• ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17663 / ڈاؤنلوڈ: 3525
سائز سائز سائز
مراثیِ انیس(انتخاب)

مراثیِ انیس(انتخاب)

مؤلف:
اردو

1

(مطلع ِدوم(اول)

جب باغِ جہاں اکبرِ ذی جاہ سے چُھوٹا

پیری میں برابر کا پسر شاہ سے چُھوٹا

فرزندِ جواں، ابنِ اسد اللہ سے چُھوٹا

کیا اخترِ خورشید لقا ماہ سے چُھوٹا

تصویرِ غم و درد سراپا ہوئے شپّیر

ناموس میں ماتم تھا کہ تنہا ہوئے شپّیر

ہے ہے علی اکبر کا ادھر شور تھا گھر میں

اندھیر تھی دنیا، شہِ والا کی نظر میں

فرماتے تھے سوزش ہے عجب داغِ پسر میں

اٹھتا ہے دھواں، آگ بھڑکتی ہے جگر میں

پیغامِ اجل اکبرِ ناشاد کا غم ہے

عاجز ہے بشر جس سے وہ اولاد کا غم ہے

اس گیسوؤں والے کے بچھڑ جانے نے مارا

افسوس بڑھا ضعف، گھٹا زور ہمارا

دنیا میں محمد کا یہ ماتم ہے دوبارا

عالم ہے عجب جانِ جہاں آج سدھارا

چادر بھی نہیں لاشۂ فرزندِ حَسیں پر

کس عرش کے تارے کو سلا آئے زمیں پر

پیری پہ مری رحم کر اے خالقِ ذوالمَن

طے جلد ہو اب مرحلۂ خنجر و گردن

قتلِ علی اکبر کی خوشی کرتے ہیں دشمن

تجھ پر مرے اندوہ کا سب حال ہے روشن

مظلوم ہوں، مجبور ہوں، مجروح جگر ہوں

تو صبر عطا کر مجھے، یا رب کہ بشر ہوں

پھر لاشۂ اکبر نظر آئے تو نہ روؤں

برچھی جو کلیجے میں در آئے تو نہ روؤں

دل دردِ محبت سے بھر آئے تو نہ روؤں

سو بار جو منہ تک جگر آئے تو نہ روؤں

شکوہ نہ زباں سے غمِ اولاد میں نکلے

دم تن سے جو نکلے تو تری یاد میں نکلے

اک عمر کی دولت تھی جسے ہاتھ سے کھویا

ہر وقت رہا، میں تری خوشنودی کا جویا

پالا تھا جسے گود میں وہ خاک پہ سویا

میں لاش پہ بھی خوف سے تیرے نہیں رویا

قسمت نے جوانوں کو سبکدوش کیا ہے

مجھ کو تو اجل نے بھی فراموش کیا ہے

یہ تازہ جواں تھا مری پیری کا سہارا

آگے مرے اعدا نے اسے نیزے سے مارا

ناشاد و پُر ارمان اٹھا وہ مرا پیارا

اٹھارھواں تھا سال کہ دنیا سے سدھارا

سمجھوں گا میں روئے مجھے روئیں گے اس کو

یہ ہے وہ جواں مرگ کہ سب روئیں گے اس کو

اس حال سے روتے ہوئے داخل ہوئے گھر میں

تر تھی تنِ انور کی قبا خونِ پسر میں

سوزش دلِ پُر داغ میں ہے، درد جگر میں

خم آ گیا تھا بارِ مصیبت سے کمر میں

پنہاں تھا جو فرزندِ جگر بند نگہ سے

موتی رُخِ انور سے ٹپکتے تھے مژہ سے

بانو سے کہا رو کے خوشا حال تمھارا

صرفِ رہِ معبود ہوا مال تمھارا

مقبول ہوئی نذر یہ اقبال تمھارا

سجدے کرو، پروان چڑھا لال تمھارا

دل خوں ہے کلیجے پہ سناں کھا کے مرے ہیں

ہم اُس کی امانت اسے پہنچا کے پھرے ہیں

جیتے تھے تو آخر علی اکبر کبھی مرتے

گر بیاہ بھی ہوتا تو زمانے سے گزرتے

سینے سے کلیجے کو جدا ہم جو نہ کرتے

بگڑی ہوئی امّت کے نہ پھر کام سنورتے

گر حلق سے اس شیر کی شمشیر نہ ملتی

یہ اجر نہ ہاتھ آتا یہ توقیر نہ ملتی

صاحب، تمھیں ہم سے ہے محبت تو نہ رونا

بیٹا تو گیا، صبر کی دولت کو نہ کھونا

اکبر نے تو آباد کیا، قبر کا کونا

ہم بھی ہوں اگر ذبح تو بیتاب نہ ہونا

جز نفع ضرر طاعتِ باری میں نہیں ہے

جو صبر میں لذّت ہے وہ زاری میں نہیں ہے

اکبر نے تو جاں اپنی جوانی میں گنوائی

تھی کون سی ایذا جو نہ اس لال نے پائی

افسوس کہ پیری میں ہمیں موت نہ آئی

تلوار نہ سر پر نہ سناں سینے پہ کھائی

غم کھائیں گے خونِ دلِ مجروح پئیں گے

کیا زور ہے جب تک وہ جِلائے گا جئیں گے

دستور ہے مرتا ہے پدر آگے پسر کے

پہلے وہ اٹھے تھامنے والے تھے جو گھر کے

اب کون اٹھائے گا جنازے کو پدر کے

افسوس لحد بھی نہ ملے گی ہمیں مر کے

سر نیزے پہ اور دشت میں تن ہوگا ہمارا

خاک اڑ کے پڑے گی یہ کفن ہوگا ہمارا

زینب سے کہا رختِ کُہن، لاؤ تو پہنیں

ملبوسِ شہنشاہِ زمن، لاؤ تو پہنیں

موت آ گئی اب سر پہ کفن، لاؤ تو پہنیں

کپڑے جو پھٹے ہوں وہ بہن، لاؤ تو پہنیں

سر کٹ کے جو تن وادیِ پُر خار میں رہ جائے

شاید یہی پوشاک تنِ زار میں رہ جائے

اللہ نے بچپن میں مرے ناز اٹھائے

طفلی میں کسی نے شرف ایسے نہیں پائے

عریاں تھا کہ جبرئیلِ امیں عرش سے آئے

فردوس کے حلّے مرے پہنانے کو لائے

بیکس ہوں، دل افگار ہوں آوارہ وطن ہوں

میں ہوں وہی شبیر کہ محتاجِ کفن ہوں

جو مصلحت اُس کی ہے نہیں رحم سے خالی

صابر کو عطا کرتا ہے وہ رتبۂ عالی

وارث وہی بچّوں کا وہی رانڈوں کا والی

مقہور ہے وہ جس نے بنا ظلم کی ڈالی

قاتل کا دمِ ذبح بھی شکوہ نہ کروں گا

یہ بھی کرم اس کا ہے کہ مظلوم مروں گا

ناشاد بہن پاؤں پہ گر کر یہ پکاری

ماں جائے برادر، تری غربت کے میں واری

بن بھائی کے ہوتی ہے یدُاللہ کی پیاری

گھر لٹتا ہے کیوں کر نہ کروں گریہ و زاری

رونے کو نجف تک بھی کُھلے سر نہ گئی میں

خالی یہ بھرا گھر ہوا اور مر نہ گئی میں

بچپن تھا کہ امّاں سے ہوئی پہلے جدائی

بابا کے لیے ماتمی صف میں نے بچھائی

روتی تھی پدر کو کہ سفر کر گئے بھائی

یثرب بھی چُھٹا دیس سے پردیس میں آئی

غم دیکھوں بڑے بھائی کا ماں باپ کو روؤں

قسمت میں یہ لکّھا تھا کہ اب آپ کو روؤں

فرمایا کہ دنیا میں نہیں موت سے چارا

رہ جاتے ہیں ماں باپ بچھڑ جاتا ہے پیارا

ہجرِ علی اکبر تھا کسی کو بھی گوارا

وہ مر گئے اور کچھ نہ چلا زور ہمارا

دیکھا جسے آباد وہ گھر خاک بھی دیکھو

اب خاتمۂ پنجتنِ پاک بھی دیکھو

کس کس کی نہ دولت پہ زوال آ گیا زینب

پابندِ رضا تھا تو شرف پا گیا زینب

دنیا سے گیا جو تنِ تنہا گیا زینب

کِھلتا نہیں وہ پھول جو مرجھا گیا زینب

جو منزلِ ہستی سے گیا پھر نہیں ملتا

یہ راہ وہ ہے جس کا مسافر نہیں ملتا

میں کون ہوں اِک تشنہ لب و بیکس و محتاج

بندہ تھا خدا کا سو ہوا ہوں میں طلب آج

وہ کیا ہوئے جو لوگ تھے کونین کے سرتاج

نہ حیدرِ کرّار ہیں نہ صاحبِ معراج

کچھ پیٹنے رونے سے نہ ہاتھ آئیگا زینب

آیا ہے جو اس دہر میں وہ جائیگا زینب

کس طرح وہ بیکس نہ اجل کا ہو طلب گار

ناصر نہ ہو جس کا کوئی دنیا میں نہ غمخوار

اک جانِ حزیں لاکھ مصیبت میں گرفتار

اکبر ہیں نہ قاسم ہیں نہ عبّاسِ علمدار

کوشش ہے کہ سجدہ تہِ شمشیر ادا ہو

تنہائی کا مرنا ہے خدا جانیے کیا ہو

قاتل جو چُھری خشک گلے پر مرے پھیرے

خالص رہے نیّت کوئی تشویش نہ گھیرے

کٹنے میں رگوں کے یہ سخن لب پہ ہو میرے

قربان حسین ابنِ علی نام پہ تیرے

بہنوں کی نہ ہو فکر نہ بچّوں کی خبر ہو

اس صبر سے سر دوں کہ مہم عشق کی سر ہو

گو تیسرا فاقہ ہے مگر ہے مجھے سیری

گھبراتا ہوں ہوتی ہے جو سر کٹنے میں دیری

کچھ غم نہیں امّت نے نظر مجھ سے جو پھیری

راضی رہے معبود یہی فتح ہے میری

ہدیہ مرا مقبول ہو درگاہ میں اس کی

آباد وہ گھر ہے جو لُٹے راہ میں اس کی

فرما کے یہ ہتھیار سجے آپ نے تن پر

غُل پڑ گیا شاہِ شہدا چڑھتے ہیں رن پر

احمد کی قبا آپ نے پہنی جو بدن پر

پیدا ہوا اک جلوۂ نَو رختِ کہن پر

اللہ رے خوشبو تنِ محبوبِ خدا کی

پھولوں کی مہک آ گئی کلیوں سے قبا کی

وہ پھول سے رخسار گلابی وہ عمامہ

تعریف میں خود جس کی سر افگندہ ہے خامہ

وہ زرد عبا نور کی وہ نور کا جامہ

برسوں جو لکھیں ختم نہ ہو مدح کا نامہ

کپڑے تنِ گلرنگ کے خوشبو میں بسے تھے

ٹوٹی کمر امّت کی شفاعت پہ کسے تھے

شمشیرِ یداللہ لگائی جو کمر سے

سر پیٹ کے زینب نے ردا پھینک دی سر سے

سمجھاتے ہوئے سب کو چلے آپ جو گھر سے

بچّوں کی طرف تکتے تھے حسرت کی نظر سے

اُس غُل میں جدا شہ سے نہ ہوتی تھی سکینہ

پھیلائے ہوئے ہاتھوں کو روتی تھی سکینہ

شہ کہتے تھے بی بی ہمیں رو کر نہ رلاؤ

پھر پیار کریں گے ہم تمھیں منہ آگے تو لاؤ

وہ کہتی تھی ہمراہ مجھے لے لو تو جاؤ

میں کیا کروں میداں میں اگر جا کے نہ آؤ

نیند آئے گی جب آپ کی بُو پاؤں گی بابا

میں رات کو مقتل میں چلی آؤں گی بابا

فرمایا نکلتی نہیں سیدانیاں باہر

چھاتی پہ سلائے گی تمھیں رات کو مادر

وہ کہتی تھی سوئیں گے کہاں پھر اعلی اصغر

فرماتے تھے بس ضد نہ کرو صدقے میں تم پر

شب ہوئے گی اور دشت میں ہم ہوئینگے بی بی

اصغر مرے ساتھ آج وہیں سوئینگے بی بی

وہ کہتی تھی بس دیکھ لیا آپ کا بھی پیار

میں آپ سے بولوں گی نہ اب یا شہِ ابرار

اچّھا نہ اگر کیجیئے جلد آنے کا اقرار

مر جاؤں گی اس شب کو تڑپ کر میں دل افگار

کیسی ہیں یہ باتیں مرا دل روتا ہے بابا

گھر چھوڑ کے جنگل میں کوئی سوتا ہے بابا

اصغر کبھی ساتھ آپ کے اب تک نہیں سوئے

بہلا لیا امّاں نے اگر چونک کے روئے

شفقت تھی مجھی پر کہ یہ بے چین نہ ہوئے

یہ پیار ہو جس پر اُسے یوں ہاتھ سے کھوئے

جیتے رہیں فرزند کہ سب لختِ جگر ہیں

میں آپ کی بیٹی ہوں وہ امّاں کے پسر ہیں

شہ کہتے تھے صدمہ دلِ مضطر پہ ہے بی بی

ہفتم سے تباہی مرے سب گھر پہ ہے بی بی

اعدا کی یُرَش سبطِ پیمبر پہ ہے بی بی

جس نے تمھیں پیدا کیا وہ سر پہ ہے بی بی

چُھوٹے نہ وہ جو صبر کا جادہ ہے سکینہ

ماں باپ سے پیار اس کا زیادہ ہے سکینہ

لو روؤ نہ اب صبر کرو باپ کو جانی

کچھ دیتی ہو عبّاس کو پیغام زبانی

اُودے ہیں لبِ لعل یہ ہے تشنہ دہانی

ملتا ہے تو بی بی کے لیے لاتے ہیں پانی

محبوبِ الٰہی کے نواسے ہیں سکینہ

ہم بھی تو کئی روز کے پیاسے ہیں سکینہ

دنیا ہے یہ، شادی ہے کبھی اور کبھی آلام

راحت کی کبھی صبح، مصیبت کی کبھی شام

یکساں نہیں ہوتا کبھی آغاز کا انجام

وہ دن گئے کرتی تھیں جو اس چھاتی پہ آرام

ضد کر کے نہ اب رات کو رویا کرو بی بی

جب ہم نہ ہوں تم خاک پہ سویا کرو بی بی

سمجھا کے چلے آپ سکینہ کو غش آیا

غُل تھا کہ اٹھا سر سے شہنشاہ کا سایا

ڈیوڑھی سے جو نکلا اسد اللہ کا جایا

رہوارِ سبک سیر کو روتا ہوا پایا

کس عالمِ تنہائی میں سیّد کا سفر تھا

بھائی نہ بھتیجا نہ ملازم نہ پسر تھا

سائے کی طرح جو نہ جدا ہوتی تھی دم بھر

وہ رات کی جاگی ہوئی سوتی تھی زمیں پر

گردوں کی طرف دیکھ کے فرماتے تھے سروَر

تُو سر پہ ہے، تنہا نہیں فرزندِ پیمبر

کچھ کام نہ اس بیکس و ناشاد سے ہوگا

جو ہوگا وہ مولا تری امداد سے ہوگا

روتے ہوئے مولا جو قریبِ فرس آئے

نصرت کی صفیں باندھے مَلک پیش و پس آئے

فریاد کناں جِن بھی مثالِ جرس آئے

جنگل سے ہٹے پانچ جو دستے تو دس آئے

ڈھالیں لیے سب ہاتھوں کو قبضوں پہ دھرے تھے

لشکر سے جِنوں کے بھی کئی دشت بھرے تھے

تھی قومِ نبی جان بھی سرداری کو حاضر

فوجوں کے طلائے تھے خبرداری کو حاضر

لشکر تھا فرشتوں کا مددگاری کو حاضر

جبریل تھے خود حاشیہ برداری کو حاضر

تولے ہوئے نیزوں کو لڑائی پہ تلے تھے

رہوار تو ابلق تھے علم سبز کھلے تھے

اصرار کیا سب نے پہ حضرت نے نہ مانا

جز حق مددِ غیر کو رد کرتے ہیں دانا

وہ شاہ کہ جس کے یدِ قدرت میں زمانا

کون آیا، گیا کون، یہ مطلق بھی نہ جانا

بندہ وہی بندہ ہے جو راضی ہو رضا پر

اوروں سے اُسے کیا جسے تکیہ ہو خدا پر

کی عرض ملائک نے کہ یا سیّدِ ابرار

ہم آپ کے بابا کی مدد کرتے تھے ہر بار

فرمایا وہ خواہاں تھے کہ مغلوب ہوں کفّار

میں اپنی شہادت کا خدا سے ہوں طلبگار

جان آج ہماری کسی صورت نہ بچے گی

بالفرض بچا لیں تو پھر امّت نہ بچے گی

زعفر نے یہ کی عرض بصد اشک فشانی

ہو حکم تو لے آؤں ابھی نہر سے پانی

کچھ کام تو لے اے اسداللہ کے جانی

فرمایا کہ مطلق نہیں اب تشنہ دہانی

دریا بھی جو خود آئے تو لب تر نہ کروں گا

احمد کا نواسا ہوں مَیں پیاسا ہی مروں گا

جس وقت فلک پر ہو عیاں ماہِ محرّم

ہر تعزیہ خانہ میں بپا ہو مرا ماتم

جو بیبیاں ہیں روئیں گھروں میں مجھے باہم

مَردوں میں یہ ہو شور کہ ہے ہے شہِ عالم

سب پیر و جواں روئیں یہ انجام ہو میرا

مظلوم حسین ابنِ علی نام ہو میرا

دنیا میں مرے گا جو کسی شخص کا بھائی

یاد آئے گی عبّاس دلاور کی جدائی

جاں اپنی بھتیجے نے کسی کے جو گنوائی

روئے گا کہ قاسم نے سناں سینہ پہ کھائی

اولاد کا ماتم جسے ناشاد کرے گا

اکبر کے جواں مرنے کو وہ یاد کرے گا

دس روز شب و روز ہو غل ہائے حُسینا

صدقے ترے اے فاطمہ کے جائے حُسینا

زخمِ تبر و تیر و سناں کھائے حُسینا

سب پانی پیئں اور نہ تُو پائے حُسینا

جب پانی پیئں اشک فشانی کو نہ بھولیں

بچّے بھی مری تشنہ دہانی کو نہ بھولیں

زینب نے پکارا مرے ماں جائے برادر

ناشاد بہن لینے رکاب آئے برادر

اب کوئی مددگار نہیں ہائے برادر

صدقے ہو بہن گر تمھیں پھر پائے برادر

غش آئے گا دو گام پیادہ جو بڑھو گے

اس ضعف میں رہوار پہ کس طرح چڑھو گے

حضرت نے یہ فرمایا کہ خواہر نہ نکلنا

جب تک کہ میں زندہ رہوں باہر نہ نکلنا

لِلہ بہن کھولے ہوئے سر نہ نکلنا

سر کھول کے کیا اوڑھ کے چادر نہ نکلنا

کیا تم نے کہا دل مرا تھرّا گیا زینب

بھائی کی مناجات میں فرق آ گیا زینب

رخصت ہوئے روتے ہوئے سارے مَلک و جن

گھوڑے پہ چڑھا تن کے وہ کونین کا محسن

آفت کا تھا وہ وقت قیامت کا تھا وہ دن

سایا نہ کسی جا تھا نہ پانی کہیں ممکن

عبّاس کے حملے جو لعیں دیکھ چکے تھے

دریا بھی نظر بند تھا یوں گھاٹ رکے تھے

وہ دوپہر اس دشت کی اور دن کا وہ ڈھلنا

وہ گرم زرہ اور وہ ہتھیاروں کا جلنا

وہ گرد کا مقتل میں تتق لوں کا وہ چلنا

وہ بَن میں پہاڑوں سے شراروں کا نکلنا

گرمی سے فرس میں بھی نہ وہ تیزتگی تھی

پیاسے تھے حسین آگ زمانے کو لگی تھی

جب جنگ کو میداں میں شہِ بحر و بر آئے

اللہ ری تمازت کہ پسینے میں تر آئے

غصّے میں جو ہلتے ہوئے ابرو نظر آئے

غل تھا کہ علی تول کے تیغِ دو سر آئے

حُسنِ خمِ ابرو تھا دو بالا مہِ نَو سے

چہرے میں زیادہ تھی ضیا مہر کی ضَو سے

چہرہ وہ کہ رضواں تو دکھائے چمن ایسے

جنّت کے گلستاں میں نہیں گلبدن ایسے

لب بند ہوئے جاتے ہیں شیریں دہن ایسے

ہے شور جہاں میں نمک ایسا سخن ایسے

قرآں نہ اترتا تو قرأت بھی نہ ہوتی

یہ خلق نہ ہوتے تو فصاحت بھی نہ ہوتی

منظورِ نظر گیسو و رخسارۂ تاباں

ظلمت کی سحر گیسو و رخسارۂ تاباں

ہالے میں قمر گیسو و رخسارۂ تاباں

مشک و گلِ تر گیسو و رخسارۂ تاباں

دیکھے نہ کبھی نورِ سحر دیکھ کے ان کو

دو راتوں میں دو چاند نظر آتے ہیں دن کو

آئینے کا کیا منھ کہ جبیں سے ہو مقابل

مہتاب کہوں گر تو وہ ناقص ہے، یہ کامل

چہرے پہ کلف صاف ہے یہ عیب میں داخل

خورشید بھی اصلاً نہیں تشبیہ کے قابل

ہمسر ہوں وہ کیونکر کوئی نسبت نہیں جن کو

یہ رات کو پیشانی سے محجوب وہ دن کو

آراستہ لشکر ہے ادھر ہلتے ہیں بھالے

قبضوں پہ ہیں چالاک جواں ہاتھوں کو ڈالے

بد کیش ہیں واں تیروں کو ترکش سے نکالے

فوجوں پہ تو فوجیں ہیں رسالوں پہ رسالے

خنجر وہ کلیجے پہ جو زہرا کے پھرے ہیں

شاہِ شہدا قلعۂ آہن میں گھرے ہیں

تلواریں لیے دشمنِ جاں ایک طرف ہیں

گھوڑے پہ شہِ کون و مکاں ایک طرف ہیں

تیر ایک طرف گرزِ گراں ایک طرف ہیں

آپ ایک طرف، لاکھ جواں ایک طرف ہیں

سر کٹنے کا دھڑکا نہیں، وسواس نہیں ہے

فوجوں سے وغا اور کوئی پاس نہیں ہے

وہ دشت وہ گرمی وہ حرارت وہ تب و تاب

پانی کا جو قطرہ ہے وہ ہے گوہرِ نایاب

انسان کا تو کیا ذکر پرندے بھی ہیں بے تاب

لوں چلتی ہے مرجھائے ہوئے ہیں گلِ شاداب

اڑتے ہیں شرر آگ بیاباں میں بھری ہے

پھولوں میں نہ سرخی ہے نہ سبزے میں تری ہے

وہ دھوپ ہے جس میں کہ ہرن ہوتے ہیں کالے

ضیغم ہیں ترائی میں زبانوں کو نکالے

ریتی پہ دھرے پاؤں تو پڑ جاتے ہیں چھالے

دھوپ اس پہ یہ، سائے میں جسے فاطمہ پالے

تابش ہے کہ ایک کڑی نرم ہوئی ہے

سب سرخ ہے سینہ پہ زرہ گرم ہوئی ہے

بے سایہ جو ہے لاشۂ ہم شکلِ پیمبر

بکسے ہوئے ہیں دھوپ میں زخمِ تنِ انور

وا حسرت و دردا کہ نہیں لاش پہ چادر

سوتے ہیں لبِ نہر علم دارِ دلاور

تنہا جو وہ ساونت ہزاروں سے لڑا ہے

مارا ہوا اک شیر ترائی میں پڑا ہے

فرماتے ہیں گرمی کی بس اب مجھ کو نہیں تاب

میں تین شب و روز سے جنگل میں ہوں بے آب

مرجھائے ہیں سب باغِ علی کے گلِ شاداب

کیوں کر وہ جئے جس سے بچھڑ جائیں یہ احباب

صابر ہوں میں ایسا ہی کہ غش آ نہیں جاتا

ان پھولوں کو اس خاک پہ دیکھا نہیں جاتا

اتنی مجھے مہلت دو کہ قبریں تو بناؤں

سیدانیوں سے بہرِ کفن چادریں لاؤں

اس خاک میں ان چاند کے ٹکڑوں کو ملاؤں

یہ دفن ہوں میں قبر نہ پاؤں تو نہ پاؤں

قطرہ کوئی اس نہر سے پیاسے کو نہ دینا

مٹّی بھی محمد کے نواسے کو نہ دینا

کیا ان سے عداوت جو گئے دارِ فنا سے

کوتاہ ہیں چلنے سے قدم، ہاتھ وغا سے

مطلب انھیں دریا سے نہ کچھ سرد ہوا سے

رحم ان کا طریقہ ہے جو ڈرتے ہیں خدا سے

مہماں تھے لڑے بھی تو یہ سب حق پہ لڑے ہیں

آخر یہ بشر ہیں کہ جو بے گور پڑے ہیں

مرتا ہے مسافر کسی بستی میں کوئی گر

سب لوگ اسے غسل و کفن دیتے ہیں مل کر

قرآں کوئی پڑھتا ہے کہ بیکس تھا یہ بے پر

لے آتا ہے تربت پہ کوئی پھولوں کی چادر

غم کرتے ہیں سب فاتحہ خوانی میں سِوُم کو

سیّد ہیں یہ اور شرم نہیں آتی ہے تم کو

ان میں کئی بچّے ہیں کہ نکلے تھے نہ گھر سے

نازک ہیں صباحت میں زیادہ گلِ تر سے

افتادہ ہیں اس دھوپ میں یہ تین پہر سے

پوچھے کوئی یہ درد و الم میرے جگر سے

نرغہ ہے کہ تلواروں میں دم لے نہیں سکتا

زندہ ہوں میں اور ان کو کفن دے نہیں سکتا

یہ سن کے پکارا پسَرِ سعد بد افعال

کیسا کفن اور کیسی لحد فاطمہ کے لال

اکبر ہوں کہ ہوں قاسم و عبّاس خوش اقبال

ہم گھوڑوں کی ٹاپوں سے کرینگے انھیں پامال

سینوں پہ گلِ زخم ابھی اور کھلیں گے

سجّاد کو ٹکڑے بھی نہ لاشوں کے ملیں گے

حضرت نے کہا دور ہو او ظالمِ مردود

اللہ شہیدوں کی حفاظت کو ہے موجود

یہ وہ ہیں کہ زہرا و نبی جن سے ہیں خوشنود

ہر لاش کو گھیرے ہوئے ہے رحمتِ معبود

قبروں میں بھی جنّت کے چمن ان کو ملیں گے

فردوس کے حُلّوں کے کفن ان کو ملیں گے

میں دیر سے آمادہ ہوں تلوار کو تولے

کہدے کہ علَم فوج صفیں باندھ کے کھولے

ماروں انھیں پھوٹیں کہیں کچھ دل کے پھپھولے

سر تن سے اڑا دوں کوئی اب منہ سے جو بولے

آرام سفر کر گیا، راحت نہیں باقی

بڑھتا ہوں کہ بس اب کوئی حجّت نہیں باقی

یہ فوج ہے کیا آگ کا دریا ہو تو جھیلیں

کیا ڈر انھیں بچپن میں جو تلواروں سے کھیلیں

الٹیں صِفَتِ کاہ اگر کوہ کو ریلیں

کوفہ تو ہے کیا شام کو اور روم کو لے لیں

چاہیں تو زمیں کے ابھی ساتوں طبق الٹیں

یوں الٹیں کے جس طرح ہوا سے ورق الٹیں

کہتے ہیں جسے اہلِ جہاں گنبدِ گردان

نُہ ورقے ہیں اک جزوِ کتابِ شہ مردان

ہم آج ہیں عالم میں قضا فہم و قدر دان

حق بین و حق آگاہ و سخن سنج و ہنر دان

کس امر میں تقلیدِ محمد نہیں کرتے

فاقوں میں سوالِ فقَرا رد نہیں کرتے

اللہ نے کونین کی شاہی ہمیں دی ہے

امداد رسولوں کی مرے باپ نے کی ہے

مجھ میں بھی وہی دل، وہی شوکت، وہی جی ہے

سر برسے ہیں جب تیغِ علی میان سے لی ہے

سر تن سے کٹے جب تو مہم جنگ کی سر ہے

مر جائے بہ عزّت یہ بہادر کی ظفر ہے

ہم دولتِ دنیا کبھی گھر میں نہیں رکھتے

توقیرِ زر و مال نظر میں نہیں رکھتے

رکھتے ہیں قدم خیر میں، شر میں نہیں رکھتے

کچھ اور بجز تیغ کمر میں نہیں رکھتے

نذرِ رہِ معبود تن و سر ہے ہمارا

زیور ہے یہی اور یہی سر ہے ہمارا

شہر اس کی تب و تاب سے ویرانے ہوئے ہیں

جب چمکی ہے یہ دیو بھی دیوانے ہوئے ہیں

منھ وہ ہے کہ تلواروں میں دندانے ہوئے ہیں

لوہا وہ کہ جبریل جسے مانے ہوئے ہیں

کر دیتی ہے شب دشمنِ ایماں کے دنوں کو

جڑھ آتی ہے تپ اس کے شراروں سے جنوں کو

برباد اسی تیغ سے سر کٹ کے ہوئے ہیں

جانبر جو ہوئے، بھاگ کے یا ہٹ کے ہوئے ہیں

عاجز ہے زرِہ، خود بھی سر پٹکے ہوئے ہیں

اب تک پر جبریلِ امیں لٹکے ہوئے ہیں

باعث یہ نہ ہوتا تو پھر آرام نہ لیتے

تھا خاتمہ گر ہاتھ علی تھام نہ لیتے

مشہورِ جہاں عمرو و علی کی ہے لڑائی

زور اس کا کہ یہ دیو نے قوّت نہیں پائی

خندق کے اِدھر آتے ہی تلوار جو کھائی

گویا تھی مہینوں سے تن و سر سے جدائی

لاشے کا اِدھر ڈھیر، سرِ نحس اُدھر تھا

خندق کو جو دیکھا تو لہو تا بہ کمر تھا

کب میان سے شمشیرِ دو سر لی نہیں ہم نے

لڑنے میں کبھی منہ پہ سپر لی نہیں ہم نے

جب تک کہ زمیں خون سے بھرلی نہیں ہم نے

کچھ اپنے سر و تن کی خبر لی نہیں ہم نے

شمشیر و سپر بعدِ ظفر کھولتے ہیں ہم

جب صاف ہو میداں تو کمر کھولتے ہیں ہم

پیغامِ قضا تیغِ یداللہ کو جانو

ہمتائے علی فاطمہ کے ماہ کو جانو

بینائی ہو تو کوہِ گراں کاہ کو جانو

عاجز نہ کبھی بندۂ اللہ کو جانو

انگشت سے حلقے کو مروڑا ہے علی نے

خیبر کا در اِک ہاتھ سے توڑا ہے علی نے

اللہ رے زورِ یدِ پاکیزہ و طاہر

آثار اِذَا زُلزِلَتِ الاَرض تھے ظاہر

کھاتے تھے سدا نانِ جویں خلق ہے ماہر

کچھ زر نہ سماتا تھا نظر میں نہ جواہر

اسبابِ شہنشاہِ دو عالم یہی بس تھا

قرآں تھا، یہ تلوار تھی، بس ایک فرس تھا

مرثیہ نمبر ۱

مطلعِ پنجم(اول)

دنیا بھی عجب گھر ہے کہ راحت نہیں جس میں

وہ گُل ہے یہ گل، بوئے محبّت نہیں جس میں

وہ دوست ہے یہ دوست، مرّوت نہیں جس میں

وہ شہد ہے یہ شہد، حلاوت نہیں جس میں

بے درد و الم شامِ غریباں نہیں گزری

دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گزری

گودی ہے کبھی ماں کی، کبھی قبر کا آغوش

گُل پیرہن اکثر نظر آتے ہیں کفن پوش

سرگرمِ سخن ہے کبھی انساں، کبھی خاموش

گہ تخت ہے اور گاہ جنازہ بہ سرِ دوش

اک طور پہ دیکھا نہ جواں کو نہ مُسِن کو

شب کو تو چھپر کھٹ میں ہیں، تابوت میں دن کو

شادی ہو کہ اندوہ ہو، آرام ہو یا جَور

دنیا میں گزر جاتی ہے انساں کی بہر طَور

ماتم کی کبھی فصل ہے، عشرت کا کبھی دَور

ہے شادی و ماتم کا مرقع جو کرو غور

کس باغ پہ آسیبِ خزاں آ نہیں جاتا

گل کون سا کھلتا ہے جو مرجھا نہیں جاتا

ہے عالمِ فانی کی عجب صبح، عجب شام

گہ غم، کبھی شادی، کبھی ایذا، کبھی آرام

نازوں سے پلا فاطمہ زہرا کا گل اندام

وا حسرت و دردا، کہ وہ آغاز یہ انجام

راحت نہ ملی گھر کے تلاطم سے دہم تک

مظلوم نے فاقے کئے ہفتم سے دہم تک

ریتی پہ عزیزوں کا مرقع تو ہے ابتر

شہ کا ہے یہ نقشہ کہ ہیں تصویر سے ششدر

فرزند نہ مسلم کے، نہ ہمشیر کے دلبر

قاسم ہیں، نہ عبّاس، نہ اکبر ہیں نہ اصغر

سب نذر کو دربارِ پیمبر میں گئے ہیں

رخصت کو اکیلے شہِ دیں گھر میں گئے ہیں

منظور ہے پھر دیکھ لیں ہمشیر کی صورت

پھر لے گئی ہے گھر میں سکینہ کی محبّت

سجّاد سے کچھ کہنے ہیں اسرارِ امامت

بانوئے دو عالم سے بھی ہے آخری رخصت

مطلوب یہ ہے، زیبِ بدن رختِ کہن ہو

تا بعدِ شہادت وہی ملبوسِ بدن ہو

خیمے میں مسافر کا وہ آنا تھا قیامت

اِک ایک کو چھاتی سے لگانا تھا قیامت

آنا تو غنیمت تھا، پہ جانا تھا قیامت

تھوڑا سا وہ رخصت کا زمانا تھا قیامت

واں بَین، اِدھر صبر و شکیبائی کی باتیں

افسانۂ ماتم تھیں بہن بھائی کی باتیں

حضرت کا وہ کہنا کہ بہن صبر کرو صبر

امت کے لیے والدہ صاحب نے سہے جبر

وہ کہتی تھی کیونکر نہ میں روؤں صفتِ ابر

تم پہنو کفن اور نہ بنے ہائے مری قبر

لٹتے ہوئے امّاں کا گھر ان آنکھوں سے دیکھوں

ہے ہے تہہِ خنجر تمھیں کن آنکھوں سے دیکھوں

اس عمر میں ٹھوڑے غمِ جانکاہ اٹھائے

اشک آنکھوں سے امّاں کے جنازے پہ بہائے

آنسو نہ تھمے تھے کہ پدر خوں میں نہائے

ٹکڑے دلِ شبّر کے لگن میں نظر آئے

حضرت کے سوا اب کوئی سر پر نہیں بھائی

انساں ہوں، کلیجا مرا پتھر نہیں بھائی

ہر شخص کو ہے یوں تو سفر خلق سے کرنا

دشوار ہے اِک آن مسافر کا ٹھہرنا

ان آنکھوں سے دیکھا ہے بزرگوں کا گزرنا

ہے سب سے سوا ہائے یہ مظلومی کا مرنا

صدقے گئی، یوں رن کبھی پڑتے نہیں دیکھا

اِک دن میں بھرے گھر کو اجڑتے نہیں دیکھا

ہے ہے تمھیں میں لے کے کہاں چھپ رہوں بھائی

لٹتی ہے مرے چار بزرگوں کی کمائی

کس دشتِ پر آشوب میں قسمت مجھے لائی

یا رب، کہیں مر جائے یداللہ کی جائی

زہرا کا پسر وقتِ جدائی مجھے روئے

سب کو تو میں روئی ہوں، یہ بھائی مجھے روئے

زینب کی وہ زاری، وہ سکینہ کا بلکنا

وہ ننھی سی چھاتی میں کلیجے کا دھڑکنا

وہ چاند سا منہ اور وہ بُندے کا جمکنا

حضرت کا وہ بیٹی کی طرف یاس سے تکنا

حسرت سے یہ ظاہر تھا کہ معذور ہیں بی بی

پیدا تھا نگاہوں سے کہ مجبور ہیں بی بی

وہ کہتی تھی، بابا ہمیں چھاتی سے لگاؤ

فرماتے تھے شہ، آؤ نا، جانِ پدر آؤ

ہم کڑھتے ہیں، تم آنکھوں سے آنسو نہ بہاؤ

خوشبو تو ذرا گیسوئے مشکیں کی سنگھاؤ

کوثر پہ بھی تم بِن نہیں آرام چچا کو

ہم جاتے ہیں کچھ دیتی ہو پیغام چچا کو

بی بی، کہو کیا حال ہے اب ماں کا تمھاری

کس گوشے میں بیٹھی ہیں، کہاں کرتی ہیں زاری

جب سے سوئے جنّت گئی اکبر کی سواری

دیکھا نہ انھیں، گھر میں ہم آئے کئی باری

تھی سب کی محبّت انھیں بیٹے ہی کے دم تک؟

کیا آخری رخصت کو بھی آئیں گی نہ ہم تک؟

کس جا ہیں، طلب ہم کو کریں، یاد ہی آئیں

ممکن نہیں اب وہ ہمیں یا ہم انہیں پائیں

کچھ ہم سے سنیں، کچھ ہمیں حال اپنا سنائیں

اک دم کے مسافر ہیں، ہمیں دیکھ تو جائیں

بعد اپنے یہ لُوٹا ہوا گھر اور لُٹے گا

افسوس کہ اک عمر کا ساتھ آج چھٹے گا

غش میں جو سنی بانوئے مضطر نے یہ تقریر

ثابت ہوا مرنے کو چلے حضرتِ شبیر

سر ننگے اٹھی چھوڑ کے گہوارۂ بے شیر

چلّائی مجھے ہوش نہ تھا، یا شہِ دلگیر

جاں تن سے کوئی آن میں اب جاتی ہے آقا

یہ خادمہ رخصت کے لیے آتی ہے آقا

یہ سن کے بڑھے چند قدم شاہِ خوش اقبال

قدموں پہ گری دوڑ کے وہ کھولے ہوئے بال

تھا قبلۂ عالم کا بھی اس وقت عجب حال

روتے تھے غضب، آنکھوں پہ رکھّے ہوئے رومال

فرماتے تھے جاں کاہ جدائی کا الم ہے

اٹھو تمھیں روحِ علی اکبر کی قسم ہے

وہ کہتی تھی کیوں کر میں اٹھوں اے مرے سرتاج

والی، انہی قدموں کی بدولت ہے مرا راج

سر پر جو نہ ہوگا پسرِ صاحبِ معراج

چادر کے لیے خلق میں ہو جاؤں گی محتاج

چُھوٹے جو قدم، مرتبہ گھٹ جائے گا میرا

قربان گئی، تخت الٹ جائے گا میرا

یاں آئی میں، جب خانۂ کسرٰی ہوا برباد

وہ پہلی اسیری کی اذیّت ہے مجھے یاد

کی عقدہ کشائے دو جہاں نے مری امداد

حضرت کے تصدّق میں ہوئی قید سے آزاد

لونڈی سے بہو ہو گئی زہرا و علی کی

قسمت نے بٹھایا مجھے مسند پہ نبی کی

چھبیس برس تک نہ چھٹا آپ کا پہلو

اب ہجر ہے تقدیر میں یا سیّدِ خوش خو

ہر شب رہے تکیہ سرِ اقدس کا جو بازو

ہے ہے اسے اب رسّی سے باندھیں گے جفا جو

سر پر نہ ردا ہوگی تو مر جاؤں گی صاحب

چھپنے کو میں جنگل میں کدھر جاؤں گی صاحب

حضرت نے کہا کس کا سدا ساتھ رہا ہے

ہر عاشق و معشوق نے یہ داغ سہا ہے

دارِ محن اس دار کو داور نے کہا ہے

ہر چشم سے خونِ جگر اس غم میں بہا ہے

فرقت میں عجب حال تھا خالق کے ولی کا

ساتھ آٹھ برس تک رہا زہرا و علی کا

سو سو برس اک گھر میں مَحبّت سے رہے جو

بس موت نے دم بھر میں جدا کر دیا ان کو

کچھ مرگ سے چارہ نہیں اے بانوئے خوش خو

ہے شاق فلک پر کہ رہیں ایک جگہ دو

کس کس پہ زمانے نے جفا کی نہیں صاحب

اچھوں سے کبھی اس نے وفا کی نہیں صاحب

لازم ہے خدا سے طلبِ خیر بشر کو

تھامے گا تباہی میں وہی رانڈ کے گھر کو

آنا ہے تمھیں بھی وہیں جاتے ہیں جدھر کو

وارث کی جدائی میں پٹکتے نہیں سر کو

کھولے گا وہ رسّی سے بندھے ہاتھ تمھارے

سجّاد سا بیٹا ہے جواں ساتھ تمھارے

زینب کو تو دیکھو کہ ہیں کس دکھ میں گرفتار

ایسا کوئی اس گھر میں نہیں بے کس و ناچار

تنہا ہیں کہ بے جاں ہوئے دو چاند سے دلدار

دنیا سے گیا اکبرِ ناشاد سا غم خوار

بیٹے بھی نہیں گود کا پالا بھی نہیں ہے

ان کا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے

یہ کہہ کے کچھ ارشاد کیا گوشِ پسر میں

بیمار کے رونے سے قیامت ہوئی گھر میں

اندھیر زمانہ ہوا بانو کی نظر میں

غش ہوگئی زینب، یہ اٹھا درد جگر میں

ٹھہرا نہ گیا پھر شہِ والا نکل آئے

تنہا گئے روتے ہوئے تنہا نکل آئے

کچھ بڑھ کر پھرے جانبِ قبلہ شہِ بے پر

کج کی طرفِ دوشِ یمیں گردنِ انور

تھرّاے ہوئے ہاتھوں پہ عمّامے کو رکھ کر

کی حق سے مناجات کہ اے خالقِ اکبر

حرمت ترے محبوب کی دنیا میں بڑی ہے

کر رحم کہ آل ان کی تباہی میں پڑی ہے

یا رب، یہ ہے سادات کا گھر تیرے حوالے

رانڈیں ہیں کئی خستہ جگر تیرے حوالے

بیکس کا ہے بیمار پسر تیرے حوالے

سب ہیں ترے دریا کے گہر تیرے حوالے

عالم ہے کہ غربت میں گرفتارِ بلا ہوں

میں تیری حمایت میں انھیں چھوڑ چلا ہوں

میرے نہیں، بندے ہیں ترے اے مرے خالق

بستی ہو کہ جنگل تُو ہی حافظ، تو ہی رازق

باندھے ہیں کمر ظلم و تعدّی پہ منافق

یہ دوست ہے دنیا، نہ زمانہ ہے موافق

حرمت ہے ترے ہاتھ امامِ اَزَلی کی

دو بیٹیاں، دو بہویں ہیں اس گھر میں علی کی

میں یہ نہیں کہتا کہ اذیّت نہ اٹھائیں

یا اہلِ ستم آگ سے خیمے نہ جلائیں

ناموس لٹیں، قید ہوں اور شام میں جائیں

مہلت مرے لاشے پہ بھی رونے کی نہ پائیں

بیڑی میں قدم، طوق میں عابد کا گلا ہو

جس میں ترے محبوب کی امّت کا بھلا ہو

یہ کہہ کے گریبانِ مبارک کو کیا چاک

اور ڈال لی پیراہنِ پُر نور پہ کچھ خاک

میّت ہوئے شبّیر، کفن بن گئی پوشاک

بس فاتحۂ خیر پڑھا با دلِ غمناک

مڑ کر نہ کسی دوست، نہ غم خوار کو دیکھا

پاس آئے تو روتے ہوئے رہوار کو دیکھا

گردان کے دامن علی اکبر کو پکارے

تھامو مرے گھوڑے کی رکاب، اے مرے پیارے

لختِ دلِ شبّر، کدھر اس وقت سدھارے

بھائی ہیں کہاں، ہاتھ میں دیں ہاتھ ہمارے

آتے نہیں، مسلم کے جگر بند کہاں ہیں

دونوں مری ہمشیر کے فرزند کہاں ہیں

تنہائی میں اک ایک کو حضرت نے پکارا

کون آئے کہ فردوس میں تھا قافلہ سارا

گھوڑے پہ چڑھا خود اسداللہ کا پیارا

اونچا ہوا افلاکِ امامت کا ستارا

شوخی سے فَرَس پاؤں نہ رکھتا تھا زمیں پر

غل تھا کہ چلا قطبِ زماں عرشِ بریں پر

شبدیز نے چھل بل میں عجب ناز دکھایا

ہر گام پہ طاؤس کا انداز دکھایا

زیور نے عجب حُسنِ خدا ساز دکھایا

فتراک نے اوجِ پرِ پرواز دکھایا

تھا خاک پہ اک پاؤں تو اک چرخِ بریں پر

غل تھا کہ پھر اترا ہے براق آج زمیں پر

بجلی کو نہ تھا اس کی جلو لینے کا یارا

رہوار کو دُلدل کا چلن یاد تھا سارا

اڑنے میں نہ آہُو کبھی جیتا، نہ چکارا

شہباز بھی بازی اسی جانباز سے ہارا

طاؤس کا کیا ذکر، پری سے بھی حَسیں تھا

سایہ تھا کہیں دھوپ میں اور آپ کہیں تھا

جانباز نے طے کی عجب انداز سے وہ راہ

لے آئی سلیماں کو ہوا تا صفِ جنگاہ

وہ رعب، وہ شوکت وہ نہیبِ شہِ ذی جاہ

دلدل کو اڑاتے ہوئے آئے اسد اللہ

غل تھا یہ محمد ہیں کہ خالق کے ولی ہیں

اقبال پکارا کہ حسین ابنِ علی ہیں


4

5

6

7

8

9

10

11

12