• ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15117 / ڈاؤنلوڈ: 1773
سائز سائز سائز
مراثیِ انیس(انتخاب)

مراثیِ انیس(انتخاب)

مؤلف:
اردو

مرثیہ نمبر ۱

مطلعِ پنجم(اول)

دنیا بھی عجب گھر ہے کہ راحت نہیں جس میں

وہ گُل ہے یہ گل، بوئے محبّت نہیں جس میں

وہ دوست ہے یہ دوست، مرّوت نہیں جس میں

وہ شہد ہے یہ شہد، حلاوت نہیں جس میں

بے درد و الم شامِ غریباں نہیں گزری

دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گزری

گودی ہے کبھی ماں کی، کبھی قبر کا آغوش

گُل پیرہن اکثر نظر آتے ہیں کفن پوش

سرگرمِ سخن ہے کبھی انساں، کبھی خاموش

گہ تخت ہے اور گاہ جنازہ بہ سرِ دوش

اک طور پہ دیکھا نہ جواں کو نہ مُسِن کو

شب کو تو چھپر کھٹ میں ہیں، تابوت میں دن کو

شادی ہو کہ اندوہ ہو، آرام ہو یا جَور

دنیا میں گزر جاتی ہے انساں کی بہر طَور

ماتم کی کبھی فصل ہے، عشرت کا کبھی دَور

ہے شادی و ماتم کا مرقع جو کرو غور

کس باغ پہ آسیبِ خزاں آ نہیں جاتا

گل کون سا کھلتا ہے جو مرجھا نہیں جاتا

ہے عالمِ فانی کی عجب صبح، عجب شام

گہ غم، کبھی شادی، کبھی ایذا، کبھی آرام

نازوں سے پلا فاطمہ زہرا کا گل اندام

وا حسرت و دردا، کہ وہ آغاز یہ انجام

راحت نہ ملی گھر کے تلاطم سے دہم تک

مظلوم نے فاقے کئے ہفتم سے دہم تک

ریتی پہ عزیزوں کا مرقع تو ہے ابتر

شہ کا ہے یہ نقشہ کہ ہیں تصویر سے ششدر

فرزند نہ مسلم کے، نہ ہمشیر کے دلبر

قاسم ہیں، نہ عبّاس، نہ اکبر ہیں نہ اصغر

سب نذر کو دربارِ پیمبر میں گئے ہیں

رخصت کو اکیلے شہِ دیں گھر میں گئے ہیں

منظور ہے پھر دیکھ لیں ہمشیر کی صورت

پھر لے گئی ہے گھر میں سکینہ کی محبّت

سجّاد سے کچھ کہنے ہیں اسرارِ امامت

بانوئے دو عالم سے بھی ہے آخری رخصت

مطلوب یہ ہے، زیبِ بدن رختِ کہن ہو

تا بعدِ شہادت وہی ملبوسِ بدن ہو

خیمے میں مسافر کا وہ آنا تھا قیامت

اِک ایک کو چھاتی سے لگانا تھا قیامت

آنا تو غنیمت تھا، پہ جانا تھا قیامت

تھوڑا سا وہ رخصت کا زمانا تھا قیامت

واں بَین، اِدھر صبر و شکیبائی کی باتیں

افسانۂ ماتم تھیں بہن بھائی کی باتیں

حضرت کا وہ کہنا کہ بہن صبر کرو صبر

امت کے لیے والدہ صاحب نے سہے جبر

وہ کہتی تھی کیونکر نہ میں روؤں صفتِ ابر

تم پہنو کفن اور نہ بنے ہائے مری قبر

لٹتے ہوئے امّاں کا گھر ان آنکھوں سے دیکھوں

ہے ہے تہہِ خنجر تمھیں کن آنکھوں سے دیکھوں

اس عمر میں ٹھوڑے غمِ جانکاہ اٹھائے

اشک آنکھوں سے امّاں کے جنازے پہ بہائے

آنسو نہ تھمے تھے کہ پدر خوں میں نہائے

ٹکڑے دلِ شبّر کے لگن میں نظر آئے

حضرت کے سوا اب کوئی سر پر نہیں بھائی

انساں ہوں، کلیجا مرا پتھر نہیں بھائی

ہر شخص کو ہے یوں تو سفر خلق سے کرنا

دشوار ہے اِک آن مسافر کا ٹھہرنا

ان آنکھوں سے دیکھا ہے بزرگوں کا گزرنا

ہے سب سے سوا ہائے یہ مظلومی کا مرنا

صدقے گئی، یوں رن کبھی پڑتے نہیں دیکھا

اِک دن میں بھرے گھر کو اجڑتے نہیں دیکھا

ہے ہے تمھیں میں لے کے کہاں چھپ رہوں بھائی

لٹتی ہے مرے چار بزرگوں کی کمائی

کس دشتِ پر آشوب میں قسمت مجھے لائی

یا رب، کہیں مر جائے یداللہ کی جائی

زہرا کا پسر وقتِ جدائی مجھے روئے

سب کو تو میں روئی ہوں، یہ بھائی مجھے روئے

زینب کی وہ زاری، وہ سکینہ کا بلکنا

وہ ننھی سی چھاتی میں کلیجے کا دھڑکنا

وہ چاند سا منہ اور وہ بُندے کا جمکنا

حضرت کا وہ بیٹی کی طرف یاس سے تکنا

حسرت سے یہ ظاہر تھا کہ معذور ہیں بی بی

پیدا تھا نگاہوں سے کہ مجبور ہیں بی بی

وہ کہتی تھی، بابا ہمیں چھاتی سے لگاؤ

فرماتے تھے شہ، آؤ نا، جانِ پدر آؤ

ہم کڑھتے ہیں، تم آنکھوں سے آنسو نہ بہاؤ

خوشبو تو ذرا گیسوئے مشکیں کی سنگھاؤ

کوثر پہ بھی تم بِن نہیں آرام چچا کو

ہم جاتے ہیں کچھ دیتی ہو پیغام چچا کو

بی بی، کہو کیا حال ہے اب ماں کا تمھاری

کس گوشے میں بیٹھی ہیں، کہاں کرتی ہیں زاری

جب سے سوئے جنّت گئی اکبر کی سواری

دیکھا نہ انھیں، گھر میں ہم آئے کئی باری

تھی سب کی محبّت انھیں بیٹے ہی کے دم تک؟

کیا آخری رخصت کو بھی آئیں گی نہ ہم تک؟

کس جا ہیں، طلب ہم کو کریں، یاد ہی آئیں

ممکن نہیں اب وہ ہمیں یا ہم انہیں پائیں

کچھ ہم سے سنیں، کچھ ہمیں حال اپنا سنائیں

اک دم کے مسافر ہیں، ہمیں دیکھ تو جائیں

بعد اپنے یہ لُوٹا ہوا گھر اور لُٹے گا

افسوس کہ اک عمر کا ساتھ آج چھٹے گا

غش میں جو سنی بانوئے مضطر نے یہ تقریر

ثابت ہوا مرنے کو چلے حضرتِ شبیر

سر ننگے اٹھی چھوڑ کے گہوارۂ بے شیر

چلّائی مجھے ہوش نہ تھا، یا شہِ دلگیر

جاں تن سے کوئی آن میں اب جاتی ہے آقا

یہ خادمہ رخصت کے لیے آتی ہے آقا

یہ سن کے بڑھے چند قدم شاہِ خوش اقبال

قدموں پہ گری دوڑ کے وہ کھولے ہوئے بال

تھا قبلۂ عالم کا بھی اس وقت عجب حال

روتے تھے غضب، آنکھوں پہ رکھّے ہوئے رومال

فرماتے تھے جاں کاہ جدائی کا الم ہے

اٹھو تمھیں روحِ علی اکبر کی قسم ہے

وہ کہتی تھی کیوں کر میں اٹھوں اے مرے سرتاج

والی، انہی قدموں کی بدولت ہے مرا راج

سر پر جو نہ ہوگا پسرِ صاحبِ معراج

چادر کے لیے خلق میں ہو جاؤں گی محتاج

چُھوٹے جو قدم، مرتبہ گھٹ جائے گا میرا

قربان گئی، تخت الٹ جائے گا میرا

یاں آئی میں، جب خانۂ کسرٰی ہوا برباد

وہ پہلی اسیری کی اذیّت ہے مجھے یاد

کی عقدہ کشائے دو جہاں نے مری امداد

حضرت کے تصدّق میں ہوئی قید سے آزاد

لونڈی سے بہو ہو گئی زہرا و علی کی

قسمت نے بٹھایا مجھے مسند پہ نبی کی

چھبیس برس تک نہ چھٹا آپ کا پہلو

اب ہجر ہے تقدیر میں یا سیّدِ خوش خو

ہر شب رہے تکیہ سرِ اقدس کا جو بازو

ہے ہے اسے اب رسّی سے باندھیں گے جفا جو

سر پر نہ ردا ہوگی تو مر جاؤں گی صاحب

چھپنے کو میں جنگل میں کدھر جاؤں گی صاحب

حضرت نے کہا کس کا سدا ساتھ رہا ہے

ہر عاشق و معشوق نے یہ داغ سہا ہے

دارِ محن اس دار کو داور نے کہا ہے

ہر چشم سے خونِ جگر اس غم میں بہا ہے

فرقت میں عجب حال تھا خالق کے ولی کا

ساتھ آٹھ برس تک رہا زہرا و علی کا

سو سو برس اک گھر میں مَحبّت سے رہے جو

بس موت نے دم بھر میں جدا کر دیا ان کو

کچھ مرگ سے چارہ نہیں اے بانوئے خوش خو

ہے شاق فلک پر کہ رہیں ایک جگہ دو

کس کس پہ زمانے نے جفا کی نہیں صاحب

اچھوں سے کبھی اس نے وفا کی نہیں صاحب

لازم ہے خدا سے طلبِ خیر بشر کو

تھامے گا تباہی میں وہی رانڈ کے گھر کو

آنا ہے تمھیں بھی وہیں جاتے ہیں جدھر کو

وارث کی جدائی میں پٹکتے نہیں سر کو

کھولے گا وہ رسّی سے بندھے ہاتھ تمھارے

سجّاد سا بیٹا ہے جواں ساتھ تمھارے

زینب کو تو دیکھو کہ ہیں کس دکھ میں گرفتار

ایسا کوئی اس گھر میں نہیں بے کس و ناچار

تنہا ہیں کہ بے جاں ہوئے دو چاند سے دلدار

دنیا سے گیا اکبرِ ناشاد سا غم خوار

بیٹے بھی نہیں گود کا پالا بھی نہیں ہے

ان کا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے

یہ کہہ کے کچھ ارشاد کیا گوشِ پسر میں

بیمار کے رونے سے قیامت ہوئی گھر میں

اندھیر زمانہ ہوا بانو کی نظر میں

غش ہوگئی زینب، یہ اٹھا درد جگر میں

ٹھہرا نہ گیا پھر شہِ والا نکل آئے

تنہا گئے روتے ہوئے تنہا نکل آئے

کچھ بڑھ کر پھرے جانبِ قبلہ شہِ بے پر

کج کی طرفِ دوشِ یمیں گردنِ انور

تھرّاے ہوئے ہاتھوں پہ عمّامے کو رکھ کر

کی حق سے مناجات کہ اے خالقِ اکبر

حرمت ترے محبوب کی دنیا میں بڑی ہے

کر رحم کہ آل ان کی تباہی میں پڑی ہے

یا رب، یہ ہے سادات کا گھر تیرے حوالے

رانڈیں ہیں کئی خستہ جگر تیرے حوالے

بیکس کا ہے بیمار پسر تیرے حوالے

سب ہیں ترے دریا کے گہر تیرے حوالے

عالم ہے کہ غربت میں گرفتارِ بلا ہوں

میں تیری حمایت میں انھیں چھوڑ چلا ہوں

میرے نہیں، بندے ہیں ترے اے مرے خالق

بستی ہو کہ جنگل تُو ہی حافظ، تو ہی رازق

باندھے ہیں کمر ظلم و تعدّی پہ منافق

یہ دوست ہے دنیا، نہ زمانہ ہے موافق

حرمت ہے ترے ہاتھ امامِ اَزَلی کی

دو بیٹیاں، دو بہویں ہیں اس گھر میں علی کی

میں یہ نہیں کہتا کہ اذیّت نہ اٹھائیں

یا اہلِ ستم آگ سے خیمے نہ جلائیں

ناموس لٹیں، قید ہوں اور شام میں جائیں

مہلت مرے لاشے پہ بھی رونے کی نہ پائیں

بیڑی میں قدم، طوق میں عابد کا گلا ہو

جس میں ترے محبوب کی امّت کا بھلا ہو

یہ کہہ کے گریبانِ مبارک کو کیا چاک

اور ڈال لی پیراہنِ پُر نور پہ کچھ خاک

میّت ہوئے شبّیر، کفن بن گئی پوشاک

بس فاتحۂ خیر پڑھا با دلِ غمناک

مڑ کر نہ کسی دوست، نہ غم خوار کو دیکھا

پاس آئے تو روتے ہوئے رہوار کو دیکھا

گردان کے دامن علی اکبر کو پکارے

تھامو مرے گھوڑے کی رکاب، اے مرے پیارے

لختِ دلِ شبّر، کدھر اس وقت سدھارے

بھائی ہیں کہاں، ہاتھ میں دیں ہاتھ ہمارے

آتے نہیں، مسلم کے جگر بند کہاں ہیں

دونوں مری ہمشیر کے فرزند کہاں ہیں

تنہائی میں اک ایک کو حضرت نے پکارا

کون آئے کہ فردوس میں تھا قافلہ سارا

گھوڑے پہ چڑھا خود اسداللہ کا پیارا

اونچا ہوا افلاکِ امامت کا ستارا

شوخی سے فَرَس پاؤں نہ رکھتا تھا زمیں پر

غل تھا کہ چلا قطبِ زماں عرشِ بریں پر

شبدیز نے چھل بل میں عجب ناز دکھایا

ہر گام پہ طاؤس کا انداز دکھایا

زیور نے عجب حُسنِ خدا ساز دکھایا

فتراک نے اوجِ پرِ پرواز دکھایا

تھا خاک پہ اک پاؤں تو اک چرخِ بریں پر

غل تھا کہ پھر اترا ہے براق آج زمیں پر

بجلی کو نہ تھا اس کی جلو لینے کا یارا

رہوار کو دُلدل کا چلن یاد تھا سارا

اڑنے میں نہ آہُو کبھی جیتا، نہ چکارا

شہباز بھی بازی اسی جانباز سے ہارا

طاؤس کا کیا ذکر، پری سے بھی حَسیں تھا

سایہ تھا کہیں دھوپ میں اور آپ کہیں تھا

جانباز نے طے کی عجب انداز سے وہ راہ

لے آئی سلیماں کو ہوا تا صفِ جنگاہ

وہ رعب، وہ شوکت وہ نہیبِ شہِ ذی جاہ

دلدل کو اڑاتے ہوئے آئے اسد اللہ

غل تھا یہ محمد ہیں کہ خالق کے ولی ہیں

اقبال پکارا کہ حسین ابنِ علی ہیں