• ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15314 / ڈاؤنلوڈ: 1904
سائز سائز سائز
مراثیِ انیس(انتخاب)

مراثیِ انیس(انتخاب)

مؤلف:
اردو

مرثیہ نمبر ۱

مطلعِ دوم

ہاں اے فلکِ پیر، نئے سر سے جواں ہو

اے ماہِ شبِ چار دہم، نور فشاں ہو

اے ظلمتِ غم، دیدۂ عالم سے نہاں ہو

اے روشنیِ صبحِ شبِ عید، عیاں ہو

شادی ہے ولادت کی یداللہ کے گھر میں

خورشید اترتا ہے شہنشاہ کے گھر میں

اے شمس و قمر، اور قمر ہوتا ہے پیدا

نخلِ چمنِ دیں کا ثمر ہوتا ہے پیدا

مخدومۂ عالم کا پسر ہوتا ہے پیدا

جو عرش کی ضَو ہے وہ گہر ہوتا ہے پیدا

ہر جسم میں جاں آتی ہے مذکور سے جس کے

نو نورِ خدا ہوں گے عیاں نور سے جس کے

اے کعبۂ ایماں، تری حرمت کے دن آئے

اے رکنِ یمانی تری شوکت کے دن آئے

اے بیتِ مقدّس، تری عزّت کے دن آئے

اے چشمۂ زمزم، تری چاہت کے دن آئے

اے سنگِ حرم، جلوہ نمائی ہوئی تجھ میں

اے کوہِ صفا، اور صفائی ہوئی تجھ میں=

اے یثرب و بطحا، ترے والی کی ہے آمد

لے رتبۂ اعلٰی شہِ عالی کی ہے آمد

عالم کی تغئیری پہ بحالی کی ہے آمد

کہتے ہیں چمن، ماہِ جلالی کی ہے آمد

یہ خانۂ کعبہ کی مباہات کے دن ہیں

یعقوب سے یُوسف کی ملاقات کے دن ہیں

اے ارضِ مدینہ، تجھے فوق اب ہے فلک پر

رونق جو سما پر ہے وہ اب ہوگی سمک پر

خورشید ملا، تیرا ستارہ ہے چمک پر

صدقے گلِ تر ہیں ترے پھولوں کی مہک پر

پَر جس پہ فرشتوں کے بچھیں، فرش وہی ہے

جس خاک پہ ہو نورِ خدا، عرش وہی ہے

یا ختمِ رسل، گوہرِ مقصود مبارک

یا نورِ خدا، اخترِ مسعود مبارک

یا شاہِ نجف، شادیِ مولود مبارک

یا خیرِ نسا، اخترِ مسعود مبارک

رونق ہو سدا، نور دوبالا رہے گھر میں

اِس ماہِ دو ہفتہ کا اجالا رہے گھر میں

اے امّتیو، ہے یہ دمِ شکر گزاری

ہر بار کرو سجدۂ شکریّۂ باری

اللہ نے حل کر دیا مشکل کو تمھاری

فردیں عملِ زشت کی اب چاک ہیں ساری

لکھے گئے بندوں میں ولی ابنِ ولی کے

ناجی ہوئے صدقے میں حسین ابنِ علی کے

اے ماہِ معظم، ترے اقبال کے صدقے

شوکت کے فدا، عظمت و اجلال کے صدقے

اُتری برکت، فاطمہ کے لال کے صدقے

جس سال یہ پیدا ہوئے اس سال کے صدقے

قرباں سحرِ عید اگر ہو تو بجا ہے

نوروز بھی اس شب کی بزرگی پہ فدا ہے

قربان شبِ جمعۂ شعبانِ خوش انجام

پیدا ہوا جس شب کو محمد کا گل اندام

قایم ہوا دین، اور بڑھی رونقِ اسلام

ہم پلّۂ صبحِ شبِ معراج تھی وہ شام

خورشید کا اجلال و شرف بدر سے پوچھو

کیا قدر تھی اس شب کی شبِ قدر سے پوچھو

وہ نورِ قمر اور وہ دُر افشانیِ انجم

تھی جس کے سبب روشنیِ دیدۂ مردم

وہ چہچہے رضواں کے وہ حوروں کا تبسّم

آپس میں وہ ہنس ہنس کے فرشتوں کا تکلّم

میکال شگفتہ ہوتے جاتے تھے خوشی سے

جبریل تو پھولوں نہ سماتے تھے خوشی سے

روشن تھا مدینے کا ہر اک کُوچہ و بازار

جو راہ تھی خوشبو، جو محلّہ تھا وہ گل زار

کھولے ہوئے تھا آہوئے شب نافۂ تاتار

معلوم یہ ہوتا تھا کہ پھولوں کا ہے انبار

گردوں کو بھی اک رشک تھا زینت پہ زمیں کی

ہر گھر میں ہوا آتی تھی فردوسِ بریں کی

کیا شب تھی وہ مسعود ہمایون و معظّم

رُخ رحمتِ معبود کا تھا جانبِ عالم

جبریل و سرافیل کو مہلت نہ تھی اِک دم

بالائے زمیں آتے تھے اور جاتے تھے باہم

باشندوں کو یثرب کے خبر نہ تھی گھروں کی

سب سنتے تھے آواز فرشتوں کے پروں کی

تھی فاطمہ بے چین ادھر دردِ شکم سے

منہ فق تھا اور آنسو تھے رواں دیدۂ نم سے

وابستہ تھی راحت اسی بی بی کے دم سے

مضطر تھے علی بنتِ پیمبر کے الم سے

آرام تھا اک دم نہ شہِ قلعہ شکن کو

پھرتے تھے لگائے ہوئے چھاتی سے حَسن کو

کرتے تھے دعا، بادشہِ یثرب و بطحا

راحم ہے تری ذاتِ مقدّس، مرے مولا

زہرا ہے کنیز اور مِرا بچّہ تیرا بندا

آسان کر اے بارِ خدا مشکلِ زہرا

نادار ہے اور فاقہ کش و زار و حزیں ہے

مادر بھی تشفّی کے لیے پاس نہیں ہے

ناگاہ درِ حجرہ ہوا مطلعِ انوار

دکھلانے لگے نورِ تجلّی در و دیوار

اسما نے علی سے یہ کہا دوڑ کے اِک بار

فرزند مبارک تمھیں یا حیدرِ کرّار

اسپند کرو فاطمہ کے ماہِ جبیں پر

فرزند نہیں، چاند یہ اترا ہے زمیں پر

دیکھا نہیں اس طرح کا چہرہ کبھی پیارا

نقشہ ہے محمد سے، شہنشاہ کا سارا

ماتھے پہ چمکتا ہے جلالت کا ستارا

اللہ نے اس گھر میں عجب چاند اتارا

تصویرِ رسولِ عربی دیکھ رہے ہیں

آنکھوں کی ہے گردش کہ نبی دیکھ رہے ہیں

اُمّ ِ سَلَمہ نے کہا یا شاہِ رسالت

پیشانیِ انور پہ ہے کیا نورِ امامت

لاریب کہ قرآنِ مبیں کی ہے یہ آیت

تم شمعِ رسالت ہو تو یہ نورِ ہدایت

خوش ہو کہ نمازی ہے یہ دلبند تمھارا

اللہ کے سجدے میں ہے فرزند تمھارا

مژدہ یہ سنا احمدِ مختار نے جس دم

بس شکر کے سجدے کو گرے قبلۂ عالم

آئے طرَفِ خانۂ زہرا خوش و خرّم

فرمایا مبارک پسر، اے ثانیِ مریم

چہرہ مجھے دکھلا دو مرے نورِ نظر کا

ٹکڑا ہے یہ فرزندِ محمد کے جگر کا

کی عرض یہ اسما نے کہ اے خاصۂ داور

نہلا لوں، تو لے آؤں اسے حجرے سے باہر

ارشاد کیا احمدِ مختار نے ہنس کر

لے آ کہ نواسہ ہے مرا طاہر و اطہر

اس چاند کو تاجِ سرِ افلاک کِیا ہے

یہ وہ ہے خدا نے جسے خود پاک کیا ہے

میں اس سے ہوں اور مجھ سے ہے یہ، تو نہیں ماہر

یہ نورِ الٰہی ہے، یہ ہے طیّب و طاہر

اسرار جو مخفی ہیں وہ اب ہوئیں گے ظاہر

یہ آیتِ ایماں ہے، یہ ہے حجّتِ باہر

بڑھ کر مددِ سیّدِ لولاک کرے گا

کفّار کے قِصّے کو یہی پاک کرے گا

جس دم یہ خبر مخبرِ صادق نے سنائی

اسما اسے اک پارچۂ نرم پہ لائی

بُو اُس گلِ تازہ کی محمد نے جو پائی

ہنسنے لگے، سُرخی رُخِ پُر نور پہ آئی

مُنہ چاند سا دیکھا جو رسولِ عَرَبی نے

لپٹا لیا چھاتی سے نواسے کو نبی نے

جان آ گئی، یعقوب نے یوسف کو جو پایا

قرآں کی طرح رحل دو زانو پہ بٹھایا

منہ ملنے لگے منہ سے، بہت پیار جو آیا

بوسے لیے اور ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا

دل ہل گیا، کی جبکہ نظر سینہ و سر پر

چُوما جو گلا، چل گئی تلوار جگر پر

جوش آیا تھا رونے کا مگر تھام کے رقّت

اِس کان میں فرمائی اذاں اُس میں اقامت

حیدر سے یہ فرمایا کہ اے شاہِ ولایت

کیوں تم نے بھی دیکھی مرے فرزند کی صورت

پُر نور ہے گھر، تم کو ملا ہے قمر ایسا

دنیا میں کسی نے نہیں پایا پسر ایسا

کیونکر نہ ہو تم سا پدر اور فاطمہ سی ماں

دو شمس و قمر کا ہے یہ اِک نیّرِ تاباں

کی عرض یہ حیدر نے کہ اے قبلۂ ایماں

حق اس پہ رکھے سایۂ پیغمبرِ ذی شاں

اعلٰی ہے جو سب سے وہ مقامِ شہِ دیں ہے

بندہ ہوں مَیں اور یہ بھی غلامِ شہِ دیں ہے

عالم میں ہے یہ سب برکت آپ کے دم سے

سرسبزیِ ایماں ہے اسی ابرِ کرم سے

تا عرش پہنچ جاتا ہے سر، فیضِ قدم سے

عزّت ہے غلاموں کی شہنشاہِ امم سے

کچھ اس میں نہ زہرا کا ہے باعث، نہ علی کا

سب ہے یہ بزرگی کہ نواسا ہے نبی کا

فرمانے لگے ہنس کے شہِ یثرب و بطحا

بھائی، کہو فرزند کا کچھ نام بھی رکھا

کی عرض یہ حیدر نے کہ اے سیّدِ والا

سبقت کروں حضرت پہ، یہ مقدور ہے میرا؟

فرمایا کہ موقوف ہے یہ رّبِ عُلا پر

میں بھی سبقت کر نہیں سکتا ہوں خدا پر

بس اتنے میں نازل ہوئے جبریلِ خوش انجام

کی عرض کہ فرماتا ہے یہ خالقِ علام

پیارا ہے نہایت ہمیں زہرا کا گل اندام

یا ختمِ رسل، ہم نے حُسین اس کا رکھا نام

یہ حُسن میں سردارِ حسینانِ زمن ہے

مشتق تو ہے "احسان" سے تصغیر "حَسن" ہے

"ح" سے ہے اشارہ کہ یہ ہے حامیِ امّت

سمجھیں گے اسی "سین" کو سب سینِ سعادت

"ی" اس کی بزرگی میں ہے یٰسین کی آیت

ہے "ن" سے ظاہر کہ یہ ہے نورِ نبوّت

ناجی ہے وہ اس نام کو لے گا جو دہن سے

یہ حُسن میں دس حصّہ زیادہ ہے حَسن سے

دو نور کے دریا کو جو ہم نے کیا اِک جا

تب اس سے ہوا گوھرِ نایاب یہ پیدا

توقیر میں بے مثل، شجاعت میں ہے یکتا

اب اور نہ ہوگا کوئی اس حُسن کا لڑکا

ہم جانتے ہیں جو نہیں ظاہر ہے کسی پر

کام اس سے جو لینا ہے وہ ہے ختم اسی پر

فیّاض نے کونین کی دولت اسے دی ہے

دی ہے جو علی کو وہ شجاعت اسے دی ہے

صبر اس کو عنایت کیا، ہمّت اسے دی ہے

ان سب کے سوا اپنی مَحبّت اسے دی ہے

اعلٰی ہے، معظّم ہے، مکرّم ہے، ولی ہے

ہادی ہے، وفادار ہے، زاہد ہے، سخی ہے

جب کر چکے ذکرِ کرمِ مالکِ تقدیر

جبریل نے پاس آن کے دیکھا رخِ شبّیر

کی صلّ ِ علٰی کہہ کے، محمد سے یہ تقریر

یا شاہ، یہ مہ رو تو ہے صاف آپ کی تصویر

جب کی ہے زیارت پے تسلیم جُھکے ہیں

اس نور کو ہم عرش پہ بھی دیکھ چکے ہیں

قدسی ترے فرزند کی خدمت کے لیے ہیں

میکال و سرافیل حفاظت کے لیے ہیں

جِنّ و پری و اِنس اطاعت کے لیے ہیں

سامان پہ اس لال کی رحمت کے لیے ہیں

موجود ہے مرکب کے عوض دوش تمھارا

زہرا کی جو گودی ہے تو آغوش تمھارا

ہے اس پہ ازل سے نظرِ رحمتِ معبود

یہ پیشتر آدم سے بھی تھا عرش پہ موجود

ہے ذاتِ خدا صاحبِ فیض و کرم و جود

تھا خلقِ دو عالم سے یہی مطلب و مقصود

مظلومی و غربت ہے عجب نام پہ اس کے

سب روتے ہیں اور روئیں گے انجام پہ اس کے

ہے یہ سببِ تہنیت و تعزیت اس دم

ہے شادی و غم گلشنِ ایجاد میں تواَم

لپٹائے ہیں چھاتی سے جسے قبلۂ عالَم

بے جرم و خطا ذبح کریں گے اسے اظلم

گو حشر بھی ہوگا تو یہ آفت نہ ٹلے گی

سجدے میں چھری حلقِ مبارک پہ چلے گی

ہوگا یہ محرّم میں ستم اے شہِ ذی جاہ

چھپ جائے گا آنکھوں سے اسی چاند میں یہ ماہ

تاریخِ دہم، جمعہ کے دن، عصر کے وقت آہ

نیزے پہ چڑھائیں گے سرِ پاک کو گم راہ

کٹ جائے گا جب سر تو ستم لاش پہ ہوں گے

گھوڑوں کے قدم سینۂ صد پاش پہ ہوں گے

چلائے محمد کہ میں بسمل ہوا بھائی

اے وائے اخی، کیا یہ خبر مجھ کو سنائی

دل ہل گیا، برچھی سے کلیجے میں در آئی

یہ واقعہ سن کر نہ جئے گی مری جائی

ممکن نہیں دنیا میں دوا زخمِ جگر کی

کیونکر کہوں زہرا سے سے خبر مرگِ پسر کی

جس وقت سنی فاطمہ نے یہ خبرِ غم

شادی میں ولادت کی بپا ہو گیا ماتم

چلاتی تھی سر پیٹ کے وہ ثانیِ مریم

بیٹے پہ چھری چل گئی یا سیدِ عالم

خنجر کے تلے چاند سی تصویر کی گردن

کٹ جائے گی ہے ہے مرے شبیر کی گردن

ہے ہے کئی دن تک نہ ملے گا اسے پانی

ہے ہے، یہ سہے گا تعبِ تشنہ دہانی

ہو جائیں گے اک جان کے سب دشمنِ جانی

ہے ہے، مرا محبوب، مرا یوسفِ ثانی

پیراہن صد چاک کفن ہوئے گا اس کا

سر نیزے پہ اور خاک پہ تن ہوئے گا اس کا

صبر اپنا دکھانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں

یوں خلق سے جانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں

جنگل کو بسانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں

امّاں کے رلانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں

ہم چاند سی صورت پہ نہ شیدا ہوئے ہوتے

اے کاش مرے گھر میں نہ پیدا ہوئے ہوتے

دنیا مجھے اندھیر ہے اس غم کی خبر سے

شعلوں کی طرح آہ نکلتی ہے جگر سے

دامن پہ ٹپکتا ہے لہو دیدۂ تر سے

بس آج سفر کر گئی شادی مرے گھر سے

جس وقت تلک جیتی ہوں ماتم میں رہوں گی

"مظلوم حسین" آج سے میں ان کو کہوں گی

بیٹی کو یہ معلوم نہ تھا یا شہِ عالم

بجھے گی زچہ خانے کے اندر صفِ ماتم

اب دن ہے چھٹی کا مجھے عاشورِ محرّم

تارے بھی نہ دیکھے تھے کہ ٹوٹا فلکِ غم

پوشاک نہ بدلوں گی، نہ سر دھوؤں گی بابا

چِلّے میں بھی چہلم کی طرح روؤں گی بابا

حیدر ہیں کہاں، آ کے دلاسہ نہیں دیتے

زہرا کا برا حال ہے، سمجھا نہیں دیتے

اس زخم کا مرہم مجھے بتلا نہیں دیتے

ہے ہے، مجھے فرزند کا پرسا نہیں دیتے

حجرے میں الگ بیٹھے ہیں کیوں چھوڑ کے گھر کو

آواز تو سنتی ہوں کہ روتے ہیں پسر کو

پھر دیکھ کے فرزند کی صورت یہ پکاری

اے میرے شہید، اے میرے بیکس، ترے واری

ہاں، بعد مرے ذبح کریں گے تجھے ناری

بنتی ہوں ابھی سے میں عزادار تمھاری

دل اور کسی شغل میں مصروف نہ ہوگا

بس آج سے رونا مرا موقوف نہ ہوگا

مر جائے گا تُو تشنہ دہن، ہائے حسینا

ہو جائے گا ٹکڑے یہ بدن، ہائے حسینا

اک جان پہ یہ رنج و محن، ہائے حسینا

کوئی تجھے دے گا نہ کفن، ہائے حسینا

گاڑیں گے نہ ظالم تنِ صد پاش کو ہے ہے

رہواروں سے روندیں گے تری لاش کو ہے ہے

فرمایا محمد نے کہ اے فاطمہ زہرا

کیا مرضیِ معبود سے بندے کا ہے چارا

خالق نے دیا ہے اسے وہ رتبۂ اعلٰی

جبریل سوا کوئی نہیں جاننے والا

میں بھی ہوں فدا اس پہ کہ یہ فدیۂ رب ہے

یہ لال ترا بخششِ امّت کا سبب ہے

اس بات کا غم ہے اگر اے جانِ پیمبر

بے دفن و کفن رن میں رہے گا ترا دلبر

جب قید سے ہووے گا رہا عابدِ مضطر

تربت میں وہی دفن کرے گا اسے آ کر

ارواحِ رسُولانِ زمن روئیں گی اس کو

سر پیٹ کے زینب سی بہن روئیں گی اس کو

جب چرخ پہ ہووے گا عیاں ماہِ محرّم

ہر گھر میں بپا ہووے گی اک مجلسِ ماتم

آئیں گے مَلک عرش سے واں رونے کو باہم

ماتم یہ وہ ماتم ہے کہ ہوگا نہ کبھی کم

پُر نور سدا اس کا عزا خانہ رہے گا

خورشید جہاں گرد بھی پروانہ رہے گا

کہہ کر یہ سخن روئے بہت احمدِ مختار

منہ رکھ دیا ہونٹوں پہ نواسے کے کئی بار

یوں لپٹے دہن کھول کے شبیرِ خوش اطوار

جس طرح کوئی دودھ کا ہوتا ہے طلب گار

جوش آگیا الفت کا دلِ شاہِ زمن میں

مولا نے زباں دے دی نواسے کے دہن میں

یُوں چُوسی نواسے نے زبانِ شہِ والا

جس طرح پئے دودھ مزے سے کوئی ماں کا

اللہ رے لعابِ دہنِ پاک کا رتبا

نہریں عَسل و شِیر کی جاری ہوئیں گویا

شیریں ہیں لب و کام و دہن جس کے بیاں سے

پوچھے وہ حلاوت کوئی حضرت کی زباں سے

سو جاتے تھے یوں شیرِ زباں چُوس کے حضرت

جو دودھ پہ ماں کے بھی نہ پھر ہوتی تھی رغبت

بچپن میں تو خالق نے عطا کی تھی یہ نعمت

مرتے ہوئے پانی نہ ملا وائے مصیبت

بے درد و الم شامِ غریباں نہیں گزری

دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گزری

کیا اوج ہے، کیا رتبہ ہے اس بزمِ عزا کا

غُل عرش سے ہے فرش تلک صلِّ علٰی کا

مشتاق ہے فردوسِ بریں، یاں کی فضا کا

پانی میں بھی ہے یاں کے مزا آبِ بقا کا

دربار معلّٰی ہے ولی ابنِ ولی کا

جاری ہے یہ سب فیض حسین ابنِ علی کا

مرثیہ نمبر ۱

مطلعِ سوم

یارب، مری فریاد میں تاثیر عطا کر

بلبل بھی پھڑک جائے وہ تقریر عطا کر

توفیقِ ثنا خوانیِ شبیر عطا کر

مدّاح کو اب خلد کی جاگیر عطا کر

دعوٰی نہ سخن کا ہے نہ اعجازِ بیاں ہوں

تُو عالم و دانا ہے کہ میں ہیچ مداں ہوں

لو، یاں سے بس اب مجلسِ ماتم کا بیاں ہے

وہ فصلِ خوشی ختم ہوئی، غم کا بیاں ہے

مظلومیِ سلطانِ دو عالم کا بیاں ہے

ہنگامۂ عاشورِ محرّم کا بیاں ہے

ہاں دیکھ لے مشتاق جو ہو فوجِ خدا کا

لو بزم میں کھلتا ہے مرقع شہدا کا

جو چاند سی تصویر ہے وہ خون سے تر ہے

مجروح ہیں اعضا، کہیں تن ہے، کہیں سر ہے

دیکھو تو یہ کس باپ کا مظلوم پسر ہے

برچھی تو کلیجہ میں ہے، برچھی میں جگر ہے

ٹکڑے ہے جو دُولھہ یہ جگر بند ہے کس کا؟

یہ تیر سے مارا ہوا فرزند ہے کس کا؟

دریا پہ جو سوتا ہے وہ کس کا ہے فدائی

مرنے پہ بھی نکلی نہ تھی قبضے سے ترائی

گرمی میں عجب سرد جگہ سونے کو پائی

کس شیر کا فرزند ہے یہ کس کا ہے بھائی

اس شان پہ کیوں کر ہو گماں اور کسی کا

شوکت سے یہ ظاہر ہے کہ بیٹا ہے علی کا

ریتی پہ جو سوتے ہیں یہ دو چاند سے فرزند

کس باپ کے پیارے ہیں یہ کس ماں کے ہیں دلبند

جلوے میں مہِ چہار دہم سے بھی ہیں دہ چند

یہ حیدر و جعفر کے کلیجے کے ہیں پیوند

پایا نہیں پانی بھی کسی تشنہ دہن نے

قربان کیا ہے انھیں بھائی پہ بہن نے

مرثیہ نمبر ۱

مطلعِ چہارم

اے خضرِ بیابانِ سخن، راہبری کر

اے نیّرِ تابانِ خرد، جلوہ گری کر

اے درد، عطا لذّتِ زخمِ جگری کر

اے خوفِ الٰہی، مجھے عصیاں سے بری کر

بندوں میں لکھا جاؤں ولی ابنِ ولی کے

آزاد ہوں صدقے سے حسین ابنِ علی کے

قدسی کو نہیں بار یہ دربار ہے کس کا

فردوس کو ہے رشک یہ گلزار ہے کس کا

سب جنسِ شفاعت ہے، یہ بازار ہے کس کا

خود بِکتا ہے یوسف یہ خریدار ہے کس کا

ملتی ہے کہاں مفت متاعِ سخن ایسی

دیکھی نہیں انجم نے کبھی انجمن ایسی

مجلس کا زہے نور، خوشا محفلِ عالی

حیدر کے محبّوں سے کوئی جا نہیں خالی

عاشق ہیں سب اس کے جو ہے کونین کا والی

اثنا عَشَری، پنجتنی، شیعۂ غالی

ششدر نہ ہو کیوں چرخ عجب جلوہ گری ہے

یہ بزمِ عزا آج ستاروں سے بھری ہے

ان میں جو مُسِن ہیں، وہ پیمبر کے ہیں مہماں

اور جو متوسط ہیں، وہ حیدر کے ہیں مہماں

جو تازہ جواں ہیں، علی اکبر کے ہیں مہماں

شیعوں کے پسر سب، علی اصغر کے ہیں مہماں

سب خورد و کلاں عاشَقِ شاہِ مَدَنی ہیں

پانچ انگلیوں کی طرح یہ سب پنجتنی ہیں

ارشادِ نبی ہے کہ مددگار ہیں میرے

فرماتے ہیں حیدر کہ یہ غم خوار ہیں میرے

حضرت کا سخن ہے کہ عزادار ہیں میرے

میں ان کا ہوں طالب یہ طلبگار ہیں میرے

یہ آج اگر رو کے ہمیں یاد کریں گے

ہم قبر میں ان لوگوں کی امداد کریں گے

غم میں میرے بچوں کے یہ سب کرتے ہیں فریاد

اللہ سلامت رکھے ان لوگوں کی اولاد

بستی مرے شیعوں کی رہے خلق میں آباد

یہ حشر کے دن آتشِ دوزخ سے ہوں آزاد

مرتا ہے کوئی گر تو بُکا کرتا ہوں میں بھی

ان کے لیے بخشش کی دعا کرتا ہوں میں بھی

مردم کے لیے واجبِ عینی ہے یہ زاری

رونا ہی وسیلہ ہے شفاعت کا ہماری

ہے وقتِ معیّن پہ ادا طاعتِ باری

یہ خیر ہے وہ خیر جو ہر وقت ہے جاری

رو لو کہ یہ وقت اور یہ صحبت نہ ملے گی

جب آنکھ ہوئی بند تو مہلت نہ ملے گی

مہلت جو اجل دے تو غنیمت اسے جانو

آمادہ ہو رونے پہ، سعادت اسے جانو

آنسو نکل آئیں تو عبادت اسے جانو

ایذا بھی ہو مجلس میں تو راحت اسے جانو

فاقے کیے ہیں، دھوپ میں لب تشنہ رہے ہیں

آقا نے تمھارے لیے کیا ظلم سہے ہیں

تکلیف کچھ ایسی نہیں، سایہ ہے ہوا ہے

پانی ہے خنک، مِروَحَہ کش بادِ صبا ہے

کچھ گرمیِ عاشور کا بھی حال سنا ہے

سر پیٹنے کا وقت ہے، ہنگامِ بُکا ہے

گزری ہے بیاباں میں وہ گرمی شہِ دیں پر

بُھن جاتا تھا دانہ بھی جو گرتا تھا زمیں پر

لُو چلتی تھی ایسی کہ جلے جاتے تھے اشجار

تھا عنصرِ خاکی پہ گمانِ کرۂ نار

پانی پہ دَد و دام گرے پڑتے تھے ہر بار

سب خلق تو سیراب تھی پیاسے شہِ ابرار

خاک اڑ کے جمی جاتی تھی زلفوں پہ قبا پر

اس دھوپ میں سایہ بھی نہ تھا نورِ خدا پر

قطرے جو پسینے کے ٹپک پڑتے تھے ہر بار

ثابت یہی ہوتا تھا کہ ہیں اخترِ سیّار

شاہد المِ فاقہ پہ ہے زردیِ رخسار

بے آبی سے اُودے تھے لبِ لعلِ گہر بار

دنیا میں ترستے رہے وہ آبِ رواں کو

جن ہونٹوں نے چُوسا تھا محمد کی زباں کو