اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20595
ڈاؤنلوڈ: 2873

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20595 / ڈاؤنلوڈ: 2873
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

۲۔اخوت وبرادری :

چونکہ حضرت موسی اور هارون علیہما السلام کے درمیان نسب کے اعتبار سے برادری تھی،

رسول خدا(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے ساته اس منزلت کو عقد اخوت کے ذریعے قائم فرمایا، کہ اس بارے میں شیعہ اور سنی روایات کثرت سے موجود ہیں، جن میں سے ایک روایت کا پیش کردینا کافی ہے :

عبدالله بن عمرکاکهنا ہے: مدینہ میں داخل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے اصحاب کے درمیان اخوت وبرادری کا رشتہ برقرار کیا۔ حضرت علی(ع) آبدیدہ ہو کر آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر گویا ہوئے: یارسول الله!آپ نے تمام اصحاب کو اخوت اور برادری کے رشتے میں پرو دیا لیکن مجھے کسی کا بهائی قرار نہیں دیا، آپ (ص) نے فرمایا((یا علی ا نٔت ا خٔی فی الدنیا و الآخرة ))(۱)

یہ اخوت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَة ) (۲) کے نزول کے وقت حضرت علی علیہ السلام کی منزلت ہر مومن سے اعلی و ارفع تھی۔ کیونکہ فریقین کے منابع و مآخذ کے مطابق آنحضرت نے اصحاب کے مقام و منزلت کے مطابق انہیں ایک دوسرے کا بهائی قرار دیا تھا۔

جیسے کہ ابوبکر و عمر، عثمان و عبدالرحمن اور ابوعبیدہ و سعد بن معاذ و غیرہ کو ایک دوسرے کا بهائی قرار دیا تھا۔(۳) جبکہ حضرت علی علیہ السلام کو اپنی اخوت کے لئے چنا تھا۔ لہٰذا حضرت علی علیہ السلام بنی آدم کے درمیان سب سے افضل و اشرف کیوں نہ ہوں؟ جبکہ رسول اکرم (ص) نے دنیا و آخرت میں آپ کے ساته اپنی اخوت کا صراحتاً اعلان بھی فرما دیا ہو۔ یہ اخوت اس امر کو واضح کردیتی ہے کہ حضرت علی اور کائنات کی افضل ترین مخلوق یعنی رسول اکرم (ص) کے درمیان روحی، علمی، عملی اور اخلاقی مشابہت و مساوات وجود میں آچکی تھی( وَلِکُلٍّ دَرَجَاتُ مِمَّا عَمِلُوْا ) (۴)

جبکہ دنیا و آخرت کے مراتب انسان کی سعی و کوشش اور کسب و اکتساب ہی کے مرہون منت ہیں:( وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَومِ الْقِيَامَةِ فَلاَ تَظْلَمُ نَفْسُ شَيْئاً ) (۵)

یقینا خداوند متعال علی بن ابی طالب علیہ السلام کے اس حق جهاد کو بہتر جانتا ہے جو آپ علیہ السلام نے خداوند متعال کے لئے انجام دیا۔ یهاں تک کہ آپ علیہ السلام اس دنیا میں اس هستی کے ہم مرتبہ ہوگئے کہ جس کے لئے خداوند تعالیٰ نے یہ فرمایا:( وَ عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبّکَ مَقَاماً مَحْمُوداً ) (۶)

اس مقام و منزلت کو بجز آنحضرت کے الفاظ کے علاوہ کسی اور الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا کہ جن میں آپ (ص)نے فرمایا: (انت اخی فی الدنیا والآخرة ) اور حضرت امیر علیہ السلام، عبودیت الٰهی کے بعد اسی اخوت کے مرتبے پر افتخار کیا کرتے تھے، جیسا کہ خود آپ نے فرمایا:”انا عبد الله واخی رسوله(۷) میں خدا کا بندہ اور رسول خدا (ص) کا بهائی ہوں۔

____________________

، ۱ (اے علی ! تم دنیا وآخرت میں میرے بهائی ہو)، مستدرک صحیحین ج ۳ ص ۱۴ ؛ سنن الترمذی، ج ۵، ص ۳۰۰ ؛ نمبر ۳۸۰۴ ؛ اسد الغابة، ج ۴، ص ۲۹ ؛ البدایة و النهایة، ج ۷، ص ۳۷۱ ؛ مجمع الزوائد، ج ۹، ص ۱۱۲ ؛ فتح الباری، ج ۷، ص ۲۱۱ تحفة الاحوذی، ج ۱۰ ، ص ۱۵۲ ؛ تاریخ بغداد، ج ۱۲ ، ص ۲۶۳ ؛ نظم درر السمطین، ص ۹۵ ؛ کنزل العمال، ج ۱۳ ، ص ۱۴۰ ؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲ ، ص ۱۸ و ۵۳ و ۶۱ ؛ ا نٔساب الاشراف، ص ۱۴۵ ؛ ینابیع المودة، ج ۲، ص ۳۹۲ ، اور اہل سنت کے دیگر مآخذ۔ مناقب آل ا بٔی طالب، ج ۲، ص ۱۵۸ ؛ اور اسی سے ملتی جلتی عبارت خصال ، ص ۴۲۹ ؛ باب ۱۰ ، ح ۶، مناقب ا مٔیر ۳۴۳ و ۳۵۷ ؛ شرح الاخبار، ج ۲، ص ۱۷۸ و ۴۷۷ و ۵۳۹ ؛ العمدة، ص ۱۶۷ ،۳۲۵ ،۳۱۹ ، المومنین علیہ السلام، ج ۱، ص ۳۰۶ و ۱۷۲ ، اور شیعوں کے دیگر منابع۔

۲ سورہ حجرات آیہ ۱۰ ترجمہ: مومنین آپس میں بهائی بهائی ہیں۔

۳ المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۴ ، و ۳۰۳ ، الدرّ المنثور، ج ۳، ص ۲۰۵ ، اور اہل سنت کے دیگر منابع، الا مٔالی شیخ طوسی، ص ۵۸۷ ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ۲، ص ۱۸۵ ؛ العمدة، ص ۱۶۶ ، اور شیعوں کے دیگر منابع۔

۴ سورہ انعام آیہ ۱۳۲ ، اور جس نے جیسا (بهلا یا برا) کیا ہے اسی کے موافق ہر ایک کے درجات ہیں۔

۵ سورہ انبیاء ۴۷ ، قیامت کے دن تو ہم (بندوں کے برے بهلے اعمال تولنے کے لیے) انصاف کی ترازوئیں کهڑی کردیں گے تو پھر کسی شخص پرکچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔

۶ سورہ اسراء، آیہ ۷۹ ۔ ترجمہ: خدا تم کو مقام محمود تک پهنچائے۔

۷ سنن ابن ماجہ ، ج ۱، ص ۴۴ ؛المستدرک علی الصحیحینج ۳، ص ۱۱۲ ؛ ذخائر العقبیٰ، ص ۶۰ ؛منصف ابن ابی شیبہ، ج ۷، ص ۴۹۷ و ۴۹۸ ؛ الآحاد والمثانی، ج ۱، ص ۱۴۸ ؛ کتاب السنة، ص ۵۸۴ ؛السنن الکبریٰ للنسائی، ج ۵، ص ۱۰۷ و ۱۲۶ ؛خصائص ، امیر المومنین علیہ السلام ، ص ۸۷ ؛ مسند ابی حنیفہ، ص ۲۱۱ ؛ شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحدید، ج ۲، ص ۲۸۷ وج ۱۳ ؛ ص ۲۰۰ و ۲۲۸ ؛نظم درر السمطین،ص ۹۵ و۔۔۔کنزالعمال، ج ۱۱ ، ص ۶۰۸ وج ۱۳ ، ص ۱۲۲ و ۱۲۹ ؛ الطبقات الکبریٰ، ج ۲، ص ۲۳ ، تاریخ مدینةدمشق، ج ۴۲ ، ص ۵۹ و ۶۰ و ۶۱ ؛ میزان الاعتدال، ج ۱، ص ۴۳۲ ؛ تہذیب التہذیب، ج ۷، ص ۲۹۶ ؛ تاریخ الطبری، ج ۲ ص ۵۶ ؛ البدایة والنهایة، ج ۳، ص ۳۶ ، وج ۷، ص ۳۷۱ ؛ ینابیع المودة ج ۱، ص ۱۹۳ ؛اور دوسرے حوالاجات اہل سنت عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج ۲، ص ۶۳ ، باب ۳۱ ، ح ۲۶۲ ؛ مناقب امیرالمومنین علیہ السلام ، ج ۱، ص ۳۰۵ وغیرہ؛ المسترشد، ، ص ۲۶۳ و۔۔۔و ۳۷۸ ؛ شرح الاخبار، ج ۱، ص ۱۹۲ ؛ الامالی للمفید، ص ۶؛ الامالی للطوسی، ص ۶۲۶ و ۷۲۶ ؛ مجمع البیان، ج ۵ ۲۲۰ ، الخصال، ص ۴۰۲ اور ، ص ۱۱۳ ؛ اعلام الوریٰ، ج ۱، ص ۲۹۸ ؛ کشف الغمة، ج ۱، ص ۸۹ و ج ۱، ص ۴۱۲ ، العمدة، ص ۶۴ دوسرے شیعہ حوالہ جات ۔

اور بروز شوری آپ(ع)نے فرمایا: کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے رسول خدا (ص) نے اپنا بهائی قرار دیا ہوں(۱)

پشت پناہی بعض دیگر مروی احادیث کے مطابق رسول اکرم(ص) نے اپنی پشت کو حضرت علی(ع) کے ذریعے مضبوط و مستحکم قرار دینے کی خدا سے درخواست کی۔ خداوند متعال نے بھی نیز حضور کی دعا کو مستجاب فرمایا(۲) بلا شبہ خداوند متعال کی جانب سے عائد کردہ فرائض میں سے ختم نبوت کا فریضہ سب سے زیادہ کٹهن اور پر خطر ہے، خاتم المرسلین کے علاوہ، جو خود بھی پشت و پناہِ انبیاء ہیں، کوئی اور اس خطیر و سنگین ذمہ داری کا بوجه نہیں اٹها سکتا۔

لہٰذا خداوند متعال کی جانب سے اس سنگین ذمہ داری کو صبر و تحمل سے سنبهالنے کے بعد آپ(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے ذریعے اپنی پشت و بازو اور طاقت و قوت کو مستحکم و مضبوط بنانے کی خداوند تعالی سے دعا کی۔ خدا نے حضرت موسی کی دعا کی مانند آپ کی دعا کو بھی مستجاب فرمایا۔( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِيْکَ ) (۳)

رسول خدا(ص) کی یہ دعا اور خدا کی جانب سے استجابت اس امر کا ثبوت ہے کہ امر رسالت کا پایہ تکمیل تک پهنچا صرف اس علی بن ابی طالب کے دست و زبان کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ جس کا هاته قدرت الٰهی کے ذریعے ہر شئے پر غالب اور جس کی زبان حکمت خداوندی کے سبب ناطق ہے۔

کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ رسول اکرم(ص)کے بعد اس هستی کے علاوہ کوئی اور اس امت کا حامی و مددگار قرار پائے کہ جو خود رسول اکرم(ص) کا بھی حامی و مددگار تھا۔

نیز کیا یہ ممکن ہے کہ رسول اکرم(ص) کے یارو مددگار کے علاوہ امت کسی اور کو اپنا یارو مددگار قرار دے سکے؟

اصلاح امر:

( وَقَالَ مُوسیٰ لِاَخِيْهِ هَارُوْنَ ا خْٔلُفْنِی فِی قَومِی وَاَصْلِحْ ) (۴)

جس طرح سے جناب هارون، حضرت موسیٰ کی قوم کے مصلح اور اصلاح امت کے سلسلے میں حضرت موسیٰ کے جانشین تھے، اسی طرح سے اس امت میں یہ مقام و منزلت حضرت امیر علیہ السلام سے مخصوص ہے۔ اور بغیر کسی قید و شرط کے ہر قسم کی اصلاح کرنا اسی شخص کی شان ہوسکتی ہے جو خود ”هر قسم“ کی صلاح و کمال سے متصف ہو۔ لہٰذا کسی بھی قسم کی صلاح کے کسی بھی مرتبے و درجے پر فائز شخص مذکورہ بالا منزلت پر فائز نہیں ہوسکتا۔ وہی صلاح جو قرآن مجید میں حضرت یحیی( وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنْ الصَّلِحِینَ ) (۵)

اور حضرت عیسی کے لئے( وَيُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَمِنْ الصَّلِحِینَ ) ٦ بیان کی گئی ہے۔

____________________

۱ لسان المیزان ، ج ۲، ص ۱۵۷ ؛ الاحتجاج ؛لطبرسی، ج ۱، ص ۱۹۷ اور دوسرے حوالاجات شیعہ۔

۲ الدر المنثور اس آیت کے ذیل میں ، ج ۴، ص ۲۹۵ ؛ التفسیر الکبیر، ج ۱۲ ، ص ۲۶ اس آیت کے ذیل میں( انما ولیکم ، الله ) ؛ شواہد التنزیل ، ج ۱، ص ۲۳۰ و ۴۸۲ ؛ المعیار والموازنة، ص ۷۱ و ۳۲۲ ؛ نظم دررر السمطین ، ص ۸۷ ؛ ینابیع المودة، ج ۱ ص ۲۵۸ ، ج ۲، ص ۱۵۳ اور اہل سنت کے دوسرے حوالہ جات ۔ ، ۲۴۸ و ۲۵۵ ، و ۲۵۶ ، شرح الاخبار، ج ۱ ، مناقب امیر المومنین (ع)، ج ۱، ص ۳۴۸ ؛ تفسیر فرات کوفی، ص ۹۵ ۱۹۲ ، کنز الفوائد، ص ۱۳۶ ، مجمع البیان، ج ۳، ص ۳۶۱ ، نیز شیعوں کے دیگر منابع۔

۳ سورہ قصص آیہ ۳۵ ، عنقریب تمهارے بهائی کی وجہ سے تمهارے بازو قوی کردیں گے۔

۴ سورہ اعراف آیت ۱۴۲ ۔ موسی نے اپنے بهائی هارون سے کها: میری قوم میں میرے جانشین بن کر رہو اور اصلاح کرتے رہو۔

۵ سورہ آل عمران ۳۹ ترجمہ: سردار اور پارسا اور نیکو کار بنی ہوگا۔

۶ سورہ آل عمران ۴۶ ،ترجمہ: اور جهولے میں اور بڑی عمر کا ہوکر (دونوں حالتوں میں یکساں) لوگوں سے باتیں کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا۔

شرکت در امر:

جس طرح سے حضرت هارون، حضرت موسی کے شریک تھے، مذکورہ حدیث کے مطابق سوائے نبوت کے یهی مقام و منزلت حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ہے۔

پیامبر اکرم(ص) کے مناصب میں سے ایک منصب اس کتاب کی تعلیم ہے جس میں تمام چیزیں بیان کردی گئی ہیں۔ نیز اس حکمت کی تعلیم بھی آپ(ص)هی کی ذمہ داری ہے جس کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے۔( يُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُتِیَ خَيْرًا کَثِیرًا ) (۱)

( وَا نَٔزَلَ اللهُ عَلَيْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْکَ عَظِیمًا ) (۲)

بلا شبہ خداوند متعال کی جانب سے حضور اکرم(ص) پر نازل کردہ کتاب و حکمت کے علوم صرف سابقہ انبیاء و مرسلین پر نازل کردہ علوم کے ہی حامل نہیں بلکہ مزید علوم کے بھی حامل ہیں اور یہ از دیاد و اضافہ آنحضرت(ص)کی نبوت عامہ رسالت خاتمیت نیز تمام انبیاء اور دیگر تمام مخلوقات الٰهی پر آپ کی برتری و بزرگی کے سبب ہے۔

اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں ان کے درمیان حکم صادر کرنا بھی آنحضرت کے فرائض رسالت میں سے ہے۔( لِيُبَيِّنَ لَهُمْ الَّذِی يَخْتَلِفُونَ فِیهِ ) (۳)

( إِنَّا ا نَٔزَلْنَا إِلَيْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا ا رََٔاکَ اللهُ ) (۴)

مزید برآں حضرت ختمی مرتبت کی شان رسالت میں مومنین پر خود ان سے زیادہ باختیار اور اولی ہونا بھی شامل ہے۔ بنا برایں حضرت علی علیہ السلام اس هستی کے شریک کار ہیں جس کے هاتہ نظام تکوین و تشریع کی ولایت ہے۔

خلافت:

جس طرح سے جانب هارون، حضرت موسی کے خلیفہ تھے، مذکورہ، حدیث کے ذریعے جناب امیر علیہ السلام کی خلافت بلا فصل بھی ثابت ہوجاتی ہے۔

خلیفہ اور جانشین اس شخص کا وجود تنزیلی اور قائم مقام ہے جس کے مقام پر وہ خلیفہ مسند نشیں ہوا ہے، اس کی غیبت اور عدم موجودگی کے ذریعے پیدا ہونے والے خلاء کو خلیفہ ہی پر کرتاتها۔

جناب خاتم الانبیاء کا جانشین کسی بھی نبی کے جانشین، بلکہ تمام کے تمام انبیاء کی بیک وقت جانشینی کے ساته بھی قابل مقایسہ و موازنہ نہیں۔ کیونکہ ختمی مرتبت کا جانشین اس هستی کا جانشین ہے کہ آدم سے عیسیٰ بن مریم (ع)تک تمام انبیاء اس کے لواء و علم تلے ہیں۔ عرش کے سائے سے کس طرح اس شئے کا موازنہ کیا جاسکتا ہے جو عرش کے سائے سے بھی ادنی ہو۔

جی هاں جناب هارون، حضرت موسی کے خلیفہ ہیں، اس کے جانشین ہیں کہ جس کی منزلت کے بارے میں خداوند متعال نے یوں فرمایا ہے:( وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْا ئَْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا ) (۵)

لیکن علی بن ابی طالب، خاتم النبیین کا خلیفہ ہے۔ اس کا جانشین ہے کہ جس کی منزلت کو خدا نے قرآن میں یوں بیان فرمایا ہے( ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ ا ؤَْ ا دَْٔنَی ) (۶)

ابان احمر سے روایت صحیحہ میں منقول ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے ابان!لوگ کس طرح سے امیر المومنین کی اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ آپ(ع)نے فرمایا: اگر میں چاہوں تو اپنے پیر کو دراز کرکے شام میں پسر ابوسفیان کے سینے پردے ماروں اور اسے اس کے تخت سے نیچے

____________________

۱ سورہ بقرہ آیہ ۲۶۹ ، ترجمہ: وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے جس کو خدائی کی طرف سے حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اسے خیر کثیر عطاء کیا گیا۔

۲ سورہ نساء آیہ ۱۱۳ ، ترجمہ: اور خدا نے تم پر اپنی کتاب اور حکمت نازل کی اور جو باتیں تم نہ جانتے تھے تمہیں سکهادیں اور تم پر تو خدا کا بڑا فضل ہے۔

۳ سورہ نحل آیت ۳۹ ، اس لئے ان کے سامنے صاف اور واضح کردے گا جب باتوں پر یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں۔

۴ سورہ نساء ۱۰۵ ، ہم نے تم پر برحق کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ تم کو جیسا کہ خدا نے دکهلایا ہے لوگوں کے درمیان حکم کرو۔

۵ سورہ مریم ۵۲ ، ہم نے ان کو وادی مقدس طور سے آواز دی اور اپنے مقام قرب کے لئے انتخاب کیا۔

۶ سورہ نجم آیہ ۸۔ ۹،پھر قریب آئے اور ان پر وحی حق نازل ہوئی۔ ایسا قریب ہوئے دو کمان سے اس سے بھی قریب فاصلہ رہ گیا۔

لاکهینچوں لیکن اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ آصف، وصی سلیمان، سلیمان کے دربار میں سلیمان کی پلک جهپکنے سے قبل تخت بلقیس کو لانے کی طاقت رکھتاتها!

کیا ہمارے پیغمبر افضل الانبیاء اور ان کا وصی افضل الاوصیاء نہیں ہیں؟

کیا خاتم النبیین کے وصی کوسلیمان کے وصی کی مانند بھی نہیں سمجهتے؟!

ہمارے اور ہمارے حق کے منکروں اور ہماری فضیلت کے جهٹلانے والوں کے درمیان اب خدا ہی فیصلہ کرے“ ۱۔

بنا برایں رسول اکرم(ص) کی وزارت، آپ کی پشت کی مضبوطی، آپ کے امر میں شرکت، آپ سے اخوت و برادری، امر امت کی اصلاح اور آپ کی خلافت هرگز اس شخص سے قابل مقایسہ ہوہی نہیں سکتی کہ جس نے رسول اکرم(ص) کے علاوہ کسی اور سے ان فضیلتوں کو پایا ہو۔

جو شخص بھی حدیث منزلت میں عمیق غور کرے نیز کتاب میں تدبر اور سنت میں تفقہ کا حامل ہو تو وہ یقینا اسی نتیجے پر پهنچے گا کہ آنحضرت(ص)کے هاتهوں آنحضرت(ص)کی زندگی ہی میں جانشین رسول قرار پانے والی هستی اور آنحضرت(ص)کے درمیان فصل و جدائی، خلافِ حکم عقل اور قرآن و سنت سے متضاد ہے۔

بکیر بن مسمار سے منقول روایت میں کہ جس کی صحتِ سند کے خود اہل سنت بھی متعرف ہیں، بکیر نے کهاہے: میں نے عامر بن سعد سے سنا کہ معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے پوچها:

ابوطالب کے بیٹے پر سب و شتم کرنے سے تجہے کیا چیز روکتی ہے؟

جواب دیا: جب بھی مجھے وہ تین چیزیں یاد آتی ہیں جو رسول اکرم(ص) نے علی کے بارے میں کہیں تو میں علی پر سب و شتم نہیں کرپاتا اور ان میں سے ہر شئے ایسی ہے جو میرے لئے ”حمر نعم“

(هر قیمتی شئے) سے بھی زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔

معاویہ نے پوچها: اے ابو اسحاق! وہ تین چیزیں کونسی ہیں؟

ابو اسحاق نے کها: میں علی پر سب و شتم نہیں کرسکتا کہ جب مجھے یاد آتا ہے کہ رسول خدا(ص) پر وحی نازل ہوئی جس کے بعد آپ نے علی ان کے دونوں فرزندوں اور فاطمہ کا هاته تھام کر اپنی عبا کے نیچے جمع کیا اور پھر فرمایا: بار الٰها! یهی ہیں میرے اہل بیت (علیهم السلام)۔

اور میں سب و شتم نہیں کرونگا کہ جب مجھے یہ یاد آتا ہے کہ آنحضرت نے علی کو غزوہ تبوک کے موقع پر (مدینے میں هی) باقی رکھا، جس پر علی نے عرض کی: کیا مجھے بچوں اور عورتوں کے ساته چهوڑ کر جارہے ہیں؟ آپ(ص)نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجه سے وہی نسبت ہے جو هارون کو موسی سے تھی فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

اور میں علی پر سب و شتم نہیں کرسکتا کہ جب مجھے روز خیبر یاد آتا ہے کہ جب رسول خدا(ص) نے فرمایا: یقینا اس پرچم کو میں اسے دونگا جو خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور خدا اسی کے هاتهوں فتح نصیب کرے گا لہٰذا ہم سب اسی سوچ میں تھے کہ دیکھیں رسول اکرم(ص) کی نگاہ انتخاب کس پر ہے؟ کہ آنحضرت نے فرمایا: علی کهاں ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: ان کی آنکهوں میں تکلیف ہے۔ فرمایا علی کو بلاو ،ٔ علی کو بلایا گیا، آنحضرت(ص)نے اپنے لعاب دہن کو علی کے چهرے پر ملا اور اپنا علم سونپا، خداوند متعال نے علی کے هاتهوں ہی مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔

راوی کہتا ہے: خدا کی قسم جب تک سعد بن ابی وقاص مدینے میں رہے معاویہ نے ان سے کچہ نہ کها(۲) حاکم نیشا پوری کا کهنا ہے: حدیث مو أخاة اور حدیث رایت (علم) پر بخاری و مسلم دونوں متفق ہیں(۳) بخاری نے سهل بن سعد سے نقل کیا ہے کہ: رسول اکرم(ص) نے بروز خیبر فرمایا: یقینا کل میں یہ علم اسے دونگا کہ جس کے هاتهوں خدا فتح و کامرانی نصیب کرے گا وہ خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے نیز خدا اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔

____________________

۱ الاختصاص، ص ۲۱۲ ۔

۲ المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۰۸ ؛نیز اس کے خلاصہ میں بھی ہے، صحیح مسلم، ج ۷، ص ۱۲۰ ، سنن ترمذی، ج ۵، ص ۳۰۱ ، وغیرہ

۳ المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۰۹

لہٰذا تمام لوگوں نے وہ رات اضطراب و پریشانی کے عالم میں بسر کی کہ دیکھیںرسول خدا یہ علم کس کو عطا کرتے ہیں۔

جب صبح ہوئی تو ہم لوگ علم پانے کی امید لے کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

آنحضرت نے فرمایا: علی بن ابی طالب کهاں ہیں؟ جواب دیا گیا: آنکهوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں فرمایا: علی کو لاو ۔ٔ

علی آئے اور آنحضرت نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکهوں پر ملا اور دعا فرمائی، درد اس طرح سے دور ہوا گویا علی کی آنکهوں میں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔

پھر انہیں علم دیا۔ علی نے عرض کی: یا رسول الله! ان لوگوں کے ساته اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک کہ یہ لوگ ہماری طرح نہ ہوجائیں (ایمان لے آئیں)۔ جس کے بعد آنحضرت نے فرمایا: نرمی اور ثبات کے ساته بنا کسی عجلت کے میدان جنگ میں داخل ہونا، یهاں تک کہ ان کے لشکر کے مد مقابل پهنچ جاو ،ٔ اس کے بعد انہیں اسلام کی دعوت دے کر ان پر واجب حق الله کی انہیں خبر دینا۔ پس خدا کی قسم! یقینا اگر خدا تمهارے هاتهوں ایک انسان کی بھی ہدایت کردے تو یہ تمهارے لئے حمر نعم اور ہر قیمتی شئے سے زیادہ بہتر ہے(۱) یہ بات مخفی نہیں کہ آنحضرت کا یہ فرمانا: علم اسے دونگا جو خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس راز سے پردہ اٹهاتا ہے کہ اصحاب رسول میں سوائے حضرت علی (ع)کے کوئی بھی شخص مذکورہ بالا صفت سے متصف نہ تھا،

ورنہ رسول اکرم(ص)کی جانب سے صرف علی سے اس صفت کو مختص کرنا بغیر ترجیح و سبب کے ہوگا اور بارگاہ قدسی رسول اکرم(ص) عقلی و شرعی باطل امور سے مبرّا و منزہ ہے۔

علم کا عطاء کرنا اور علی کے هاتهوں فتح، حدیث منزلت ہی کی تفسیر ہے اس کے معنی یهی ہیں کہ علی ہی وہ هستی ہے کہ جس کے ذریعے خداوند تعالی نے اپنے پیغمبر کی پشت کو مستحکم فرمایا اور اپنے نبی کے دست و بازو کی مدد عطا فرمائی۔

____________________

۱ صحیح البخاری، ج ۵، ص ۷۶ ، و ج ۴، ص ۱۲ ، و ص ۲۰ ، و ص ۲۰۷ ، نیل الاوطار، ج ۸، ص ۵۵ ، و ۵۹ ، فضائل الصحابہ، ص ۱۶ ، مسند احمد، ج ۱، ص ۹۹ ، وص ۱۸۵ ،و ج ۴، ص ۵۲ ، صحیح مسلم، ج ۵، ص ۱۹۵ ، و ج ۷، ص ۱۲۰ ، و ۱۲۲ ، سنن ابن ماجہ، ج ۱، ص ۴۵ ؛سنن الترمذی، ج ۵، ص ۳۰۲ ، السنن الکبری للبیہقی، ج ۶، ص ۳۶۲ ، و ج ۹، ص ۱۰۷ ، و ۵۲۲ ، مسند سعد بن ابی ، ۱۳۱ ؛ مجمع الزوائد، ج ۶، ص ۱۵۰ ، و ج ۹، ص ۱۲۳ ، وغیرہ، مصنف ابن ابی شیبہ، ج ۸، ص ۵۲۰ ؛ ۱۰۸ و۔۔۔ و ص ۱۴۵ ، وقاص، ص ۵۱ ، بغیة الباحث، ص ۲۱۸ ، کتاب السنة، ص ۵۹۴ ، وغیرہ، السنن الکبریٰ، ج ۵، ص ۴۶ ،۵۳۱ ، ۱۱۶ ، مسند ابی یعلی، ج ۱، ص ۲۹۱ ، و ج ۱۳ ، ص ۵۲۲ ، خصائص امیر المومنین (علیہ السلام) ص ۴۹ وغیرہ، و ۸۲ ، ۱۹۸ ، و ج ۷ ،۱۸۷ ، صحیح ابن حبان، ج ۱۵ ، ص ۳۷۷ ، و ۳۸۲ ، المعجم الاوسط، ج ۶، ص ۵۹ ، المعجم الکبیر، ج ۶، ص ۱۶۷ ۲۳۸ ، مسند الشامین، ج ۳، ص ۳۴۸ ؛ دلائل النبوة، ص ۱۰۹۲ ، الفائق فی ، ۷۷ ، و ج ۱۸ ، ص ۲۳۷ ،۳۶ ،۳۵ ، ۱۷ و ۳۱ ، ص ۱۳ غریب الحدیث، ج ۱، ص ۳۸۳ ، الاستیعاب، ج ۳، ص ۱۰۹۹ ، شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحدید، ج ۱۱ ، ص ۲۳۴ ، و ج ۱۳ ، ص ؛ ۱۲۳ و ۱۶۳ ، ۱۸۶ ؛ النظم الدرر السمطین، ص ۹۸ ، و ۱۰۷ ؛ کنز العمال، ج ۱۰ ، ص ۴۶۶ ، و ص ۴۶۸ ، و ج ۱۳ ، ص ۱۲۱ ، ۲۶۷ ، شرح السنة للبغوی، ج ۱۴ ، الطبقات الکبریٰ، ج ۲، ص ۱۱۱ ؛ التاریخ الکبیر، ج ۲، ص ۱۱۵ ؛ الثقات لابن حبان، ج ۲، ص ۱۲ ؛ ۸۱ و۔۔۔، و ۴۳۲ ، ص ۱۱۱ ، تاریخ بغداد، ج ۸، ص ۵، تاریخ مدینةدمشق، ج ۱۳ ، ص ۲۸۸ ، و ج ۴۱ ، ص ۲۱۹ ، و ج ۴۲ ، ص ۱۶ اُسد الغابة، ج ۴، ص ۲۶ ، و ۲۸ ، ذیل تاریخ بغداد، ج ۲، ص ۷۸ ، البدایة و النهایة، ج ۴، ص ۲۱۱ و۔۔۔، و ج ۷، ص ۲۵۱ و ۳۷۲ ، وغیرہ، السیرة النبویة، ج ۳، ص ۷۹۷ ، سبل الهدیٰ و الر شاد، ج ۲، ص ۳۲ ، و ج ۵، ص ۱۲۴ ، و ج ۱۰ ، ص ۶۲ ، ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۶۱ ، ج ۲، ص ۱۲۰ ، و ۲۳۱ ، و ۳۹۰ ؛اور اہل سنت کے دوسرے حوالہ جات ۔ ، رسائل المرتضیٰ، ج ۴، ص ۱۰۴ ، الدعوات، ص ۶۳ ، زبدة البیان، ص ۱۱ ، کشف الغطاء، ج ۱، ص ۱۱ ، الکافی، ج ۸ ، ص ۳۵۱ ، علل الشرائع، ج ۱، ص ۱۶۲ ، باب ۱۳۰ ، ح ۱، الخصال، ص ۲۱۱ ، و ص ۳۱۱ ، و ۵۵۵ ،الامالی للصدوق، ص ۶۰۴ ۸۹ و ۴۹۶ ، ۵۳۷ ، و ج ۲ ، المجلس السابع والسبعون، ح ۱۰ ، روضة الواعظین، ص ۱۲۷ ، مناقب امیرالمومنین (ع) ، ج ۱، ص ۳۴۵ ۱۹۵ و ، وغیرہ؛ المسترشد، ص ۲۹۹ ، و ۳۰۰ ، و ۳۴۱ ، و ۴۹۱ ، و ۵۹۰ ، شرح الاخبار، ج ۱، ص ۳۰۲ ، و ج ۲، ص ۱۷۸،۱۹۲ ، ۱۹۷ ؛ النکت الاعتقادیہ، ص ۴۲ ، الارشاد، ج ۱، ص ۶۴ ، الاختصاص، ص ۱۵۰ ،۱۵۷ ،۸۶ ،۶۸ ، ۲۰۹ ؛ الافصاح، ص ۳۴ ؛ ۳۸ ، و ۵۴۶ ، و ۵۹۹ ، الاحتجاج، ج ۱، ص ۴۰۶ ، و ج ۲، ص ۶۴ ۳۰۷ ، و ۰ ، الامالی للفمید، ص ۵۶ ، الامالی للطوسی، ص ۱۷۱ ، ۱۳۹ و۔۔۔، و ۱۸۸ ، و ۱۸۹ و ۲۱۹ ؛ الفضائل، ص ۱۵۲ ؛ التبیان، ج ۳ ، الخرائج الجرائح، ج ۱، ص ۱۵۹ ، العمدة، ص ۹۷ ، و ۱۳۱ ۲۰۱ ، نیز شیعوں کے بہت سے منابع۔ ، ص ۵۵۵ ، و ج ۹، ص ۳۲۹ ، مجمع البیان، ج ۳، ص ۳۵۸ ، و ج ۹

مزید برآں، آنحضرت(ص)کا یہ فرمانا کہ خداوند تعالی علی کے هاتهوں کا فتح عطافرمائے گا،

اس امر کا بیانگر ہے کہ فعل الٰهی علی کے هاتهوں اسی طرح جاری ہوتا ہے جس طرح پیامبر کے هاتهوں جاری ہوا جس کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا:( وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ رَمٰی ) (۱)

اور خود جناب امیر سے بھی یہ نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے در خیبر کو جسمانی طاقت سے نہیں اکهاڑا تھا(۲) ۔ جی هاں، جس کے هاتهوں خداوند متعال در خیبر کو فتح کروائے وہی یدالله ہے، کیا خدا کی افضل ترین مخلوق کے دست و بازو بجز یدالله کے کسی اور وسیلے سے مستحکم ہوسکتے ہیں:

( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَنْ کَانَ لَهُ قَلْبٌ ا ؤَْ ا لَْٔقَی السَّمْعَ وَهو شَهِیدٌ ) (۳)

تیسری حدیث

اس حدیث کو حاکم نیشابوری نے مستدرک(۴) اور ذهبی نے تلخیص(۵) میں بریدہ اسلمی سے نقل کیا ہے کہ اس نے کها:”میںایک غزوہ میں علی(ع) کے ساته یمن گیا اور آپ(ع) کا ایک عمل مجه پرناگوار گذرا۔ رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کرمیں نے علی(ع) پر نکتہ چینی شروع کی۔ میں نے دیکھا رسول خدا(ص) کے چهرے کا رنگ متغیر ہوگیااور آپ(ص) نے فرمایا: اے بریدہ! آیا میں مومنین کی نسبت ان پر خود ان سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟ میں نے کها : هاں، یا رسول الله(ص)، آپ نے فرمایا:

جس جس کا میں مولا ہوں علی(ع) اس کے مولاہیں۔“

اوریہ وہی غدیر خم والا بیان ہے جسے آنحضرت(ص) نے بریدہ سے بھی فرمایاہے،اور واقعہ غدیر خم کو اکابر محدثین، مو رٔخین اور مفسرین ٦ نے اپنے اپنے فن میں موضوع کی مناسبت سے ذکر کیا

____________________

۱ سورہ انفال آیت ۱۱۱ ،، ترجمہ: تم نے نہیں پهینکا جس وقت تم نے پهینکا بلکہ خدا نے پهینکا.

۲ دیکھئے: کتاب بہ یاد اول مظلوم روزگار، ص ۱۲۷ ۔

۳ سورہ ق آیہ ۳۷ ،ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ جو شخص (آگاہ) دل رکھتا ہے یا کان لگا کر حضور قلب سے سنتا ہے اس کے لئے اس میں کافی نصیحت ہے۔

۴ مستدرک صحیحین ج ۳ ص ۱۱۰ ،مناقب امیر المومنین علیہ السلام ج ۲ ص ۴۲۵ ، کشف الغمہ فی معرفة الائمة، ج ۱ص ۲۹۲ اور دوسری کتب۔

۵ ذیل المستدرک، ج ۳، ص ۱۰۹ ۔، ۳۷۲ ، ج ۵ ،۳۷۰ ،۳۶۸ ، ۳۳۱ و ج ۴، ص ۲۸۱ ،۱۵۲ ،۱۱۹ ، ۸۴ و ۱۱۸ ، ۶ فضائل الصحابہ، ۱۴ ، مسند احمد، ج ۱ ۴۵ ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۱۶ ، اور اس کی تلخیص میں بھی ، ۴۱۹ ؛ سنن ابن ماجہ، ج ۱ ،۳۷۰ ،۳۶۶ ،۳۴۷ ۵۳۳ ، اور اس کی تلخیص میں بھی موجود ہے؛ ، موجود ہے، ص ۱۳۴ ، اور اس کی تلخیص میں بھی موجود ہے، ص ۳۷۱ ۱۶۴ ؛ فتح الباری، ج ۷، ص ۶۱ ؛ المصنف لعبد الرزّاق، ج ۱۱ ، ص ، مجمع الزوائد، ج ۷، ص ۱۷ ، ج ۹، ص ۱۰۳ وغیرہ، ص ۱۲۰ ۲۱۰ وغیرہ، ۳۲۲ ، مصنف ابن ابی شیبة، ج ۷، ص ۴۹۵ وغیرہ، الاحاد والمثانی، ج ۴، ص ۳۲۵ ، ۲۲۵ ، معیار الموازنة ۷۲ ۱۳۰ وغیرہ؛ خصائص امیر المومنین علیہ ،۱۰۸ ، ۵۹۰ وغیرہ، السنن الکبری للنسائی، ج ۵، ص ۴۵ ، وغیرہ، کتاب السنة، ۵۵۲ ۳۷۶ ، المعجم ، ۹۴ وغیرہ؛ المسند ابی یعلی، ج ۱، ص ۴۲۹ ، ج ۱۱ ، ص ۳۰۷ ؛ صحیح ابن حبان، ج ۱۵ ،۶۴ ، السلام، ص ۵۰ ، ۷۰ ، ج ۸ ، ۳۶۹ ، ج ۶، ص ۲۱۸ ، ج ۷ ،۳۲۴ ،۲۷۵ ، ۷۱ ؛ المعجم الاوسط، ج ۱، ص ۱۱۲ ، ج ۲، ص ۲۴ ، الصغیر، ج ۱، ص ۶۵ ۱۷۱ وغیرہ، ص ۱۹۴ ،۱۷۰ ، ۱۷۳ وغیرہ، ج ۵، ص ۱۶۶ ، ۱۸۰ ، ج ۴، ص ۱۷ ، ص ۲۱۳ ؛ المعجم الکبیر، ج ۳، ص ۱۷۹ ۲۱۲ و ج ۱۲ ، ص ۷۸ ، ج ۱۹ ، ص ۲۹۱ ؛ مسند الشامین، ج ۳، ص ۲۲۳ ، شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحدید، ،۲۰۴ ، وغیرہ، ۲۰۳ ،۱۰۹ ، ج ۳، ص ۲۰۸ ، ج ۴، ص ۷۴ ، ج ۶، ص ۱۶۸ ، ج ۸، ص ۲۱ ؛ اور اس کتاب کے دیگر موارد؛ نظم الدر السمطین، ص ۹۳ ، ۶۴۳ ؛ کنز العمال، ج ۱، ص ۱۸۷ وغیرہ، ج ۵، ص ۲۹۰ ، ج ۱۱ ، ص ۳۳۲ ، ۱۱۲ ؛ موارد الظمان، ص ۵۴۳ ، الجامع الصغیر، ج ۲ ، ۲۵۱ وغیرہ، ۳۵۲ ، ۱۳۱ ، اور اس کتاب کے دیگر موارد، شواہد التنزیل، ج ۱، ص ۲۰۰ ، ۶۰۸ وغیرہ، ج ۱۳ ، ص ۱۰۵ ،۶۰۳ ، ۲۹۳ ، ج ۵، ص ۱۸۲ ؛ تاریخ بغداد، ج ۷، ص ۳۸۹ ، ۳۸۱ وغیرہ ۳۹۱ ؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۲، ص ۱۵ ، الدرّ المنثور، ج ۲، ص ۲۵۹ ،۳۲۱ ،۳۰۷ ،۲۷۴ ، ۲۳۳ ، ج ۳، ص ۹۲ ، ۳۶۹ ، ج ۲ ، ۲۸۴ ، ج ۱۲ ، ص ۳۴۰ ، ج ۱۴ ، ص ۲۳۹ ؛ اُسد الغابہ، ج ۱، ص ۳۶۷ ، ج ۸ ۲۸۳ ؛ ذیل تاریخ بغداد، ج ۳، ص ۱۰ ، اور اہل سنت کے بہت سی دیگر کتابیں۔ ،۲۷۶ ،۲۰۸ ،۲۰۵ ، ج ۴، ص ۲۸ ، ج ۵، ص ۶ ؛ ۱۳۰ ؛ الاقتصاد للشیخ الطوسی، ص ۲۱۶ ، الهدایة للشیخ الصدوق، ص ۱۴۹ ، ص ۱۵۰ ؛ رسائل المرتضیٰ، ج ۳، ص ۲۰ ۲۹۴ ، ج ۴، ص ۵۶۷ ، ج ۸، ص ۲۷ ؛ دعائم الاسلام، ج ۱، ص ، الرسائل العشر للشیخ الطوسی، ص ۱۳۳ ، الکافی، ج ۱، ص ۲۸۷، ۱۴۸ ، ح ۶۸۶ ، ج ۲، ص ۳۳۵ ، حدیث ۱۵۵۸ ، الصلاة فی مسجد غدیر خم؛علل الشرائع، ج ۱ ، ۱۹ ؛ من لایحضرہ الفقیہ، ج ۱ ،۱۶ ،۴۷۹ ،۳۱۱ ،۲۱۹ ،۲۱۱ ، ۱۶۴ ، ج ۲، ص ۵۸ ؛ الخصال، ص ۶۶ ،۶۴ ، ص ۱۴۳ ، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج ۱، ص ۵۲ ؛۳۳۷ ، ۶۷۰ ؛ کمال الدین و تمام النعمة، ص ۲۷۶ ،۴۲۸ ،۱۸۶ ،۱۸۵ ،۱۸۴ ،۱۴۹ ، ۵۷۸ ؛ الامالی للصدوق، ص ۴۹ ،۴۹۶ ۶۷ ؛ المجازات النبویة للشریف الرضی، ص ۲۱۷ ؛ خصائص الائمہ، ص ۴۲ ؛ تہذیب ،۶۶ ، التوحید، ص ۲۱۲ ؛ معانی الاخبار، ۶۵ ۵۳۶ ؛ مناقب امیر المومنین علیہ السلام، ، ۳۵۰ ؛ الایضاح، ص ۹۹ ،۱۰۳ ، الاحکام، ج ۳، ص ۲۶۳ ؛ الروضة الواعظین، ص ۹۴ ؛۶۳۲ ، ۳۶۲ ، ج ۲، ص ۳۶۵ ؛ اور اس کتاب کے دیگر مقامات، المسترشد، ص ۴۶۸ وغیرہ، ۶۲۰ ،۱۷۱ ،۱۳۷ ، ج ۱، ص ۱۱۸ ۲۶۰ ؛ اور اس کتاب کے ، دلائل الامامة، ص ۱۸ ؛ شرح الاخبار، ج ۱، ص ۹۹ وغیرہ، ۲۲۸ وغیرہ، ۲۴۰ وغیرہ، ج ۲، ص ۲۵۵ ۳۵۱ ؛ الاختصاص، ص ۷۹ ؛ امالی شیخ مفید، ، ۴۸۵ ؛ کتاب الغیبة، ص ۶۸ ؛ الارشاد، ج ۱، ص ۱۷۶ ، دیگر موارد، ج ۳، ص ۴۹۶ ، ۳۳۳ وغیرہ، ۳۴۳ ،۳۳۲ ،۲۷۲ ،۲۵۵ ،۲۵۴ ،۲۴۷ ،۲۲۷ ، ۲۲۳ ؛ کنز الفوائد، ص ۲۲۵ وغیرہ؛ الامالی للطوسی، ص ۹ ،۸۵ ۹۲ وغیرہ، ۲۷۱ ، اور اس ، ۲۰۷ ؛ العمدة، ۸۵ ، ۱۵۵ ؛ الخرائج و الجرائج، ج ۱ ،۹۶ ، ۵۵۵ وغیرہ؛ الاحتجاج، ج ۱، ص ۷۵ ،۵۴۶ ۳۲۰ ؛ تفسیر ،۳۰۷ ،۱۰۰ ،۹۸ ، ۳۳۲ وغیرہ، ج ۲ ،۳۲۹ ،۳۲۷ ،۳۸۱ ،۲۵۰ ، کتاب کے دیگر موارد، تفسیر العیاشی، ج ۱، ص ۴ ۴۹۵ وغیرہ، ،۴۹۰ ، ۳۴۵ وغیرہ، ۴۵۱ ،۱۳۰ ،۱۲۴ ،۱۱۰ ، ۲۰۱ ؛ تفسیر فرات الکوفی، ۵۶ ، ۳۰۱ ، ج ۲ ، القمّی، ج ۱، ص ۱۷۴ ۱۱۹ اور شیعوں کی بہت سی ،۵۹ ، ۳۸۳ ، ج ۸، ص ۱۲۵ ، ج ۱۰ ،۳۸۲ ، ۵۷۴ ؛ مجمع البیان، ج ۳، ص ۲۷۴ ، ۵۰۳ وغیرہ، ۵۱۶ دیگر کتابیں۔