اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20592
ڈاؤنلوڈ: 2871

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20592 / ڈاؤنلوڈ: 2871
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

واضح ہے کہ عوام الناس کا اپنے عقائد میں تعصب، علماء مذاہب کی اپنے پیروکاروں کے ثابت قدم رہنے پر سختی اور سلاطین کے لئے رعایا کی بیداری کا خطرہ ہوتے ہوئے اگر ان کے بس میں ہوتا تو قرآن کا جواب لانے میں هرگز سستی نہ کرتے۔

دانشوروں، شعراء، اور اہل سخن کے ہوتے ہوئے جو فصاحت و بلاغت کے ماہرین تھے اور بازار عکاظ کو ان کے مقابلوں کا میدان قرار دیا جاتا تھا اور ان مقابلوں میں جیتنے والوں کے اشعارکو خانہ کعبہ کی دیوار پر بطور افتخار آویزاں کیاجاتا تھا، اگر ان میں مقابلے کی قدرت ہوتی تو آیا اس مقابلے میں، جس میں ان کے دین و دنیا کی هار جیت کا سوال تھا، کیاکچھ نہ کرتے؟

آخر کار آپ (ص) کی گفتار کو جادو سے تعبیر کرنے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہ کر سکے( إِنْ هٰذَا إِلاَّ سَحْرٌ مُّبِيْنٌ ) (۱)

اور یهی وجه تهی که جب ابو جهل نے فصحاء عرب کے ملجا و مرجع، ولید بن مغیرہ سے قرآن کے متعلق رائے دینے کی درخواست کی تو کهنے لگا :((فما ا قٔول فیه فواللّه ما منکم رجل ا عٔلم بالا شٔعار منی ولا ا عٔلم برجزه منی ولا بقصیده ولا با شٔعار الجن، واللّٰه ما یشبه الذی یقول شیئاً من هذا، و واللّٰه إن لقوله لحلاوة و إنه لیحطم ما تحته و ا نٔه لیعلو و لا یعلی قال ابوجهل: واللّٰه لا یرضی قومک حتی تقول فیه، قال:فدعنی حتی ا فٔکرّ فیه، فلمّا فکّر، قال: هذا سحر یا ثٔره عن غیره))(۲)

ولید بن مغیرہ کا یہ بیان اعجاز قرآن کے مقابلے میں شکست تسلیم کرنے کی دلیل ہے، کیونکہ جادو کی انتها بھی عادی اسباب پر ہے جو انسان کی قدرت سے باہر نہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ اس زمانے میں جزیرة العرب اور اس کے ہمسایہ ممالک میں جادوگروں اور کاہنوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو جادو اور علم نجوم میں کمال کی مهارت رکھتے تھے۔ اس کے باوجود پیغمبر اکرم (ص)

کا قرآن کے ذریعے چیلنج کرنا اور ان سب کا قرآن کے مقابلے میں عاجز ہونا تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے، لہٰذا قرآن سے مقابلے کے بجائے آنحضرت (ص) کو مال و مقام کا لالچ دیا گیا اور جب ان کی اس سعی و کوشش نے بھی اپنا اثر نہ دکهایا تو آپ (ص) کی جان کے درپے ہوگئے۔

۲۔هدایت قرآن

ایسے دور میں جب ایک گروہ کا ماوراء الطبیعت پر اعتقاد ہی نہ تھا بلکہ ادارک سے عاری اور بے شعور مادّے کو عالمِ وجود کے حیرت انگیز نظام کے انتظام وانصرام کا مالک سمجهتے تھے، جب کہ ماوراء الطبیعت پر اعتقاد رکھنے والے گوناگوں بتوں کی صورت میں اپنے اپنے معبودوں کی پوجا کرتے تھے اور آسمانی ادیان کے معتقد، تحریف شدہ کتب کے مطابق، خالق کو اوصاف خلق سے متصف خیال کرتے تھے۔ ایسا ماحول جهاں تاریخ، عوام کے شدیدفکری، اخلاقی اور عملی انحطاط کی گواہ ہے، وہاں ایک ایسے فرد نے قیام کیا جس نے نہ کہیں سے پڑها اور نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا تھا، لیکن گمراہی کی هرتاریک کهائی کے مقابلے میں ہدایت کی عظیم شاہراہ ترسیم کی۔ انسان کو ایسے پروردگار عالم کی عبادت کی دعوت دی جو ہر قسم کے نقص سے پاک و منزہ اور تمام کمال و جمال اسی کے وجود سے ہیں، ساری تعریفیں اسی کے لئے مخصوص ہیں، جس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں،

اس کی ذات اس سے کہیں بڑه کر ہے کہ اس کے لئے کوئی حد معین کی جائے یا اوصاف میں سے کوئی صفت بیان کی جا سکے ((سبحان اللّٰه والحمد للّٰه ولا إله إلا اللّٰه واللّٰه ا کٔبر )(۳)

____________________

۱ سورہ مائدہ، آیت ۱۱۰ ۔”یہ سب کهلا ہواجادو ہے“۔

۲ تفسیر طبری ج ۲۹ ص ۱۵۶ ۔سورہ مدثر کی، آیت ۲۴ ۔ (کها اس بارے میں کہیں؟بس خدا کی قسم تم میں سے کوئی ایک بھی مجه سے زیادہ شعر میں معلومات نہیں رکھتا اس طرح رجز خوانی و قصیدہ واشعار میں بھی مجه سے زیادہ عالم نہیں

خدا کی قسم جو وہ (پیغمبر)کہہ رہا ہے ان میں سے کسی ایک کے طرح نہیں خدا کی قسم بس اس کے کلام میں ایسی مٹهاس ہے جو ہر کلام کو بے مزہ بنا دے گی بے شک سب سے برتر ہے اور اس پر کوئی کلام برتری نہیں رکھتا۔

ابو جهل نے کها:خدا کی قسم تمهاری قوم اس وقت تک راضی نہ ہوگی جب تک اس کلام کی برائی میںکچھ نہ کہہ دو ۔

ولید بن مغیرہ نے جواب دیا:مجه کوکچھ مهلت دو تاکہ اس بارہ میں غور وفکر کرویں پھر کچھ فکر کرنے کے بعد کہتا ہے یہ جادو ہے جو دوسروں کی بارہ میں خبر رکھتا ہے“۔

۳ ”پاک ومنزہ خدا کی ذات جو ہر نقص و صفات مخلوق سے بری ہے ساری تعریفیں خدا کے لئے ہیں کوئی بھی لائق پرستش نہیں جز الله سبحانہ تعالیٰ کے ، خدابالا وبرتر ہے اس سے کہ اس کی توصیف کی جائے“۔

ان ایام میں جب عدد ومعدود کے خالق او ر اولاد و ازواج سے پاک ومنزہ ذات کو ترکیب،تثلیث،احتیاج اور تولید نسل سے نسبت دینے کے ساته ساته اس کا ہمسر بھی تصور کیا جاتا تھا، قرآن نے اس کی ذات کو ان تمام اوہام سے پاک ومنزہ قرار دیتے ہوئے پروردگار عالم کی وحدانیت کا اعلان فرمایا کہ خدا کی ذات ہر قسم کی عقلی، وہمی اور حسی ترکیب سے منزہ ہے، وہ ہر شخص اور ہر شے سے بے نیاز ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ ہر چیز وہر شخص محتاج ہے ، اس کی مقدس ذات میں تولیدِ نسل کو عقلاً وحسا کسی بھی معنی کے اعتبار سے گنجائش نہیں، تمام موجودات اس کی قدرت وارادے سے موجود ومخلوق ہیں۔ذات، صفات اور افعال میں اس کی کوئی مثا ل نہیں ۔

اگر چہ قرآن میں پروردگار عالم کی معرفت، اعلیٰ صفات اور اسماء حسنی سے متعلق ایک ہزار سے زیادہ آیات موجود ہیں، لیکن ان میں سے ایک سطر میں تدبر وتفکر ہی ہدایت کی عظمت کو وا ضح وروشن کر دیتا ہے( قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌخاللّٰهُ الصَّمَدُخلَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْخوَلَمْ يَکُنْ لَه کُفُو أً ا حََٔدٌ )

کلام اہل بیت علیهم السلام، جو معرفت کے خزانوں کی کنجی ہے،یهاں ان میں سے دوحد یثیں نقل کرتے ہیں :

۱۔امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں : ((إن اللّٰه تبارک وتعالی خلو من خلقه وخلقه خلو منه وکل ما وقع علیه اسم شیء ما خلا اللّٰه عزوجل فهو مخلوق، واللّٰه خالق کل شیء، تبارک الذی لیس کمثله شی )ٔ)(۱)

۲۔امام باقر(ع) فرماتے ہیں :((کلما میزتموه با ؤهامکم فی ا دٔق معانیه، مخلوق مصنوع مثلکم مردود إلیکم) )(۲)

آسمانی کتاب، جن پر کروڑوں یہود ونصاٰری کے عقائد کی بنیاد ہے، کے عهدِ عتیق وجدید کا مطالعہ کرنے کے بعد معارفِ الهیہ سے متعلق ہدایت قر آن کی عظمت آشکار ہوتی ہے۔ اس مقدمے میں نمونے کے طور پر چند ایک کا ذکر کرتے ہیں:

یهودیوں کے بعض عقیدے سفر تکوین (پیدائش)باب دوم :”اور ساتویں دن اسے اپنے تمام کاموں سے فراغت ملی ۔ اس نے ساتویں دن اپنے تمام کاموں کو انجام دینے کے بعد فرصت پائی ۔ پھر خدا نے ساتویں دن کو مبارک اور پاکیزہ قرار دیا کیونکہ اس دن اس نے اپنے تمام امور سے فراغت کے بعد فرصت پائی ۔۔۔۔

خداوند خدا نے آدم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا : بغیر کسی روک ٹوک کے باغ کے تمام درختو ں سے کها سکتے ہو، لیکن نیک وبد کی معرفت کے درخت سے ہر گزنہ کهانا، کیونکہ جس دن اس سے کهاؤ گے یقیناً مر جاؤ گے۔“

سفر تکوین (پیدائش ) باب سوم :”خداوند خدا کے خلق شدہ صحرائی حیوانات میں سے سانپ سب سے زیادہ ہوشیار تھا، اس نے عورت سے کها :کیا واقعی خدا نے تمہیں باغ کے تمام درختوں سے کهانے سے منع کیا ہے؟ عورت نے سانپ سے کها : ہم باغ کے باقی درختوںسے تو پهل کها سکتے ہیں سوائے اس درخت کے جو باغ کے درمیان میں ہے، خدا نے فرمایا ہے کہ اس درخت سے نہ کهانا اور اسے چهونا بھی نہیں ورنہ مر جاؤگے ۔ سانپ نے کها : ہر گز نہ مرو گے،بلکہ خد اجانتا ہے جس دن تم نے اس سے کها لیا تمها ری آنکهوں کے سامنے سے پردے ہٹ جائیں گے اور خدا کی طرح تمہیں بھی نیک وبد کی معرفت حاصل ہوجائے گی ۔ جب عورت نے دیکھا کہ اس درخت سے کهانا اچها ہے جس کی دید خوش نما و دلپذیر ہے اور جو معرفت بڑهانے والا ہے، پس اس درخت سے پهل توڑ کر خود بھی کهایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا، جو اس نے کها لیا ۔ جب وہ کها چکا، اس وقت دونوں کی آنکهوں کے سامنے سے پردے ہٹ گئے دونوں نے دیکھا کہ ان کے جسم عریاں ہیں انہوں نے انجیر کے پتوں کو آپس میں جوڑ کر اپنے جسم کو ڈهانپنے کا سامان فراہم کیا اور انہوں نے خدا وند خدا کی آواز سنی جو نسیمِ صبح کے چلنے کے وقت باغ میں خراماں خراماں ٹهل رہا تھا۔ آدم اور ا س کی بیوی نے خود کو خداوند خدا کی

____________________

۱ بحار الانوار ج ۴ ص ۱۴۹ ۔”چھٹے امام ارشاد فرماتے ہیں:بے شک خدا وند متعال کی ذات والامیں مخلوق کی کوئی صفت نہیں اور مخلوق میں کوئی خداکی صفت نہیں بلکہ خدا اور مخلوق میں ذات وصفات کے اعتبار سے تبائن ہے ایک واجب ہے تو دوسرا ممکن کسی طرح کی مشابہت خالق و مخلوق میں نہیں پائی جاتی ہر وہ چیز جس پر اسم خدا کے علاوہ کسی چیز کا اطلاق ہو وہ مخلوق ہے اور خدا ہر چیز کا خالق ہے بابرکت ہے وہ ذات جس کا مثل کوئی نہیں “۔

۲ بحار الانوار ج ۶۶ ص ۲۹۳ ۔پانچویں امام کا ارشاد ہے:”هر وہ چیز جس کو تم اپنے خیال خام میں اس کے دقیق ترین معنی میں دوسروں سے جدا جانو وہ تمهاری طرح ایک مخلوق و مصنوع ہے جس کی باز گشت تمهاری طرف ہے“۔

نظروں سے اوجهل کر کے خود کو باغ کے درختوں کے درمیان چهپا لیا ۔ خداوند خدا نے آدم کو آواز دی اور کها: تم کهاں ہو؟آدم نے کها : میں باغ میں تمهاری آواز سن کر چوں کہ عریاںہوں، ڈر گیا ہوں اور خود کو چهپا لیا ہے۔ کها: کس نے تمہیں آگاہ کیا کہ تم عریاں ہو ؟آیا تمہیں جس درخت سے کهانے کو منع کیا تھا، تم نے اس سے کها لیا ؟“

اسی باب کی بائیسویں آیت میں ہے:”اور خداوند خدا نے کها: بے شک انسان نیک وبد کی معرفت کے بعد ہماری مانند ہوگیاہے ۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ هاته بڑها کر درختِ حیات سے بھی کها لے اور ہمیشہ باقی رہے۔“

باب ششم کی چھٹی اور ساتویں آیت میں یہ مذکور ہے: ”اور خداوند زمین پر انسان کی خلقت سے پشیمان اور اپنے دل میں غمگین ہوا، خداوند نے کها : انسان کو جو خلق کیا ہے اس زمین کو انسان،حیوانات، حشرات الارض اور پرندوں کے وجود سے پاک کردوں، کیونکہ انہیں خلق کر کے پشیمان ہوں۔“

اب ہم ان آیات میں سے بعض نکات کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

۱۔پروردگار عالم نے انسان کو خلق کیا ہے اور اسے عقل عطا کی ہے تاکہ وہ اچہے اور برے کی پہچان کر سکے۔ اس نے عقل کو علم و معرفت کے لئے پیدا کیا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ اسے اچہے اور برے کی پہچان سے روک دے؟!

جب کہ ہدایت قرآن یہ ہے( قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لاَ يَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا يَتَذَکَّرُ ا ؤُْلُواْلا لَْٔبَاب ) (۱) ، ( إِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِيْنَ لاَ يَعْقِلُوْنَ ) (۲)

علم، معرفت،تعقل، تفکر، اور تدبر کے بارے میں آیات قرآن اتنی زیادہ ہیں کہ اس مختصر مقدمے میں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۲۔جو یہ کہے کہ اگر اس نیک وبد کے درخت سے کهایا تو مر جاؤگے جب کہ آدم اور اس کی زوجہ کهاتے ہیں اور نہیں مرتے، یا تو جانتا تھا کہ نہیں مریں گے، لہٰذا جھوٹا ہے، یا نہیں جانتا تھا پس جاہل ہوا ۔ کیا جھوٹا اور جاہل، ”خداوند“ کے نام کا حق دار ہوسکتاہے ؟!

اس سے زیادہ عجیب یہ کہ سانپ، آدم اور اس کی زوجہ کو نیک وبد کی معرفت کے درخت سے کهانے کے لئے ہدایت کر کے، خدا کے جھوٹ کو ان پر آشکار اور بناوٹی خد ا کے فریب اوردہوکے بازی کو نمایاںکرتا ہے ؟!

لیکن خدا کے علم سے متعلق قرآن کا نمونہ یہ ہے( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ ا ئَْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيْطُوْن بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِه إِلاَّ بِمَا شَاءَ ) (۳) ،( وَلاَ يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ ) (۴) ،( إِنَّمَا إِلٰهُکُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ وَسِعَ کُل شَیْءٍ عِلْماً ) (۵) ،( قُلْ ا نَْٔزَلَهُ الَّذِیْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ إِنَّه کَانَ غَفُوْراً رَّحِيْماً ) (۶) ،( لاَ جَرَمَ ا نََّٔ اللّٰه يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ) (۷) ،( هُوْ اللّٰهُ الَّذِیْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ ) (۸)

____________________

۱ سورہ زمر ، آیت ۹۔”کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے ہیں ،اس بات سے نصیحت صرف صاحبان عقل حاصل کرتے ہیں“۔

۲ سورہ انفال ، آیت ۲۲ ۔”الله کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بهرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں“۔

۳ سورہ ،بقرہ آیت ۲۵۵ ۔”وہ جوکچھ ان کے سامنے ہے اور جو پس پشت ہے سب کو جانتا ہے اور لوگ اس کے علم سے کسی چیز پر بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر وہ جس قدر چاہے“۔

۴ سورہ سباء، آیت ۳۔”اس کے علم سے زمین وآسمان کا کوئی ذرہ دور نہیں ہے“۔

۵ سورہ طہ، آیت ۹۸ ۔”یقینا تم سب کا خدا صرف الله ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہی ہر شئے کا وسیع علم رکھنے والا ہے“۔

۶ سورہ فرقان، آیت ۶۔”آپ کہہ دیجئے کہ اس نے قرآن کو نازل کیا ہے جو آسمان اور زمین کے رازوں سے باخبر ہے اور یقینا بڑا بخشنے والا ہے“۔

۷ سورہ نحل، آیت ۲۳ ۔”یقینا الله ان تمام باتوں کو جانتا ہے جنہیں یہ چهپاتے ہیں یا جن کا اظهار کرتے ہیں“۔

۸ سورہ حشر، آیت ۲۲ ۔”خدا وہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا وہ ہی بڑا مهربان اور نهایت رحم والا ہے “۔

۳۔ایسا موجود جو خود محدودہو اور جو آدم کو باغ کے درختوں میں گم کردے اور کہے :کهاں ہو؟ تاکہ آدم کی آواز سن کر اسے ڈهونڈے، باغ کے درخت جس کے دیکھنے میں مانع ہوں، وہ رب العالمین، عالمِ السر والخفیات، خالق کون ومکان اور زمین وآسمان پر محیط کیسے ہوسکتاہے ؟!

جب کہ اس کے مقابلے میں ہدایتِ قرآن کا نمونہ یہ ہے( وَعِنْدَه مَفَاتِيْحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ اْلا رَْٔضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَيَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُّبِيْنٍ ) (۱)

۴ ۔انجیل کی مذکورہ بالا آیات خدا کی توحید اور تقدیس کی جانب ہدایت کرنے کے بجائے کہ( لَيْس کَمِثْلِه شَیْءٌ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) (۲) اس کی ذات میںشرک اور تشبیہ پر دلالت کرتی ہیں اور کہتی ہیں :”خدا نے کها :نیک وبد کی معرفت حاصل کر کے انسان یقینا ہماری طرح ہوگیا ہے۔“

۵ ۔پروردگار عالم کا تخلیق آدم سے پشیمان ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کے انجام سے جاہل تھا۔ کیا پروردگار عالم کو جاہل سمجهنا، کہ جس کا لازمہ محدودیت ذات ومخلوقیت خالق اور نورِ علم وظلمت جهل کی حق متعال کے ساته ترکیب ہے، انسان کو خدا کی جانب ہدایت کرنے والی آسمانی کتاب سے ممکن ہے؟!

جب کہ ہدایت قرآن یہ ہے کہ( ا لَٔاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) (۳) ( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی اْلا رَْٔضِ خَلِيْفَةً قَالُوْا ا تَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَال إِنِّیْ ا عَْٔلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ ) (۴)

۶ ۔پروردگا ر عالم سے حزن وملال کو منسوب کیا جو جسم، جهل اور عجز کا لازمہ ہیں اور اس بارے میں ہدایت قرآن یہ ہے( سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُخ لَه مُلْکُ السَّمَاوَات وَاْلا رَْٔضِ يُحْی وَيُمِيْتُ وَهُو عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِيْرٌخ هُوَ اْلا ؤََّلُ وَاْلآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِکُلِّ شَیَءٍ عَلِيْمٌ ) (۵)

عیسائیوں کے بعض مخصوص عقائد

۱۔رسالہ اول یوحنا رسول باب پنجم: ”جس کا عقیدہ یہ ہوکہ عیسیٰ مسیح ہے، خدا کابیٹا ہے اور جو والد سے محبت کرے اس کے بیٹے سے بھی محبت کرتاہے کون ہے جو دنیا پر غلبہ حاصل کرے مگر وہ جس کا عقیدہ یہ ہو کہ عیسیٰ خدا کا بیٹا ہے۔ یہ وہی ہے جو پانی اور خون سے آیا یعنی عیسیٰفقط پانی سے نہیں بلکہ پانی، خون اور روح سے ہے، جو گواہی دیتی ہے، کیونکہ روح حق ہے ۔ تین ہیں جو گواہی دیتے ہیں یعنی روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہیں ۔“

۲۔انجیل یوحنا، باب اول، پهلی آیت سے :”ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کے پاس تھا اور کلمہ خدا تھا، وہی ابتدا میں خدا کے پاس تھا ۔ تمام چیزیں اسی کے لئے خلق کی گئیں۔ موجودات نے اس کے سوا کسی اور سے وجود نہیں پایا۔ اس میں زندگی تھی اور زندگی انسان کا نور تھی، نور کی درخشش تاریکی میں ہوتی ہے، اور تاریکی اس کو نہ پاسکی ۔ خدا کی جانب سے یحییٰ نامی ایک شخص بھیجا گیا،

وہ گواہی دینے آیا تاکہ نور پر گواہی دے اور سب اس کے وسیلے سے ایمان لائیں ۔ وہ خود نور نہ تھا بلکہ نور پر گواہی دینے آیاتها ۔ وہ حقیقی نور تھا جو ہر انسان کو منور کر دیتا ہے اور اسے دنیا میں آنا تھا، وہ کائنات میں تھا اور کائنات کو اسی کے لئے خلق کیا گیا اور کائنات نے اسے نہ پہچانا، اپنے خواص کے پاس گیا، اس کے خواص نے بھی اسے قبول نہ کیا، لیکن جنہوں نے اسے قبول کیا انہیں قدرت عطا

____________________

۱ سورہ انعام، آیت ۵۹ ۔”اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے۔ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ہو“۔

۲ سورہ شوریٰ، آیت ۱۱ ۔”اس کا جیسا کوئی نہیں ہے وہ سب کی سننے والا ہے اور ہر چیز کا دیکھنے والا ہے“۔

۳ سورہ ملک، آیت ۱۴ ۔”اور کیا پیدا کرنے والا نہیں جانتا ہے جب کہ وہ لطیف بھی ہے اورخبیر بھی ہے“۔

۴ سورہ بقرہ، آیت ۳۰ ۔”اے رسول! اس وقت کو یاد کرو جب تمهارے پروردگار نے ملائکہ سے کها کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انهوں نے کها کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو“۔

۵۔”محو تسبیح پروردگار ہے ہر وہ چیز جو زمین وآسمان میں ہے اور وہ پروردگار صاحب /۲/ ۵ سورہ حدید ، آیت ۳

عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔آسمان و زمین کا کل اختیار اسی کے پاس ہے اور وہی حیات و موت کا دینے والا ہے اور ہر شئے پر اختیار رکھنے والا ہے۔وہی اول ہے وہی آخر وہی ظاہرہے وہی باطن اور وہی ہر شئے کا جاننے والا ہے“۔

کی کہ خدا کے فرزند بن سکیں۔ یعنی جوکوئی اس کے نام پر ایمان لایا جو نہ تو خون، نہ جسمانی خواہش اور نہ ہی لوگوں کی خواہش سے ہے، بلکہ خدا سے متولد ہوئے ہیں۔کلمہ جسم میں تبدیل ہوا اور ہمارے درمیان سکونت اختیار کی ۔اسے فیض،سچائی اور جلال سے پُر دیکھا، ایسا جلال جو بے مثال باپ کے بیٹے کے شایان شان تھا۔“

۳۔انجیل یوحنا، باب ششم،اکیاونویں آیت سے :”میں آسمان سے نازل ہونے والی زندہ روٹی ہوں ۔

اگر کوئی اس روٹی سے کها لے تاابد زندہ رہے گا ۔اور جو روٹی میں عطا کر رہا ہوں وہ میرا جسم ہے،جسے میں کائنات کی زندگی کے لئے عطا کررہا ہوں، یہود ایک دوسرے سے جهگڑ کر کها کرتے تھے کہ یہ شخص اپنے جسم کو ہمیں کهانے کے لئے کس طرح دے سکتا ہے۔ عیسیٰ نے ان سے کها :آمین آمین، میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ اگر تم نے انسان کے بیٹے کا جسم نہ کهایا اور اس کا خون نہ پیا، تو تم لوگ اپنے اندر زندگی نہ پاؤگے ۔ اور جو کوئی میرا جسم کهائے اور میرا خون پئیے وہ جاودانہ زندگی پائے گا ۔اور روزِقیامت اسے میں اٹها ؤں گا کیونکہ میرا جسم حقیقی کهانا اور میرا خون حقیقی پینے کی شے ہیں۔ بس جو بھی میر اجسم کهائے گا اور میرا خون پئے گا وہ مجه میں اور میں اس میں رہوں گا ۔

جیسا کہ مجھے زندہ باپ نے بھیجا ہے اور میں اس کی وجہ سے زندہ ہوں، اسی طرح جو مجھے کهائے گا وہ بھی میری وجہ سے زندہ رہے گا ۔“

۴ ۔انجیل یوحنا، باب دوم، تیسری آیت سے :”اور شراب ختم ہوئی تو عیسیٰ کی ماں نے اس سے کها : ان کے پاس شراب نہیں ہے ۔عیسیٰ نے جواب دیا: اے عورت مجھے تم سے کیا کام ہے، ابھی میرا وقت نہیں ہوا۔ اس کی ماں نے نوکروں سے کها :تم سے یہ جو کہے انجام دو ۔ اس جگہ تطهیر یہود کے حساب سے چه سنگی ساغر رکہے ہوئے تھے، جن میں سے ہر ایک میں دو سے تین کیل تک کی گنجائش تھی عیسیٰ نے ان سے کها: ساغروں کو پانی سے پر کرو۔ انہیں پر کیا گیا تو عیسیٰ نے کها: اب انہیں اٹها کر صدر مجلس کے پاس لے جاؤ۔ وہ لے گئے، جب صدر مجلس نے اس پانی کو جو شراب میں تبدیل ہوچکاتها، چکها ، لیکن اسے معلوم نہ ہوا کہ کهاں سے آیا ہے، البتہ پانی نکالنے والے نوکر جانتے تھے۔ صدر مجلس نے دولها سے مخاطب ہوکر کها: ہر ایک پهلے اچهی شراب لاتاہے اور جب نشہ چها جائے تو اس سے بدتر، لیکن تم نے ابھی تک اچهی شراب بچا کر رکھی ہوئی ہے۔اور یہ وہ ا بتدائی معجزات ہیں جو عیسیٰ سے قانائے جلیل میں صادر ہوئے ۔ اوراپنے جلال کو ظاہر کیا اور اس کے شاگرد اس پر ایمان لائے ۔“

اور اب ان آیات کے متعلق بعض نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف۔نصاریٰ کے اصول وعقائد میں جو بات مورد اتفاق ہے وہ تثلیث پر اعتقاد ہے ۔ جب کہ انجیل یوحنا کے سترہویں باب کی تیسری آیت یہ کہتی ہے :”جاودانہ زندگی یہ ہے کہ تیری، حقیقی خدائے واحد کے طور پراور تیرے بھیجے ہوئے عیسیٰ مسیح کی معرفت حاصل کریں ۔“

لہٰذا جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نزدیک تثلیث پر اعتقاد ایک اصلِ مسلم ہے اور انجیل یوحنا نے خدا کو وحدت حقیقی سے توصیف کیا ہے تو جیسا کہ جز اول یوحنا میں بھی مذکور ہے کہ”تینوں ایک ہیں “،ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ توحید اور تثلیث کو جمع کریں اور کہیں کہ یہ حقیقتاً جدا بھی ہیں اور حقیقتاً متحد بھی ۔

کئی دلائل کی بنیاد پر یہ عقیدہ باطل ہے جن میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔اعداد کے مراتب، مثال کے طور پر ایک اور تین، ایک دوسرے کی ضد ہیں اورضدین(دو متضاد اشیاء) کا آپس میں اجتماع محال ہے،یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں وہ تینوں ایک ہوں اور وہی ایک تین ہوں ۔

۲۔جیسا کہ توحید کی بحث میں بیان ہو چکا ہے ،عقیدہ تثلیث کا لازمہ یہ ہے کہ پانچ خداو ںٔ پر اعتقاد ہو اور اسی طرح اس عدد کی تعداد لا متنا ہی حد تک پهنچ جائے گی، لہٰذا عیسایوں کے پاس لامتناہی خداؤں پر ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

۳۔تثلیث کا لازمہ ترکیب ہے اور ترکیب کا لازمہ اجزاء اور ان اجزاء کو ترکیب دینے والے کی ضرورت ہے ۔

۴ ۔عقیدہ تثلیث کا لازمہ، خالقِ عددکو مخلوق سے توصیف کرنا ہے، کیونکہ عدد و معدود، دونوں مخلوق ہیں اور خداوند ہر قسم کی معدود یت سے یهاں تک کہ وحدت عددی سے پاک ومنزہ ہے( لَقَدْ کَفَر الَّذِيْنَ قَالُوْا إِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَّمَا مِنْ إِلٰهٍ إِلاَّ إِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ إِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَاب ا لَِٔيْمٌ ) (۱) اور انہوں نے صراحت کے ساته حضرت عیسیٰ (ع) کو فرزند خدا کها، جب کہ قرآن کہتا ہے( مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَا مُُّٔه صِدِّيْقَةٌ کَانَا يَا کُْٔلاَنِ الطَّعَامَ انْظُرْ کَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الآيَات ثُمَّ انْظُرْ ا نَٔیّٰ يُو فَْٔکُوْنَ ) (۲) اور یہ جملہ( کَانَا يَا کُْٔلاَنِ الطَّعَامَ ) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے طعام کی محتاج موجود، جو انسانی بدن میں جذب بھی ہوتا ہے اور اس سے خارج بھی ہوتا ہے، عبادت کے لائق نہیں ہوسکتی۔

ب۔ان باتوں پر عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمہ تھے، کلمہ خدا تھا اور وہ کلمہ جو خدا تھا اس کائنات میں آیا اور جسم میں تبدیل ہوگیا، روٹی بن گیا، اپنے پیروکاروں کے گوشت اور خون کے ساتھ متحد ہوگیا اور اس کاپهلا معجزہ یہ تھا کہ پانی کو شراب میں تبدیل کیااور جو رسول عقول کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہو اس کا معجزہ نشے میں مدہوش ہونا اور زوال عقل کا باعث ہو، کس عقل ومنطق سے مطابقت رکھتا ہے؟!

ج۔ایک طرف عیسیٰ کو خدا قرار دیا دوسری طرف سموئیل کی کتاب دوم کے گیارہویں باب میں داو دٔ پیغمبر (ع) کو شادی شدہ عورت سے زنا کی نسبت دی کہ داو دٔ نے اس عورت سے ز نا کیا جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی، اس کے بعد اس کے شوہر کو جنگ پر بھیج دیا او رفوج کے سپہ سالار سے کها کہ اسے جنگ کے دور ان لشکر کی اگلی صفوف میں رکھو اور اس کے پیچہے سے ہٹ جاؤتاکہ مارا جائے اور اس طرح اس کی بیوی اپنے گهر لے آیا، جب کہ انجیل متی کے باب اول میں عیسیٰ کا شجرہ نسب اس شادی تک پهنچاتے ہیں اور صاحب کتاب زبور داو دٔ پیغمبر پر اس گناہ کی تهمت لگاتے ہیں ۔

یہ ہدایت قرآن ہی تھی جس نے خداوند عالم کو ان اوہام سے پاک ومنزہ اورا بن مریم پر اعتقاد کو، انہیں (نعوذ بالله)زنا زادہ سمجهنے والوں کی تفریط اور خدا کا بیٹا قرار دینے والوں کے افراط سے پاک ومنزہ قرار دیا اور فرمایا( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ ا هَْٔلِهَا مَکَاناً شَرْقِيًّا ) (۳) یهاں تک کہ فرمایا( قَالَ إِنِّی عَبْدُاللّٰهِ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِيًّا ) (۴) اور داو دٔ کو پاکیزگی کی وہ منزلت عطا کی کہ فرمایا :

( يَادَاو دُُٔ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِيْفَةً فِی اْلا رَْٔضِ ) (۵) اور پیغمبر خاتم(ص) سے مخاطب ہو کر فرمایا( اِصْبِرْ عَلیٰ مَا يَقُوْلُوْنَ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاو دَُٔ ذَا الا ئَْدِ إِنَّه ا ؤََّابٌ ) (۶)

یہ معرفتِ خدا کے سلسلے میں ہدایت قرآن کا ایک نمونہ تھا۔

جب کہ تعلیمات قرآن مجید میں انسان کی سعادت کا نمونہ یہ ہے :

طاقت، دولت، قبیلے اور رنگ جیسے امتیازات کے مقابلے میں انسانی کمالات کو فضیلت کا معیار قرار دیا اور فرمایا( يَا ا ئَُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّا نُْٔثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ ا کَْٔرَمَکُمْ عِنْد اللّٰهِ ا تَْٔقَاکُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) (۷)

نشہ آور چیزوں کے استعمال سے فاسد شدہ افکار اور وسیع پیمانے پر پهیلے ہوئے جوئے اور سود خوری کی وجہ سے بیمار اقتصاد کا ان آیات کے ذریعہ اصلاح ومعالجہ کیا( يَا ا ئَُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِنَّمَا

____________________

۱ سورہ مائدہ ، آیت ۷۳ ۔”یقینا وہ لوگ کافر ہیں جن کا کهنا یہ ہے کہ الله تین میں کا تیسرا ہے ۔حالانکہ الله کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور اگر یہ لوگ اپنے قول سے باز نہ آئیں گے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر دردناک عذاب نازل ہو جائے گا“۔

۲ سورہ مائدہ، آیت ۷۵ ۔”مسیح بن مریمکچھ نہیں ہیں صرف ہمارے رسول ہیں جن سے پهلے بہت سے رسول گذرچکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ تہیں اور وہ دونوں کها نا کهایا کرتے تھے ۔ دیکھو ہم اپنی نشانیوں کو کس طرح واضح کر کے بیان کرتے ہیں اور پھر دیکھو کہ یہ لوگ کس طرح بہکے جا رہے ہیں“۔

۳ سورہ مریم ، آیت ۱۶ ۔”اور پیغمبر اپنی کتاب میں مریم کا ذکر کرو کہ جب وہ اپنے گهر والوں سے الگ مشرقی سمت کی طرف چلی گئیں“۔

۴ سورہ مریم ، آیت ۳۰ ۔”بچہ نے آواز دی کہ میں الله کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے“۔

۵ سورہ ص ، آیت ۲۶ ۔”اے داو دٔ! ہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنا یاہے“۔

۶ سورہ ص ، آیت ۱۷ ۔”آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داو دٔ کو یاد کریں جو صاحب طاقت بھی تھے اور بیحد رجوع کرنے والے بھی تھے“۔

۷ سورہ حجرات ، آیت ۱۳ ۔”انسانو!هم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں

اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پر هیزگار ہے اور الله ہر شئے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے “۔