اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20586
ڈاؤنلوڈ: 2865

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20586 / ڈاؤنلوڈ: 2865
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

ایسی شخصیت کے اخلاقی فضائل کی شرح کهاں ممکن ہے جس کے بارے میں خداوند عظیم نے یہ فرمایا ہوکہ( وَإِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِيْمٍ ) (۱)

آپ (ص) کی زندگی سے اخلاق وکردار کا مطالعہ وتحقیق، ہر باانصاف شخص کے لئے آپ (ص) کی نبوت پر ایمان کے لئے کافی ہے( يَا ا ئَُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا ا رَْٔسَلْنَاکَ شَاهِداً وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاخ وَّدَاعِیاً إِلی اللّٰهِ بِإِذْنِه وَسِرَاجاً مُّنِيْرًا ) (۲)

اور یہ آسمانی کتب کی ان بشارتوں کا ظہور ہے جن کی سابقہ انبیاء علیهم السلام نے خبر دی تھی۔ اگر چہ تحریف کے ذریعے انہیں مٹانے کی مکمل کوشش کی گئی لیکن باقی ماندہ اثرات میں غور وفکر ،اہلِ نظر کو حقائق تک پهنچانے کے لئے مشعل راہ ہے ۔هم ان میں سے دو نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں :

۱۔تورات ،سفر تثنیہ ، تینتیسویں باب میں ذکر ہوا ہے :”اور یہ ہے وہ برکت جو موسی جیسے مرد خدا نے اپنی وفات سے پهلے بنی اسرائیل کو عطا کی اور کها: یهوہ سیناسے آیا اور سعیرسے ان پر طلوع کیا اور جبل فاران سے چمکااور لاکهوں مقدسین کے ساته آیا اور اس کے دائیں هاته سے ان کے لئے آتشیں شریعت ظاہر ہوئی ۔“

”سینا“وہ جگہ ہے جهاں حضرت موسیٰ بن عمران پر وحی نازل ہوئی ۔”سعیر “عیسیٰ بن مریم کے مبعوث ہونے کی جگہ اور ”فاران“کا پهاڑ جهاں یهوہ چمکا،تورات کی گواہی کے مطابق ”مکہ“کا پهاڑ ہے۔

کیونکہ سفر تکوین کے اکیسویں باب میں حضرت هاجرہ اور اسماعیل سے مربوط آیات میں مذکور ہے کہ :”خدا اس بچے کے ساته تھا اور وہ پروان چڑه کر،صحرا کا ساکن ہوا اور تیر اندازی میں بڑا ہوا اور فاران کے صحرا میں سکونت اختیار کی، اس کی ماںنے اس کے لئے مصر سے بیوی کا انتخاب کیا۔“

”فاران “مکہ معظمہ ہے، جهاں حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد رہائش پذیر تھے اور کوہ حرا سے آتشیں شریعت اور فرمان( يَا ا ئَُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِيْنَ ) (۳) کے ساته آنے والا پیغمبر آنحضرت (ص) کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟

اور کتاب حبقّوق(حیقوق)نبی کے تیسرے باب میں نقل ہوا ہے کہ :”خدا تیمان سے آیا اور قدوس فاران سلاہ کے پهاڑ سے ، اس کے جلال نے آسمانوں کو ڈهانپ لیا اور زمین اس کی تسبیح سے لبریز ہوگئی ، اس کا پر تو نور کی مثل تھا اور اس کے هاتهوں سے شعاع پهیلی۔ “

مکہ معظمہ کے پهاڑ سے آنحضرت (ص)کے ظہور کی بدولت ہی یہ ہوا کہ ساری زمین ((سبحان اللّٰه والحمد للّٰه ولا اله الا اللّٰه واللّٰه اکبر ))کی صداو ںٔ سے گونج اٹهی اور ((سبحان ربی العظیم وبحمده ))و ((سبحان ربی الا عٔلی وبحمده )) ساری دنیا کے مسلمانوں کے رکوع وسجود میں منتشر ہوئے۔

۲۔انجیل یوحنا کے چودہویں باب میں مذکور ہے کہ :”اور میں اپنے والد سے چاہوں گا اور وہ تمہیں ایک اور تسلی دینے والا عطا کرے گا جو ہمیشہ کے لئے تمهارے ساته رہے۔“

اور پندرہویں باب میں مذکور ہے کہ :”اور جب وہ تسلی دینے والا آئے ، جسے والد کی جانب سے تمهارے لئے بھیجوں گا یعنی حقیقی روح جو والد سے صادر ہوگی ، وہ میری گواہی دے گی ۔“

اصلی نسخے کے مطابق ، عیسیٰ جس کے متعلق خدا سے سوال کریں گے، کو ”پار قلیطا“کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو ”پر یکلیطوس “ہے اور اس کاترجمہ ”تعریف کیا گیا“ ،”احمد“اور”محمد“کے موافق ہے،لیکن ”انجیل “لکھنے والوں نے اسے ”پاراکلیطوس“میں تبدیل کر کے ”تسلی دینے والا“کے معنی میں بیان کیا ہے ۔

اوریہ حقیقت انجیل برنابا کے ذریعے واضح وآشکار ہوگئی کہ اس میں ”فصل ۱۱۲ “ میں نقل ہوا ہے کہ: ”-( ۱۳) اور اے برنابا !جان لوکہ اس لئے میرے اوپر اپنی نگهداری واجب ہے اور نزدیک ہے کہ (عنقریب )میر اایک شاگرد مجھے تیس کپڑوں کے عوض نقد بیچ دے گا (۱ ۴ ) اور لہٰذا مجھے یقین ہے کہ مجھے بیچنے والا میرے نام پر ماراجائے گا(۱ ۵) کیونکہ خدا مجھے زمین سے اٹها لے گا اور اس خائن کی صورت اس طرح بدل دے گا کہ ہر شخص گمان کرے گا کہ میں ہوں (۱ ۶ ) اور اس کے

____________________

۱ سورہ قلم ، آیت ۴۔”یقینا اے محمد ! آپ خلق عظیم پر فائز ہیں“

۲ سورہ احزاب ، آیت ۴۵،۴۶ ۔”اے پیغمبر ! ہم نے تم کو لوگوں پر گواہ، بشارت دہندہ اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے الله کے اذن سے اس کی طرف دعوت دینے والا ، اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے“۔

۳ سورہ توبہ، آیت ۷۳ ۔”اے پیغمبر ! کفار و منافقین کے ساته جهاد کرو“۔

ساته جو وہ بدترین موت مرے گا میں بچ جاو ںٔ گا اور دنیا میں دراز مدت تک رہوں گا ((۱۷))لیکن جب محمد پیغمبر خدا ((محمد رسول اللّٰہ))آئے گا مجه سے یہ عیب اٹها لیا جائے گا “۔

اور محمد رسول الله (ص) کی بشارت انجیل کی فصول میں ذکر ہوئی ہیں ۔

اور اس انجیل کی بعض فصول میں((محمد رسول اللّٰہ))کے عنوان سے بشارتیں مذکور ہیں ،جیسا کہ انتالیسویں فصل میں ہے: ”اور جب آدم اپنے قدموں پرکھڑا ہوا تو اس نے فضا میں کلمات لکہے ہوئے دیکھے جو سورج کی طرح چمک رہے تھے کہ جن کی صریح نص یہ تھی ((لا الہ الااللّٰہ))اور ((محمد رسول اللّٰہ))((۱۵) ) پس اس وقت آدم نے لب کهولے اور کها : اے پروردگار !میرے خدا میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ مجھے زندگی عطا کر کے تو نے اپنا تفضل فرمایا ((۱۶) ) لیکن تیری بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں کہ تو مجھے ان کلمات ((محمد رسول اللّٰہ)) کے معنی بتا دے ((۱۷))پس خدا نے جواب دیا :مرحبا!اے میرے عبد آدم((۱۸))بے شک میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم پهلے شخص ہو جسے میں نے خلق کیا ہے۔“

اور اکتالیسویں فصل میں ہے: ”((۳۳))جب آدم نے توجہ کی تو دروازے کے اوپر((لا الہ الا اللّٰہ ،محمد رسول اللّٰہ)) لکها ہوا دیکھا۔ “

اور چهیانویں فصل میں ہے: ”((۱۱))اس وقت خد اجهان پر رحم فرمائے گا اور اپنے پیغمبر کوبھیجے گا، جس کے لئے ساری دنیا خلق کی ہے ۔((۱۲))جو قوت کے ساته جنوب کی جانب سے آئے گا اور بتوں اور بت پرستوں کو هلاک کردے گا ۔((۱۳))اور شیطان کے انسان پرتسلط کو جڑ سے اکهاڑ

پهنیکے گا((۱۴) ) اور خدا کی رحمت سے خود پر ایمان لانے والوں کی خلاصی کے لئے آئے گا ۱ ۵)) اور جو اس کے سخن پر ایمان لائے گا بابرکت ہوگا۔“))

اور ستانویں فصل میں ہے:”((۱))اور اس کے باوجود کے میں اس کے جوتوں کے تسمے کهولنے کے قابل نہیں ہوں، خدا کی رحمت سے اس کی زیارت سے شرفیاب ہوا ہوں۔ “

تورات اور انجیل کی بشارتوں کو ثابت کرنے کے لئے یهی بات کافی ہے کہ رسول خدا(ص) نے یہودیوں، نصاریٰ او ر ان کے احبار ،قسیسین اور سلاطین کو اسلام کی دعوت دی۔ یہود کے اس اعتقاد کہ ( عُزَيْرٌ ابْنُ اللّٰهِ) (۱) اور نصاریٰ کے اعتقاد ( إِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ) (۲) کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کے مقابلے میں قیام کیااور مکمل صراحت کے ساته اعلان کیا کہ میں وہی ہوں جس کی بشارت تورات وانجیل میں دی گئی ہے ( اَلَّذِيَْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَبِیَّ اْلا مُِّٔیَّ الَّذِیْ يَجِدُوْنَه مَکْتُوْباً عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَ اْلإِنْجِيْلِ) (۳) ( وَإِذْقَالَ عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِیْ إِسْرَائِيْلَ إِنیِّ رَسوُْلُ اللّٰهِ إِلَيْکُمْ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبْشِّراً بِّرَسُوْلٍ يَّا تِْٔی مِنْ بَعْدِی اسْمُه ا حَْٔمَدُ) (۴)

اگر آپ(ص)کا دعوی سچا نہ ہوتا تو کیا ان دشمنوں کے سامنے جو اپنی معنوی اور مادی سلطنت کو خطرے میں دیکھ رہے تھے اور ہر کمزور پهلو کی تلاش وجستجو میں تھے ، پیغمبر اکرم(ص) کا اس قاطعیت سے اعلان کرنا ممکن تھا؟!

احبار،(۵) قسیسین،(۶) علماء یہود ونصاریٰ اور سلاطین، جنہوں نے آپ(ص)کے مقابلے میں ہر حربے کا سهارا لیا، یهاں تک کہ جنگ اور مباہلہ سے عاجز ہو کر جزیہ دینا قبول کر لیا،پیغمبر اسلام (ص)کے اس دعوے کے مقابلے میں کس طرح لا چار ہوکر رہ گئے اور ان کے لئے ممکن نہ رہا کہ آنحضرت(ص) کے اس دعوے کا انکار کر کے ،آپ کی تمام باتوں کو سرے سے غلط ثابت کردیں !آنحضرت(ص) کا صریح دعوی او رعلماء وامراء یہود و نصاریٰ کا حیرت انگیز سکوت، آپ(ص)کے عصرِ ظہور میں ان بشارتوں کے ثبوت پر برہانِ قاطع ہے۔

____________________

۱ سورہ توبہ ، آیت ۳۰ ۔”عزیز الله کے بیٹے ہیں“۔

۲ سورہ مائدہ ، آیت ۷۳ ۔”خدا ان تین میں کا تیسرا ہے“۔

۳ سورہ اعراف ، آیت ۱۵۷ ۔”جو لوگ کہ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکها ہوا پاتے ہیں“۔

۴ سورہ صف، آیت ۶۔”اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کها کہ اے بنی اسرائیل میں تمهاری طرف الله کا رسول ہوں اپنے پهلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والاہوں جس کا نام احمد ہے“۔

۵ احبار:علمائے یہود۔

۶ قسیسین:علمائے نصاریٰ۔

اگرچہ اس کے بعد حب جاہ ومقام اورمال ومتاع کی وجہ سے انہیںتحریف کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہ سوجهی کہ جس کا نمونہ فخرالاسلام نے اپنی کتاب ”انیس الاعلام“ میں اپنے ذاتی حالات کا تذکرہ کرتے وقت پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :میں ارومیہ کے گرجا گهر میں متولد ہوا اور تحصیل علم کے آخری ایام میں کیتهولک فرقے کے ایک بڑے عالم سے استفادہ کرنے کا موقع میسر ہوا۔

اس کے درس میں تقریبا چار سو سے پانچ سو افراد شرکت کرتے تھے۔ ایک دن استاد کی غیر موجودگی میں شاگردوں کے درمیان بحث چهڑ گئی۔ جب استاد کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے پوچها بحث کیا تھی؟ میں نے کها:”فارقلیط“کے معنی کے بارے میں۔ استاد نے اس بحث میں شاگردوں کے نظریات معلوم کرنے کے بعد کها:” حقیقتکچھ اور ہے “، پھر اس مخزن کی جسے میں اس کا خزانہ تصور کرتا تھا،

چابی مجھے دی اور کها :”اس صندوق میں سے دو کتابیں جن میں سے ایک سریانی اور دوسری یونانی زبان میں جو حضرت خاتم الانبیاء کے ظہور سے پهلے کهال پر لکهی ہوئی ہے ،لے کر آؤ۔“

پھر مجھے دکهایا کہ اس لفظ کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ لکہے ہوئے تھے اور مجه سے کها:”حضرت محمد (ص)کے ظہور سے پهلے عیسائی علماء میں اس کے معنی میں کوئی اختلاف نہ تھا اور آنحضرت (ص) کے ظہور کے بعد تحریف کی“۔ میں نے نصاریٰ کے دین سے متعلق اس کا نظریہ دریافت کیا۔اس نے کها: ”منسوخ ہوچکاہے ۔اور نجات کا طریقہ محمد (ص) کی پیروی میں منحصر ہے۔“ میں نے اس سے پوچها: ”اس بات کا تم اظهار کیوں نہیں کرتے ؟“

اس نے عذر یہ بیان کیا تھا کہ اگر اظهار کروں مجھے مار ڈالیں گے اور اس کے بعد ہم دونوں روئے اور میں نے استاد سے یہ استفادہ کرنے کے بعد اسلامی ممالک کی طرف هجرت کی(۱) ان دو کتابوں کا مطالعہ اس عالی مقام راہب کے روحی انقلاب کا سبب بنا اور اسلام لانے کے بعد عیسائیت کے بطلان اور حقانیت اسلام کے بارے میں کتاب انیس الاعلام لکهی جو عهد قدیم(۲) وجدید(۳) میں اس کے تتبع اور تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

معاد

معاد پر اعتقاد دو راہوں سے حاصل ہوتا ہے :دلیلِ عقلی اور عقل پر مبنی دلیل نقلی

دلیل عقلی:

۱۔هر عاقل کی عقل یہ درک کرتی ہے کہ عالم وجاہل ، اخلاق فاضلہ مثال کے طورپر بخشش وکرم سے آراستہ اور اخلاق رذیلہ مثال کے طور پر بخل وحسد سے آلودہ اور نیک وبد انسان برابر نہیں ہیں اور کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا وسزا نہ دینا ظلم ہے ۔

اور جیسا کہ اس زندگی میں اچہے اعمال بجالانے والوں کو اچهائی کی جزا اور برے اعمال بجا لانے والوں کو برائی کی سزا ملنا چاہیے نہیں ملتی، لہٰذا اگر اس کے علاوہ عقائد ،اخلاق اور اعمال سے متناسب عذاب وثواب پر مشتمل کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو یہ ظلم ہوگا اور اسی بناء بر حشر ونشر ،حساب و کتاب اور ثواب و عقاب کا ہونا عدل پروردگار کا عین تقاضا ہے( ا مَْٔ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَالْمُفْسِدِيْنَ فِی اْلا رَْٔضِ ا مَْٔ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ کَالْفُجَّارِ ) (۴)

۲۔خداوند متعال حکیم ہے لہٰذا عبث ولغو عمل اس سے صادر نہیں ہوتا ،اس نے انسان کو خلق کیا اور اسے نباتات وحیوانات کے لئے ضروری صفات، مثال کے طور پر دفع وجذب اور شہوت وغضب،کے ساته ساته ایسی صفات سے مزین کیا کہ جو اسے علمی کمالات ، اخلاقی فضائل اور شائستہ گفتار ورفتار کی جانب دعوت دیتی ہے۔ کمالات تک پهنچنے کے لئے کسی حد پر نہیں ٹههرتی اور علم وقدرت کے کسی بھی مرتبے تک پهنچنے کے باوجود اگلے مراحل کی پیاس باقی رہتی ہے ۔پھر انبیاء علیهم السلام کو اسی فطرت کی تربیت کے لئے بھیجا تاکہ اسے نامتناہی کمال کی ابتداء کی جانب ہدایت کریں

____________________

۱ انیس الاعلام ج ۱ ص ۶۔

۲ عهد قدیم :حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پهلے نازل ہونے والی وحی اور احکامات۔

۳ عهد جدید :وحی و الهام کا وہ مجموعہ جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تالیف کیا گیا۔

۴ سورہ ص ، آیت ۲۸ ۔”کیا ہم ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد برپا کرنے والوں جیسا قرار دیدیں یا صاحبان تقویٰ کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دیدیں“۔

۔اگر انسان کی زندگی اسی دنیا تک محدود ہوتی تو اس فطرت کا وجود اور ہدایت کے لئے انبیاء کی بعثت لغو وعبث قرار پاتی ۔

لہٰذا ،حکمت خداوندِ متعال کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی زندگی اسی حیات مادی وحیوانی تک ختم نہ ہو بلکہ اس کمال کو پانے کے لئے جو خلقت کا مقصد ہے آئندہ بھی جاری ہے( ا فََٔحَسِبْتُمْ ا نََّٔمَا خَلَقْنَاکُم عَبَثاً وَّ ا نََّٔکُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُوْنَ ) (۱)

۳۔فطرت انسانی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر صاحب حق کواس کا حق اور ظالم کے مقابلے میں ہر مظلوم کو انصاف ملنا چاہیے اور یهی فطرت ہے جو ہر دین ومسلک سے تعلق رکھنے والے انسان کو، عدل وانصاف فراہم کرنے کے لئے، قوا نین اور عدالتیں بنانے پر مجبور کرتی ہے۔

نیز یہ بات بھی واضح وروشن ہے کہ دنیاوی زندگی میں بہت سے ظالم ،مسند عزت واقتدار پر زندگی بسر کرتے ہیں اور مظلوم تازیانوں اور شکنجوں میں سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں ۔حکمت ،عدل ،عزت اور رحمت خداوند متعال کا تقاضا یہ ہے کہ ظالموں سے ان مظلوموں کا بدلہ لیا جائے( وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُوْنَ إِنَّمَا يُو خَِّٔرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ اْلا بَْٔصَارُ ) (۲)

۴ ۔حکمت خداوند متعال کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی غرضِ خلقت اور مقصد وجود تک رسائی کے لئے ،اسے وسائل فراہم کرے ، جو اسباب سعادت کے حکم اور اسباب شقاوت سے نهی کئے بغیر میسر نہیں۔ اسی طرح انسانی ہویٰ وہوس کے مخالف قوانینِ الٰهی کا اجراء بغیرخوف ورجاء کے ممکن نہیںاور یہ دونوں بشارت وانذار کے بغیر متحقق نہیں ہوسکتے ، اُدہر بشارت وانذار کا لازمہ یہ ہے کہ اس زندگی کے بعد ثواب وعقاب اور نقمت ونعمت ملے ورنہ بشارت وانداز کو جھوٹ ماننا پڑے گا، جب کہ خداوندِ متعال ہر قبیح سے منزہ ہے ۔

دلیل نقلی :

تمام ادیان آسمانی معاد کے معتقد ہیں اور اس اعتقاد کی بنیاد پیغمبرانِ الٰهی کا خبر دینا ہے ۔ ان کا خبر دینا وحی الٰهی سے مستند ہے ، جب کہ عصمت انبیاء علیهم السلام اوروحی کا ہر خطاولغزش سے محفوظ ہونا معاد پر ایمان اور اعتقاد کو ضروری و واجب قرار دیتا ہے ۔

معاد اور حشر ونشر کے منکرین کے پاس پیغمبروں کی اس خبر کے مقابلے میں اسے بعید الوقوع کهنے کے علاوہ کوئی دوسرا بهانہ نہ تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں ؟بوسیدہ وخاک ہونے کے بعد یہ مردہ و پراگندہ ذرات آپس میں مل کر نئی زندگی کیسے پا سکتے ہیں ؟

جب کہ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ بے جان و پراگندہ اجزاء ہی سے تو زندہ موجود ات کو بنایا گیا ہے ۔وہی علم، قدرت اور حکمت جس نے بے جان ومردہ مادّے کو خاص ترکیب اور مخصوص نظام کے ساته حیات وزندگی قبول کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے اور جو انسان جیسے ان تمام اعضاء

وقوتوں کے مجموعے کو بغیر کسی سابقہ مثال ونمونے کی موجودگی کے بنا سکتا ہے وہ انسان کے مرنے اور منتشر ہونے کے بعد اس کے تمام ذرات کو ،چاہے کہیں بھی ہوں اور کسی بھی حالت میں ہوں،جو اس کے احاطہ علم ونظروں سے اوجهل نہیں،جمع کر سکتا ہے اور جس قدرت کے ساته پهلی مرتبہ بغیر کسی مثال ونمونے کے خلق فرمایا تھا دوسری بار نمونے اور سابقہ تجربے کے ہوتے ہوئے جو اور بھی زیادہ آسان ہے، انجام دے سکتا ہے( قَالُوا ا إِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَاباً وَّعِظَامًا ا إِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ ) (۳)

( ا ؤََلَيْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ بِقَادِرٍ عًلیٰ ا نَْٔ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلیٰ وَهُوَ الخَلاَّقُ الَعَلِيْمُ ) (۴)

وہ قدرت جو سر سبز درختوں سے آگ کو روشن اور خزاں کی موت کے بعد مردہ زمین کو ہر بهار میں زندگی عطا کرتی ہے، اس کے لئے موت کے بعد زندگی عطا کرنا ہر گز مشکل کام نہیں( اَلّذِی

____________________

۱ سورہ مومنون، آیت ۱۱۵ ۔”کیا تمهارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاو گٔے“۔

۲ سورہ ابراہیم ، آیت ۴۲ ۔”اور خبردار خدا کو ظالمین کے اعمال سے غافل نہ سمجه لینا کہ وہ انہیں اس دن کے لئے مهلت دے رہا ہے جس دن آنکہیں (خوف سے )پتهرا جائیں گی“۔

۳ سورہ مومنون ، آیت ۸۲ ۔”کیا اگر ہم مر گئے اور مٹی اور ہڈی ہو گئے تو کیا ہم دوبارہ اٹهائے جانے والے ہیں“۔

۴ سورہ یس ، آیت ۸۱ ۔”تو کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کی ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کامثل دوبارہ پیدا کردے یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والاہے“۔

جَعَلَ لَکُمْ مِنَ الشَّجَرِ اْلا خَْٔضَرِ نَارًا فَإِذَا ا نَْٔتُمْ مِنْهُ تُوْقِدُوْنَ ) (۱) ( اِعْلَمُوْا ا نََّٔ اللّٰهَ يُحْیِ اْلا رَْٔضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَکُم اْلآيَاتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ) (۲)

وہ قدرت جو ہر رات، انسان کے ادراک کی مشعل کو نیند کے ذریعے بجهاتی اور اس سے علم واختیار کو سلب کرلیتی ہے ، موت کے ذریعے بجهنے کے بعد بھی اسے دوبارہ ادراک کی روشنی عطا کرنے اور فراموش شدہ معلومات کو پلٹانے پر قادر ہے ((لتموتن کما تنامون ولتبعثن کما تستیقظون ))(۳)

امامت

شیعہ وسنی کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں خلیفہ پیغمبر (ص) کا ہونا ضروری ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ آیا پیغمبر اسلام (ص) کے خلیفہ کی خلافت انتصابی ہے یا انتخابی۔

اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ خدا اور رسول (ص) کی جانب سے کسی کے معین کئے جانے کی ضرورت نہیں بلکہ خلیفہ رسول امت کے انتخاب سے معین ہوجاتا ہے جب کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے انتخاب کے بغیر جو درحقیقت خدا کی جانب سے انتخاب ہے ، کوئی بھی فرد خلافت کے لئے معین نہیں ہوسکتا۔اس اختلاف میں حاکمیت عقل، قرآن اور سنت کے هاته ہے۔

الف۔قضاوتِ عقل

اور اس کے لئے تین دلیلیں کافی ہیں:

۱۔ اگر ایک موجد ایسا کارخانہ بنائے جس کی پیداوار قیمتی ترین گوہر ہو اور اس ایجاد کا مقصد پیدا وار کے اس سلسلے کو ہمیشہ باقی رکھنا ہو، یهاں تک کہ موجد کے حضوروغیاب اور زندگی وموت،

غرض ہر صورت میں اس کام کو جاری رکھنا نهایت ضروری ہو، جب کہ اس پیداوار کے حصول کے لئے، اس کارخانے کے آلات کی بناوٹ اور ان کے طریقہ کار میں ایسی ظرافتوں اور باریکیوں کا خیال رکھا گیا ہو جن کے بارے میں اطلاع حاصل کرنا، اس موجد کی رہنمائی کے بغیر نا ممکن ہو، کیا یہ بات قابل یقین ہے کہ وہ موجد اس کام کے لئے ایک ایسے دانا شخص کومعین نہ کرے جو اس کارخانے کے آلات کے تمام رازوں سے باخبر ہو اور ان کے صحیح استعمال سے واقف ہو ؟! بلکہ اس کارخانے کے انجینئیر کے انتخاب کا حق مزدوروں کو دے دے جو ان آلات سے نا آشنا اور ان دقتوں اور باریکیوں سے نا واقف ہیں ؟!

وہ باریک بینی جس کا انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں جاری ہونے والے الٰهی قوانین، سنن اور تعلیمات میں خیال رکھا گیا ہے جو کارخانہ دین خدا کے آلات واوزار ہیں، کہ جس کارخانے کی پیدا وار ، خزانہ وجود کا قیمتی ترین گوہر، یعنی انسانیت کو معرفت وعبادتِ پروردگار کے کمال تک پہچانا اور شہوت انسانی کو عفت، غضب کو شجاعت اور فکر کو حکمت کے ذریعے توازن دے کر، انصاف

وعدالت پر مبنی معاشرے کا قیام ہے، کیامذکورہ موجد کے ایجادکردہ کار خانے میں جاری ہونے والی باریکی اور دقت نظری سے کم ہے ؟!

جس کتاب کی تعریف میں خداوند متعال نے فرمایا( وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَّهُدًی وَّرَحْمَةً ) (۵) اور( کِتَابٌ ا نَْٔزَلْنٰهُ إِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلیَ النُّوْر ) (۵) اور( وَمَا ا نَْٔزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ ا لِٔاَّ

____________________

۱ سورہ یس، آیت ۸۰ ۔”اس نے تمهارے لئے هرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے اور آگ سلگا لیتے ہو“۔

۲ سورہ حدید ، آیت ۱۷ ۔”یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوں کو واضح کر کے بیان کر دیا تاکہ تم عقل سے کام لے سکو“۔

۳ بحار الانوارج ۷ ص ۴۷ (یقینا تم موت کے گهاٹ اتروگے جیسے تم سوتے ہو اور دوبارہ زندہ کئے جاو گٔے جیسا کہ تم سوکر دوبارہ جاگتے ہو)

۴ سورہ نحل، آیت ۸۹ ۔”اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب ہدایت اور رحمت ہے “۔

۵ سورہ ابراہیم، آیت ۱۔”کتاب جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں“۔

لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْافِيْهِ ) (۱) اس کتاب کے لئے ایسے مبيّن کا ہونا ضروری ہے جو اس کتاب میں موجود ہر اس چیز کا استخراج کر سکے جس کے لئے یہ کتا ب تبیان بن کر آئی ہے، ایک ایسا فردجو انسان کے فکری، اخلاقی اور عملی ظلمات پر احاطہ رکھتے ہوئے، عالم نور کی جانب انسان کی رہنمائی کر سکے،

جو نوع انسان کے تمام تر اختلافات میں حق و باطل کو بیان کر سکتا ہو، کہ جن اختلافات کی حدود مبداءومعاد سے مربوط وجود کے عمیق ترین ایسے مسائل، جنہوں نے نابغہ ترین مفکرین کو اپنے حل میں الجها رکھا ہے، سے لے کر مثال کے طور پر ایک بچے کے بارے میں دو عورتوں کے جهگڑے تک ہے جو اس بچے کی ماں ہونے کی دعویدار ہیں۔

کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ عمومی ہدایت، انسانی تربیت، مشکلات کے حل اور اختلافات کے مٹانے کے لئے قرآن کی افادیت، پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے ساته ختم ہو گئی ہو؟!

آیا خدا اور اس کے رسول (ص) نے اس قانون اور تعلیم وتربیت کے لئے کسی مفسر ومعلم اور مربی کا انتظام نہیں کیا؟! اور کیا اس مفسر ومعلم ومربی کو معین کرنے کا اختیار، قران کے علوم ومعارف سے بے بهرہ لوگوں کو دے دیا ہے؟!

۲۔ انسان کی امامت ورہبری یعنی عقلِ انسان کی پیشوائی وامامت، کیونکہ امامت کی بحث کا موضوع ”انسان کا امام ہے“اور انسان کی انسانیت اس کی عقل وفکر سے ہے ((دعامة الإنسان العقل ))(۲)

خلقت انسانی کے نظام میں بدن کی قوتیں اور اعضاء، حواس کی رہنمائی کے محتاج ہیں،اعصاب حرکت کواعصا ب حس کی پیروی کی ضرورت ہے اور خطا ودرستگی میں حواس کی رہبری عقلِ انسانی کے هاته ہے، جب کہ محدود ادراک اور خواہشاتِ نفسانی سے متاثر ہونے کی وجہ سے خود عقلِ انسان کو ایسی عقلِ کامل کی رہبری کی ضرورت ہے جو بیماری وعلاج اور انسانی نقص وکمال کے عوامل پر مکمل احاطہ رکھتی ہواور خطاو ہویٰ سے محفوظ ہو، تاکہ اس کی امامت میں انسانی عقل کی ہدایت تحقق پیدا کر سکے اور ایسی کامل عقل کی معرفت کا راستہ یهی ہے کہ خدا اس کی شناخت کروائے۔ اس لحاظ سے امامت کی حقیقت کا تصور، خدا کی جانب سے نصب امام کی تصدیق سے جدا نہیں۔

۳۔ چونکہ امامت قوانین خدا کی حفاظت، تفسیر اور ان کا اجراء ہے، لہٰذا جس دلیل کے تحت قوانین الٰهی کے مبلغ کا معصوم ہونا ضروری ہے اسی دلیل سے محافظ، مفسر اور قوانین الٰهی کے اجراءکنندہ کی عصمت بھی ضروری ہے اور جس طرح ہدایت، جو کہ غرض بعثت ہے، اس وقت باطل ہوجاتی ہے جب مبلّغ میں خطا وہویٰ آجاتی ہے، اسی طرح مفسر ومجری قوانین الٰهی کا خطا کار ہونا اور خواہشات کے زیر اثر آجانا،اضلال وگمراہی کا سبب ہے اور معصوم کی پہچان خداوندِ متعال کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہے۔

ب۔ قضاوت قرآن :

اختصار کی وجہ سے تین آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

پهلی آیت :

( وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ ا ئَِٔمَّةً يَّهْدُوْنَ بِا مَْٔرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَکَانُوْا بِآيَاتِنَا يُوْقِنُوْنَ ) (۳)

هر درخت کی شناخت اس کی اصل وفرع، جڑ اور پهل سے ہوتی ہے۔شجر امامت کی اصل وفرع، قرآن مجید کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔

صبر اور آیات خداوند کریم پر یقین، امامت کی اصل ہے اور یہ دو لفظ انسان کے بلند ترین مرتبہ کمال کو بیان کرتے ہیں کہ کمال عقلی کی بناء پر ضروری ہے کہ امام معرفت الٰهی اور آیات ربانی ۔ کہ جن آیات کوصیغہ جمع کے ساته ذات قدوس الٰهیہ کی جانب نسبت دی ہے۔کے لحاظ سے یقین کے مرتبہ پر

____________________

۱ سورہ نحل ، آیت ۶۴ ۔”اور ہم نے آپ پر کتاب صرف اس لئے نازل کی ہے کہ آپ ان مسائل کی وضاحت کردیں جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں“۔

۲ بحار الانوارج ۱ ص ۹۰ (انسان کا ستون اس کی عقل ہے)

۳ سورہ سجدہ ، آیت ۲۴ ۔”اور ہم نے ان میں سےکچھ لوگوں کو امام اور پیشوا قرار دیا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اس لئے کہ انهوں نے صبر کیا ہے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے“۔

اور ارادے کے اعتبار سے مقام صبر پر، جو نفس کو مکروہات خدا سے دور اور اس کے پسندیدہ اعمال پر پابند کردینے کا نام ہے، فائز ہو اور یہ دو جملے امام کے علم اور اس کی عصمت کے بیان گر ہیں۔

فرعِ امامت، امرِ خدا کے ذریعے ہدایت کرنا ہے اور امرِ الٰهی کے ذریعے ہدایت سے عالَم خلق اور عالَم امر کے مابین وساطتِ امام ثابت ہوتی ہے اورخود یهی فرع جو اس اصل کا ظہور ہے، امام کے علم وعصمت کی آئینہ دار ہے۔

وہ شجرہ طیبہ جس کی اصل وفرع یہ ہوں، اس کی پرورش قدرت خدا کے بغیر ناممکن ہے،

اسی لئے فرمایا:( وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ ا ئَِٔمَّةً يَّهْدُوْنَ بِا مَْٔرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوْا بِآيَاتِنَا يُوْقِنُوْنَ )

دوسری آیت :

( وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاهِيْمَ رَبُّه بِکَلِمَاتٍ فَا تََٔمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِی قَالَ لاَ يَنَال عَهْدِی الظَّالِمِيْنَ ) (۱)

امامت وہ بلند مقام ومنصب ہے جو حضرت ابراہیم (ع) کو کٹهن آزمائشوں، مثال کے طور پر خدا کی راہ میں بیوی اور بچے کو بے آب و گیاہ بیابا ن میں تنها چهوڑنے، حضرت اسماعیل کی قربانی اور آتش نمرود میں جلنے کے لئے تیار ہونے، اور نبوت ورسالت وخلت جیسے عظیم مراتب طے کرنے کے بعد نصیب ہوا اور خداوند متعال نے فرمایا( إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ) اس مقام کی عظمت نے آپ علیہ السلام کی توجہ کو اتنا زیادہ مبذول کیا کہ اپنی ذریت کے لئے بھی اس مقام کی درخواست کی تو خداوند متعال نے فرمایا( لاَ يَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِيْن )

اس جملے میں امامت کو خداوند متعال کے عهد سے تعبیر کیا گیا ہے جس پر صاحب عصمت کے علاوہ کوئی دوسرا فائز نہیں ہو سکتا اور اس میں بھی شک وتردید نہیں کہ حضرت ابراہیم(ع) نے اپنی پوری کی پوری نسل کے لئے امامت نہیں چاہی ہو گی کیونکہ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ خلیل الله نے عادل پرودرگار سے کسی غیر عادل کے لئے انسانیت کی امامت کو طلب کیا ہو، لیکن چونکہ حضرت ابراہیم (ع) نے اپنی عادل ذریت کے لئے جو درخواست کی تھی،اس کی عمومیت کا دائرہ ذریت کے اس فرد کو بھی شامل کررہا تھا جس سے گذشتہ زمانے میں ظلم سرزد ہوچکا ہو۔لہٰذا خدا کی جانب سے دئے گئے جواب کا مقصد یہ تھا کہ ایسے عادل کے حق میں آپ کی یہ دعا مستجاب نہیں جن سے پهلے گناہ سرزد ہو چکے ہیں بلکہ حکم عقل وشرع کے مطابق امامت مطلقہ کے لئے عصمت وطهارت مطلقہ شرط ہیں۔

تیسری آیت :

( يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا ا طَِٔيْعُو اللّٰهَ وَا طَِٔيْعُوا لرَّسُوْلَ وَا ؤُْلِی اْلا مَْٔرِ مِنْکُمْ ) (۲)

اس آیت کریمہ میں اولی الامر کو رسول پر عطف لیا گیا ہے اور دونوں میں ایک( اطیعوا ) پر اکتفا کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اطاعت اولی الامر اور اطاعت رسول (ص)کے وجوب کی سنخ وحقیقت ایک ہی ہے اور اطاعت رسول (ص)کی طرح، جو وجوب میں بغیر کسی قید وشر ط اور واجب میں بغیر کسی حد کے، لازم وضروری ہے اور اس طرح کا وجوب ولی امر کی عصمت کے بغیر نا ممکن ہے، کیونکہ کسی کی بھی اطاعت اس بات سے مقید ہے کہ اس کا حکم، الله تعالی کے حکم کا مخالف نہ ہو اور عصمت کی وجہ سے معصوم کا فرمان، خد اکے فرمان کے مخالف نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس کی اطاعت بھی تمام قیود وشرائط سے آزاد ہے۔

اس اعتراف کے بعد کہ امامت، در حقیقت دین کے قیام اور مرکزِ ملت کی حفاظت کے لئے،رسول (ص)کی ایسی جا نشینی کا نام ہے کہ جس کی اطاعت وپیروی پوری امت پر واجب ہے(۳) اور( إِن

____________________

۱ سورہ بقرہ، آیت ۱۲۴ ۔”اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے کلمات کے ذریعہ ابراہیم کا امتحان لیا اور انهوں نے پورا کر دیا تو اس نے کها کہ ہم تم کو لوگوں کا امام بنا تے ہیں ۔ انهوں نے عرض کیا کہ میری ذریت ؟ارشاد ہوا کہ یہ میر اعهدہ (امامت) ظالمین تک نہیں جائے گا“۔

۲ سورہ نساء، آیت ۵۹ ۔”ایمان لانے والو! الله کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تم میں سے ہیں“۔

۳ شرح المواقف ج ۸ ص ۳۴۵ ۔