• ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15303 / ڈاؤنلوڈ: 1897
سائز سائز سائز
مراثیِ انیس(انتخاب)

مراثیِ انیس(انتخاب)

مؤلف:
اردو

مرثیہ نمبر ۲

(مطلعِ دوم(سوم)

بھاتا تھا شریکِ فقَرا شاہ کو ہونا

بھولا نہیں راتوں کو مناجات میں رونا

ہے یاد ہمیں بوریے پر راتوں کو سونا

بستر تھا وہی دن کا، وہی شب کا بچھونا

اک ریزۂ زر خانۂ حیدر سے نہ نکلا

دنیا سے اٹھے جب تو کفن گھر سے نہ نکلا

پانی بھی ملک کوثر و تسنیم کا لائے

جبریلِ امیں عرش سے روتے ہوئے آئے

پیوند پہ پیوند جو ملبوس میں پائے

سر پیٹ کے ہم بھائیوں نے اشک بہائے

جو کچھ کہ تھا قبل اپنے شہنشاہ نے بھیجا

کافور نبی نے، کفن اللہ نے بھیجا

اللہ ہے عالم کے وہی حال ہے میرا

ریتی پہ پڑا ہے جو زر و مال ہے میرا

یہ گوہر و یاقوت ہے وہ لال ہے میرا

اس دشت میں جو مال ہے پامال ہے میرا

آرام پس از رنج و محن بھی نہ ملے گا

مجھ کو تو کئی روز کفن بھی نہ ملے گا

ہم اپنے جو لشکر کے پرے تم کو دکھائیں

تم کیا ہو بنی جان کی جانیں ابھی جائیں

جرّار کبھی تاب ٹھہرنے کی نہ لائیں

مر جائیں ہزاروں تو ہزاروں کو غش آئیں

منظور ملائک کی جو امداد کروں میں

اِک اپنے لیے لاکھوں کو برباد کروں میں

میں نے تو بھرے گھر کو تمھارے لیے چھوڑا

دربارِ پیمبر کو تمھارے لیے چھوڑا

اس قبرِ منوّر کو تمھارے لیے چھوڑا

بیماری میں دختر کو تمھارے لیے چھوڑا

نے ماں کے، نہ پہلو میں بڑے بھائی کے جا ہو

قسمت میں یہ تھا قبر مری سب سے جدا ہو

سچ ہے سخنِ حق میں بڑی ہوتی ہے تاثیر

تھرّائے جگر، رونے لگے فوج کے بے پیر

مولا نے سنبھل کر جو رکھی دوش پہ شمشیر

ہٹ کر پسرِ سعد پکارا کہ چلیں تیر

اک حشر بپا ہوگا جو یہ شیر لڑے گا

سر خاک پہ لوٹیں گے، بڑا کھیت پڑے گا

نقّارۂ رزمی پہ لگی چوب یکایک

تھرّانے لگا دشتِ پُر آشوب یکایک

تلواریں کھنچیں زہر میں سر ڈوب یکایک

لشکر سے بڑھے فوج کے سر کوب یکایک

رحم آیا نہ اعدا کو ولی ابنِ ولی پر

نرغہ ہوا مظلوم حسین ابنِ علی پر

غُل طبل کا، قرنا کی وہ آواز ڈرانی

زَہرے جسے سن سن کے ہوئے جاتے تھے پانی

کالے وہ عَلم، شام کے لشکر کی نشانی

دو تیر، جگر دوز کمانیں وہ کیانی

اک تیر سے مر جانے میں عرصہ نہیں کھنچتا

رستم سے بھی جن کا کبھی چلّہ نہیں کھنچتا

تحت الحَنَکیں باندھے سوارانِ تنو مند

جن کے کبھی نیزوں کے نہ رستم سے کُھلے بند

وہ گرز سپر فرق پہ روکے کوئی ہر چند

اک ضرب میں ہو جائے بشر خاک کا پیوند

نہ رُوح ہو تن میں نہ لہو قلب و جگر میں

سر سینے میں ہو سینۂ مجروح کمر میں

تلوار ادھر سیّدِ ابرار نے کھینچی

یا تیغِ دو سر حیدرِ کرّار نے کھینچی

تصویرِ اجل برقِ شرر بار نے کھینچی

گردن طرفِ غار ہر اک مار نے کھینچی

گھبرا گئے صدمہ یہ ہوا رُوحِ امیں پر

سر رکھ دیا جھک جھک کے پہاڑوں نے زمیں پر

آثار نمایاں ہوئے خالق کے غضب کے

شیروں نے ترائی سے کنارہ کیا دب کے

چونک اٹھے وہ جو سوتے تھے جاگے ہوئے شب کے

دل ہل گئے رنگ اڑ گئے کفّارِ عرب کے

سردار قدم گاڑے تھے ہر چند زمیں پر

گر گر پڑے کھل کھل کر کمر بند زمیں پر

نعرہ کیا بڑھ کر شہِ دیں نے کہ خبردار

لشکر سے کہا شمرِ لعیں نے کہ خبردار

صیحہ کیا جبریلِ امیں نے کہ خبرادر

ماہی سے کہا گاوِ زمیں نے کہ خبردار

گیتی یہ یونہیں گریہ زد و کُشت رہے گی

شاخیں مری ہوں گی نہ تری پُشت رہے گی

جنگل میں پہاڑوں کے جگر خوف سے کانپے

گرنے لگے پتّے یہ شجر خوف سے کانپے

گھڑیال تھے پانی میں مگر خوف سے کانپے

تھے دورِ اولی الاجنحہ پر خوف سے کانپے

گر قوّتِ پرواز خدا داد تھی ان کو

رُودادِ پرِ رُوحِ امیں یاد تھی ان کو

چلّاتے تھے ہر صف میں نقیبانِ جفا کیش

ہاں غازیو، اس وقت بڑی جنگ ہے در پیش

فرزندِ علی ہے یہ جگر خستہ و دل ریش

سر کرتے ہیں سر دے کر مہم کو ظفر اندیش

کوشش کی گھڑی جان لڑا دینے کا دن ہے

صفّین کے کشتوں کے عوض لینے کا دن ہے

مولائے امم لشکرِ پُر کید پہ آئے

انبوہِ عناد و حسد و شید پہ آئے

گہ عَمر پہ آئے تو کبھی زید پہ آئے

یوں آئے کہ جس طرح اجل صید پہ آئے

ہلچل تھی کہ طوفاں میں جہاز آتا ہے جیسے

تیغ آتی تھی، کنجشک پہ باز آتا ہے جیسے

سر گرنے لگے جسم سے، چلنے لگی تلوار

چار آئینوں میں جا کے نکلنے لگی تلوار

افعی کی طرح زہر اگلنے لگی تلوار

پی پی کے لہو، رنگ بدلنے لگی تلوار

پانی نے اثر زہرِ ہلاہل کا دکھایا

ہر ضرب میں جلوہ حق و باطل کا دکھایا

ہر غول میں غُل تھا یہ لڑائی ہے غضب کی

انبارِ سر و تن ہیں صفائی ہے غضب کی

سر تن سے اترتے ہیں چڑھائی ہے غضب کی

یہ گھاٹ نیا ہے یہ لڑائی ہے غضب کی

چھپنے کو جگہ دامنِ صحرا میں نہیں ہے

یہ باڑھ غضب کی کسی دریا میں نہیں ہے

تلواریں جو آری ہیں تو بے آب سنانیں

بیکار کمیں میں ہیں کمینوں کی کمانیں

اک منھ میں اسے حق نے جو دو دی ہیں زبانیں

اِس رمز کو جو سیف زباں ہوں وہی جانیں

مطلب تھا کہ اب دین کو کامل یہ کرینگے

وہ شرک کو اور کفر کو باطل یہ کرینگے

بربادی ہوئی کفر کے لشکر کی اسی سے

گردن نہ بچی عَمر دلاور کی اسی سے

کچھ چل نہ سکی مرحب و عنتر کی اسی سے

چُولیں ہوئیں ڈھیلی درِ خیبر کی اسی سے

میدان ہر اک معرکہ میں ہاتھ ہے اس کے

قبضہ کی طرح فتح و ظفر ساتھ ہے اس کے

جو سایۂ شمشیرِ ظفر یاب میں آیا

ماہی کی طرح موت کے قُلّاب میں آیا

ہر طور خلل زیست کے اسباب میں آیا

جو آگیا کاوے میں وہ گرداب میں آیا

کچھ مطلبِ دل ہاتھ بھی مارے سے نہ نکلا

دریائے دمِ تیغ کے دھارے سے نہ نکلا

بجھ بجھ گئے بجلی سی چمک کر جدھر آئی

جل جل گئے شعلہ سی لپک کر جدھر آئی

کٹ کٹ گئے سینہ سے سرک کر جدھر آئی

مر مر گئے مقتل میں لچک کر جدھر آئی

ہر بار نیا رنگ نئی جلوہ گری تھی

آفت تھی، قیامت تھی، چھلاوہ تھی، پری تھی

جب مثلِ سموم آ کے نکل جاتی تھی سَن سے

پتّوں کی طرح خاک پہ سر گرتے تھے تن سے

جو شیر تھے میداں کے، ہرن ہو گئے رن سے

وحشی بھی چلے جاتے تھے بھاگے ہوئے بن سے

افعی نہ فقط ڈر کے دراڑوں میں چُھپے تھے

دب دب کے درندے بھی پہاڑوں میں چھپے تھے

سہمے ہوئے تھے مارِ سیہ کُنڈلیاں مارے

ہرنوں میں جو تھے شیر تو چیتوں میں چکارے

غل تھا کہ جلا دیں گے جہاں کو یہ شرارے

دنیا کی تباہی کے یہ آثار ہیں سارے

تلوار کے پانی سے یہ آتش زدگی ہے

جنگل سے چلو آگ زمانہ کو لگی ہے

اللہ ری مولا کی ہزاروں سے لڑائی

فوجوں سے وغا، ظلم شعاروں سے لڑائی

پُرخاش پیادوں سے، سواروں سے لڑائی

لشکر کی حدیں چار تھیں چاروں سے لڑائی

انبوہ میں سر گرم زد و کشت کہیں تھے

جو صف سے بڑھا تیغ بکف آپ وہیں تھے

ہاتھ اٹھتا تھا جب تا بہ فلک جاتی تھی بجلی

گرتی تھی سروں پر تو کڑک جاتی تھی بجلی

جب بڑھتی تھی تلوار سرک جاتی تھی بجلی

اِس پار سے اُس پار چمک جاتی تھی بجلی

گرجے ہیں پر اس طرح مسلسل نہیں گرجے

نعرے ہیں کہ ایسے کبھی بادل نہیں گرجے

مقتل میں کوئی خاک پہ توڑ رہا تھا

باغی کوئی ہستی کا چمن چھوڑ رہا تھا

ہٹ ہٹ کے کوئی دستِ ادب جوڑ رہا تھا

گھوڑے کی ادھر باگ کوئی موڑ رہا تھا

تلوار کے سائے سے ڈرے جاتے تھے اعدا

بھاگڑ تھی کہ پس پس کے مرے جاتے تھے اعدا

شمشیرِ عدو کُش کی ہوا کے وہ تھپیڑے

ڈوبے ہوئے تھے خون میں سب فوجوں کے بیڑے

گھوڑے کو بڑھانے کے لیے کیا کوئی چھیڑے

بوچھار سروں کی تھی لہو کے تھے دڑیڑے

ساون نہیں برسا کبھی بھادوں نہیں برسا

مینھ برسا ہے ہر سال مگر یوں نہیں برسا

لاشیں تھیں دس اک لاش پہ، سر گرتے تھے سر پر

پاؤں پہ کبھی ہاتھ تو سینے تھے کمر پر

چار آئینہ شانوں پہ کٹے تیر و تبر پر

خنجر تھے انھیں کے جو پھرے ان کے جگر پر

بے چلّہ کماں، گرزِ گراں مشت کے نیچے

تیغیں تہِ گردن، سپریں پشت کے نیچے

سیدھے جو نشاں تھے انھیں کیا تیغ نے الٹا

اس صف کو بجھا کر وہ پرا تیغ نے الٹا

لشکر کا ورق وقتِ وغا تیغ نے الٹا

گردن بھی الگ تھی جو گلا تیغ نے الٹا

جو صاحبِ دفتر تھا وہ مقتل سے ہٹا تھا

جس فرد کے چہرے پہ نظر کی وہ کٹا تھا

چلّاتے تھے گِر گِر کے یہ جن بیرِ الم کے

جانوں کو بچاؤ کہیں یہ تیغ نہ چمکے

جل جائیں گے سائے سے اسی برقِ دو دم کے

رن پڑتا ہے لڑتے ہیں یہ جس کھیت میں جم کے

ہیں سیفِ خدا، عرش سے تیغ اتری ہے ان کو

جانیں وہی ان شیروں سے ہو سامنا جن کو

غالب کوئی ان پر کسی صورت نہیں رہتا

قایم قدمِ صاحبِ جرأت نہیں رہتا

بے سر ہے جو پابندِ اطاعت نہیں رہتا

کلمہ نہ پڑھے جو وہ سلامت نہیں رہتا

حملوں سے اگر ہونٹوں پہ وہ جان نہ لاتے

جنّات جو کافر تھے وہ ایمان نہ لاتے

شیرِ اسدِ قلعہ شکن گونج رہا تھا

جنبش تھی پہاڑوں کو یہ رن گونج رہا تھا

قرنا سے اُدھر چرخ کہن گونج رہا تھا

نعروں سے ادھر ظلم کا بن گونج رہا تھا

غل تھا کہ لہو خوف سے گھٹ جانے کا دن ہے

بھاگو یہی گیتی کے الٹ جانے کا دن ہے

کیا تیغ کی تعریف کرے کوئی زباں سے

جِن مانگیں اماں جان کی جس آفتِ جاں سے

ہے قطعِ سخن خوب جو باہر ہو بیاں سے

دھوئی ہوئی کوثر سے زباں لاؤں کہاں سے

یُوں تیغ کبھی عرش سے اتری ہے کسی کو

یہ وہ ہے خدا نے جسے بھیجا ہے نبی کو

تلواریں ہزاروں ہیں پہ نایاب یہی ہے

بازو درِ نصرت کا یہی، باب یہی ہے

بجلی جسے کہتے ہیں وہ بے تاب یہی ہے

ہے باڑھ پہ دریا ہمہ تن آب یہی ہے

اس قبضہ کو اس میل کو اس ساتھ کو دیکھو

تلوار کو کیا دیکھتے ہو ہاتھ کو دیکھو

ایسا ہے لڑائی کا چلن ہاتھ میں کِس کے

دیکھا ہے یہ بے ساختہ پن ہاتھ میں کِس کے

ہے زورِ شہِ قلعہ شکن ہاتھ میں کِس کے

یہ کاٹ، یہ گردش ہے، یہ کَن، ہاتھ میں کِس کے

تلوار تو کیا انگلیاں وہ تیغِ دو سر ہیں

ہاتھوں کی لکیریں نہیں تعویذِ ظفر ہیں

سر کاٹ دیا فرق پہ جس حال میں پہنچی

چہرے پہ جو گھوڑے کے پڑی بال میں پہنچی

مچھلی تھی کہ جوشن کے کبھی جال میں پہنچی

پنجہ کے لڑانے کے لیے ڈھال میں پہنچی

سمجھا یہ ہر اک، برق گری دشمنِ دیں پر

پنجہ تو سپر میں تھا کلائی تھی زمیں پر

اعضائے سوارانِ تنو مند جدا تھے

نیزے تھے تو کیا، جسم کے سب بند جدا تھے

بیٹوں سے پدر، باپ سے فرزند جدا تھے

کیا وصل تھا پیوند سے پیوند جدا تھے

تنہا نہ سرِ اہلِ ستم کاٹ دیے تھے

تلوار نے رشتے بھی بہم کاٹ دیے تھے

ڈھالوں کی گھٹا کا وہ ادھر جھوم کے آنا

تلوار کی بجلی کا چمکتے ہوئے جانا

جنگل کی سیاہی تھی کہ تیرہ تھا زمانا

دریا کا کنارا تھا کہ جیحوں کا دہانا

یُوں سیل کبھی جانبِ صحرا نہیں آتی

ایسی کبھی برسات میں بَہیَا نہیں آتی

سب تھے سپر انداختہ تلوار کے آگے

دو چار کے پیچھے تھے تو دو چار کے آگے

یوں موت تھی اس صاعقہ کردار کے آگے

جس طرح پیادہ چلے اسوار کے آگے

غل تھا وہ ہٹیں کھیت سے جو آگے بڑھے ہیں

سر نذر کرو آپ لڑائی پہ چڑھے ہیں