اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20352
ڈاؤنلوڈ: 2736

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20352 / ڈاؤنلوڈ: 2736
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

اللّٰهَ يَا مُْٔرُ بِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ ) (۱) ( يَا مُْٔرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ ) (۲) کے مطابق اگر ولی امر معصوم نہ ہو تو اس کی اطاعت مطلقہ کا لازمہ یہ ہے کہ خدا ظلم ومنکر کا امر کرے اور عدل ومعروف سے نهی کرے۔

اس کے علاوہ، ولی امر کے غیر معصوم ہونے کی صورت میں عین ممکن ہے کہ اس کا حکم خدا اور رسول کے فرمان سے ٹکرائے اور اس صورت میں اطاعتِ خدا و رسول (ص)اور اطاعت ولی امر کا حکم، اجتماع ضدین اور ایک امر محال ہو گا۔

لہٰذا، نتیجہ یہ ہوا کہ کسی قید وشرط کے بغیر اولی الامر کی اطاعت کا حکم، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا حکم خدا اور رسول کے فرمان کے مخالف نہیں ہے اور خود اسی سے عصمت ولی امر بھی ثابت ہو جاتی ہے۔

اور یہ کہ معصوم کا تعین عالم السر و الخفیات کے علاوہ کسی اور کے لئے ممکن نہیں ہے۔

ج۔قضاوت سنت:

(اہل سنت کے سلسلوں سے مروی روایات کے ذریعے امامت امیر المو مٔنین (علیہ السلام) پر استدلال کا مقصد اتمام حجت اور جدال احسن ہے۔ ورنہ متواتر احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہونے کے بعد کہ قرآن و سنت میں بیان کردہ امامت کی شرائط، آپ کے نفس قدسی میں موجود ہیں، مذکورہ بالا طریقہ استدلال کی قطعاً ضرورت نہیں۔اہل سنت سے منقول روایات پر ”صحیح“ کا اطلاق انهی کے معیار و میزان کے مطابق کیا گیا ہے، اور شیعہ سلسلوں سے منقول روایات پر صحیح کا اطلاق اہل تشیع کے مطابق روایت کے معتبر ہونے کی بناء پر ہے۔ اب خواہ یہ روایات اصطلاحاً صحیح ہوں یا موثق، اور اس کا انحصار شیعہ علم رجال کے معیار و میزان پر ہے۔)

سنت رسول کی پیروی، ادراکِ عقل کے تقاضے اور حکم کتاب خدا کے مطابق ہے کہ معصوم کی پیروی کرنا ضروری ہے( وَمَا ا تََٔاکُمُ الرَّسُوَلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ) (۳)

اور ہم سنت میں سے فقط ایسی حدیثیں بیان کریں گے جس کا صحیح ہونا مسلّم اور فرمان خدا کے مطابق ان کا قبول کرنا واجب ہے۔ اس حدیث کو فریقین نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے اور آنحضرت (ص) سے صادر ہونے کی تصدیق بھی کی ہے۔ اگر چہ اس حدیث کو متعدد سلسلہ هائے اسناد کے ساته نقل کیا گیا ہے، لیکن ہم اسی ایک پر اکتفا کرتے ہیں جس کا سلسلہ سند زیادہ معتبر ہے۔ اور وہ روایت زید بن ارقم سے منقول ہے:

((قال:لما رجع رسول اللّٰه (ص) من حجة الوداع ونزل غدیر خم ا مٔر بدوحات فقممن، فقال:کا نٔی قد دعیت فا جٔبت، إنی قد ترکت فیکم الثقلین ا حٔدهما ا کٔبر من الآخر کتاب اللّٰه و عترتی فانظروا کیف تخلفونی فیهما، فإنهما لن یتفرقا حتی یردا علیّ الحوض، ثم قال: إن اللّٰه عزّ و جلّ مولای و ا نٔا مولی کل مو مٔن، ثم ا خٔذ بید علی رضی اللّٰه عنه فقال: من کنت مولاه فهذا ولیه، اللّهم وال من والاه و عاد من عاداه، وذکر الحدیث بطوله ))(۴)

امت کی امامت آنخضرت (ص) کی نگاہ میں اتنی زیادہ اہمیت کی حامل تھی کہ آپ (ص) نے نہ صرف حجة الوداع سے لوٹتے وقت بلکہ مختلف مواقع پر، حتی زندگی کے آخری لمحات میں موت کے بستر پر، جب اصحاب بھی آپ کے کمرے میں موجود تھے، کتاب وعترت کے بارے میں وصیت فرمائی،

____________________

۱ سورہ نحل، آیت ۹۰ ۔”بے شک خدا وند متعال عدل اور احسان کا حکم کرتا ہے“۔

۲ سورہ اعراف، آیت ۱۵۷ ۔”ان کو نیکوں کا امر کہتا ہے اور ان کو برائیوں سے روکتا ہے“۔

۳ سورہ حشر، آیت ۷۔”جوکچھ رسول نے تم کو دے اس کو لے لو اور جن چیزوں سے روکے اس سے رک جاؤ“۔

۴ مستدرک صحیحین ج ۳ ص ۱۰۹ ۔”زید ابن ارقم سے روایت ہے کہ جب رسول خدا (ص) آخری حج سے لوٹ رہے تھے تو غدیر خم پہونچ کر آپ نے سائبان لگانے کا حکم دیا پھر فرمایا:گویا مجھے بلایا گیا ہے اور میں نے بھی اس پر لبیک کہہ دیا ہے، میں تمهارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چهوڑ رہا ہوں ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ،ایک کتاب خدا دوسرے میرے اہل بیت پس نگاہ کرو تم ان دونوں کے ساته میرے بعد کیسا برتاو کروگے یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یهاں تک کہ حوض کوثر پر مجه سے ملاقات کریں پھر فرمایا الله تعالیٰ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں پھر علی کا هاته پکڑ کر فرمایا:جس کا میں مولا اس کے علی (ع)ولی ہیں، پھر دعا فرمائی: بار الٰها! اس کو دوست رکھنا جو علی کو دوست رکہے اور اس کو دشمن رکھنا جو علی کو دشمن رکہے“، اسی طرح کمال الدین و تمام النعمة ص ۲۳۴ و ۲۳۸ ، اور شیعوں کی دوسری کتابوں میں۔

کبھی ((انی قد ترکت فیکم الثقلین ))(۱) اور کبھی ((انی تارک فیکم خلیفتین ))،(۲) بعض اوقات ((انی تارک فیکم الثقلین ))(۳) کے عنوان سے اور کسی وقت ((لن یفترقا ))(۴) اور کبھی((لن یتفرقا ))(۵) کی عبارت کے اضافے کے ساته اور بعض مناسبتوں پر ((لا تقدموهما فتهلکوا ولا تعلموهما فإنهما ا عٔلم منکم ))(۶) اور کبھی اس طرح گویا ہوئے ((إنی تارک فیکم ا مٔرین لن تضلوا إن اتبعتموهما ))(۷)

اگرچہ کلام رسول خدا (ص) میں موجود تمام نکات کو بیان کرنا تو میسر نہیں، لیکن چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔جملہ ((انی قد ترکت ))اس بات کو بیان کرتاہے کہ امت کے لئے آنحضرت (ص) کی طرف سے قرآن وعترت بطور ترکہ ومیراث ہیں، کیونکہ پیغمبر اسلام (ص) کو امت کی نسبت باپ کا درجہ حاصل ہے، اس لئے کہ انسان جسم وجان کا مجموعہ ہے اور روح کو جسم سے وہی نسبت ہے جو معنی کو لفظ او ر مغز کو چهلکے سے ہے۔ اعضاء اور جسمانی قوتیں انسان کو اپنے جسمانی باپ سے ملی ہیں اور عقائد حقہ، اخلاق فاضلہ واعمال صالحہ کے ذریعے میسر ہونے والے روحانی اعضاء وقوتیں، پیغمبر (ص)کے طفیل نصیب ہوئی ہیں،جو انسان کے روحانی باپ ہیں۔روحانی سیرت وعقلانی صورت کے افاضے کا وسیلہ اور مادی صورت وجسمانی هیئت کے افاضے کا واسطہ، آپس میں قابل قیاس نہیںہیں،جس طرح مغز کاچهلکے سے، معنی کا لفظ سے اور موتی کا سیپ سے کوئی مقابلہ نہیں۔

____________________

۱ مسند احمد ج ۳ ص ۲۶ ، السنن کبری للنسائی، ج ۵،ص ۱۴۵ ، رقم ۸۱۴۸ ؛ سیرة ابن کثیر، ج ۴، ص ۴۱۶ اور اہل سنت کی دیگر کتابیں۔ ؛ ۲۳۸ ؛ المناقب، ۱۵۴ ، بصائر الدرجات، ص ۴۳۴ ، جز ثامن، باب ۱۷ ، حدیث ۴؛ کمال الدین و تمام النعمة، ص ۲۳۶ ۱۲۲ ، اور اہل شیعوں کی دیگر کتابوں میں۔ ،۱۱۶ ، العمدہ، ص ۷۱ ، الطرائف، ص ۱۱۴

۲ مسند احمدج ۵ ص ۱۸۱ و ۱۸۹ فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، ج ۲ ، ص ۶۰۳ ، رقم ۱۰۳۲ ؛ المصنف ابن ابی شیبہ، ج ۷، ص ۴۱۸ (الخلیفتین)، الجامع الصغیر، ج ۱، ص ۴۰۲ ، اور دیگر کتابیں۔ کمال الدین و تمام النعمة، ص ۲۴۰ ؛ العمدة، ص ۶۹ ؛ سعد السعود ، ص ۲۲۸ ، اور شیعوں کے دیگر منابع و مآخذ۔

۳ فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، ج ۱ ،ص ۵۷۲ حدیث ۹۶۸ ، مسند احمد ،ج ۴ ، ص ۳۷۱ ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳ ، ص ۱۴۸ ؛ المعجم الکبیر، ج ۵ ،ص ۱۶۶ ،اور دوسری کتابیں۔ بصائر الدرجات، ص ۴۳۲ ، جز ثامن، باب ۱۷ ، حدیث ۳ و حدیث ۵، و حدیث ۶؛ دعائم الاسلام، ج ۱، ص ۲۸ ؛ الامالی للصدوق، ص ۵۰۰ ، مجلس ۶۴ ، حدیث ۱۵ ؛ کمال الدین و تمام النعمة، ص ۲۳۴ ، وغیرہ، معانی الاخبار، ص ۹۰ ، اور شیعوں کے دیگر منابع۔

، ۴ البدایةوالنهایة،ج ۵، ص ۲۲۸ ،وج ۷، ص ۳۸۶ ،الطبقات الکبریٰ، ج ۲، ص ۱۹۴ ، مسند ابی یعلی، ج ۲، ص ۲۹۷ رقم ۴۸ ، جواہر العقدین ،ص ۲۳۱ و ۲۳۲ و ۲۳۳ ، مسند ابن الجعد، ص ۳۹۷ ، رقم ۲۷۱۱ ، رقم ۲۸۰۵ ، خصائص امیر المومنین، ص ۹۳ مسند احمد، ج ۳ ، ص ۱۴ ، اور دوسری کتابیں۔ ۴۳۴ ، جز ثامن، باب ۱۷ ؛ الکافی، ج ۲، ص ۴۱۵ ؛ الخصال، ۶۵ ؛ الامالی للصدوق، ص ، بصائر الدرجات، ص ۴۳۳ ،۲۱۷ ، ۲۳۴ وغیرہ؛ کفایة الاثر، ص ۹۲ ؛ الاحتجاج، ج ۱، ص ۷۵ ،۹۴ ، ۶۱۶ ، مجلس ۷۹ ، ح ۱؛ کمال الدین و تمام النعمة، ص ۶۴ ۸۳ وغیرہ؛ تفسیر قمی، ج ۱، ص ۱۷۲ ، التبیان، ج ۱، ص ۳، اور شیعوں کے ،۷۱ ، ۲۵۲ ؛ العمدة، ص ۶۸ ، ۳۹۱ ، و ج ۲، ص ۱۴۷ دیگر منابع۔

۵ مسند احمد، ج ۵، ص ۱۸۲ ؛ السنن الکبری للنسائی، ج ۵، ص ۴۵ وغیرہ؛ کتاب السنة ابن ابی عاصم، ص ۶۲۹ رقم ۱۵۴۹ و ص ۶۳۰ رقم ۱۵۵۳ ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳ ص ۱۰۹ ، اور دوسری کتابیں۔ روضة الواعظین، ص ۹۴ ؛ المناقب، ص ۱۵۴ ؛ تفسیر القمی، ج ۲، ص ۴۴۷ ، سورہ فتح کی تفسیر میں، تفسیر فرات الکوفی، ۱۷ ، اور شیعوں کے دیگر منابع ۔

۶ مذکورہ عبارت یا اس جیسی عبارتیں مجمع الزوائد، ج ۹، ص ۱۶۴ ؛الصواعق المحرقة، ص ۱۵۰ و ۲۲۸ ؛ جواہر العقدین ص ۲۳۳ و ۲۳۷ ، الدر المنثور، ج ۲ ،ص ۶۰ ، اور دوسری کتب۔

۲۵۰ ؛ تفسیر القمی، ج ۱، ص ۴، تفسیر فرات الکوفی، ص ۱۱۰ ؛ الامامة و التبصرة، ص ، تفسیر العیاشی، ج ۱، ص ۴ ۲۹۴ ؛ الامالی للصدوق، ص ۶۱۶ ، مجلس ۷۹ ، ح ۱؛ کفایة الاثر، ص ۱۶۳ ؛ مناقب امیر المومنین ،۲۸۷ ، ۴۴ ؛ کافی، ج ۱، ص ۲۰۹ ۴۶۷ ؛ الارشاد، ج ۱، ص ۱۸۰ ، اور شیعوں کے دیگر منابع۔ ، علیہ السلام، ج ۲، ص ۳۷۶ ؛ المسترشد، ص ۴۰۱

، ۷ المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۱۰ ، جامع الاحادیث ،ج ۳، ص ۴۳۰ حدیث ۹۵۹۱ ؛ینابیع المودة ، ج ۱ ص ۱۶۶ ، تاریخ مدینة دمشق ،ج ۴۲ ،ص ۲۱۶ ۔ اور دوسری کتابیں۔ ۲۳۷ وغیرہ؛ کفایة الاثر، ص ۲۶۵ ،تحف العقول، ص ۴۵۸ ؛ مناقب امیر المومنین ، کمال الدین و تمام النعمة، ص ۲۳۵ علیہ السلام، ج ۲، ص ۱۰۵ وغیرہ، ص ۱۴۱ ، و ۱۷۷ ؛ شرح الاخبار، ج ۱، ص ۱۰۵ اور شیعوں کے دیگر منابع۔

ایسا باپ اپنے اس جملے ((کا نٔی قددعیت فاجبت ))سے اپنی رحلت کی خبر دینے کے ساته ساته اپنی اولاد کے لئے میراث وترکہ معین فرما رہا ہے کہ امت کے لئے میرے وجود کا حاصل اور باقی دو چیزیں ہیں ((کتاب اللّٰه وعترتی ))

قرآن امت کے ساته خدا، اور عترت امت کے ساته رسول (ص)کا رابطہ ہیں۔ قرآن سے قطع رابطہ خدا کے ساته قطع رابطہ او ر عترت سے قطع رابطہ پیغمبر اکرم (ص) کے ساته قطع رابطہ ہے اور پیغمبر خدا سے قطع رابطہ خود خدا سے قطع رابطہ ہے۔

اضافہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مضاف، مضاف الیہ سے کسب حیثیت کرتا ہے۔ اگرچہ قرآن کا خدا کی جانب اور عترت کا پیغمبر خاتم (ص)،جو کائنات کے شخص اول ہیں، کی طرف اضافہ، قرآن وعترت کے مقام و منزلت کو واضح وروشن کر رہا ہے لیکن مطلب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آنحضرت (ص) نے ان دو کو ثقلین سے تعبیر کیاہے جس سے پیغمبر اکر م (ص) کی اس میراث کی اہمیت اور سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

قرآن کے معنوی وزن کی سنگینی اور نفاست،ادراک عقول سے بالاتر ہے، اس لئے کہ قرآن مخلوق کے لئے خالق کی تجلی ہے اور عظمت قرآن کو درک کرنے کے لئے یہ چند آیات کافی ہیں( يٰسٓةوَالْقُرآنِ الْحَکِيْمِ ) (۱) ( قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيْدِ ) (۲) ، إِنَّہ لَقُرْآنٌ کَرِيْمٌة فِی کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍةلاَ يَمَسُّہ إِلاَّالْمُطَہَّرُوْن ۳( لَوْ ا نَْٔزَلْنَا هٰذَا القُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَا ئََتَه خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ وَ تِلْکَ اْلا مَْٔثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ ( يَتَفَکَّرُوْنَ ) (۴)

اور عترت وقرآن کو ایک ہی وصف سے توصیف کرنا اس بات کا کهلا ثبوت ہے کہ کلام رسول الله (ص) کے مطابق عترت، قرآن کی ہم پلہ وشریک وحی ہے۔

پیغمبر خاتم (ص)کے کلام میں، جو میزان حقیقت ہے، عترت کا ہمسرِ قرآن ہونا ممکن نہیں مگر یہ کہ عترت( تِبْيَاناً لِِّکُلِّ شَیْءٍ ) (۵) میں شریک علم اور( لاَ يَا تِْٔيْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلاَ مِنْ خَلْفِه ) (۶) میں شریک عصمت قرآن ہو۔

۲۔جملہ ((فإنهما لن یتفرقا )) قرآن وعترت کے لازم وملزوم اور ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی ان دونوں میں جدائی ہو ہی نہیں سکتی، اس لئے کہ قرآن ایسی کتاب ہے جو تمام بنی نوع انسان کی مختلف ظرفیتوں اور قابلیتوں کے حساب سے نازل ہوئی ہے جس میں عوام کے لئے عبارات، علماء کے لئے اشارات، اولیاء کے لئے لطیف نکات اور انبیاء کے لئے حقائق بیان ہوئے ہیں اور بنی نوع انسان کے پست ترین افراد، جن کا کام فقط مادی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے، سے لے کر بلند مرتبہ افراد، جن کے روحی اضطراب کو ذکر خد ا کے بغیر اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور جو ہمیشہ اسمائے حسنی،امثال علیا اور تحمل اسم اعظم کی تلاش میں ہیں، کو اس کی ہدایت سے بهرہ مند ہونا ہے۔

اور یہ کتا ب سورج کی مانند ہے کہ ٹهنڈک محسوس کرنے والا اس کی حرارت سے خود کو گرم کرتا ہے، کاشتکار اس کے ذریعے اپنی زراعت کی پرورش چاہتا ہے، ماہر طبیعیات اس کی شعاعوں کا تجزیہ اور معادن ونباتات کی پرورش میں اس کے آثار کی جستجو کرتاہے اور عالم ربانی دنیاومافیها میں سورج کی تاثیر، طلوع وغروب اور قرب وبعد میں موجود سنن وقوانین کے ذریعے اپنے گمشدہ کوپاتاہے،جو سورج کا خالق ومدبر ہے۔

ایسی کتاب کے لئے، جو تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے اور دنیا وبرزخ وآخرت میں انسانیت کی تمام ضرورتوں کوپوراکرتی ہے، ایسے معلم کی ضرورت ہے جو ان تمام ضرورتوں کا علم رکھتا

____________________

۱ سورہ یس ، آیت ۱،۲ ۔”یس قرآن حکیم کی قسم“۔

۲ سورہ ق، آیت ۱۔”ق قرآن مجید کی قسم“۔

۳ سورہ واقعہ، آیت ۷۷،۷۸،۷۹ ۔”یہ بڑا محترم قرآن ہے۔ جسے ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا گیا ہے۔ اسے پاک پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چهو بھی نہیں سکتا ہے“۔

۴ سورہ حشر ، آیت ۲۱ ۔”هم اگر اس قرآن کو کسی پهاڑ پر نازل کردیتے تو تم دیکھتے کہ پهاڑ خوف خدا سے لرزاں اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے اور ہم ان مثالوں کو انسانوں کے لئے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ شاید وہکچھ غور وفکر سکیں“۔

۵ سورہ نحل، آیت ۸۹ ۔”جس میں ہر شئے کی وضاحت موجود ہے“۔

۶ سورہ فصلت، آیت ۴۲ ۔”قرآن کے نہ سامنے سے اور نہ پیچہے سے جھوٹ و باطل کو راستہ نہیں ہے“۔

هو، کیونکہ طبیب کے بغیر طب، معلم کے بغیر علم اور مفسر کے بغیر زندگی ومعاد کو منظم کرنے والا الٰهی قانون ناقص ہیں اور نہ فقط یہ بات( اَلْيَوْمَ ا کَْٔمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ ) (۱) کے ساته سازگار نہیں بلکہ قرآن کے نزول سے نقضِ غرض لازم آتی ہے اور( وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَاناً لِّکُلِّ شَیْءٍ ) (۲) کے ساته قابل جمع نہیں ہے۔ جب کہ حکیم وکامل علی الاطلاق سے قبیح ہے کہ دین کو ناقص بیان کرے اورمحال ہے کہ نقص غرض کرے،اسی لئے فرمایا((لن یتفرقا ))

۳۔ایک روایت کے مطابق فرمایا((یا ا ئها الناس إنی تارک فیکم ا مٔرین لن تضلوا إن اتبعتموهما ))

اور جیسا کہ سابقہ مباحث میں اشارہ کیا جاچکا ہے کہ خلقت کے اعتبار سے انسان، جو موجودات جهان کا نچوڑ اور دینوی، برزخی، اخروی، ملکی وملکوتی موجود ہونے کی وجہ سے عالم خلق وامر سے وابستہ ہے اور ایسی مخلوق ہے جو بقا کے لئے ہے نہ کہ فنا کے لئے، ایسے انسان کی ہدایت، سعادت ابدی اوراس کی گمراہی شقاوت ابدی کا باعث ہو سکتی ہے اور یہ تعلیم وتربیت، وحی الٰهی کی ہدایت کے بغیر نا ممکن ہے،جو ظلمات کے مقابلے میں نور مقدس ہے( قَدْ جَائَکُمْ مِنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِيْنٌ ) (۳) اور قانون تناسب وسنخیت کے مطابق، معلمِ قرآن کا بھی خطا سے معصوم ہونا ضروری ہے، کیونکہ انسان، با عصمت ہدایت اور معصوم هادی کے ساته تمسک کے ذریعے ہی فکری، اخلاقی وعملی گمراہیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے، لہٰذا آپ (ص) نے فرمایا ((لن تضلوا إن اتبعتموہما))۔

۴ ۔اور آپ (ص) کے اس جملے ((ولا تعلموهما فإنهما ا عٔلم منکم ))کے بارے میں ایک انتهائی متعصب سنی عالم کا یہ قول ہی کافی ہے کہ ((وتمیزوا بذلک عن بقیة العلماء لا نٔ اللّٰه ا ذٔهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا )) یهاں تک کہ کہتا ہے ((ثم ا حٔق من یتمسک به منهم إمامهم و عالمهم علیّ بن ا بٔی طالب کرّم اللّٰه وجهه لما قدمناه من مزید علمه ودقائق مستنبطاته ومن ثم قال ا بٔوبکر: علیّ عترة رسول اللّٰه ا یٔ الذین حث علی التمسک بهم، فخصه لما قلنا، وکذلک خصه بما مر یوم غدیر خم ))(۴)

اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اس تصدیق کے باوجود کہ آیت تطهیر کی وجہ سے علی (ع) باقی تمام علماء سے افضل ہیں، کیونکہ اس آیت کے مطابق رجس سے بطورمطلق پاک ہیں،

اور اس اقرار کے باوجود کہ پیغمبر اکرم (ص) علی(ع) کو باقی تمام امت سے اعلم شمار فرماتے تھے اور خدا بھی فرماتا ہے( قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لاَ يَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا يَتَذَکَّرُ ا ؤُْلُو اْلا لَْٔبَابِ ) (۵) اور( ا فََٔمَن يَّهْدِیْ إِلَی الْحَقِّ ا حََٔقُّ ا نَْٔ يُّتَّبَعَ ا مََّٔنْ لاَّ يَهِدِّیْ إِلاَّ ا نَْٔ يُّهْدٰی فَمَا لَکُمْ کَيْفَ تَحْکُمُوْنَ ) (۶) اور اس حدیث ((إنی تارک فیکم ا مٔرین لن تضلوا إن اتبعتموہما وہما کتاب اللّٰہ و ا هٔل بیتی عترتی)) کے صحیح ہونے کے اعتراف

کے ساته، ضلالت وگمراہی سے نجات پانے کے لئے پوری امت کو علی (ع) کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور اس طرح علی (ع)کی متبوعیت وعموم امت کی تابعیت کے بارے میں بغیر کسی استثناء کے حجت قائم ہے( قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ) (۷)

۵ ۔قانون کو بیان کرنے کے بعد مصداق کو معین کرنے کی غرض سے حضرت علی (ع) کا هاته پکڑ کر آپ کا تعارف کروایا کہ یہ وہی ثقل ہے جو قرآن سے ہر گز جدا نہ ہوگا اور اس کی عصمت، ہدایت امت کی ضامن ہے اور جس طرح پیغمبر (ص) تمام مومنین کے مولاہیں اسی طرح

____________________

۱ سورہ مائدہ ، آیت ۳۔”آج ہم نے تمهارے دین کو مکمل کردیا“۔

۲ سورہ نحل، آیت ۸۹ ۔” ہم نے تم پر ایسی کتاب کو نازل کیا جو ہر چیز کو بیان کرنے والی ہے“۔

۳ سورہ مائدہ، آیت ۱۵ ۔”بتحقیق الله کی طرف سے تمهارے پاس نورآیا اور کهلی ہوئی کتاب آئی“۔

۴ صواعق محرقہ ص ۱۵۱ (اہل بیت اطهار (ع) کتاب خداو سنت رسول کے ذریعہ دوسرے علماء سے جدا ہیں کیونکہ الله تعالیٰ نے ان سے ہر رجس کو دور رکھا اور ان کو ایسا پاک پاکیزہ رکھا جو پاکیزگی کا حق ہے)یهاں تک کہ فرماتا ہے کہ ان میں تمسک و اتباع کے لئے سزاوار ترین شخص ان کے امام علی بن ابی طالب ہیں،کیونکہ ان کا علم دوسروں سے زیادہ ہے اور استنباط احکام میں دقیق ہیں اسی وجہ سے ابو بکر نے کها علی عترت رسول ہیں وہ عترت کہ جس سے تمسک کے لئے خدا نے حکم دیا ہے ، تو ان کو مخصوص کیا ان باتوں سے جو ہم نے بیان کیں، اور اسی طرح ان امور سے مخصوص کیا جو کہ غدیر خم کے دن میں ذکر کیا جاچکا ہے۔

۵ سورہ زمر ، آیت ۹۔”کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے ہیں ،اس بات سے نصیحت صرف صاحبان عقل حاصل کرتے ہیں“۔

۶ سورہ یونس، آیت ۳۵ ۔”اور جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ واقعاً قابل ابتاع ہے یا جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے تو آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے اور تم کیسے فیصلے کر رہے ہو“۔

۷ سورہ انعام، آیت ۱۴۹ ۔”کہہ دیجئے کہ سب سے بڑی حجت خدا ہی کی ہے“۔

علی (ع) کا مولاہونا بھی ثابت ہے( إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَيُو تُْٔوْنَ الزَّکوٰةَ وَهُمْ رَاکِعُوْنَ ) (۱)

اگر چہ خلافت، امامت عامہ اور امامت خاصہ کا مسئلہ عقل،کتاب اور سنت کے حکم سے روشن ہو چکا ہے اور امام کے لئے ضروری اوصاف، ائمہ معصومین علیهم السلام کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائے جاتے، لیکن اتمام حجت کے پیش نظر، حدیث ثقلین کے علاوہ، حضرت سید الوصیيّن امیر المو مٔنین (ع) کی شان میں چند اور احادیث کو پیش کیا جارہا ہے جن کا صحیح ہونا محدثین کے نزدیک ثابت ومسلم ہے۔

پهلی حدیث

عن ابی ذر رضی اللّٰه عنه قال:قال رسول اللّٰه (ص):((من اطاعنی فقد اطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اطاع علیا فقد اطاعنی ومن عصی علیا فقد عصانی ))(۲)

اس حدیث میں، جس کے صحیح ہونے کی اکابر اہل سنت تصدیق کرتے ہیںہے، بحکم فرمان رسول (ص)، جن کی عصمت گفتارکا تذکرہ خداوند متعال نے قرآن میں کیا ہے اور اس بات پر عقلی دلیل بھی قائم ہوچکی ہے، علی (ع) کی اطاعت وعصیان دراصل اطاعت وعصیان پیغمبر (ص)ہے اور اطاعت وعصیان پیغمبر (ص) دراصل خدا کی اطاعت وعصیان قرار پاتی ہے۔

اس توجہ کے ساته کہ اطاعت و عصیان کا تعلق امر ونهی سے ہے اور امر ونهی کی وجہ ارادہ وکراہت ہے،لہٰذا علی (ع) کی اطاعت وعصیان کا خدا کی اطاعت وعصیان قرار پانا اسی وقت ممکن ہے جب علی (ع) کا ارادہ و کراہت، خدا کے ارادے وکراہت کا مظهرہو۔

اور جس کا ارادہ وکراہت، خدا کے ارادے وکراہت کا مظهر ہو اس کے لئے مقام عصمت کا ہونا ضروری ہے، تاکہ اس کی رضا وغضب، باری تعالی کی رضا وغضب ہو اور کلمہ ((مَنْ))کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ جو بھی خدا وپیغمبر (ص) کی اطاعت کے دائرے میں ہے علی (ع) کے فرمان کے آگے سر تسلیم خم کردے، اور اگر ایسا نہ کرے تو اس نے خدا و رسول کی نافرمانی کی ہے:( وَمَنْ يَعْص اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِینًا ) (۳) ( وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا ا بََٔدًا ) (۴)

اور جس نے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کی اس نے خدا اور اس کے ر سول کی اطاعت کی ہے:( وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْا نَْٔهَارُ ) (۵) ( وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَاز فَوْزًا عَظِیمًا ) (۶) ( وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَا ؤُْلَئِکَ مَعَ الَّذِینَ ا نَْٔعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ ) (۷)

____________________

۱ سورہ مائدہ ، آیت ۵۵ ۔”بے شک فقط تمهاراولی خدا ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میںزکوة اداء کرتے ہیں“۔

۲ ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے الله کی اطاعت کی اور جس نے میرا عصیان کیا اس نے خدا کا گناہ کیا اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی ہے ۔مستدرک صحیحین ج ۳ کتاب معرفة صحابہ، ص ۱۲۱ ، بحار الانوارج ۳۸ص ۱۲۹ ۔

۳ سورہ احزاب، آیت ۳۶ ، ترجمہ: جو کوئی بھی خدا کی نافرمانی اور رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ آشکار گمراہی میں ہے۔

۴ سورہ جن، آیت ۲۳ ، ترجمہ: جو کوئی خدا اور رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے جهنم کی آگ ہمیشہ کے لئے ہے۔

۵ سورہ نساء، آیت ۱۳ ، ترجمہ: جس نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا جس کے نیچے نهریں جاری ہیں۔

۶ سورہ احزاب، آیت ۷۱ ، ترجمہ: جس نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ عظیم کامیابی پاگیا۔

۷ سورہ نساء، آیت ۶۹ ، ترجمہ: جس نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ان کے ساته ہے جس پر خدا نے نعمت نازل کی ہے۔ ۔

دوسری حدیث

((إن رسول اللّٰه (ص) خرج إلی تبوک واستخلف علیا فقال ا تٔخلفنی فی الصبیان والنساء، قال:ا لٔاترضی ا نٔ تکون منی بمنزلة هارون من موسی إلا ا نٔه لیس نبی بعدی ))(۱)

یہ روایت، اہل سنت کی معتبر کتب صحاح اور مسانید میں ذکر ہوئی ہے۔ اکابراہل سنت نے اس حدیث کے صحیح ہونے پر اتفاق کو بھی نقل کیا ہے۔ ان کی گفتار کا نمونہ یہ ہے ((هذا حدیث متفق علی صحته رواه الائمة الحفاظ، کا بٔی عبد اللّٰه البخاری فی صحیحه، ومسلم ابن الحجاج فی صحیحه، وا بٔی داود فی سننه، وا بٔی عیسی الترمذی فی جامعه، و ا بٔی عبد الرحمان النسائی فی سننه، وابن ماجة القزوینی فی سننه،واتفق الجمیع علی صحته حتی صار ذلک اجماعا منهم، قال الحاکم النیسابوری هذا حدیث دخل فی حد التواتر))(۲)

اس روایت میں منزلت کے عمومی بیان کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت موسی (ع) کی نسبت جناب هارون (ع) کو جو مقام حاصل تھا پیغمبر (ص) کی نسبت حضرت علی (ع) کے لئے بھی وہ مقام ثابت ہے اور استثناء مقام نبوت اس عموم کی تاکید ہے۔

قرآن مجید میں حضرت هارون (ع) کی نسبت، حضرت موسیٰ (ع) سے اس طرح بیان فرمائی گئی ہے( وَاجْعَلْ لِیْ وَزِيْرًا مِّنْ ا هَْٔلِيْةهَارُوْنَ ا خَِٔيْةاشْدُدْ بِه ا زَْٔرِيْةوَا شَْٔرِکْهُ فِیْ ا مَْٔرِیْ ) ،(۳) ( وَقَالَ مُوْسٰی لِا خَِٔيْه هَارُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ ا صَْٔلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ ) (۴)

اور یہ مقام ومنزلت پانچ امور کا خلاصہ ہے:

۱۔وزارت :

وزیر وہ ہے جو بادشاہ کی ذمہ داریوں کا بوجه اپنے کاندہوں پر لیتا ہے اور ان امور کو انجام دیتا ہے، اور حضرت علی(ع) کے لئے یہ مقام نہ فقط اس حدیث منزلت، بلکہ اہل سنت کی دیگر معتبر کتب حدیث وتفاسیر میں بھی ذکر ہوا ہے(۵)

____________________

۱ صحیح بخاری باب غزوہ تبوک ،ج ۵، ص ۱۲۹ ، حدیث نمبر ۲(رسول خدا جنگ تبوک تشریف لے گئے اور علی کوا پنا خلیفہ بنایا علی نے حضرت سے فرمایا:آیا آپ ہم کو عوتوں اور بچوں میں چهوڑ کے جارہے ہیں حضرت نے جواب دیا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے نزدیک ویسے ہی ہو جیسے هارون موسیٰ کے لئے تھے فرق فقط اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔مذکورہ حدیث ، حدیث منزلت کے نام سے مختصر سے فرق کے ساته اکثر سنی اور شیعہ کتابوں میں موجود ہے۔صحیح بخاری ج ۴، ص ۲۰۸ ،، صحیح مسلم ج ۷، ص ۱۲۰،۱۲۱ ، الجامع الصحیح ترمذی، ج ۵، ص ۳۰۲ ، سنن ابن ۵۰ ، اور اسی کتاب میں دوسرے مقامات پر،المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ، ماجہ ، ج ۱، ص ۴۵ ، خصائص نسائی، ص ۴۸ ۳۳۸ ، ج ۶، ص ۳۶۹ ، اور اہل سنت کے دیگر منابع۔ ، ۱۷۳ ، ج ۳، ص ۳۲ ، ۱۰۸ ، مسند احمد، ج ۱، ص ۱۷۰ المحاسن للبرقی، ج ۱ ،ص ۱۵۹ ، کافی ،ج ۸ ،ص ۱۰۷ ، دعائم الاسلام ،ج ۱ ،ص ۱۶ ، علل الشریع، ج ۱، ص ۶۶ ، عیون الاخبار الرضا، ج ۲ ،ص ۱۲۲ ، باب ۳۵ دوسری شیعہ کتب۔

۲ کفایة الطالب ص ۲۸۳ (یہ وہ حدیث ہے جس کے صحت پر علماء اہل سنت کا اتفاق ہے اور اس حدیث کو نقل کیا ہے جیسے بخاری مسلم ابن دادو ،ٔ ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ، اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے، یهاں تک اس پر اجماع ہے، یهاں تک نیشاپوری نے کها کہ یہ حدیث تو اتر کی حد تک نقل ہوئی ہے۔ بعض بزرگ علماء اہل سنت اس حدیث کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ۱۰۹۸ میں نقل کرتے ہیں کہ اے علی ! تمهارے نسبت میرے نزدیک ، الف:ابن عبد البر استیعاب قسم سوم ص ۱۰۹۷ ویسے ہی ہے جو هارون کو موسیٰ سے تھی۔

ب:جزری اسنی المطالب ص ۵۳ میں لکهتے ہیں اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے جس کو رسول سے صحابہ کے ایک گروہ نے نقل کیا ہے ان میں عمر خود بھی، ابن عباس عبد الله بن جعفر ، معاذ معاویہ، جابر بن عبد الله ،وجابر بن سمرة ، ابو سعید، وبراء بن عازب،، وزید بن ارقم ، وزیدبن ابی اوفی، ونبیط بن شرایط ، وحبشی بن جنادہ، وماہر بن الحویرث، وانس بن مالک ،وابی الطفیل، وام سلمہ، واسماء بنت عمیس ، وفاطمہ بنت حمزہ۔

ج:شرح السنة بغوی ج ۱۴ ص ۱۱۳ (هذا حدیث متفق علی صحة)اس حدیث کے صحت پر اتفاق ہے۔

د:شواہد التنزیل حاکم حسکانی ج ۱ ص ۱۹۵ ۔”هذا هو حدیث المنزلة الذی کان شیخنا ابو حازم الحافظ یقول خرجته بخمسة الاف اسناد ۔“(یہ وہ حدیث منزلت ہے جس کے بارے میں میرے استاد فرماتے تھے کہ میں پانچ ہزار سند کے ساته استخراج کیا ہے)

۳ سورہ طہ ، آیت ۲۹،۳۰،۳۱،۳۲ ۔”اور میرے اہل سے میرا وزیر قرار دیدے۔هارون کو جومیرابهائی بھی ہے۔اس سے میری پشت کو مضبوط کر دے۔اور میرے کام میں شریک بنادے“۔

۴ سورہ اعراف، آیت ۱۴۲ ۔”اور انهوں نے اپنے بهائی هارون سے کها کہ تم قوم میں میری نیابت کرو اور اصلاح کرتے رہو اور خبردار مفسدوں کے راستہ کا اتباع نہ کرنا“۔

۵ تفسیر کبیر فخر رازی ج ۱۲ ص ۳۶( انما ولیکم الله ورسوله ) کے ذیل میں طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۲۳ ۔