تجوید قرآن

تجوید قرآن مؤلف:
زمرہ جات: تجویداورقراءت
صفحے: 35

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 52897 / ڈاؤنلوڈ: 7078
سائز سائز سائز
تجوید قرآن

تجوید قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

      تجوید قرآن

مولف

علی اصغر رضوانی

۱

علم تجوید اور اس کی اھمیت و ضرورت

تجوید کے معنی:

  بھتر اور خوبصورت بنا نا۔

تجوید کی تعریف:

  تجوید اس علم کا نام ھے جس سے قرآن کے الفاظ اور حروف کی بھتر سے بھتر ادائیگی اور آیات و کلمات پر وقف کے حالات معلوم ھوتے ھیں ۔

اس علم کی سب سے زیادہ اھمیت یہ ھے کہ دنیا کی ھر زبان اپنی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی رکھتی ھے کہ اس کا طرز و لھجہ “دوسری زبانوں سے مختلف ھوتا ھے اور یھی لھجہ اس زبان کی شیرینی ،چاشنی اور اس کی لطافت کا پتا دیتا ھے ۔

جب تک لھجہ و انداز باقی رھتا ھے زبان دلچسپ اور شیریں معلوم ھوتی ھے اور جب لھجہ بدل جاتا ھے تو زبان کا خاصہ ختم ھو جاتا ھے ۔ ضرورت ھے کہ کسی زبان کو سیکھتے وقت اور اس میں تکلم کرتے وقت اس با ت لحاظ رکھا جائے کہ اس کے الفاظ اس انداز سے ادا ھوںکہ جس انداز سے اھل زبان ادا کرتے ھیں اور اس میں حتی الامکان وہ لھجہ باقی رکھا جائے جو اھل زبان کا لھجہ ھے اس” لئے بغیر تجوید ،زبان تو وھی رھے گی لیکن اھل زبان اسے زبان کی بر بادی ھی کھیں گے ۔

۲

اردو زبان میں بے شمار الفاظ ھیں جن میں "ت" اور "د” کا لفظ آتا ھے اور انگریزی زبان میں ایسا کوئی لفظ نھیں ھے ۔ انگیریزی بولنے والا جب اردو کے ایسے لفظ کو استعمال کرتا ھے تو “تم “ کے بجائے “ٹم” اور “دین “ کے بجائے “ڈین “کھتا ھے جو کسی طرح بھی اردو کھے جانے کے لائق نھیں ھے ۔

یھی حال عربی زبان کا بھی ھے کہ اس میں بھی الفاظ و حروف کے علاوہ تلفظ و ادا ئیگی کو بھی بے حد دخل ھے اور زبان کی لطافت کا زیادہ حصہ اسی ایک بات سے وابستہ ھے۔ اس کے سیکھنے والے کا فرض ھے کہ ان تمام آداب پر نظر رکھے جو اھل زبان نے اپنی زبان کے لئے مقرر کئے ھیں اور ان کے بغیر تکلم کر کے وہ دوسرے کی زبان کو برباد نہ کرے ۔

علم تجوید کی عظمت

    

ایسے اصول و آداب اور اس طرح کے شرائط و قوانین کو پیش نظر رکھنے کے بعد پھلا خیال یھی پیدا ھوتا ھے کہ انسان ایسی زبان کو حاصل ھی کیوں کرے جس میں اس طرح کے قواعد ھوں اورجس کے استعمال کے لئے غیر معمولی اور غیر ضروری زحمت کا سامنا کرنا پڑے لیکن یہ خیال بالکل غلط ھے ۔ ایک غیر مسلم تو یہ بات سوچ بھی سکتا ھے مگر مسلمان کے امکان میں یہ بالکل نھیں ھے ۔مسلمان کی اپنی کتاب اور اس کا دستور زندگی عربی میں ھی نازل ھوا ھے۔ اس کی دنیا و آخرت کا پیغام عربی زبان ھی میں ھے اور وہ دستور ، قانون زندگی ھونے کے علاوہ رسول اکرم (ص) کا معجزہ اور اس کی برتری کی دلیل بھی ھے ۔ اب اگر اس کتاب کو نظر انداز کر دیا گیا تو اسلام کا امتیاز ھی کیا رھے گا اور رسالت پیغمبر اسلام (ص) کوثابت کرنے کا وسیلہ کیا ھوگا ۔

۳

قرآن صرف دستور حیات ھوتا تو ممکن تھا کہ انسان کسی طرح بھی تلفظ کر کے مطلب نکال لیتا اور عمل کرنا شروع کر دیتا ۔ دستور زندگی معنی چاھتا ھے اسے الفاظ کے حسن سے زیادہ دلچسپی نھیں ھوتی ۔ لیکن قرآن کریم معجزہ بھی ھے ۔ وہ قدم قدم پر اپنی تلاوت کی دعوت بھی دیتا ھے ۔اپنی فصاحت و بلاغت کا اعلان بھی کرتا ھے اور اپنے سے وابستہ افراد کو متوجہ بھی کراتا ھے کہ اس کے محاسن پر غور کریں اور اس کی خوبیوں کو عالم آشکار کریں ۔

یہ نا ممکن ھے کہ کوئی شخص اس کے ماننے والوں میں شمار ھو اور اس کی طرف سے بے توجہ ھو جائے ۔لھذا جب توجہ کرے گا تو تلاوت کرنا ھو گی اور جب تلاوت کی منزل میں آئے گا تو ان تمام اصول و آداب کو سیکھنا پڑے گا جن سے زبان کا حسن و امتیاز ظاھر ھوتا ھے ۔

قرآن مجید تو خود بھی ترتیل وغیرہ کا حکم دیتا ھے جس سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ وہ بھر طور تلاوت کر اکے اپنے حسن کو پامال نھیں کرانا چاھتا اور اس کا منشاء یھی ھے کہ اس کی تلاوت کی جائے تو انھیں شرائط و آداب کے ساتھ جن سے اس کی عظمت اور اس کا حسن وابستہ ھے۔

اس مقام پر یہ بھی ممکن ھے کہ کوئی انسان ان امتیازات کے باوجود تلاوت قرآن نہ کرے اور بھت سے بھت ثواب سے محروم ھو جائے ۔اس پر کوئی ایسا دباؤ نھیں ھوتا کہ وہ تلاوت کی ذمہ داری لیکر ان تمام مشکلات میں گرفتار ھو لیکن اسلام نے نماز میں حمد و سورہ وغیرہ واجب کر کے اس آزادی کو بھی ختم کر دیا اور واضح طور پر بتا دیا کہ تلاوت قرآن ھر مسلمان کا فرض ھے نیز تلاوت عربی زبان کے بغیر نھیں ھو سکتی ۔ زبان کا عربی رہ جانا بھی اس بات پر موقوف ھے کہ اس کے آداب و شرائط کا لحاظ رکھا جائے اور اس میں کوئی ترمیم اور تبدیلی نہ کی جائے ۔

۴

جس کے بعد یہ کھنا بھی صحیح ھے کہ علم تجوید اپنی تفصیلات کے ساتھ نہ سھی لیکن ایک مقدار تک واجب ضرور ھے اور اس کے بغیر نماز کی صحت مشکل ھے اور نماز ھی کی قبولیت پر سارے اعمال کی قبولیت کا دار و مدار ھے۔ اب اگر کوئی شخص تجوید کے ضروری قواعد کو نظر انداز کر دیتا ھے تو قرات قرآن کی طرح نماز کو بھی بر باد کرتا ھے اور جو نماز کو برباد کرتا ھے، اس کے سارے اعمال کی قبولیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ھے اور یھی علم تجوید کی عظمت و برتری کی بھترین دلیل ھے۔

      

تجوید کے شعبے

    

علم تجوید میں مختلف قسم کے مسائل سے بحث کی جاتی ھے۔ کبھی قرآن کے جدا حروف کے بارے میں دیکھا جاتا ھے کہ ان کے ادا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ھے ، کبھی مرکب الفاظ کی ادائیگی کے بارے میں گفتگو ھوتی ھے اور کبھی پورے پورے جملے کے بارے میں بحث ھوتی ھے کہ اس کے ادا کرنے میں وقف و وصل کے اصول کیا ھوں گے اور انھیں کس طرح ادا کیا جائے گا ۔

تجوید کے مسائل سے باخبر ھونے کے لئے ان تمام انواع و اقسام پر نظر کرنا ھو گی اور ان سے با قاعدہ طور پر واقفیت پیدا کرنا ھو گی ۔

۵

حروف

    

چونکہ علم تجوید میں قرآن مجید کے حروف سے بحث ھوتی ھے اس لئے ان کا جاننا ضروری ھے ۔

عربی زبان میں حروف تھجی کی تعداد ۲۹/ ھے ۔ ٹ ۔ڈ ۔ڑ وغیرہ ھندی کے مخصوص حروف ھیں اور پ ۔ چ ۔ ژ ۔ گ فارسی کے مخصوص حروف ھیں۔ ان کے علاوہ جملہ حروف تینوں زبانوں میں مشترک ھیں ۔

یہ حروف اپنے طرز ادا کے اعتبار سے مختلف قسم کے ھیں ۔ ان اقسام کے سلسلہ میں بحث کرنے سے پھلے ان مقامات کا پتہ لگانا ضروری ھے جھاں سے یہ حروف ادا ھوتے ھیں اور جنھیں علم تجوید میں “مخرج “ کھا جاتا ھے ۔

مخارج حروف

علمائے تجوید نے ۲۹/ حروف تھجی کے لئے جو مخارج بیان کئے ھیں ان کی تعداد ۲۷/ ھے جنھیں مندرجہ ذیل پانچ مقامات سے ادا کیا جاتا ھے ۔

۱ ۔ جوف دھن

۲ ۔ حلق

۳ ۔ زبان

۴ ۔ ھونٹ

۵ ۔ ناک ۔

۶

یھاں مختصر لفظوں میں ان حروف کے مخارج کا تعین کیا جارھا ھے ۔ عملی طور پر صحیح تلفظ کرنے کے لئے اھل فن کا سھارا لینا پڑے گا ۔

جوف دھن

جوف دھن سے صرف تین حروف” الف ۔ واو ۔ ی” ادا ھوتے ھیں بشرطیکہ یہ ساکن ھوں جیس ۔کریے جواد ۔ غفورم

حلق

حلق کے تین حصے ھیں :

۱ ۔ ابتدائی حصہ :اس سے “خ۔ غ” ادا ھوتا ھے ۔

۲ ۔ درمیانی حصہ : اس سے” ح۔ ع” ادا ھوتا ھے ۔

۳ ۔ آخری حصہ : اس سے “ھ ۔ء” ادا ھوتا ھے ۔

۷

زبان

حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کے دس حصے ھیں :

۱ ۔ آخر زبان اور اس کے مقابل تالو کا حصہ ۔ اس سے “قاف “ کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۲ ۔ “قاف “ کے مخرج سے ذرا آگے کا حصہ اور اس کے مقابل کا تالو ،ان کے ملانے سے “ کاف “ کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۳ ۔ زبان اور تالو کا درمیانی حصہ ، ان سے “جیم “ “شین “ “ ی” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۴ ۔ زبان کا کنارہ اور اس کے مقابل داھنی یا بائیں جانب کے ڈاڑھیں جن کے ملانے سے “ ضاد” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۵ ۔ نوک زبان اور تالو کا ابتدائی حصہ جس کے ملانے سے “لام “ کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۶ ۔ زبان کا کنارہ اور” لام “ کے مخرج سے ذرا نیچے کا حصہ ، جس سے “ن” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۷ ۔ نوک زبان کا نچلا حصہ اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے “ر” ادا ھوتی ھے ۔

۸ ۔ زبان کی نوک اور اگلے دونوں اوپری دانتوں کی جڑ ، زبان کو اوپر کی جانب اٹھاتے ھوئے ذرا ذرا سے فرق سے “ط” “دال “اور “ ت” ادا ھوتی ھے ۔

۹ ۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپری اور نچلے دانتوں کے کناروں سے “ز”“س”“ص” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۱۰ ۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپری دانتوں کا کنارہ، ان کے” ملانے سے “ث”“ذال”“ظ” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۸

ھونٹ

حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ھیں :

۱ ۔ نچلے ھونٹوں کا اندرونی حصہ اور اگلے اوپری دانتوں کا کنارہ، ان کے ملانے سے “ف” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۲ ۔ دونوں ھونٹوں کے درمیان کا حصھ، یھاں سے “ب” “م “ “واو” کی آواز نکلتی ھے ۔ بس اتنا فرق ھے کہ “واو” کی آواز ھونٹوں کو سکوڑ کر نکلتی ھے اور “ب” “میم” ھونٹوں کو ملانے سے ادا ھوتے ھیں۔

ناک

غنہ والے حروف ناک سے ادا ھوتے ھیں جو صرف نون ساکن اور تنوین ھے ۔ شرط یہ ھے کہ ان کا غنہ کے ساتھ ادغام کیا جائے اور اخفاء مقصود ھو ۔ نون اور میم مشدد کا بھی انھیں حروف میں شمار ھوتا ھے ۔ں، نّ،مّ۔

      

۹

اقسام حروف

    

حروف تھجی کی انداز، ادا ئیگی، احکام اور کیفیات کے اعتبار سے مختلف قسمیں ھیں ۔

حروف مد

واو ، ی ، الف ۔ ان حروف کو اس وقت حروف مد کھا جاتا ھے جب -واؤ- سے پھلے پیش -الف- سے پھلے زبر اور - ی -سے پھلے زیر ھو اور اس کے بعد ھمزہ یا کوئی ساکن حرف ھو جیسے سوء ۔ غفور۔جآء ۔ صآد ۔ جیٓء ( ج ی ء ) جیٓم وغیرہ ۔

بعد کے ھمزہ یا حرف ساکن کو سبب کھتے ھیں۔ مد کے معنی آواز کےکھینچنے کے ھیں ۔

حروف لین

واو- اور- ی- سے پھلے زیر ھو تو ان دونوں کو حروف لین کھتے ھیں۔

لین - کے معنی ھیں نرمی۔ ان حالات میں یہ دونوں حروف ، مد کو آسانی سے قبول کر لیتے ھیں جیسے خوفٌ ۔ طیر ۔

اگر حرف لین کے بعد کوئی حرف ساکن بھی ھے تو اس حرف پر مد لگانا ضروری ھے جیسےکٓھٓیٰٓعٓصٓ( کآف ھا یا عین صاد ) کہ اس کلمہ میں مثلا ًعین کی -ی -لین ھے اور اس کے بعد نون ساکن ھے جس کی بنا پر عین کی-ی - کو مد کے ساتھ پڑھنا ضروری ھے

۱۰

حروف شمسی

وہ حروف ھیں جن سے پھلے اگر - الف لام - آجائے تو ملا کر پڑھنے میں ساقط ھو جاتا ھے جیسے ت، ث، د، ذ، ر ، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل ، ن ، ۔ ملا کر پڑھتے وقت ان کا الف لام ساقط ھو جاتا ھے جیسے و الطور ۔ و الشمس ، و التین وغیرہ ۔

حروف قمری

وہ حروف ھیں جن کے پھلے الف لام آجائے تو ملانے میں بھی پڑھا جاتا ھے مگر الف نھیں پڑھا جاتا جیسے ا، ب، ج، ح، غ، ف، ق، ک، م۔ و۔ ھ، ی۔ کہ انکو ملا کر پڑھنے میں لام ساقط نھیں ھوتا جیسے و القمر ، و الکاظمین ، و المجاهیلن ، و الخیل و اللیل وغیره ۔

      

کیفیات و صفات حروف

      

جس طرح حروف مخارج سے ادا ھوتے ھیں اسی طرح حروف کی مختلف صفتیں ھوتی ھیں مثلاً استعلاء ،جھر ، قلقلہ وغیرہ۔ کبھی مخرج اور صفت میں اتحادھوتا ھے جیسے -ح- اور- عین- اور کبھی مخرج ایک ھوتا ھے اور صفت الگ ھوتی ھے جیسے -ھمزہ- اور -ہ -۔

۱۱

۱ ۔ حروف قلقلہ

خ ۔د:ان حروف کی خاصیت یہ ھے کہ اگر یہ حروف درمیان یا آخر کلمہ میں ھوں اور ساکن بھی ھوں تو انھیں اس زور سے ادا کرنا چاھئے کہ متحرک معلوم ھوں جیسے یدخلون ۔لم یلد ۔

۲ ۔ حروف استعلاء

یہ سات حروف ھیں: ص، ض، ط، ظ، غ، ق، خ۔ ان کو حروف استعلاء اس لئے کھا جاتا ھے کہ ان کی ادائیگی کے لئے زبان کو اٹھانا پڑتا ھے جیسے خط ، یخصمون ۔

۳ ۔ حروف یرملون

یہ چہ حروف ھیں :ی ، ر، م، ل، و، ن ۔ ان حروف کی خاصیت یہ ھے کہ اگر ان سے پھلے نون ساکن یا تنوین ھے تو اسے تقریباً ساقط کر دیا جائے گا اور بعد کے حروف کو مشدد پڑھا جائے گا جیسے محمد و آل محمد ، لم یکن لہ ۔

۴ ۔ حروف حلق

یہ چہ حروف ھیں :ح۔خ۔ غ۔ع۔ ہ ۔ء۔ جو حلق سے ادا کئے جاتے ھیں، ان سے پھلے واقع ھونے والا نون ساکن واضح طور پر پڑھا جائے گا جیسے- انعمت -

۱۲

کیفیات ادائیگی حروف

    

حروف تھجی کی ادائیگی کے اعتبار سے چار قسمیں ھیں :

۱ ۔ ادغام---- ۲ ۔ اظھار---- ۳ ۔ قلب---- ۴ ۔ اخفاء

۱ ۔ادغام

ادغام کے معنی ھیں ساکن حرف کو بعد والے متحرک حرف سے ملا کر ایک کر دینا اور بعد والے متحرک حرف کی آواز سے تلفظ کرنا ۔ ادغام کی چار قسمیں ھیں :ادغام یرملون ۔ ادغام مثلین ۔ ادغام متقاربین ۔ ادغام متجانسین ۔

الف: ادغام یرملون

اگر کسی مقام پر حروف یرملون میں سے کوئی حرف متحرک ھو اور اس سے پھلے نون ساکن یا تنوین ھو تو اس نون کو ساقط کر کے حرف یرملون کو مشدد کر دیں گے اور اس طرح حرف یرملون میں -ن - کا ادغام ھو جائے گا جیسے -اشھد ان لا الٰہ الّا اللّہ -۔

اس ادغام میں بھی دو صورتیں ھیں : ادغام غنہ ، ادغام بلا غنہ

۱۳

۱ ۔ ادغام غنہ کا طریقہ یہ ھے کہ حروف کو ملاتے وقت نون کی ھلکی آواز باقی رہ جائے ۔ جیسا کہ یرملون کے- ی ، م ،و ، ن -میں ھوتا ھے ۔ جیسے- علی ولی اللہ- ۔

۲ ۔ ادغام بلا غنہ میں نون بالکل ختم ھو جاتا ھے جیسے- لم یکن لہ- ۔

یرملون میں ادغام کی شرط یہ ھے کہ نون ساکن اور حرف یرملون ایک ھی لفظ کا جزء نہ ھوںبلکہ دو الگ لفظوں میں پائے جاتے ھوں ورنہ ادغام جائز نہ ھوگا جیسا کہ لفظ -دنیا-ھے کہ اس میں- ی -سے پھلے نون ساکن موجود ھے لیکن ادغام نھیں ھوتا۔

ب: ادغام مثلین

اگر دو حروف ایک طرح کے جمع ھو جائیں اور پھلا ساکن اور دوسرا متحرک ھو تو پھلے کو دوسرے میں ادغام کریں گے جیسے من ناصرین لیکن اس ادغام کی شرط یہ ھے کہ پھلا حرف -حرف مد - نہ ھو ورنہ ادغام جائز نہ ھو گا جیسے - فی یوسف- میں ادغام نھیں ھوا حالانکہ -فی - کی -ی - ساکن ھے اور -یوسف - کی -ی - متحرک اس لئے کہ -ی- حرف مد ھے ۔

ج: ادغام متقاربین

متقاربین ان دو حروف کا نام ھے جو مخرج اور صفت کے اعتبار سے قریب ھوں جیسا کہ سابق میں واضح کیا جا چکا ھے کہ بھت سے حروف آپس میں ایک ھی جیسے مخرج سے ادا ھوتے ھیں اور انھیں قریب المخرج کھا جاتا ھے ۔جیسے- قُلْ رَّبِّ - -- اَلَمْ نَخْلُقْکُمْ -

۱۴

د:ادغام متجانسین

اگرایک جنس کے دو ایسے حرف جمع ھو جائیں جن کا مخرج ایک ھو لیکن صفتیں الگ الگ ھوں نیزان میں سے پھلا ساکن اور دوسرا متحرک ھو تو پھلے کو دوسرے میں ادغام کر دیا جائے گا جیسے :

د۔ط۔ت۔ قَدْ تَّبَیَّنَ ، قَالَتْ طَائِفَةٌ - بَسَطْتَّ

ظ۔ذ۔ث۔ اِذْ ظَلَمُوْا - یَلَهَثْ ذَلِکَ

ب۔م ۔ اِرْکَبْ مَّعَنَا

د ۔ج ۔ قَدْ جَاءَ کُمْ

۲ ۔ اظھار

اگر نون ساکن یا تنوین کے بعد حروف حلق یا حروف یرملون میں سے کوئی حرف ھو تو اس نون کو باقاعدہ ظاھر کیا جائے گا ۔ جیسے: مِنْ غَیْرِه - اَنْهَار - دُنْیَا - قِنْوَانْ -

۳ ۔ قلب

اگر نون ساکن یا تنوین کے بعد -ب- واقع ھو جائے تو نون میم سے بدل جائے گا اور اسے غنہ سے ادا کیا جائے گا جیسے- اَنْبِیَاءٌ یَنْبُوْعاَ -یھاں پر نون تلفظ میں ھی پڑھا جاتا ھے اور جیسے- رحیم بکم -کہ یھاں تنوین کا نون بھی تلفظ میں- میم- پڑھا جائے گا ۔

۱۵

۴ ۔ اخفاء

حروف یرملون ،حروف حلق اور ب کے علاوہ باقی ۱۵/ حروف سے پھلے نون ساکن یا تنوین واقع ھو تو اس نون کو آھستہ ادا کیا جائے گا جیسے:-- انْ کان - انْ شاء - صفاً صفاً -اَنْداَد -

      

حرکات

    

حروف پر آنے والی علامتوں کی پانچ قسمیں ھیں جن میں سے تین کو حرکات کھا جاتا ھے ۔زبر ۔زیر ۔پیش ۔ جسے عربی میں فتحہ ،ضمہ ، کسرہ کھتے ھیں ۔ باقی دو میں ایک "مد"- - اور دوسرے کو" سکون" کھا جاتا ھے ۔

مد

مد کی دو قسمیں ھیں:

--- ۱ ۔ مد اصلی--- ۲ ۔ مد غیر اصلی

۱۶

مد اصلی

وہ مد ھے جس کے بغیر واؤ ۔ الف ۔ ی ۔ کی آواز اد ا نھیں کی جا سکتی اور اس کے لئے علیحدہ سے کسی سبب کی ضررت نھیں ھوتی جیسے قال۔ ۔ قیل ۔یقول ۔

ان مثالوںمیں الف ۔ی ۔واؤ کی آواز پیدا کرنے کے لئے ان حرف کو دو حرکتوں کے برابر کھینچنا ھو گا ۔ واضح رھے کہ مٹھی بند کر کے متوسط رفتار سے ایک انگلی کے کھولنے میں جتنی دیر لگتی ھے وہ ایک حرکت کی مقدار ھے ۔

مد غیر اصلی

وہ مد ھے جھاں- واؤ، الف، ی - کی آواز کو کسی سبب ( ھمزہ یا سکون ) کی وجہ سے مد اصلی کے مقابل زیادہ کھینچ کر ادا کیا جاتا ھے ۔

مد غیر اصلی کی ھمزہ کے اعتبار سے دو قسمیں ھیں : ۱ ۔ واجب متصل-- ۲ ۔ جائز متصل

واجب متصل

یہ اس مد کا نام ھے جس میں مد اور ھمزہ ایک ھی کلمہ کا جز ھوں جیسے: جآء ۔ شئت ۔سوء کہ ان تینوں مثالوں میں الف ۔ ی ۔ واؤ ۔ اور ھمزہ ایک ھی کلمہ کا جز ء ھیں ۔ اس مد کے کھینچنے کی مقدار چار سے پانچ حرکات کے برابر ھے ۔

۱۷

جائز متصل

وہ مد ھے جو حروف مد سے پھلے کلمہ کے آخر میں اور ھمزہ دوسرے کلمہ کے شروع میں واقع ھو ، جیسے- انا اعطیناک ۔ توبوا- الی اللہ ۔ بنی اسرائیل ۔- اس کی مقدار بھی چار سے پانچ حرکات کے برابر ھے ۔

مدغیر اصلی کی سکون کے اعتبار سے چار قسمیں ھیں ۔ ۱ ۔ مد لازم ۔ ۲ ۔ مد عارض ۔ ۳ ۔ مد لین ۔ ۴ ۔ مد عوض

مد لازم

اس مد کا نام ھے جس میں واؤ ۔ الف ۔ ی ۔ کے بعد والے ساکن حرف کا سکون لازمی ھو یعنی کسی بھی حالت میں نہ بدل سکتا ھو جیسے” یٰس (یا سین ) حٓمٓعٓسٓقٓ (حا۔ میم ۔عین ۔ سین ۔ قاف ) الحاقة- اس کی مقدار چار حرکات کے برابر ھے ۔

مد عارض

اس مد کا نام ھے جس میں واؤ ۔الف ۔ی ۔ کے بعد والے حرف کو وقف کے سبب ساکن کر دیا گیا ھو جیسے- غفور ، خبیر، عقاب، خوف- ۔ مد عارض کو دو ، چار یاچہ حرکتوں کے برابر کھینچنا جائز ھے لیکن چہ کے برابر بھتر ھے ۔

۱۸

مد لین

حروف لین کے بعد والا حرف ساکن ھو تو اس پر بھی مد آجائیگا۔ اگر اس حرف کا سکون لازم ھو تو اسے مد لین لازم کھیں گے جیسے “حمعسق”“ ۔اس مد کی مقدار چار حرکات کے برابر ھے۔ اگر سکون عارضی ھو تو اسے مد لین عارض کھیں گے جیسے خوف” اس کو دو حرکات کے برابر کھینچ کر پڑھنا چاھئے ۔

مد عوض

ایسے حرف پر وقف کرنے کی صورت میں ھوتا ھے جھاں دو زبر ( تنوین ) ھوں جیسے-علیماً ۔حکیماً-۔ اس کی مقدار دو حرکتوں کے برابر ھے ۔

      

تفخیم و ترقیق

    

تفخیم

کے معنی ھیں حرف کو موٹا بنا کر ادا کرنا ۔

۱۹

ترقیق

کے معنی ھیں حرف کو ھلکا بنا کر ادا کرنا ۔

ایسا صرف دو حرف میں ھوتا ھے ۔ل۔ ر

-ر- میں تفخیم کی چند صورتیں

ر۔ پر زبر ھو جیسے -رحمن-

ر۔ پر پیش ھو جیسے- نصر اللہ -

ر ۔ ساکن ھو لیکن اس کے ماقبل حرف پر زبر ھو جیسے- وانحر -

ر ۔ ساکن ھو لیکن اس کے ماقبل حرف پر پیش ھو جیسے -کُرھا -

ر ۔ ساکن اور اس کے ماقبل زیر ھو لیکن اس کے بعد حروف استعلاء (ص۔ض۔ ط۔ ظ۔ غ۔ ق۔ خ) میں سے کوئی ایک حرف ھو جیسے -مرصادا -

ر۔ ساکن ھو اور اس کے پھلے کسر ہ عارض ھو جیسے- ارجعی -

۲۰

قدرت نے اظہار عشق رسول(ص) کے لیے سعادت حسن آس کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسول(ص) محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبی(ص) خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

٭

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

٭٭٭

۲۱

وہ اوصافِ محبوب (ص) بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

٭٭٭

نعت نبی(ص) کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسول(ص) لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

٭٭٭

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبی(ص) بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ" آس" اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبی(ص) کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

٭٭٭

۲۲

سعادت حسن آس کو خدائے محمد(ص) نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبی(ص) مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

٭

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

٭٭٭

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آس نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

٭٭٭

۲۳

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسول(ص) کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭٭

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبی(ص) میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

٭

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

٭٭

۲۴

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسول(ص) ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد" لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام"طارق" نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد" دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد" کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمد(ص) نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمد(ص) لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آس وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے"آسمان" پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجر

(اٹک)

۸ مارچ ۲۰۰۶ ء

۲۵

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آس کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعرایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے" اور"آس کے پھول" بالترتیب ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۹۰ ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام"آدھا سورج" ۱۹۹۶ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن" اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ" سید نعمت علی شاہ" ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبی(ص) کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

٭

۲۶

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان" کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ"نعت گوئی" ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائنات(ص) خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ (ص) کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭٭

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاک(ص) " کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭٭

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسول(ص)" اور"عشق رسول(ص)" ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/ فروری ۲۰۰۶ ء

شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

۲۷

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ)

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خدا(ص) کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰ(ص) کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار (ص) سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

٭٭٭

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭

جناب سعادت حسن آس نعت کے حوالہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ اُن کی نعتوں میں سرکار دوعالم(ص) کی عقیدت و محبت ایک دائرے میں رہ کر دلکش اندازمیںرقم کی گئی ہے۔ بعض نعتوں میں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی ذات نے سرکار کی مدحت خود لکھوائی ہے۔ میرے سامنے اسوقت آس صاحب کا مجموعہ نعتیہ انتخاب۔’’ آسمان‘‘ کا مسودہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں شامل تمام کی تمام نعتیں عشاقِ مصطفےٰ کے دلوں کی ترجمان ہیں۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آس صاحب کے’’ آسمان ‘‘ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین

آمین الُلھم ربناآمین یاربُ العالمین!

دعا گو

فقیر سید عبدالدّیان بادشاہ

خطیب مرکزی جانع مسجد استقامت محلہ عید گاہ اٹک شھر۔

۲۹

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

٭

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

٭

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

٭

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

٭

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

٭

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

٭

۳۰

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

٭

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

٭

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

٭

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

٭

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

٭

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

٭

۳۱

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

٭

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

٭

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

٭

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

٭

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

٭

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

٭

۳۲

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

٭

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

٭

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

٭

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

٭٭٭٭

۳۳

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

٭

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

٭

یا نبی(ص) تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

٭

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

٭

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۴

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

٭

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

٭

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

٭

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۵