دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف0%

دولت کا بہترین مصرف مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف: فرازمند
زمرہ جات:

مشاہدے: 10310
ڈاؤنلوڈ: 2154

تبصرے:

دولت کا بہترین مصرف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 37 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10310 / ڈاؤنلوڈ: 2154
سائز سائز سائز
دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل : انفاق کی قبولیت کے موانع

۱۹. انفاق قبول ہونے کی شرط

( ٰ یا اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاْتُبْطِلُوْاصَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاٴَذی کالذی ینفق ماله ریاء الناس و لایومن بالله و الیوم الآخر فمثله کمثل صفوان علیه تراب فاصابه وابل فترکه صلداً لا یقدرون علیٰ شیء مما کسبوا والله لا یهدی القوم الکافرین و مثل الذین ینفقون اموالهم ابتغاء مرضات الله و تثبیتاً من انفسهم کمثل جنة بربوة اصابها وابل فآتت اکلها ضعفین فان لم یصبها وابل فطل و الله بما تعملون بصیر ) (سورہ بقرہ:آیت ۲۶۴ ۔ ۲۶۵)

ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا نے اور اذیت کرنے سے برباد نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو دکھاوے کے لئے صرف کرتا ہے اور اس کا ایمان نہ خدا پر ہے اور نہ آخرت پر اس کی مثال اس صاف چٹان کی ہے جس پر گرد جم گئی ہو مگرتیز بارش کے آتے ہی بالکل صاف ہو جائے یہ لوگ اپنی کمائی پر بھی اختیا ر نہیں رکھتے اور اللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا ۔

اور جو لوگ اپنے اموال کو رضائے الٰہی کی طلب اور اپنے نفس کے استحکام کی غرض سے خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس باغ کی ہے جو کسی بلندی پر ہو اور تیزبارش آکر اس کی فصل کو دو گنا بنا دے اور اگر تیز بارش نہ آئے تو معمولی بارش ہی کافی ہو جائے اور اللہ تمہارے اعمال کی نیتوں سے خوب با خبر ہے۔

وضاحت

انفاق کے عوامل و نتائج مختلف ہوتے ہیںاور اس کی صورتیں بھی متعدد ہوتی ہیں ۔

مذکورہ بالا دو آیتوں میں سب سے پہلے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مومنین کو راہ خدا میں کئے ہوئے انفاق کو احسان جتانے اور اذیت کرنے کے ذریعہ باطل اور بے اثر نہیں کرنا چاہئے ۔

اس کے بعد احسان جتانے ،اذیت اور دکھاوے کے لئے انفاق کرنے اور اخلاص و انسانی محبت کی بنا پر انجام پانے والے انفاق کی خوبصورت مثال بیان کی گئی ہے۔

سخت اور صاف پتھر کے ایک ٹکڑے کو نظر میںرکھیں جس پر مٹی کی ایکباریک پرت ہو اور اس مٹی کی پرت پر چھڑک دیئے جائیں اور اس پر کھلی ہوا اور دھوپ پڑتی ہو اس کے بعد بارش کے بڑے بڑے قطرے برسیں تو بات یقینی ہے کہ بارش کے قطرے اس کے علاوہ کوئی اورکام نہ کرےں گے کہ مٹی کی اس باریک پرت کو دانوں کے ساتھ بہالے جائے گی اور سخت وصاف پتھر جس پر کسی طرح کی کوئی گھاس نہیں اگ سکتی وہ اپنے سخت اور صاف چہرے کو آشکار کر دے گا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دھوپ ،کھلی ہوا اور بارش کے قطروں نے اس پر کوئی برا اثر ڈالا ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ جگہ ان بیجوں کے لئےمناسب نہ تھی ۔یہ پتھر ظاہری طور سے خوبصورت ہے لیکن اندر سے سخت اورکسی چیز کو قبول نہیں سکتا۔ صرف مٹی کی ہلکی سی پرت نے اسے چھپا رکھا تھا ۔ حالانکہ سبزہ اگانے کے لئے ضروری ہے کہ زمین کے علاوہ،زمین کا اندرونی حصہ بھی جڑوں کو قبول کرنے اور اسے خوراک دینے کے لئے تیارہو۔

قرآن کریم نے دکھاوے والے عمل اور احسان جتانے اور آزار واذیت سے ملے ہوئے انفاق کو مٹی کی اس ہلکی پرت سے تشبیہ دی ہے جو سخت پتھر کے ظاہر کو چھپائے ہوتی ہے ۔جس سے کسی طرح کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ کسان کی زحمتوں کو بھی ضائع کر دیتا ہے۔

(یہ وہ مثال ہے جو پہلی آیت میں دکھاوے کے انفاق، احسان اور آزار واذیت کے ساتھ انفاق کے لئے بیان کی گئی ہے۔)

دوسری خوبصورت مثال

ایک سر سبز و شاداب باغ اور کھیت کو نظر میں رکھیں جو بلند اور زرخیز زمین کھلی فضا میں ہوں اوراس پر دھوپ پڑتی ہو اوراس پر بارش کے بڑے بڑے قطرے گریں اوراگر بارش نہ ہو تب بھی کم سے کم شبنم اور ہلکی ہلکی پھوار کے ذریعہ باغ کی لطافت و شادابی ویسے ہی باقی رہتی ہے۔

اس کے نتیجہ میں ایسے کھیت دوسرے کھیتوں کے مقا بلہ میں دو گنا پھل دیتے ہےں اس لئے کہ اس کی زمین بھی زرخیز ہے اورہلکی ہلکی پھوار بھی پھل کو تیار کرنے کے لئے کافی ہیں چہ جائیکہ موسلادھار بارش اس کی وجہ یہ ہے کہ کھیت ایک بلندی پر واقع ہے اور وہ کھلی فضا اور دھوپ سے اچھی طرح بہرہ مند ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ دور سے دیکھنے والوں کی نگاہوں میں ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے اور سیلاب کے خطرے سے بھی محفوظ ہو تا ہے۔

لہٰذا جو لوگ رضائے پروردگار اور روح میں ایمان کے راسخ ہو جانے کی غرض سے انفاق کرتے ہیںوہ اس کھیت کے مانند ہیں جو بابرکت،مفید اورقیمتی ثمر دےتے ہیں۔

یہاں پر چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

۱) ”( لَاْ تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاٴَ ذیٰ“ ( ) اپنے انفاق کو احسان جتانے اوراذیت کے ذریعہ باطل نہ کرو)سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کچھ برے اعمال، نیک اعمال کے اثر کو ختم کر دیتے ہیں اور اسی کو احباط کہا جاتا ہے جس کی وضاحت عقائد کی کتابوں میں آئی ہے

۲) دکھاوے کے عمل کو ایک سخت و صاف پتھر کے ٹکڑے سے تشبیہ دینا جسے مٹی کی ایک ہلکی سی پرت نے چھپا رکھا ہوایک واضح تشبیہ ہے اس لئے کہ ریاکار انسان اپنے سخت باطن اور بے فائدہ وجود کو خیر خواہی اور احسان کے پردے میں پوشیدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسے اعمال انجام دیتا ہے جن کی اس کے وجود میں کوئی ثابت جڑ نہیں ہوتی لیکن بہت جلدہی اس کی زندگی کے نشیب و فراز اس کے اوپر پڑے ہوئے پردے کو ہٹا دیتے ہیں اور اس کےباطن کو سب کے سامنے ظاہر کر دیتے ہیں ۔

۳) جملہ ”( ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ ) “انفاق کے صحیح اور الٰہی مقاصد کو بیان کر رہا ہے اور وہ دو چیزہے: رضائے پروردگار کی طلب(۲) ایمان کو قوی اور مستحکم بنانا اور روحی سکون و اطمینان حاصل کرنا ۔

یہ جملہ بیان کررہا ہے کہ حقیقی انفاق کرنے والے وہ لوگ ہیں جو پروردگار کی خوشنودی اور اچھے اخلاق کو پروان چڑھانے اور ان صفات کو اپنے اندر مستحکم کرنے اور اسی طرح ان اضطراب اور تکلیفوں کو ختم کرنے کے لئے انفاق کرتے ہیں جو محروموں اور فقیروں کی نسبت احساس ذمہ داری کی وجہ سے ان کے وجدان میں پید اہو تی ہیں لہٰذا آیہ کریمہ میں ”مِن“”فی“ کے معنی میں آیاہے۔

۴) جملہ”( وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر ) “ (تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ) ہر نیک کام انجام دینے والے کو ٹہوکا دے رہا ہے کہ تمہاری نیت میں یا طرز عمل میں ذرہ برابر بھی ریا کاری کا شائبہ تمہارے نیک عمل کے اجروثواب کو برباد کر سکتا ہے اس لئے کہ خدا مکمل طور سے تمہارے اعمال کانگراں اور دیکھنے والاہے۔

۲۰. موانع قبول

( قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَتْبَعُهَا اٴَذیً وَّاللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ ) (سورئہ بقرہ:آیت ۲۶۳)

(حاجت مندوں کے سامنے)نیک کلام اور مغفرت، اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل دکھانے کا سلسلہ بھی ہو۔خدا سب سے بے نیاز اور بڑا بردبارہے۔

وضاحت

گذشتہ آیات کی طرح یہ آیہ کریمہ بھی انفاق کرنے والوںکو خبردار کر رہی ہے کہ جو لوگ حاجت مندوں کے سامنے نیک کلامی کرتے ہیں اور ان کے اصرار ، یہاں تک کہ ان سخت کلامی کے باوجود بھی انہیں معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کایہ برتاؤ ان لوگوں کے انفاق سے بہتر ہے جو انفاق کے بعد صاحبان حاجت کو اذیت پہونچاتے ہیں ۔

یہ آیہ کریمہ انسانوں کی سماجی حیثیت اور عزت و آبرو کے سلسلہ میں اسلامی اصول کو بیان کر رہی ہے اور جو اس انسانی سرمایہ کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حاجت مندوں کو نیک کلام اور اچھائی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے راز کو فاش نہیں کرتے ایسے لوگوں کے عمل کو خود خواہ اور کوتاہ نظر افراد کے انفاق سے برتر اور با لاتر قرار دیتی ہے جو ذرا سے انفاق کے بعد با عزت لوگوں کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور ان کی شخصیت اور عزت وآبرو سے کھیلتے ہیں۔ درحقیقت ایسے افراد دوسروں کو نفع سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں اور اگر کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو اس کے بدلے میں اس سے کئی چیزیں لے بھی لیتے ہیں ۔

گذشتہ باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ ”قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ“وسیع اور عام معنی میں ہے اور ہر نیک کلام ،دلداری اوررہنمائی کو شامل ہے۔

مغفرت صاحبان حاجت کی سخت کلامی کو معاف کردینے کے معنی میں ہے جن کا پیمانہ صبر سختیوں اور پریشانیوں کے پے در پے حملہ کی وجہ سے لبریزہو جاتا ہے اورکبھی کبھی بغیر قصد و ارادہ کے ان کی زبان پر سخت کلمات جاری ہو جاتے ہےں ۔

ایسے افراد اس طرح اس ظالم سماج سے انتقام لینا چاہتے ہیں جس نے ان کے حق کو ادا نہیں کیا ہے۔ لہٰذا سماج اور مالدار افراد ان کی محرومیت کو کم کرنے کے لئے کم سے کم جو کام انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کی سخت کلامی کو برداشت کریں اور خوش دلی اور نرمی سے جواب دے کر ان کی زبانیں بند کر دیں۔

بے شک فقراء کی سخت کلامی کو برداشت کرنا اور ان کے برے برتاو کو معاف کر دینا ان کے غضب کو کم کر دے گا۔ یہاں پر اس اسلامی حکم کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور کبھی کبھی ایسے نیک برتاو کی اہمیت انفاق کرنے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

بعض علماء نے اس آیہ کریمہ میں کلمہ مغفرت کو اس کے اصل معنی (یعنی پوشیدہ کرنا ،چھپا نا )میں لیا ہے اور اس کلمہ کو آبرو مند فقراء اور حاجت مندوں کے اسرار کی پردہ پوشی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ البتہ اس تفسیر اور اوپر بیان کی گئی تفسیر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے کہ اگر مغفرت کی ایک عمومی معنی میں تفسیر کی جائے تو عفو و بخشش کو بھی شامل ہو جا ئے گا اور فقراء اور حاجت مندوں کے اسرار کو پوشیدہ رکھنے کو بھی۔

تفسیر نور الثقلین میں رسولخدا سے منقول ہے کہ نے آپ نے ارشاد فرمایا:

اذا سئل السائل فلا تقطعوا علیه مساٴلته حتّی یفرغ منها ثُمَّ ردّوا علیه بوقارٍ و لینٍ اما ببذل یسیراٴوردّ جمیل فاِنّه قد یاٴتکم من لّیس باٴنس ولا جان ینظر ونکم صنیعکم فیماخوّلکم اللّٰه تعالیٰ

اس حدیث نبوی میں آداب انفاق کے ایک گوشہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ آنحضرت نے ارشاد فرمایا: جب کوئی حاجت مند تم سے کسی چیز کا سوال کرے تو اس کے کلام کو قطع نہ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری طرح بیان کردے۔اس کے بعدادب اور نرمی سے اس کا جواب دو یا اپنی قدرت بھر کوئی چیز اسے عطا کردو یا شائستہ طریقہ سے اسے واپس کر دو اس لئے کہ ممکن ہے کہ سوال کرنے والا فرشتہ ہو جو تمہارا امتحان لینے کے لئے بھیجا گیا ہے تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم خدا کی دی ہوئی نعمتوں میں کس طرح عمل کرتے ہو۔

( وَاللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْم ) ٌ

چھوٹے چھوٹے جملے جو آیات کے آخر میں آئے ہیں اور خدا کی کچھ صفتوں کو بیان کرتے ہیں ان کے مضمون انھیں آیات سے مربوط ہوتے ہیں ۔اس نکتہ کے پیش نظر جملہ ”وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْم ٌ “ سے مراد یہ ہے کہ چونکہ انسانی طبیعت سرکش اور باغی ہے لہٰذا وہ منصب ا ور دولت پانے کے بعد اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتی ہے اور کبھی کبھی یہ حالت فقراء کے ساتھ بد کلامی کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا پروردگارفرما رہا ہے کہ صرف خدا ہے جو بے نیاز ہے ۔

درحقیقت صرف خدا ہے جو ہر شے سے بے نیاز ہے اور انسان کی بے نیازی سراب سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا مال ودولت، فقراء اورحاجت مندوں کے سامنے غرورو گھمنڈ کا سبب نہ بننے پائے اور اس سے بڑھ کر اگر خدا وندعالم اپنے نا شکرے بندوں کے سا تھ حلیم اور برد بار ہے تو صاحبان ایمان کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔

ممکن ہے کہ مذکورہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ خدا تمہاری بخشش اور انفاق سے بے نیاز ہے اورتم جو کچھ بھی انجام دیتے ہووہ سب تمہارے ہی فائدہ کے لئے ہے۔ لہٰذا کسی پر احسان نہ جتاو ۔اس کے علاوہ وہ تمہارے برے برتاو کی نسبت حلیم اور بردبار ہے اور وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتاتاکہ تم بیدار ہو جاواور اپنی اصلاح کر سکو۔اس پر غور وفکر کیجئے۔

۲۱. انفاق کی قبولیت کے دوسرے موانع

( اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَاْلَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَاْ یُتْبِعُوْنَ مَآ اٴَنْفَقُوْامَنًّا وَّلَاْ اَذَیً لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عَنْدَ رَبِّهِمْ وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاْ هُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (سورئہ بقرہ/آیت/ ۲۶۲)

جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد احسان نہیں جتاتے اور اذیت بھی نہیں دیتے ان کے لئے پروردگار کے یہاں اجر بھی ہے اور نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔

وضاحت

انمول اور قابل قبول انفاق کیا ہے؟

اس سوال کا جواب مذکورہ آیت میںدیا گیا ہے خدا وند عالم فرماتا ہے: راہ خدا میںکیا گیا انفاق اسی وقت اس کی بارگاہ میں قبول ہوسکتا ہے جب اس کے ساتھ احسان جتا نے اور حاجت مندوں کو تکلیف دینے والی کوئی چیز نہ ہو ۔

لہٰذاجو لوگ راہ خدا میں مال توخرچ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاکاری کرتے ہیں، حاجت مندوں کو اذیت دیتے اوران پر احسان جتاتے ہیںجو ان کی رنجیدگی کا سبب بنتا ہے ایسے افراد اپنے اس ناپسندیدہ عمل کے ذریعہ اپنے اجروثواب کو ضائع کر دیتے ہیں ۔

اس آیہ کریمہ میں جس چیز کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید انسانی زندگی کے سرمایہ کو صرف مادی سرمایہ ہی نہیں جانتا ہے بلکہ وہ معنوی اور اجتماعی سرمایہ پر بھی نظر رکھتا ہے۔

جو شخص کسی کو کوئی چیز دیتا ہے اوراس پر احسان جتاتا ہے یا اسے اذیت دے کر اس کا دل توڑ دیتا ہے تودرحقیقت اس نے اسے کچھ دیانہیںہے اس لئے کہ اس نے ایک مادی سرمایہ دیا ہے اس کے بدلے میںاور ایک معنوی سرمایہ اس سے چھین لیا ہے اور بسا اوقات یہ ذلتیں اور روحی اذیتیں اس مال سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں جو اسے دی گئی ہےں۔

لہٰذااگر ایسے افراد اجروثواب کے مستحق نہ ہوں تو عدالت کے موافق بات ہے بلکہ بہت سے مقامات پر حاجت مند افراد مقروض ہونے کے بجائے طلب گار بن جاتے ہیں۔ اس لئے کہ انسان کی عزت وآبر، مال وثروت سے کہیں زیادہ بر تر و بلند ترہے۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آیہ کریمہ میں احسان جتانے اور اذیت دینے کو کلمہ ”ثُمَّ“ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو عام طور سے دو واقعہ کے درمیان فاصلہ کے لئے آتا ہے (اصطلاحاًتراخی کے لئے)لہٰذا آیت کا معنی یہ ہے کہ !جو لوگ انفاق کرتے ہیں اور بعد میں احسان نہیں جتاتے اور اذیت نہیں دیتے ان لوگوں کا اجر و ثواب خدا کے پاس محفوظ ہے ۔

یہ تعبیر خود اس بات کی گواہ ہے کہ قرآن کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ انفاق ادب و احترام کے ساتھ ہو اور احسان جتا نے سے خالی ہو بلکہ مہینے اور سال گذرنے کے بعد بھی اسے یاد کرکے اس پر احسان نہ جتایا جائے اور یہ تعبیر اسلام میں خالص اور بے ریا خدمات کی طرف نشاندہی کر رہی ہے ۔

متوجہ رہنا چاہئے کہ احسان جتانا اور اذیت دینا جو کہ انفاق کے قبول نہ ہونے کا سبب ہے صرف حاجت مندوں اورفقیروں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ عمومی اور سماجی کاموں میں بھی اس بات کی رعایت کرنا ضروری ہے جیسے راہ خدا میں جہاد کرناعام فلاحی کام انجام دیا مدرسے،مسجدیں ،اور اسپتال بنانا۔

جملہ ”لَھُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ “( ان کے اجرو ثواب ان کے ان پروردگار کے پاس ہیں )راہ خدا میں انفاق کرنے والوں کو اطمینان دلاتا ہے کہ ان کے اجرو ثواب ان پروردگار کے پاس محفوظ ہیں اوروہ اطمینان کے ساتھ اس راہ میں قدم اٹھائیں اس لئے کہ جو چیز خدا کے پاس ہے اس کوہی نابودی کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کمی کا، بلکہ تعبیر”ربہم“ (ان کا پروردگار ) گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا وند عالم ان کے اجر و ثواب کو زیادہ اور برابر اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے جیسا کہ دوسری آیات میں بھی اس بات کو بیان کیا گیا ہے۔

جملہ ”وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاْ هُمْ یَحْزَنُوْنَ “اس بات کے پیش نظر کہ ”خوف“،آنے والے امور کے سلسلہ میں ہوتا ہے اور حزن وغم گذری ہوئی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے لہٰذا فرماتا ہے کہ انفاق کرنے والے پروردگار کے نزدیک اپنے اجرو ثواب کے محفوظ ہونے کی وجہ سے نہ ہی مستقبل اور قیامت سے خوفزدہ ہیں اور نہ ہی اپنے کئے ہوئے انفاق پر محزون اور فکر مند ہیں ۔

روایات اسلامی میں انفاق کی قبولیت کے شرائط

روایات میں راہ خدا میں کئے ہوئے انفاق کو آفات سے بچانے کے لئے کچھ تاکیدی احکام بیان کئے گئے ہیں ۔نمونہ کے طور پر:

۱ - حضرت علی - نے ارشاد فرمایا:

آفةالعطاء المطل (۱)

انفاق اور بخشش کی ایک آفت اس میں دیر کرنا ہے۔

۲ - امام جعفر صادق(ع) ارشادفرماتے ہیں:

اذا کانت لک ید عند انسان فلا تفسدها بکثرةالمنّ والذّکر لها ولکن اتبعها باٴفضل منهافاِٴن ذٰلک اجمل بک فی اخلاقک

جب کسی شخص کو کچھ عطا کرو تو احسان جتانے اور زیادہ یاد دلانے کے ذریعہ اسے ضائع نہ کرو بلکہ اسے بہتر چیز دے کر اسے کامل کرو کہ یہ کام تمہارے اخلاق کو بہتر بنانے میںزیادہ موثر ہے۔(۲)

۳- حضرت علی - نے عہد نامہ مالک اشتر میںارشاد فرمایا ہے:

ایاک والمن علیٰ رعیتک باحسانک او التزید فیما کان من فعلک او ان تعدهم فتتبع موعدک بخلفک فان المن یبطل الاحسان والتزید یذهب بنورالحق ۔(۲)

اور خبردار!رعایا پر احسان بھی نہ جتانا اور جو سلوک کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ان سے کوئی وعدہ کرکے اس کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کر دیتا ہے اور زیادتی عمل کا غرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے۔

____________________

(۱) غررالحکم

(۱)بحار الانوار،ج۷۵،ص۲۸۳

(۲)نہج البلاغہ،مکتوب۵۳

پانچویں فصل : نمائشی انفاق

۲۲ ریا کاروں کا انفاق

( وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اٴَمْوَاْلَهُمْ رِئَا ءَ النَّاسِ وَلَاْ یُومِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَاْ بِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطَانُ لَه قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْناً#وَمَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ وَکَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا ) (سورئہ نساء:آیت ۳۸ ۔ ۳۹)

اور جو لوگ اپنے اموال کو لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس کا شیطان ساتھی ہو جائے وہ بد ترین ساتھی ہے ۔ان کا کیا نقصان ہے اگر یہ اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئیں اور جو چیز اللہ نے ان کو بطور رزق دیا ہے اسے کس راہ میں خرچ کریں اور اللہ ہر ایک کو خوب جانتا ہے۔

الہٰی اورنمائشی انفا ق

یہ آیہ کریمہ متکبر ، خود خواہ اور بخیل افراد کی طرف اشارہ کر رہی ہے جن کا ذکر اس سے پہلی والی آیت میں آیا ہے ۔خدا وند عالم فرماتا ہے: یہ افراد وہ ہیں جو نہ صرف دوسروں کے ساتھ نیکی کرنے میںبخل کرتے ہیںبلکہ دوسروں کو بھی بخل کی دعوت دیتے ہیں :( اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاٴْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ )

اور خدا وند عالم نے انہیں جو کچھ عطا کیا ہے اسے پوشیدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ لوگ ان سے کسی طرح کی کوکوئی توقع نہ رکھیں:( وَیَکْتُمُوْنَ مَآ آتَا هُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِه )

اس کے بعد ایسے لوگوں کا انجام اس طرح بیان کرتا ہے کہ :ہم نے کافرین کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیاّ کر رکھا ہے ۔

شاید تعبیر کفر کا راز یہ ہو کہ عام طور سے کفر کا سر چشمہ بخل اور کنجوسی ہے اس لئے کہ بخیل ، پروردگار کی بے نہایت نعمتوں اور اس کے وعدہ پر مکمل ایمان نہیں رکھتے ہیں ۔اوروہ احسان کرنے والوںسے کہتے ہیںکہ دوسروں کی مدد کرنا انہیں فقیر بنا دے گا۔

ایسے لوگوں کے لئے ذلیل و رسوا کن عذاب ہے اس لئے کہ تکبّر اور دوسروں کو ذلیل کرنے کی سزا یہی ہے۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں پر کنجوسی صرف مال ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ خداکی دی ہوئی ہر نعمت میںکنجوسی کو شامل ہے بہت سے ایسے افراد ہیں جو مال میں بخیل نہیںہوتے لیکن علم و دانش اور اسی طرح کے دوسرے مسائل میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں ۔

مذکورہ آیت میں کنجوس متکبرین کی ایک دوسری صفت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے خداوند عالم فرماتا ہے کہ: یہ وہ لوگ ہیں جو اگر انفاق بھی کرتے ہیں تو لوگوں کے دکھاوے ، شہرت اور مقام و منصب حاصل کرنے کے لئے ۔ان کا مقصد خدمت خلق اور رضائے الہٰی نہیں ہوتا۔ لہٰذاوہ انفاق کرنے میں سامنے والے کے استحقاق کو نظر میں نہیں رکھتے بلکہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح انفاق کیا جائے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جاسکے اور اپنی مو قعیت اور مقام کو مزید مستحکم بنایا جا سکے۔اس لئے کہ وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا ان کے انفاق میں معنوی وہ جذبہ نہیں ہوتاہے۔

( وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطَانُ لَه قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنا ) انہوں نے شیطان کو اپناساتھی بنا رکھا ہے اورجس نے ایسا کیا اس نے اپنے لئے بدترین ساتھی کاانتخاب کیا ہے اور وہ اس سے اچھا راستہ اختیار نہیں کر سکتا اس لئے کہ اس کی ساری فکر اور منطق ان کے دوست، شیطان کی فکر ومنطق ہے اور شیطان ہی ہے جو اس سے کہتا ہے کہ خالصانہ انفاق فقرو غربت کا سبب بنتا ہے:( اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ ) (سورئہ بقرہ/آیت/ ۲۸۶)

اسی لئے وہ یا تو انفاق نہیں کرتا اور کنجوسی کرتا ہے (جیسا کہ پہلی آیت میں اشارہ ہوا)یا انفاق کرتا ہے تو ایسے مقامات پر جہاں سے شخصی اور ذاتی فائدہ اٹھاسکیں۔(جیسا کہ اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے)

اس آیہ کریمہ سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ برا ساتھی کس حد تک انسان کے سر انجام میں موثر ثابت ہو سکتا ہے یہاں تک کہ اس کو پستی کے آخری درجہ تک پہنچا سکتا ہے اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ متکبرین کا شیطان (اور شیطا نی اعمال) سے ایک مسلسل اور مستقل رابطہ ہے صرف وقتی اور اتفاقی نہیں ۔جیسا کہ فرمارہا ہے”انہوں نے شیطان کو اپنا دوست ،ساتھی اور ہمنشین بنا رکھا ہے“

اس کے بعدارشاد فرماتا ہے :( وَمَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْآمَنُوْا بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ ) کیاہواکہ یہ لوگ اس گمراہی میں پلٹ آئے کاش یہ لوگ خدا اور روز قیامت پر ایمان لے آتے اور پروردگار نے انہیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کو خلوص نیت اور پاکیزہ افکار کے ساتھ اس کے بندوں پر انفاق کرتے اور اس کے ذریعہ دنیا وآخرت میں اپنے لئے سعادت و کامیابی کا انتظام کرتے؟!!

آیت کے آخر میں فرماتا ہے خدا ان کے حالات سے آگاہ اورباخبر ہے۔( وَکَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْماً )

بے شک ہرحال میں خدا وند عالم ان کی نیتوں اور اعمال سے باخبر ہے اور اسی کے مطابق انہیں جزا اور سزا دے گا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ گذشتہ آیات جن میں دکھاوے کے انفاق کو بیان کیا گیا تھا اس میں انفاق کی نسبت ”اموال“ کی طرف دی گئی ہے اور اس آیہ کریمہ میں :مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ خدا کی عطا کردہ روزی کی طرف نسبت دی جا رہی ہے تعبیر کا یہ اختلاف ممکن ہے کہ تین اہم نکتوں کی طرف اشارہ ہو:

۱- دکھاوے کے انفاق میں مال کے حلال اور حرام ہونے کی طرف توجہ نہیں ہوتی جب کہ خدائی انفاق میں حلال اور ”مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ “ کا مصداق ہونے کی طرف توجہ ہو تی ہے۔

۲- دکھاوے کے انفاق میں چونکہ انفاق کرنے والا مال کو اپنے سے متعلق جانتا ہے لہٰذا وہ احسان جتانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا جبکہ خدائی انفاق میں چونکہ اس بات کی طرف توجہ ہوتی ہے کہ ان اموال کو خدا ہی نے انہیں عطا کیا ہے اگر اسمیں سے کچھ اس کی راہ میں خرچ کردیا جائے تو احسان جتانے اور منت گذاری کا کوئی مقام نہیں ہے لہٰذاوہ ہر طرح کی منت گذاری اور احسان جتانے سے پرہیز کرتے ہیں ۔

۳- دکھاوے کے انفاق عام طور سے مال سے مخصوص ہوتے ہیں اس لئے کہ ایسے افراد معنوی سرمایہ سے محروم ہوتے ہیں کہ ان میں سے کچھ انفاق کر سکیں لیکن خدائی انفاق کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ساری مادی اور معنوی نعمتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے چاہے مال اور علم ہو یا سماجی مقام و منزلت یہ سب ”( مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ ) “کا مصداق ہیں ۔

۲۳ نمائشی انفاق کا دوسرا نمونہ

( اٴَیَوَدُّ اٴَحَدُکُمْ اٴَنْ تَکُوْنَ لَه جَنَّةٌمِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَاالْاَنْهَارُ لَه فِیْهَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ وَاٴَصَابَه الْکِبَرُوَلَه ذُرِّیَّةٌ ضُعَفَآءُ فَاٴَ صَابَهَا اِعْصَارٌ فِیْهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ کَذَٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُْمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ) ( سورہ بقرہ: آیت ۲۶۶)

کیا تم میں کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں ان کے نیچے نہریں جاری ہوں ان میں ہر طرح کے پھل ہوں اور آدمی بوڑھا ہو جائے اس کے کمزور بچے ہوں اور پھر اچانک تیز گرم ہوا جس میں آگ بھری ہوچل جائے اور سب جل کر خاک ہو جائے خدا اسی طرح اپنی آیات کو واضح کر کے بیان کرتا ہے کہ شاید تم فکر کر سکو۔

وضاحت

ایک بہترین مثال

( اٴَیَوَدُّ اٴَحَدُکُمْ اٴَنْ تَکُوْنَ لَه جَنَّةٌ ) قرآن کریم اس آ یہ کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ روز قیامت انسان اعمال صالح کا محتاج ہو گا اوریہ کہ کس طرح دکھاوا، احسان جتانا اور اذیت دیناانسان کے انفاق اور نیک اعمال کو بربادکر دیتا ہے اس کی ایک عمدہ مثال ذکر کرتا ہے یہ مثال اس شخص کے حالات کو مجسم کرتی ہے جس نے مختلف قسم کے درختوں جیسے کھجور اور انگور وغیرہ کے سرسبز وشاداب باغ پروان چڑھا رکھا ہواوراس میں برابرپانی جاری ہو جس کی وجہ سے سینچائی کی ضرورت نہ ہو ۔ اور وہ شخص بوڑھا ہو جا ئے اوراس کے کمزوروناتواں بچے اس کے ارد گرد ہوں اور زندگی بسر کرنے کا ذریعہ فقط یہی ایک باغ ہواور اچانک ایسی تیز اورگرم ہوا چلے جو آگ سے بھری ہو اور وہ باغ کو جلا کر راکھ کر دے ایسی صورت میں بوڑھا جو جوانی کی طاقت و قوت کھو چکا ہے اس کے پاس زندگی بسر کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہ ہو اور اس کے بچے بھی کمزورو ناتواں ہوں تو اس کی کیا حالت ہوگی اور اسے کس قدر حسرت اور دکھ ہوگا ۔

جو لوگ نیک عمل انجام دیتے ہیں اور اس کے بعد دکھاوے اور احسان جتانے اوراذیت دینے کی وجہ سے اسے ضائع کر دیتے ہیں ان کا حال بھی اسی بوڑھے باغبان کے مانند ہے جس نے بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں اور جب اس سے فائدہ اٹھانے کی اسے سخت ضرورت ہوئی تو اس کام کے نتیجہ بالکل تباہ و بربادہو گیا اور حسرت وغم کے علاوہ کوئی چیز باقی نہ رہی۔

( کَذَٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُْمُ الْآیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ) چونکہ تمام بد بختیاں خاص طور سے احمقانہ کاموں کا سر چشمہ غورو فکر نہ کرنا ہے جیسے احسانجتا ناجس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس کانقصان بہت زیادہ اور جلدی ہوتا ہے لہٰذاخدا وند عالم آخر آیت میں لو گو ں کو غور فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

اس طرح خداآیات کو تمہارے لئے واضح کرتا ہے کہ شاید تم غور و فکر کرو۔

دو نکتے

۱- جملہ ”( وَاٴَصَابَه الْکِبَرُوَلَه ذُرِّیَّةٌ ضُعَفَآءُ )

(باغ کا مالک بوڑھا ہے اور اس کے بچے کمزور ہیں ) سے معلوم ہوتا ہے کہ راہ خدا میں انفاق و بخشش کرنا اور حا جت مندوں کی مدد کرنا سرسبز و شاداب باغ کے مانند ہے خودمالک بھی اس کے پھلوں سے بہرہ مند ہوتا ہے اور اس کے بچے بھی جبکہ ریاکاری ،احسان جتا نا اوراذیت دیناخود اس کی بھی محرومی کا سببہے اور آنے والی نسلوںکی بھی محرومی کا باعث ہے جنھیں اس کے نیک اعمال کے برکات اور ثمرات سے بہرہ مند ہونا ہے ۔

یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ آنے والی نسلیں گذشتہ نسلوں کے نیک اعمال کے نتائج و اثرات میں شریک اور حصہ دار ہیں ۔سماجی اعتبار سے بھی ایسا ہی ہے اس لئے کہ اپنے نیک کاموں کی وجہ سے لوگوں کے درمیان جو محبوبیت،حسن شہرت اور اعتماد حاصل کرتے ہیں وہ ان کی اولاد کے لئے بھی ایک بہت بڑا سرمایہ ہے ۔

۲- جملہ”( اِعْصَارٌ فِیْهِ نَار ) ٌ“ یعنی وہ گرد وباد کہ جس میں آگ ہو “ ممکن ہے کہ ان گرد وباد کی طرف اشارہ ہو جو مسموم اور خشک کر دینے والی ہواوں سے پیدا ہوتی ہیں یا وہ گرد وباد جو ایسے مقام سے گذرا ہو جہاں پر آگ جل رہی ہو ۔

معمول کے مطابق گرد وباد اپنے راستہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچا دیتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس گردو باد کی طرف اشارہ ہو جو بجلیکے ساتھ ہو جب بھی وہ کسی مقام پر گرتی ہے تو ہر چیز کو راکھ میں بدل دیتی ہے ۔بہر حال بہت جلدی اور مکمل نا بودی اور تباہی کی طرف اشارہ ہے۔(تیسرا احتمال زیادہ مناسب لگتاہے)

نمائشی انفاق ،روایات کی روشنی میں

خلوص نیت تمام عبادات خاص طور سے انسانی امداد اور اعمال خیر کی قبولیت کی شرط ہے اسی لئے اس مسئلہ کو روایات معصومین (ع)میں وسیع پیمانے پر بیان کیا گیا ہے نمونہ کے طور پر یہاں چند روایات کو بیان کیا جا رہا ہے:

۱) رسول خدا ارشادفرماتے ہیں :

سبعةفی ظلّ عرش اللّٰه عزّ وجلّ یوم لا ظلّ اِلاّ ظلّه :رجل تصدّق بیمینه فاخفا ه عن شماله (۱)

سات دستہ ایسے ہیں جو اس دن عرش الٰہی کے سایہ میں ہوں گے جس دن سایہ (الٰہی) کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا(ان میں سے) ایک وہ دستہ ہے جو داہنے ہاتھ سے صدقہ دے اور بائیں ہاتھ کو علم بھی نہ ہو گا ۔

۲) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

افضل ما توسّل به المتوسّلون، الایمان باللّٰه و صدقة السّرّفاِنّها تذهب الحطیئةو تطفی غضب الرّب (۲)

سب سے برتر چیز جس سے توسل کرنے والے توسل کرتے ہیں ، پروردگار پر ایمان لانااور پوشیدہ طور سے صدقہ دینا ہے جو گناہ کو نابود اور غضب الٰہی کو ختم کردیتا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا :

لا تتصدّق علی اٴعین النّاس لیز کوّکَ فاِنّک اٴن فعلت ذٰلک فقد استو فیت اجرک ولکن اٴذا اٴَعطیت بیمینک فلا تطّلع علیها شمالک فاٴن الّذی تتصدّق له سرّاًیجزیک علانیة (۳)

لوگوںکے سامنے انفاق نہ کرو کہ وہ تمہاری تعریف کریں اس لئے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تم اپنی جزا حاصل کرچکے ہو۔ (یعنی لوگوں کی تعریف ) لیکن جب بھی تم داہنے ہاتھ سے انفاق کرو تو اس طرح انفاق کرو کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ بھی ہو سکے ۔اس لئے کہ جس کے لئے تم پوشیدہ طورسے صدقہ دے رہے ہو وہ تمہیں علانیہ اس کی جزا دے گا۔

____________________

(۱)بحارالانوار۔ج ۹۳،ص۱۷۷

( ۲)میزان الحکمة،حدیث۱۰۴۱۸

(۳)بحارالانوار،ج ۷۵،ص۲۰۴