دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف0%

دولت کا بہترین مصرف مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف: فرازمند
زمرہ جات:

مشاہدے: 10346
ڈاؤنلوڈ: 2179

تبصرے:

دولت کا بہترین مصرف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 37 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10346 / ڈاؤنلوڈ: 2179
سائز سائز سائز
دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف:
اردو

۷. تمہارے انفاق خدا کے یہاں محفو ظ ہیں

( وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ نَّفَقَةٍ اٴَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاٴِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُه‘وَمَا لِلظَّا لِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ) (سورئہ بقرہ :آیت ۲۷)

اور تم جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کروگے یا نذر کروگے تو خدا اس سے باخبر ہے البتہ ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہے۔

وضاحت

یہ آیہ کریمہ ہم کو اس بات کی طرف توجہ دلارہی ہے کہ تم جوکچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو چاہے واجب ہو یا مستحب،کم ہو یا زیادہ ،حلال طریقہ سے حاصل کیا ہویا حرام راستہ سے ،خلوص کے ساتھ راہ خدا میں انفاق کیا ہویا ریاکاری کے ساتھ ،منت اوراذیت کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر ،ان اموال میں سے ہو جن کے انفاق کرنے کا حکم خدا نے دیا ہے یا نذر کے ذریعہ اپنے اوپر واجب کر لیا ہے جس طرح بھی ہو خدااس سے آگاہ اور باخبر ہے اوراسی کے مطابق جزا دے گا۔

مختصر یہ کہ سارے انفاق پروردگار کی نگاہوں کے سامنے ہیں کتنا اچھا ہوتا کہ سارے انفاق پاک و پاکیزہ اور حلال اموال میں سے ہوں۔

( وَمَالِلظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ) “ یہ آیہ کریمہ اس بات کا پیغام دے رہی ہے کہ:ستمگروں اور ظالموں کا کوئی یار ومددگا ر نہ ہوگا یعنی جو لوگ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ محروموں اور فقیروں کو نجات دلاتے ہیں یا سماجی کاموں میں اپنے مال کو خرچ کرکے سب کے لئے آرام وآسائش کے سامان فراہم کرتے ہیں یہ انفاق دنیا و آخرت میں ان کا ناصر و مددگار ہوگا اوروہ ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کریں گے ۔ جبکہ مالدار بخیل یا انفاق کرنے والے ریاکار اور لوگوں کو تکلیف پہچانے والے ،اس طرح کے ناصرو مددگار سے محروم ہوں گے ۔

ممکن ہے کہ یہ جملہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہو کہ ریا کاروں، بخیلوں اور منت گذاروں اور اذیت پہنچانے والوںکے لئے قیامت میں عذاب الٰہی کے مقابلے میں کوئی بھی ان کا حامی و مددگار اور شفاعت کرنے والا نہ ہو گا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم وستم کرنے والے ہیں جنہو ں نے فقیروں کے حقوق کو پامال کیا ہے ۔عدالت الٰہی میں کوئی ان کا دفاع کرنے والا نہ ہوگا اور یہ ان کے ظلم و ستم کا نتیجہ ہوگا ۔

اور خوشابحال ان افراد کا جنہوں نے انسانی امداد اور راہ خدا میں انفاق کے ذریعہ اپنے لئے ناصرو مددگا رکا انتظام کر رکھا ہے۔

۸ راہ خدا میں انفاق کرو اور فقر سے نہ ڈر و

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاٴْ مُرُ کُمْ بِالْفَحْشَآءِ وَاللّٰهُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاً وَّ اللّٰهُ وَاْسِعٌ عَلِیْمٌ ) (سورئہ بقرہ آیت/ ۲۶۸)

شیطان تم سے(انفاق کے وقت) فقیری کا وعدہ کرتا ہے اور تمہیں برائیوں کا حکم دیتا ہے۔ اورخدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے۔ خدا صاحب وسعت بھی ہے اور علیم ودانا بھی۔

شیطانی افکار سے جنگ

خدا وند عالم اس سے پہلی والی آیت میں فرماتا ہے کہ: راہ خدا میں خرچ کرتے یازکوٰة نکالتے وقت شیطان تمہیں فقیری اور تنگدستی سے ڈراتا ہے (خاص طور سے اس وقت جب اچھے اور قابل توجہ اموال کو خرچ کرنا چاہو ) اور بسا اوقات یہ شیطانی وسوسہ انفاق اور بخشش کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہےں یہاں تک کہ یہ بھی ممکن ہے یہ وسوسہ، خمس وزکوٰة نکالنے اور دوسرے واجب انفاق میں بھی اثرانداز ہو جائیں۔

پروردگار لوگوں کو آگاہ اور خبر دار کرنا چاہتا ہے کہ فقر اور تنگدستی کے خوف سے انفاق نہ کرناایک غلط فکر اور شیطانی وسوسہ ہے اور چونکہ یہ ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیا ل آئے یہ خوف فقر اگر چہ شیطان کی طرف سے ہے لیکن ایک منطقی اور قابل توجہ خوف ہے ۔لہٰذا بلا فاصلہ ارشاد فرماتا ہے ”وَیَاْ مُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ “شیطان تمہیں گناہ اور نا فرما نی پر اکساتا ہے لہٰذا یہ فقر اور تنگدستی کا ایک غلط اور بے جا خوف ہے اس لئے کہ شیطان باطل اور گمراہی کے علاوہ کسی اور چیز کی دعوت نہیں دیتا ۔

در حقیقت ہر منفی فکر کا سر چشمہ فطرت سے انحراف اور شیطانی وسوسہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے لیکن ہر مثبت اور کار ساز فکر اور بلند نظری سے آمیختہ فکر کا سر چشمہ الٰہی الہام اور خدا داد پاک وپاکیزہ فطرت ہے ۔

چونکہ شیطانی وسوسہ قوانین خلقت اور سنت الٰہی کے خلاف ہے لہٰذا اس کا نتیجہ بھی انسان کے لئے بد بختی ہے۔

اس کے مقابلے میں قوانین الٰہی انسانی فطرت اور خلقت کے عین مطابق ہیں ۔

واضح لفظوں میں یہ کہ پہلی نظر میں انفاق اور مال کو خرچ کرنا مال کوکم کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے اور یہ وہی شیطانی نظریہ ہے ۔ لیکن غور وفکر اور وسعت نظر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انفاق معاشرہ کی بقا کا ضامن، سماجی عدالت کو مستحکم و استوار کرنے والا ہے اور طبقاتی فاصلے کو کم کرنے کا سبب اور ترقی کا ذریعہ ہے اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ معاشرہ کی ترقی کی صورت میں اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے آرام و آسائش کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور یہ وہی الٰہی نظر یہ اور طرز فکرہے۔

خلاصہ یہ کہ ایک بد بخت اور ناکارہ معاشرہ میں ایک خوشبخت اور سعادت مند زندگی بسر نہیں کی جا سکتی ۔

لہٰذا قرآن مجید مسلمانوں کو اس اہم امر کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ اگر ظاہراًانفاق تمہاری کسی چیز کو کم کر رہا ہے لیکن حقیقت میں وہ تمہارے سرمایہ میںہی اضافہ کرتا ہے اور مادی ومعنوی دونوں لحاظ سے سعادت و خوشبختی کا سبب بنتا ہے۔

آج دنیا میں جہاں طبقاتی فاصلہ، جنگوں اور دوسرے حوادث میں مال ودولت کی بربادی کے پیش نظر اس آیت کے معنی کو درک کرنا کو ئی مشکل بات نہیں ہے۔

اس آیہ کریمہ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ”انفاق نہ کرنے“اور فحشاء اور اخلاقی برائیو ں کے درمیان ایک گہرا رابطہ پایا جاتا ہے ۔اگر فحشاء ،بخل اور کنجوسی کے معنی میں ہو تو ان دونوں کے درمیان اس اعتبار سے رابطہ ہے کہ راہ خدا میں انفاق اور بخشش کو ترک کرنا آہستہ آہستہ انسان کے اندر بخل جیسی بری صفت پیدا کر دیتا ہے اور اگر فحشاء ہر طرح کے گناہ یا جنسی گناہ کے معنی میںہو تو فحشاء اور ترک انفاق کے درمیان کا رابطہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے اس لئے کہ بہت سے گناہ جیسے بے عفتی اور جسم فروشی کی جڑ، غربت ،فقیری اور ناداری ہے۔

اس کے علاوہ راہ خدا میں انفاق کرنے کے کچھ معنوی اثرات و برکات پائے جاتے ہیں جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ”( وَاللّٰهُ یَعِدُکُمْ مَغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلاً ) “’

تفسیرمجمع البیان میں امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ انفاق کرتے وقت دو چیز خدا کی طرف سے ہو تی ہیں اور دو چیز شیطان کی جانب سے،خدا کی طرف سے گناہوں سے مغفرت اور روزی میں برکت ووسعت اور شیطان کی جانب سے فقر کا خوف اور فحشاء اور گناہ کا حکم ۔

لہٰذاآیہ کریمہ میں مغفرت سے مراد گناہوں کی بخشش اور معافی ہے اورفضل سے مراد انفاق کے سایہ میں وسعت اورگشائش رزق و روزی ہے (جیسا کہ ابن عباس سے اس مطلب کونقل کیا گیا ہے)

حضرت علی نے ارشاد فرمایا جب سختی اور تنگدستی میں گرفتار ہو جاؤ تو راہ خدا میںانفاق کرکے خدا کے ساتھ تجارت کرو یعنی راہ خدا میں خرچ کروتاکہ تنگدستی سے نجات حاصل کر سکو ۔

پروردگارعالم آخر آیت میں فرماتا ہے:”( وَاللّٰهُ وَاْسِعٌ عَلِیْمٌ )

اس فقرہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ چونکہ خدا وند عالم کی قدرت وسیع اور لا محدود ہے لہٰذا وہ اپنے کئے ہوئے وعدوں پر عمل کر سکتا ہے۔ پس اس کے وعدہ پر اطمینان رکھنا چاہئے ۔ نہ کہ مکار اور کمزور شیطان کے وعدہ پر ۔ جو انسان کو گناہوں کی طرف کھینچتا ہے اور چونکہ وہ مستقبل سے آگاہ نہیں ہے اور قدرت نہیں رکھتا لہٰذا اس کا وعدہ گمراہی اور گناہوں کی تشویق کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں ہوسکتا ۔

۹. غیر مسلمین پر انفاق کرو

( لَیْسَ عَلَیْکَ هُدَاْهُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَمَاْ تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍفَلِا ٴَنْفُسِکُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلاَّابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ وَمَا تُنْفِقُوامِنْ خَیْرٍ یُوَفَّ اٴِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْلَاْ تُظْلَمُوْنَ ) (سورہ بقرہ:آیت ۲۷۲)

اے پیغمبر! ان کی ہدایت پا جانے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور اے لوگو!جو مال بھی تم راہ خدا میں خرچ کروگے وہ دراصل اپنے ہی لئے ہوگا اور تم صرف خوشنودی خدا کے لئے خرچ کرتے رہو اور جو کچھ بھی خرچ کرو گے پوراپورا تمہاری طرف واپس آئے گا اور تم پر کسی طرح کا کوئی ظلم نہیں ہوگا ۔

شان نزول

تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کے نزول کے بارے میں عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ مسلمان ، غیر مسلمین پر انفاق اور ان کی مدد کرنے پر راضی نہیں تھے لہٰذا مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ ضرورت کے وقت غیر مسلمین پر انفاق اور ان کی مدد کی جا سکتی ہے ۔

اس آیت کا ایک دوسرا بھی شان نزول نقل ہوا ہے جو گزشتہ شان نزول سے مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ سفر ”عمر ةالقضاء“میں اسماء نامی ایک مسلمان خا تون رسول خد(صلي الله عليه و آله و سلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئی۔اس کی ماں اور دادی اسے تلاش کرتی ہوئی اس کے پاس آئیں اوراس سے مالی مدد چاہی ۔چونکہ یہ دونوں مشرک اور بت پرست تھیں لہٰذا اسماء نے ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور کہا :اس سلسلہ میں پہلے آنحضرت سے اجازت حاصل کر لوں اس لئے کہ آپ لوگ میرے دین کی پیروکار نہیں ہیں ۔

اسماء رسول خد(صلي الله عليه و آله و سلّم) کی خدمت میں آئی اور اس سلسلہ میں آپ سے اجازت طلب کی ،اس وقت مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور اسماء کو اپنی غیر مسلم ماں اور دادی پر خرچ اور مالی مدد کی اجازت دی۔

توضیح

پروردگار عالم فرماتا ہے :( لَیْسَ عَلَیکَ هُدَاهُمْ )

اس جملہ کے مخاطب رسول خد (صلي الله عليه و آله و سلّم) ہیں۔ اس آیت اور اس سے قبل کی آیات میںرابطہ پایا جاتا ہے اس لئے کہ ان آیات میں مسئلہ انفاق کو کلی طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس آیت میںغیر مسلمین پرانفاق کرنے کے جواز کا تذکرہ ہے یعنی غیر مسلم فقراء اور مساکین پر اس مقصد کے تحت انفاق نہ کرنا کہ وہ فقر اور سختی کے دباو میں آکراسلام قبول کرلیں اور ہدایت پاجائیں یہ صحیح نہیں ہے ۔ جس طرح سے خداوند عالم کی نعمتیں اور بخششیں اس کائنات میں تمام انسانوں کے لئے ہیں (ان کے عقیدہ اور دین سے قطع نظر) لہٰذا مومنین کو چاہئے کہ مستحبی انفاق اور مالی امداد اور فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرتے وقت غیر مسلم فقیروں اور ناداروں کا بھی خیال رکھیں ۔

البتہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب غیر مسلمین فقراء پر انفاق اور ان کی مالی امداد ایک انسانی مدد کے عنوان سے ہو، کفر کی تقویت اوردشمنوں کے ناپاکمنصو بوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نہ ہو ۔ بلکہ یہ انفاق غیر مسلمین کو اسلام کی انسان دوستی کی تعلیم سے آگاہ کرنے کا سبب بنے ۔

----”پیغمبر اسلام کے اوپر انسانوں کی ہدایت کرنا واجب نہیں ہے“ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آنحضرت تبلیغ اور لوگوں کی راہنمائی کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ تبلیغ اور راہنمائی آپ کی ایک بنیادی ذمہ داری ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی ذمہ داری یہ نہیںہے کہ لوگوں پر دباو ڈالیں اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں ۔دوسرے لفظوں میں مراد جبری ہدایت کی نفی ہے نہ کہ اختیاری ہدایت کی یا پھر اس سے مراد ہدایت تکوینی کی نفی ہے نہ کہ ہدایت تشریعی کی۔

انفاق کا اثر انفاق کرنے والے کی زندگی میں

خداوندعالم فرماتاہے: ”( وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَیْرٍ فَلِا ٴَ نْفُسِکُمْ )

یہ جملہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ راہ خدا میں انفاق کے فائدے تمہاری طرف ہی پلٹتے ہیں اور دوسری طرف انفاق کرنے والے کو اس پسندیدہ عمل کی تشویق کر رہا ہے اس لئے کہ جب انسان کو اس بات کا علم ہو کہ اس کے عمل کا نتیجہ اور فائدہ خوداسی کو حاصل ہونے والا ہے تو وہ اس کام کو اور مزید دلچسپی کے ساتھ انجام دے گا ۔ ممکن ہے کہ شروع میں ایسا معلوم ہو کہ یہاں پر انفاق کے فائدے سے مراد اخروی ثواب اور انعامات الٰہی ہیں اگر چہ یہ معنی اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ انفاق کے فائدے اور ثواب صرف آخرت سے مخصوص ہیں اور وہیں ملیں گے بلکہ اس دنیا میں بھی انھیں اس کا فائدہ پہنچے گا ۔انفاق کے دنیاوی فائدے میں سے معنوی اعتبار سے انفاق کرنے والے میں عفودر گذشت ، بخشش ،فدا کاری اورانسان دوستی کے جذبہ کو پروان چڑھاتا ہے روحی تکامل اور شخصیت کے پروان چڑھنے میں موثر واقع ہونا ہے اور مادی لحاظ سے سماج میں محروم اور فقیر افراد کا وجود بہت سی مشکلات کا سبب بنتا ہے ۔ یہی مشکلات کبھی کبھی پوری مالکیت کو ختم اور سارے مال و ثروت کو نگل کر نیست و نابود کر دیتی ہیں۔انفاق، طبقاتی فاصلہ کو ختم کرتا ہے اور طبقاتی فاصلہ کی وجہ سے ہو نے والے خطرات کو نیست و نابود کر دیتا ہے ۔

انفاق محروم طبقہ کے غصہ اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کو بجھادیتا ہے اور ان کے جذبہ انتقام اور کینہ و حسد کو ختم کر دیتا ہے ۔

لہٰذا سماج کی سلامتی اور انسیت کے اعتبار سے انفاق خود، انفاق کرنے والے کے نفع اورحق میں ہے۔

پروردگار عالم فرماتا ہے : ”( وَمَاتُنْفِقُوْنَ اِلاَّ ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ )

یعنی مسلمان اپنے اموال کو راہ خدا میںخرچ نہیں کرتے مگر پروردگار کی رضایت اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ۔

بعض مفسرین کے قول کے مطابق ممکن ہے کہ یہ جملہ ”جملہ خبریہ“ ہو اور ”نہی“کے معنی میں استعمال کیا گیا ہو یعنی اے مسلمانو ! انفاق نہ کرو مگر رضائے پروردگار کے لئے۔ اس لئے کہ انفاق کے سارے فائدے اسی وقت سامنے آئیں گے جب خدا اور اس کی رضا کے لئے اسے انجام دیا جائے۔

معنی وجہُ اللّٰہ

لغت میں وجہ چہرہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی ”ذات“کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ لہٰذا ”وجہ اللہ“سے مراد ذات پروردگار ہے یعنی انفاق کرنے والے کو چاہئے کہ پروردگار اور اس کی خوشنودی کو نظر میں رکھے۔ آیہ کریمہ میں کلمہ وجہ کو استعمال کیا جانا ایک طرح کی تا کید ہے اس لئے جملہ ”برائے ذات خدا“کی تاکید جملہ ”برائے خدا“ سے زیادہ ہے ۔

اس کے علاوہ چہرہ بدن کا سب سے اہم اور نمایاں حصہ ہے اس لئے کہ بہت سے اہم اعضاء ، آنکھ، کان ، زبان، چہرہ ہی کا جزء ہیں ۔ لہٰذا کلمہ وجہ کا استعمال شرافت ،اہمیت اور عظمت کی نشاندہی کرتا ہے اور آیت میں کلمہ وجہ بطور کنایہ ذات پروردگار کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ جو اس کی عظمت ،احترام اور اہمیت کو سمجھاتا ہے ورنہ واضح سی بات ہے کہ خداکا نہ جسم ہے اور نہ ہی اس کا چہرہ۔ آیت کے آخری حصہ میں ارشاد فرماتا ہے : ”( وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَاْ تُظْلَمُوْنَ )

یہ جملہ گذشتہ بیان کو مزیدواضح کررہا ہے کہ” گمان نہ کرو کہ اپنے کئے ہوئے انفاق سے مختصر فائدہ حاصل کرو گے بلکہ تم جو کچھ انفاق کروگے بطور کامل تمہیں پلٹادیا جائے گا اور ذرہ برابر بھی تمہارے اوپر ظلم نہ کیا جائے گا ۔ لہٰذا دل کھول کر راہ خدا میں انفاق کرو۔“

یہ جملہ قیامت میں انسانی اعمال کے مجسم ہونے پربھی ایک دلیل ہے اس لئے کہ اس میں بیان کیا جا رہا ہے کہ تم جو کچھ بھی انفاق کرو گے وہی تمہیں واپس کر دیا جائے گا۔لہٰذا اس کے بارے میں آپ خوب غورو فکر کریں ۔

۱۰ انفاق کرکے اپنے آپ کو خطروں سے بچائیں

( وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَلَاْ تُلْقُوْا بِاٴَیْدِیْکُمْ اِلیَ التَّهْلُکَةِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن ) (سورئہ بقرہ: آیت ۱۹۵)

خدا کی راہ میں انفاق کرو (ترک انفاق سے) خود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو کیونکہ خدا وند عالم نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

وضاحت

جہاد میں جس طرح مخلص ،دلیر اور تجربہ کار افراد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح مال ودولت کی بھی ضرورت پڑتی ہے ۔کیو نکہ جہاں جہاد کے لئے روحی اور جسمی تیاری ضروری ہے وہیں مناسب اسلحہ اور جنگی وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔یہ صحیح ہے کہ جنگ میں مجاہدوں کے لئے بلند حوصلے کو کافی اہمیت حاصل ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں جنگی وسائل کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیہ مبارکہ اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ اس راہ میں انفاق نہ کرنا گویا خود کو اور مسلمانوں کوہلاکت میں ڈالنا ہے ۔

خاص طورسے صدر اسلام میں بہت سارے مسلمان میدان جنگ میں جانے کاشوق اور جذبہ تورکھتے تھے لیکن فقیر اور نادار ہونے کی وجہ سے جنگ کے معمولی اسلحے اور وسائل کو بھی فراہم نہیں کر سکتے تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ ایسے افرا د رسول خدا کی خدمت میں آتے تھے اورآپ سے تقاضا کرتے تھے کہ ان کے لئے جنگی وسائل اور اسلحے فراہم کئے جائیں اور انہیں میدان جنگ میں پہنچایا جائے لیکن وسائل اور اسلحے فراہم نہ ہونے کی صورت میں وہ افراد گریہ کنا ں اور غمگین آنحضرت کی خدمت سے واپس جاتے تھے :”( تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُهُمْ تَفِیْضَ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً اَلَّا یَجِدُوْا مَاْ یُنْفِقُوْنَ )

اگر چہ یہ آیت ، آیات جہاد کے ضمن میں نازل ہوئی ہے لیکن اس سے ایک سماجی حقیقت کا استفادہ کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ بطور کلی انفاق معاشرہ کے افراد کی ہلاکت سے نجات کا سبب ہے اسی کے برعکس جب انفاق اور فقراء کی امداد کو بھلا دیا جائے اور ساری دولت معاشرہ کے چند افراد کے پاس جمع ہوجائے تو محروموں اور فقیروں کی اکثریت وجود میں آئے گی اور بسا اوقات معاشرہ میں ایک عظیم اور زبردست دھماکہ ہوگااور سرمایہ داروں کی جان ومال کو اس کی آگ میں جلا کر راکھ کر دے گا۔ (سورئہ توبہ۔آیت/ ۹۲)

اس بیان کے ذریعہ مسئلہ انفاق اور ہلاکت سے نجات کے درمیان رابطہ واضح ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا انفاق محروموں اور ناداروں کے لئے فائدہ مندہونے سے پہلے دولت مندوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ بے شک دولت کی تقسیم اس کی محافظ ہے جیسا کہ حضرت علی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

حَصِّنُوْا اَمْوَاْلَکُمْ بِالزَّکٰوةِ “زکوٰةدے کر اپنے اموال کی حفاظت کرو۔

آیت کے آخری حصہ میں پروردگار عالم نے لوگوں کے ساتھ احسان اور نیک برتاو کرنے کا حکم دیا ہے ۔”وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ “یعنی پروردگار عالم مرحلہ جہاد اور انفاق سے مرحلہ احسان اور کی طرف ہدایت کررہا ہے اس لئے کہ مرحلہ احسان کا انسانی تکامل اور بلندی کا سب سے اہم مرحلہ ہے جس کی طرف اسلام نے انسانوں کو متوجہ کیا ہے۔

اس جملہ کا آیہ انفاق کے ذیل میں ذکر کیا جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انفاق، احسان ،نیک برتاو اور مہربانی کے ساتھ ہونا چاہئے اور ہر قسم کے احسان جتانے اور سامنے والے کو رنجیدہ اور دکھ دینے والی باتوں سے دور اور خالی ہونا چاہئے ۔

۱۱ کون لوگ آتش جہنم سے دور ہیں ؟

( وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقیٰ الَّذِیْ یُو تِیْ مَالَه یَتَزَکّٰی )

اوراس (بھڑکتی ہوئی آگ) سے عنقریب صاحب تقویٰ کو محفوظ رکھا جائے گا۔جو اپنے مال کو دے کر پاکیزگی کا اہتمام کرتا ہے۔(سورئہ لیل آیت: ۱۷،۱۸)

اس مقام پر قرآن مجید ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہے جو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں سے دور ہوں گے۔

تو ضیح

آیہ کریمہ میں لفظ(( یَتََزَ کّٰی ) ) قصد قربت اور خلوص نیت کی طرف اشارہ ہے چاہے یہ جملہ روحی اور معنوی رشد ونمو حاصل کرنے یا اموال کی پاکیزگی کے معنی میںہو۔ اس لئے کہ کلمہ ”تزکیہ“ رشدو نمو کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور پاک کرنے کے معنی میں بھی ۔

سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( ’خُذْ مِنْ اَمْوَاْلِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیْهِمْ بِهَا وَ صَلِّ عَلَیْهِمْ ٴاِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّهُمْ )

پیغمبرآپ ان کے اموال میں سے زکوٰة لے لیجئے کہ اس کے ذریعہ یہ پاک و پاکیزہ ہو جائیں انہیں دعائیں د یجئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین قلب کا باعث ہوگی۔ (سورہ توبہ آیت / ۱۰۳)

اس کے بعد انفاق میں خلوص نیت پر مزید تاکید کےلئے فرماتا ہے: ”وَمَا لِاٴَحَدٍ عِنْدَه مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَیٰ

(جبکہ اس کے پاس کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کی جزا دی جائے )بلکہ انسان کا مقصد صرف رضائے پروردگار کو حاصل کرناہے ”اَلِاَّابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلیٰ “(سوائے یہ کہ وہ خدائے بزرگ کی مرضی کا طلبگار ہے۔)

دوسرے لفظوں میں لوگوں کے درمیان بہت سے انفاق ،اس کے اوپر کئے گئے انفاق کے جواب میں ہوتے ہیں اگر چہ حق شناسی اور احسان کا جواب احسان کے ذریعہ دینا ایک پسندیدہ کام ہے لیکن اس کاحساب متقین کے خالصانہ انفاق سے الگ ہے۔ اسی لئے مذکورہ آیات اس بات کو بیان کررہی ہےں کہ صاحبان تقویٰ کا دوسروں کے اوپر انفاق کرنا نہ ریا کاری کی بنا پر ہوتا ہے اور نہ ہی گذشتہ خدمات کے جواب میں ہوتا ہے بلکہ ان کا مقصدصرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ان کے انفاق کو ایک خاص اہمیت عطا کرتی ہے۔

آیہ کریمہ میں لفظ”وجہ“ ذات کے معنی میں ہے اور اس سے مراد پروردگار کی رضایت اور خوشنودی ہے ۔

تعبیر”ربہ الاعلیٰ“ اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ انفاق معرفتخداکے ساتھ انجام پاتا ہے ۔ اس حا لت میں کہ وہ پروردگار کی ربوبیت سے بھی آگاہ ہےں اور اس کے بلند وبالا مقام و منزلت سے بھی باخبر ہےں ۔

اس کے ضمن میں ہر طرح کی غیر خدا کی نیت کی نفی بھی ہو رہی ہے جیسے خوشنامی اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انفاق کرنا یامعاشرہ میں مقام و منزلت حاصل کرنے کے لئے اور اسی کے مثل دوسرے امور ۔ اس لئے کہ جملہ ”( اِلاَّابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلیٰ ) “ کا مفہوم انفاق کے مقصد کوپروردگارعالم کی مرضی اور خوشنودی سے مخصوص کرنا ہے۔

۱۲. بلند وبالا مقاصد تک پہنچنے کا راستہ

( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا ِممَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِه عَلِیْمٌ ) (سورئہ آل عمران: آیت ۹۲)

تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو اور جو کچھ بھی انفاق کروگے خدا اس سے بالکل باخبر ہے۔

توضیح

( لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّونَ )

لغت میں کلمہ ”بِرّ“ وسعت کے میں معنی میں ہے اسی لئے وسیع صحراوں اور بیابانوں کو ”برّ“ کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے وہ نیک اعمال جن کا نتیجہ وسیع ہوتا ہے اور دوسروں تک بھی پہنچتا ہے اسے ”برّ“کہا جاتا ہے کلمہ ”برّ“ اور ”خیر“ کے درمیان یہ فرق ہے کہ ”برّ“ اس نیکی کو کہتے ہیں جو توجہ ، قصد اور اختیار کے ساتھ انجام دی جائے لیکن ”خیر“ دوسروں کے ساتھ کی جانے والی ہر نیکی کوکہتے ہیں چاہے قصد وارادہ کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر۔

آیت اسی بات کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ: تم ہر گز ”برّ“ اور نیکی کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز وں میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔

آیہ کریمہ میں کلمہ ”برّ“ سے مراد کیا ہے ؟اس سلسلہ میں مفسرین نے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں: بعض نے کہا ہے کہ ”بِّر“ سے مراد بہشت ہے اور بعض نے تقویٰ اور پرہیزگاری کو مراد لیا ہے اور بعض نے جزائے خیر کو۔

لیکن دیگر آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ ”بِرّ“ایک وسیع اور عام معنی میں ہے اور ہرطرح کی نیکی ، ایمان اور عمل صالح کو برّ کہا جاتا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی ۱۷۷ ویں آیت میں آیا ہے کہ خدا،قیامت اور انبیائے الٰہی پر ایمان رکھنا ،محتاجوں اور نیاز مندوں کی مدد کرنا ،نماز، روزہ،وفائے عہد اور مشکلات وسخت حوادث کے مقابلہ میں صبر کرنا یہ سب ”برّ“ہیں۔

لہٰذا واقعی نیکی کے بلند وبالا مقام تک رسائی کی بہت سی شرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط مال کا انفاق ہے جو انسان کے لئے ایک پسندیدہ اور محبوب شے ہے اس لئے کہ خدا سے واقعی محبت اور انسانی اخلاق و اقدار کا احترام اسی وقت معلوم ہو سکتا ہے جب انسان دور اہے پرکھڑا ہو ایک طرف مال و دولت اورمقام و منصب ہو اور وہ اس سے شدید محبت رکھتا ہو اور دوسری طرف خدا، حقانیت ،انسانی عطوفت اور احسان ونیکی ہو ۔

اب اگر وہ خدا وند عالم کے لئے مال وثروت سے قطع نظر کرلے تو اس کی محبت سچی ہے اور اگروہ اس سلسلہ میں فقط جزئی باتوں سے صرف نظر کرنے پر تیار ہو تو خداوند عالم سے اس کی محبت بھی اسی مقدار میں ہے۔اور یہ چیز کسی کے ایمان اور شخصیت کو تولنے کا معیار و میزان ہے ۔

دلوں میں آیات قرآنی کا نفوذ

صدر اسلام میں بعض مسلمانوں کے دلوں میں آیات قرآنی کا اتنا جلدی اور گہرا اثر ہوتا تھا کہ نزول آیات کے فوراً بعد اس کا اثر ظاہر ہو جاتا تھا ۔نمونہ کے طور پر مذکورہ آیت کے سلسلہ میں تاریخ اورتفسیر کی کتابوںمیں مندرجہ ذیل واقعات آئے ہیں :

۱) رسول خد(صلي الله عليه و آله و سلّم) کے صحابی ابوطلحہ انصاری کا مدینہ منورہ میں ایک بہت ہی وسیع وعریض کھجور کا باغ تھا ،مدینہ میں ہر ایک کی زبان پر اس کا چرچا تھا۔ اس باغ میں پانی کا ایک چشمہ تھا۔ جب بھی رسولخدا اس باغ میںتشریف لے جاتے اس چشمہ سے پانی پیتے اور وضو فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ اس باغ کی آمدنی بھی بہت اچھی تھی اس آیہ کریمہ کے نزول کے بعد ابو طلحہ انصاری آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: آپ تو جانتے ہیں کہ میرے نزدیک سب سے محبوب شے یہی باغ ہے اور میں اس کو راہ خدا میں انفاق کرنا چاہتا ہوں تاکہ روز قیامت میرے لئے ذخیرہ بن سکے ۔ آپ نے فرمایا”بخ بخ ذٰلک مال رابح لک“ شاباش شاباش یہی وہ ثروت ہے جو تمہارے لئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: میری نظر میں بہتر یہ ہے کہ اس باغ کو ضرورت مند اور فقیر رشتہ داروں کو بخش دو۔“

ابو طلحہ انصاری نے رسول کریم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا ۔

۲) ایک دن جناب ابوذر کے گھر ایک مہمان آیا۔ چونکہ جناب ابوذر سادہ اور معمولی زندگی بسر کرتے تھے لہٰذا انہوں نے مہمان سے معذرت چاہی کہ مشکلات کی بنا پر میں خود تمہاری مہمان نوازی نہیں کر سکتا۔ فلاں مقام پر میرے چند اونٹ ہیں ۔ زحمت کرکے ان میں سے ایک سب سے اچھا اونٹ لیتے آو (تاکہ تمہارے لئے قربانی کروں )مہمان گیا اور ایک لاغراور کمزور اونٹ لے کر آیا ۔جب ابوذر نے دیکھا تو اس سے فرمایا: تم نے حق امانت ادا نہیں کیا ۔ کیوں ایسا اونٹ لائے ہو؟اس نے جواب میں عرض کیا کہ: میں نے سوچا: ایک دن آپ کو ان اونٹوں کی ضرورت پڑے گی۔جناب ابوذر نے فرمایا: میری نیاز مندی کا زمانہ وہ ہے جب میں اس دنیا سے آنکھ بند کر لوں (کتنا اچھا ہوگا کہ اس دن کے لئے کچھ ذخیرہ کرلوں) اور خدا وند عالم فرماتا ہے:”( لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمّا تُحِبُّونَ )

۳) خلیفہ عباسی ہارون رشید کی زوجہ زبیدہ کے پاس ایک بہت ہی گراں قیمتی قرآن تھا ،زبیدہ نے اسے زرو زیورات اور جواہرات سے مزین کر رکھا تھا اور اس سے بہت زیادہ محبت رکھتی تھی۔ ایک دن جب اسی قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آیہ”( لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمّا تُحِبُّونَ ) “تک پہنچی تو آیت کو پڑھ کر میں ڈوب گئی اوراپنے آپ سے کہا :میرے نزدیک اس قرآن سے زیادہ محبوب کوئی دوسری چیز نہیں ہے لہٰذا اسی کو راہ خدا میں انفاق کر دینا چاہئے۔اس نے ایک شخص کو جوہری کے پاس بھیجا اور اس قرآن کے سارے زروزیورات اور جواہرات کو فروخت کرکے اس کی قیمت سے حجاز کے بیابانوں اور صحراؤں میں بیابان نشینوں کی پانی کی ضرورتوں کو پوراکرنے پر خرچ کر دیا (کنویں کھدوائے)لوگ کہتے ہیں کہ ان کنوؤں کے آثار آج بھی موجود ہیں اور زبیدہ کے نام پر ان کا نام رکھا گیا ہے۔

( وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیٍٴ فَاِنَّ اللّٰهَ بِه عَلِیْمٌ )

آخر آیت میں انفاق کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرماتا ہے :تم جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کروگے، کم ہویا زیادہ ،محبوب مال میں سے ہو یا غیر محبوب مال میں سے، خداوند عالم سب سے آگاہ اور با خبر ہے۔ لہٰذا کوئی بھی چیز اس کے نزدیک نہ ہی گم ہوگی اور نہ ہی پوشیدہ اور نہ ہی اس کی کیفیت اس پر مخفی رہے گی۔(یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ راہ خدا میں انفاق ہونے والی ہر چیز محفوظ ہے اور انفاق کرنے والے روز قیامت ان سب کی جزا دریافت کریں گے۔)

انفاق ،روایات اسلامی میں

۱) رسولخدا نے ارشاد فرمایا :

من اعطی درهماً فی سبیل الله کتب الله له سبعمائة حسنة (۱)

جو شخص راہ خدا میں ایک درہم بھی خرچ کرے گاپروردگار اس کے نامہ اعمال میں سات سو نیکیاں لکھے گا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ روایات میں راہ خدا میں انفاق کے علاوہ کسی دوسرے عمل خیر کے بارے میں اس طرح کے عظیم ثواب کا ذکر نہیں ملتا لہٰذا یہ روایت انفاق کی ایک خاص اہمیت کو بیان کررہی ہے جبکہ یہ کمترین جزا اور ثواب ہے جو انفاق کرنے والوں کو عطا کیا جائے گا ورنہ ”وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ “ کے مطابق کچھ افراد کو دو گنا یا کئی گنا ثواب ملے گا۔

۲) امیرالمومنین حضرت علی نے ارشادفرمایا:

طوبیٰ لمن انفق الفضل من ماله وامسک الفضل من کلامه (۲)

کتنے اچھے ہیں وہ افرادجو اپنی ضرورت کے بعد بچے ہوئے ،مال کو انفاق کردیں اور فضول باتوں سے پر ہیزکریں۔

۳) امام علی سے منقول ہے کہ آپ نے ارشادفرمایا:

لیس لاحد من دنیا الاما انفقه علی اخراه (۳)

دنیا سے ہر شخص کا وہی حصہ ہے جو اس نے اپنی آخرت کے لئےخرچ کیا ہے۔

۴) نیزارشاد فرمایا:

انما لک من مالک ماقدّمته لاخرتک واٴخّرته فللوارث (۴)

تمہارے مال میں بس وہی حصہ تمہارا ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لئے بھیج رکھا ہے اور جو چھوڑ کر جاو گے وہ وارثوں کا حصہ ہوگا۔

تجربہ اور مشاہدہ بھی اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض ورثہ میراث پر اس طرح دل باختہ ہو جا تے ہیں کہ صاحب مال کی طرف کم توجہ دیتے ہیں یہاں تک کہ اس کی واجبی وصیت پر بھی عمل نہیں کرتے ۔

۵) امام جعفر صادق نے ارشادفرمایا:

ملعون ملعون من وهب اللّٰه له ما لاً فلم یتصدّق منه بشیٓءٍ (۵)

بارگاہ خدا سے نکالا ہوا اور ملعون ہے وہ شخص جسے خداوندعالم مال وثروت عطا کرے اور وہ اس میں سے راہ خدا میں خرچ نہ کرے ۔

۶) امام علی ارشادفرماتے ہیں:

انّ العبد اِذامات قالت الملا ئکة ماقدم و قال الناس ما اٴخّر (۶)

جب کوئی شخص اس دنیا سے فوت کر جاتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ مرنے والے نے آخرت کے لئے کیا بھیج رکھا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ کیا چھوڑ کر گیا ہے۔

۷: ۔ایک شخص امام موسیٰ کاظم کی خدمت میں آیا اور عرض کی: میرے کئی بچے ّہیں اور (اس وقت) سب کے سب بیمار ہیں ۔ آپ نے فرمایا :

داو وهم بالصّدقة فلیس شیء اسرع اجابة من الصّدقة ولا اجدیٰ منفعة علی المریض من الصّدقة (۷)

راہ خدا میں صدقہ دے کر مریضوں کا علاج کرو ، دعا کی قبولیت کے لئے صدقہ سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے اور بیماروں کے علاج کے لئے اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔

____________________

(۱)میزان الحکمة ،ح۲۰۶۲۴

(۲)بحارالانوار،ج/۹۶،ص/۱۱۷

(۳)غررالحکم

(۴)غررالحکم

(۵)بحار الانوار،ج۹۶،ص۱۳۳

(۶)بحارالانوار،ج۹۶،ص۱۱۵

(۷)میزان الحکمة، ح ۱۰۳۶۶