• ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15118 / ڈاؤنلوڈ: 1776
سائز سائز سائز
مراثیِ انیس(انتخاب)

مراثیِ انیس(انتخاب)

مؤلف:
اردو

مرثیہ نمبر ۲

مطلعِ سوم(دوم)

زھرا کی صدا ہے مرے پیارے کو سنبھالو

گرتے ہوئے اس عرش کے تارے کو سنبھالو

یا شیرِ خدا پیاس کے مارے کو سنبھالو

ہاتھوں پہ مرے راج دلارے کو سنبھالو

نرغے سے یہ مظلوم نکلنے نہیں پاتا

بچّہ مرا گھوڑے پہ سنبھلنے نہیں پاتا

گھوڑے سے گرا جب وہ دو عالم کا خُو زادہ

مرکب سے اتر کر ہوا تب شمر پیادہ

ظالم نے کیا بے اَدَبی کا جو ارادہ

زخموں میں ہوا سینے کے درد اور زیادہ

رکھنے جو لگا حلق پہ خنجر شہِ دیں کے

دو ہاتھ نظر آئے گلے پر شہِ دیں کے

پوچھا ستم ایجاد نے تب غیظ میں آ کے

یہ کون ہے پہلو میں امامِ دو سرا کے

فرمانے لگے سبطِ نبی اشک بہا کے

گردن میں مری، ہاتھ ہیں محبوبِ خدا کے

جھک کر مری گردن پہ گلا دھرتے ہیں نانا

تلوار ہٹا پیار مجھے کرتے ہیں نانا

ہاں اہلِ عزا رؤو اب آتی ہے قیامت

لازم ہے کرو کچھ تو ادا حقِ محبت

نزدیک ہے سر تن سے جدا ہونے کی ساعت

حضرت کو جھکے دیکھتے ہیں اہلِ شقاوت

دنیا سے بس اب کوچ ہے مولا کا تمھارے

بے جرم گلا کٹتا ہے آقا کا تمھارے

شارع کا یہ ہے حکم جو ہے مومنِ دیندار

دنیا میں وہ مجرم کہ ہو قتل اس کا سزاوار

ارشادِ نبی ہے اسے دو اور نہ آزار

مہلت کا ہو طالب تو مناسب نہیں انکار

مارو نہ تبر سے اسے نہ گرزِ گراں سے

سینے کو نہ مجروح کرو تیر و سناں سے

گر بھائی بہن کے ہو وہ دیدار کا خواہاں

دکھلا دو بلا کر تو کرو پھر اسے بے جاں

سن لو جو وصیّت کرے وہ مردِ مسلماں

گھر اس کا پسِ مرگ نہ لوٹو کسی عنواں

پڑھنے دو نماز اس کو جو وقت آئے ادا کا

نرمی تمھیں لازم ہے کہ بندہ ہے خدا کا

پیاسا ہو تو پانی اسے منگوا کے پلاؤ

ہر عضو سے خون اس کا زمیں پر نہ بہاؤ

سو جائے تو ہر گز بہ خشونت نہ جگاؤ

اک ضرب سوا اور اسے ضربت نہ لگاؤ

مر جائے تو مرقد میں دھرو لاش کو اس کی

گھوڑوں سے نہ پامال کرو لاش کو اس کی

فریاد ہے شبّیر پہ کچھ رحم نہ آیا

سرتاجِ فلک احمدِ مختار کا جایا

بے جرم و گنہ پر نہ تَرَس ایک نے کھایا

مرتے ہوئے قطرہ بھی نہ پانی کا پلایا

مانگا کیے خود خاک پہ سر دھرنے کی مہلت

سیّد کو نہ دی سجدۂ رب کرنے کی مہلت

دیکھا دمِ آخر نہ بہن کو نہ پسر کو

ہلنے نہ دیا شمر نے زھرا کے قمر کو

ناموسِ نبی سامنے پیٹا کیے سر کو

کن سختیوں سے ذبح کیا تشنہ جگر کو

دَب دَب کے لہو نور کے آئینے سے نکلا

دم شمر کے زانو کے تلے سینے سے نکلا

جب کٹ گیا حلقِ پسرِ حیدرِ کرّار

خوش ہو کے پکارا پسر سعد جفا کار

اتریں ابھی گھوڑوں سے نہ سب فوج کے اسوار

پیدل بھی ابھی اپنی کمر کھولیں نہ زنہار

قتلِ شہِ بے کس کا صلا دینا ہے مجھ کو

اک کام ابھی اور ہے وہ لینا ہے مجھ کو

جو لوگ ادھر ہیں قدم آگے نہ بڑھائیں

جو آگے ہیں غول اپنے وہ اس سمت کو لائیں

جو میسرہ پر ہیں وہ سوئے میمنہ جائیں

اور میمنہ والے طرَفِ میسرہ آئیں

سب فوج پہ جب یہ ہوئی تاکید شقی کی

پامال ہوئی لاش حسین ابنِ علی کی

بشّاش چلا شمر لعیں جانبِ لشکر

اک ہاتھ میں سر شاہ کا اور ایک میں خنجر

پُر نور تھا چہرہ صفَتِ مہرِ مُنوّر

خوں حلقِ بریدہ سے ٹپکتا تھا زمیں پر

رخساروں پہ زخمِ تبر و تیر پڑے تھے

ماتھے پہ اسی طرح کئی تیر گڑے تھے

عمّامہ نہ تھا فرق پہ، عریاں تھا سرِ پاک

اور دونوں طرف گیسؤوں میں جم گئی تھی خاک

پُر آب تھی چشمِ پسرِ سیّدِ لولاک

ابروئے مُطہّر کئی جا تیغوں سے تھے چاک

خُوں جم گیا تھا ریشِ امامِ دو سرا میں

سوکھے ہوئے لب ہل رہے تھے ذکرِ خدا میں

بجنے لگے باجے ظفر و فتح کے جس دم

آپس میں گلے ملنے لگے فوج کے اظلم

خیمے سے نکل آئی ادھر زینبِ پُر غم

فریاد جو کی ہلنے لگے عرشِ مُعظّم

عُریاں سرِ زھرا و پیمبر نظر آیا

آگے جو بڑھی لاشۂ بے سر نظر آیا

سر پیٹ کے چلّائی کہ ہے ہے مرا بھائی

جیتی رہی میں، لُٹ گئی امّاں کی کمائی

بھیّا ہوئی کس وقت سر و تن میں جدائی

ناشاد بہن آپ تک آنے بھی نہ پائی

کیا قہر ہے وقفِ الم و یاس نہ ہوں میں

کٹ جائے گلا آپ کا اور پاس نہ ہوں میں

کیا گزری تہہِ تیغِ جفا ہائے برادر

یہ ذبح کی ایذا و بلا ہائے برادر

تنہائی میں صدمہ یہ سہا ہائے برادر

دی تم نے بہن کو نہ صدا ہائے برادر

نازک یہ گلا کون سے خونخوار نے کاٹا

آئی یہ صدا شمرِ ستم گار نے کاٹا

پُوچھا کہ دیا تھا دمِ آخر تمھیں پانی

فرمایا کہ اب تک نہ بجھی تشنہ دہانی

چلّائی وہ ناشاد بصد اشک فشانی

تھا پاس کوئی اے اسد اللہ کے جانی

تنہا ستم ایجادوں کے حلقے میں پڑے تھے

فرمایا کہ نانا مرے پہلو میں کھڑے تھے

بے چین مری روح ہے آنسو نہ بہاؤ

سر ننگے خدا کے لیے بلوے میں نہ آؤ

گھر لُوٹنے فوج آتی ہے اب خیمے میں جاؤ

گوشہ کوئی مل جائے تو بچّوں کو چھپاؤ

بیدردوں کے ہاتھوں سے نہ دکھ پائے سکینہ

ڈر ہے نہ کہیں سہم کے مر جائے سکینہ

کیوں چرخ یہ حال اس کا جو ہو خلق کا والی

اک چاند پہ امڈی یہ گھٹا ظلم کی کالی

وہ ناوکِ دلدوز، وہ جسمِ شہِ عالی

حلقہ کوئی جوشن کا نہیں تیر سے خالی

طاری ہے غشی، دل کو سنبھالا نہیں جاتا

اک تیر بھی سینے سے نکالا نہیں جاتا

مظلوم مسافر پہ یہ بیداد صد افسوس

اک جان ہزاروں ستم ایجاد صد افسوس

ٹوٹے ہوئے ہیں پیاسے پہ جلّاد صد افسوس

شہ کی کوئی سنتا نہیں فریاد صد افسوس

جز نیزہ و تیغ و تبر آتا نہیں کوئی

فرزندِ محمد کو بچاتا نہیں کوئی

بے حال ہیں رہوار پہ آقائے خوش اوقات

بند آنکھیں ہیں، خوں بہتا ہے، کی جاتی نہیں بات

سر پیٹتے ہیں اہلِ حرم لٹتے ہیں سادات

حامی نہیں کوئی، کوئی پرساں نہیں، ہیہات

حالِ شہ، آوارہ وطن دیکھ رہی ہے

تلواروں میں بھائی کو بہن دیکھ رہی ہے

لو خاک پہ گھوڑے سے گرے سبطِ پیمبر

تھرّائی زمیں ہلنے لگا عرشِ منوّر

سر پیٹتی مقتل کو چلی زینبِ مضطر

یاں شمر ستم گار بڑھا کھینچ کے خنجر

سر ننگے نجف سے شہِ مرداں نکل آئے

مرقد سے نبی چاک گریباں نکل آئے

چلّائے ملائک کہ قیامت ہوئی برپا

گھبرا کے درختوں سے اُڑے طائرِ صحرا

آندھی ہوئی اک غرب کی جانب سے ہویدا

تھرّانے لگے کوہ، ابلنے لگے دریا

تیرہ ہوا دن، اُڑنے لگی خاک جہاں میں

غل، ہائے حسینا کا اٹھا کون و مکاں میں

اس حشر میں احمد کی نواسی کا یہ تھا حال

گرتی تھی کبھی، اٹھتی تھی گہ، کھولے ہوئے بال

چلّاتی تھی سر پیٹ کے اے فاطمہ کے لال

ہے ہے تمھیں تلواروں میں گھیرے ہیں بد افعال

کیا کیا مجھے صدمہ یہ جدائی نہیں دیتی

لاش آپ کی زینب کو دکھائی نہیں دیتی

بھیّا مجھے رستہ نہیں ملتا کدھر آؤں

کیونکر تمھیں جلّادوں کے پنجہ سے چھڑاؤں

بھیّا تمھیں اس بھیڑ میں کس طرح سے پاؤں

سب قتل ہوئے بہرِ مدد کس کو بلاؤں

کیا ہے کہ جو بابا کی سواری نہیں آتی

بھیّا مجھے آواز تمھاری نہیں آتی

لی جن سے زمیں مول انھیں لوگوں کو بلاؤ

میں کس کو پکاروں کہ ترَس بھائی پہ کھاؤ

اے اہلِ زراعت تمھیں امداد کو آؤ

لٹتے ہوئے کنبے کو محمد کے بچاؤ

کام آؤ غریبوں کے تو احساں ہے تمھارا

یہ بے وطن اس دشت میں مہماں ہے تمھارا

شہ نے جو سنی زاریِ زینب تہِ خنجر

گھبرا کے صدا دی کہ ادھر آؤ نہ خواھر

کہا قہر ہے تم رن میں چلی آئیں کُھلے سر

مشغول ہے امّت کی دعا میں یہ برادر

مطلوب رضا مندیِ معبود ہے زینب

تنہا نہیں، اللہ تو موجود ہے زینب

کس طرح اٹھیں، سینۂ زخمی پہ ہے جلّاد

نانا مجھے گودی میں لیے کرتے ہیں فریاد

امّاں مرے پہلو میں ہیں اے زینبِ ناشاد

روتے ہیں مرے بھائی بھی یہ دیکھ کہ بیداد

گریاں و حزیں خاصۂ قیّوم کھڑے ہیں

بابا بھی سرھانے مرے مغموم کھڑے ہیں

یہ سنتے ہی دوڑی طرَفِ لاش وہ مضطر

چلّائی کہ ہمشیر بھی آتی ہے برادر

لاشے پہ نہ پہنچی تھی کہ برپا ہوا محشر

دیکھا کے لیے جاتا ہے قاتل سرِ سرور

سب تیر اسی طرح سے سینہ میں گڑے ہیں

بے سر شہِ دیں خاک پہ مقتل میں پڑے ہیں

ہاں پیٹ کے سر روئیں وہ جو اہلِ عزا ہیں

یاں احمدِ مختار بھی سرگرمِ بکا ہیں

مقتل میں کُھلے سر حرَمِ شیرِ خدا ہیں

خاک اڑتی ہے، جنباں طبقِ ارض و سما ہیں

سر کٹ چکا لختِ دلِ زھرا و علی کا

اب لٹتا ہے ملبوسِ کہن سبطِ نبی کا

عمّامۂ پُر خوں لیے جاتا ہے کوئی آہ

بھاگا ہے کوئی لے کے عبائے شہِ ذی جاہ

ہاتھوں سے قبا کھینچ رہا ہے کوئی گمراہ

عُریاں ہے زمیں پر تنِ فرزندِ یدُاللہ

اب لشکرِ کیں لاش کو پامال کرے گا

بعد اس کے ستم ہاتھوں پہ جمّال کرے گا

خاموش انیس اب کہ نہیں طاقتِ تحریر

عالم جسے روتا ہے وہ مظلوم ہے شپّیر

خالق سے دعا مانگ کہ اے مالکِ تقدیر

دکھلا مجھے آنکھوں سے مزارِ شہِ دلگیر

محسوب ہوں زوّارِ امامِ دو سرا میں

مر جاؤں تو مدفن ہو جوارِ شُہَدا میں

(ختم.شدمرثیہ.نمر۲)

مرثیہ نمبر ۳

(یارب.عروسِ.فکرکوحُسن.وجمال.دے)

یا رب عروسِ فکر کو حُسن و جمال دے

مُلکِ سخنوری کو دُرِ بے مثال دے

رنگینیٔ کلام کو سحرِ حلال دے

آئے قمر کو رشک وہ اوجِ کمال دے

گُلکاریاں کروں جو مضامیں کے باغ میں

پھولوں کی بُو بہشت سے آئے دماغ میں

ہاں اے زباں روانیِ طبعِ رسا دکھا

دریائے فکر کے گُہَرِ بے بہا دکھا

اس معرکہ میں جوھرِ سیفِ خدا دکھا

تصویرِ رزمِ قاسمِ گلگوں قبا دکھا

شُہرت ریاضِ دہر میں ہو چار سُو مری

بلبل بھی سن کے وجد کرے گفتگو مری

مطلعِ.ثانی

جب رن میں زر فشاں وَرَقِ آسماں ہوا

پنہاں نظر سے حُسنِ رُخِ کہکشاں ہوا

ہر سُو فروغِ نُور سے روشن جہاں ہوا

اسلام کی سپاہ میں شورِ اذاں ہوا

رُو پوش ہو گیا مہِ تاباں حجاب سے

ذرّے نظر لڑانے لگے آفتاب سے

پردے سے آسماں کے جو طالع ہوئی سَحَر

مشغولِ ذکرِ حق ہوئے صحرا کے جانور

کوسوں سما تھا نور کا بالائے خشک و تر

سجدے میں جھک گئے تھے نہالانِ باروَر

جھونکے نسیمِ صبح کے بھی سرد سرد تھے

ذرّوں میں یہ چمک تھی کہ ہیرے بھی گرد تھے

ڈُوبا تھا اپنے رنگ میں ہر گُل جدا جدا

پُھولا تھا ہر طَرَف چَمَنِ قدرَتِ خدا

سبزہ وہ اس کچھار کا، صحرا کی وہ فضا

گویا زمرَّدیں تھا بیابانِ کربلا

تھا ہر طَرَف شَفَق کا گماں لالہ زار سے

جانیں لڑی ہوئی تھیں عروسِ بہار سے

جنّت پہ طعنہ زن چَمَنِ روزگار تھا

پھولوں کی ڈالیوں پہ بھی جوشِ بہار تھا

پر بلبلوں کو خندۂ گل ناگوار تھا

یعنی وہ شورِ قتلِ شہِ نامدار تھا

شبنم جو روئی غم میں شہِ دل ملول کے

موتی بھرے ہوئے تھے کٹوروں میں پھول کے

ظاہر ہوئی سَحَر کی سفیدی جو ایک بار

نکلے درِ خیام سے سلطانِ نامدار

ہمشکلِ مصطفیٰ نے اذاں دی بحالِ زار

باندھیں صفیں سبھوں نے بصد عزّ و افتخار

اس دم زباں پہ تھا یہ ہر اک دل ملول کی

یہ آخری نماز ہے سبطِ رسول کی

بے مثل تھی جماعتِ شاہِ فَلَک سریر

ہنس ہنس کے دیکھتا تھا جوانوں کو چرخِ پیر

کیونکر نہ ہوں وہ جرأت و ہمّت میں بے نظیر

پیرو تھے اسکے جس نے پیا فاطمہ کا شیر

ہر دم سُوئے امامِ غریباں نگاہ تھی

پیاسے تو تھے پہ یُوسُفِ زھرا کی چاہ تھی

وہ دبدبہ، وہ رعب و حَشَم، وہ شکوہ و شان

سوکھے لبوں پہ شکرِ خداوندِ دو جہان

ہر وقت بس اسی کا تصوّر، اسی کا دھیان

ہو جائیں ہم نثارِ شہنشاہِ انس و جان

آقا پہ تھا جو غم تو خوشی ناپدید تھی

الفت ہے اسکا نام کہ مرنے کی عید تھی

رضواں پکارتا تھا یہ جنّت میں بار بار

آؤ مجاہدو کہ سحر سے ہے انتظار

دیکھو یہ باغِ خلد یہ میوے یہ سبزہ زار

یہ حُلّۂ بہشت یہ کوثر یہ لالہ زار

حُبّ ِ حُسین ہے جو تمھاری سرشت میں

دیکھو دیے خدا نے یہ رتبے بہشت میں

حق نے عطا کئے ہیں تمھیں اسطرح کے گھر

جن میں جڑے ہیں لعل کہیں اور کہیں گُہَر

میوے وہ خوشگوار وہ پھولے پھلے شجر

چھایا ہوا وہ سایۂ طُوبیٰ اِدھر اُدھر

نہریں بھی لہریں لیتی ہیں کوثر کے ذوق میں

آنکھیں حباب دیر سے کھولے ہیں شوق میں

حُوروں میں غُل یہ ہے کہ وہ صفدر کب آئیں گے

مضطر ہے دل، حُسین کے یاور کب آئیں گے

پیاسے ہزبر جانبِ کوثر کب آئیں گے

جانیں لڑی ہوئی ہیں وہ گوہر کب آئیں گے

ہاتھوں میں ظرف سُرخ کہیں سبز فام ہیں

چھلکے ہوئے شرابِ طَہُورا کے جام ہیں

فارغ ہوئے نماز سے جب سبطِ مصطفیٰ

خالق سے ہاتھ اٹھا کے یہ کرنے لگے دعا

اے دستگیرِ بے کس و محتاجِ بے نوا

کٹ جائے آج خنجرِ برّاں سے یہ گلا

اترے یہ بارِ دوش تو راحت ہو چین ہو

ہاتھوں پہ سر دھرے ہوئے حاضر حُسین ہو

اعدا کے جو ستم ہیں وہ تجھ سے نہاں نہیں

راحت سے ایک دم کوئی تشنہ دہاں نہیں

صحرا میں شورِ قتل ہے گھر میں اماں نہیں

جاؤں کدھر یہ نرغۂ اعدا کہاں نہیں

ہے قحطِ آب فاطمہ زھرا کے لال پر

ٹکڑے جگر کے ہوتے ہیں بچوں کے حال پر

کیا منہ بشر سے وصف جو ہوئیں ادا ترے

غربت میں لطف عام ہیں صبح و مسا ترے

اشفاق ہیں پدر سے فزوں کبریا، ترے

بچّوں پہ کون رحم کرے گا سوا ترے

خوش ہوں پسر جو زیورِ آہن میں غرق ہو

رسّی میں ہو گلا پہ نہ ہمّت میں فرق ہو

یا رب جہاں میں آلِ پیمبر کو صبر دے

کلثوم کو، حُسین کی دختر کو صبر دے

چادر چھنے تو زینبِ بے پر کو صبر دے

ہر اک گھڑی میں عابدِ مضطر کو صبر دے

ہر حال میں تجھ ہی پہ ہے تکیہ فقیر کا

حافظ ہے تُو بلا میں یتیم و اسیر کا

صابر ہے ہر مہم میں رسولِ خدا کا لال

صدقے ہیں تیری راہ میں اطفالِ خورد سال

راضی ہوں میں اسیر ہو گر فاطمہ کی آل

کچھ غم نہیں کھلیں بھی جو سیدانیوں کے بال

زنداں میں بیٹیاں ہوں جنابِ بتول کی

لیکن رہا ہو نار سے امّت رسول کی

فارغ ہوئے دعا سے جو سلطانِ ذی وقار

اس وقت ہاتھ جوڑ کے بولے یہ جاں نثار

آتے ہیں تیر لشکرِ اعدا سے بار بار

اب اذنِ جنگ دیجیے یا شاہِ نامدار

مولا دلوں کو تاب نہیں اب خدا گواہ

گھیرے ہے چار سمت سے اعدا کی سب سپاہ

باجوں کا شور ہوتا ہے، ہلتی ہے رزم گاہ

بڑھ بڑھ کے مورچوں سے ڈراتے ہیں روسیاہ

گر حکم ہو تو فوجِ ستم سے وغا کریں

ایسا نہ ہو کہ بے اَدَبی اشقیا کریں

فوجِ گراں ادھر ہے تو ہو، کچھ نہیں ہے غم

سب باگیں پھیر لیں گے جو تیغیں ہوئیں عَلَم

کب تک سنیں کلامِ درشت ان کے دمبدم

کچھ انتہا بھی ظلم کی ہے یا شہِ اُمَم

مغرور و بے حیا سِپَہِ بے شعور ہے

مولا اب انکی چشم نمائی ضرور ہے

بولے یہ سن کے حضرتِ عبّاس نیک خُو

سنتے ہیں کچھ حضور دلیروں کی گفتگو

اللہ رے عزّ و شانِ جوانانِ ماہ رُو

دریا بہے گا آج لہو کا کنارِ جُو

لشکر پہ جا پڑیں گے ارادے یہ سب کے ہیں

چتوَن جو قہر کی ہے تو تیور غضب کے ہیں

ایک ایک سرفروش ہے ایک ایک جاں نثار

تکتے ہیں چشمِ غیظ سے اعدا کو بار بار

ڈر ہے گلوں پہ پھیر نہ لیں تیغِ آبدار

بہتر ہے اب کہ ان کو ملے حکمِ کارزار

دم بھر قرار شاق ہے دنیائے زشت میں

جلدی انہیں یہی ہے کہ پہنچیں بہشت میں

بولے بہا کے اشک شہنشاہِ کربلا

بھیّا کسے ملے ہیں یہ انصارِ با وفا

شکوہ نہ پیاس کا ہے نہ فاقوں کا کچھ گِلا

کیونکر انھیں میں برچھیاں کھانے کی دوں رضا

تیغِ الم سے میرا جگر چاک چاک ہے

چھوٹے جو یہ رفیق تو دنیا پہ خاک ہے

دیکھے، یہ دل کسی کے نہ پتّے نہ یہ جگر

پر حیف اب بچھڑتے ہیں یہ غیرتِ قمر

کچھ بس نہیں کھڑے ہیں یہ باندھے ہوئے کمر

اچّھا خوشی ہے ان کی تو جائیں کٹائیں سر

چھوڑیں اکیلا فاطمہ کے نورِ عین کو

ہیں آج سب کے داغ اٹھانے حُسین کو

خوش ہو گئے یہ سن کے رفیقانِ شاہِ دیں

جانے لگا جہاد کو اک ایک مہ جبیں

ایسے لڑے سپاہ سے وہ ناصرانِ دیں

ہتھیار پھینک پھینک کے بھاگے سب اہلِ کیں

نہ وہ صفیں نہ مجمعِ مردم تھا گھاٹ پر

خشکی میں ابتری تھی تلاطم تھا گھاٹ پر

کس کس بہادری سے لڑے عاشقِ امام

اللہ رے حرب درہم و برہم تھی فوجِ شام

لیکن کہاں چھ لاکھ کہاں چند تشنہ کام

کھا کھا کے زخم مر گئے آخر وہ لالہ فام

ایذا تھی دھوپ میں جو تنِ پاش پاش کو

جا کر حُسین لاتے تھے ایک ایک لاش کو