خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)

خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا) 0%

خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا) مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)

خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: اقبال حیدرحیدری
زمرہ جات: مشاہدے: 6770
ڈاؤنلوڈ: 2489

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 7 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6770 / ڈاؤنلوڈ: 2489
سائز سائز سائز
خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)

خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خطبة الزهرا (س) فی مسجد النبی (ص)

رویٰ خطبة الزهرا سلام اللّٰه علیها فی المسجد النبی جمع من اعلام الشیعة والعامة بطرق متعددة تنتهی بالاسناد عن زید بن علی ، عن ابیه، عن جده علیه السلام وعن الامام جعفر بن محمد الصادق علیه السلام عن ابیه الباقر علیه السلام وعن جابر الجعفی عن ابی جعفر الباقر علیه السلام وعن عبد اللّٰه بن الحسن، عن ابیه وعن زید بن علی، عن زینب بنت علی علیه السلام وعن رجال من بنی هاشم، عن زینب بنت علی علیه السلام وعن عروة بن الزبیر، عن عائشة، قالوا لما بلغ فاطمة علیها السلام اجماع ابی بکر علی منعها فدک، وانصرف عاملها منها لاثت خمارها علی راسها واشتملت بجلبابها، واقبلت فی لُمةٍ من حفدتها، ونساء قومها ، تطاٴذیولها، ما تخرم مشیتها مشیة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم

مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع)کاتاریخ ساز خطبہ

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مسجد نبوی میں تاریخ ساز خطبہ شیعہ وسنی دونوں فریقوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے کہ جس کی سند کا سلسلہ زید بن علی تک پہونچتا ہے ، اس طرح کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار او رجد اعلیٰ سے نقل کیا ہے ، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے، نیز جابر جعفی نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا، اسی طرح جناب عبد اللہ بن حسن نے اپنے والد امام حسن علیہ السلام سے ،نیز زید بن علی نے زینب بنت علی علیہ السلام سے ،اسی طرح خاندان بنی ھاشم کے بعض افراد نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، نیز عروة بن زبیر نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے ، یہ سب کھتے ہیں :

حتیٰ دخلت علی ابي بکر وهو فی حشدٍ من المهاجرین والانصار وغیرهم، فنیطت دونها ملاء ة، فجلست ثم انّت انّةً اجهش القوم لها بالبکاء، فارتجّ المجلس، ثم امهلت هنیهة، حتی اذا سکن نشیج القوم، وهدات فورتهم، افتتحت الکلام بحمدالله فقالت:

” الحمدُ للّٰه علیٰ ما انعم وله الشکر علی ما الهم، والثناء بماقدّم من عموم نِعَمٍ ابتداٴها،وسبوغ آلاء اٴسداها وتمام منَن اٴولاها،جمّ عن الاحصاء عددها، وناٴیٰ عن الجزاء اٴمدُها،وتفاوت عن الادراک اْبدها وندبهم لاِسْتِزادتها باالشکرلاتّصالها واستحمد الی الخلائق باجزالها،وثنّی بالندب الی امثالها

واشهدان لا اله الّا اللّٰه وحد ه لاشریک له،کلمةٌجعل الاخلاص تاٴ ویلها وضمن القلوب موصولها ،وانار فی

جس وقت جناب ابوبکرنے خلافت کی باغ ڈور سنبھالی اورباغ فدک غصب کرلیا، جناب فاطمہ(س) کوخبر ملی کہ اس نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹاکراپنے کارندے معین کردئیے ہیں تو آپ نے چادر اٹھائی اورباپردہ ھاشمی خواتین کے جھرمٹ میںمسجد النبی(ص)کی طرف اس طرح چلی کہ نبی(ص) جیسی چال تھی اور چادرزمین پر خط دیتی جارھی تھی۔

جب آپ مسجد میں وارد ہوئیں تواس وقت جناب ابو بکر،مھا جرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے،آپ پردے کے پیچھے جلوہ افروز ہوئیں اور رونے لگیں،دختر رسول کوروتا دیکھ کرتمام لوگوں پر گریہ طاری ہوگیا،تسلی و تشفی دینے کے بعدمجمع کو خاموش کیاگیا، اور پھر جناب فاطمہ زھرا (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیںجس نے مجھے اپنی بے شمار اوربے انتھا نعمتوں سے نوازا،میں شکر بجالاتی ہوں اس کی ان توفیقات پرجواس نے مجھے عطا کیں، اورخدا کی حمدو ثنا ء کرتی ہوں ان بے شمارنعمتوں پرجن کی کوئی انتھا نہیں، اورنہ ہی ان کاکوئی بدلاہوسکتاھے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باھر ہے، خدا چاہتا ہے کہ ہم اسکی نعمتوںکی قدر کریں تاکہ وہ ہم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ہم یں شکر کی دعوت دی ہے تاکہ آخرت میں بھی وہ ایسے ہی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔

میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی ہوں،وہ وحدہ لا شریک ہے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ہے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے ہو تا ہے اوراس کے حقیقی معنی پر غور وفکر کرنے سے دل ودماغ روشن ہوتے ہیں۔

التّفکّر معقولها،الممتنع من الا بصار روٴیته، ومن الاٴلسن صفته، ومن الا وها م کیفیّته ،ابتدع الا شیاء لامن شیء کان قبلها ،وانشاها بلااحْتِذاء امثلةٍامْتثلها،کوّ نها بقدرته، وذراٴهابمشیته من غیرحا جةمنه الی تکو ینها ،ولا فا ئدة له فی تصویر ها، الا تثبیتا لحکمته ،وتنبیهاً علی طاعته، واظهاراً لقدرته،تعبّداً لبر یته و اعزازالدعوته ثم جعل الثواب علی طاعته ووضع العقاب علی معصیته ،زیادةلعباده من نقمته وحیاشة لهم الی جنته

واشهد ان ابی محمدا عبده و رسوله، اختاره قبل ان ارسله، (وسمّاه قبل ان اجتباه) واصطفاه قبل ان ابتعثه، اذ الخلائق بالغیب مکنونة وبسَتْرِ الاهاویل مصونة،وبنهایة العدم مقرونة ،علما من اللّٰه تعالی بمایل الامُور واحاطة بحوادث الدّهور ومعرفة بمواقع الامور، ابتعثه اللّٰه اتما ماً لامره وعزیمةعلی امضاء حکمه وانفاذ اً لمقادیررحمته فراٴی الاُ مم فر قاً فی ادیانها،عُکفَّاًعلی نیرانها وعابدةً لاٴوثانها، منکرةللّٰه مع عر فا نها

وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھانہیںجاسکتا،زبان کے ذریعہ اس کی تعریف وتوصیف نہیں کی جاسکتی ، جو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا۔

وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت ہو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پہونچتا ہو۔

بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظھار کرسکے، بندوںکواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اہم یت جتاسکے؟

اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ہے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔

میں گواھی دیتی ہوں کہ میرے پدربزرگوارحضرت محمد،اللہ کے بندے اور رسول ہیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پھلے اللہ نے ان کو چنا،(اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا)اوربعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنھاں تھیں، نیست ونابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اورعدم کی وادیوں میں تھیں ،چونکہ خداوندعالم ہر شی کے مستقبل سے آگاہ ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اورقضا وقدر سے مطلع ہے۔

فاناراللّٰه باٴبی محمد( صلی الله علیه وآله وسلم)ظلمها، وکشف عن القلوب بُهَمها وجلی عن الابصار غُمَمها وقام فی الناس بالهدایة،وفا نقذ هم من الغوایة وبصّرهم من العمایة وهداهم الی الدّ ین القویم، ودعا هم الی الطریق المستقیم

ثم قبضه اللّٰه الیه قبض رافةواختیارور غبةوایثار، فمحمد(صلی الله علیه وآله وسلم)من تعب هذه الدارفی راحة

قد حُفّ با لملائکة الابرار،ورضوان الرَّبِّ الغفار،ومجاورة الملک الجبار

صلی اللّٰه علی اٴبی نبیّه وامینه، وخیرته من الخلق وصفیه والسلام علیه ورحمةاللّٰه وبرکاته

خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہ تکمیل تک پہونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔

(جب آپ مبعوث ہوئے )تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے ہوئے تھے، کفر و الحاد کی آگ میں جل رہے تھے، بتوں اور آگ کی پرستش کررہے تھے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔

حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود مقدس سے تاریکیاںچھٹ گئیںجھالت ونادانیاںدلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سر گردانیاں آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں، میرے باپ نے لوگوںکی ھدایت کی اور ان کوگمراھی اور ضلالت سے نجات دی ، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلام کی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔

اس کے بعدخدانے اپنے پیغمبر کے اختیار،رغبت اورمھربانی سے ان کی روح قبض کی ،اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہے اوراس وقت فرشتوںاور رضایت غفّاراور ملک جبّارکے قرب میں زندگی گزار رہا ہے ،خدا کی طرف سے میرے باپ،نبی اور امین خدا،خیر خلق اورصفی خداپر درود و سلام اور اس کی رحمت ہو۔

ثم التفتت الیٰ اهل المجلس وقالت :

انتم عباداللّٰه نصب امره ونهیه، وحملة دینه ووحیه، وامناء اللّٰه علی انفسکم ،وبلغاء ٴه الی الاُمم زعیم حقّ له فیکم ،وعهد قدّمه الیکم،ونحن بقیةاستخلفها علیکم کتاب اللّٰه الناطق ،والقرآن الصاد ق ، والنور الساطع،والضیاء اللامع ،بیّنة بصائره ،منکشفة سرائره ، منجلیة ظواهره ،مغتبطة به اشیاعه،قائداً الی الرضوان اتباعه، مودٍّالیٰ النجاةاستماعه،به تنال حجج اللّٰه المنوّ رة،و عزائمه المفسرة، و محارمه المحذّرة و بیّناته الجالیة وبراهینه الکافیة، و فضائله المندوبة ورخصه الموهوبه و شرائعه المکتوبة

فجعل اللّٰه الایمان تطهیراًلکم من الشرک، والصلاة تنزیهاً لکم من الکبر،والزکاةتزکیةللنفس،ونماءً فی الرزق،والصیام تثبیتا للاخلاص، والحج تشییدا للدین، والعدل تنسیقا للقلوب، وطاعتنا نظاماً للملّة،واِمَامتنا اٴماناًمن الفرقة،والجهاد عزًاللاسلام

اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:

تم خدا کے بندے ،امرونھی کے پرچم دار اور دین اسلام کے عھدہ دار ہو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین ہو ، تم ہی لوگوںکے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پہونچ رہا ہے،تم نے گویا یہ سمجھ لیا ہے کہ تم ان صفات کے حقدارہو،اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمھارا کوئی عھد وپیمان ہے؟ حالانکہ ہم بقیة اللہاور قرآن ناطق ہیںوہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا ہوا نور ہے جس کی بصیرت روشن ومنور اوراس کے اسرار ظاھر ہےں، اس کے پیرو کارسعادت مندھیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرف ھدایت کرتاھے ،اس کی باتوںکوسننا وسیلہ نجات ہے اوراس کے بابرکت وجودسے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جاسکتی ہیں اس کے وسیلہ سے واجبات ومحرمات، مستحبات ومباھات اورقوانین شریعت حاصل ہو سکتے ہیں۔

خدا وندعالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا، نمازکو تکبر سے بچنے کے لئے،زکوة کووسعت رزق اورتزکیہ نفس کے لئے، روزہ کواخلاص کے لئے،حج کودین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت کونظم زندگی اور دلوںکے آپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ہے۔

وذلاً لاهل الکفر والنفاق والصبر معونة علی استیجاب الاجر ،والامر بالمعروف والنهی عن المنکر مصلحة للعامّة،وبرّ الوالدین وقایةًمن السخط ،وصلةالارحام منساٴة فی العمر ومنماة للعدد والقصاص حقناً للدماء والوفاء بالنذر تعریضا للمغفرة،وتوفیةالمکاییل والموازین تغیراً للبخس ،والنهی عن شرب الخمرتنزیهاًعن الرجس، واجتناب القذف حجاباعن اللعنة وترک السرقةایجاباًللعفةوحرم اللّٰه الشرک اخلاصا له بالربوبیة

( فاتقوا اللّٰه حق تقاته ولاتمو تن الاّ وانْتم مسلمون ) ( ۱ )

واطیعوااللّٰه فیما امرکم به ونها کم عنه

( انمایخشی اللّٰه من عباده العلماء ) ( ۲ )

ثم قالت : ایهاالناس اعلموا انّی فاطمة ،وابی محمد (صلی الله علیه وآله وسلم ) اقول عوداً وبدواً اٴولا اقول مااقول غلطا،ولاافعل ماافعل شططا ۔

اورہم اری اطاعت کو نظم ملت اور ہماری امامت کوتفرقہ اندازی سے دوری، جھاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کاسبب قرر دیا،اور صبر کو ثواب کے لئے مددگارمقرر کیا،امر بالمعروف و نھی عن المنکرعمومی مصلحت کے لئے اور والدین کےساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کاذریعہ اورصلہ رحم کو تاخیر موت کاوسیلہ قراردیا ،قصاص اس لئے رکھاتاکہ کسی کوناحق قتل نہ کرونیزنذر کوپوراکرنے کوگناھگاروںکی بخشش کاسبب قرار دیااورپلیدی اورپست حرکتوںسے محفوظ رہنے کے لئے شراب خوری کوحرام کیا،زنا کی نسبت دینے سے اجتناب کو لعنت سے بچنے کا ذریعہ بنایا ،چوری نہ کرنے کوعزت وعفت کا ذریعہ قرار دیا، خدا کے ساتھ شرک کوحرام قرار دیا تاکہ اس کی ربو بیت کے بارے میں اخلاص باقی رہے۔

”اے لوگو! تقویٰ وپرہیز گاری کواپناؤ اور تمھارا خاتمہ اسلام پر ہو“

اوراسلام کی حفاظت کروخدا کے اوامرونواہی کی اطاعت کرو۔

”اورخدا سے صرف علماء ڈرتے ہیں ۔“

اس کے بعد جناب فاطمہ زھرا نے فرمایا:

اے لوگو! جان لو میں فاطمہ ہوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، میری پھلی اور آخری بات یھی ہے ،جو میں کہہ رھی ہوں وہ غلط نہیں ہے اور جو میں انجام دیتی ہوں بے ہودہ نہیں ہے۔

( لقدجائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ماعنتم حر یص علیکم بالمومنین روف رحیم ) ( ۳ )

فانْ تَعزُوهُ وتعرفوه تَجدوه ابی دون نسائکم،واخاابن عمّی دون رجالکم ولنعم المعزیُِّ الیه صلی الله علیه و آله وسلم

فبلّغ الرّسالةصادعاَبالنَّذارةِ ،مائلاَعن مدرجةالمشرکین ضارباثبجهم، آخذاًباٴ کظامهمْ داعیاًالی سَبیلِ ربّه بالحکمة والموعظة الحسنة یجفّ الاصنام وینکث الهام حتیٰ انهزم الجمع وولّواالدّبر حتی تفرّی اللیل عن صبحه واَسفر الحقّ عن محضه و نطق زعیم الدین وخرست شقاشق الشّیاطین وطاح وشیظ النّفاق وانحلّت عقد الکفر والشّقاق وفهتم بکلمة الاخلاص و فی نفر من البیض الخماص

وکنتم علی شفا حفرة من النّار مذقة الشارب و نُهزة الطّامعٍ وقبسةالعجلان و موطیٴ الاقدام تَشربون الطَّرق وتقتاتون القدّ اَذلّةًخاسیٴن تخافون ان یتخطّفکم النّاس من حولکم

”خدانے تم ہی میںسے پیغمبر کو بھیجاتمھاری تکلیف سے انہیں تکلیف ہوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اورمومنین کے حق میں دل سوز وغفورورحیم تھے۔“

وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ،میرے شوھر کے چچازاد بھائی تھے نہ کہ تمھارے مردوںکے بھائی،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب ہونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت ہے۔

انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کوعذاب الٰھی سے ڈرایا، اورشرک پھیلانے والوں کا سد باب کیاان کی گردنوںپرشمشیرعدالت رکھی اورحق دبانے والوںکا گلادبادیاتاکہ شرک سے پرہیز کریں ا ور توحید وعدالت کوقبول کریں۔

اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی،بتوں کو توڑااور ان کے سروں کوکچل دیا،کفارنے شکست کھائی اورمنھ پھیر کر بھاگے ،کفر کی تاریکیاں دور ہوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح ہوگیا،دین کے رھبر کی زبان گویاہوئی اورشیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے ، نفاق کے پیروکار ھلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔

(اور تم اہلبیت (ع) کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو ہوگئے ،درحالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میںکھڑے تھے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھاجو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاہتا ہے۔

فانقذکم اللّٰه تبارک وتعالیٰ بابی محمد(صلی الله علیه آله وسلم) بعد اللتیا والتی،و بعد ان مُنی ببُهم الرجال وذوبان العرب ومردة اهل الکتاب (کلما اوقدوانارا للحرب اطفاٴها اللّٰه)( ۴ )

او نجم قرن الشیطان ،او فغرت فاغرة من المشرکین قذف اخاه علیاًفی لهواتها،فلا ینکفیء حتی یطاٴجناحها باخمصه ،ویخمد لهبها بسیفه مکدودا فی ذات اللّٰه، مجتهدَا فی امر اللّٰه قریباً من رسول اللّٰه ،سیدا فی اولیاء اللّٰه، مشمّرا ناصحاً ،مجداً کادحاً لاتاخذه فی الله لومة لائم وانتم فی رفا هیة من العیش وادعون فاکهون ، آمنون تتربصون بنا الدوائر، وتتوکفون الاخبار ،وتنکصون عند النّزال،وتفرون من القتال

تم قبائل کے نحس پنجوںکی سخت گرفت میں تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانوںکو کھال سمیت کہا لیتے تھے،اور دوسروں کے نزدیک ذلیل وخوارتھے اوراردگردکے قبائل سے ہم یشہ ہراساںتھے۔

یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص)کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انہیں درپیش تھی ،تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نماافراد اوراہل کتاب کے سرکشوںسے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تھے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھا تا یا مشرکوں میںسے کوئی بھی زبان کھولتاتھا توحضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تھے، اورعلی (ع)اپنی طاقت وتوانائی سے ان کو نیست ونابود کردیتے تھے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوارسے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ ہوتے تھے۔

(وہ علی (ع)) جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمام سختیوںکاتحمل کرتے رہے اورخدا کی راہ میں جھاد کرتے رہے ،رسول اللہ(ص)کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تھے ہم یشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تھے، لیکن تم اس حالت میںآرام کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتے تھے،(اور ہمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظررھتے تھے اوردشمن کے مقابلہ سے پرہیز کرتے تھے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرارہوجایا کرتے تھے ۔

فلما اختار اللّٰه لنبیّه دار انبیائه وماوی اصفیائه، ظهرت فیکم حسیکةُ النفاق،وسمل جلباب الدین ،ونطق کاظم الغاوین ،ونبغ خامل الاقلین ،وهدر فنیق المبطلین، فخطر فی عرصاتکم ، واطلع الشیطان راسه من مغرزه هاتفا بکم،فالفاکم لدعوته مستجیبین ، وللعزة فیه ملاحظین ،ثم استنهضکم فوجدکم خفافا واحمشکم فالفاکم غضابا ، فوسمتم غیر ابلکم ،واوردتم غیر مشربکم، هذا والعهد قریب، والکلم رحیب، والجرح لما یندمل، والرسول لما یقبر،ابتداراً زعمتم خوف الفتنة( ۵ )

فهیهات منکم وکیف بکم وانی توٴفکون ، و هذا کتاب اللّٰه بین اظهرکم، اٴموره ظاهرة، واحکامه زاهرة، واعلامه باهرة وزواجرهُ لائحة واوامره واضحة قد خلفتموه وراء ظهورکم ارغبة عنه تریدون؟ ام بغیره تحکمون ؟ (بئس للظالمین بدلا )( ۶ )

جب خدا نے اپنے رسولوں اور پیغمبروںکی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کرلیا، تو تمھارے اندر کینہ اور نفاق ظاھر ہوگیا،لباس دین کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منھ گھل گئے، پست لوگوںنے سر اٹھالیا، باطل کااونٹ بولنے لگااور تمھارے اندر اپنی دم ھلانے لگا، شیطان نے اپنا سر کمین گاہ سے باھرنکالااورتمھیں اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبول کرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اورتم حرکت میںآگئے اس نے تمھیں غضبناک کیا، تم غضبناک ہوگئے وہ اونٹ جو تم میںسے نہیں تھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھادیا جس کا وہ حق دار نہ تھا ،حالانکہ ابھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کوزیادہ وقت نہیں گزراتھا اور ہمارے زخم دل نہیں بھرے تھے ، زخموں کے شگاف بھرے نہیں تھے ،ابھی پیغمبر (ص)کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بھانے سے خلافت پر قبضہ جمالیا ”لیکن خبرداررہو کہ تم فتنہ میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروںکا احاطہ کرلیا ہے “۔

افسوس تمھیں کیا ہوگیا ہے اور تم نے کونسی ڈگراختیارکرلی ہے حالانکہ اللہ کی کتاب تمھارے درمیان موجود ہے اوراس کے احکام واضح اوراس کے امرونھی ظاھرھیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاہتے ہو؟یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاہتے ہو؟

”ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ہے“

( ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منه وهو فی الآخرة من الخاسرین ) ( ۷ )

ثمّ لم تلبثو ا الا ریث ان تسکن نفرتها ،ویسلس قیادها ،ثمّ اخذتم تورون وقدتها وتهیجون جمرتها، وتستجیبون لهتاف الشیطان الغویّ واطفاء انوار الدین الجلی وإهمال سنن النبی الصفی، تشربون حسواً فی ارتغاء وتمشون لاهله وولد ه فی الخمرة والضراء ،ویصیر منکم علیٰ مثل حزّالمدیٰ،وَوُخْزالسنان فی الحشاء

وانتم الان تزعمون ان لا ارث لی من ابی( افحکم الجاهلیة تبغون ومن احسن من اللّٰه حکماً لقوم یوقنون ) ( ۸ )

افلا تعلمون،! بلیٰ قد تجلی لکم کا الشمس الضاحیة انی ابنته

اٴیَّها المسلمون ! اٴ اُغلب علی ارثی؟

” جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیا رکریگا اس کا دین قبول نہیں کیا جائیگا اورآخرت میں ایسا شخص سخت گھاٹے میں ہوگا ۔“

تم خلافت کے مسئلہ میںاتنا بھی صبرنہ کرسکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش ہوجائے اوراسکی قیادت آسان ہوجائے(تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مھار کو ھاتھوں میں لے لو) اس وقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کردیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیجے کیا (تاکہ لکڑیاں خوب آگ پکڑلیں) اورشیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول(ص) کوخاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ،تم ظاھر کچھ کرتے ہو لیکن تمھارے دلوں میں کچھ اور بھرا ہوا ہے۔

میں تمھارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی ہوں جس طرح کسی پرچھری اورنیزے سے پیٹ میں زخم کردیا جاتا ہے، اور وہ اس پر صبر کرتا ہے ۔

تم لوگ گمان کر تے ہو کہ ہمارے لئے ارث نہیںھے، ؟! ” کیا تم سنت جاہلیت کو نہیں اپنا رہے ہو ؟!!

” کیا یہ لوگ (زمانہ) جاہلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ہیں حالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر کون ہوگا۔“

کیا تم نہیں جا نتے کہ صاحب ارث ہم ہیں، چنانچہ تم پرروزروشن کی طرح واضح ہے کہ میںرسول کی بیٹی ہوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ہے کہ میں اپنے ارث سے محروم رہو ں(اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھاکر میرے ارث پر قبضہ جمالو۔)

یا ابن ابی قحافة اٴفی کتاب اللّٰه ترث اباک ولا ارث ابی ؟( لقد جئت شیئا فریا )

افعلیٰ عمدٍ ترکتم کتاب اللّٰه ونبذ تموه وراء ظهور کم اذیقول:( وورث سلیمانُ داودَ ) ( ۹ )

وقال فیمااقتص من خبریحییٰ بن زکریا علیه السلام اذ قال:( ربِّ هب لی من لدنک ولیاًیرثنی ویرث من آل یعقوب ) ( ۱۰ )

وقال :( واولوالارحام بعضهم اولیٰ ببعض فی کتاب اللّٰه ) ( ۱۱ )

وقال :( یو صیکم اللّٰه فی اولا دکم للذکرمثل حظ الانثیین ) ( ۱۲ )

وقال :( ان تر ک خیرا الوصیة للوالدین والا قربین با لمعروف حقاعلی المتقین ) ( ۱۳ )

اے ابن ابی قحافہ ! کیایہ کتاب خدا میں ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث پاؤ ا ورہم اپنے باپ کی میراث سے محروم رھیں، تم نے فدک سے متعلق میرے حق میں عجیب وغریب حکم لگایا ہے، اور علم وفہم کے با وجود قرآن کے دامن کو چھوڑدیا ، اس کو پس پشت ڈالدیا؟

کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے <وورث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داود سے ارث لیا“، اورجناب یحی بن زکریاکے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ انہوں نے دعا کی:

”بارِ الہٰا ! اپنی رحمت سے مجھے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث ہو“، نیز ارشاد ہوتا ہے: ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باہم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں ) زیادہ حق دار ہیں۔“ اسی طرح حکم ہوتا ہے کہ ” خدا تمھاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے “ ۔

نیز خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

”تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑجائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے۔“

وزعمتم ان لا حَظْوَة لی ولا ارث من ابی ، ولا رحم بیننا، اٴفخصّکم اللّٰه بآیةاخرج ابی منها ؟ ام هل تقولون ان اهل ملتین لا یتوارثان؟اولست انا وابی من اهل ملة واحدة؟ ام انتم اعلم بخصوص القرآن وعمومه من ابی وابن عمی ؟

فدونکها مخطو مة مر حو لة ، تکون معک فی قبرک، تلقاک یوم حشرک ،فنعم الحکم اللّٰه، و نعم الزعیم محمد(صلی الله علیه آله وسلم) والموعد القیامةوعندالساعة یخسر المبطلون ولا ینفعکم اذ تندمون( ولکل نبامستقر ) ( ۱۴ )

( وسوف تعلمون من یاتیه عذاب یخزیه ویحلّ علیه عذاب مقیم ) ( ۱۵ )

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے اور مجھے ان سے میراث نہیں ملے گی ؟

کیا خداوندعالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ہی لوگوںسے مخصوص کردیا ہے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کردیا ہے ؟یا تم کھتے ہو کہ میرا اورمیرے باپ کا دوالگ الگ ملتوں سے تعلق ہے ؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نہیں لے سکتے۔

آیاتم لوگ میرے پدربزرگوار اور شوھر نامدارسے زیادہ قرآن کے معنیٰ ومفاھیم ،عموم وخصوص اورمحکم ومتشابھات کوجانتے ہو ؟

تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھار کرلیا ہے اور اس کو آمادہ کرلیاھے جو قبر میں تمھاری ساتھ رہے گا اور روز قیامت ملاقات کریگا ۔

اس روز خدا بھترین حاکم ہوگا اور محمد بھترین زعیم ، ہمارے تمھارے لئے قیامت کا دن معین ہے وہاں پر تمھارا نقصان اور گھاٹاآشکارہوجائےگا اورپشیمانی اس وقت کوئی فائدہ نہ پہونچائے گی،” ہر چیزکے لئے ایک دن معین ہے“ ۔ ” عنقریب ہی تم جان لوگے کہ عذاب الٰھی کتنا رسوا کنندہ ہے ؟اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نہیں“۔

خطاب للانصار

ثمّ رمت بطرفها نحو الانصار فقالت :یا معشر (النقیبة)واعضاد الملة وحضنة الاسلام ،ما هذه الغمیزة فی حقی،والسنّة عن ظلامتی ؟

اماکان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه واله ابی یقول: ”المرء یحفظ فی ولده“سرعان ما احدثتم و عجلان ذا اهالة ، ولکم طاقة بما احاول وقوّة علی ما اطلب واٴزاول

اٴتقولون : مات محمد (ص)، فخطب جلیل، استوسع وهنه،واستنهر فتقه، و انفتق رتقه ،واظلمت الارض لغیبته وکسفت الشمس والقمر، وانتثرت النجوم لمصیبته، واکدت الآمال، وخشعت الجبال ،واُضیع الحریم ،وازیلت الحرمة عند مماته

فتلک واللّٰه النازلة الکبریٰ والمصیبة العظمیٰ ، لامثلها نازلة، ولا بائقة عاجلة، اعلن بها کتاب اللّٰه جلّ ثنا وٴه فی افنیتکم وفی ممساکم ومصبحکم یهتف فی افیتکم هتافا وصراخا وتلاوة والحانا،ولقبله ما حلّ بانبیاء اللّٰه ورسله حکم فصل وقضاء حتم

انصار سے خطاب

اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ ہوئیںاورفرمایا:

اے اسلام کے مددگار بزرگو! اور اسلام کے قلعوں،میرے حق کو ثابت کرنے میںکیوںسستی برتتے ہو اور مجھ پر جو ظلم وستم ہو رہاھے اس سے کیوںغفلت سے کام لے رہے ہو ؟! کیا میرے باپ نے نہیں فرمایاتھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رھتاھے( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولادکااحترام بھی ہوتا ہے؟)

تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ہے اور کتنی جلدی ہوا وہوس کے شکار ہوگئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے ہو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔

یہ کیا کہہ رہے ہو کہ محمد مرگئے ! (او ران کا کام تمام ہوگیا) یہ ایک بھت بڑی مصیبت ہے جس کا شگاف ہر روز بڑھتا جا رہاھے اورخلاء واقع ہو رہا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک ہوگئی اور شمس وقمر بے رونق ہوگئے، ستارے مدہم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں،پھاڑوں میں زلزلہ آگیااوروہ پاش پاش ہوگئے ہیں ،حرمتوں کا پاس نہیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی۔

( وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرّسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیه فلن یضراللّٰه شیئا وسیجزی اللّٰه الشاکرین ) ( ۱۶ )

اٴیْهاً بنی قیله ! اٴ اٴهضم تراث ابی؟ و انتم بمرای منّی ومسمع، ومنتدی ومجمع تلبسکم الدعوة وتشملکم الخُبرة وانتم ذوو العدد والعدة والاداة والقوة،وعندکم السلاح والجُنة تو ا فیکم الدعوة فلا تجیبون ، وتاتیکم الصرخة فلا تغیثون وانتم موصوفون بالکفاح ،معروفون بالخیر والصلاح ،والنخبة التي انتخبت والخیرة التی اختیرت لنا اهل البیت

قاتلتم العرب ،وتحملتم الکدّ والتعب،وناطحتم الامم وکافحتم البُهم،لا نبرح ولا تبرحون ،نامرکم فتاتمرون ، حتی اذا دارت بنا رحی الاسلام ودرّ حلب الایام ،وخضعت نعرة الشرک، وسکنت فورة الافک وخمدت نیران الکفر،وهداٴت دعوة الهرج،و استوسق نظام الدین

خدا کی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔

یہ اللہ کی کتاب ہے جس کی صبح وشام تلاوت کی آواز بلند ہورھی ہے اور انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ہے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ہیں(جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے) :

”اور محمد(ص)صرف خدا کے رسول ہیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبرموجود تھے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہونچاسکتا،خدا شکر کرنے والوںکو جزائے خیردیتاھے“ ۔

اے فرزندان قیلہ( اوس وخزرج) کیا یہ مناسب ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں جبکہ تم یہ دیکھ رہے ہواور سن رہے ہو اوریھاں حاضربھی ہو اور میری آوازتم تک پہونچ بھی رھی ہے اور تم واقعہ سے با خبر بھی ہو، تمھاری تعداد زیادہ ہے، تمھارے پاس طاقت واسلحہ بھی ہے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی ہوں، لیکن تم اس پر لبیک نہیں کھتے، میری فریادکو سن رہے ہو مگر فریاد رسی نہیں کرتے ہو، تم بھادری میںمعروف اور نیکی سے موصوف اورخود نخبہ ہو ، تم ہی ہم اہلبیت (ع) کے لئے منتخب ہوئے ،تم نے عربوںکے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کوبرداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سورماوں سے زورآزمائی کی ، جب ہم

فانّٰی حُرتم بعد البیان واسررتم بعد الاعلان ونکصتم بعد الاقدام واشرکتم بعدالایمان بوساً لقوم نکثوا؟

الا تقاتلون قوما نکثواایمانهم وهموا باخراج الرسول وهم بداٴوکم اول مرة اتخشونهم فاللّٰه احق ان تخشوه ان کنتم موٴمنین( ۱۷ )

اٴلا و قد اری ان قد اخلدتم الی الخفض ،وابعدتم من هو احقّ بالبسط والقبض، ورکنتم الی الدعة، ونجوتم من الضیق بالسعة فمججتم ما وعیتم ،ودسعتم الذی تسوغتم

( فان تکفروا اٴنتم ومن فی الارض جمیعا فان اللّٰه لغنی حمید ) ( ۱۸ )

قیام کرتے تھے توتم بھی قیام کرتے تھے ہم حکم دیتے تھے اورتم اطاعت کرتے تھے ۔

یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ ہوئےں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقاروجوش ختم ہوگیا،اورکفرکے آتش کدے خاموش ہوگئے ، شورش اور شوروغل ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا۔

اے گروہ انصار: متحیرہوکر کھاںجارہے ہو ؟ ! حقائق کے معلوم ہونے کے بعد انہیں کیوںچھپاتے ہو،اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹا رہے ہو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں ہو رہے ہو ؟

” بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ہے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاہتے ہیں، اور تم سے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ہی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار ہو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔“

میں دیکھ رھی ہوں کہ تم پستی کی طرف جارہے ہو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول ہو،زندگی کے وسیع وعریض میدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے ہو، جو کچھ تمھارے اندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تھے اسے اگل دیا، ”لیکن آگاہ رہو اگرتم اور روئے زمین پرآباد تمام انسان کافرہوجائیںتو خدا تمھارا محتاج نہیں ہے ۔“

اٴلا و قد قلتُ ما قلت علی معرفة منی بالخذلة التی خامرتکم والغدرة التی استشعرتها قلوبکم ، و لکنها فیضة النفس ، ونفثة الغیض (الغیظ)و خور القنا وبثّة الصدرِوتقدمة الحجة

فدونکموها فاحتقبوها دبرة الظهرنقبة الخف ،باقیة العار، موسومة بغضب اللّٰه وشنار الابد ،موصولة بناراللّٰه الموقدة التی تطّلع علی الافئدة فبعین اللّٰه ماتفعلون وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون( ۱۹ )

وانا ابنة نذیر لکم بین یدی عذاب شدید ، فاعلموا انّا عاملون وانتظروا انّا منتظرون( ۲۰ )( ۲۱ )

اے لوگو! جو کچھ مجھے کہناچاہئے تھا سوکہہ دیا، چونکہ میںجانتی ہوںکہ تم میری مددنہیںکروگے، تم لوگ جو منصوبے بناتے ہو مجھ سے پوشیدہ نہیںھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہ تم پرحجت تمام ہوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ہیں اور اس”فعل “کی رسوائیاںاورذلتیںہم یشہ تمھارے دامن گیر رھیںگی۔

خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم ہوگی،” خدا تمھارے کردارسے آگاہ ہے بھت جلد ستمگاراپنے کئے ہوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے“

اے لوگو! میں تمھارے اس نبی کی بیٹی ہوںجس نے تمھیںخدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے ہو کرو، ہم اس کا ضرور انتقام لیںگے تم بھی منتظر ہو ، ہم بھی منتظرھیں۔( ۲۲ )

علیٰ اٴثر الخطبة

کان لخطبة الزهراء سلام الله علیها اٴثر بالغ ومحرّک لنفوس الناس، سیّما الانصار منهم، لما تحمله تلک الخطبة من الواقعیة والصدق والاستناد الی اُسس متنیة قوامها الکتاب الکریم والسنة النبویة المبارکة، فی بیان مظلومیتها وفی اشادتها بفضل اٴمیر الموٴمنین علی علیه السلام واٴحقّیته فی خلافة الرسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ، ممّا جعل الاٴنصار یهتفون باسم علی علیه السلام، فاستشعر رجال السقیفة الخطر من هذه البادرة، فنادی اٴبوبکر الصلاة جامعة، فاجتمع الناس فاٴرعد و اٴبرق

رویٰ الجوهری عن جعفر بن محمد بن عمارة بعدة طرق، قال: لما سمع اٴبوبکر خطبتها شقّ علیه مقالتها، فصعد المنبر وقال:

”اٴیّها الناس، ماهذه الرِّعة الی کلِّ قالة؟! ومع کلّ قالة اٴُمنیة، این کانت هذه الاٴمانی فی عهد نبیکم؟!

خطبہ کے آثار

آپ کے اس خطبہ کا اثرلوگوں پر خاص طور سے انصارپر بھت ہوا، کیونکہ یہ خطبہ واقعیت اور صداقت پر مبنی تھا اور اس خطبہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے دلائل پیش کئے گئے تھے کہ حضرت پر کیا کیا ظلم وستم ہوئے، اس خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کی گئی اور باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا کہ آپ ہی خلافت رسول کے حقدار تھے، اور جس وقت انصار پر اس خطبہ کا اثر ہوا تو حضرت علی کا نام لے لےکر چلانا شروع کیا، چنانچہ یہ دیکھ کر اہل سقیفہ نے خطرہ کا احساس کیا اور ابوبکر نے نماز جامعہ کی طرف بلایا جس پر سب دوڑے ہوئے چلے گئے۔

جوھری نے جعفر بن محمد بن عمارہ سے متعدد طریقوںسے روایت کرتے ہوئے کہا : جب جناب ابوبکر نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا خطبہ سنا تو اس پر بھت گراں گزرا، چنانچہ منبر پر جاکر اس طرح لوگوں سے خطاب کیا :

اٴلا من سمع فلیقل، ومن شهد فلیتکلم، انما هو ثُعالة شهیده ذنبه، مربّ لکلِّ فتنةٍ، هوالذی یقول: کرّوهاً جذعةً بعد ما هرمت، یستعینون بالضعفة، و یستنصرون بالنساء، کاٴُمِّ طحال اٴحب اٴهلها الیها البغي !!!

اٴلا انی لواٴشاء ان اٴقول لقلت، ولوقلت لبحت، وانی ساکت ماتُرکت

ثم التفت الی الاٴنصار فقال: قد بلغنی یا معشر الاٴنصار مقالة سفهائکم، فو الله ان اٴحق الناس بلزوم عهدرسول الله اٴنتم، فقد جاء کم فآویتم ونصرتم، واٴنتم الیوم احق من لزم عهده، ومع ذلک فاغدوا علیٰ اٴُعطیاتکم، فانی لست کاشفاً قناعاً، ولا باسطاً ذراعاً ولا لساناً الّا علی من استحق ذلک، والسلام

ثم نزل، فانصرفت فاطمة علیها السلام الیٰ منزلها( ۲۳ )

”یہ سب کچھ جو تم لوگوں نے سنا ، اور چونکہ ہربات کا ایک مقصد ہوتا ہے، اور یہ بات زمانہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کھاں تھی؟ پس جس نے بھی سنا ہو وہ بتائے اور جس نے بھی دیکھا ہو وہ گواھی دے، یہ سب کچھ مکروفریب ہے اور اس کا گواہ اس کا شوھر ہے، جو ہر فتنہ کی جڑ ہے، وہ یہ کھتے ہیں کہ یہ لوگ حق وحقیقت کو پانے کے بعد زمان جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ، اور وہ بچوں (حسن وحسین(ع)) کے ذریعہ مدد لیتے ہیں اور عورتوں کے سھارے نصرت ومدد چاہتے ہیں جس طرح امّ طحال (زمان جاہلیت میں باغی اور سرکش عورت) سے اس کے اہل خانہ اس کی نازیبا حرکتوں سے خوش ہوتے ہیں۔!!

آگاہ رہو کہ اگر میں چاہتا تو کہتا، او راگر کہتا تو تم مبہوت ہوکر رہ جاتے، لیکن میں تو اس وقت ساکت بیٹھا ہوں۔

اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوکر کھا:

” اے گروہ انصار ! تم لوگوں میں سے بعض احمقوں کی گفتگومجھ تک پہونچی جو کھتے ہیں: ”ہم عھد رسول اللہ میں زیادہ حقدار تھے، کیونکہ ہم نے تم کو پناہ دی اور تمھاری نصرت کی، اور تم آج اپنے کو زیادہ حقدار سمجھتے ہو ، لیکن میں تمھاری باتوں کو چھوڑتا ہوں اور ان کا کوئی اثر نہیں لیتا، اور نہ ہی مجھے کسی چیز کا لالچ ہے، مگر یہ کہ جس چیز کا میں مستحق ہوں، والسلام“۔

اس کے بعد منبر سے اتر گیا۔

اس کی باتیں سن کر جناب فاطمہ وہاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔

قال ابن اٴبی الحدید: قراٴت هذا الکلام علی النقیب اٴبی یحيٰ جعفر ابن یحيٰ بن اٴبی زید البصري، وقلت له:

”بمن یعرض“ ؟

فقال: ”بل یصرّح“

قلت: ”لو صرّح لم اٴساٴلک“

فضحک وقال: ”بعلی بن اٴبی طالب علیه السلام“

قلت: ”هذا الکلام کلّه لعلی یقوله“!!

قال: ”نعم انّه الملک یا بني

قلت: ”فما مقالة الاٴنصار؟

قال: ”هتفوا بذکر علی علیه ا لسلام، فخاف من اضطراب الاٴمر علیهم، فنهاهم( ۲۴ )

ابن ابی الحدیدکہتے ہیں:

” حضرت ابوبکر کی اس گفتگو کو میں نے استاد ابو یحیٰ جعفر بن یحیٰ بن ابی زید بصری کے سامنے پڑھا اور سوال کیا کہ اس کلام میں کس کی طرف اشارہ ہے تو انھوں نے کہا کہ اشارہ نہیں ہے بلکہ واضح طور پر بیان ہے، ابن ابی الحدید نے کہا کہ اگر واضح ہوتا تو میں آپ سے کیوں سوال کرتا، یہ سن کر ابو جعفر مسکرائے اور کہا :

یہ سب کچھ حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف اشارہ ہے، ابن ابی الحدید بھت تعجب سے کھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے یہ سب کچھ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں کہا ہے ۔

ابو جعفر نے کہا کہ جی ھاں یہ سب کچھ حضرت علی (ع) کی شان میں کہا کیونکہ وہ اس وقت کے خلیفہ اور بادشاہ تھے۔

اس کے بعد میں نے سوال کیا کہ انصار کی گفتگو کیا تھی؟ (جس کی بنا پر جناب ابوبکر نے کہا : ”تم میں سے بعض احمقوں کی باتیں مجھ تک پہونچی) ،تو ابوجعفر نے کہا انصار نے حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں آواز بلند کی (اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ کی وصیت کو بیان کیا، یہ دیکھ کر جناب ابوبکر ڈرے اور اس کام سے روک دیا“)

___________________

( ۱ ) سورہ آل عمران آیت ۱۰۲

( ۲ ) سورہ فاطر-آیت ۲۸

( ۳ ) سورہ توبہ آیت ۱۲۸

( ۴ ) سورہ مائدہ آیت ۶۴

( ۵ )اٴلا فی الفتنة سقطوا وان جهنم لمحیطة بالکافرین ۔ (سورہ توبہ ۴۹)

( ۶ ) سورہ کہف آیت ۵۰

( ۷ ) سورہ آل عمران آیت ۸۵

( ۸ ) سورہ مائدہ آیت ۵۰

( ۹ ) سورہ نمل ،آیت۱۶

( ۱۰ ) سورہ مریم ،آیت ۴ و۶

( ۱۱ ) سورہ انفال،آیت ۷۵

( ۱۲ ) سورہ نساء، آیت

( ۱۳ ) سورہ بقرہ،آیت ۱۸۰

( ۱۴ ) سورہ انعام، آیت ۶۷

( ۱۵ ) سورہ ہود آیت۳۹

( ۱۶ ) سورہ آل عمران آیت۱۴۴۔

( ۱۷ ) سورہ توبہ، آیت ۱۲

( ۱۸ ) سورہ ابراھیم ،آیت ۸

( ۱۹ ) سورہ شعراء آیت ۲۲۷

( ۲۰ ) سورہ ہود، آیت ۱۲۱و۱۲۲

( ۲۱ ) احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔

( ۲۲ ) احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔

( ۲۳ ) دلائل الامامة ۱۲۳، شرح ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۵۔

( ۲۴ ) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۶، ص۲۱۵۔