تجوید قرآن

تجوید قرآن مؤلف:
زمرہ جات: تجویداورقراءت
صفحے: 35

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53914 / ڈاؤنلوڈ: 7558
سائز سائز سائز
تجوید قرآن

تجوید قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

      تجوید قرآن

مولف

علی اصغر رضوانی

۱

علم تجوید اور اس کی اھمیت و ضرورت

تجوید کے معنی:

  بھتر اور خوبصورت بنا نا۔

تجوید کی تعریف:

  تجوید اس علم کا نام ھے جس سے قرآن کے الفاظ اور حروف کی بھتر سے بھتر ادائیگی اور آیات و کلمات پر وقف کے حالات معلوم ھوتے ھیں ۔

اس علم کی سب سے زیادہ اھمیت یہ ھے کہ دنیا کی ھر زبان اپنی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی رکھتی ھے کہ اس کا طرز و لھجہ “دوسری زبانوں سے مختلف ھوتا ھے اور یھی لھجہ اس زبان کی شیرینی ،چاشنی اور اس کی لطافت کا پتا دیتا ھے ۔

جب تک لھجہ و انداز باقی رھتا ھے زبان دلچسپ اور شیریں معلوم ھوتی ھے اور جب لھجہ بدل جاتا ھے تو زبان کا خاصہ ختم ھو جاتا ھے ۔ ضرورت ھے کہ کسی زبان کو سیکھتے وقت اور اس میں تکلم کرتے وقت اس با ت لحاظ رکھا جائے کہ اس کے الفاظ اس انداز سے ادا ھوںکہ جس انداز سے اھل زبان ادا کرتے ھیں اور اس میں حتی الامکان وہ لھجہ باقی رکھا جائے جو اھل زبان کا لھجہ ھے اس” لئے بغیر تجوید ،زبان تو وھی رھے گی لیکن اھل زبان اسے زبان کی بر بادی ھی کھیں گے ۔

۲

اردو زبان میں بے شمار الفاظ ھیں جن میں "ت" اور "د” کا لفظ آتا ھے اور انگریزی زبان میں ایسا کوئی لفظ نھیں ھے ۔ انگیریزی بولنے والا جب اردو کے ایسے لفظ کو استعمال کرتا ھے تو “تم “ کے بجائے “ٹم” اور “دین “ کے بجائے “ڈین “کھتا ھے جو کسی طرح بھی اردو کھے جانے کے لائق نھیں ھے ۔

یھی حال عربی زبان کا بھی ھے کہ اس میں بھی الفاظ و حروف کے علاوہ تلفظ و ادا ئیگی کو بھی بے حد دخل ھے اور زبان کی لطافت کا زیادہ حصہ اسی ایک بات سے وابستہ ھے۔ اس کے سیکھنے والے کا فرض ھے کہ ان تمام آداب پر نظر رکھے جو اھل زبان نے اپنی زبان کے لئے مقرر کئے ھیں اور ان کے بغیر تکلم کر کے وہ دوسرے کی زبان کو برباد نہ کرے ۔

علم تجوید کی عظمت

    

ایسے اصول و آداب اور اس طرح کے شرائط و قوانین کو پیش نظر رکھنے کے بعد پھلا خیال یھی پیدا ھوتا ھے کہ انسان ایسی زبان کو حاصل ھی کیوں کرے جس میں اس طرح کے قواعد ھوں اورجس کے استعمال کے لئے غیر معمولی اور غیر ضروری زحمت کا سامنا کرنا پڑے لیکن یہ خیال بالکل غلط ھے ۔ ایک غیر مسلم تو یہ بات سوچ بھی سکتا ھے مگر مسلمان کے امکان میں یہ بالکل نھیں ھے ۔مسلمان کی اپنی کتاب اور اس کا دستور زندگی عربی میں ھی نازل ھوا ھے۔ اس کی دنیا و آخرت کا پیغام عربی زبان ھی میں ھے اور وہ دستور ، قانون زندگی ھونے کے علاوہ رسول اکرم (ص) کا معجزہ اور اس کی برتری کی دلیل بھی ھے ۔ اب اگر اس کتاب کو نظر انداز کر دیا گیا تو اسلام کا امتیاز ھی کیا رھے گا اور رسالت پیغمبر اسلام (ص) کوثابت کرنے کا وسیلہ کیا ھوگا ۔

۳

قرآن صرف دستور حیات ھوتا تو ممکن تھا کہ انسان کسی طرح بھی تلفظ کر کے مطلب نکال لیتا اور عمل کرنا شروع کر دیتا ۔ دستور زندگی معنی چاھتا ھے اسے الفاظ کے حسن سے زیادہ دلچسپی نھیں ھوتی ۔ لیکن قرآن کریم معجزہ بھی ھے ۔ وہ قدم قدم پر اپنی تلاوت کی دعوت بھی دیتا ھے ۔اپنی فصاحت و بلاغت کا اعلان بھی کرتا ھے اور اپنے سے وابستہ افراد کو متوجہ بھی کراتا ھے کہ اس کے محاسن پر غور کریں اور اس کی خوبیوں کو عالم آشکار کریں ۔

یہ نا ممکن ھے کہ کوئی شخص اس کے ماننے والوں میں شمار ھو اور اس کی طرف سے بے توجہ ھو جائے ۔لھذا جب توجہ کرے گا تو تلاوت کرنا ھو گی اور جب تلاوت کی منزل میں آئے گا تو ان تمام اصول و آداب کو سیکھنا پڑے گا جن سے زبان کا حسن و امتیاز ظاھر ھوتا ھے ۔

قرآن مجید تو خود بھی ترتیل وغیرہ کا حکم دیتا ھے جس سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ وہ بھر طور تلاوت کر اکے اپنے حسن کو پامال نھیں کرانا چاھتا اور اس کا منشاء یھی ھے کہ اس کی تلاوت کی جائے تو انھیں شرائط و آداب کے ساتھ جن سے اس کی عظمت اور اس کا حسن وابستہ ھے۔

اس مقام پر یہ بھی ممکن ھے کہ کوئی انسان ان امتیازات کے باوجود تلاوت قرآن نہ کرے اور بھت سے بھت ثواب سے محروم ھو جائے ۔اس پر کوئی ایسا دباؤ نھیں ھوتا کہ وہ تلاوت کی ذمہ داری لیکر ان تمام مشکلات میں گرفتار ھو لیکن اسلام نے نماز میں حمد و سورہ وغیرہ واجب کر کے اس آزادی کو بھی ختم کر دیا اور واضح طور پر بتا دیا کہ تلاوت قرآن ھر مسلمان کا فرض ھے نیز تلاوت عربی زبان کے بغیر نھیں ھو سکتی ۔ زبان کا عربی رہ جانا بھی اس بات پر موقوف ھے کہ اس کے آداب و شرائط کا لحاظ رکھا جائے اور اس میں کوئی ترمیم اور تبدیلی نہ کی جائے ۔

۴

جس کے بعد یہ کھنا بھی صحیح ھے کہ علم تجوید اپنی تفصیلات کے ساتھ نہ سھی لیکن ایک مقدار تک واجب ضرور ھے اور اس کے بغیر نماز کی صحت مشکل ھے اور نماز ھی کی قبولیت پر سارے اعمال کی قبولیت کا دار و مدار ھے۔ اب اگر کوئی شخص تجوید کے ضروری قواعد کو نظر انداز کر دیتا ھے تو قرات قرآن کی طرح نماز کو بھی بر باد کرتا ھے اور جو نماز کو برباد کرتا ھے، اس کے سارے اعمال کی قبولیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ھے اور یھی علم تجوید کی عظمت و برتری کی بھترین دلیل ھے۔

      

تجوید کے شعبے

    

علم تجوید میں مختلف قسم کے مسائل سے بحث کی جاتی ھے۔ کبھی قرآن کے جدا حروف کے بارے میں دیکھا جاتا ھے کہ ان کے ادا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ھے ، کبھی مرکب الفاظ کی ادائیگی کے بارے میں گفتگو ھوتی ھے اور کبھی پورے پورے جملے کے بارے میں بحث ھوتی ھے کہ اس کے ادا کرنے میں وقف و وصل کے اصول کیا ھوں گے اور انھیں کس طرح ادا کیا جائے گا ۔

تجوید کے مسائل سے باخبر ھونے کے لئے ان تمام انواع و اقسام پر نظر کرنا ھو گی اور ان سے با قاعدہ طور پر واقفیت پیدا کرنا ھو گی ۔

۵

حروف

    

چونکہ علم تجوید میں قرآن مجید کے حروف سے بحث ھوتی ھے اس لئے ان کا جاننا ضروری ھے ۔

عربی زبان میں حروف تھجی کی تعداد ۲۹/ ھے ۔ ٹ ۔ڈ ۔ڑ وغیرہ ھندی کے مخصوص حروف ھیں اور پ ۔ چ ۔ ژ ۔ گ فارسی کے مخصوص حروف ھیں۔ ان کے علاوہ جملہ حروف تینوں زبانوں میں مشترک ھیں ۔

یہ حروف اپنے طرز ادا کے اعتبار سے مختلف قسم کے ھیں ۔ ان اقسام کے سلسلہ میں بحث کرنے سے پھلے ان مقامات کا پتہ لگانا ضروری ھے جھاں سے یہ حروف ادا ھوتے ھیں اور جنھیں علم تجوید میں “مخرج “ کھا جاتا ھے ۔

مخارج حروف

علمائے تجوید نے ۲۹/ حروف تھجی کے لئے جو مخارج بیان کئے ھیں ان کی تعداد ۲۷/ ھے جنھیں مندرجہ ذیل پانچ مقامات سے ادا کیا جاتا ھے ۔

۱ ۔ جوف دھن

۲ ۔ حلق

۳ ۔ زبان

۴ ۔ ھونٹ

۵ ۔ ناک ۔

۶

یھاں مختصر لفظوں میں ان حروف کے مخارج کا تعین کیا جارھا ھے ۔ عملی طور پر صحیح تلفظ کرنے کے لئے اھل فن کا سھارا لینا پڑے گا ۔

جوف دھن

جوف دھن سے صرف تین حروف” الف ۔ واو ۔ ی” ادا ھوتے ھیں بشرطیکہ یہ ساکن ھوں جیس ۔کریے جواد ۔ غفورم

حلق

حلق کے تین حصے ھیں :

۱ ۔ ابتدائی حصہ :اس سے “خ۔ غ” ادا ھوتا ھے ۔

۲ ۔ درمیانی حصہ : اس سے” ح۔ ع” ادا ھوتا ھے ۔

۳ ۔ آخری حصہ : اس سے “ھ ۔ء” ادا ھوتا ھے ۔

۷

زبان

حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کے دس حصے ھیں :

۱ ۔ آخر زبان اور اس کے مقابل تالو کا حصہ ۔ اس سے “قاف “ کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۲ ۔ “قاف “ کے مخرج سے ذرا آگے کا حصہ اور اس کے مقابل کا تالو ،ان کے ملانے سے “ کاف “ کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۳ ۔ زبان اور تالو کا درمیانی حصہ ، ان سے “جیم “ “شین “ “ ی” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۴ ۔ زبان کا کنارہ اور اس کے مقابل داھنی یا بائیں جانب کے ڈاڑھیں جن کے ملانے سے “ ضاد” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۵ ۔ نوک زبان اور تالو کا ابتدائی حصہ جس کے ملانے سے “لام “ کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۶ ۔ زبان کا کنارہ اور” لام “ کے مخرج سے ذرا نیچے کا حصہ ، جس سے “ن” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۷ ۔ نوک زبان کا نچلا حصہ اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے “ر” ادا ھوتی ھے ۔

۸ ۔ زبان کی نوک اور اگلے دونوں اوپری دانتوں کی جڑ ، زبان کو اوپر کی جانب اٹھاتے ھوئے ذرا ذرا سے فرق سے “ط” “دال “اور “ ت” ادا ھوتی ھے ۔

۹ ۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپری اور نچلے دانتوں کے کناروں سے “ز”“س”“ص” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۱۰ ۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپری دانتوں کا کنارہ، ان کے” ملانے سے “ث”“ذال”“ظ” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۸

ھونٹ

حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ھیں :

۱ ۔ نچلے ھونٹوں کا اندرونی حصہ اور اگلے اوپری دانتوں کا کنارہ، ان کے ملانے سے “ف” کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

۲ ۔ دونوں ھونٹوں کے درمیان کا حصھ، یھاں سے “ب” “م “ “واو” کی آواز نکلتی ھے ۔ بس اتنا فرق ھے کہ “واو” کی آواز ھونٹوں کو سکوڑ کر نکلتی ھے اور “ب” “میم” ھونٹوں کو ملانے سے ادا ھوتے ھیں۔

ناک

غنہ والے حروف ناک سے ادا ھوتے ھیں جو صرف نون ساکن اور تنوین ھے ۔ شرط یہ ھے کہ ان کا غنہ کے ساتھ ادغام کیا جائے اور اخفاء مقصود ھو ۔ نون اور میم مشدد کا بھی انھیں حروف میں شمار ھوتا ھے ۔ں، نّ،مّ۔

      

۹

اقسام حروف

    

حروف تھجی کی انداز، ادا ئیگی، احکام اور کیفیات کے اعتبار سے مختلف قسمیں ھیں ۔

حروف مد

واو ، ی ، الف ۔ ان حروف کو اس وقت حروف مد کھا جاتا ھے جب -واؤ- سے پھلے پیش -الف- سے پھلے زبر اور - ی -سے پھلے زیر ھو اور اس کے بعد ھمزہ یا کوئی ساکن حرف ھو جیسے سوء ۔ غفور۔جآء ۔ صآد ۔ جیٓء ( ج ی ء ) جیٓم وغیرہ ۔

بعد کے ھمزہ یا حرف ساکن کو سبب کھتے ھیں۔ مد کے معنی آواز کےکھینچنے کے ھیں ۔

حروف لین

واو- اور- ی- سے پھلے زیر ھو تو ان دونوں کو حروف لین کھتے ھیں۔

لین - کے معنی ھیں نرمی۔ ان حالات میں یہ دونوں حروف ، مد کو آسانی سے قبول کر لیتے ھیں جیسے خوفٌ ۔ طیر ۔

اگر حرف لین کے بعد کوئی حرف ساکن بھی ھے تو اس حرف پر مد لگانا ضروری ھے جیسےکٓھٓیٰٓعٓصٓ( کآف ھا یا عین صاد ) کہ اس کلمہ میں مثلا ًعین کی -ی -لین ھے اور اس کے بعد نون ساکن ھے جس کی بنا پر عین کی-ی - کو مد کے ساتھ پڑھنا ضروری ھے

۱۰

حروف شمسی

وہ حروف ھیں جن سے پھلے اگر - الف لام - آجائے تو ملا کر پڑھنے میں ساقط ھو جاتا ھے جیسے ت، ث، د، ذ، ر ، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل ، ن ، ۔ ملا کر پڑھتے وقت ان کا الف لام ساقط ھو جاتا ھے جیسے و الطور ۔ و الشمس ، و التین وغیرہ ۔

حروف قمری

وہ حروف ھیں جن کے پھلے الف لام آجائے تو ملانے میں بھی پڑھا جاتا ھے مگر الف نھیں پڑھا جاتا جیسے ا، ب، ج، ح، غ، ف، ق، ک، م۔ و۔ ھ، ی۔ کہ انکو ملا کر پڑھنے میں لام ساقط نھیں ھوتا جیسے و القمر ، و الکاظمین ، و المجاهیلن ، و الخیل و اللیل وغیره ۔

      

کیفیات و صفات حروف

      

جس طرح حروف مخارج سے ادا ھوتے ھیں اسی طرح حروف کی مختلف صفتیں ھوتی ھیں مثلاً استعلاء ،جھر ، قلقلہ وغیرہ۔ کبھی مخرج اور صفت میں اتحادھوتا ھے جیسے -ح- اور- عین- اور کبھی مخرج ایک ھوتا ھے اور صفت الگ ھوتی ھے جیسے -ھمزہ- اور -ہ -۔

۱۱

۱ ۔ حروف قلقلہ

خ ۔د:ان حروف کی خاصیت یہ ھے کہ اگر یہ حروف درمیان یا آخر کلمہ میں ھوں اور ساکن بھی ھوں تو انھیں اس زور سے ادا کرنا چاھئے کہ متحرک معلوم ھوں جیسے یدخلون ۔لم یلد ۔

۲ ۔ حروف استعلاء

یہ سات حروف ھیں: ص، ض، ط، ظ، غ، ق، خ۔ ان کو حروف استعلاء اس لئے کھا جاتا ھے کہ ان کی ادائیگی کے لئے زبان کو اٹھانا پڑتا ھے جیسے خط ، یخصمون ۔

۳ ۔ حروف یرملون

یہ چہ حروف ھیں :ی ، ر، م، ل، و، ن ۔ ان حروف کی خاصیت یہ ھے کہ اگر ان سے پھلے نون ساکن یا تنوین ھے تو اسے تقریباً ساقط کر دیا جائے گا اور بعد کے حروف کو مشدد پڑھا جائے گا جیسے محمد و آل محمد ، لم یکن لہ ۔

۴ ۔ حروف حلق

یہ چہ حروف ھیں :ح۔خ۔ غ۔ع۔ ہ ۔ء۔ جو حلق سے ادا کئے جاتے ھیں، ان سے پھلے واقع ھونے والا نون ساکن واضح طور پر پڑھا جائے گا جیسے- انعمت -

۱۲

کیفیات ادائیگی حروف

    

حروف تھجی کی ادائیگی کے اعتبار سے چار قسمیں ھیں :

۱ ۔ ادغام---- ۲ ۔ اظھار---- ۳ ۔ قلب---- ۴ ۔ اخفاء

۱ ۔ادغام

ادغام کے معنی ھیں ساکن حرف کو بعد والے متحرک حرف سے ملا کر ایک کر دینا اور بعد والے متحرک حرف کی آواز سے تلفظ کرنا ۔ ادغام کی چار قسمیں ھیں :ادغام یرملون ۔ ادغام مثلین ۔ ادغام متقاربین ۔ ادغام متجانسین ۔

الف: ادغام یرملون

اگر کسی مقام پر حروف یرملون میں سے کوئی حرف متحرک ھو اور اس سے پھلے نون ساکن یا تنوین ھو تو اس نون کو ساقط کر کے حرف یرملون کو مشدد کر دیں گے اور اس طرح حرف یرملون میں -ن - کا ادغام ھو جائے گا جیسے -اشھد ان لا الٰہ الّا اللّہ -۔

اس ادغام میں بھی دو صورتیں ھیں : ادغام غنہ ، ادغام بلا غنہ

۱۳

۱ ۔ ادغام غنہ کا طریقہ یہ ھے کہ حروف کو ملاتے وقت نون کی ھلکی آواز باقی رہ جائے ۔ جیسا کہ یرملون کے- ی ، م ،و ، ن -میں ھوتا ھے ۔ جیسے- علی ولی اللہ- ۔

۲ ۔ ادغام بلا غنہ میں نون بالکل ختم ھو جاتا ھے جیسے- لم یکن لہ- ۔

یرملون میں ادغام کی شرط یہ ھے کہ نون ساکن اور حرف یرملون ایک ھی لفظ کا جزء نہ ھوںبلکہ دو الگ لفظوں میں پائے جاتے ھوں ورنہ ادغام جائز نہ ھوگا جیسا کہ لفظ -دنیا-ھے کہ اس میں- ی -سے پھلے نون ساکن موجود ھے لیکن ادغام نھیں ھوتا۔

ب: ادغام مثلین

اگر دو حروف ایک طرح کے جمع ھو جائیں اور پھلا ساکن اور دوسرا متحرک ھو تو پھلے کو دوسرے میں ادغام کریں گے جیسے من ناصرین لیکن اس ادغام کی شرط یہ ھے کہ پھلا حرف -حرف مد - نہ ھو ورنہ ادغام جائز نہ ھو گا جیسے - فی یوسف- میں ادغام نھیں ھوا حالانکہ -فی - کی -ی - ساکن ھے اور -یوسف - کی -ی - متحرک اس لئے کہ -ی- حرف مد ھے ۔

ج: ادغام متقاربین

متقاربین ان دو حروف کا نام ھے جو مخرج اور صفت کے اعتبار سے قریب ھوں جیسا کہ سابق میں واضح کیا جا چکا ھے کہ بھت سے حروف آپس میں ایک ھی جیسے مخرج سے ادا ھوتے ھیں اور انھیں قریب المخرج کھا جاتا ھے ۔جیسے- قُلْ رَّبِّ - -- اَلَمْ نَخْلُقْکُمْ -

۱۴

د:ادغام متجانسین

اگرایک جنس کے دو ایسے حرف جمع ھو جائیں جن کا مخرج ایک ھو لیکن صفتیں الگ الگ ھوں نیزان میں سے پھلا ساکن اور دوسرا متحرک ھو تو پھلے کو دوسرے میں ادغام کر دیا جائے گا جیسے :

د۔ط۔ت۔ قَدْ تَّبَیَّنَ ، قَالَتْ طَائِفَةٌ - بَسَطْتَّ

ظ۔ذ۔ث۔ اِذْ ظَلَمُوْا - یَلَهَثْ ذَلِکَ

ب۔م ۔ اِرْکَبْ مَّعَنَا

د ۔ج ۔ قَدْ جَاءَ کُمْ

۲ ۔ اظھار

اگر نون ساکن یا تنوین کے بعد حروف حلق یا حروف یرملون میں سے کوئی حرف ھو تو اس نون کو باقاعدہ ظاھر کیا جائے گا ۔ جیسے: مِنْ غَیْرِه - اَنْهَار - دُنْیَا - قِنْوَانْ -

۳ ۔ قلب

اگر نون ساکن یا تنوین کے بعد -ب- واقع ھو جائے تو نون میم سے بدل جائے گا اور اسے غنہ سے ادا کیا جائے گا جیسے- اَنْبِیَاءٌ یَنْبُوْعاَ -یھاں پر نون تلفظ میں ھی پڑھا جاتا ھے اور جیسے- رحیم بکم -کہ یھاں تنوین کا نون بھی تلفظ میں- میم- پڑھا جائے گا ۔

۱۵

۴ ۔ اخفاء

حروف یرملون ،حروف حلق اور ب کے علاوہ باقی ۱۵/ حروف سے پھلے نون ساکن یا تنوین واقع ھو تو اس نون کو آھستہ ادا کیا جائے گا جیسے:-- انْ کان - انْ شاء - صفاً صفاً -اَنْداَد -

      

حرکات

    

حروف پر آنے والی علامتوں کی پانچ قسمیں ھیں جن میں سے تین کو حرکات کھا جاتا ھے ۔زبر ۔زیر ۔پیش ۔ جسے عربی میں فتحہ ،ضمہ ، کسرہ کھتے ھیں ۔ باقی دو میں ایک "مد"- - اور دوسرے کو" سکون" کھا جاتا ھے ۔

مد

مد کی دو قسمیں ھیں:

--- ۱ ۔ مد اصلی--- ۲ ۔ مد غیر اصلی

۱۶

مد اصلی

وہ مد ھے جس کے بغیر واؤ ۔ الف ۔ ی ۔ کی آواز اد ا نھیں کی جا سکتی اور اس کے لئے علیحدہ سے کسی سبب کی ضررت نھیں ھوتی جیسے قال۔ ۔ قیل ۔یقول ۔

ان مثالوںمیں الف ۔ی ۔واؤ کی آواز پیدا کرنے کے لئے ان حرف کو دو حرکتوں کے برابر کھینچنا ھو گا ۔ واضح رھے کہ مٹھی بند کر کے متوسط رفتار سے ایک انگلی کے کھولنے میں جتنی دیر لگتی ھے وہ ایک حرکت کی مقدار ھے ۔

مد غیر اصلی

وہ مد ھے جھاں- واؤ، الف، ی - کی آواز کو کسی سبب ( ھمزہ یا سکون ) کی وجہ سے مد اصلی کے مقابل زیادہ کھینچ کر ادا کیا جاتا ھے ۔

مد غیر اصلی کی ھمزہ کے اعتبار سے دو قسمیں ھیں : ۱ ۔ واجب متصل-- ۲ ۔ جائز متصل

واجب متصل

یہ اس مد کا نام ھے جس میں مد اور ھمزہ ایک ھی کلمہ کا جز ھوں جیسے: جآء ۔ شئت ۔سوء کہ ان تینوں مثالوں میں الف ۔ ی ۔ واؤ ۔ اور ھمزہ ایک ھی کلمہ کا جز ء ھیں ۔ اس مد کے کھینچنے کی مقدار چار سے پانچ حرکات کے برابر ھے ۔

۱۷

جائز متصل

وہ مد ھے جو حروف مد سے پھلے کلمہ کے آخر میں اور ھمزہ دوسرے کلمہ کے شروع میں واقع ھو ، جیسے- انا اعطیناک ۔ توبوا- الی اللہ ۔ بنی اسرائیل ۔- اس کی مقدار بھی چار سے پانچ حرکات کے برابر ھے ۔

مدغیر اصلی کی سکون کے اعتبار سے چار قسمیں ھیں ۔ ۱ ۔ مد لازم ۔ ۲ ۔ مد عارض ۔ ۳ ۔ مد لین ۔ ۴ ۔ مد عوض

مد لازم

اس مد کا نام ھے جس میں واؤ ۔ الف ۔ ی ۔ کے بعد والے ساکن حرف کا سکون لازمی ھو یعنی کسی بھی حالت میں نہ بدل سکتا ھو جیسے” یٰس (یا سین ) حٓمٓعٓسٓقٓ (حا۔ میم ۔عین ۔ سین ۔ قاف ) الحاقة- اس کی مقدار چار حرکات کے برابر ھے ۔

مد عارض

اس مد کا نام ھے جس میں واؤ ۔الف ۔ی ۔ کے بعد والے حرف کو وقف کے سبب ساکن کر دیا گیا ھو جیسے- غفور ، خبیر، عقاب، خوف- ۔ مد عارض کو دو ، چار یاچہ حرکتوں کے برابر کھینچنا جائز ھے لیکن چہ کے برابر بھتر ھے ۔

۱۸

مد لین

حروف لین کے بعد والا حرف ساکن ھو تو اس پر بھی مد آجائیگا۔ اگر اس حرف کا سکون لازم ھو تو اسے مد لین لازم کھیں گے جیسے “حمعسق”“ ۔اس مد کی مقدار چار حرکات کے برابر ھے۔ اگر سکون عارضی ھو تو اسے مد لین عارض کھیں گے جیسے خوف” اس کو دو حرکات کے برابر کھینچ کر پڑھنا چاھئے ۔

مد عوض

ایسے حرف پر وقف کرنے کی صورت میں ھوتا ھے جھاں دو زبر ( تنوین ) ھوں جیسے-علیماً ۔حکیماً-۔ اس کی مقدار دو حرکتوں کے برابر ھے ۔

      

تفخیم و ترقیق

    

تفخیم

کے معنی ھیں حرف کو موٹا بنا کر ادا کرنا ۔

۱۹

ترقیق

کے معنی ھیں حرف کو ھلکا بنا کر ادا کرنا ۔

ایسا صرف دو حرف میں ھوتا ھے ۔ل۔ ر

-ر- میں تفخیم کی چند صورتیں

ر۔ پر زبر ھو جیسے -رحمن-

ر۔ پر پیش ھو جیسے- نصر اللہ -

ر ۔ ساکن ھو لیکن اس کے ماقبل حرف پر زبر ھو جیسے- وانحر -

ر ۔ ساکن ھو لیکن اس کے ماقبل حرف پر پیش ھو جیسے -کُرھا -

ر ۔ ساکن اور اس کے ماقبل زیر ھو لیکن اس کے بعد حروف استعلاء (ص۔ض۔ ط۔ ظ۔ غ۔ ق۔ خ) میں سے کوئی ایک حرف ھو جیسے -مرصادا -

ر۔ ساکن ھو اور اس کے پھلے کسر ہ عارض ھو جیسے- ارجعی -

۲۰

مسئلہ ۱۹_ اہل و عيال _ كہ مالى استطاعت ميں جنكے اخراجات كا موجود ہونا شرط ہے _سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہيں عرف عام ميں اہل و عيال شمار كيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان كا خرچہ واجب نہ بھى ہو _

۳_ ضروريات زندگي:

مسئلہ ۲۰_ شرط ہے كہ اسكے پاس ضروريات زندگى اور وہ چيزيں ہوں كہ جنكى اسے عرفاً اپنى حيثيت كے مطابق زندگى بسر كرنے كيلئے احتياج ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے كہ بعينہ وہ چيزيںاس كے پاس موجود ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس رقم و غيرہ ہو كہ جسے اپنى ضروريات زندگى ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ ۲۱_ عرف عام ميں لوگوں كى حيثيت مختلف ہوتى ہے چنانچہ رہائشے كيلئے گھر كا مالك ہونا جسكى ضروريات زندگى ميں سے ہے يا يہ عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق ہے يا كرائے كے ، يا عاريہ پر ليئے ہوئے يا

-

۲۱

موقوفہ گھر ميں رہنا اس كيلئے حرج يا سبكى كا باعث ہو تو اسكے لئے استطاعت كے ثابت ہونے كيلئے گھر كا مالك ہونا شرط ہے _

مسئلہ ۲۲_ اگر حج كيلئے كافى مال ركھتا ہوليكن اسے اسكى ايسى لازمى احتياج ہے كہ جس ميں اسے خرچ كرنا چاہتا ہے جيسے گھر مہيا كرنا يا بيمارى كا علاج كرانا يا ضروريات زندگى كو فراہم كرناتو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_

مسلئہ ۲۳_ يہ شرط نہيں ہے كہ مكلف كے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس اتنى رقم و غيرہ ہو كہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ ۲۴_ اگر كسى شخص كے پاس ضروريات زندگى _گھر ، گھريلو سامان ، سوارى ، آلات صنعت و غيرہ _ كى ايسى چيزيں ہيں جو قيمت كے لحاظ سے اسكى حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ كر سكتا ہو كہ انہيں بيچ كر انكى قيمت كے كچھ حصے سے اپنى ضروريات زندگى خريد لے اور باقى قيمت كو حج كيلئے

۲۲

خرچ كرے اور اس ميں اسكے لئے حرج ، كمى يا سبكى بھى نہ ہو اور قيمت كا فرق حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو تو اس پر ايسا كرنا واجب ہے اور يہ مستطيع شمار ہوگا _

مسئلہ ۲۵_ اگر مكلف اپنى زمين يا كوئي اور چيز فروخت كرے تا كہ اسكى قيمت كے ساتھ گھر خريدے تو اگر اسے گھر كے مالك ہونے كى ضرورت ہو يا يہ عرف كے لحاظ سے اسكى حيثيت كے مطابق ہو تو زمين كى قيمت وصول كرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگر چہ وہ حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو_

مسئلہ ۲۶_ جس شخص كو اپنى بعض مملوكہ چيزوں كى ضرورت نہ رہے مثلا اسے اپنى كتابوں كى ضرورت نہ رہے اور ان كى قيمت سے مالى استطاعت مكمل ہوتى ہو يا يہ مالى استطاعت كيلئے كافى ہو تو ديگر شرائط كے موجود ہونے كى صورت ميں اس پر حج واجب ہے_

۲۳

۴_ رجوع الى الكفاية:

مسئلہ ۲۷_ مالى استطاعت ميں '' رجوع الى الكفاية'' شرط ہے ( مخفى نہ رہے كہ يہ شرط حج بذلى ميں ضرورى نہيں ہے جيسا كہ اسكى تفصيل عنقريب آجائيگى )اور اس سے مراد يہ ہے كہ حج سے پلٹنے كے بعد اسكے پاس ايسى تجارت ، زراعت ، صنعت ، ملازمت ، يا باغ ، دكان و غيرہ جيسے ذرائع آمدنى كى منفعت ہو كہ جنكى آمدنى عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق اسكے اور اسكے اہل و عيال كے معاش كيلئے كافى ہو اور اس سلسلے ميں دينى علوم كے طلاب( خدا تعالى ان كا حامى ہو ) كيلئے كافى ہے كہ پلٹنے كے بعد انہيں وہ وظيفہ ديا جائے جو حوزات علميہ ( خدا تعالى انكى حفاظت كرے) ميں انكے درميان تقسيم كيا جاتا ہے_

مسئلہ ۲۸_ عورت كيلئے بھى رجوع الى الكفاية شرط ہے بنابراين اگر اس كا شوہر ہو اور يہ اسكى زندگى ميں حج كى استطاعت ركھتى ہو تو اس كيلئے ''رجوع الى الكفاية'' وہ نفقہ ہے جسكى وہ اپنے شوہر كے ذمے ميں مالك

۲۴

ہے ليكن اگر اس كا شوہر نہيں ہے تو حج كيلئے اسكے مستطيع ہونے كيلئے مخارج حج كےساتھ ساتھ شرط ہے كہ اسكے پاس ايسا ذريعہ آمدنى ہو جواسكى حيثيت كے مطابق اسكى زندگى كيلئے كافى ہو ورنہ يہ حج كيلئے مستطيع نہيں ہوگى _

مسئلہ ۲۹_ جس شخص كے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليكن كوئي اور شخص اسے دے اور اسے يوں كہے تو ''حج بجالا اور تيرا اور تيرے اہل و عيال كا خرچہ مير ے ذمے ہے ''تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول كرنا واجب ہے اور اس حج كو حج بذلى كہتے ہيں اور اس ميں '' رجوع الى الكفايہ '' شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ كا دينا ضرورى نہيں ہے بلكہ قيمت كا دينا بھى كافى ہے _

ليكن اگراسے حج كيلئے مال نہ دے بلكہ صرف اسے مال ہبہ كرے تو اگر وہ ہبہ كو قبول كرلے تو اس پر حج واجب ہے ليكن اس پر اس مال كو قبول كرنا واجب نہيں ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اسے قبول نہ كرے اور اپنے آپ كو مستطيع نہ بنائے_

۲۵

مسئلہ ۳۰_ حج بذلى ، حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر اسكے بعد مستطيع ہوجائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے_

مسئلہ ۳۱_ جس شخص كو كسى ادارے يا شخص كى طرف سے حج پر جانے كى دعوت دى جاتى ہے تو اگر اس دعوت كے مقابلے ميں اس پركسى كام كو انجام دينے كى شرط لگائي جائے تو اسكے حج پر حج بذلى كا عنوان صدق نہيں كرتا_

مالى استطاعت كے عمومى مسائل

مسئلہ ۳۲_جس وقت حج پر جانے كيلئے مال خرچ كرنا واجب ہوتا ہے اسكے آنے كے بعد مستطيع كيلئے اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے بلكہ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس وقت سے پہلے بھى اپنے آپ كو استطاعت سے خارج نہ كرے _

مسئلہ ۳۳_ مالى استطاعت ميں شرط نہيں ہے كہ وہ مكلف كے شہر ميں

۲۶

حاصل ہو بلكہ اس كا ميقات ميں حاصل ہو جانا كافى ہے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے _

مسئلہ ۳۴_ مالى استطاعت اس شخص كيلئے بھى شرط ہے جو ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں كام كرنے والے و غيرہ تو اگر ان ميں استطاعت كى ديگر شرائط بھى ہوں جيسے اہل و عيال كا نفقہ ، ضروريات زندگى اور اسكى حيثيت كے مطابق جن چيزوں كى اسے اپنى زندگى ميں احتياج ہوتى ہے اور ''رجوع الى الكفاية'' تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے ورنہ اس كا حج مستحبى ہو گا اور اگر بعد ميں استطاعت حاصل ہوجائے تو اس پر حجة الاسلام واجب ہو گا _

مسئلہ ۳۵_اگركسى شخص كو حج كے راستے ميں خدمت كيلئے اتنى اجرت كے ساتھ اجير بنايا جائے كہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اجارے كو قبول

۲۷

كرنے كے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج كو بجالانا اس خدمت كے ساتھ متصاوم نہ ہو جو اسكى ڈيوٹى ہے ورنہ يہ اسكے ساتھ مستطيع نہيں ہوگا جيسا كہ عدم تصادم كى صورت ميں اس پر اجارے كو قبول كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۶_ جو شخص مالى استطاعت نہ ركھتا ہو اور نيابتى حج كيلئے اجير بنے پھر اجارے كے بعد مال اجارہ كے علاوہ كسى اور مال كے ساتھ مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ اس سال اپنے لئے حجة الاسلام بجالائے اور اجارہ اگر اسى سال كيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجارے والا حج آئندہ سال بجالائے _

مسئلہ ۳۷_ اگر مستطيع شخص غفلت كى وجہ سے يا جان بوجھ كر مستحب حج كى نيت كرلے اگر چہ اعمال حج كى تمرين كے قصد سے تا كہ آئندہ سال اسے بہتر طريقے سے انجام دے سكے يا اس لئے كہ وہ اپنے آپ كو غير مستطيع سمجھتا ہے پھر اس كيلئے ظاہر ہو جائے كہ وہ مستطيع تھا تو اسكے اس حج

۲۸

كے حجة الاسلام سے كافى ہونے ميں اشكال ہے پس احوط كى بنا پر اس پر آئندہ سال حج كو بجالانا واجب ہے_مگر يہ كہ اس نے شارع مقدس كے اس حكم كى اطاعت كا قصدكيا ہو جو اس وقت ہے اس وہم كے ساتھ كہ وہ حكم، حكم استحبابى ہے تو پھر اس كا حج حجة الاسلام سے كافى ہے _

ب_ جسمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ جسمانى لحاظ سے حج كو انجام دينے كى قدرت ركھتا ہو پس اس مريض اور بوڑھے پر حج واجب نہيں ہے جو حج پر جانہيں سكتے يا جن كيلئے جانے ميں حرج اورمشقت ہے _

مسئلہ ۳۸_ جسمانى استطاعت كا باقى رہنا شرط ہے پس اگر راستے كے درميان ميں احرام سے پہلے بيمار ہو جائے تو اگر اس كا حج پر جانا استطاعت والے سال ميں ہو اور بيمارى اس سے سفر كو جارى ركھنے كى قدرت كو سلب كرلے تو اس سے منكشف ہو گا كہ اس ميں جسمانى استطاعت نہيں تھى اور

۲۹

ايسے شخص پر حج كيلئے كسى كو نائب بنانا واجب نہيں ہے ليكن اگر يہ حج كے اس پر مستقر ہونے كے بعد حج پر جا رہا ہو اور بيمارى كى وجہ سے سفر كو جارى ركھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھى اسے بغير مشقت كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے كہ كسى اور كو نائب بنائے اور اگر اسے اميد ہو تو اس سے خود حج كو بجالانے كا وجوب ساقط نہيں ہوگا_اور اگر احرام كے بعد بيمار ہو تو اسكے اپنے خاص احكام ہيں _

ج_ سربى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ حج پر جانے كا راستہ كھلا اور باامن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ بند ہو اس طرح كہ اس كيلئے ميقات يا اعمال حج كى تكميل تك پہنچنا ممكن نہ ہو اسى طرح اس شخص پر بھى حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ كھلا ليكن نا امن ہو چنانچہ اس راستے ميں اسے اپنى جان ، بدن ، عزت يا مال كا خطرہ ہو _

۳۰

مسئلہ ۳۹_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات ہوں اور وہ حج پرجانے كيلئے تيارہوجائے جيسا كہ حج كيلئے اپنا نام لكھو ادے ليكن چونكہ اسكے نام قرعہ نہيں نكلا اسلئے اس سال حج پر نہ جا سكا تو يہ شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے ليكن اگر آئندہ سالوں ميں حج كرنا اس سال اپنا نام لكھوانے اور مال دينے پر موقوف ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس كام كو انجام دے _

د_زمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں حج كو درك كرنا ممكن ہو پس اس بندے پر حج واجب نہيں ہے كہ جس پر اس طرح وقت تنگ ہو جائے كہ وہ حج كو درك نہ كر سكتا ہو يا سخت مشقت اور سخت حرج كے ساتھ درك كر سكتا ہو _

۳۱

دوسرى فصل :نيابتى حج

نائب و منوب عنہ كى شرائط كو بيان كرنے سے پہلے حج كى وصيت اور اس كيلئے نائب بنانے كے بعض موارد اور ان كے احكام كو ذكر كرتے ہيں _

مسئلہ ۴۰_ جس پر حج مستقر ہو جائے پھر وہ بڑھا پے يا بيمارى كى وجہ سے حج پر جانے سے عاجر ہو يا اس كيلئے حج پر جانے ميں عسر و حرج ہو اور بغير حرج كے قادر ہونے سے مايوس ہو حتى كہ آئندہ سالوں ميں بھى تو اس پر نائب بنانا واجب ہے ليكن جس پر حج مستقر نہ ہوا تواس پر نائب بنانا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۴۱_ نائب جب حج كو انجام دے دے تو منوب عنہ كہ جو حج كو

۳۲

انجام دينے سے معذور تھا اس سے حج كا وجوب ساقط ہو جائيگا اور اس پر دوبارہ حج بجا لانا واجب نہيں ہے اگر چہ نائب كے انجام دينے كے بعد اس كا عذر ختم بھى ہو جائے _ہاں اگر نائب كے عمل كے دوران ميںاس كا عذر ختم ہو جائے تو پھر منوب عنہ پر حج كا اعادہ كرنا واجب ہے اور ايسى حالت ميں اس كيلئے نائب كا حج كافى نہيں ہے _

مسئلہ ۴۲_ جس شخص پر حج مستقر ہے اگر وہ راستے ميں فوت ہو جائے تو اگر وہ احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعدفوت ہو تو يہ حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر احرام سے پہلے فوت ہو جائے تو اس كيلئے يہ كافى نہيں ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بناپريہ كافى نہيں ہے _

مسئلہ ۴۳_ جو شخص فوت ہو جائے اور اسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہو تو اگر اس كا اتنا تركہ ہو جو حج كيلئے كافى ہو اگر چہ ميقات سے ، تو اس كى طرف سے اصل تركہ سے حج كيلئے نائب بنانا واجب ہے مگر يہ كہ اس نے

۳۳

تركہ كے تيسرے حصے سے مخارج حج نكالنے كى وصيت كى ہو تو يہ اسى تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے اور يہ مستحب وصيت پر مقدم ہوں گے اور اگر يہ تيسرا حصہ كافى نہ ہو تو باقى كو اصل تركہ سے ليا جائيگا_

مسئلہ ۴۴_ جن موارد ميں نائب بنانا مشروع ہے ان ميں يہ كام فوراً واجب ہے چاہے يہ نيابت زندہ كى طرف سے ہو يا مردہ كى طرف سے _

مسئلہ ۴۵_ زندہ شخص پر شہر سے نائب بنانا واجب نہيں ہے بلكہ ميقات سے نائب بنا دينا كافى ہے اگر ميقات سے نائب بنانا ممكن ہو ورنہ اپنے وطن يا كسى دوسرے شہر سے اپنے حج كيلئے نائب بنائے اسى طرح وہ ميت كہ جسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہے تو اسكى طرف سے ميقات سے حج كافى ہے اور اگر نائب بنانا ممكن نہ ہو مگر ميت كے وطن سے يا كسى دوسرے شہر سے تو يہ واجب ہے اور حج كے مخارج اصل تركہ سے نكالے جائيں گے ہاں اگر اس نے اپنے شہر سے حج كرانے كى وصيت كى ہو تو وصيت كو نافذ كرنا واجب ہے اور ميقات كى اجرت سے زائد كو تركہ كے تيسرے حصے

۳۴

سے نكالا جائيگا _

مسئلہ ۴۶_ اگر وصيت كرے كہ اسكى طرف سے استحباباً حج انجام ديا جائے تو اسكے اخراجات تركہ كے تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے _

مسئلہ ۴۷_ جب ورثاء يا وصى كو ميت پر حج كے مستقر ہونے كا علم ہو جائے اور اسكے ادا كرنے ميں شك ہو تو ميت كى طرف سے نائب بنانا واجب ہے ليكن اگر استقرار كا علم نہ ہو اور اس نے اسكى وصيت بھى نہ كى ہو تو ان پر كوئي شے واجب نہيں ہے _

نائب كى شرائط :

۱_ بلوغ ، احوط كى بناپر ،پس نابالغ كا حج اپنے غير كى طرف سے حجة الاسلام كے طور پر كافى نہيں ہے بلكہ كسى بھى واجب حج كے طور پر _

۲_ عقل ، پس مجنون كا حج كافى نہيں ہے چاہے وہ دائمى ہو يا اسے جنون كے دورے پڑتے ہوں البتہ اگر جنون كے دورے كى حالت ميں حج انجام

۳۵