ذبح عظیم

ذبح عظیم0%

ذبح عظیم مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

ذبح عظیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
زمرہ جات: مشاہدے: 11387
ڈاؤنلوڈ: 2626

تبصرے:

ذبح عظیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11387 / ڈاؤنلوڈ: 2626
سائز سائز سائز
ذبح عظیم

ذبح عظیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اطاعت علی اطاعت خدا کی ضمانت

۲۷. عن ابی ذر رضی اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم من اطاعنی فقد اطاع اﷲ ومن عصانی فقد عصی اﷲ ومن اطاع عليا فقد اطاعني ومن عصي علياً فقد عصاني

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے (حضرت) علی کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی اور جس نے (حضرت) علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

المستدرک للحاکم، ۳ : ۱۲۱

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی بتا رہے ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ بات طے پا جائے اور اس میں کوئی ابہام نہ رہے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے چلا ہے اور علی کی اطاعت چونکہ رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی ضامن ہے لہذا علی کی اطاعت اطاعت الہٰی کا ذریعہ ہے۔

قرآن اور علی کرم اللہ وجھہ رضی اللہ عنہ

۲۸۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

علی مع القرآن والقرآن مع علي لن يتفر قاحتي ير دا علي الحوض

علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔

(ايضاً، ۱۲۴)

یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔

قرابت دارانا ن رسول ہاشمی

۲۹. صحیح مسلم شریف میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.

ولما نزلت هذه الاية ندع ابناء نا و ابناء کم دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عليا و فاطمة و حسناً و حسيناً فقال اللهم هؤلاء اهلي

جب یہ آیت (مباھلہ) کہ ’’ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلالیتے ہیں،، نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔

(الصحيح لمسلم، ۲ : ۲۷۸)

جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ

۱۔ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ ۲۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کردیا۔ ۲۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کردیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ

تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم

آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔

(آل عمران ۳ : ۶۱)

حدیث پاک میں فرمایا جا رہا ہے دعا علیا و فاطمۃ و حسنا و حسینا یعنی علیا (انفسنا) اور فاطمۃ (نساء نا) اور حسنا و حسینا (ابناء نا) ہوئے۔ یہ عقیدہ کسی شیعہ کا نہیں اہلنست و الجماعت کا ہے اور جو لوگ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ اہلسنت حب علی یا حب اہل بیت اطہار سے عاری ہیں وہ دراصل خود فریبی میں مبتلا ہیں، اہلسنت سواد اعظم بنتا ہی تب ہے جب ان نقوش قدسیہ سے محبت ان کے عقائد کا مرکز و محور بن جائے۔ سیدنا علی ہوں یا سیدہ کائنات اور حسنین کریمین یہ شجر نبوت کی شاخیں ہیں جن کے برگ و بار سے دراصل گلستان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایمان و عمل کی بہاریں جلوہ فگن ہیں ان سے صرف نظر کر کے یا ان سے بغض و حسد کی بیماری میں مبتلا کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کہلانے کا حقدار نہیں کجا کہ وہ ایمان اور تقویٰ کے دعوے کرتا پھرے۔

رسول اور علی ایک ہی درخت ہے

۳۰۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول الناس عن شجر شتي و انا و علي من شجرة واحدة

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔

(معجم الاوسط للطبرانی، ۵ : ۸۹، ح : ۴۱۶۲)

ایک ہی درخت سے ہونے میں ایک تو نسبتی قربت کا اظہار ہو رہا ہے، دوسری قربت وہ نظریاتی کومٹ منٹ تھی جو اسلام کے دامن رحمت میں آنے اور براہ راست شہر علم کے علم حکمت اور دانائی کے چراغوں سے روشنی کشید کرنے کے بعد حاصل ہوئی۔

۳۱. عن علي رضي اﷲ عنه إبن أبي طالب ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم أخذ بيد حسن و حسين فقال من احبني و احب هذين و اباهما و امها کان معي في درجتي يوم القيامة

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔

( جامع الترمذي، ۵ : ۶۴۲، ح : ۳۷۳۳)

فرشتوں کی نصرت

۳۲. عن ابي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بعث عليا مبعثا فلما قدم قال له رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اﷲ و رسوله و جبريل عنک رضوان

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا جب وہ واپس تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبریل امین آپ سے راضی ہیں۔

(المعجم الکبير، ۱ : ۳۱۹)

۳۳. خطب الحسن بن علي حين قتل علي فقال يا اهل الکوفه او يا اهل العراق لقد کان بين اظهرکم رجل قتل الليلة او اصيب اليوم ولم يسبقه الاولون بعلم ولو يدرکه الاخرون کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم اذا بعثه في سرية کان جبريل عن يمينه و ميکائيل عن يساره فلا يرجع حتي يفتح اﷲ عليه

حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی شہادت کے موقع پر خطاب فرمایا اے اہل کوفہ یا اہل عراق تحقیق تم میں ایک شخصیت تھی جو آج رات قتل کر دیئے گئے یا آج وفات پا جائیں گے۔ نہ کوئی پہلے علم میں ان سے سبقت لے سکا اور نہ بعد میں آنے والے ان کو پا سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کو کسی سریہ میں بھیجتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے دائیں اور حضرت میکائیل علیہ السلام ان کے بائیں طرف ہوتے، پس آپ ہمیشہ فتح مند ہوکر واپس لوٹتے۔

(مصنف ابن ابي شيبه، ۱۲ : ۶۰)

جلال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت گفتگو کا یارا

۳۴. عن ام سلمة رضي الله عنه قالت : کان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اذا غضب لم يجتري احدان يکلمه الا علي

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔

(۲) المستدرک للحاکم، ۳ : ۱۳۰

علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کا پلٹنا

۳۵. عن اسماء بنت عميس رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يوحي اليه و راسه في حجر علي فلم يصل العصر حتي غربت الشمس فقل النبي صلي الله عليه وآله وسلم اصليت يا علي قال لا فقال اللهم انه کان في طاعتک و طاعة رسولک فاردد عليه الشمس قالت اسمائ رضي الله عنه فرايتها غربت ثم رايتها طلعت بعد ما غربت

حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی گئی اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا نہ فرمائی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ کیا تو نے نماز ادا نہیں کی؟ عرض کیا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ بے شک علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا پس اس پر سورج کو لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اس کو غروب کے بعد طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔

(مشکل الآتار، ۴ : ۳۸۸)

علی رضی اللہ عنہ کی قوت فیصلہ دعائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثمر

۳۶. عن علي رضي الله عنه قال بعثني رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم الي اليمن فقلت يا رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بعثني و انا شاب اقضي بينهم ولا ادري ما القضاء فضرب صدري بيده ثم قال اللهم اهد قلبه ثبت لسانه فوالذي خلق الحبة ما شککت في قضاء بين اثنين

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔

(المستدرک، ۳ : ۱۳۵)

یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ نے ان تینوں خلفاء کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہیں۔

جنت علی رضی اللہ عنہ کا منظر

۳۷. ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال ان الجنة لتشتاق الي ثلاثة علي و عمار و سلمان

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہیں۔

(جامع الترمذي، ۵ : ۶۶۷، ۷ : ۳۷۹۷)

جنت میں داخل ہونے والا ہراول دستہ

۳۸. عن ابي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي ان اول اربعة يرضون الجنة انا و انت والحسن والحسين و ذرا رينا خلف ظهورنا و ازواجنا خلف ذرا رينا و شيعتنا عن ايماننا و عن شمائلنا

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔

المعجم الکبير، ۳ : ۱۱۹، ح : ۹۵۰

متبعین کے ہمراہ حوض کوثر پر خوشنما چہروں کے ساتھ حاضری

۳۹. عن ابي رافع رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي انت و شيعتک تردون علي الحوض رواء مروين مبيضة وجوهکم و ان عدوک يردون علي ظماء مقبحين

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ اور آپ کی حمایت کرنے والے میرے پاس حوض پر خوشنما چہرے اور سیرابی کی حالت میں آئیں گے ان کے چہرے سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن میرے پاس بھوک کی حالت میں بدنما صورت میں آئیں گے۔

المعجم الکبير، ۱ : ۳۱۹

۴۰. عن ابن عمر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم الحسن والحسين سيد اشباب اهل الجنة و ابوهما خير منها

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن و حسین جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں اور ان کے باپ ان دونوں سے بہتر ہیں۔

ابن ماجه، ۱ : ۴۴، ح : ۱۱۸

المستدرک، ۳ : ۱۶۷

محبت علی میں افراط و تفریط کرنے والے گمراہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔

۴۱. محب يفرط لي لما ليس في و مبغض مفتر يحمله شناني علي ان يبهتني

۱. مسند احمد بن حنبل، ۱ : ۱۶۰

۲. المستدرک، ۳ : ۱۲۳

۳. مسند ابي لعلي، ۱ : ۴۰۷

۴. مجمع الزوائد، ۹ : ۱۳۳

ایک وہ محبت کرنے والا جو مجھے بڑھائے اور ایسی چیز منسوب کرے جو مجھ میں نہیں اور دوسرا وہ بغض رکھنے والا شخص جو میری شان کو کم کرے۔

فصل دوم :

مناقب فاطمة الزہرا رضی اللہ عنھا

ذبح عظیم کی تکمیل اور ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور عام کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے جس عالی مرتبت جوڑے کا انتخاب ہوا یہ جوڑا حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھما کا جوڑا تھا جن کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہوچکا تھا۔ قدرت نے ان دو منتخبہ شخصیات کے نور نظر سیدنا امام حسین کی قسمت میں ذبح عظیم کا منصب جلیلہ لکھ دیا تھا۔

حضرت فاطمہ الزہرا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی لاڈلی بیٹی ہیں، خاتون جنت انہی کو کہتے ہیں۔ ان کی فضائل کے حوالے سے چند ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیں۔

رسول کی محبوب ترین ہستی

۱. عن جميع بن عمير التيمي قال دخلت مع عمتي علي عائشة فسئلت اي الناس کان احب الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قالت فاطمة : فقيل من الرجال؟ قالت زوجها ان کان ما علمت صواماً قواماً

حضرت جمیع بن عمیر التیمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ مل کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے پوچھا لوگوں میں سے کون سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب تھا؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا حضرت فاطمہ، دوبارہ پوچھا گیا کہ مردوں میں سے کون سب سے بڑھ کر محبوب تھے؟ فرمایا فاطمہ کا شوہر (علی رضی اللہ عنہ) اور پھر فرمایا کہ میں خوب جانتی ہوں کہ وہ بڑے روز ہ رکھنے والے اور تہجد پڑھنے والے تھے۔

(جامع الترمذي، ۲ : ۲۲۷)

(المستدرک، ۳ : ۱۵۵)

اصحاب رسول اور صحابیات رسول رضی اللہ عنھم اپنے قول و عمل میں بھی سچے اور کھرے تھے، مصلحت، منافقت اور ریاکاری کا ان پر شائبہ تک نہیں پڑا تھا۔ اندر بھی روشن اور باطن بھی روشن، ذہنی اور جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے پیکر، اپنی ذاتی رائے کی بنیاد بھی عدل کو بناتے، سچ ان کا شعار، ہدایت قرآنی ان کا معیار۔ اب یہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی ذاتی رائے کا اظہار کر رہی ہیں، اس رائے سے بے پناہ خصوصی، اپنائیت اور رواداری کا اظہار ہو رہا ہے اور یہی اوصاف اسلامی معاشرے کے بنیادی پتھر ہیں۔ یہی اوصاف اپنے اندر پیدا نہ کرسکنے کی وجہ ہے کہ ہم قوت برداشت کے وصف سے محروم ہوچکے ہیں، تحمل اور بردباری کے الفاظ کو ہم نے اپنی لغت ہی سے خارج کر دیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فتویٰ پوچھا جا رہا تھا کہ بتائیے محبوب خدا کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہستی کون تھی؟ ذہن پر زور دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی بلا توقف فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری کائنات میں سب سے بڑھ کر محبت شہزادی کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے تھی۔ پوچھا گیا بتائیے مردوں میں محبوب تر کون تھا؟ انہوں نے بے ساختہ ارشاد فرمایا فاطمہ کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ۔

شیعہ سنی فسادات کی حقیقت

شیعہ سنی فسادات کا یک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے غیض و غضب اور لعن طعن کی غلیظ حرکت میں مبتلاء ہیں اور دوسری طرف بعض بدبخت اہل بیت اطہار سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، یہ دونوں رویے اپنے پس منظر اور حالیہ شدت میں بہت سی غلط فہمیوں سے پیدا ہیں ان غلط فہمیوں کاازالہ کئے بغیر اختلافات کی خلیح مٹانی مشکل ہے بلکہ اسلام دشمن انہی غلط فہمیوں کو ہوا دیکر لڑائیاں اور فسادات کرواتے ہیں اور امت کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ تحمل اور حقیقت پسندی سے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی تلخیوں کا تدارک ممکن ہے۔ مثلا زیر نظر روایت ہی کو لیجئے اس میں بہت سی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ ہو رہا ہے۔ حضرت فاطمہ حضرت علی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مخاصمت کو ہوا دینے والے خود سوچیں کے کتب احادیث میں سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب کی بیشتر روایات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں جو شخص دوسرے کے متعلق حسد بغض اور کینہ رکھتا ہو بھلا وہ اس طرح کی روایات بیان کرتا ہے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چاہتیں تو سائل کے سوال پر یہ بھی فرما سکتی تھیں کہ حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیاد محبوب میں خود تھی، اور مردوں میں میرے والد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔ اگر یہ روایت ہوتی بھی تو قرین قیاس تھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے والدگرامی سے تعلق محبت ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن جو چیز حق ہے اسے بیان کرنے میں ذرا تامل نہیں فرمایا۔ اسی طرح اور کئی روایات ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ لوگ آپس میں کتنے رحیم کریم تھے، باہمی احترام کی فضاء آخر وقت تک قائم رہی، فسادی اور مجرمانہ خصلت لوگوں کو اس وقت بھی بدامن اور مخاصمت منظور تھی اور آج بھی ہے یہ ابلیس مشن کے کارندے ہیں جو ہر دور میں سرگرم رہتے ہیں۔

خاتون جنت

یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہی لاڈلی بیٹی ہیں جن سے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری فاطمہ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ ساری کائنات کے مومنوں کی عورتوں کی تو سردار ہو۔

صحیح مسلم میں حضرت عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے آخری دنوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کانوں میں کچھ راز کی بات کہی جس سے ایک دفعہ تو وہ مغموم ہوکر رونے لگیں جبکہ دوسری دفعہ مسکرا پڑیں بعد میں ان سے پوچھا گیا کہ رونے کی کیا وجہ تھی تو وہ فرمانے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کی خبر کی وجہ سے روئیں جبکہ مسکرا نے کی وجہ دریافت کرنے پر کہنے لگیں کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

۲. الاترضين ان تکوني سيدة نساء اهل الجنة او نساء المؤمنين

اے فاطمہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمام جنتی عورتوں کی سردار تم ہو یا تمام مسلمان عورتوں کی سردار تم ہو۔

(صحيح البخاري، ۱ : ۵۱۲)

(الصحيح لمسلم، ۲ : ۲۹۱)

۳۔ اما م حاکم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا :

يا فاطمة الاترضين ان تکوني سيده نساء العالمين؟ و سيدة نساء المؤمنين؟ و سيدة نساء هذه الامة

اے فاطمہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمام عالم کی عورتوں کی سردار بنائی جاؤ اور تمام مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو؟ اور اس امت کی تمام عورتوں کی سردار ہو؟

۱. صحيح مسلم، ۲ : ۲۹۱

۲. المسند، ۳ : ۱۵۶

۳. طبقات، ۲ : ۲۴۸

رضا فاطمہ کی رضائے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کی رضا چاہتے ہیں اور پوری کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی طالب ہے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی رضا کے طالب ہیں۔

۴۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے :

عن المسور بن مخرمه ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال فاطمة بضعة مني فمن اغضبها فقد اعضبني

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (میری بیٹی) فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسے ناراض کیا بے شک اس نے مجھے ناراض کیا۔

(صحيح البخاري، ۲ : ۵۳۲)

جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کے حوالے سے تمام کتب احادیث میں بکثرت روایات موجودہیں مثلاً(۱) صحیح مسلم، ۲ : ۲۹۰، (۲) جامع ترمذی، ۲ : ۲۲۶، (۳) مسند احمد بن حنبل، ۴ : ۳۲۶، (۴) المستدرک، ۳ : ۱۵۹۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کیا اور ارشادات نبوی سے روگردانی کی بلا شبہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حشر میں فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد

عرش اور فرش ہر جگہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کے سر اقدس پر احترام اور تقدس کی چادر ہے۔ اہل محشر سے کہا جائے گا کہ اپنی نگاہیں جھکاؤ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لا رہی ہیں۔

۵. عن علي عليه السلام قال سمعت النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول اذا کان يوم القيامة ناد منادٍ من وراء الحجاب يا اهل الجمع غضوا ابصارکم عن فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم حتي تمر.

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو (اچانک) پردوں کے پیچھے سے کوئی منادی اعلان کریگا اے اہل محشر! اپنی نگاہیں جھکالو فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (وہ آرہی ہیں) حتی کہ وہ گزر جائیں گی۔

(المستدرک للحاکم، ۳ : ۱۵۳)

چشم تصور! ذرا میدان حشر میں چل، مخلوق خدا بارگاہ خداوندی میں حاضر ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے، سورج سوا نیزے پر آگ برسا رہا ہے۔ اچانک پردوں کے پیچھے سے آواز آتی ہے، منادی دینے والا منادی دے رہا ہے، اہل محشر سے مخاطب ہے کہ اپنی نگاہوں کو جھکالو، سر تاپا پیکر نیاز بن جاؤ، کہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرہی ہیں جب تک فاطمہ رضی اللہ عنہا گزر نہ جائیں قیامت کے دن کسی کو اپنی نگاہ اٹھانے کی اجازت نہ ہوگی، روز محشر یہ عزت، یہ احترام یہ تقدیس کسی اور کے حصے میں نہیں آئے گی، یہ مقام کسی اور کو عطا نہ ہوگا صرف اور صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی اس سلوک کی سزاوار ٹھہریں گی۔

ناراضی فاطمہ ناراضی خدا

۶. عن علی رضی اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم لفاطمة ان الله يغضب لغضبک و يرضي لرضاک

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مخاطب ہوکر فرمایا (اے بیٹی) اللہ تیری ناراضی کو دیکھ کر ناراض ہوتا ہے اور تیری خوشی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔

(المستدرک للحاکم، ۳ : ۱۵۴)

کائنات کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اے فاطمہ! اللہ تیری خوشی کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہے اور تیری ناراضی کو دیکھ کر ناراض ہو جاتا ہے، فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہوتی ہے تو خدا خوش ہوتا ہے، فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوتی ہے تو خدا بھی اس طرف سے چہرہ پھیر لیتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کائنات میں افضل ترین

۷. عن عائشة قالت مارأيت افضل عن فاطمة غير ابيها

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا فاطمہ سے کائنات میں کسی کو افضل نہیں دیکھا۔

(رواه الطبراني في الاوسط)

(مجمع الزوائد، ۹ : ۲۰۱)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا نہیں گیا بلکہ خود فرماتی ہیں کہ رب ذوالجلال کی عزت کی قسم کہ میں نے مصطفیٰ مجتبیٰ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا فاطمہ سے افضل کائنات میں کوئی نہیں دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقتوں کا یہ عالم ہے کہ اس عالم کی کوئی انتہا ہی نہیں کیونکہ ولایت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغاز علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہونا تھا۔ امامت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوگی مگر چلے گی فاطمہ اور علی سے۔

۸. عن ام المؤمنين عائشه رضي اﷲ عنها انها قالت مارأيت احداً کان اشبه کلاماً و حديثاً من فاطمة برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و کانت اذا دخلت عليه رحب بها وقام اليها فاخذ بيدها فقبلها واجلسها في مجلسه

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی کو فاطمہ سے بڑھ کر مشابہ نہیں پایا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ خوش ہو جاتے اور (محبت سے استقبال کیلئے) کھڑے ہوجاتے، حضرت فاطمہ کا ہاتھ پکڑ لیتے اس کو بوسہ دیتے اور پھر اپنی نشست پرحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا دیتے۔

(المستدرک للحاکم، ۳ : ۱۵۴)

اور ایک جگہ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں۔

۹. قامت اليه مستقبلة وقبلت يده

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے استقبال کیلئے (از راہ محبت) کھڑے ہو جاتے اور سیدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتیں

(ايضا : ۱۴۰)

بیٹی! میرے ماں باپ تجھ پر قربان

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں شرف حاضری حاصل کرتیں تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازرہ شفقت اور ازرہ محبت اپنی لاڈلی بیٹی کے استقبال کیلئے کھڑے ہوجاتے، مرحبا یا فاطمہ! کہہ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اسے چومتے اور پھر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو اپنی جگہ پر بیٹھا دیتے جب آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ احتراماً کھڑے ہوکر اپنے اباجان کا استقبال کرتیں اور ان کی دست بوسی فرماتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی لاڈلی بیٹی پر نثار ہو ہو جاتے، اپنے پاس بٹھاتے اور ان کی دلجوئی فرماتے۔ امام شوکانی روایت کرتے ہیں۔

۱۰. عن عمر بن خطاب رضي اﷲ عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال لفاطمة فداک ابي و امي.

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب ہو کر فرمایا میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔

(در السحابه : ۲۷۹)

ساری دنیا جب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتی ہے یا اصحاب رسول حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگارہ میں عرض کرتے ہیں تو کہتے ہیں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ یہ تھا صحابہ رضی اللہ عنہ کا عمل، سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خدا کی عزت کی قسم میں نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی سنا ہے کہ جب آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلاتے تو فرماتے، فاطمہ! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ماں باپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا پر قربان کر رہے ہیں اس لئے کہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امین ہیں، یہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، یہ قربت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، حقیقت یہ ہے کہ خاندان رسول کی غلامی ہی غلاموں کا سب کچھ ہے جو فاطمہ کے در کا دربان گیا وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ٹھہرا۔ کیوں؟ اس لئے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا صرف مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لخت جگر ہی نہیں حسنین کریمین کی امی جان بھی ہیں اس گود میں حسین رضی اللہ عنہ کی پرورش ہوئی ہے۔ جنت کے سرداردوں کی تربیت ہوئی ہے۔ اس لئے فاطمہ سے فرمایا کہ بیٹی میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔

غلام بے نوا کا سلام

خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نام نامی ہونٹوں پر آتا ہے تو پلکیں بہر احترام جھک جاتی ہیں، فضا میں احترام کی چادر سی تن جاتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی سے میری عقیدت اور احترام کا یہ عالم ہے کہ میں خود کو در فاطمہ رضی اللہ عنہا کا منگتا سمجھتا ہوں اور اپنے لئے اسے بہت بڑا اعزاز تصور کرتا ہوں، مدینہ منورہ کی حاضری کے دنوں میں میرا معمول یہ ہوتا ہے کہ جنت البقیع میں حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی قبر انور پر حاضری دیتا ہوں، سامنے گنبد خضرا اپنے جلوے بکھیر رہا ہوتا ہے بصد ادب عرض کرتا ہوں کہ اے حسنین کریمین کی امی جان! اے جنت کی خواتین کی سردار! اے سیدہ کائنات! آپ کے در کا کتا آیا ہے اپنے ابا حضور سے ایک ٹکڑا لے کر دے دیجئے۔ میرے کشکول آرزو میں خیرات ڈال دیجئے۔ اپنے ابا حضور سے سفارش فرما دیں کہ بابا! آپ کا ایک غلام بے نوا دراقدس پر حاضری کی اجازت چاہتا ہے، بابا! اس کی چشم تر کے آبگینے قبول فرمائیں، اس کو اپنے دامن رحمت میں چھپا لیجئے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمر بیت گئی بارگاہ سیدہ کائنات میں یہ التجا کرتے ہوئے کہ کبھی تو وہ اپنے منگتے کو کرم کے ٹکڑوں سے نوازیں گے، کبھی تو دامن طلب میں رحمت کے سکے گریں گے۔ پھر سوچتا ہوں کہ وہ کون سا لمحہ ہے جو ان کے کرم سے خالی ہے ان کے کرم کی چادر تو ازل سے برہنہ سروں کو کڑی دھوپ سے بچا رہی ہے، ہر ساعت کے ہونٹوں پر ان کی رحمت کا زمزم بہہ رہا ہے اور میں کہ ایک تشنہ لب اسی چشمہ رحمت سے اپنی تشنگی کا مداوا کر رہا ہوں۔ یہ سب کچھ اسی خانوادہ پاک کی عطا ہی تو ہے۔