اطاعت علی اطاعت خدا کی ضمانت
۲۷. عن ابی ذر رضی اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم من اطاعنی فقد اطاع اﷲ ومن عصانی فقد عصی اﷲ ومن اطاع عليا فقد اطاعني ومن عصي علياً فقد عصاني
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے (حضرت) علی کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی اور جس نے (حضرت) علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی بتا رہے ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ بات طے پا جائے اور اس میں کوئی ابہام نہ رہے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے چلا ہے اور علی کی اطاعت چونکہ رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی ضامن ہے لہذا علی کی اطاعت اطاعت الہٰی کا ذریعہ ہے۔
قرآن اور علی کرم اللہ وجھہ رضی اللہ عنہ
۲۸۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
علی مع القرآن والقرآن مع علي لن يتفر قاحتي ير دا علي الحوض
علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔
یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔
قرابت دارانا ن رسول ہاشمی
۲۹. صحیح مسلم شریف میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.
ولما نزلت هذه الاية ندع ابناء نا و ابناء کم دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عليا و فاطمة و حسناً و حسيناً فقال اللهم هؤلاء اهلي
جب یہ آیت (مباھلہ) کہ ’’ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلالیتے ہیں،، نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ
۱۔ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ ۲۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کردیا۔ ۲۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کردیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ
تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم
آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔
حدیث پاک میں فرمایا جا رہا ہے دعا علیا و فاطمۃ و حسنا و حسینا یعنی علیا (انفسنا) اور فاطمۃ (نساء نا) اور حسنا و حسینا (ابناء نا) ہوئے۔ یہ عقیدہ کسی شیعہ کا نہیں اہلنست و الجماعت کا ہے اور جو لوگ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ اہلسنت حب علی یا حب اہل بیت اطہار سے عاری ہیں وہ دراصل خود فریبی میں مبتلا ہیں، اہلسنت سواد اعظم بنتا ہی تب ہے جب ان نقوش قدسیہ سے محبت ان کے عقائد کا مرکز و محور بن جائے۔ سیدنا علی ہوں یا سیدہ کائنات اور حسنین کریمین یہ شجر نبوت کی شاخیں ہیں جن کے برگ و بار سے دراصل گلستان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایمان و عمل کی بہاریں جلوہ فگن ہیں ان سے صرف نظر کر کے یا ان سے بغض و حسد کی بیماری میں مبتلا کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کہلانے کا حقدار نہیں کجا کہ وہ ایمان اور تقویٰ کے دعوے کرتا پھرے۔
رسول اور علی ایک ہی درخت ہے
۳۰۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول الناس عن شجر شتي و انا و علي من شجرة واحدة
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔
ایک ہی درخت سے ہونے میں ایک تو نسبتی قربت کا اظہار ہو رہا ہے، دوسری قربت وہ نظریاتی کومٹ منٹ تھی جو اسلام کے دامن رحمت میں آنے اور براہ راست شہر علم کے علم حکمت اور دانائی کے چراغوں سے روشنی کشید کرنے کے بعد حاصل ہوئی۔
۳۱. عن علي رضي اﷲ عنه إبن أبي طالب ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم أخذ بيد حسن و حسين فقال من احبني و احب هذين و اباهما و امها کان معي في درجتي يوم القيامة
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔
فرشتوں کی نصرت
۳۲. عن ابي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بعث عليا مبعثا فلما قدم قال له رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اﷲ و رسوله و جبريل عنک رضوان
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا جب وہ واپس تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبریل امین آپ سے راضی ہیں۔
۳۳. خطب الحسن بن علي حين قتل علي فقال يا اهل الکوفه او يا اهل العراق لقد کان بين اظهرکم رجل قتل الليلة او اصيب اليوم ولم يسبقه الاولون بعلم ولو يدرکه الاخرون کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم اذا بعثه في سرية کان جبريل عن يمينه و ميکائيل عن يساره فلا يرجع حتي يفتح اﷲ عليه
حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی شہادت کے موقع پر خطاب فرمایا اے اہل کوفہ یا اہل عراق تحقیق تم میں ایک شخصیت تھی جو آج رات قتل کر دیئے گئے یا آج وفات پا جائیں گے۔ نہ کوئی پہلے علم میں ان سے سبقت لے سکا اور نہ بعد میں آنے والے ان کو پا سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کو کسی سریہ میں بھیجتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے دائیں اور حضرت میکائیل علیہ السلام ان کے بائیں طرف ہوتے، پس آپ ہمیشہ فتح مند ہوکر واپس لوٹتے۔
جلال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت گفتگو کا یارا
۳۴. عن ام سلمة رضي الله عنه قالت : کان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اذا غضب لم يجتري احدان يکلمه الا علي
حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔
علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کا پلٹنا
۳۵. عن اسماء بنت عميس رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يوحي اليه و راسه في حجر علي فلم يصل العصر حتي غربت الشمس فقل النبي صلي الله عليه وآله وسلم اصليت يا علي قال لا فقال اللهم انه کان في طاعتک و طاعة رسولک فاردد عليه الشمس قالت اسمائ رضي الله عنه فرايتها غربت ثم رايتها طلعت بعد ما غربت
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی گئی اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا نہ فرمائی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ کیا تو نے نماز ادا نہیں کی؟ عرض کیا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ بے شک علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا پس اس پر سورج کو لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اس کو غروب کے بعد طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔
علی رضی اللہ عنہ کی قوت فیصلہ دعائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثمر
۳۶. عن علي رضي الله عنه قال بعثني رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم الي اليمن فقلت يا رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بعثني و انا شاب اقضي بينهم ولا ادري ما القضاء فضرب صدري بيده ثم قال اللهم اهد قلبه ثبت لسانه فوالذي خلق الحبة ما شککت في قضاء بين اثنين
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ نے ان تینوں خلفاء کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہیں۔
جنت علی رضی اللہ عنہ کا منظر
۳۷. ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال ان الجنة لتشتاق الي ثلاثة علي و عمار و سلمان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہیں۔
جنت میں داخل ہونے والا ہراول دستہ
۳۸. عن ابي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي ان اول اربعة يرضون الجنة انا و انت والحسن والحسين و ذرا رينا خلف ظهورنا و ازواجنا خلف ذرا رينا و شيعتنا عن ايماننا و عن شمائلنا
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔
متبعین کے ہمراہ حوض کوثر پر خوشنما چہروں کے ساتھ حاضری
۳۹. عن ابي رافع رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي انت و شيعتک تردون علي الحوض رواء مروين مبيضة وجوهکم و ان عدوک يردون علي ظماء مقبحين
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ اور آپ کی حمایت کرنے والے میرے پاس حوض پر خوشنما چہرے اور سیرابی کی حالت میں آئیں گے ان کے چہرے سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن میرے پاس بھوک کی حالت میں بدنما صورت میں آئیں گے۔
۴۰. عن ابن عمر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم الحسن والحسين سيد اشباب اهل الجنة و ابوهما خير منها
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن و حسین جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں اور ان کے باپ ان دونوں سے بہتر ہیں۔
محبت علی میں افراط و تفریط کرنے والے گمراہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔
۴۱. محب يفرط لي لما ليس في و مبغض مفتر يحمله شناني علي ان يبهتني
ایک وہ محبت کرنے والا جو مجھے بڑھائے اور ایسی چیز منسوب کرے جو مجھ میں نہیں اور دوسرا وہ بغض رکھنے والا شخص جو میری شان کو کم کرے۔