اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20515
ڈاؤنلوڈ: 2829

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20515 / ڈاؤنلوڈ: 2829
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

علاوہ کوئی دوسرا عمل انجام ہی نہ دیتی تھی، اچانک اس میں ایسا انقلاب برپا ہوجاتا ہے کہ اس ناتوان اور کمزور چوزے کی حفاظت کی خاطر سینہ سپر ہو جاتی ہے اور جب تک چوزے کے لئے محافظ کی ضرورت ہے، اس میں یہ محبت باقی رہتی ہے ؟!

کیا مرغی کے ایک انڈے کے متعلق غوروفکر، اس خالق کائنات کی رہنمائی کے لئے کافی نہیں ہے کہ( خَلَقَ فَسَوّٰیة وَ الَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدیٰ ) (۱)

اسی لئے امام (ع) نے فرمایا :((ا تٔرا لها مدبر اً؟ قال: فا طٔرق ملیاً، ثم قال: ا شٔهد ا نٔ لا إله إلا اللّٰه وحده لا شریک له وا شٔهد ا نٔ محمداً عبده ورسوله، وا نٔک إمام وحجة من اللّٰه علی خلقه وا نٔا تائب ممّا کنت فیه ))(۲)

هاں، وہی علم و قدرت اور حکمت جو مٹی کے گهپ اندہیرے میں بیج اور انڈے کے چهلکے کی تاریکی میں چوزے کو کسی ہدف اور مقصد کے لئے پروان چڑهاتا ہے، ماں کے پیٹ اور اس کے رحم کی تاریکیوں میں انسانی نطفے کو، جو ابتداء میں خوردبین سے نظر آنے والے جاندار سے بڑه کر نہیں ہوتا اور اس میں انسانی اعضاء و جوارح کے آثار تک نہیں ہوتے، رحمِ مادر سے باہرزندگی بسر کرنے کے لئے تمام ضروریات زندگی سے لیس کرتا ہے۔

مثال کے طور پر جنین میں، ہڈیوں کو اپنی ذمہ داری نبهانے کے لئے مختلف شکل اور حجم میں بنایا، مختلف حرکات کے لئے عضلات کو قرار دیا،دماغ کی حیرت انگیز بناوٹ کے ذریعے مشعلِ ادراک کو روشن کیا اور دل کی فعالیت کے ذریعے جو هرسال کروڑوں بار دہڑکتا ہے، حرارتِ حیات کو زندگی کے اس مرکز میں محفوظ فرمایا۔

انسانی جسم کی اس سادہ ترین ترکیب میں غوروفکر، عزیز و علیم خدا کی تقدیر پر ایمان لانے کے لئے کافی ہے۔ مثال کے طور پر انسان کے منہ میں تین قسم کے دانت بنائے، پهلے ثنایا اس کے بعد انیاب، پھر اس کے بعد چهوٹے طواحن اور آخر میں بڑے طواحن کو قرار دیا ۳۔اگر ثنایا، انیاب اور چهوٹے طواحن کو بڑے طواحن کی جگہ قرار دیا جاتا تو دانتوں کی ترتیب میں یہ بگاڑ، غذا توڑنے اور چبانے سے لے کر اس چهرے کی بد صورتی اور خوبصورتی میں کیا کردار ادا کرتا ؟!

اگر بهنویں جو آنکهوں کے اوپر ہیں، نیچے اور ناک کے سوراخ، نیچے کے بجائے اوپر کی سمت ہوتے تو کیا ہوتا؟!

زمین کی آبادی اور اس پر آبا د کاری، چاہے کاشتکاری ہو یا مضبوط ترین عمارت یانازک و دقیق ترین صنعت ، سب کے سب، انگلی کی پوروں اور اس پر ناخنوں کے اگنے سے وابستہ ہیں۔

وہ کونسی حکمت ہے جس نے ناخن بنانے والا مادّہ، انسان کی غذا میں فراہم کیا، اسے حیرت انگیز طریقے سے ہضم کے مرحلے سے گزارا اورپھر رگوں میں داخل کر کے انگلیوں کی پوروں تک پهنچایا اور اس تخلیق کی غرض کو مکمل کرنے کے لئے گوشت اور ناخن میں پیوند کے ذریعے ان دونوں کے درمیان ایسا رابطہ بر قرار کیا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا نهایت طاقت فرسا کام ہے،

لیکن غرض ومقصد حاصل ہونے کے بعد ان کو اس طرح ایک دوسرے سے جدا کر دیا کہ ناخن آسانی کے ساته کاٹے جاسکیں؟!

تعجب آور تو یہ ہے کہ جس غذا سے ناخن کا مادّہ اس سختی کے ساته تیار ہوا ہے، اسی غذا سے کمالِ لطافت کے ساته ایک صاف اورشفاف مادّہ، بینائی کے لئے بھی تیا رہوا ہے جو ہضم وجذب کے مراحل کو طے کرنے کے بعد آنکه تک جا پهنچتا ہے۔

اگر ان دونوں کے طے شدہ تقسیمِ رزق میں کام الٹ جاتا اورناخن آنکه سے نکل آتا، جب کہ وہ صاف شفاف مادّہ آنکهوں کی بجائے انگلیوں کی پوروں تک جا پهنچتا، تو انسانی نظامِ زندگی میں کتنا بڑا خلل واقع ہوجاتا ؟!

____________________

۱ سورہ اعلی، آیت ۲و ۳۔”پیدا کیا اور درست بنا یاہے۔جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت دی ہے“۔

۲ بحارالانوار، جلد ۳، صفحہ ۳۲ ۔”حضرت فرماتے ہیں:کیا اس کے لئے کسی مدبر کو دیکھتے ہو:تهوڑی دیر سکوت کے بعد خدا کی وحدانیت ومحمد کی رسالت وآنحضرت کی امامت پر ایمان لے آیا اور اپنے گذشتہ عمل کی توبہ کی“۔

۳ ثنایا: اوپر کے دو دانت جو سامنے کی طرف ہوتے ہیں، انیاب: اوپر کے دو نوک دار دانت، طواحن: ڈاڑہیں۔

یہ علم وحکمت کے آثار کا سادہ ترین نمونہ ہے جو کسی دقّت نظر کا محتاج نہیں( وَفِیْ ا نَْٔفُسِکُمْ ا فََٔلاَ تُبْصِرُوْنَ ) (۱) تو انسانی خلقت کے ان عمیق ترین اسرار کے بارے میں کیا کہئے گا کہ جن کی تہہ تک رسائی کے لئے انسان کو اپنے علم کو جدید ترین آلات کی مدد سے کام میں لاتے ہوئے،سرجری اور اعضائے انسانی کی خصوصیات و کردار جیسے شعبوں میں اعلیٰ مهارت بھی حاصل کرنی پڑے۔( ا ؤََلَم يَتَفَکَّرُوْا فِیْ ا نَْٔفُسِهِمْ ) (۲)

جی هاں، اتنی زیادہ علمی کاوشوں کے بعد اب تک جس موجود کی جلد کی حکمت ہی واضح نہ ہوسکی ہو، اس کے باطن اور مغز میں کیسے عظیم اسرار پنهاں ہیں، جیسے ملائمات کو جذب کرنے والی شہوت اور ان کی حفاظت ونا ملائمات کو دفع کرنے والے غضب سے لے کر، ان دو کے عملی تعادل کے لئے عقل اور نظری تعادل کے لئے حواس کی ہدایت سے سرفراز کیا گیا ہے( وَ إِنْ تَعُدُّّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لاَ تُحْصُوْهَا ) (۳)

حکمت کی ایسی کتاب کو علم وقدرت کے کون سے قلم سے پانی کے ایک قطرے پر لکهاگیاہے؟!( فَلْيَنْظُرِ اْلإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَةخُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ ) (۴) ( يَخْلُقُکُمْ فِی بُطُوْنِ ا مَُّٔهَاتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثَلاَثٍ ) (۵)

یہ کیسا علم اور کیسی قدرت وحکمت ہے کہ جس نے غلیظ وپست پانی میں تیرنے والے خوردبینی حیوان سے ایسا انسان خلق کیا ہے جس کی مشعلِ ادراک، اعماقِ آفاق وانفس کی جستجو کرے اِقْرَا وَرَبُّکَ اْلاَکْرَمَةالَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِةعَلَّمَ اْلإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ(۶) اور زمین وآسمان کو اپنی قدرت وجولان فکر کا میدان قرار دے؟( ا لَمْ تَرَوا ا نََّٔ اللّٰهَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلا رَْٔضِ وَ ا سَْٔبَغَ عَلَيْکُمْ نِعَمَه ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً وَّمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلاَ هُدًی وَّلاَ کِتَابٍ مُّنِيْرٍ ) (۷)

اس علم وقدرت اور رحمت وحکمت کے سامنے انسان، خود پروردگار عالم کے اس فرمان کے علاوہ کیا کہہ سکتا ہے کہ( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ ا حَْٔسَنُ الْخَالِقِيْنَ ) (۸) اور اس کے سوا کیا کر سکتا ہے کہ خاک پر گر کر اس کے آستانہ جلال پر ماتها رگڑ کر کہے:((سبحن ربی الا عٔلی وبحمده ))

اس آیت کریمہ( سَنُرِيْهِمْ آيَاتِنَا فِی اْلآفَاقِ وَفِی ا نَْٔفُسِهِمْ حَتّٰی يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ) (۹) کے مطابق، آفاق جهاں میں بھی دقّت نظر ضروری ہے کہ لاکهوں سورج،چاند وستارے جن میں سے بعض کا نور ہزاروں نوری سالوںکے بعد زمین تک پهنچتا ہے، جب کہ نور ہر سیکنڈ میں تقریبا تین لاکه کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے، اور جن میں سے بعض کا حجم،زمین کے حجم سے کروڑوں گنا زیادہ ہے، ان سب کے درمیان اتنا گهرا انتظام اتنے دقیق حساب کے ساته بر قرار کیا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک کو اس طرح اپنے معین مدار میںرکھا گیا ہے اور قوتِ جاذبہ ودافعہ کے درمیان ایسا عمومی تعادل برقرار ہے کہ ان

____________________

۱ سورہ ذاریات، آیت ۲۱ ۔”اور خود تمهارے اندر بھی ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو“۔

۲ سورہ روم، آیت ۸۔”کیا ان لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی ہے“۔

۳ سورہ نحل، آیت ۱۸ ۔”اور تم الله کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتے ہو“۔

سورہ نحل، آیت ۱۸ ۔”اور تم الله کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتے ہو“۔

۴ سورہ طارق ، آیت ۵،۶ ۔”پھر انسان دیکھے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔وہ ایک اچهلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے“۔

۵ سورہ زمر، آیت ۶۔ ”وہ تم کو تمهاری ماو ںٔ کے شکم میں خلق کرتا ہے ایک کے بعد ایک خلقت جو تین تاریکیوں کے درمیان ہے“۔

۶ سورہ علق، آیت ۳،۴،۵ ۔ ”پڑهو! اور تمهارا پروردگار بزگوار ہے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے۔ اور انسان کو وہ سبکچھ بتا دیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا“۔

۷ سورہ لقمان، آیت ۲۰ ۔”کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ الله نے زمین وآسمان کی تمام چیزوں کو تمهارے لئے مسخر کردیا ہے اور تمهارے لئے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو مکمل کر دیا ہے اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو علم وہدایت اور روشن کتاب کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث کرتے ہیں“۔

۸ سورہ م ؤمنون، آیت ۱۴ ۔”وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے“۔

۹ سورہ فصلت، آیت ۵۳ ۔”هم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکهلائیں گے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ حق ہے“۔

تمام سیاروں کے درمیان کسی قسم کے ٹکراؤ یاتصادم کا واقع ہونا، ناممکن ہے( لاَ الشَّمْسُ يَنْبَغِی لَهَا ا نَْٔ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ يَّسْبَحُوْنَ ) (۱)

زمین کو،جو انسانی زندگی کا مرکز ہے، اس پر محیط ایک کروی فضاء کے ذریعے محفوظ کیا جس سے دن رات ہزاروں شهاب ٹکرا کر ختم ہو جاتے ہیں۔

سورج اورزمین کے درمیان اتنا مناسب فاصلہ برقرار کیا کہ معادن، نباتات، حیوانات اور انسانی زندگی کی نشو نما کے اعتبار سے، روشنی وحرارت تما م شرائط کے مطابق موجود رہے۔

زمین کی اپنے مدار اور محور دونوں پر حرکت کو اس طرح منظّم کیا کہ زمین کے زیادہ تر حصے میں طلوع وغروب اور دن ورات ہر آن موجود رہیں، آفتاب طلوع ہوتے ہی سورج کی روشنی وحرارت سے نظامِ زندگی کو روشنی اور گرمی ملے اور حصولِ رزق ومعاش کا بازار گرم ہوجائے اور غروب آفتاب کے ساته ہی آرام وسکون کے لئے رات کا اندہیرا، جو بقاءِ زندگی اور تجدید نشاط کے لئے ضروری ہے، اپنے ڈیرے ڈال دے تاکہ سورج کی مستقل حرارت یا اس کے مکمل انقطاع سے نظامِ حیات میں کوئی خلل واقع نہ ہو( وَ هُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ ا رََٔادَ ا نَْٔ يَّذَّکَّرَ ) (۲) ( وَ مِنْ رَّحْمَتِه جَعَلَ لَکُم الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْکُنُوْا فِيْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِه ) (۳) ( قُلْ ا رََٔا ئًْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْکُمُ اللَّيْلَ سَرْمَداً إِلَی يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ إِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَا تِْٔيْکُمْ بِضِيَاءٍ ا فًَٔلاَ تَسْمَعُوْنَ ) (۴)

نوروظلمت اور روز و شب دونوں، آپس کے انتها درجے کے تضادّ و اختلاف کے باوجود، مل کر ایک ہی ہدف ومقصد پورا کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور دوسری جانب جوکچھ زمین میں ہے اسے دن اور جوکچھ آسمانوں میں ہے اسے رات کے وقت انسان کی نظروں کے سامنے رکھا گیا ہے تاکہ دن رات آسمانوں اور زمین کے ملک وملکوت انسان کی بصارت اور بصیرت کے سامنے موجود رہیں۔

انسان کے لئے کتابِ وجود کی دن رات ورق گردانی کی تاکہ وہ زمین وآسمان کے صفحے سے آیاتِ خدا کا مطالعہ کر سکے( ا ؤََلَمْ يَنْظُرُوْا فِی مَلَکُوْتِ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِن شَیْءٍ ) (۵) ( وَکَذٰلِکَ نُرِی إِبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ وَ لِيَکُوْنَ مِنَ الْمُوقِنِيْنَ ) (۶)

وہ انسان جو ذهنِ بشر میں قوانین واسرارِ کا ئنات کے انعکاس کو علم وحکمت کا معیار و ملاک سمجهتا ہو،کس طرح ممکن ہے کہ وہ مغز،ذهن اوردانشوروں کے تفکر کو بنانے والے، کائنات پر حکم فرما قوانین کو نافذ کرنے والے اور اسرارِ نظام هستی کو وجود عطا کرنے والی هستی کو فاقدِ علم وحکمت سمجھے، حالانکہ تمام مفکرین کے اذهان میں منعکس ہوجانے والے قوانین کا ئنات کی نسبت ان قوانین کے مقابلے میں جو اب تک مجهول ہیں، ایسی ہے جیسے قطرے کے مقابلے میں ایک سمندر( وَمَا ا ؤُْتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيْلاً ) (۷)

اس بات پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ کتاب هستی سے چند سطروں کی نقول تیار کرلینے والا تو علیم وحکیم ہو لیکن خود کتابِ وجود کا مصنف، اس نقل تیار کرنے والے کا خالق اور نقل کے وسیلے کو فراہم کرنے والا ہی بے شعور و بے ادراک ہو؟!یهی وجہ ہے کہ منکر کی فطرت بھی دانا وتوانا خالق کے وجود کی گواہی و شهادت دیتی ہے( وَلَئِنْ سَا لَْٔتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ وَسَخَّر

____________________

۱ سورہ یس، آیت ۴۰ ۔”نہ آفتاب کے بس میں ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات کے لئے ممکن ہے کہ وہ دن سے آگے بڑه جائے ۔ اور یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک اور مدار میں تیرتے رہتے ہیں“۔

۲ سورہ فرقان، آیت ۶۲ ۔”اور وہی ہے جس نے رات اور دن میں ایک کو دوسرے کا جانشین بنایا ہے اس کے لئے جو عبرت حاصل کرنا چاہتا ہے“۔

۳ سورہ قصص، آیت ۷۳ ۔”یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ اس نے تمهارے لئے رات لے آئے گا رات اور دن دونوں بنائے ہیں تاکہ آرام بھی کر سکو اور رزق بھی تلاش کر سکو“۔

۴ سورہ قصص، آیت ۷۱ ۔”آپ کہئے کہ تمهارا کیا خیال ہے اگرخدا تمهارے لئے رات کو قیامت تک کے لئے ابدی بنادے تو کیا اس کے علاوہ اور کوئی معبود ہے جو تمهارے لئے روشنی کو لے آسکے تو کیا تم بات سنتے نہیں ہو“۔

۵ سورہ اعراف، آیت ۱۸۵ ۔”اور کیا ان لوگوں نے زمین وآسمان کی حکومت اور خدا کی تمام مخلوقات میں غور نہیں کیا“۔

۶ سورہ انعام، آیت ۷۵ ۔”اور اسی طرح ہم ابراہیم کو ملکوت آسمان و زمین دکهلائیں گے، اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں شامل ہو جائیں“۔

۷ سورہ اسراء، آیت ۸۵ ۔”اورتمہیں بہت تهوڑا سا علم دیا گیا ہے“۔

الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَا نَٔیّٰ يُو فَْٔکُوْنَ ) (۱) ( وَلَئِنْ سَا لَْٔتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَاْلا رًْٔضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُالْعَلِيْمُ ) (۲)

منکرین خدا میں سے ایک شخص آٹهویں امام(ع) کے پاس آیا تو امام (ع) نے اس سے فرمایا:اگر تمهارا عقیدہ صحیح ہو، جب کہ ایسا نہیں ہے، تب بھی ہمیں نماز،روزہ،زکات اور اقرار سے کوئی نقصان نہیں پهنچا۔ (کیونکہ دینی فرائض جو ایمان لانا،عمل صالح کرنا اور منکرات کو ترک کرنا ہے،روح کے اطمینا ن اور معاشرے کی اصلاح کا سبب ہیں اور اگر بالفرض عبث اور بے کار ہوں تب بھی،مبدا ومعاد کے احتمالی وجود کے مقابلے میں ان اعمال کے مطابق عمل کی تکلیف اور نقصان نهایت کم ہے،کیونکہ دفع شر اور بے انتها خیر کثیر کو جلب کرنا،جو محتمل ہو، عقلاًضروری ہے)۔

اس شخص نے کها : جس خدا کے تم لوگ قائل ہو وہ کیسا ہے اور کهاں ہے؟

امام (ع) نے فرمایا :اس نے اَین کو اَینیت اور کیف کو کیفیت عطا کی ہے۔ (وہی اَین و مکان اور کیف و کیفیت کا خلق کرنے والا ہے، جب کہ مخلوق کبھی بھی خالق کے اوصاف و احوال کا حصہ نہیں بن سکتی، کیوں کہ خالق میں مخلوق کے اوصاف موجود ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ خالق مخلوق کا محتاج ہوجائے، اسی لئے خداوند متعال کو نہ کسی کیفیت یا مکانیت سے محدود کیا جاسکتا ہے، نہ کسی حس کے ذریعے محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کے ساته پرکھا جا سکتاہے)۔

اس شخص نے کها:بنا برایں اگراسے کسی حس کے ذریعے محسوس نہیں کیا جاسکتا، تو اس کا وجود نہیں ہے۔

امام (ع) نے فرمایا : جب تیری حس اس کے ادراک سے عاجز ہوئی تو تو ا س کا منکر ہوا اور جب ہم نے حواس کو اس کے ادراک سے عاجز پایا تو ہمیں یقین ہوا کہ وہ ہمارا پروردگا ر ہے۔(موجودات کو محسوسات تک منحصر سمجهنے والا اس بات سے غافل ہے کہ حس موجود ہے لیکن محسوس نہیں، بینائی اور شنوائی موجود ہے لیکن دیکھی اور سنی نہیں جاسکتی ہے، انسان ادراک کرتا ہے کہ غیر متناہی محدود نہیں ہے جب کہ ہر محسوس ہونے والی چیز محدود ومتناہی ہے -؛کتنے ہی ذهنی وخارجی موجودات ایسے ہیں جو حس ومحسوسات سے ماوراء ہیں، جب کہ وہ شخص موجود کو محسوس تک محدود خیال کرنے کی وجہ سے خالق حس ومحسوس کا منکر ہو ا اور امام (ع) نے اس شخص کی اسی حقیقت کی جانب ہدایت کی کہ حس ومحسوس،وہم وموہوم اور عقل ومعقول کا خالق حس، وہم اورعقل میں نہیں سما سکتا،کیونکہ حواس خمسہ جس چیزکا ادراک کرتے ہیں اس پر محیط ہوتے ہیں جب کہ یہ حواس خد اکی مخلوق ہیں اور خالق اپنی مخلوق پر مکمل احاطہ رکھتاہے،

لہٰذا خالقِ حس ووہم وعقل کا خودان کے دائرہ ادراک میں آجانا،جبکہ وہ ان پر محیط ہے اور محیط کا محاط میں تبدیل ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور اگر خداوندِ متعال محسوس یا موہوم یا معقول ہو تو حواس سے درک ہونے والی اشیاء کے ساته شبیہ وشریک قرار پائے گااور اشتراک کا لازمہ اختصاص ہے، جب کہ ترکیب مخلوق کی خصوصیت ہے، لہٰذا اگر خداوندِمتعال حس ووہم وعقل میں سما جائے تو مخلوق ہوا نہ کہ خالق)۔

اس نے پوچها :خدا کب سے ہے ؟

امام (ع) نے فرمایا : تم یہ بتاو کہ کب نہ تھا؟ (خداوندِ متعال جو زمان وزمانیات اور مجردات ومادیات کے لئے قیوم ہے، اس کی ذات اقدس عدم، نابودی اور زمان ومکان سے مبراہے)

پھر اس نے امام (ع) سے پوچها : پس اس کے وجودکی دلیل کیا ہے ؟

امام (ع) نے آفاق و انفس میں موجود آیاتِ خد ا کی ہدایت کی اور جسم کی بناوٹ میں تفکروتدبر کے ذریعے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے وجود کی اس بناوٹ میں جن باریک نکات اور لطا ئف حکمت کا خیال رکھا گیا ہے، ان کے ذریعے اس خالق کے علم وحکمت کا اندازہ لگائے۔ اسے بادلوں،هوا، سورج،چاند اور ستاروں کی حرکت میں غوروفکر کرنے کو کها تاکہ اجرام فلکی میں موجود عجائب

____________________

۱ سورہ عنکبوت، آیت ۶۱ ۔”اور اگر آپ ان سے پوچہیں گے کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آفتاب وماہتاب کو کس نے مسخر کیا ہے تو فوراً کہیں گے کہ الله، تو یہ کدہر بہکے چلے جارہے ہیں“۔

۲ سورہ زخرف، آیت ۹۔”اور آپ ان سے سوال کریں گے کہ زمین وآسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو یقینا یهی کہیں گے کہ ایک زبردست طاقت والی اور ذی علم هستی نے خلق کیا ہے“۔

قِدرت وغرائب حکمت میں تفکر وتدبر کے ذریعے عزیز و علیم کی قدرت تک پهنچ سکے اور متحرکات آسمانی کی حرکت کے ذریعے تغیر وحرکت سے منزہ محرّک پر ایمان لے آئے۔(۱)

ج): مادّے و طبیعت میں موجود تغیر وتحول، اس مادّے وطبیعت سے برتر قدرت کی دلیل ہیں،کیونکہ مادّہ یا اس سے منسوب کسی بھی مادّی شے میں تاثیر،وضع ومحاذات کی محتاج ہے۔مثال کے طور پر آگ جو حرارت جسم میں تاثیر رکھتی ہے یا چراغ جس کی شعاع فضا کوروشن ومنور کرتی ہے،

جب تک آگ یا چراغ کی اس جسم یا فضا کے ساته خاص نسبت پیدا نہ ہو، ممکن ہی نہیں ہے کہ جسم ا س آگ کی حرارت سے گرم یا فضا اس چراغ کے نور سے روشن و منور ہوجائے، اورچونکہ معدوم کے ساته وضع اورنسبت کا برقرار ہونا محال ہے، لہٰذ ا ایسے موجودات جو پهلے مادہ و طبیعت میں نہ تھے اور بعد میں وجودپایا یا پائےں گے، ان موجودات میں مادہ وطبیعت کی تاثیر ممکن نہیں ہے۔آسمان و زمین میں موجود ہونے والا ہر معدوم ایسی قدرت کے وجود کی دلیل ہے جس کو تاثیر کے لئے وضع ومحاذات کی ضرورت نہیں ہے اوروہ ماورائے جسم وجسمانیات ہے( إِنَّمَا ا مَْٔرُه إِذَا ا رََٔادَ شَيْا ا نَْٔ يَّقُوْ لَ لَه کُن فَيَکُوْنُ ) (۲)

د):خدا پر ایمان انسان کی سرشت میں موجود ہے، کیونکہ فطری اعتبار سے انسان اپنے آپ کو ایک مرکز سے وابستہ اور محتاج پاتا ہے، لیکن اسبابِ معیشت کی مصروفیت اور خواہشات نفسانی سے لگاؤ اس وابستگی کے مرکز کو پانے میں رکاوٹ ہیں۔

جب بے چارگی اور ناامیدی اسے چاروں طرف سے گهیر لیتی ہے اور فکر کے تمام چراغوں کو بجها ہو ا اور تمام صاحبان قدرت کو عاجز پاتا ہے، اس کا سویا ہوا ضمیر جاگ اٹهتا ہے اور جس غنی بالذات پر فطرتاً بهروسا کئے ہوئے ہے، اس سے بے اختیار مدد طلب کرتا ہے( قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْکُمْ مِنْ ظُلُمَات الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَه تَضَرُّعاً وَّ خُفْيَةً لَّئِنْ ا نَْٔجَاْنَا مِنْ هٰذِه لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشَّاکِرِيْنَ ) (۳) ( وَ إِذَا مَسَّ اْلإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّه مُنِيْبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَه نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا کَانَ يَدْعُوْا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلّٰهِ ا نَْٔدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِه ) (۴) ( هُوَ الَّذِی يُسَيِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتّٰی إِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِهَا جَائَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَ جَائَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوا ا نََّٔهُمْ ا حُِٔيْطَ بِهِمْ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ لَئِنْ ا نَْٔجَيْتَنَا مِنْ هٰذِه لَنَکُوْنَنَّ مِن الشّٰکِرِيْنَ ) (۵)

ایک شخص نے امام صادق (ع) سے عرض کی : ((یا ابن رسول اللّٰه! دلّنی علی اللّٰه ما هو، فقد ا کٔثر علیّ المجادلون و حیرونی فقال له: یا عبد اللّٰه ، هل رکبت سفینة قط؟ قال: نعم قال: فهل کسر بک حیث لا سفینة تنجیک و لا سباحة تغنیک؟ قال: نعم، قال: فهل تعلق قلبک هنالک ا نٔ شیئاً من الا شٔیاء قادر علی ا نٔ یخلصک من ورطتک؟ قال: نعم، قال الصَّادق (ع): فذلک الشی هو اللّٰه القادر علی الإنجاء حیث لا منجی وعلی الإغاثة حیث لا مغیث ))(۶)

جیسا کہ بے چارگی کے عالم میں دوسروں سے انقطاع مطلق کے دوران خداوندِ متعال کی یہ معرفت اور فطری ارتباط حاصل ہو جاتا ہے، اختیاری حالت میں بھی اسے علم وعمل جیسے دو پروں کے ذریعے پرواز کر کے حاصل کیا جاسکتا ہے:

____________________

۱ توحید، صفحہ ۲۵۰ ۔

۲ سورہ یس،آیت ۸۲ ۔”اس کا صرف امر یہ ہے کہ کسی شئے کے بارے میں یہ کهنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جااور وہ شئے ہو جاتی ہے“۔

۳ سورہ انعام، آیت ۶۳ ۔”ان سے کہہ دیجئے کہ خشکی اور تری کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے جب تم گڑا گڑا کر اور خفیہ طریقہ سے آواز دیتے ہو کہ اگر اس مصیبت سے نجات دے دے گا تو ہم شکر گذار بن جائیں گے“۔

۴ سورہ زمر، آیت ۸۔”اور جب انسان کو کوئی تکلیف پهنچتی ہے تو پوری توجہ کے ساته پروردگار کو آواز دیتا ہے پھر جب وہ اسے کوئی نعمت دیدیتا ہے تو جس بات کے لئے اس کو پکاررہا تھا اسے یکسر نظر انداز کردیتا ہے اور خدا کے لئے مثل قرار دیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے بہکا سکے“۔

۵ سورہ یونس، آیت ۲۲ ۔”وہ خدا وہ ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں سیرکراتا ہے یهاں تک کہ جب تم کشتی میں تھے اور پاکیزہ ہوائیں چلیں اور سارے مسافر خوش ہوگئے تو اچانک ایک تیز ہواچل گئی اور موجوں نے ہر طرف سے گهیرے میں لے لیا اور یہ خیال پیدا ہو گیا کہ چاروں طرف سے گهر گئے ہیں تو دین خالص کے ساته الله سے دعا طلب کرنے لگے کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو ہم یقینا شکر گذار وں میں ہو جائیں گے“۔

۶ بحارالانوارجلد ۳،صفحہ ۴۱ ، ترجمہ: ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: یابن رسول الله ! مجه کو خداکے بارے میں بتایں کہ وہ کیا ہے؟میں نے بہت زیادہ مجادلہ کرنے والوں کو دیکھا لیکن ان سب کی بحثوں نے مجه کو پریشان کردیا ہے۔

حضرت فرماتے ہیں:کیا کبھی کشتی پر سوار ہوئے ہو؟کہتا ہے :هاں حضرت فرماتے ہیں :کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کشتی ٹوٹ گئی ہو اور وہاں پر کوئی اور کشتی نہ جس پر سوار ہو جاو اور نجات مل جائے اور نہ تیرنا آتا ہو جس سے تم نجات پاجاو جوا ب دیتا ہے :هاں حضرت نے فرمایا:

ایسے حال میں تمهارے دل میں کسی قادر توانا کا خیال آیا جو تم کو ابھی بھی نجات دلا سکتا ہے؟کہتا ہے :هاں حضرت نے فرمایا:بس وہی خدا ہے جو ایسے حالات میں بھی تم کو نجات دے سکتا ہے جب کوئی تمهاری مدد نہ کرسکے۔

اول)یہ کہ نور عقل کے ذریعے انسان، جهالت وغفلت کے پردوں کو پاراکرے اور دیکھے کہ موجودات کا وجود اور ان کے کمالات ذاتی نہیں، بلکہ سب کے سب ذات قدوس کی جانب منتهی ہوتے ہیں( هُوَ اْلا ؤََّلُ وَاْلآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِيْمٌ ) (۱) ( هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِی الْمُصَوِّرُ لَه اْلا سَْٔمَاءُالْحُسْنٰی ) (۲)

دوم)یہ کہ طهارت وتقویٰ کے ذریعے آلودگی او ر رذایل نفسانی کی کدورت کو گوہرِوجود سے دور کرے، کیونکہ خدا اور اس کے بندے کے درمیان جهالت وغفلت اور کدورت گناہ کے علاوہ کوئی دوسرا پر دہ نہیں ہے کہ جسے علمی وعملی جهاد کے ذریعے پارا کرنا ضروری ہے( وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ) (۳)

چھٹے امام (ع) نے ابن ابی العوجا ء سے فرمایا :

((ویلک وکیف احتجب عنک من ا رٔاک قدرته فی نفسک؟ نشؤک ولم تکن و کبرک بعد صغرک و قوتک بعد ضعفک و ضعفک بعد قوتک و سقمک بعد صحتک و صحتک بعد سقمک و رضاک بعد غضبک و غضبک بعد رضاک و حزنک بعد فرحک، و فرحک بعد حزنک و حبک بعد بغضک و بغضک بعد حبک و عزمک بعد إبائک و إباو کٔ بعد عزمک و شهوتک بعد کراهتک وکراهتک بعد شهوتک و رغبتک بعد رهبتک و رهبتک بعد رغبتک ورجائک بعد یا سٔک و یا سٔک بعد رجائک و خاطرک بما لم یکن فی وهمک و عزوب ما ا نٔت معتقده عن ذهنک و مازال یعد علی قدرته التی فی نفسی التی لا ا دٔفعها حتی ظننت ا نٔه سیظهر فیما بینی وبینه ))(۴)

____________________

۱ سورہ حدید، آیت ۳۔”وہی اول ہے وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے اور وہی ہر شئے کا جاننے والا ہے“۔

۲ سورہ حشر، آیت ۲۴ ۔”وہ ایسا خدا ہے جوپیدا کرنے والا، ایجاد کرنے والا اور صورتیں بنانے ولا ہے اس کے لئے بہترین نام ہیں“۔

۳ سورہ عنکبوت، آیت ۶۹ ۔”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جهاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریںگے “۔

۴ بحارالانوارجلد ۳، صفحہ ۴۳ٔ ۔ترجمہ: حضرت ابن ابی العوجاء سے فرماتے ہیں:وای تجه پر وہ ذات کیسے تجه سے چهپ سکتی جس نے خود تیرے نفس میں اپنے وجود کا اظهار کیا ہے تو نہیں تھا تجه کو پید اکیا خود تیرا چهوٹے سے بڑا ہونا ، تیری قدرت و توانائی تیری عاجزی کے بعد، تیری ناتوانی قدرت کے با وجود، تیرا مریض ہو نا تیری صحت مندی کے بعد،

بیماری کے بعد پھر تیراصحتیاب ہونا ، تیرا غصہ خوشی کے یا پھر تیری خوشی غصہ کے بعد غم شادی کے بعد و سرور غم و حزن کے بعد تیری دوستی دشمنی کے بعد یا پھر دشمنی دوستی کے بعد، تیرا عزم وارادہ انکار کے بعدیا پھر تیرا انکار کرنا عزم و ارادہ کے بعد تیرا اشتیاق تیری ناراحتی کے بعد یا پھر تیری کراہت شوق کے بعد۔

تیرا شوق و علاقہ خوف وحراس کے بعد یا تیرا ڈرنا رغبت کے بعد تیری امیدی نا امیدی کے بعد یا ناامیدی امیدی کے بعد، جس کو تونے سوچا بھی نہ وہ تمهارے خیال میں آجائے اور جو تمهارے ذهن پر سوار تھا ایک دم غائب ہو جائے ۔

ابن ابی العوجا ء کہتا ہے:اس طرح کی قدرت کے آثار کو میرے وجود میں گنوارہے تھے کہ جس کا انکار و چشم پوشی ممکن نہیں تھا یهاں تک مجه کو احساس ہوا کہ عنقریب خدائے وحدہ لاشریک میرے و امام کے درمیان ظاہر ہو جائے گا

توحید

توحید سے مراد ایسے خداوند عالم پر اعتقاد ہے جو یکتا ہے اور اجزاء وصفات کی ترکیب سے مبرا ہے، اس لئے کہ ہر مرکب، وجود کو اجزاء اور ان اجزاء کو ترکیب دینے والے کا محتاج ہے اور محال ہے کہ جو محتاج ہو وہ اپنے آپ یا کسی غیر کو وجود عطا کرسکے۔ خداوندمتعال کی ذات وصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔(۱)

۱ توحید کے چند مرتبہ ہیں:

توحید ذات:

هر موجود مرکّب ہے سوائے خداوندعالم کی ذات کے، وہ ایسا واحد ہے جس کی یکتائی عین ذات ہے۔

اس کے علاوہ ہر موجود جز جز ہونے کے قابل ہے جس طرح جسم مادہ اور صورت دو جز پر تقسیم ہوتا ہے، قوہ وہم میں زمان کو لحظات پر تقسیم کیا جاتا ہے، عقل انسان کو انسانیت و وجود اور ہر متناہی موجود کو محدود اور حد پر منقسم کرتی ہے۔

جنگ جمل کے موقع پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے سوال ہوا: یا امیر المومنین! (علیہ السلام) کیا آپ فرماتے ہیں: کہ بے شک خدا ایک ہے؟ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا، تیرے سوال کا اس حالت میں موقع نہیں ہے۔

حضرت نے جواب دیا: اس کو چهوڑ دو، یہ جو سوال مجه سے پوچه رہا ہے، میں وہی اس قوم سے خواہاں ہوں، میری مراد توحید ہے، اس کے بعد حضرت نے فرمایا: یہ جملہ کہ خدا ایک ہے، چار قسموں پر تقسیم ہوتا ہے۔

اس میں سے دو قسمیں خدا کے سلسلے میں جائز نہیں لیکن دوسری دو قسمیں اس کی ذات کے لئے ثابت ہیں، اور وہ دو قسمیں جو جائز نہیں ہیں یہ ہیں:

۳) اس کی واحدانیت، عددی وحدانیت نہیں ہے،کیونکہ اپنا ثانی ،۲ ، ۱) وہ ایک جو دعدد میں آتا ہے (جیسے(۱) رکھنے والے واحد، اور اپنا ثانی نہ رکھنے والے واحد پر بطور یکساں واحد کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا،( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا اِن اللهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ ) (سورہ مائدہ آیت ۷۳ ، ”بے شک وہ لوگ کافر ہوگئے جنهوں کها :الله ان تین میں سے تیسرا ہے“۔

۲) ایسا واحد جو کسی جنس کی ایک قسم پر اطلاق ہوتا ہو، مثلاً کها جائے: ”وہ لوگوں میں سے ایک ہے“، ایسا واحد جو کسی نوع و صنف کی ایک فرد پر اطلاق ہوتا ہے، خداوندعالم پر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ اس اطلاق و ا ستعمال میں

تشبیہ پائی جاتی ہے، حالانکہ خدا کوئی شبیہ نہیں رکھتا۔

لیکن وہ قسمیں جو خدا کی ذات پر اطلاق کرنا جائز ہے:

____________________

۱)وہ ایسا واحد ہے جس کی کوئی شبیہ نہیں ہے۔

۲) خداوندعالم ایسا واحد جس کی تقسیم عقل و وہم میں بھی ممکن نہیں ہے، (بحار الانوار، ج ۳، ص ۲۰۶ ۔)