عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

مشاہدے: 23495
ڈاؤنلوڈ: 3824


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23495 / ڈاؤنلوڈ: 3824
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 3

مؤلف:
اردو

کہا: خدا کی قسم اگر ميرے سر کو تن سے جدا کردو گے تب بھی ميری زبان پر علی عليہ السلام پر لعنت جاری نہيں ہوگی اب اگر چاہتے ہو تو ميرا سر قلم کردو کہ ميں راہ خدا ميں خوشنود ہوں ليکن تمہارا انجام بدبختی کے سواکچھ نہيں ہے زیاد نے کہا: بعد ميں اس کا سر قلم کرنا ۔ اس کے بعد کہا: اس کو زنجيروں ميں جکڑ کر زندان بھيجدو۔

عبدالله بن خليفہ کی گرفتاری:

اسکے بعد زیاد نے بکير بن حمران احمری کو اس کے چند ساتھيوں کے ہمراہ حکم دیا کہ عبدا لله بن خليفہ --- جو قبيلہ طی سے تھا --- کو گرفتار کریں ، عبدا لله بن خليفہ وہ شخص تھا جس نے حجر بن عدی کی بغاوت ميں ا س کا تعاون کيا تھا ۔ بکير اور اس کے ساتھی عبدا لله بن خليفہ کو ڈهونڈنے نکلے اور اسے عدی بن حاتم کی مسجد ميں پایا اسے وہاں سے باہر لائے چونکہ وہ اسے زیاد کے پاس لے جانا چاہتے تھے ۔ عبدالله چونکہ ایک با عزت با وقارشخص تھے اس لئے انهوں نے زیاد کے پاس جانے سے انکار کيا نتيجہ کے طور پر اس کے اورمامورین کے درميان جهڑپ ہوئی مامورین نے اس کے سر پرضرب لگائی اور لکڑی اور پتهر سے انهيں زخمی کردیا یہاں تک کہ وہ زمين پر گرگئے ۔ اس کی بہن “ ميثاء ” نے قبيلہ طی کے افرادکی طرف فریاد بلند کرتے ہوئے کہا: اے قبيلہ طی ! کيا ابن خليفہ جو تمہاری زبان ، نيزہ و سنان ہے دشمن کے ہاتھ ميں دےدوگے ؟ ! جب “ ميثاء ” کی آواز بلند ہوئی ابن زیاد کا مامور احمری (غير عرب ) ڈر گيا کہ کہيں اس کی گرفتاری اس کے قبيلہ کے افراد کے مشتعل ہونے کا سبب نہ بنے اور اس کے قبيلہ کے افراد اس کی مدد کيلئے اٹھ کھڑے ہوجائيں اور اسے قتل کر ڈاليں لہذا س نے ابن خليفہ کو اپنے حال پر چھوڑ کر فرار کرگيا ۔ قبيلہ طی کی چند عورتيں جمع ہوئيں اور ابن خليفہ کو ایک گھر ميں لے گئيں احمری بھی زیاد کے پاس پہنچا اورکہا: قبيلہ طی کے لوگ ميرے خلاف جمع ہوئے ہيں چونکہ ميرے ہمراہ ان سے مقابلہ کرنے کيلئے مناسب تعداد ميں ا فراد نہيں تھے اس لئے آپ کے پاس آیا ہوں ۔

زیاد نے کسی کو قبيلہ طی کے سردار عدی بن حاتم طائی کے پاس بھيج دیا جو مسجد ميں تھا اسے گرفتارکرکے کہا تمہيں عبدا لله ابن خليفہ کو جو ---تمہارے قبيلہ کا ہے ---

ہمارے ےہاں پيش کرنا چاہئے عدی نے کہا؛ جسے ان لوگوں نے قتل کيا ہے اسے ميں کيسے تيرے پاس پيش کروں گا ؟ زیاد نے کہا: اسے لانا پڑے گا تا کہ یہ معلوم ہوجائے کہ وہ مرگيا ہے یازندہ ہے عدی نے دوبارہ کہا کہ ميں نہيں جانتا ہوں وہ کہاں اور کس حالت ميں ہے ؟ زیاد نے حکم دیا کہ عدی بن حاتم کو جيل بھيج دیاجائے عدی کی گرفتاری پر کوفہ کے لوگوں ميں بے چينی پهيلی خاص کر قبائل “ یمنی ” قبيلہ “ مضر ” اور ربيعہ نے شدید رد عمل کا اظہار کیاان قبائل کے سردار زیاد کے پاس آگئے اور عدی کے بارے ميں اس سےگفتگو کی اور اس کی آزادی کا مطالبہ کيا ۔

دوسری طرف سے خود عبد الله بن خليفہ نے عدی کو پيغام بھيجا اگر چاہتے ہو تو مخفی گاہ سے باہر آجاؤ اور ميں تيری مدد کرنے کيلے حاضر ہوں ۔

عدی نے جواب ميں کہا: خدا کی قسم اگر تم ميرے پير وں کے نيچے بھی مخفی ہوگے تو ميں قدم نہيں اٹھاؤں گا یہاں تک کہ تيرا تحفظ کروں گا خلاصہ یہ کہ ان قبائل کے سرداروں کی سرگرمياں کے نتيجہ ميں زیاد عدی کوآزاد کرنے پر مجبور ہوگيا اسے زندان سے بلاکر کہا:

عدی ! ميں تجھے آزاد کرتا ہوں ليکن اس شرط پر کہ عبدالله بن خليفہ کو کوفہ سے جلا وطن کرکے طی کے پہاڑوں ميں بھيج دیا جائے۔

عدی نے اس شرط کوقبول کيا اور عبدالله کو پيغام بھيج دیا تا کہ شہر کوفہ سے چلا جائے جب ایک مدت کے بعد زیاد کا غصہ ٹهنڈا ہوجائے گا تو ميں اس سے تيرے بارے ميں گفتگو کروں گا اور تيری مکمل آزادی کيلئے راہ ہموار کروں گا ۔ اس پيغام کے مطابق عبدلله باہر آئے اور پھر سے اپنی آزادی حاصل کی۔

کریم بن عفيف کی گرفتاری

کریم بن عفيف ، قبلہ “ خشعم ” کا وہ شخص تھا جسے زیاد بن ابيہ نے حجر بن عدی سے تعاون کے الزام ميں گرفتار کيا زیاد نے پوچھا : تيرا نام کيا ہے ؟ اس نے کہا: ميں کریم بن عفيف ہوں ۔ زیاد نے کہا؛ افسوس ہے تم پر ! تيرا اور تيرے باپ کا نام کتنا اچها ہے ؟ ليکن تيرا عمل و کردار کتنا بدنما ہے ؟! ابن عفيف نے کہا: زیاد ابھی زیادہ وقت نہيں گزرا ہے کہ تم پہچان لئے گئے ،یہ کہنا اس کا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے زیاد بھی اس کی طرح علی عليہ السلام کے دوستداروں ميں تھا ۔

گرفتار کئے گئے لوگوں کی تعداد

زیاد بن ابيہ نے حجر کے ساتھيوں کو ہر طرف سے پکڑ کر جيل ميں بھيج دیا یہاں تک کہ ان کی تعداد دو ہزار افراد تک پہنچ گئی ۔ اس کے بعد --جيساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کيا ہے ---قبائل کے سرداروں اور کوفہ کے محلوں کے بزرگوں کو جمع کيا ان کے ذریعہ حجر اور ان کے ساتھيوں کے خلاف مقدمہ اور شہادت نامہ مرتب کرکے انهيں شام روانہ کيا ، ان کے پيچھے مزید دو افراد کو روانہ کيا کہ مجموعاً چودہ افراد ہوگئے ۔

یہ چودہ افراد “ جبانہ عرزم ” نامی ایک قبرستان کے نزدیک پہنچے اس قبرستان کے نزدیک “قبيصة بن ضبيعہ ” نامی ایک گرفتار شدہ شخص کا گھر تھا ۔ قبيصہ نے اپنی بيٹيوں کو دیکھا جو مکان کی چهت سے اس کو دیکھ رہيں تھےں اور سرد آہيں بھرتی اور دلخراش صورت ميں آنسو بہاتی ہوئی اسے رخصت کررہيں تھيں ۔

قبيصہ نے بھی اپنے گھر اور بچوں پر ایک نظر ڈالی اور مامورین سے درخواست کی کہ اسے اجازت دیدیں تا کہ اپنی بيٹيوں کو کچھ وصيت کرے جب وہ بيٹيوں کے نزدیک پہنچا تو انتہائی گریہ و زاری کی حالت ميں ایک دوسرے سے ملے چند لمحہ رکنے کے بعد بولا: ميری بيٹيو ! ذرا سکون ميں آجاؤ۔ جب وہ کچھ دےر کےلئے سکون ميں آگئيں قبيصہ نے کہا: ميری بيٹيو! خدا سے ڈرو اور صبر و شکيبائی کو اپنا طریقہ بنانا ميں جس راہ پر جارہا ہوں خداوند عالم سے دو نيکيوں ميں سے ایک کی اميد رکھتا ہوں یا شہيد ہوجاؤں گا کہ ميرے لئے شہاد ت خوشبختی ہے یا صحيح و سالم تمہارے درميان واپس آجاؤں گا بہر صورت تمہيں رزق دینے والا اور سرپرست وہی خدا ہے جو ہميشہ زندہ ہے اور موت و زوال اس کيلئے نہيں ہے اميد رکھتا ہوں کہ وہ تمہيں تنہا نہيں چھوڑے گا ۔

قبيصہ جب اپنی بيٹيوں سے آخری دیدار کرکے واپس آرہا تھا اپنے رشتہ داروں سے ملا۔

وہ اسکے سلامتی کيلئے دعاکررہے تھے ليکن انہوں نے اس کی آزادی کيلئے کسی قسم کی کوشش نہيں کی قبيصہ نے کہا؛ ميرے نزدیک گرفتاری کا خطرہ ہلاکت و بدبختی کے مساوی ہے ميری قوم:مدد کرے یا نہ کرے ان کيلئے ہلاکت و بد بختی کا مشاہدہ کررہا ہوں ؟ قبيصہ ان سے تعاون کی اميد رکھتا تھا لےکن انہوں نے اس کام ميں پہلو تہی کی۔

گرفتار ہوئے افراد کی راستے ميں عبدالله بن جعفی سے ملاقات ہوئی ، عبدالله نے ان کو دیکھ کر کہا؛ کيا دس آدمی نہيں ہيں جو ميری مدد کرتے تا کہ ان چودہ افرادکو ان ظالموں سے چهٹکارا دلاتا ؟ اس کے بعد کہا: کيا پانچ افراد بھی نہيں ہيں جو ميری مدد کرتے تا کہ ان مظلوموں کو ان ظالموں سے نجات دلاتا ليکن کسی ایک نے بھی عبد الله کو مثبت جواب نہيں دیا اور اس کی نصرت کيلئے نہيں اٹھا اس کيلئے افسوس اور غم و اندوہ کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔

حجر او راسکے ساتھيوں کيلئے آخری حکم

ان چودہ افرادکو شہر دمشق سے بارہ ميل کی دوری پر “ مرج عذرا ” نامی ایک جگہ پر پہنچادیا گيا اور وہيں پر انهيں جيل ميں ڈال دیا گيا ، جب زیاد کا نمائندہ دمشق ميں معاویہ سے ملنے جارہا تھا حجر بن عدی ---جو زنجيروں ميں جکڑا ہواتھا --- اٹھا اور بولا : یہ ہمارا پيغام بھی معاویہ کو پہچانا کہ ہمارا خون بہانا مناسب اور جائز نہيں ہے کيونکہ معاویہ نے ہمارے ساتھ صلح کی ہے(۱)

معاویہ سے کہدو: ہمارا خون بہانے ميں جلد بازی نہ کرے ۔ اس بارے ميں بيشتر غور و فکر اور دقت سے کام لے جب معاویہ کی مجلس ميں ان چودہ افرادکی حالت بيان ہوئی ،حضار ميں سے چند افراد نے کئی افراد کی شفاعت کی اور معاویہ نے ان ميں سے چه افرا د کی آزادی کا حکم دیا اور باقی اٹھ افراد کے قتل کا حکم دیا ۔

غروب کے وقت معاویہ کے مامور حکم کو نافذ کرنے کيلئے “ مرج عذرا ” پہنچے ۔ حجر کے ساتھيوں ميں سے خثعمی مامورین کا مشاہدہ کررہا تھا ان ميں سے ایک کو دیکھا کہ ایک آنکھ سے کانا ہے خثعمی نے کہا: ميں ایسا فال دیکھتا ہوں کہ ہم ميں سے آدهے آزاد ہوں گے اور آدهے قتل کئے جائيں گے ۔

اسيروں ميں سے ایک اور شخص سعد بن عمران نے اس حالت ميں کہا: پروردگارا !

مجھے ان لوگوں ميں قرار دینا کہ جو ان کے ہاتھوں ذليل و خوار ہونے سے نجات پائيں گے یعنی انکے ہاتھوں شربت شہادت پلادے اس حالت ميں کہ تم مجھ سے راضی ہو اس کے بعد کہا:

ایک طویل مدت سے اپنے آپ کو شہادت کيلئے پيش کرتا تھا ليکن آج تک خدا نہيں چاہتا تھا ۔

حجر اور اس کے ساتھيوں کی آزادی کی شرط معاویہ کے مامورین نے حجر اور اس کے ساتھيوں سے کہا: ہميں حکم دیا گيا ہے کہ تم لوگوں کو علی

____________________

١۔ حجر کی مراد امام حسن اور اہل کوفہ کی معاویہ کے ساتھ صلح تھی۔

عليہ السلام سے بيزاری کا اعلان کرنے اور ان پر لعنت بھيجنے کی تجویز پيش کریں اگر اس پر عمل کرو گے تو تمہيں آزاد کردیں گے ورنہ تم لوگوں کو قتل کر ڈاليں گے ۔

اس کے علاوہ اضافہ کياکہ امير المؤمنين ( معاویہ ) کہتا ہے آپ لوگوں کے ہم وطنوں کی شہادت اور گواہی پر آپ لوگوں کا خون بہانا حلال و جائز ہے اس کے باوجود وہ تمہيں عفو کرنے اور تمہيں قتل کرنے سے منصرف ہونے کيلئے آمادہ ہے اس شرط پر کہ اس شخص ( علی ابن ابيطالب ) سے بيزاری کا اعلان کرو گے تا کہ ہم تمہيں آزاد کردیں گے ۔

انہوں نے جواب ميں کہا: خدا کی قسم ہم یہ کام ہر گز نہيں کریں گے ۔

آخری حکم کا نفاذ اور المنا ک قتل

معاویہ کے جلادوں نے جب دیکھا کہ علی عليہ السلام کے عاشق ان کی محبت کو چھوڑنے پر آمادہ نہيں ہيں اور ان کی محبت ميں صادق اور پائيدار ہيں تو ان کيلئے قبر کھودنے کا حکم دیدیا ۔ قبریں آمادہ ہوئيں اور کفن حاضر کئے گئے۔ ان لوگوں نے وہ رات، صبح تک نمازووعبارت ميں گزاری جب سورج چڑها ، معاویہ کے جلادوں نے حجر اور اس کے ساتھيوں سے مخاطب ہوکر کہا: ہم نے گزشتہ رات دیکھا کہ تم لوگوں نے نمازیں طولانی رکوع و سجود بجالائے اور صبح تک عبادت اور راز و نياز ميں مشغول رہے، بتاو ہم جاننا چاہتے ہيں کہ عثمان کے بارے ميں تم لوگوں کا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا: ہمارے عقيدہ کے مطابق عثمان پہلا شخص ہے جس نے مسلمانوں پر ظلم کا دروازہ کهولا اور باطل راہ پر چل کے بے انصافی کا مظاہرہ کياہے۔

جلادوں نے کہا: امير المؤمنين ( معاویہ ) تمہيں اچھی طرح سے جانتا تھا ، اس لئے اس نے تم لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے اس کے بعد اپنی گزشتہ بات کی تکرار کی کہ کيا علی عليہ السلام سے بيزاری کا اعلان کرتے ہو ۔

حجر اور اس کے ساتھيوں نے جواب دیا: ہم انهيں دوست رکھتے ہيں ا ور ان لوگوں سے بيزاری کا اعلان کرتے ہيں جو علی عليہ السلام سے بيزاری کرتے ہيں ، ہاں پر مامور نے ان افراد ميں سے ایک ایک کا ہاتھ پکڑ ليا تا کہ نهيں قتل کرےں ۔ قبيصہ کے ہاتھ کو “ ابو شریف بدّی ” نے پکڑليا تا کہ اسے قتل کر ڈالے قبيصہ نے کہا: اے ابو شریف ! تيرے اور ميرے قبيلہ کے درميان کسی قسم کی سابقہ دشمنی و عداوت نہيں ہے بلکہ ان دو قبيلوں کے درمياں ہميشہ امن و مصالحت رہی اورہم ایک دوسرے کے شر و گزند سے محفوط تھے تمہيں ميرا قاتل نہيں ہونا چاہئے اس ذمہ داری کوکسی دوسرے کے سپرد کردوتا کہ ان دو قبيلوں ميں فتنہ پيدا نہ ہو ابو شریف نے کہا: “ صلہ رحم تيرے نامہ اعمال ميں ثبت ہو” اس کے بعد قبيصہ کو چھوڑ کر خضری کو پکڑ ليا اور اسے قتل کر ڈالا قبيصہ بھی ایک شخص قضاعی کے ہاتھوں قتل ہوا ۔

حجر بن عدی کا قتل یا ایک بڑا تاریخی جرم!

جب حجر بن عدی کے قتل کی باری آئی تو انهوں نے کہا: مجھے اتنی فرصت دو تا کہ وضو کرلوں انہوں نے کہا: تم وضو کرنے ميں آزاد ہو حجر نے وضو کرنے کے بعد کہا: اجازت دو گے کہ دو رکعت نماز پڑه لوں ؟ کيوں کہ خدا کی قسم ميں نے زندگی بھر ميں جب کبھی وضو کيا ہے اس کے بعد ضرور دو رکعت نماز پڑهی ہے انہوں نے کہا: نماز بھی پڑه لو ۔ حجر نے دو رکعت نماز پڑهنے کے بعد کہا: خداکی قسم ميں نے زندگی بھر ميں اس دو رکعت نماز سے مختصر کوئی نماز نہيں پڑهی ہے اگر یہ احتمال نہ دیتا کہ تم لوگ کہنے لگو گے کہ مو ت سے ڈر کر طولانی نماز پڑه رہاہے تو ميں اس نماز کو طولانی تر بجالاتا ۔ اسکے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بولے : پروردگارا ! ميں تيری بارگاہ ميں اپنی ملت و امت وا ہل کوفہ و شام کی شکایت کر لے آیا ہوں کہ کوفيوں نے ہمارے خلاف جھوٹی گواہی دی ہے اور شامی ہميں قتل کررہے ہيں اس کے بعد مامورین کی طرف مخاطب ہوکر کہا: تم لوگ جو ہميں ا س نقطہ پر قتل کرنا چاہتے ہو خدا کی قسم ميں پہلا مسلمان تھا جس نے اس نقطہ پر قدم رکھا اور ميں پہلا مسلمان تھا ( جس نے مشاہدہ کيا کہ ) اس علاقہ کے مقامی کتوں نے اس پر بهونکا اور ميں ہی تھا جس نے اس علاقہ کو تم مسلمانوں کے فائدہ ميں فتح کرکے اسے عيسائيوں کے چنگل سے آزاد کیا تھا ۔

جب “ هدبة بن فياض” معروف بہ ‘ ‘ اعور ”نيام سے کھينچی ہوئی تلوا ر ہاتھ ميں لئے آگے بڑهے تو اس منظر کو دیکھ کو حجر لرزا ٹهے اعور نے کہا: تم فکر کرتے ہو کہ موت سے نہيں ڈرتے ہو ؟ اگر موت سے نجات پانا چاہتے ہو اور آزاد ہونا چاہتے ہو تو ابھی ابھی علی عليہ السلام سے بيزاری کا اعلان کرو!

حجر نے جواب دیا کيوں ناراض نہ ہوں او رموت سے نہ ڈروں ؟ کون ہے جو موت اور تلوار سے نہ ڈرے ؟ اس وقت ميں اپنے سامنے آمادہ قبر، کفن حاضر اورنيام سے کھينچی ہوئی تلوار دیکھ رہا ہوں اور لرز رہا ہوں ليکن خدا کی قسم ان سب ناراضگےوں اور خوف و لرزش کے باوجود اپنی آزادی اور نجات کيلئے ہرگز ایسا کوئی لفظ زبان پر جاری نہيں کروں گا جو خدا کو غضبناک بنادے۔

جب حجر کی بات یہاں تک پہنچی تو اعور نے اس کا سر قلم کردیا اور دوسرے مامورین ميں سے ہر ایک نے حجر کے ساتھيوں ميں سے ایک کو قتل کر ڈالا اور مقتوليں کی تعداد چهتک پہنچ گئی ۔

حجر کے دوا ور ساتھی عبد الرحمان بن حسان عنزی اور کریم بن عفيف خثعمی نے معاویہ کے مامورین سے درخواست کی کہ : “ ہميں معاویہ کے پاس بھيجنا تا کہ اس کے سامنے علی عليہ السلام کے بارے ميں جو وہ چاہتے ہيں زبان سے بيان کریں ۔“

مامورین نے ان دوا فرادکے پيغام کو معاویہ کے پاس پہنچادیا معاویہ نے حکم دیا کہ ان دو افراد کو ميرے پاس بھيجدو جب عبدالرحمان اور کریم بن عفيف معاویہ کے محل ميں داخل ہوئے اور اسکے روبرو قرار پائے تو خثعمی نے کہا: معاویہ ! خدا سے ڈرو کيونکہ تم بھی اس دار فانی سے ایک نہ ایک دن جاؤ گے اور ابدی دنيا ميں منتقل ہوجاؤ گے اور عدالت الٰہی کی کچہری ميں ہمارا بے گناہ خون بہانے کے جرم ميں مسول ہوگے اور تمہار مؤاخذہ ہو گا!

معاویہ نے پوچھا: خثعمی ! علی عليہ السلام کے بارے ميں تيرا عقيدہ کيا ہے ؟

خثعمی نے جواب دیا : علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں مير اعقيدہ وہی ہے جس کے بارے ميں تم اعتقاد رکھتے ہو۔

معاویہ نے کہا: کيا تم علی عليہ السلام کے دین و مذہب سے بيزاری کا اعلان کرتے ہو؟ خثعمی نے خاموشی اختيار کی او راس کے جواب دینے سے اجتناب کيا یہاں پر خثعمی کے ایک چچيرا بھائی --- جو معاویہ کا صحابی تھا ---نے فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اٹھ کر معاویہ سے درخواست کی کہ خثعمی کو قتل کرنے سے معاف کرو معاویہ نے اس کی درخواست منظور کی اور خثعمی کو ایک مہينہ قيد ميں رکھنے کے بعد اس شرط پر اسے آزاد کيا کہ جب تک زندہ ہے شہر کوفہ ميں قدم نہيں رکھے گا ۔

اس کے بعد معاویہ نے عبد الرحمان عنزی کی طرف رخ کرکے کہا:خبر دار اے قبيلہ ربيعہ کے بھائی ! تم علی عليہ السلام کے بارے ميں کيا کہتے ہو؟عبد الرحمان نے جواب دیا : معاویہ ! اس مطلب کو چھوڑدو ، اگر اس بارے ميں مجھ سے کچھ نہ پوچھو تو تيرے فائدے ميں ہے ۔

معاویہ نے کہا: خدا کی قسم تجھے اُس وقت تک آزاد نہيں کروں گا جب تک کہ تم اس موضوع کے بارے ميں ا پنے عقيدہ کا اظہار نہيں کروگے ۔

عبدالرحمان نے جواب دیا : عثمان وہ پہلا شخص ہے جس نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے دروازہ کهولا اور حق کے دروازہ ان پر بند کردیا ۔

معاویہ نے کہا: عبدالرحمان ! یہ کہہ کر تم نے اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیا ہے ۔

عبدالرحمان نے کہا؛ معاویہ! ميں نے تجھے موت کے حوالہ کردیا ہے اس کے بعد اپنی قوم کو پکار کر کہا: کہاں ہو قبيلہ ربيعہ ۔

معاویہ نے حکم دیا کہ عبدالرحمان کو کوفہ ميں زیاد کے پاس لے جائيں اور زیاد کے نام اس مضمون کا ایک خط بھی لکھا : یہ شخص عنزی بد ترین شخص ہے جسے تم نے ميرے پاس بھيجا ہے تم اسے ایسی شدید سزا دینا جس کا وہ سزاوار ہے اور اسے عبرتناک حالت ميں قتل کردینا ۔

جب اسے کوفہ ميں داخل کيا گيا زیاد نے اسے “ قس ناطف” بھيج دیا اور وہاں پر اس کو زندہ در گور کردیاگيا(۱)

طبری کہتا ہے : جب عنزی اور خثعمی کو معاویہ کے پاس لے جارہے تھے تو عنزی نے حجر سے مخاطب ہوکر کہا: اے حجر ! خدا تجھے رحمت کرے ، کيونکہ تم مسلمانوں کے بہترین بھائی اور اسلام کے بہترین یاور ہو۔

خثعمی نے بھی خد احافظی کے وقت حجر کو یہ جملہ کہا: حجر ! رحمت خدا سے تم دورو محروم نہيں رہ سکتے کيونکہ تم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہم فریضہ انجام دیا ہے ۔

____________________

١۔ جو کچھ ہم نے یہاں تک حجر اور اُن کے ساتھيوں کے بارے ميں درج کيا ہے، طبری سے نقل کيا ہے اور اس کے مآخذ کو براہ راست ذکر کيا ہے ۔

ا س کے بعد حجر نے اپنی نظروں سے ان دو ساتھيوں کو رخصت کرتے ہوئے کہا؛ یہ موت ہے جو دوستوں کو ا یک دوسرے سے جدا کرتی ہے ۔

حجر کے قتل کا دلوں پر عميق اثر

یا معاویة ! اما خشيت الله فی قتل حجر و اصحابه ؟!

اے معاویہ ! حجر اوران کے ساتھيوں کو قتل کرنے ميں خدا سے نہيں ڈرے ؟!.عائشہ کتاب استيعاب ميں حجر کی زندگی کے حالات پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے : “جب عائشہ ، حجر اور اس کے ساتھيوں کے بارے ميں زیاد کی سازشوں اور ان کے خلاف مقدمہ مرتب کرنے کے بارے ميں مطلع ہوئيں تو عبدالرحمان حارث بن هشام کے ذریعہ معاویہ کو یہ پيغام بھيجا:

معاویہ ! حجر اور اس کے ساتھيوں کے بارے ميں خدا سے ڈرنا!

عبدالرحمان جس وقت شام پہنچا حجر اور اسکے پانچ ساتھی قتل ہوچکے تھے عائشہ کے ایلچی ، عبدالرحمان نے معاویہ سے کہا: معاویہ ! تم نے حجرا وراس کے ساتھيوں کے کام ميں ا بوسفيان کے حلم و بردباری کوکيسے بهلادیا ؟ کيوں ان کو جيل ميں نہ رکھا تا کہ اپنی طبيعی موت سے یا طاعون جيسی کسی بيماری سے مرجاتے، معاویہ نے کہا: جب تم جيسے لوگ ميری قوم سے دور ہوگئے ! عبدالرحمان نے کہا: خدا کی قسم اس کے بعد عرب تجھے صبور نہيں جانيں گے ۔ معاویہ نے کہا: ميں کيا کروں ؟ زیاد نے ان کے بارے ميں شدت اورسختی کی اور لکھا کہ اگر انهيں چھوڑ دوگے تو وہ فتنہ و فساد پھيلائيں گے اور ایک بهيانک اور ناقابل تلافی بغاوت و افتراتفری پھيلادیں گے مزید روایت کی ہے کہ عائشہ اس بارے ميں کہتی تھيں ۔

اگر کوفہ کے لوگوں ميں شجاع غيرتمند اور جان نثار افرادموجود ہوتے تو معاویہ اس قسم کی جرات نہيں کرسکتا تھاکہ حجر اور اسکے ساتھيوں کو کوفہ کے لوگوں کے سامنے گرفتار کراکے شام ميں قتل کر ڈالے ليکن جگر خوار ماں کا بيٹا جانتاتهاکہ شجاع اور غيرت مند مرد چلے گئے ہيں اور ان کی جگہ پرکمزوردل اور بيکار لوگ بيٹھے ہيں ۔

خداکی قسم ! حجر اور اس کے ساتھی شجاعت ، اپنے عقيدہ کے تحفظ اور دانشمندی کے لحاظ سے عرب کے سردار تھے اس کے بعد عائشہ نے لبيد کے دو شعر پڑهے ، جن کا مضمون حسب ذیل ہے : وہ چلے گئے جن کی حمایت کے سایہ ميں زندگی آرام بخش تھی اور ميں ایسے پسماندگان کے درميان رہی ہوں جو خارش والے بيماروں کی کهال کے مانند ہيں ---کہ ان سے دوری اختيار کرنی چاہئے --- نہ انکا کوئی فائدہ ہے اور نہ ان سے کسی قسم کی خير و نيکی کی اميد ہے ۔ کہنے والے کی عيب جوئی کرتے ہيں اگر چہ اس نے ناروا بات بھی نہ کہی گئی ہو؟

طبری کہتا ہے : معاویہ سفر حج پر مدینہ ميں داخل ہوا عائشہ سے اجازت چاہی تا کہ ان کے گھرميں آئے عائشہ نے اجازت دی ۔ جب معاویہ گھر ميں داخل ہوکر بيٹها ، عائشہ نے کہا: معاویہ ! کيا تم خود کو امان ميں محسوس کرتے ہو؟ ! گمان نہيں کرتے ہو ميں نے کسی کو مامور کيا ہوگا کہ ميرے بھائی محمد ابن بی بکر کے خون کا انتقام ميں تمہيں یہيں پر قتل کردے ؟!

معاویہ نے کہا نہيں ، ہرگز ایسا نہيں کرو گی کيوں کہ ميں ا یک ایسے گھر ميں داخل ہوا ہوں کہ جوامن وامان کا گھر ہے ۔

اس کے بعد عائشہ نے کہا: معاویہ ! کيا تم حجر اور اس کے ساتھيوں کو قتل کرنے ميں خدا سے نہيں ڈرے ؟!

معاویہ نے جواب ميں کہا: انهيں ان افراد نے قتل کيا جنہوں نے ان کے خلاف شہادت دی ہے.

مسند احمد حنبل ميں آیا ہے کہ معاویہ نے عائشہ کے جواب ميں کہا: ایسا نہيں کریں گی کيونکہ ميں امن و امان کے گھر ميں ہوں او رميں نے رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے : ایمان دہشت گردی کيلئے رکاوٹ ہے ۔ اس کے بعد کہا: عائشہ !

ان چيزوں کو چھوڑیں ، مجھے اپنے مطالبات پورے کرنے ميں کيسا پاتی ہيں ؟!

عائشہ : اچهے ہو ۔

معاویہ نے کہا: اس لحاظ سے مقتولين کے بارے ميں ہميں چھوڑ دیں تا کہ خدا کے پاس ان سے ملاقات کروں ۔

استيعاب ميں کہتا ہے : ربيع بن زیاد حارثی جو ایک فاضل و جليل القدر شخصيت اور خراسان ميں معاویہ کا گورنر تھا نے جب حجر اور اس کے ساتھيوں کے قتل ہونے کی خبر سنائی تووہ وہيں پر بارگاہ الٰہی ميں دعا کی اور کہا: خداوندا ! اگر ربيع تيری بارگاہ ميں کسی قسم کی خير و نيکی کا سزاوار ہے تو فوری طور پر اسے اپنے پاس بلالے اس دعاکے بعد ربيع اس مجلس سے نہ اٹھا اور وہيں پر رحمت حق سے جاملا۔

معاویہ کی موت جب نزدیک آگئی تو وہ خفيف آواز ميں اس جملہ کی تکرار کررہا تھا : “

اے حجر ! ميرا مستقبل کا دن تيرے سبب سے طولانی ہوگا“

یہ تھی حجر ابن عدی اور اس کے ساتھيوں کی داستان ، اور وہ تھی اسکے سبائی ہونے کی داستان ، انشاء الله اگلی فصلوں ميں اسسلسلے ميں بيشتر وضاحت اور دقيق تر بحث و تحقيق کریں گے ۔