• ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15123 / ڈاؤنلوڈ: 1780
سائز سائز سائز
مراثیِ انیس(انتخاب)

مراثیِ انیس(انتخاب)

مؤلف:
اردو

مرثیہ نمبر ۳

مطلعِ سوم(اول)

جب سب رفیق حقِ نمک کر چکے ادا

مرنے کی پھر خوشی سے عزیزوں نے لی رضا

وہ بھی ہوئے شہید تو رونے کی ہے یہ جا

قاسم تھے اور حضرتِ عبّاس با وفا

تھے سامنے جو لاشۂ پُر خوں دھرے ہوئے

تکتے تھے فوجِ شام کو آنسو بھرے ہوئے

مشغول تھے بکا میں شہنشاہِ ذی وقار

جو اقتلو الحسین کی ہونے لگی پکار

گرجے دہل، بلند ہوا شورِ گیر و دار

پھر کھل گئے صفوں میں علَم ہائے زر نگار

نکلے سوار جنگ کو باہم تھمے ہوئے

بڑھنے لگے صفوں سے سپاہی جمے ہوئے

نو بادۂ حَسن نے جو دیکھا یہ ماجرا

ہمشکلِ مصطفٰی سے الگ جا کے یہ کہا

بھیّا، مقامِ غور ہے رونے کی ہے یہ جا

سب مر گئے ہمیں نہ ملی رخصتِ وغا

کھیلے ہوئے تو ساتھ کے پہنچے بہشت میں

ہم نامراد رہ گئے دنیائے زشت میں

خیمہ میں آج صبح سے محشر ہے آشکار

بیٹوں کے غم میں روتی ہیں زینب بحالِ زار

کیا منہ دکھائے جا کے حرم میں یہ سوگوار

پردے کے پاس بیٹھی ہیں امّاں جگر فگار

فرمائیں گی شہید ہر اک تشنہ لب ہوا

قاسم نے لی نہ رن کی اجازت، غضب ہوا

کہتی تھیں شب کو مجھ سے یہ امّاں بچشمِ تر

قربان جاؤں آج قیامت کی ہے سحر

عمّو پہ دیکھنا جو ہجومِ سپاہِ شر

لانا دلہن کا دھیان نہ مطلق مرے پسر

حسرت یہی ہے اور ہے یہ آرزو مری

تم مر کے آئیو کہ رہے آبرو مری

یاں تو یہ ذکر کرتا تھا شبّر کا نونہال

خیمہ میں پیچ و تاب سے مادر کا تھا یہ حال

غم سے عرق جبیں پہ ہے بکھرے ہوئے ہیں بال

دل مضطرب ہے، رونے سے آنکھیں ہیں دونوں لال

صدمہ یہ ہے کہ رن کی اجازت میں کَد نہ کی

قاسم نے اس مہم میں چچا کی مدد نہ کی

کیوں کر نہ دل ہو سینۂ سوزاں میں بے قرار

سو سو طرح سے ہوئے گا امّاں کو انتشار

بھیّا، پھر ایسا وقت نہ پاؤ گے زینہار

دلوا دو تم چچا سے ہمیں اذنِ کارزار

ڈر ہے کہ پھر وغا کا جو غل بے ادب کریں

عبّاسِ نامدار نہ رخصت طلب کریں

جس دم ہجومِ یاس نے گھیرا زیادہ تر

غصّے سے کانپتی ہوئی اٹھی وہ نوحہ گر

فضّہ سے رو کے کہنے لگی وہ نکو سِیَر

لا دے حسن کے لال کی اس دم مجھے خبر

مقتل میں ہیں کہ پاس شہِ کربلا کے ہیں

رخصت ملی ہے یا ابھی طالب رضا کے ہیں

کہیو کہ اے یتیمِ حسن تم پہ مرحبا

کیا خوب ماں کو شاد کیا تم پہ میں فدا

حیراں ہوں میں کھڑے ہوئے تم دیکھتے ہو کیا

اب تک رضا نہ لی، مجھے حیرت کی ہے یہ جا

اب کون ہے جہاں میں شہِ خوشخصال کا

کیا ہے چچا کے بعد ارادہ جدال کا

شب کو کیے تھے آپ نے مادر سے یہ کلام

اقرار کیا کئے تھے، تاسّف کا ہے مقام

عمّو پہ ہے سحر سے یہ نرغہ میں ازدحام

کچھ کر سکے نہ تم مددِ شاہِ خاص و عام

سمجھا گئے تھے باپ بھی کیا کیا ہزار حیف

بازو کی بھی سند کو نہ دیکھا ہزار حیف

کیا کہہ گئے تھے آپ سے شبّر جگر فگار

تجھ کو اسی سخن کا تصوّر ہے بار بار

کہتا تھا کون باپ سے ہنگامِ اختضار

خادم کرے گا پہلے عزیزوں سے سر نثار

اس دم کہاں ہے جرأت و ہمّت وہ آپ کی

ہے ہے عمل کیا نہ وصیّت پہ باپ کی

فضّہ چلی یہ سن کے جو خیمہ سے نوحہ گر

دیکھا کہ آپ آتے ہیں قاسم جھکائے سر

منہ سرخ، تیغ ہاتھ میں، باندھے ہوئے کمر

آتے ہی ماں کے چہرۂ اقدس پہ کی نظر

تھرّائی ماں جو غیظ سے منہ اپنا موڑ کے

قاسم قدم پہ گر پڑے ہاتھوں کو جوڑ کے

بولی اٹھا کے سر کو یہ مادر جگر فگار

واللہ تم سے یہ نہ توقع تھی میں نثار

کام آئے سب وغا میں عزیز و رفیق و یار

تم نے چچا سے کیوں نہ لیا حکمِ کارزار

کیا قہر ہے کہ شاہ سے اذنِ وغا نہ لو

زینب کے لال قتل ہوں اور تم رضا نہ لو

کس کس نے دی نہ آن کے شہ کے قدم میں جان

لو تم نہ اذن، غیر رضا لیں خدا کی شان

کیا ہو گئی وہ جرأت و ہمّت وہ آن بان

ہوتا ہے یوں خموش کوئی وقتِ امتحان

لکھ دی جو حق نے سیرِ ارم سرنوشت میں

دیکھو نصیبِ وہب کہ پہنچا بہشت میں

گر ہے دلہن کی فکر تو بے جا ہے یہ خیال

ہر رنج و غم میں رانڈوں کا حافظ ہے ذوالجلال

صابر ہے دکھ میں، درد میں، خیر النساء کا لال

کُھلنے کا سر کے غم ہے نہ کچھ قید کا ملال

راضی رہیں حُسین، رضا ذوالمنن کی ہو

کنگنا ہو یا رسن میں کلائی دلہن کی ہو

ماں سے سنے جو قاسمِ مضطر نے یہ کلام

آنکھوں سے اشک پونچھ کے بولا وہ لالہ فام

آگاہ دل کے حال سے ہے خالقِ انام

امّاں سحر سے مرنے کو حاضر تھا یہ غلام

کی سو طرح خوشامد و منّت غلام نے

لیکن نہ دی وغا کی اجازت امام نے

قدموں پہ گر کے شہ کے یہ کی عرض چند بار

دیجے رضا کہ مرنے کو جائے یہ جاں نثار

شاہد ہیں اس میں حضرتِ عبّاس نامدار

کیں سو خوشامدیں نہ ملا اذنِ کارزار

شک ہو اگر تو شہ کے برادر گواہ ہیں

بلوا کے پوچھیے علی اکبر گواہ ہیں

امّاں دلہن سے ملنے کی بھی کچھ ہوس نہیں

تیّار جان دینے پہ ہیں پیش و پس نہیں

حامی کوئی نہیں کوئی فریاد رس نہیں

سر پر اجل کھڑی ہوئی ہے اپنا بس نہیں

یارا کلام کا ہے نہ طاقت ہے صبر کی

درپیش آج صبح سے منزل ہے قبر کی

مادر سے رو کے ابنِ حَسن نے یہ جب کہا

بس سر جھکا کے رہ گئی وہ غم کی مبتلا

پھر اشک بھر کے آنکھوں میں بولی کہ میں فدا

ہاں واری، سچ ہے، کیوں نہ ہو شاباش و مرحبا

بہتر ہے جو خوشی ہو شہِ تشنہ کام کی

لازم یونہی ہے تم کو اطاعت امام کی

نرغہ میں آج صبح سے ہیں سرورِ امم

فرصت نہیں ہے لاش اٹھانے سے کوئی دم

کیوں کر کہیں گے وہ کہ سدھارو سوئے عدم

بیٹی کے رانڈ ہونے کا صدمہ، تمھارا غم

دیتے نہیں رضا جو شہِ کربلا تمھیں

میں اب دلائے دیتی ہوں اذنِ وغا تمھیں

جب تک حرم میں آئیں شہنشاہِ نامدار

مل آؤ تم بھی جا کے دلہن سے یہ ماں نثار

جب سے سنا ہے تم کو مہیّائے کارزار

گھونگھٹ میں رو رہی ہے وہ مغموم و سوگوار

ایسی کوئی دلہن بھی نہ بیکس غریب ہو

قسمت میں تھا، بیاہ میں رونا نصیب ہو

باتیں یہ سن کے دل پہ جو صدمہ ہوا کمال

حجلہ میں آ کے بیٹھ گیا مجتبیٰ کا لال

آئے نظر عروس کے گوندھے ہوئے جو بال

بلوے میں سر کے کھلنے کا بس آ گیا خیال

آئی صدا جو کان میں فریاد و آہ کی

کس یاس سے عروس کی جانب نگاہ کی

جُھک کر دلہن کے رخ پہ جو دولھا نے کی نظر

دیکھا کہ ہے لباسِ بدن آنسوؤں سے تر

ہچکی لگی ہے شرم کے مارے جھکائے سر

سہرے سے مل کے گرتے ہیں آنسو اِدھر اُدھر

چہرہ تمام زرد ہے صدمے دو چند ہیں

آنکھیں وہ نرگسی کفِ رنگیں سے بند ہیں

رقّت کو ضبط کر کے یہ بولا حَسن کا ماہ

لو الوداع جاتے ہیں مابینِ رزم گاہ

مہماں ہیں کوئی آن کے، تکتی ہے موت راہ

چارہ نہیں اجل سے کسی کا، خدا گواہ

ناراض والدہ ہوں جو وقفہ ذرا کریں

صاحب یہی لکھا تھا مقدر میں کیا کریں

صاحب بس اب یہ آج کی صحبت ہے مغتنم

پھر ہم کہاں بھلا یہ فرصت ہے مغتنم

اس دکھ میں دو گھڑی کی بھی راحت ہے مغتنم

جی بھر کے دیکھ لیں کہ یہ صورت ہے مغتنم

بے درد، کل پھر آئیں گے بلوائے عام میں

منزل سحر کو ہوئے گی کل راہِ شام میں

یہ صبر کا مقام ہے روؤ نہ زار زار

صاحب تمھارے حال پہ ہوتا ہے دل فگار

ہے تیرِ آہ سینۂ سوزاں کے آر پار

مجبور ہیں، نہ بس ہے کچھ، اپنا نہ اختیار

گو عمر بھر کا منزلِ فانی میں ساتھ ہے

پر کیا کریں اجل کا گریباں میں ہاتھ ہے

دیکھو دلہن کو وہب کی اللہ رے حوصلا

دولھا کو روزِ عقد جو مرنے کی دی رضا

اللہ رے پاسِ خاطرِ دلبندِ مرتضا

دیکھا خود اپنی آنکھ سے کٹتے ہوئے گلا

تعریف ہر زباں پہ ہے اس رشکِ ماہ کی

حاضر ہے اب کنیزی میں ناموسِ شاہ کی

مرثیہ نمبر ۳

مطلعِ سوم(دوم)

جس وقت کہ قتل ہوا وہبِ با وفا

بیوہ نے کی نہ آہ بجز شکرِ کبریا

ہر چند رانڈ ہونے کا صدمہ ہے جانگزا

رونے کی پر دلھن کے نہ آئی کبھی صدا

ماں اس جری کی زینبِ مضطر کے ساتھ ہے

زوجہ جو ہے وہ شاہ کی دختر کے ساتھ ہے

اللہ رے صبرِ مادرِ وہبِ نکو سِیَر

اس کو فدا کیا کہ جو تھا غیرتِ قمر

تیغوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوا جب وہ نامور

بیٹے کی لاش پر بھی نہ روئی وہ نوحہ گر

نہ رخ کیا وطن کا نہ راحت قبول کی

غربت میں اہلِ بیت کی خدمت قبول کی

ظاہر ہے صبرِ مادرِ وہبِ جگر فگار

کچھ غم کیا نہ بیٹے کے مرنے کا زینہار

دولھا کو کس خوشی سے دیا اذنِ کارزار

روئی نہ دل کڑھا نہ ہوئی چشم اشکبار

عورت تھی پر جہاد کی دل سے امنگ تھی

روکیں نہ گر تو خود وہ مہیّائے جنگ تھی

تم بھی اگر خوشی سے رضا دو تو جائیں ہم

ہے آرزو کہ جلدی سے اب سر کٹائیں ہم

اب تا کجا یہ ظلم کے صدمے اٹھائیں ہم

ہے ولولہ کہ جسم پہ تلوار کھائیں ہم

بیٹی ہو کس سخی کی، بہو کس ولی کی ہو

کیوں کر نہ صابرہ ہو کہ پوتی علی کی ہو

صاحب خدا کے واسطے کھولو تو لعلِ لب

اس حال میں یہ شرم مناسب نہیں ہے اب

ہے رحم کا مقام کہ فرقت کی ہے یہ شب

اب یاں سے جا کے دیکھیے ملتے ہیں تم سے کب

کیوں کر بھلا ہراس نہ ایک ایک گام ہو

کیا جانے آج کون سی منزل پہ شام ہو

جاتے ہیں واں جہاں کوئی راحت رساں نہیں

جس جا سراغِ نقشِ رہِ کارواں نہیں

بستی کا ذکر کیا کہیں کوسوں مکاں نہیں

ساتھی نہیں، شفیق نہیں، مہرباں نہیں

کیوں کر نہ خوف ہو کہ نئی واردات ہے

صاحب غضب یہ منزلِ اوّل کی رات ہے

للہ سر جھکا کے نہ آہ و بکا کرو

آساں کرے کریم یہ مشکل، دعا کرو

دل میں خیالِ گریۂ خیر النسا کرو

جانا ہمیں کہاں ہے تصوّر ذرا کرو

اس دکھ میں چاہئے ہے مدد کار ساز کی

منزل کڑی ہے راہ ہے دور و دراز کی

جس دم سنیں دلہن نے یہ باتیں بہ چشمِ تر

کھینچی وہ آہ دل سے کہ تھرّا گیا جگر

آہستہ سر جھکا کے یہ بولی وہ نوحہ گر

شب کی دلہن کو چھوڑ کے صاحب چلے کدھر

دیجے نہ یوں دغا کہ یہ رسمِ وفا نہیں

صاحب مرا جہاں میں کوئی آسرا نہیں

سمجھا رہے ہیں آپ مصیبت میں کیا مجھے

غربت میں کیجیئے نہ اسیرِ بلا مجھے

دکھلائی خوب آپ نے مہر و وفا مجھے

مانگو دعا کہ پہلے اٹھا لے خدا مجھے

سامان وہ ہوا ہے کہ جس کی خبر نہ تھی

بیوہ بنوں گی صبح کو اس کی خبر نہ تھی

جلتی زمیں پہ آپ جو سوئے کٹا کے سر

پھر کون اس غریب کی لے گا بھلا خبر

مہماں ہیں اور کوئی گھڑی شاہِ بحر و بر

امّاں سحر سے روتی ہیں تھامے ہوئے جگر

تقدیر میں لکھا ہے کہ سب در بدر پھریں

نیزے پہ سر ہو آپ کا ہم ننگے سر پھریں

جاتے ہو تم تو سونے کو مقتل میں ہے غضب

صحرا کی ہولناکی میں ہوگی بسر یہ شب

کیوں کر بھلا جگر پہ نہ ہو صدمہ و تعب

سہرا بڑھا نہ تھا کہ اجل نے کیا طلب

قسمت میں ہے کہ ظلم عجیب و غریب ہوں

چوتھی بکا میں، قید میں چالے نصیب ہوں

صاحب کنیز آپ کی الفت پہ ہو فدا

بیوہ بنا کے مجھ کو چلے وا مصیبتا

پر خیر جائیے مگر اتنی ہے التجا

لاشہ جہاں ہو میں بھی وہیں ہوں پئے عزا

جنگل میں کون ہوگا تنِ پاش پاش پر

رویا کروں گی راتوں کو صاحب کی لاش پر

پوچھے گا مجھ سے آ کے جو کوئی کہ اے غریب

پُر خوں یہ کس کی لاش ہے بے یار و بے حبیب

سر پیٹ کر کہوں گی یہ ہے سانحہ عجیب

مجھ سا جہاں میں کوئی نہ ہوگا بلا نصیب

دولھا شہید ہو گیا تقدیر سو گئی

شب کو دلہن تھی صبح کو میں رانڈ ہو گئی

رونے لگی یہ کہہ کے جو وہ غیرتِ قمر

قاسم کا فرطِ غم سے تڑپنے لگا جگر

ناگاہ گھر میں دوڑ کے فضّہ نے دی خبر

بی بی غضب ہوا کہ بڑھی فوجِ بد گہر

اکبر رضا طلب ہیں قیامت ہے صاحبو

لو، اب جوان بیٹے کی رخصت ہے صاحبو

ہمشکلِ مصطفٰی ہیں مہیّائے کارزار

تھامے کمر کھڑے ہیں شہنشاہِ نامدار

آئے کوئی یہ لشکرِ اعدا میں ہے پکار

تھرّا رہے ہیں غیظ سے عبّاس ذی وقار

آیا ہے یہ جلال علَمدارِ شاہ کو

روکا ہے لڑ کے شیر نے جنگی سپاہ کو

جس دم کہا پکار کے فضّہ نے یہ سخن

گھبرا کے اٹھ کھڑا ہوا نو بادۂ حَسن

ہتھیار سج کے تن پہ چلا جب وہ صف شکن

گھونگھٹ ہٹا کے پاس سے تکنے لگی دلھن

غل تھا جہاں سے کوچ ہے اس نونہال کا

مٹتا ہے اب نشان حَسن خوشخصال کا

رخصت کو شہ کے پاس چلا تھا وہ سیمبر

دیکھا کہ آپ آتے ہیں حضرت بہ چشمِ تر

ہیں ساتھ ساتھ اکبر و عبّاس نامور

قاسم نے جلد دوڑ کے رکھّا قدم پہ سر

کی عرض خانہ زاد کو اذنِ وغا ملے

رہ جائے آبرو جو دُرِ مدّعا ملے

مادر نے دی صدا شہِ والا نہ روکیے

ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں، مولا نہ روکیے

میداں سے بڑھتے آتے ہیں اعدا نہ روکیے

مرنے کی ہے انھیں بھی تمنّا نہ روکیے

سینہ میں بے قرار دلِ ناصبور ہے

صدقے گئی، غلام کی خاطر ضرور ہے

شہ نے گلے لگا کے بھتیجے سے یہ کہا

افسوس تم کو موت نے مہلت نہ دی ذرا

کس کس کا داغ دل پہ سہے ابنِ مرتضا

تم بھی چچا کو چھوڑ چلے وا مصیبتا

صدمہ فراق کا تمھیں تقدیر دے چلی

آخر تمھیں عروس، اجل بن کے لے چلی

بہتر ہے جو رضائے خدا خیر غم نہ کھاؤ

پھر ایک بار اور لگا لیں گلے سے آؤ

تم کو بھی ہم نے صبر کیا جاؤ سر کٹاؤ

بیاہی جو ایک شب کی ہے، بیوہ اسے بناؤ

راحت ہو عقد کر کے یہ حکمِ خدا نہ تھا

ہے ہے ابھی تو ہاتھ سے کنگنا کھلا نہ تھا

رونے لگے یہ کہہ کے جو سلطانِ نامدار

تسلیم کو جھکا بہ ادب وہ نکو شعار

پھر عرض کی یہ مادرِ بے کس سے ایک بار

امّاں ذرا عروس کی جانب سے ہوشیار

اب اس مریضِ غم کی پرستار آپ ہیں

بیوہ کی اس الم میں مددگار آپ ہیں

یہ بات کہہ کے مادرِ عالی مقام سے

رخصت ہوئے حسین علیہ السّلام سے

مل کر گلے شبیہِ رسولِ انام سے

تنتا ہوا چلا وہ دلاور خیام سے

دیکھا جو سرخ غیظ سے چہرہ جناب کا

گردوں پہ زرد ہو گیا رنگ آفتاب کا