے ذکر پر ختم کرتے ہیں:

۱۔( إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَيُو تُْٔوْنَ الزَّکوٰةَ وَهُمْ رَاکِعُوْنَ ) (۷)

اکابر علمائے اہل سنت نے، اس آیت کے امیر المومنین(ع)کی شان میں نازل ہونے کا اعتراف کیا ہے،فخر رازی کی نقل کردہ حدیث کو بطور خلاصہ ملاحظہ فرمائیے:

____________________

۱ شواہد التنریل، ج ۱، ص ۲۴ ۔

۲ شواہد التنریل، ج ۱، ص ۳۲ ۔

۳ شواہد التنریل، ج ۱، ص ۲۲ ۔

۴ شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۱۹ ، ص ۶۰ ۔

۵ مستدرک صحیحین ،ج ۳، ص ۱۰۷ ۔”جیسے فضائل علی کے لئے وارد ہوئے ہیں کسی دوسری صحابی کے لئے نہیں ہیں“۔

۶ تنقیح المقال، ج ۱، ص ۴۰۲ ۔

۷ سورہ مائدہ، آیت ۵۵ ۔”بے شک فقط تمهاراولی خدا ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میںزکوة اداء کرتے ہیں“۔

”ابو ذر کہتے ہیں:میں نے ظهر کی نماز رسول خدا(ص) کے ساته ادا کی، ایک سائل نے مسجد میں آکر بھیک مانگی۔ کسی نے اسےکچھ نہ دیا، علی(ع) رکوع کی حالت میں تھے، آپ (ع)نے اس انگلی سے، جس میں انگوٹهی تھی،سائل کو اشارہ کیا، سائل نے آپ کے هاته سے وہ انگوٹهی لے لی۔ پیغمبر اکرم(ص) نے خدا سے التجا کی اور فرمایا:خدایا! میرے بهائی موسی پیغمبر نے تجه سے سوال کیا اور کها :( رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ ) تو نے اس پر نازل کیا( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِا خَِٔيْکَ وَنَجْعَلُ لَکُمْا سِلْطَاناً ) ، بار الها!

میں محمد تیرا بندہ ہوں، مجھے شرح صدر عطا فرما، میرا کام آسان فرما اور میرے اہل سے علی کو میرا وزیر قرار دے۔اس کے ذریعے میری پشت کومضبوط فرما۔ ابو ذر کہتے ہیں: خدا کی قسم! ابھی رسول خدا(ص) کے کلمات ختم نہ ہوئے تھے کہ جبرئیل اس آیت کے ساته نازل ہوئے۔“(۱)

رسول خدا(ص) کی دعا کے بعد اس آیت کا نازل ہونا آپ(ص) کی دعا کا اثر ہے،کہ جو مقام هارون کو موسی کی نسبت حاصل تھا وہی مقام و مرتبہ علی(ع) کو رسول خدا(ص) کی نسبت عطا کیا گیا۔

اور اس آیت میں حرف عطف کی بنا پر جو الٰهی ولایت، رسول خدا(ص) کے لئے ہے، علی(ع) کے لئے بھی ثابت ہے۔اور لفظ ((إنما)) انحصار پر دلالت کی وجہ سے اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس آیت میں خدا، رسول اور علی کی ولایت ایسی ولایت ہے جو صرف ان تین میں منحصر ہے اور ” ولی“ کے معانی میں سے اس کا معنی، ولایت امر کے علاوہکچھ نہیں ہوسکتا۔

۲۔( فَمَنْ حَآجَّکَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ ا بَْٔنَائَنَا وَا بَْٔنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم وَا نَْٔفُسَنَا وَ ا نَْٔفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللّٰهِ عَلیَ الْکَاذِبِيْنَ ) (۲)

اس آیت کریمہ میں اہل نظر کے لئے چند نکات ہیں، جن میں سے تین نکات کی طرف،طویل تشریح سے گریز کرتے ہوئے اشارہ کرتے ہیں۔

رسو ل خدا(ص)کامباہلہ کے لئے دعوت دینا آپ(ص)کی رسالت کی دلیل وبرہان ہے، جب کہ نصاریٰ کا مباہلہ سے گریزنصرانیت کے بطلان اور آئین محمدی کی حقانیت کا اعتراف ہے۔ لفظ ((ا نٔفسنا ))امیر المومنین علی(ع) کی خلافت بلا فصل کی دلیل ہے، کیونکہ نص قرآن کے مطابق نفس تنزیلی کے ہوتے ہوئے، جو در حقیقت وجودِ ختمی مرتبت(ص)کا تسلسل ہے،کسی اور کی جانشینی ہی نہیں۔

تمام جيّد مفسرین ومحدثین کا جس بات پر اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ((ا بٔنائنا ))سے مراد حسن وحسین علیہما السلام، ((نسائن ا))سے مراد فاطمة الزهر اسلام الله علیها اور((ا نٔفسنا ))سے مراد علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حدیث کا مضمون بطور خلاصہ ملاحظہ ہو، جسے فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے:

”رسول خدا(ص) نے جب نجران کے نصاریٰ کے سامنے اپنے دلائل پیش کر دئے اور وہ اپنی جهالت پر قائم رہے تو آپ(ص) نے فرمایا: ”خدا نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ اگر تم دلیل نہیں مانتے ہو تو میں تمهارے ساته مباہلہ کروں۔“ یہ سن کر انهوں نے کها:”اے ابو القاسم! ہم جا رہے ہیں، اپنے امور میں سوچ بچار کے بعد دوبارہ لوٹ کر آئیں گے۔“جب وہ پلٹ کر گئے تو انهوں نے اپنے صاحب رائے،

عاقب سے پوچها:”اے عبد المسیح! تیرا کیا مشورہ ہے؟“ تو اس نے کها: اے نصاریٰ تم جان چکے ہو کہ محمد خد اکے فرستادہ نبی ہیں اور تمهارے لئے، عیسیٰ کے بارے میں کلامِ حق لائے ہیں۔خدا کی قسم!

کسی ایسی قوم نے پیغمبر کے ساته مباہلہ نہیں جس کے بڑے زندہ بچے ہوں اور چهوٹے پرورش پاسکے ہوں، اگر تم نے اس کام کو انجام دیا تو جڑ سے اکهڑ جاؤگے۔ اگر اپنے دین پر باقی رہنا ہی چاہتے ہو تو اس سے رخصت ہو کر اپنے شهروں کو لوٹ جاؤ۔“

ادہر رسول خدا اس حالت میں باہر آئے کہ حسین کو آغوش میں لئے ہیں، حسن کا هاته تھامے ہوئے ہیں، فاطمہ (سلام الله علیها) آنحضرت کے پیچہے اور ان کے پیچہے پیچہے علی علیہ السلام آرہے ہیں۔ آنحضرت(ص) نے ان سے فرمایا: ”جب میں دعا کروں، تم آمین کهنا۔“

نجران کے راہب نے کها:”اے گروہ نصاریٰ،میں ایسے چهرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے چاہیں کہ پهاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دے تو ان صورتوں اور رخساروں کے لئے پهاڑوں کو اپنی جگہ

____________________

۱ تفسیر کبیر، فخررازی، ج ۱۲ ، ص ۲۶ ۔

۲ سورہ آل عمران، آیت ۶۱ ۔”پیغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آو هٔم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعاکریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قراردیں“۔

سے ہٹا دے گا،مباہلہ نہ کرنا کہ هلاک ہوجاو گے اور قیامت تک روئے زمین پر ایک بھی نصرانی باقی نہیں رہے گا۔“

مباہلہ سے جان چهڑا کر صلح پر راضی ہوگئے، مصالحت کے بعد رسول خدا(ص) نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! هلاکت اہل نجران کے نزدیک تھی۔

اگر مباہلہ وملاعنہ کرتے تو بندر اور سور کی شکلوں میں مسخ ہوجاتے، یہ وادی ان کے لئے آگ بن جاتی اور ایک سال کے اندر اندر تمام نصاری هلاک ہوجاتے۔“

اورروایت ہے کہ جب آنحضر ت(ص) سیاہ کساء میں باہر آئے تو سب سے پهلے حسن کو اس کساء میں داخل کیا، پھر اس کے بعد حسین، پھر جناب سیدہ اور اس کے بعد علی کو اور فرمایا( إِنَّمَا يُرِيْد اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ ا هَْٔلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرًا )

اس کے بعد فخر رازی کہتا ہے:((واعلم ا نٔ هذه الروایة کالمتفق علی صحتها بین ا هٔل التفسیر والحدیث ))(۱)

اگر چہ اس آیت اور مورد اتفاق حدیث کی تشریح کی گنجائش تو نہیں، لیکن صرف دو نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔باہر آتے وقت ان هستیوں کو کساء تلے جمع کرکے یہ ثابت کرنے کے لئے آیت تطهیر کی تلاوت فرمائی کہ ایسی مافوق العادہ دعاجو اسباب طبیعی کو ناکارہ بنا کر بلا واسطہ طور پر خد ا کے ارادے سے تحقق پیدا کرے، ضروری ہے کہ ہر رجس سے پاک روح کی جانب سے سبوح وقدوس کی بارگاہ تک پهنچے کہ( إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّيِّبُ ) (۲) اور جس طهارت کا پروردگا ر عالم نے ارادہ کیا ہے وہ ان هستیوں میں ہی پائی جاتی ہے۔

۲۔نجران کے نصاری کے ساته رسول خدا(ص) کا مباہلہ، اس قوم کے لئے رحمت خدا سے دوری کی درخواست تھی اور وہ دعا جس کی قبولیت سے انسان حیوان کی شکل میں منقلب ہوجائے،خاک اپنی حالت تبدیل کرکے آگ بن جائے اور ایک امت صفحہ هستی سے مٹ جائے،( إِنَّمَا ا مَُٔرُه إِذَا ا رََٔادَ شَيْئًا ا نَْٔ يَّقُوْلَ لِه کُنْ فَيَکُوْنُ ) (۳) کے ارادے سے متصل ہوئے بغیر نا ممکن ہے۔ یہ انسان کامل کی منزلت ہے کہ اس کی رضا وغضب خدا کی رضا وغضب کا مظهر ہو اوریہ مقام حضرت خاتم(ص) اوران کے جانشین کا مقام ہے۔وہ واحد خاتون جو اس مقام پر فائز ہوئیں، صدیقہ کبری کی هستی ہے، جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عصمت کبریٰ جو ولایت کلیہ اورامامت عامہ کی روح ہے، فاطمہ زهرا علیها السلام میں موجود ہے۔

اور یہ حدیث بھی، کہ علماء اہل سنت جس کے صحیح ہونے کے معترف ہیں، اسی امر کو بیان کر رہی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:((فاطمة بضعة منی فمن ا غٔضبها ا غٔضبنی ))(۴) اورباوجود اس کے کہ قرآن وسنت کے حکم کے مطابق پیغمبر(ص) کا غضب، خدا کا غضب ہے،علماء اہل سنت نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے: قال رسول اللّٰہ لفاطمة: ((إن اللّٰه یغضب لغضبک ویرضی لرضاک ))(۵)

جس کی رضا پر خدا بغیر کسی قید وشرط کے راضی اور جس کے غضب پر غضبناک ہو، عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی رضا وغضب، خطا اور ہویٰ وہوس سے پاک ہواور یهی عصمت کبریٰ ہے۔

____________________

۱ تفسیر کبیر، فخر رازی، ج ۸، ص ۸۵ ۔”جان لوکہ یہ وہ روایت ہے جس کے صحیح ہونے پر اہل تفسیر وحدیث نے اتفاق کیا ہے“۔

۲ سورہ فاطر ، آیت ۱۰ ۔”پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں“۔

۳ سورہ یس، آیت ۸۲ ۔”اس کا صرف امر یہ ہے کہ کسی شئے کے بارے میں یہ کهنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جااور وہ شئے ہو جاتی ہے“۔

۴ صحیح بخاری باب مناقب فاطمہ سلام الله علیها، ج ۵، ص ۲۹ ۔”فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجه کو غضبناک کیا۔“

۵ مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۱۵۴ ومعجم کبیر، ج ۱، ص ۱۰۸ والاحاد والمثانی، ج ۵، ص ۳۶۳ ۔”رسول خدا(ص)نے جناب فاطمہ زهرا سلام الله علیها کے لئے فرمایا:بے شک خدا وند عالم تمهارے غضب سے غضبناک ہوتا ہے اور تمهاری رضایت سے راضی ہوتا ہے“۔

ائمہ اثنا عشر

جوکچھ بیان ہو ا وہ مسئلہ امامت کے سلسلے میں مذهب حقہ کے مختصر دلائل تھے۔ ائمہ معصوم کی تعداد کے بارے میں اثنا عشری شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ امام بارہ ہیں۔ پهلے: علی ابن ابی طالب ،دوسرے :حسن بن علی ، تیسرے: حسین بن علی ، چوتہے :علی بن الحسین ، پانچویں :محمد بن علی ،چھٹے : جعفر بن محمد ، ساتویں: موسی بن جعفر ، آٹهویں: علی بن موسی ، نویں: محمد بن علی ، دسویں: علی بن محمد ، گیارہویں:حسن بن علی ، بارہویں:حضرت محمد مهدی علیهم السلام۔علم، اجابت دعوت اور نصّ معصوم کے اعتبار سے، ان میں سے ہر ایک کی امامت کے تفصیلی دلائل، علیحدہ فرصت کے طلبگار ہیں۔

البتہ اہل سنت کی معتبر و قابل اعتماد کتب میں موجود، بعض ان روایات کی طرف اشارہ ضروری ہے، جن میں خود حضرت رسول خد ا(ص) نے اپنے بارہ خلفاء اور بارہ سربراہوں کا ذکر کیا ہے۔

۱۔صحیح بخاری: ((عن جابر بن سمرة قال:سمعت النبی(ص) یقول:یکون اثنا عشرا مٔیرا فقال کلمة لم ا سٔمعها، فقال ا بٔی:إنه قال:کلهم من قریش ))(۱)

۲۔صحیح مسلم :((عن جابر بن سمرة قال:دخلت مع ا بٔی علی النبی(ص) فسمعته یقول:إن هذا الا مٔر لا ینقضی حتی یمضی فیهم اثنا عشر خلیفة، قال:ثم تکلم بکلام خفی علی، قال:فقلت لا بٔی:ماقال؟ قال:کلهم من قریش ))(۲)

۳۔صحیح مسلم:((عن جابر بن سمرة قال:سمعت النبی(ص) یقول:لایزال ا مٔرالناس ماضیا ما ولیهم اثنا عشر رجلا، ثم تکلم النبی(ص) بکلمة خفیت علی، فسئلت ا بٔی:ماذا قال رسول اللّٰه صلی الله علیه و سلم؟ فقال:کلهم من قریش ))(۳)

۴ ۔صحیح ابن حبان :((سمعت رسول اللّٰه(ص) یقول:یکون بعدی اثنا عشر خلیفة کلهم من قریش ))(۴) ٤

۵ ۔جامع ترمذی:((یکون من بعدی إثنا عشر ا مٔیرا، قال :تم تکلم بشی لم ا فٔهمه، فسا لٔت الذی یلینی،فقال: قال: کلهم من قریش ))(۵)

۶ ۔مسند احمد بن حنبل:((یکون بعدی إثنا عشر خلیفة،کلهم من قریش ))(۶)

۷۔مسند احمد بن حنبل:((یکون بعدی إثنا عشر ا مٔیرا، ثم لا ا دٔری ماقال بعد ذلک، فسا لٔت القوم کلهم،فقالوا: قال:کلهم من قریش ))(۷)

۸۔مسند احمد بن حنبل :((یکون بعدی إثنا عشر ا مٔیرا، فتکلم فخفی علیّ، فسا لٔت الذی یلینی ا ؤ إلی جنبی، فقال:کلهم من قری ش))(۸)

۹۔مسند احمد بن حنبل :((یکون بعدی إثنا عشر ا مٔیرا،قال:ثم تکلم فخفی علیّ ما قال، قال:فسا لٔت بعض القوم ا ؤ الذی یلینی ماقال؟ قال:کلهم من قریش ))(۹)

۱۰ ۔مسند ابن الجعد:((یکون بعدی اثنا عشر امیرا، غیرا نٔ حصینًا قال فی حدیثه: ثم تکلم بشی لم ا فٔهمه، وقال بعضهم: فسا لٔت ا بٔی، وقال بعضهم: فسا لٔت القوم فقال:کلهم من قریش ))(۱۰)

____________________

۱ صحیح بخاری ،کتاب احکام کے آخر میں، ج ۸۹ ص ۱۲۷ ، ومسند احمد حنبل، ج ۵، ص ۹۳ ۔

۲ صحیح مسلم ، ج ۶، ص ۳،(کتاب الامارة، الخلافة فی قریش)

۳ صحیح مسلم ، ج ۶، ص ۳،و مسند احمد حنبل، ج ۵، ص ۹۸ ۔

۴ صحیح مسلم ، ج ۱۵ ، ص ۴۳ ۔

۵ صحیح مسلم ، ج ۳، ص ۳۴۰ ۔

۶ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۹۲ ۔

۷ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۹۲ ۔

۸ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۹۹ ۔

۹ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۱۰۸ ۔

۱۰ صحیح مسلم ، ص ۳۹۰ ، نمبر ۲۶۶۰ ۔

۱۱ ۔مسند ابی یعلی:((یقول:لا یزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون علیکم إثنا عشر خلیفة کلهم من قریش ))(۱)

۱۲ ۔مسند احمد بن حنبل :((عن جابر بن سمرة قال: خطبنا رسول اللّٰه(ص) بعرفات فقال:لا یزال هذا الا مٔر عزیزا منیعا ظاهرا علی من ناواه حتی یملک اثنا عشر کلهم، قال:فلم ا فٔهم ما بعد، قال:فقلت لا بٔی ما قال بعد ما قال:کلهم، قال:کلهم من قریش ))(۲)

۱۳ ۔مستدرک حاکم :((عن مسروق قال:کنا جلوسا لیلة عند عبد اللّٰه یقرئنا القرآن فسا لٔه رجل فقال:یا ا بٔا عبدالرحمن هل سا لٔتم رسول اللّٰه(ص) کم یملک هذه الا مٔة من خلیفة؟ فقال عبد اللّٰه:ماسئلنی هذا ا حٔد منذ قدمت العراق قبلک، قال: سئلناه، فقال:اثنا عشر عدة نقباء بنی اسرائیل ))(۳)

اس موضوع سے متعلق روایات صرف ان مذکورہ کتب میں ذکر نہیں ہوئیں بلکہ ان کتب میں بھی ذکر شدہ روایات سے کہیں زیادہ روایات ذکر ہوئی ہیں،لیکن اختصار کی وجہ سے اس تعداد پر اکتفا کیا گیاہے۔(۴)

بارہ اماموں کے بارے میں رسول خدا(ص) سے منقول نصوص جنہیں عبدالله بن عباس، عبدالله بن مسعود، سلمان فارسی،ابی سعید خدری، ابی ذر غفاری، جابر بن سمرة،جابر بن عبدالله،انس بن مالک،زید بن ثابت، زید بن ارقم،ابی عمامہ، واصلة بن اسقع،ابی ایوب انصاری، عمار بن یاسر، حذیفہ بن اسید، عمران بن حصین، سعد بن مالک، حذیفہ بن یمان اور ابی قتادہ انصاری جیسے بزرگ وجلیل القدر اصحاب کے علاوہ دوسرے بزرگان نے بھی روایت کیا ہے، کہ اختصار کے پیش نظر جن کے ذکر سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔

اس روایت میں بعض خصوصیات کا تذکرہ ہے ،جیسے :

۱۔خلفاء کا فقط بارہ افراد پر مشتمل ہونا۔

۲۔ان بارہ افراد کی خلافت کا قیامت تک باقی رہنا۔

۳۔دین کی عزت واستقامت کا ان سے وابستہ ہونا۔

۴ ۔علمی وعملی اعتبار سے ان کے ذریعے دین کا قائم ہونا،کیونکہ قیامِ دین ان خلفاء کے ذریعے ہی ممکن ہے جو علمی اعتبارسے معارف وحقائقِ دین کو بیان کریں اور عملی اعتبار سے حق و قوانین عادلہ کو جاری کرنے والے ہوں اور ان دو اہم اجزاء کا میسر ہونا ان شرائط کے بغیر نا ممکن ہے،

جس کے شیعہ، بارہ اماموں کے بارے میں قائل ہیں۔

۵ ۔نقباء بنی اسرائیل کی نظیر قرار دینے سے کشف ہوتا ہے کہ منصوب من الله ہیں، جیسا کہ اس آیتِ کریمہ میں بیان کیا گیا ہے( وَبَعَثْنَا مِنْهُمْ إِثْنیٰ عَشَرَ نَقِيْبًا ) (۵)

۶ ۔ا ن سب کا قریش سے ہونا۔

آیا یہ خصوصیات رکھنے والے خلفاء طریقہ حقہ اثنا عشری اور بارہ اماموں کے علاوہ کہیں اور قابل انطباق ہیں؟!

____________________

۱ صحیح مسلم ، ج ۱۳ ، ص ۴۵۶ ۔

۲ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۹۳ ۔

۳ صحیح مسلم ، ج ۴، ص ۵۰۱ ۔

۴ مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۶۱۸ ، سنن ابی داو دٔ، ج ۴، ص ۱۰۶ ، نمبر ۴۲۸۰ مسند احمد حنبل، ج ۱، ص ۳۹۸ ، نمبر ۱۰۸ ؛ مسند ابی یعلی، ،۱۰۷ ،۱۰۶ ،۱۰۱ ،۹۷،۱۰۰ ،۹۵ ،۹۴ ،۹۰ ،۸۹ ،۸۸ ،۸۷ ، ۳۷۸۱ وص ۴۰۶ ، نمبر ۳۸۵۹ ۔ ج ۵، ص ۸۶ ،۲۱۵ ،۲۱۴ ،۲۰۸ ،۲۰۷ ،۲۰۶ ،۱۹۹ ،۱۹۷ ، ج ۸، ص ۴۴۴ ، نمبر ۵۰۳۱ وج ۹، ص ۲۲۲ ، نمبر ۵۳۲۲ ، معجم کبیر، ج ۲، ص ۱۹۶ ، ۱، نمبر ۱۰۳۱۰ وج ۲۲ ، ص ۱۲۰ ،الاحاد المثانی، ج ۳ ۲۵۵ ، وج ۱۰ ، ص ۵۷ ،۲۵۴ ،۲۵۳ ،۲۴۰،۲۴۸ ،۲۲۶ ،۲۲۳ ،۲۱۸ ، ص ۱۲۸ ، التاریخ الکبیر، ج ۳، ص ۱۸۵ ، نمبر ۶۲۷ وج ۸، ص ۴۱۰ ، تہذیب الکمال،ج ۳، ص ۲۲۳ ، ج ۳۳ ، ص ۲۷۲ ، نمبر ۷۳۳۵ الثقات،ج ۷، ص ۲۴۱ ، طبقات المحدثین باصبهان والواردین علیها، ج ۲، ص ۸۹ ، مسند ابی داو دٔ الطیالسی، ص ۱۰۵ ، نمبر ۷۶۷ و ص ۱۸۰ ، نمبر ۱۲۷۸ ، المعجم الاوسط، ج ۱، ص ۲۶۳ ، نمبر ۸۶۳ ، تعجیل المنفعہ بزوائد رجال الائمة الاربعة، ص ۵۳۸ ، اور اہل سنت کے دیگر منابع۔کشف الغطاء، ج ۱، ص ۷، عیون الاخبار الرضا علیہ السلام، ج ۱، ص ۴۹ ، باب ۶، ح ۹؛ الخصال ، ص ۴۶۷ وغیرہ؛ الامالی للصدوق، ص ۳۸۶ ، مجلس ۵۱ ، ح ۴، ص ۳۸۷ ، وغیرہ؛ کمال الدین و تمام النعمة، ص ۶۸ ، وغیرہ، ۲۷۱ ،وغیرہ؛ کفایة؛ ۲۶۲ ، دلائل الامامة، ص ۲۰ ؛ شرح الاخبار ، ج ۳، ص ۳۵۰ و ۴۰۰ ، ۴۹ وغیرہ، روضة الواعظین، ص ۲۶۱ ، الاثر، ص ۳۵۱۲۰ وغیرہ؛ الغیبة للطوسی، ۱۲۸ وغیرہ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ۱، ص ۲۹۵ ؛ العمدة، ص ، کتاب الغیبة، ص ۱۰۳ وغیرہ،، ۱۱۸۴۱۶ وغیرہ؛ الطرائف، ص ۱۶۹ وغیرہ، اور شیعوں کے دیگر منابع۔

۵ سورہ مائدہ، آیت ۱۲ ۔”اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیب بھیجے“۔

کیا یزید اور یزید جیسوں کی خلافت میں، نقباء بنی اسرائیل جیسی اسلام کی عزت، امت کی نگهداشت اور ویسی حکومت میسر آسکتی ہے ؟!

اور اہل سنت کے بعض محققین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ حدیث نہ تو پیغمبر کے بعد کے خلفاء پر قابل انطباق ہے،اس لئے کہ ان کی تعداد بارہ سے کم ہے، نہ سلاطین نبی امیہ پر حمل کی جاسکتی ہے، ان کے مظالم اور تعداد میں بارہ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے،اور نہ ہی ملوک بنی عباس پر قابلِ تطبیق ہے، کیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ ہے اور انهوں نے بھی آیت( قُلْ لاَّ ا سَْٔئَلُکُمْ عَلَيْهِ ا جَْٔرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ ) (۱) کا حق ادا نہیںکیا۔ یہ احادیث آنحضرت(ص) کی آل وعترت کے علاوہ کسی اورمقام پر منطبق نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہ اپنے اپنے زمانے میں باقی تمام بنی نوع انسان سے اعلم، اجل، اورع اور اتقی ہونے کے ساته ساته حسب ونسب کے اعتبار سے بھی افضل واعلی اور دوسروں کی نسبت خدا کے نزدیک زیادہ صاحب اکرام تھے۔ اہل علم وتحقیق اور اہل کشف وتوفیق نے ان هستیوں کو اسی مقام ومنزلت پر فائز پایا ہے(۲) اور سدی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے :”چونکہ سارہ کو هاجرہ کے ساته رہنا ناپسند تھا خداوند کریم نے حضرت ابراہیم(ع) پر وحی نازل کی اور فرمایا: اسماعیل او ران کی والدہ کو یهاں سے سے ”نبی تھامی کے گهر“ یعنی مکہ لے جاؤ، میں تمهاری نسل کو پهیلاؤں گا اور میرے بارے میں کفر کرنے والوں پر انہیں قدرت عطا کروں گا اور اس کی نسل سے بارہ کو عظیم قرار دوں گا۔“(۳)

اور یہ بات تورات میں سفر تکوین کے سترہویں باب میں موجو داس عبارت کے موافق ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم سے فرمایا:”میں نے تمهاری دعا کو اسماعیل کے بارے میں بطور خاص قبول کیا، اب اپنی برکت سے اسے صاحب اولاد بنا ؤں گا اور اس کو بہت کثرت عطا کروں گا،اس سے بارہ سردار بنیں گے اور اس سے عظیم امت پیدا کروں گا۔“

اور بارہ ائمہ کی امامت، صحیح روایات اور معصوم سے مروی متواتر نصوص جو سند کی بحث سے بے نیاز ہوتی ہیں، کے ذریعہ ثابت ہے۔ ہم اس مقدمے میں ”حدیثِ لوح“ پر اکتفا کرتے ہیں، جسے متعدد اسناد کے ساته، جن میں سے بعض معتبر ہیں، بزرگ محدثین نے نقل کیا ہے۔ ہم ان میں سے دو روایات کو یهاں ذکر کرتے ہیں :

پهلی روایت:

یہ وہ روایت ہے جسے شیخ صدوق نے پانچویں امام(ع) اور انهوںنے جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کیا کہ جابر بن عبد الله انصاری نے کها: میں حضرت فاطمہ زهرا علیها السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کے سامنے ایک لوح رکھی تھی جس پر اوصیا ء کے نام تھے۔میں نے انہیں گنا تو بارہ تھے جن میں سے آخری قائم تھے، تین محمد اور چار علی تھے۔(۴)

دوسری روایت:

یہ حدیث اخبار غیبی پر مشتمل ہے اور خود اس کا متن اس کے مقام عصمت سے صادر ہونے پر گواہ ہے۔ اسے شیعہ اکابر محدثین جیسے شیخ مفید، شیخ کلینی،شیخ صدوق اور شیخ طوسی اعلی اللہ مقامهم نے عبد الرحمن بن سالم، انهوںنے ابی بصیر اور انهوں نے چھٹے امام (ع)سے نقل کیا ہے اور مضمون روایت تقریباً یہ ہے کہ:

”میرے والد گرامی نے جابر بن عبدا لله انصاری سے فرمایا: ”مجھے تم سے ایک کام ہے،

تمهارے لئے کس وقت آسانی ہے کہ تم سے اکیلے میں ملوں او راس بارے میں سوال کروں ؟“

جابر نے کها: ”جس وقت آپ پسند فرمائیں ۔“

____________________

۱ سورہ شوریٰ، آیت ۲۳ ۔”تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو“۔

۲ ینابیع المودة، ج ۳،ص ۲۹۲ ۔

۳ کشف الغطاء،ج ۱، ص ۷۔

۴ کمال الدین وتمام النعمة، ص ۲۶۹ ۔