عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

مشاہدے: 23496
ڈاؤنلوڈ: 3824


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23496 / ڈاؤنلوڈ: 3824
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

تيسری جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

عبدا لله بن سبا اور سبائيوں کی داستان کی تحقيق

پہلی فصل

عبدا لله بن سبا حدیث و رجا ل کی کتابو ں ميں

عبدا لله بن سبا کے بارے ميں کشی کی روایتيں ۔

عبدا لله بن سبا سے متعلق روایتوں ميں تناقض

مرتدوں کو جلانے کی روایتيں ۔

مرتدوں کو جلانے کی روایتوں کی تحقيق جلانے کی روایتوں کے بارے ميں مزید تحقيق شيعوں کی کتابوں ميں مرتدوں کو جلانے کی روایتوں کامعيار

مرتدوں کو جلانے کی روایتوں کا حقيقی پہلو

مباحث کاخلاصہ اور نتيجہ

اس حصہ کے مآخذ

کشی کی روایتيں

و من رجال الکشی انتشرت هذه الروایات فی کتب الشيعه

یہ روایتيں ، صرف رجالِ کشی سے شيعہ کتابوں ميں آگئي ہيں ۔

مؤلف

ا س کتاب کی پہلی جلد کی ابتدا ميں ہم نے عبدا لله بن سبا کے افسانہ کا خلاصہ بيان کيا اور کہا: سيف کی دروغ بافی کی بنياد پر ، اس افسانہ کا ہيرو یعنی “ عبدا لله بن سبا ” یمن کے یہودیوں ميں سے ایک شخص تھا ، جو ریا کاری اور زور و زبردستی اور اسلامی ممالک ميں شورشيں اور فتنہ انگيزیاں کرنے نيز مسلمانوں ميں اختلاف و افتراق کو بڑهاوادینے کيلئے یمن سے اسلامی ممالک کے بڑے شہروں کا سفر کيااور اسلام کا اظہار کرکے اس نے مسلمانوں ميں وصی ، رجعت اور عثمان کی غصبيت کا عقيدہ پھيلایا ، اور ان عقائد کو ایجاد کرکے اسلامی شہروں ميں بڑے پيمانے پر فتنے اور اختلافات بر پا کئے یہاں تک کہ عثمان کے قتل اور جنگ جمل کا سبب بنا۔

یہ تھا عبدا لله بن سبا کے افسانہ کا خلاصہ ، جسے سيف بن عمر نے جعل کرکے مسلمانوں اور اسلامی تمدن کے مآخذ ميں اس کی اشاعت کی ہے ۔

ہم نے افسانہ عبدلله ابن سبا کی تشریح اور اس پر دقيق بحث و تحقيق کو سيف کی تمام جعليات و تخليقات پر بحث و تحقيق کے بعد چھوڑدیا ہے۔خود عبدا لله بن سبا کے بارے ميں حدیث ، رجال اور تاریخ کی کتابوں ميں درج باتوں کو اختتامی بحثوں ميں بيان کریں گے۔ ليکن عبد الله بن سبا کی شخصيت کے بارے ميں جو کثرت سے سوالات ہم سے کئے گئے ہيں اور اس سلسلہ ميں جو پے در پے ہم سے اس کے بارے ميں ہمارا عقيد پوچھا گيا ہے ، اس امر کا سبب بنا کہ بحث کے اس حصہ کو وقت سے پہلے شروع کریں تا کہ منظور نظر مباحث کا ایک حصہ واضح ہونے کے ضمن ميں ان سوالات کا جواب بھی دیا جاسکے اور عبدا لله بن سبا کے بارے ميں ہمارا عقيدہ بھی واضح اور روشن ہوجائے ۔

اسی لئے ہم پہلے حدیث اور رجال کی کتابوں ميں عبدا لله بن سبا کے قيافہ کی تحقيق کرتے ہيں اور آخر ميں ا س کے بارے ميں اپنا نظریہ بيان کریں گے:

١۔ امام محمد باقر عليہ السلام سے کشی کی روایت:

کشی امام محمد باقر عليہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ عبدا لله بن سبا نبوت کا دعوی کرتا تھا اور ایسا ظاہر کرتا تھا کہ امير المؤمنين عليہ السلام الوہيت اور خدائی مقام کے مالک ہيں ۔

جب یہ خبر امير المؤمنين عليہ السلام کوپہنچی ، تو انہوں نے ابن سباکو طلب کيا اور اس بارے ميں اس سے سوال کيا ، ابن سبا نے اپنے اس عقيدہ کا فوراً اعتراف کيا اور کہا: جی ہاں آپ وہی خدا ہيں ! اور اضافہ کيا کہ ميرے دل ميں یہی الہام ہوا ہے کہ آپ خدا ہيں اور ميں آپ کا پيغمبر ہوں ۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شيطان نے تجھ پر اثر کيا ہے ،

اور تيرا مذاق اڑایا ہے تيری ماں تيری سوگوار بنے اس بيان اور فاسد عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور توبہ کرو!

ابن سبا اپنی بات پر اصرار کرتا رہا تو امير المؤمنين عليہ السلام نے اسے جيل ميں ڈال دیا اور اسے تين دن کی مہلت دی تا کہ توبہ کرے ، ليکن اس نے توبہ نہيں کی ۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے بھی اسے مقررہ مہلت کے بعد نذرآتش کيااور فرمایا :

اس پر شيطان مسلط ہوگيا ہے اور اس نے یہ عقيدہ اسے تلقين کيا ہے۔

٢۔ اما م جعفرصادق عليہ السلام سے کشی کی روایت:

کشی ہشام بن سالم سے نقل کرتا ہے کہ اس نے کہا: ميں نے امام صادق عليہ السلام سے جبکہ وہ اپنے اصحاب کے ساتھ عبدا لله بن سبا کے عقيدہ کے بارے ميں گفتگو کر رہے تھے سنا کہ وہ فرماتے تھے ، جب ابن سبا نے علی عليہ السلام کی الوہيت کے بارے ميں ا پنا عقيدہ ظاہرکيا ، تو امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سے چاہا کہ وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہوجائے اور توبہ کرے ۔ ليکن اس نے توبہ نہيں کی پھر امير المومنين عليہ السلام نے اسے آگ ميں ڈال کر جلادیا ۔

٣۔ اما م صادق ں سے کشی کی ایک اور روایت :

کشی ابان بن عثمان سے نقل کرتا ہے : ميں نے امام صادق عليہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے تھے : خدا لعنت کرے عبدا لله بن سبا پر کہ وہ امير المؤمنين عليہ السلام کی ربوبيت اور الوہيت کا قائل تھا ، جبکہ خدا کی قسم آنحضرت عليہ السلام خدا کے ایک مطيع اور فرمانبردار بندہ کے علاوہ کچھ نہيں تھے ۔ افسوس ہے ان پر جو ہم پر تہمتيں لگاتے ہيں ۔ بعض لوگ ہمارے بارے ميں ایسی باتيں کرتے ہيں اور ہمارے لئے ایسے اوصاف کے قائل ہيں کہ ہم خود اپنے لئے ان چيزوں کے قائل نہيں ہيں ۔ اس قسم کے اوصاف جو خدا سے مخصوص ہيں ہم سے مربوط نہيں ہيں ۔ خدا کی قسم ہم ایسے افرا دسے بيزار ہيں ۔

۴ ۔امام سجادں سے کشی کی روایت:

کشی اما م سجاد عليہ السلام سے نقل کرتاہے کہ انہوں نے فرمایا: خدا ان پر لعنت کرے جو ہماری طرف جھوٹی نسبت دیتے ہيں جب مجھے عبدا لله بن سبا یاد آتا ہے تو ميرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہيں اس نے ایک بڑی چيز کی دعویٰ کيا تھا ، خدا اس پر لعنت کرے ۔یہ کيا عقيدہ تھا جس کا اس نے اظہار کيا ؟! خدا کی قسم علی ابن ابيطالب عليہ السلام خدا کے صالح بندہ اور رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے بھائی تھے وہ خدا کے حضور صرف خدا و رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی اطاعت کی رو سے عالی ترین مقام پر پہنچے تھے ۔جس طرح صرف خداوند عالم کی اطاعت سے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم عالی ترین مقام پر فائز ہوئے تھے ۔

۵ ۔امام جعفر صادق ں سے کشی کی روایت کشی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتاہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم ایک سچے اورراست گو خاندان ہيں اور کبھی بھی ایسے کذاب او رجھوٹے افراد سے خوشحال نہيں ہيں جو ہم پر جھوٹ باندتے ہيں یہ جھوٹے لوگ ہم پر جھوٹ کی نسبت دیکر ہماری صحيح بات کو لوگوں کی نظروں ميں بے اعتبار بناتے ہيں اس کے بعد امام نے اضافہ کيا۔

پيغمبر صلى اله عليه وسلملوگوں ميں سب سے سچے تھے ، ليکن مسيلمہ نے ان پر کئی جھوٹ کی نسبت دی ۔ امير المؤمنين رسول خدا صلى اله عليه وسلمکے بعد لوگوں ميں سب سے سچے تھے ، ليکن عبدا لله بن سبا نے ان پر جھوٹ کی نسبت دی اور اس برے کام سے ان کی سچی بات کو جھوٹ کی صورت ميں پيش کرکے انہيں بے اعتبار بناتاہے ۔ عبدا لله بن سبا وہ تھا جس نے خداوند عالم پر بھی جھوٹ کی نسبت دی ہے ( اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا :

ابا عبدا لله الحسين بن علی بھی مختار کے جال ميں پهنس گئے تھے )(۱)

عبدا لله بن سبا کے بارے ميں کشی کی وضاحت کشی مذکوہ پنجگانہ روایتوں کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : بعض مؤرخين نے نقل کيا ہے کہ عبدالله بن سبا ایک یہودی تھا، اس کے بعد اس نے اسلام قبول کيااور علی عليہ السلام کے اصحاب ميں شامل ہوگيا وہ جس طرح یہودی ہونے کے دوران یوشع نون کے بارے ميں غلو آميز عقيدہ رکھتا تھا کہ جو حضرت موسی کے وصی ہيں اسی طرح اسلام کی طرف مائل ہونے اور پيغمبر خدا صلى اله عليه وسلم کی رحلت کے بعد علی کے بارے ميں بھی اس غلو و افراط ميں مبتلا ہوگيا۔ وہ پہلا شخص تھاجس نے پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد علی ابن ابيطا لبں کی امامت اور ان کی خلافت کا عقيدہ لوگوں کی زبانوں پر جاری کيا اور حضرت ں کے دشمنوں سے بيزاری اور دوری اختيار کی ۔ حضرت کے مخالفوں کے ساتھ سخت مخالفت کی اور ان کی تکفير کی ۔ اسی لئے شيعوں کے مخالفين کہتے ہيں : تشيع کا سرچشمہ در حقيقت یہودیت ہے ۔

____________________

۱: حدیث کا آخر جملہ اضافہ ہے جو کتاب اختيار رجال کشی ميں اس حدیث کے ذیل ميں مقلاص بن ابی خطاب کی ۱ ص ٣٠۵ کی تشریح ميں آیا ہے ۔

ان روایتوں کی جانچ پڑتال کشی نے عبدا لله بن سبا کی وضاحت ميں جو روایتيں نقل کی ہيں وہ ان روایتوں کا خلاصہ جنہيں عبدا لله بن سبا کے بارے ميں سيف نے نقل کيا ہے اور طبری نے بھی اس سے نقل کيا ہے اور دوسروں نے طبری سے نقل کيا ہے ہم نے کتاب کی پہلی جلد ميں اس کی تحقيق کی ہے ۔ليکن ،مذکورہ پنجگانہ روایتيں ، جنہيں کشی نے نقل کيا ہے ہم ان کے مضمون کو کشی سے پہلے یا اس کے زمانے ميں “ملل و نحل” اور ادیان اور عقائد کی شناخت کے بارے ميں لکھی گئی کتابوں سے حاصل کرتے ہيں ۔

کشی ابن بابویہ (وفات ٣ ۶ ٩ هء ) کا ہم عصر تھا، اس کی روایتوں کا مضمون کتاب “المقالات” تاليف سعد بن عبدا لله اشعری (وفات ٣٠١ هء) ، کتاب “ فرق الشيعہ ” تاليف نوبختی (وفات ٣١٠ هء) اور “ مقالات الاسلاميين ” تاليف علی ابن اسماعيل ( وفات ٣٣٠ هء ) ميں نقل ہوا ہے۔ یہ سب مؤلفين کشی اور ابن بابویہ سے پہلے تھے ،فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ان روایتوں کو ایک ہی روش اور سياق ميں سند کے بغير نقل کيا ہے ، ليکن رجال کشی ميں یہ روایتيں مختلف صورتوں ميں اور سند کے ساتھ نقل ہوئی ہيں انشاء الله ہم ان پرآنے والی فصل ميں تحقيق کریں گے ۔

یہ روایتيں “ معرفة الناقلين” نامی رجال کشی سے شيعوں کی دوسری کتابوں ميں درج ہوکر منتشر ہوئی ہيں ۔ کيونکہ شيخ طوسی وفات ۴۶ ٠ هء) نے اسی رجال کشی کو خلاصہ کرکے اس کا نام “ اختيار معرفة الرجال ” رکھا ہے اور یہی کتاب آج رائج اور معروف اور ہماری دسترس ميں ہے ۔

اس کے علاوہ احمدبن طاؤس ( وفا ت ۶ ٧٣ ئه) نے اپنی کتاب “ حل الاشکال ” ۶۴۴ ئه )ميں تاليف کی ہے ، اس نے اس کتاب ميں مندرجہ ذیل پانچ کتابوں کی عبارتوں کو یکجا کر دیا ہے:

١۔ رجال شيخ طوسی ۔

٢۔ فہرست شيخ طوسی ۔

٣۔ اختيار رجال کشی ، تاليف شيخ طوسی ۴ ۔ رجال نجاشی ( وفات ۴۵ ٠ هء) اور ۵ ۔ کتاب ‘ ‘ الضعفاء” جو ابن غضائری ( وفات ۴ ٠٠ هء) سے منسوب ہے ، ابن طاؤس کے بعد ، ان کے دو شاگردوں نے اس کی پيروی کی اور ان کے استاد نے جو کچھ اپنی کتاب ميں درج کيا ہے ، انہوں نے بھی اسی کو من و عن اپنی کتابوں ميں نقل کردیا ہے ان دو ميں سے ایک علامہ حلی (وفات ٧٢ ۶ ه) ہيں جنہوں نے اپنی رجال کی کتاب “ خلاصة الاقوال” ميں ا ور دوسرے ابن داؤد ہے جنہوں نے ( ٧٠٧ ئه) ميں تاليف کی گئی اپنی رجال کی کتاب ميں درج کيا ہے ان کے بعد مرحوم شيخ حسن بن زین الدین عاملی ( وفات ١٠١١ هء) نے “ اختيار رجال کشی ” کو ابن طاؤس کی کتاب “ حل الاشکال ” سے الگ کرکے اس کا نام “ تحریر طاوس ”

رکھا ہے ، قہبائی نے ١٠١ ۶ ئه ) ميں تاليف کی گئی اپنی کتاب “ مجمع الرجال ” ميں مذکورہ پنجگانہ کتابوں کو اکٹها کرکے اپنی کتاب ميں ان کتابوں کی من و عن عبارتوں کو نقل کيا ہے ۔

اس طرح یہ کتابيں شيعہ دانشوروں ميں رجال و حدیث کے راویوں کے بارے ميں بحث و تحقيق کے منابع و مآخذ قرار پائی ہيں اور رجال شناسی ميں شيعوں کے مباحث ، صرف انہی کتابوں پر منحصر ہيں ۔ ان کتابوں کے مؤلفين نے مطالب کو ایک دوسرے سے نقل کرکے ایک کتاب سے دوسری کتاب ميں منتقل کردیاہے۔

بعد ميں آنے والے علماء حدیث اور رجال نے بھی اسی روش کو جاری رکھا ہے ،جيسے:

ا لف ) تفرشی : جو علمائے رجال ميں سے ایک ہيں نے ١٠١ ۵ ئه) ميں تاليف کی گئی اپنی کتاب “نقد الرجال ” ميں “ ابن سبا ” کے حالات کی تشریح ميں کشی کی روایتوں ميں سے ایک کو نقل کياہے اورعلامت “کش ” سے اسے مشخص کيا ہے۔

ب) اردبيلی : اس نے ١١٠٠ ئه ميں تکميل کو پہنچائی گئی اپنی تاليف “ جامع الرواة ”

ميں عبدا لله بن سبا کے حالا ت کی تشریح کو کشی اور ان سے نقل کيا ہے جنہوں نے کشی سے ليا ہے اور اسے علامت “کش” سے مشخض کيا ہے ۔

ا ن کے علاوہ علم رجال کے دوسرے دانشوروں نے بھی اسی روش کی تقليد کرتے ہوئے رجال کشی اور ان کے تابعين کو اپنا منبع و مآخذقرار دیا۔

علمائے حدیث:

ج ) علمائے حدیث ميں سے علامہ مجلسی ( وفات ١١١٠ ئه) نے کشی کی پنجگانہ روایتوں کو اسی بيان و وضاحت کے ساتھ جسے آخر ميں ذکر کياہے اپنی اہم ترین کتاب “

بحار الانوار ” ميں نقل کيا ہے ۔

د) شيخ محمد بن حسن حر عاملی ( وفات ١١٠ ۴ ئه) جو اکابرعلمائے حدیث ميں شمار ہوتےہيں ، نے اپنی کتاب “ تفصيل الوسائل ” ميں عبدا لله بن سبا کے بارے ميں کشی کی پہلی اور دوسری روایت نقل کی ہے ۔

ه) ابن شہر آشوب ( وفات ۵۵ ٨ ئه )نے بھی اپنی کتا ب“ مناقب ” ميں کشی کی پہلی روایت کو اس کے مآخذ کی طرف کسی قسم کا اشارہ کئے بغير نقل کيا ہے ۔

بات کا خلاصہ خلاصہ یہ کہ ہم عبدا لله بن سبا کے بارے ميں شيعہ کتابوں ميں ذکر کی گئی روایتوں کے بارے ميں تحقيق کے دوران اس نتيجہ پر پہنچے کہ یہ سب روایتيں کتاب رجال کشی سے نقل کی گئی ہيں اور درج ذیل منابع نے بھی ان روایتوں کو اسی سے نقل کيا ہے:

١۔ “ اختيار رجال کشی ” ت اليف شيخ طوسی (وفات ۴۶ ٠ هء(١١١ هء(

٢۔ “ بحار الانوار ” ت اليف مجلسی ( وفات ١

٣۔ “وسائل ” ت اليف شيخ حر عاملی ( وفات ١١٠ ۴ ئه(

۴ ۔ “جامع الرواة ” ت اليف ا ردبيلی ( وفات ١١٠٠ هء(

۵ ۔“ مجمع الرجال” ت اليف قہپائی ( وفات ١٠١ ۶ هء(

۶ ۔ “نقد الرجال” ت اليف ت فرشی (وفات ١٠١ ۵ هء(

٧۔ “تحریر طاؤس” ت اليف شيخ حسن عاملی(وفات ١٠١١ هء(

٨۔ “الخلاصہ ” ت اليف علامہ حلی ( وفات ٧٢ ۶ هء(

٩۔ “رجال” ت اليف ا بن داؤد ( وفات ٧٠٧ هء(

١٠ ۔ “حل الاشکال” ت اليف ا حمد بن طاؤس( وفات ۶ ٧٣ هء(

١١ ۔“ مناقب ” ت اليف ا بن شہر آشوب (وفات ۵ ٨٨ هء (

رجال کشی اور اس کی روایتوں کی جانچ پڑتال

روی الکشی عن الضعفاء کثيراً و فی رجاله اغلاط کثيرة

کشی غير قابل اعتماد افراد سے بہت روایتيں نقل کرتا ہے اور اس کی کتاب رجال غلطيوں سے بھری پڑی ہے

. نجاشی جبکہ ہمارے لئے یہ واضح ہوگياکہ شيعوں کی حدیث اور رجال کی تمام کتابوں نے عبدا لله بن سبا کی غلو کی داستان کو کسی کی معروف کتاب “ معرفة الناقلين ” سے نقل کياہے ،تواب ہميں مذکورہ کتاب اور اس کی روایتوں کی جانچ پڑتال پر توجہ دینی چاہئے ۔

١۔ کتاب ‘ ‘ معرفة الناقلين ” کا مؤلف اس کتاب کا مؤلف ، ابو عمر محمد بن عمرو بن عبدا لعزیز کشی ہے ، نجاشی نے اس کے بارے ميں کہاہے : کشی ایک مؤثق اور قابل اعتماد شخص ہے ليکن اس نے کثرت سے ضعيف اور ناقابل اعتماد افراد سے روایت نقل کيا ہے مزیدکہتا ہے کشی عياشی کا شاگرد تھا لہذا اس نے بعض مطالب اسی سے سيکهے ہيں اور عياشی کے حالات کی تشریح ميں یوں کہتا ہے : وہ ضيعف اور ناقابل اعتماد افراد سے زیادہ نقل کرتا ہے: نيز عقيدہ و مذہب کے لحاظ سے ابتداء ميں مکتب تسنن کا پيرو تھا اور اہل سنت کی احادیث کو زیادہ سن چکا تھا ،

لہذا اس نے ایسی احادیث زیادہ نقل کی ہيں ۔

٢۔ معرفة الناقلين یا رجال کشی رجال کشی “معرفة الناقلين عن الائمة المعصومين ” کے نام سے تھی ۔ شيخ طوسی نے اسکا خلاصہ کيا ہے اور اس کا “ اختيار رجال الکشی ” نام رکھا ہے ۔ یہ کتاب آج تک دانشوروں کی دسترس ميں ہے ۔

نجاشی نے کشی کی کتاب کے بارے ميں کہاہے : علم رجال ميں کشی کی ایک کتاب ہے اس کتاب ميں بہت زیادہ مطالب ہيں ،جن ميں بے شمار غلطياں پائی جاتی ہيں ۔

نجاشی نے کشی کے بارے ميں کہا ہے : وہ ضيعف اور ناقابل اعتماد افراد سے نقل کرتا ہے۔

مرحوم محدث نوری کتاب “ مستدرک الوسائل ” کے خاتمہ کے فائدہ سوم ميں ، شيخ طوسی کی “اختيار رجال الکشی ” کے بارے ميں کہتے ہيں : “ بعض قرائن سے ہمارے لئے واضح ہوا ہے کہ اس کتاب ميں بھی بعض علماء ،مؤلفين اور ناسخوں نے کچھ تصرفات اور تغيرات انجام دئے ہيں ”(۱)

____________________

١۔ مستدرک ( ٣۵٣٠ )مرحوم نوری اس بيان کے بعد اپنی بات کيلئے کئی دلائل پيش کرتے ہيں ۔

قاموس الرجال کے مؤلف نے کہاہے : “ رجال کشی کا کوئی صحيح نسخہ کسی کے پاس نہيں پہنچا ہے حتی شيخ طوسی اور نجاشی کو بھی ”۔ نجاشی نے اس بارہ ميں کہا ہے “ رجال کشی ميں بہت ساری غلطياں ہيں “

اسکے بعد“ قاموس ” کے مؤلف کہتے ہيں : رجال کشی ميں اس قدر تحریف ہے کہ ان کا شمار کرنا ممکن نہيں ہے اس کتاب ميں تحریف نہ ہوئے مطالب معدود چنداور انگشت شمار ہيں جيسے : “ احمد بن عائذ”، “احمد بن فضل ” ، “اسامہ بن حفص ”، “اسماعيل بن فضل ”،

“اشاعثہ ”، “حسين بن منذر ”، “درست بن ابی منصور ”، “ابو جریر قمی ”، “عبدا لواحد بن مختار ”، “ علی بن حدید ”، “علی بن وهبان ” ، “عمر بن عبدا لعزیز زحل ”، “ عنبسہ بن بجاد ”، اور “منذر بن قابوس ” کی تشریح ۔

اس کے بعدکہتے ہيں :

” ميں نے ان چندناموں کے حالات کی تشریح ميں کوئی تحریف نہيں پائی اگرچہ احتمال ہے کہ ان ميں بھی تحریف کی گئی ہے ان ناموں کے علاوہ ميں نے کتاب کی تمام تشریحوں ميں تحریفات مشاہدہ کی ہے اور تمام تحریفات کی اس کے مقام پر بحث و تحقيق کی ہے“

ا س کتاب ميں بہت کم ایسی روایتيں پائی جاتی ہيں جو تحریف و تغيرات سے پاک و صاف ہوں ، یہاں تک کہ کتب کے بہت سے عنوان بھی تحریف ہوئے ہيں کسی شخص سے متعلق روایت کو کسی دوسرے شخص کے حالا ت ميں بيان کيا گياہے ایک طبقہ کے راویوں کو دوسرے طبقہ ميں درج کيا ہے ۔

ابو بصير ليث مرادی کی روایت کو غلطی سے ابو بصير یحيیٰ اسدی کی تشریح ميں ذکر کيا ہے ۔

ابو بصير یحيیٰ کی روایت کو اشتباہ سے“ علباء اسدی ” کے سلسلے ميں درج کيا ہے اور ابو بصير عبدالله فرزند محمد اسدی کے بارے ميں بھی غلطی کا شکا ہوا ہے ۔

عبدا لله بن عباس کی تشریح کے سلسلہ ميں پہلی روایت کو حزیمہ کی تشریح ميں اس تشریح سے پہلے نقل کيا ہے۔

علی بن یقطين کی تشریح کے آخر ميں ایک روایت اور ابتداء ميں ایک اور روایت کو حذف کيا ہے ۔

ابو الخطاب کی تشریح ميں ٢٣ روایتيں نقل کی ہيں کہ جن کا ابو الخطاب سے کوئی ربط ہی نہيں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قہپائی نے اپنی کتاب ميں ابو الخطاب کی تشریح ميں ان روایتوں کو نقل کرنے کے بعد انهيں کاٹ دیا ہے ۔

حميری کہ جو اما م حسن عسکری عليہ السلام کے صحابی تھے کو امام رضا عليہ السلام کے اصحاب ميں شمار کيا ہے ۔

لوط بن یحيیٰ کو حضرت امير المؤمنين عليہ السلام کے اصحاب ميں درج کيا ہے جبکہ لوط امام باقر عليہ السلام یا امام صادق عليہ السلام کے اصحاب ميں سے تھا اور اس کا داداامير المؤمنين عليہ السلام کے اصحاب ميں سے تھا۔

شيخ طوسی نے اس کتاب کے ایک حصہ کو اس ميں موجود تمام تحریفات ، تغيرات اور اشتباہات کے ساتھ انتخاب کيا ہے اور ان کے ابواب کے عنوان کو حذف کياہے

قہپائی نے اس کتاب کی بعض خرابيوں کو صحيح کرنا چاہا ہے ليکن اس کے برعکس اس کتاب کی خرابيوں ميں اضافہ ہی کردیا ہے اور باطل کا م انجام دیا ہے ۔

ان سب تحریفات کے باوجود کہ کتاب کشی کا یہ نتيجہ ہواکہ اس کتاب کے مطالب پر کسی بھی طرح کا اعتما دنہيں کيا جاسکتا مگر یہ کہ مطلب کے صحيح ہونے کے سلسلہ ميں کتاب کشی کے علاوہ کسی کتاب ميں دليل موجو د ہو ۔

اس بنا پر متاخرین دانشوروں نے کتاب کشی پر اعتماد کرکے متفق القول کہا ہے کہ : “

ابان بن عثمان”فرقہ ناوسيہ سے ہے جيساکہ رجال کشی ميں ایسا ہی ذکر ہوا ہے ان علماء کا رجال کشی پر یہ اعتماد بے جاتھا اور احتمال یہ ہے کہ یہ جملہ اس کتاب ميں تحریف ہوا ہے اور یہ جملہ در حقيقت کان من القادسيہ تھا یعنی ابان اہل قادسيہ تھا ۔

اصل کتاب کشی کے علاوہ ‘ ‘ اختيار رجال کشی ” شيخ طوسی کا خلاصہ ہے اور شيخ کے بعد آج تک یہ کتاب دانشوروں کے پاس موجود ہے اس کتاب ميں اصل کتاب رجال کشی ميں موجود تحریفات کے علاوہ ، شيخ یا اسکے بعد والے علماء نے بھی اس ميں بعض تبدیلياں کی ہيں ا س سبب سے اس کے نسخوں ميں اختلاف پایا جاتاہے جيسے : قہپائی کا نسخہ جو موجودہ طبع شدہ نسخوں سے اختلاف رکھتا ہے ، گویا قہپائی کے نسخہ ميں کتاب کا حاشيہ متن ميں داخل کيا گيا ہے ۔

جو کچھ علامہ حلی نے‘ خلاصة الاقوال ” ميں کشی سے نقل کيا ہے ، اس ميں بھی تحریفات ہيں ، ليکن کم ہيں ۔

جو کچھ اس کتاب سے نقل کرکے ابن داؤد کی رجال ميں آیا ہے ، اس کی تحریفات بے شمار ہيں اور خود ابن داؤد کی کتاب رجال متاخرین دانشوروں کی کتابوں ميں وہی حيثيت رکھتی ہے جو کتاب کشی گزشتہ دانشورں کی کتابوں ميں ر کھتی تھی(۱)

ا س دانشور کے محققانہ بيان کے صحيح ہونے کی حقيقت کتاب رجال کشی کی طرف رجوع کرنے سے واضح وآشکار ہوجاتی ہے۔ اگر ہم اسکے علاوہ اس کتاب کی اصل کے بارے ميں بحث کرناچاہيں ، توایک مستقل کتاب تاليف ہوگی کہ اس کی ضرورت نہيں ہے اور موجودہ نسخہ کی جانچ پڑتال کے بارے ميں ہم اتنے ہی پر اکتفاء کرتے ہيں ۔

٣۔ گزشتہ پانچ روایتيں الف ) علماء نے ان روایتوں پر اعتمادنہيں کيا ہے: گزشتہ پانچ روایتوں کو شيخ کلينی (وفات ٣٢٩ هء ) نے اپنی کتاب “ کافی” ميں درج نہيں کيا ہے ۔

اس طرح شيخ صدوق ( وفات ٣٨١ ئه) نے اپنی کتاب ‘‘ من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں اور شيخ طوسی جو خود ہی کتاب اختيار رجال کشی کے مؤلف تھیاپنی کتاب “ تہذیب ”اور “استبصار ” ميں ان روایتوں کی طرف اشارہ تک نہيں کيا ہے اور یہ مطلب خود اسکی دليل ہے کہ یہ بزگواران روایتوں پر اعتماد نہيں کرتے تھے ، خاص کر پہلی اور دوسری روایت کو نقل کرتے تھے کہ حضرت امير المؤمنين ں نے عبدا لله بن سبا کو مرتد ہونے کے جرم ميں نذر آتش کياہے اس طرح فقہا ء نے آج تک مرتد کے حکم کے بارے ميں ا ن دو روایتوں کی طرف اشارہ تک نہيں کيا ہے ۔

ب) تناقض کا اشکال : شيعہ کتابوں ميں عبد الله بن سبا کے بارے ميں دو اور روایتيں موجود ہيں جو کشی کی ان پانچ روایتوں سے تناقض رکھتی ہيں ان دو روایتوں کا مفہوم ان پانچ روایتوں کے مضمون کومکمل طور پر جھٹلاتاہے ۔

پہلی روایت : کتاب ‘ ‘ من لا یحضرہ الفقيہ ” ، ‘ خصال ” ، “تہذیب ” ، “ حدائق ” ،“وسائل ” اور “وافی ” ميں نقل ہوئی ہے اوروہ روایت یہ ہے :

امام صادق عليہ السلام اپنے باپ اما م باقر عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں کہ ایک دن امير المومنين نے فرمایا: جب نما زسے فارغ ہوجاؤ تو ، اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرو

____________________

۱ ۔ ۴٨ - .۴٢ ) سے خلاصہ کے طور پر نقل / مذکورہ مطالب کو کتاب قاموس الرجال طبع مصطفوی تہران ١٣٧٩ ه ( ج ١کياگيا ہے ۔

اور خداسے دعا و مناجات کرو ، ابن سبا نے جب امير المؤمنين عليہ السلام کے اس بيان کو سنا ، تو اعتراض کيا اور کہا :اے امير المؤمنين ! کيا خداوند عالم ہر جگہ موجود نہيں ہے ؟

امير المؤمنينں نے فرمایا: جی ہاں خداوند متعال ہر جگہ موجود ہے ابن سبا نے کہا: پھر کيوں حالت دعا ميں ہاتھ آسمان کی طر ف اٹھائے جائيں ؟ امير المؤمنينں نے فرمایا: کيا تم نے قرآن مجيد ميں اس آیت کو نہيں پڑها ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے:

>و فی السماء رزقکم وما توعدون <

تمہارا رزق اور جس چيز کا وعدہ کيا گيا ہے آسمان پر ہے پس رزق کيلئے اپنی جگہ سے F درخواست کرنی چاہئے اور رزق وہيں پر ہے جس کا خدا نے وعدہ کيا ہے اور وہ آسمان ہے(۲)

و آلہ وسلم پر جھوٹ کی نسبت دیتا ہے ؟ امير المؤمنينں نے فرمایا: کيا کہتا ہے ؟

راوی کہتا ہے کہ ميں نے اس قدر سناکہ امير المومنين نے فرمایا :هيهات ! هيهات ! “بعيد ہے !

بعيد ہے ! ” ليکن ایک مرد جو تند رفتار اونٹ پر سوار ہے اور اونٹ پر کجاوہ بندها ہوا تمہارے درميان آئے گا حج و عمرہ کی خاک کو ابھی پاک نہ کيا ہوگا تم لوگ اسے قتل کر ڈالو گے (اس شخص سے علی کا مقصود ان کے فرزندحسين بن علی تھے)

غيبت نعمانی ميں یہ روایت مسيب بن نجبہ سے یوں نقل ہوئی ہے کہ : ایک شخص “

ابن سوداء ” نامی ایک مرد کے ہمراہ امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں آیا اور کہا: یا امير المؤمنين ! یہ مرد “ ابن سوداء” خدا و رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹ نسبت دیتا ہے اور آ پ کو بھی اپنے جھوٹ کيلئے گواہ بناتاہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: “لقد اعرض وا طول” بکواس کی بات ہے کيا کہتا ہے ۔اس نے کہا، لشکر غضب کے بارے ميں کہتا ہے ، کہ امام نے فرمایا: اسے چھوڑدو ، جی ہاں ، لشکر غضب ایک ایسا گروہ ہے جو آخر زمانہ ميں ظاہر ہوگا

یہ تھيں دو روایتيں جن کا مضمون کشی کی پنجگانہ روایتوں سے مخالف اور تناقض رکھتا ہے کيونکہ پنجگانہ روایتيں دلالت کرتی ہيں کہ ابن سبا الوہيت وبشری خدائی جو شکل و صورت اورجسم رکھتا تھا ، انتقال مکانی کرتا رہتا ہے، کبھی حاضر ہوتا تھا اور کهبيغائب کا قائل

____________________

۲. خدا کی طر ف دل سے توجہ کرتے وقت جسم بھی ایک خا ص جہت ميں ہونا چاہيے وہ بھی ایک خاص کيفيت ميں تاکہ روحانی و فکری توجہ زیادہ ہوجائے یہ جہت اور کيفيت بھی خداکی طرف سے معين ہونی چاہئيے مسيب ،علی عليہ السلام کے اصحاب ميں سے تھا ، اور “جنگ عين الوردہ” کے توبہ کرنے والوں کا کمانڈر تھا جنہوں نے حضرت سيد الشہداء کی خونخواہی کی راہ ميں بغاوت کی تھی ( جمہرة ابن حزم / ٢۵٨ ) وہ اسی / ۶٧٧ ) ترمذی نے اس سے حدیث نقل کی ہے ( التقریب ٢ / جنگ ميں ۶۵ هء ميں قتل ہوا ( سفينة البحار ج ١٢۵٠)۲

تھا ، جبکہ یہاں پر پہلی روایت دلالت کرتی ہے کہ ابن سباخدا کو منزہ اور اس سے بلند تر جانتا تھا کہ اجسام کی طرح کسی مکان ميں موجود ہو اور کسی دوسرے مکان ميں نہ ہو۔

اور دوسری روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ابن سبا یا ابن سوداء نے پيشن گوئی کی ہے اور یہ پيشن گوئی مسيب کی نظر ميں ( یا دوسرے شخص کی نظر ميں ) عجيب اور ناقابل یقين ہے اور اسے خدا اور رسول کی طرف ایک قسم کے جھوٹ کی نسبت دینا تصور کيا ہے ،

لہذا اسے امام کے حضور ميں لایا جاتا ہے ليکن امام عليہ السلام اس پيشن گوئی کی تائيد فرماتے ہيں اور اس کو آزاد کرنے کا حکم جاری کرتے ہيں جبکہ اس قسم کا شخص کبھی بشر کی الوہيت کا قائل نہيں ہوسکتا ہے اور اس عقيدہ پر اس قدر اصرار اور ہٹ دهرمی کی یہاں تک کہ اسے نذر آتش کيا جاتاہے ۔