عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

مشاہدے: 23487
ڈاؤنلوڈ: 3824


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23487 / ڈاؤنلوڈ: 3824
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 3

مؤلف:
اردو

حجر کی داستان کا خلاصہ

یومی منک یا حجر طویل

اے حجر ! ميرا آنے والا دن تيرے سبب طولانی ہوگا ۔ معاویہ حجر اور اس کے ساتھی ---جن کی داستان گزشتہ فصلوں ميں گزری --- امت اسلاميہ کے زاہد اور پرہيزگار افراد تھے ۔ وہ اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور تابعين ١ ميں فاضل اور نيک اشخاص ميں شمار ہوتے تھے۔انہوں نے مغيرة بن شعبہ اور زیاد بن ابيہ جيسے سرکش اور ظالم گورنروں کی طرف سے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے خلاف منبر پر لعنت بھيجنے پر کھلم کھلا اعتراض کيا اس کے علاوہ ان کی نماز ميں لا پروائی اور وقتِ نماز ميں تاخير پر اعتراض کرتے تھے اور امر بمعروف و نہی عن المنکر کرتے تھے ، انہوں نے اپنی اس سرگرمی کو جاری رکھا ، یہاں تک کہ وقت کے حاکم ان کے ساتھ نبرد آزماہوئے ، انهيں قيدی بناکر ان کے خلاف کيس مرتب کيا گيا اور ان کے خلاف جھوٹی اور ناحق گواہی نامہ مرتب کيا گيا ، اس پر دستخط لئے گئے اس کے بعد انهيں زنجيروں ميں جکڑ کرشہر بہ شہر پھر ا کر شام پہنچادیا گيا ۔ وہاں پر ان کے بارے ميں حکم جاری کيا گيا کہ امام المتقين علی عليہ السلام پر لعنت بھيجيں ،اور ان سے بيزاری کا اعلان کریں اور ان کے خلاف بد گوئی کریں ليکن انہوں نے امام ،وصی و برادر رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور اولين مسلمان پر لعنت بھيجنے سے انکار کيا اور ان کے دین سے دوری اختيار کرنے سے اجتناب کيا کيونکہ ان کا دین وہی دین اسلام ہے اور ان کے دین سے دوری اختيار کرنا ارتداد کے مرتکب ہونے اوراسلام سے دوری اختيار کرنے کے علاوہ کوئی اور چيز نہيں ہوسکتی جب انہوں نے علی عليہ السلام سے بيزاری نہيں کی اوران کے دین سے دوری اختيار نہيں کی توا ن کے سامنے ان کيلئے قبریں کھودی گئيں اور کفن حاضر کئے گئے۔

یہ گروہ صبح تک نماز و مناجات الٰہی ميں مشغول رہا صبح ہونے پر دوبارہ انهيں تجویز

پيش کی گئی کہ دو راستوں ميں سے ایک کا انتخاب کریں ، یا علی پر لعنت بهےجےں اور اس کے دین سے دوری اختيار کرےں یا قتل ہوناگوارا کرےں ،ليکن انہوں نے ایک کے بعد ایک نے دل کهول کے موت کا استقبال کيا او راس طرح ذلت بھری زندگی ---جس ميں علی عليہ السلام پر لعنت بھيجنا اور ان سے دوری اختيارکرنا تھا ---پر قتل ہونے کو ترجيح دی۔

ا ن ميں سے ایک شخص کا سر قلم کرکے اس کے کٹے ہوئے سر کو شہر شہر پھر ا کر ،

اس کی بيوی کی آغوش ميں ڈالدیا گيا جو ولائے علی عليہ السلام کے جرم ميں زندان ميں تھی ، اس طرح اس بے پناہ عورت کو وحشت زدہ کرکے مرعوب کرنا چاہا ایک دوسرے شخص کو علی عليہ السلام کی محبت کے جرم ميں زندہ دفن کيا گيا!!

مسلمانوں کے معزز اور بزرگ شخصيتوں کے بارے ميں بنی اميہ کے مجرموں کے ظلم و جرائم اتنے وسيع اور زیادہ تھے کہ عائشہ بھی معاویہ کو پيغام بھيجنے پر مجبور ہوئی اور یہ پيغام اسے بھيجا :

معاویہ ! حجر اور اس کے ساتھيوں کے بارے ميں خدا سے ڈرو! اس کے بعد عائشہ حجر کا یوں تعارف کراتی ہيں اور کہتی ہيں : خداکی قسم ! حجر اور اس کے ساتھی عربوں کے سربرآوردہ سردار تھے اور عبيد کے مندرجہ ذیل اشعار کو گواہی کے طور پر پيش کرتی ہيں :

ذهب الذین یعاش فی اکنافهم

وبقيت فی خلف کجلد الاجرب

وہ چلے گئے جن کی حمایت کے سایہ ميں زندگی آرام بخش تھی اور ميں ایسے پسماندگان کے درميان رہی ہوں جو خارش والی بيماروں کے کهال کے مانند ہيں جن سے دورری اختيار کرنی چاہئے ۔

وہ دوسرا عبدالله ابن عمر ہے کہ جب اس دلخراش داستان کی خبر اسکے کے کانوں تک پہنچی ہے تو کهلے بازارميں ایک جگہ کھڑا ہوکر بے ساختہ چيختے ہوئے روتا ہے ادهر زیاد حارثی ، اور جليل القدر ، صاحب فضيلت و شہرت شخص ،حجر اورا س کے ساتھيوں کے بارے ميں بنی اميہ کے جرائم کی خبر سنتے ہی موت کوزندگی پر ترجيح دیتا ہے اور خداسے موت کی آرزو و درخواست کرتا ہے اور خداوند عالم بھی اس کی دعا کو مستجاب کرتاہے ا ور اسے اس ذلت آمےز زندگی سے نجات دیتا ہے خود معاویہ بھی مرتے وقت اس کی آواز اس کے گلے ميں پهنس جاتی ہے اور جان کنی کے عالم ميں کہتا ہے:

” اے حجر ! قيامت ميں ميرادن تيرے سبب طولانی ہوگا“

یہی افرا د جو راہ حق ميں ظلم و ستم کو روکنے کيلئے جہاد کرتے ہوئے قتل ہوئے ا ور ان کے قتل نے تمام مسلمانوں ---دوست و دشمن ---کو متاثر کرکے رکھ دیا “ سبيئہ -” کہے جاتے ہيں ۔

تاریخ اسلام ميں یہ پہلا موقع تھاکہ کسی حکومتی عہدہ دار کی طرف سے نام “

سبئی” مسلمانوں کے خلفيہ معاویہ کے نام زیاد بن ابيہ کے خط ميں باقاعدہ طور پر لکھا گيا ہے وہ ایک سرکاری خط ميں ا ن افراد کو “ سبئيہ ” کہتا ہے ورنہ لفظ “ سبئيہ ” سے اس کی مراد اہل یمن کے قبائل سبيئہ اور انکے ہم پيمان ہيں نہ صرف قبائل سبئی سے منسوب افراد۔

قابل غور بات ےہ ہے کہ زیاد بن ا بيہ کا کونسا محرک تھا جس کی وجہ سے اُس نے اس اصطلاح کو ان کے بارے ميں ا ستعمال کيا ہے ؟! اور ان سب کا نام سبئيہ رکھا ہے جبکہ وہ سب قبائل سبئيہ سے تعلق نہيں رکھتے تھے ۔

ہماری نظر ميں زیاد بن ابيہ کے اس کام کا سرچشمہ ایک نفسياتی اور داخلی عقيدہ ہے کہ اگلی فصل ميں زیاد کے نسب پر بحث و تحقيق سے یہ حقيقت واضح ہوجائے گی۔

لفظ سبئی ميں زیاد کی تحریف کا محرک

دفعت عقدهً النقص زیاداً ان یعير القبال السبئية!

زیاد بن ابيہ کو احساس کم تری نے مجبور کيا تھا کہ لفظ سبئيہ کو علی کے دوستداروں کی سرزنش کے عنوان سے استعمال کرے ۔

مؤلف

زیاد بن ابيہ کا شجرہ نسب زیاد کی ماں کا نام “ سميہ ” تھا ۔ سميہ پہلے ایران کے دیہاتوں کے ایک کسان کی کنيزتھی اس نے اس کنيز کو حارث بن کلدہ ثقيفی کو بخش دیا۔ حارث --- جو عرب کا مشہور طبيب اور قبيلہ ثقيف سے تعلق رکھتا تھا اور طائف ميں سکونت کرتا تھا --- نے اپنی کنيز “ سميہ ”

کی شادی “ عبيد ” نامی اپنے غلام سے رچائی یہ غلام اہل روم تھا زیاد ان ہی دنوں عبيد رومی کے گھر ميں “ سميہ ” سے پيدا ہوا اور اسے ابن عبيد کہا جاتا تھا بعد ميں جب زیاد بڑا ہوگيا اور اسے کہيں روزگار ملا تو اس نے اپنے ماں اور باپ کو خرید کر آزاد کيا۔

اس کے بعدایک زمانہ گزر گيا اورایک دور ختم ہوگيا اوروقت کےخليفہ معاویہ کی سياست نے تقاضا کيا کہ زیادکو اپنے باپ ابوسفيان سے ملحق کرے اور اسے اپنابھائی بنائے اس طرح کل کازیاد بن عبيد آج کا زیاد بن ابو سفيان ہوجائے ليکن عبيد کا بيٹا کيسے ابوسفيان کا بيٹا اور معاویہ کا بھائی ہوگا اور ابوسفيان کے خاندان سے ملحق ہوگا ؟

اس مشکل کو اس طرح حل کيا گيا ہے اور کہا گيا ہے کہ: ابوسفيان نے دوران جاہليت ميں زیاد کی ماں ، عبيد رومی کی بيوی “ سميہ ” سے زنا کيا تو زیاد اسی زنا اور خلاف شرع عمل کے نتيجہ ميں پيدا ہوا ہے ۔

ابو مریم سلولی ، شراب فروش نے بھی معاویہ ، زیاد اورقوم کے سرداروں کے سامنے اس موضوع کے بارے ميں شہا دت دی اورکہا ایک دن ابوسيفان ميرے پاس آیا اور ایک فاحشہ عورت کا مجھ سے مطالبہ کيا ميں نے کہا “ سميہ ” کے علاوہ کوئی اور عورت فی الحال نہيں ہے ابو سفيان نے کہا چارہ نہيں ہے اسی کو لاؤ اگر چہ وہ ایک کثيف عورت ہے اور اس سے بدبو آتی ہے ميں نے سميہ کو ابوسفيان کے پاس پيش کيا انہوں نے خلوت کی اس کے بعد سميہ ابو سفيان کے ہمراہ ا سی حالت ميں باہر آگئی کہ منی کے قطرات اس سے ٹپک رہے تھے !! جب ابو مریم کی بات یہاں تک پہنچی تو زیاد نے کہا: ابو مریم ! مهلاً ! خاموش ہوجاؤتجھے گواہی دینے کيلئے بلایا گياہے نہ فحاشی اور بدگوئی کيلئے ”۔

اس طرح معاویہ زیاد بن ابيہ کو اپنے شجرہ نسب سے ملا کر اسے قریش ، قبيلہ بنی اميہ اور مسلمانوں کے خليفہ خاندان سے تعارف کرانے ميں کامياب ہوا یہ روداد نيک مسلمانوں کيلئے انتہائی گراں گزری اور انہوں نے قبول نہيں کيا ہے کہ معاویہ کی اس سازش سے زیاد کو ابوسفيان کا بيٹا قبول کریں ا ورا نہوں نے کہا ہے : معاویہ نے اپنے اس عمل سے حکم اسلام اور رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے فرمان کو مسترد کرکے ان کے حکم کی نافرمانی کی ہے ،کيونکہ آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایا:“ فرزند اپنے باپ سے ہے اور زنا کرنے والے کو سنگسار کيا جاتاہے ” ،“الولد للفراش و للعاهر الحجر ”: ” یعنی زنا کرنے والے کو سنگسار کرنا چاہئيے نتيجہ کے طور پر اسکے بعد مسلمانوں کا ایک گروہ زیاد کو “ زیاد بن ابيہ ”

کہنے لگا یعنی اپنے باپ کا بيٹا اور ایک دوسرا گروہ اسے “زیاد بن ابو سفيان ” اور بعض لوگ گوشہ و کنار ميں دربار خلافت کے آنکھ اور کان سے دور “زیاد بن عبيد” کہتے تھے۔

بعض مسلمانوں نے معاویہ اور زیاد کے دور اقتدار ميں خود ان سے اعتراض کرکے ان کے اس شرمناک عمل کی مذمت کی ہے بعض شعراء نے بھی اس بارے ميں تند اوربرے اشعار کہے ہيں اور اس عمل کا اپنے اشعار ميں مذاق اڑایا ہے جيسے عبدالرحمان بن حکم نے اپنے شعر ميں يوں کہا ہے:

پيغام پہنچادو حرب کے بيٹے معاویہ کو ایک حسب و نسب والے شخص کی طرف سے --- خود عبدالرحمان ہے ---کہ اگر تجھے کہاجائے کہ تيراباپ عفت والا تھا تو تم غضبناک ہوتے ہو ؟ اور اگریہ کہا جائے کہ اس نے سميہ سے زنا کيا ہے تو خوشحال ہوتے ہو؟ ميں گواہی دیتا ہوں کہ زیا د سے تيری رشتہ داریہاتھی کی گدهے کے بچے کے ساتھ قرابت کے مانند ہے ميں گواہی دیتا ہوں کہ سميہ نے زیاد کو جنم دیا ہے جبکہ ابوسفيان نے سميہ کو ننگے سر نہيں دیکھا ہے یہ اس بات کا کنایہ ہے کہ سميہ ابوسفيان کی بيوی نہيں تھی تاکہ اپنے دو پٹے کو اس کے سامنے اٹھا ليتی ۔(۱)

یہ خبر جب معاویہ کو پہنچی تو اس نے قسم کهائی کہ عبدالرحمان سے اس وقت تک راضی نہيں ہوگا جب تک کہ نہ یزیداس سے راضی ہوجائے عبدالرحمان نے زیاد کی طرف سفر کيا اس کی رضا مندی کو چند اشعار ذیل کے ذریعہ حاصل کيا ۔

تم “ زیاد ” ہو خاندان حرب ميں محبوب ترین فرد ہو ميرے پاس درميانی انگلی کے مانند ہو ميں اس کی قرابت پر خوشحال اور شاد ہوں کر کہ خدا نے اسے ہمارے لئے بھيجا ہے اور ميں نے کہا وہ غم ميں ہمارا بھائی ہے اور ہمار اقابل اعتماد ہے اس زمانہ ميں خدا کی مدد سے ہمارے لئے چچا اور بهتيجا ہے زیاد نے معاویہ کو اس کے بارے ميں رضایت نامہ لکھا معاویہ نے جب عبد الرحمان کے اشعار سنے ، عبدالرحمان سے کہا: تيرا دوسرا شعر پہلے سے بدتر ہے ليکن تم نے اسے فریب دیا ہے او وہ نہيں سمجھا(۲)

ا س قسم کے اشعار ،بيانات اور لوگوں کے اعتراضات اور تنقيدیں اس امر کاسبب بنی ہيں کہ “زیاد بن ابيہ ” کے ضمير ميں ایک خطرناک احساس کمتری پيدا ہوجائے اسی احساس کمتری کی وجہ سے وہ کبھی شعوری اور کبھی لا شعوری طورپر مجبورہوکر اپنے آپ کو قریش کے خاندان بنی اميہ سے منسوب کرنے ميں ا فراط کرتا تھا اس خاندان کااور ا سکے ساتھ منسوب اور ہم پيمانوں کے مقام کو بلند کرنے کيلے مبالغہ اور افراط سے کام ليتا تھا تاکہ اس خاندان کے مخالفين یعنی قبائل قحطان--- جو بنام سبائيہ مشہور تھے ----اور ان قبائل کے ہم پيمانوں سے سخت مخالفت کرے ،اور ان سے مقابلہ کرنے اور انہيں نيچا دکھانے ميں ا پنے سے زیادہ قبائل قریش کی خودنمائی کرے تاکہ ا س طرح اس کا قریشی ہونا بھی ثابت ہوجائے ۔ اس زمانے ميں قبائل کے ہم پيمان قبائل یمن ربيعہ تھے اور ان دو سلسلہ کی اس ہم پيمانی کا سبب تاریخ سے یوں معلوم ہوتا ہے ۔

____________________

١۔ عبد الرحمان نے اپنے شعر ميں توریہ سے کام ليا ہے توریہ علم بلاغت ميں یہ ہے کہ لفط کا ظاہر ميں کچھ اور معنی ہوتا ہے اور باطن ميں مراد کچھ اور ہوتی ہے کہ بدون توجہ و دقت یہ معنی معلوم نہيں ہوتا بولنے والے کا مقصد پوشيدہ معنی ہوتا ہے چنانچہ اس شعر ميں “ زیاد ” بنی اميہ کا منہ بولا بيٹا ہے یہ معنی اس لفظ کا ظاہری معنی ہے ليکن شاعر نے یہاں پر توریہ کيا ہے اور زیاد سے خاندان ابوسفيان ميں زیادہ ( اضافی ) ہونے کا معنی ليا ہے ۔

)٢۶۶ / ٢۔ اغانی ميں عبد الرحمان کی تشریح ملاحظہ ہو (طبع بيروت ١٣

دو قبيلوں کے اتحاد کے پيمان کا سبب قبائل ربيعہ کے افراد یمنی سبئی قبائل کی مانند علی عليہ السلام کے شيعوں اور ناصروں ميں تھے ان دو قبيلوں نے جنگ جمل اور دوسری جنگوں ميں علی عليہ السلام کی نصرت اور مددميں اپنی شجاعتوں کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کيا ہے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان دو قبيلوں کے درميان درج ذیل عہد نامہ لکھ کر اتحاو و یکجہتی کے پيمان کی تاکيد فرمائی ہے ۔

عہد نامہ درج ذیل پيمان پر قبائل یمن کے شہر نشين اور صحرا نشين اور قبائل ربيعہ کے شہر نشين اور صحرا نشين نے اجماع واتفاق کيا ہے کہ دونوں قبيلوں کے افراد کتاب خدا پر ایمان و اعتقاد رکھيں گے او رلوگوں کواس کی طرف دعوت دیں گے اور اس پر عمل کرنے کا حکم کریں گے اور ان کی بات کو قبول کریں گے جو انهيں قرآن پر عمل کرنے کی دعو ت دیں گے کسی بھی قيمت پر قرآن مجيد کو نہيں چھوڑدیں گے کسی بھی چيز کوقرآن مجيد کی جگہ پر قبول نہيں کریں گے ان دو قبيلوں کے افراد پرضروری ہے کہ ایک دوسرے کی مدد وپشت پناہی کریں جو اس نظام العمل کی مخالفت کریں گے اور انهيں ترک کریں گے ان کے خلاف بھی متحد ہو کر ایک دوسرے کی نصرت کریں گے ۔

اس پيمان کو آپسی رنجش اور اختلاف نيز ایک دوسرے کو ذليل کرنے کے بہانے اور سب و شتم کی بناء پر نہيں توڑیں گے دونوں گروہوں کے تمام افراد حاضر و غائب دانشور ،عقلمند اور عام لوگ اس پيمان کے مطابق متعہد اور ملتزم ہيں اور اس عہد نامہ پر عمل کرنے کيلئے اپنے خدا سے محکم عہد و پيمان باندهاہے اور خداکے پيمان کے بارے ميں جواب طلبی ہوگی ( عہد نامہ کو لکھنے والے علی ابن ابيطالب عليہ السلام (ا مير المؤمنين کے ہاتھوں تنظيم و مرتب ہوئے اس عہد نامہ کے بعد قبيلہ ربيعہ ، قبائل سبائيہ یمن ميں شمار ہوئے قبائل سبائيہ جو عراق اورا س سے وابستہ سرزمينوں ميں زندگی گذارتے ہيں اور دونوں قبيلے ایک قبيلہ کی صورت ميں تشکيل پائے اپنے مخالفوں کے مقابلہ ميں متحد ہوتے تھے اس پيمان کے بعد مختلف اور گوناگوں حوادث ميں ربيعہ کا نام قبائل یمن کے ساتھ کہ عراق ميں تھے ، دکھائی دیتے ہيں اسی لئے تاریخ ميں انهيں گاہی قبائل یمن کہتے ہيں اور اس لفظ سے قبائل سبائيہ اور ان کے ہم پيماں کو مراد ليتے ہيں اور کبھی دونوں قبيلوں کے نام ذکر کرتے ہيں اور کہتے ہيں قبائل یمن اور ان کے ہم پيمان ربيعہ و غير ربيعہ عقدے کهل جاتے ہيں زیاد بن ابيہ کی احساس کمتری اور اس کی قریش خاص کر خاندن اميہ کی بے حد و حساب حمایت اور ان کے مخالفوں سے عداوت کے محرک کی حقيت معلوم ہونے اور اسی طرح ربيعہ اور سبائيوں کے عہد وپيمان کے عيان ہونے کے بعد ہمارے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ :

زیاد--- ابو سفيان کاناجائز فرزند اور خاندان اميہ سے وابستہ --- ميں پائی جانے والی احساس کمتری اسے شعوری یا غير شعوری طور پرا س بات پر مجبور کرتی تھی کہ قبائل سبائيہ کی --

علی عليہ السلام سے ان کی خاص محبت اور عام طور سے قریش اور بالخصوص خاندن اميہ سے ان کی عداوت کی بناپر ---سرزنش اور عيب جوئی کرے اور اس زمانے کے سماج ميں سبائيہ لقب کو مذمت و بدگوئی کے عنوان سے پيش کرے اور اسے ایک مبتذل و شرم ناک لقب کے طور پرقبائل سبائيہ کے علاوہ ان کے ہم پيمان دوسرے قبائل پر بھی لگائے اس طرح تمام وہ افراد جو علی عليہ السلام کی طرفداری اور خانداں بنی اميہ کی مخالفت ميں سبائيوں کے ساتھ تعاون اور ہم فکری رکھتے تھے ان سب پرسبئيہ کا ليبل لگادے ا س کا م کو عربی زبان ميں “ تغليب” کہتے ہيں اور یہ عربی اصطلاحات ميں کافی استعمال ہوتا ہے ، مثلاً “ شمس و قمر ” سے کبھی تغليب کے طور پر “ قمر ین ” یعنی دو چاند ، اور کبھی “ شمسين ” یعنی دو سورج تعبير کرتے ہيں ۔ زیاد بن ابيہ نے بھی عربی الفاظ ميں رائج اسی تغليب کو لفط “ سبئيہ ” ميں استعمال کيا ہے اس کا اس لفط “ سبئيہ ” ميں تغليب و تصرف سے اسکے علاوہ کوئی او رمقصد نہيں تھا کہ وہ اس لفظ کے معنی کو وسعت بخش کر یمنيوں کے مختلف قبائل اور دوسرے قبائل کے افراد جوان کے ساتھ ہم پيمان تھے اور اتحاد و یکجہتی رکھتے تھے کو ایک ناشائستہ مقصد رکھنے والی ملت و جماعت کے عنوان سے پہچنوائے اس کے ضمن ميں اس کے نسب کی ایک اجتماعی سرزنش بھی انجام دے اور اپنے اندر پائی جانے والی احساس کم تری کی آگ جو غيرشعوری طورپر اس ميں بھڑکی تھی کو بجھا دے ۔

ہماری اس بات کا گواہ وہی جھوٹ اور بے بنياد شہادت نامہ ہے جو اس نے ان افرادکی دشمنی ميں اور انہيں قتل و نابودکرنے کيلئے تنظيم و مرتب کيا اس طرح اس نے اپنے خيال ميں بہت سے جرائم اور ناقابل عفو گناہوں کو اس شہادت نامہ ميں ا نکی گردن پر ڈالدیا جہاں تک ممکن ہوسکا ہے ان کے خلاف بر ابهلا کہنے ميں کوتاہی نہيں کی ہے یہاں تک کہ ان کے جرائم کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے اور ان کی جانوں کو خطرہ ميں ڈالنے کيلئے معاویہ کو لکھا کہ : یہ افراد خليفہ کے خلاف کھلم کھلا بد گوئی کرتے ہيں اور لوگوں کو اس سے جنگ کرنے کيلئے اکساتے ہيں (اظهرواشتم الخليفة و دعوا الی حربه )

ان کے عقائد و افکار بيان کرتے ہوئے اس جملہ کو لکھا کہ:“ یہ لوگ خلافت کو خاندان ابوطالب سے مخصوص جانتے ہيں ابو تراب کو ( علی عليہ السلام ) عثمان کے خون ميں معذور اور بے گناہ جانتے ہيں اور اس پر درود بھيجتے ہيں ” چونکہ یہ شہادت نامہ اس کی انتقام جوئی اور احساس کم تری کی آرزو کو پورا نہيں کرتا تھا اسلئے ایک دوسرا شہادت نامہ مرتب کيااور اس ميں ا ن افراد کے جرائم اس صورت ميں بيان کئے تھے :“ یہ لوگ خليفہ کی اطاعت سے انکار کرتے ہيں ،اس لحاظ سے مسلمانوں کی جماعت سے جداہوئے ہيں اور لوگوں کو خليفہ سے جنگ کرنے پر اکساتے ہيں انہوں نے اسی مقصد سے کئی لوگوں کو اپنے گرد جمع کررکھا ہے اور اپنی بيعت کو توڑ کر اميرالمؤمنين (معاویہ ) کو خلافت سے معزول کيا ہے“

بنی اميہ کے منہ بولے اس بيٹے کے عقيدہ کے مطابق یہ گواہ معاویہ کو خلافت سے معزول کرنے کی وجہ سے کفر وا رتداد ميں چلے گئے ہيں زیاد بن ابيہ نے اس شہادت نامہ ميں ان کے خلاف ہرطرح کی نسبت دینے ميں کوئی کسر باقی نہيں رکھی ہے اور ان افراد کے عقيدہ ميں انحراف ظاهر کرکے اسلام سے خارج ہوتے دکھایا ہے اس سلسلہ ميں ا سکی دليل صرف یہ تھی کہ انہوں نے معاویہ کو خلافت سے معزول کيا ہے

تحقيق کا نتيجہ

ا ن تاریخی حوادث ؛کی تحقيق سے یہ نتيجہ نکلتا ہے کہ یہی زیاد بن ابيہ امير المؤمنين کے زمانے ميں ابتدا ء ہی سے ان کے شيعوں سے مکمل رابطہ رکھتا تھا حضرت کے بعد بھی کوفہ کے شيعوں کا حاکم بنا اورعلی عليہ السلام کے تمام شيعوں کو بخوبی جانتا تھا اور ان کے عقائد و افکار سے مکمل آشنائی رکھتا تھا زیاد بن ابيہ نے قسم کهائی کہ حجر ابن عدی سے انتقام لے کر اس کی زندگی کا خاتمہ کردے اس روداد کا زمانہ ۵ ٠ هء یا ۵ ١ هء یعنی حکومت امير المومنين کے دس سال بعد تھا زیاد بن ابيہ ابتداء سے شيعوں سے قربت اور نزدیکی کے با وجود حاکم اور امير بننے کے بعد ان کا جانی دشمن تھا ۔

اگر یہی زیاد بن ابيہ جانتا کہ کوفہ ميں علی عليہ السلام کے شيعوں ميں بعض ایسے افراد موجود ہيں جو علی عليہ السلام کے بارے ميں ا لوہيت اور خدائی کے قائل ہيں یا دوسرے ایسے عقائد کے قائل ہيں جن کا سيف کی روایتوں ميں ذکر ہوا ہے ا ور ملل و نحل کے دانشوروں نے انهيں اپنی کتابوں ميں نقل کيا ہے تو وہ خود ان سے خبردار ہوتا اور حجر اور ان کے ساتھيوں کا خون بہانے کيلئے اس کے لئے بہترین بہانہ پيدا ہوجاتا جبکہ اس نے ا ن کے خلاف جرم ثابت کرنے ميں انواع و اقسام کے جھوٹ اور تہمت لگانے ميں کوئی کسر باقی نہيں رکھی تھی تو ان باطل عقائد اور خرافت پرمشتمل بيانات کے ا س زمانہ کے معاشرہ ميں موجود ہونے کا پورا پورا فائدہ اٹھاتا اور ان عقائد کو حجر اور ا سکے ساتھيوں سے منسوب کرنے ميں کوتاہی نہ کرتا بلکہ ان نسبتوں کو اپنے مقصد تک پہچنے کی راہ ميں بہترین وسيلہ قرار دیتا۔

اس کے علاوہ یہی عقائد اور باتيں خود معاویہ کيلئے بھی ان کی خونریزیوں کی توجيہ کيلئے بہترین وسيلہ قرار پآئیں اورا ن تہمتوں سے اپنے اعمال پر بہتر ین صورت ميں پردہ ڈال سکتا تھا اور ان افرادکا خون بہانے ميں یوں بہانہ تراشی اور توجيہ کرتا :“ چونکہ یہ لوگ سبئيہ تھے اور خلاف اسلام عقائد جيسے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی الوہيت کے قائل تھے لہذا ن کو قتل کرنا واجب ہے“

ليکن ہم دیکھتے ہيں کہ خود معاویہ اور اس کے آلہ کار زیاد نے ان لوگوں کو اس عقيدہ کے بارے ميں متہم نہيں کيا ہے اور ا س قسم کی نسبت ان کونہيں دی ہے ۔

لہذا یہ تاریخی حقيقت اس بات کی دليل ہے کہ اس زمانے ميں یہ عقائد اور باتيں مسلمانوں ميں بالکل وجود نہيں رکھتی تھيں اس زمانے ميں اس قسم کے مذہبی گروہ کو ان خصوصيات و عقائد کے ساتھ کہ ملل ونحل کے علماء نے چند صدیوں کے بعد اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے ،کوئی نہيں جانتاتھا حقيقت ميں اس زمانے ميں اس قسم کے کسی مذہبی گروہ کا روئے زمين پر بالکل ہی وجو دنہيں تھا بلکہ اس زمانے ميں لفظ “ سبائی ” کا ایسا معنی و مفہوم ہی نہيں تھا اور پہلی بار جس شخص نے اس لفظ ميں تحریف ایجاد کی اور اسے وسعت دیدی اور تمام دوستداران علی عليہ السلام کے بارے ميں اسے استعمال کيا ، وہ وہی زیاد بن ابيہ ہے جس نے حجر اوران کے ساتھيوں کے خلاف ترتيب دئے گئے شہادت نامہ ميں اس لفظ کو پہلی بار تحریف کرکے درج کيا اس کے بعد دوسروں نے زیاد کے اس غلط اور سياسی استعمال کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے جعل کئے گئے اور بے بنياد مذاہب کے ماننے والوں کيلئے اس لفظ کا استعمال کيا ہے اس موضوع کے بارے ميں اگلی فصل ميں بيشتر وضاحت کی جائے گی۔

لغت “سبئی ”ميں تحریف کاجائزہ

هذه النصوص تدل علی ان السبئية کانت نبزاً بالالقاب

تاریخ کی یہ صریح عبارت اس پر دلالت کرتی ہے کہ لفط “ سبئيہ ” تحریف ہونے کے بعد چند لوگوں کی سرزنش کے علاوہ کسی دوسرے معنی ميں استعمال نہيں ہوتا تھا۔

مؤلف اس سے قبل گزشتہ فصلوں ميں ہم نے بيان کيا کہ لفط ‘سبائی” پہلے قبائل یمن کا نام تھا بعد ميں سياسی وجوہات کی بناء پر تحریف کرکے ایک دوسرے معنی ميں بدل دیا گيا اور علی عليہ السلام کے شيعوں اور ان کے تمام دوستوں کی سرزنش اور ملامت کے طورپر ا ستعمال کيا گيا یہ تحریف مندرجہ ذیل چند مراحل ميں انجام پائی ہے۔

١۔ زیاد کے دوران

لفظ“ سبئی ” ميں پہلی تحریف زیاد کے دوران اسی کے توسط سے اس وقت انجام پائی جب اس نے حجر اور ان کے ساتھيوں کے خلاف شہادت نامہ لکھا ہم نے گزشتہ فصلوں ميں ا س روداد کی اس کے نفسياتی اور سياسی علل و محرکات کے پيش نظر تشریح کی ۔

٢۔ مختار کے د وران

مختار نے ابراہيم بن اشتر ہمدانی سبائی کی سرکردگی ميں قبائل سبئيہ کی مدد اور حمایت سے کوفہ پر قبضہ کيا اور حسين بن علی عليہ السلام کے بعض قاتلوں کو ، جيسے:عمر بن سعد قرشی ، شمر بن ذی الجوشن صبائی ، حرملہ بن کاہل اسدی ، منقذ بن مرہ عبدی اور کئی دیگر افراد،جو سب کے سب قبائل عدنان سے تھے کو کيفر کردار تک پہنچا کر قتل کردیا ۔

مختار اور اس کا سرکردہ حامی ابراہيم یہ دونوں ہی ان افرادکے ساتھ اس عنوان و دليل سے لڑتے تھے کہ وہ پيغمبر کے نواسے کے قاتل تھے اور اسی بات سے ان کے خلاف تبليغ کرتے تھے اور لوگوں کو ان کے خلاف اکساتے تھے ۔

ليکن اس دور کے بعد ایک دوسرے دورکاآغاز ہوتا ہے کہ اس دور ميں مختار کے دشمن اس کے خلاف بغاوت کرکے تلوار ، تبليغ اور جھوٹی افواہوں کے ذریعہ اس کے ساتھ جنگ کرتے ہيں اور بے بنياد مطالب کے ذریعہ اس پر تہمت لگاتے ہيں اور لوگوں کو اس کے خلاف شورش پر اکساتے ہيں اور اس کے طرفداروں کو نابودکرتے ہيں ۔

مختارپر تہمت لگاتے ہيں کہ وہ مقام نبوت او نزول وحی کا مدعی ہے ! اس کے ماننے والے اور ساتھيوں کو “ سبئيہ ” کہتے ہيں ان کا مقصود یہ تھا کہ مختار کے ساتھی اہل یمن اور قبائل سبا سے تھے جنہوں نے مختار اور اس کے طرز عمل پر ایمان لاکرا س کی جھوٹی دعوت اور دعویٰ کو قبول کيا ہے۔ طبری نے اس روداد کو اس طرح نقل کيا ہے۔

” شبث بن ربعی”(۱) نے مختار کے لشکر کے ساتھ لڑتے ہوئے اس ميں سپاہيوں کے دو سپاہی حسان بن یخدج،اور سعر بن ابی سعر حنفی اور خليد کہ جو آزاد کردہ حسان بن یخدج تھا، کو اسير بنایا شبث نے خليد سے پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا: حسان بن یخدج ذهلی کا آزادکردہ خليدہوں ۔

شبث نے کہا: اے متکاء(۲) کے بيٹے ! کوفہ کے گھور پر نمک چهڑکی ہوئی مچھياں بيچنے کو ترک کرکے باغيوں سے جاملے ہو ؟ کيا تجھے آزاد کرنے والوں کی جزا یہی تھی کہ تلوار اٹھا کر ان کے خلاف بغاوت کرو گے اور ان کے سر تن سے جدا کرو گے ؟ اس کے بعد شبت نے حکم دیا کہ اس کی اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کردیں او را سی لمحہ اسے قتل کردیا گيا ۔

پھر شبث نے سعد حنفی کے چہرہ پر نظر ڈالی اور اسے پہچان کر کہا: کيا تم خاندان حنفيہ سے ہو؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ۔ شبث نے کہا: افسوس ہو تم پر ! ان سبائيوں کی پيروی کرنے اور ان سے ملحق ہونے ميں تيرا مقصد کيا تھا ؟ بے شک کتنے تنگ نظر ہو تم اس کے بعد حکم دیا اور اسے آزاد کيا گيا ۔

جيسا کہ ہم نے کہاکہ یہ گفتگو صراحت سے اس مطلب کو واضح کرتی ہے کہ تعبير “سبئيہ ” صرف قبائل “سبائيہ” کی متابعت و پيروی کرنے کے مفہوم ميں ا ستعمال ہوتا تھاا ور اس تعبير کے علاوہ کسی اور معنی و مفہوم ميں استعمال نہيں ہوتا تھا کيونکہ شبث بن ربيعہ قبيلہ تميم کے خاندان یربوع سے تھا اورسعر بن ابی سعر بھی قبيلہ بکر کے خاندان حنفيہ بن لجيم سے تھا اور دونوں قبيلے عدنان سے منسوب تھے ۔ شبث بن ربعی نے باوجود اس کے کہ سعر عدنانی ہے ليکن مختار کے پيرو یمنی سبائيوں کی پيروی کرنے کی وجہ سے ان کی سرزنش اور ملامت کرتاہے اور اسے بھی سرزنش کے عنوان سے سبئيہ کہتا ہے:

مختار کی شکست کهانے کے بعد ان کے دشمنوں او رمخالفين --جو قبيلہ عدنان سے تھے --- نے حکومت کی باگ و ڈور سنبھالی اور لوگوں پر مسلط ہوگئے عراق کے تمام شہروں ميں سرگرم ہوئے اور اپنی حکومت اور تسلط کو مضبوط کردیا ، ليکن اس کے باوجود اپنے دشمنوں اور ان کی فکروں کو بالکل سے نابود نہيں کرسکے جو قبائل سبئيہ سے تھے وہ اکثر علی عليہ السلام کے شيعہ او ران کے دوستدار تھے بلکہ انہوں نے کبھی سپاہ توابين کے نام پر سليمان بن صرد خزاعی کی سرکردگی ميں مختار سے پہلے بغاوت کی ،اور کبھی علویوں کے پر چم تلے مختار کے بعد اپنے مخالفين سے جنگ کی ۔

____________________

١۔ جب اس تميمی عورت ‘ سجاح ”نے نبوت کا دعوی کيا تو شبث اس پر فریفتہ ہوا اورا س کا ساتھی بنابعض مورخين نے کہاہے کہ شبث اسی سجاح کا مؤذن تھا اس کے بعد ابن زیاد کے لشکر سے جاملا جو حسين ابن ) علی عليہ السلام سے جنگ کررہے تھے اور انہيں قتل کيا(جمہرة انساب العرب: ٢٢٧

٢۔ متکاء: یعنی بڑ ے شکم والی عورت اور وہ عورت جو اپنے پيشاب پر کنٹرول نہ کرسکتی ہو ۔

ان مبارزوں کا سرچشمہ بيشتر اہل کوفہ تھے اورا س کے بعد قدرت کے مطابق اطراف ميں پهيلتے تھے یہ نبرد آزمائی آشکار و پنہان صورت ميں ا ن دو گروہوں ميں دوسری صدی ہجری کے اوائل تک جاری رہی اس زمانہ ميں تيسری بار لفظ “ سبئيہ ” ایک سرکاری سند ميں درج ہواہے ، اور اس سند کو طبری نے اپنی تاریخ ميں یوں درج کيا ہے۔

٣۔ سفاح کے دوران

جب سب سے پہلے عباسی خليفہ کے طور پر “ ابو العباس سفاح” کی کوفہ ميں خلافت کے عنوان سے بيعت کی گئی تو اس نے منبر پر چڑه کر اپنی تقریر ميں يوں کہا:

خداوند عالم نے ہميں رسول اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی قرابت اور رشتہ داری کی خصوصيت عطا کی ہے اور ہميں پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے اجداد کے صلب سے پيدا کيا ہے اس کے بعد اہل بيت عليہم السلام کے بارے ميں نازل ہوئی چند روایات کی تلاوت کی پھر کہا: خداوند __________عالم نے ہمارے خاندان کی بزرگی اور فضيلت کولوگوں ميں اعلان فرمایا ہے ہماری محبت ، دوستی اور حقوق کو ان پر واجب قرار دیا ہے ہمارے احترام و عزت ميں جنگی غنائم ميں سے بيشتر حصہ کو ہمارے خاندان کيلئے مخصوص فرمایا ہے خداوند عالم فضل عظيم کا مالک ہے ليکن گمراہ سبائی گمان کرتے ہيں کہ ہمارے خاندان کے علاوہ کوئی اور خاندان ریاست و قيادت کيلئے سزاوار تر ہے ان کے چہرے کالے ہوں ! کيوں اور کيسے دوسرے افراد اس مقام کيلئے ہم سے زیادہ سزاوار ہوسکتے ہيں ؟ لوگو ! کيا ایسا نہيں ہے کہ خداوند عالم نے ہمارے خاندان کے توسط سے اپنے بندوں کو ضلالت و گمراہی کی راہ سے سعادت وہدایت کی طرف رہبری کی ہے ؟ اور ہمارے توسط سے ان کو جہالت اورظلم سے نور و روشنی کی طر ف لاکر ہلاکت و بدبختی سے نجات دی ہے ؟ اور ہمارے خاندان کے ذریعہ ہی خداوند عالم نے حق کو ظاہر او رباطل کو نابود کيا ہے ؟

سفاح کی تقریر کی تحقيق

یہاں پر یہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ “ ابو العباس سفاح” کيوں اپنی پہلی تقریرکو اسکے بقول گروہ“سبائی” پرحملہ سے شروع کرتا ہے اور اپنے افتتاحی بيان کو ان پر یورش اور تنقيد سے آغاز کرتا ہے ؟!

ہ م اس سوا ل کا جواب طبری کے بيان سے حاصل کرسکتے ہيں کہ وہ اپنی تاریخ ميں ١٣٢ هء کے حوادث کے ضمن ميں ا یک مطلب کوبيان کرتا ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

جب ابو مسلم کے سپاہی عراق پہنچے اور بنی اميہ کے لشکر پر فتح پائی تو پھر کوفہ کی طرف رخ کيا اور ابو سلمہ حفض بن سليمان --- جو ان دنوں “وزیر آل محمد ” کے عنوان سے معروف تھا اور ا ن کی سيا سی بغاوت کی رہبری کرتا تھا،کی بيعت کی ۔ ابو سلمہ پہلے سفاح کے بڑے بھائی ابراہيم بن محمد کی طرف لوگوں کو دعوت کرتا تھا اور لوگوں سے اس کيلئے بيعت ليتا تھا جب ابراہيم مروان کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کے مرنے کی خبر ابوسلمہ کو پہنچی تو وہ خلافت کو خاندان بنی عباس سے خاندان علی ابن ابيطالب کی طرف لوٹانے لگا اس خاندان کے کسی فرد کيلئے بيعت لينا چاہتا تھاجبکہ ابراہيم بن محمد نے -جو مروان کے ہاتھوں قتل ہوا تھا --- اپنے بھائی ابو العباس سفاح کو وصيت کی تھی اور اسے اپنا جانشين اور خليفہ قرارد یاتھا ۔ لہذا ابوالعباس نے اپنے بھائی ابراہيم بن محمد کے قتل کے بعد بيعت لينے کيلئے اپنے خاندان کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوا ليکن ابو سلمہ اس کے کوفہ ميں داخل ہونے ميں رکاوٹ بن گيااو روہ مجبور ہوا ابوسلمہ کے زیر نظر کوفہ سے باہر ٹھہرے اور اسی حالت ميں چاليس دن گزر گئے اور ابو العباس اپنے خاندان کے ساتھ کوفہ سے باہر حبس اور زندان کی حالت ميں گذارتا رہا اس مدت کے دوران ابو سلمہ اس کی حالت کو لشکر کے سرداروں سے مخفی رکھتا تھا جو ابراہيم کی وصيت کے مطابق اس کی بيعت کرنے کيلئے آمادہ تھے لشکر کا سردار ابو العباس کے بارے ميں ابوسلمہ سے سوال کرتا تھا تو وہ جواب ميں کہتا تھا : جلد بازی نہ کرنا کيونکہ ابھی شہر “ واسط ” ١ فتح نہيں ہوا ہے اور وہ ابھی بنی اميہ کے طرفداروں کے قبضہ ہے اسی بہانہ سے ابو العباس کی حالت بتانے سے پہلو تہی کررہا تھا یہاں تک آخر کار لشکر کے سرداروں نے ابوا لعباس کی رہائش گاہ کے بارے ميں ا طلاع حاصل کی اور ابوسلمہ کو مطلع کئے بغير اسکے پاس گئے ۔ خلافت کے عنوان سے اس کی بيعت کی اور اسے جيل سے نکال کر باہر لائے اور سب سے پہلے اسے کوفہ کے دارالامارہ ميں لے جایاگيا اس کے بعد اسے مسجد ميں لایا گيا مسجد ميں کوفہ کے مختلف طبقوں کے لوگوں نے اس کی بيعت کی ۔

ابو العباس نے بيعت کے مراسم مکمل ہونے کے بعد ایک تقریر کی (جسے ہم نے پہلے نقل کيا ہے) اس کی اس تقریر کا مقصد یہ تھاکہ اپنے مخالفين اور دشمنوں جو خلافت کو اس سے چھين کر اس کے چچيرے بهائيوں کو دینا چاہتے تھے کو دبادے اور انهيں حسادت کی تہمت لگا کر عوام کی نظروں ميں پست اور حقير نيز نادان بتائے۔ اسی لئے اس نے اپنی تقریر ميں “ سبيئہ ” کو گمراہ کی حيثيت سے پيش کيا پھر ان کے عقيدہ کی یوں تشریح کی : وہ گمان کرتے ہيں کہ دوسرے افراد ہم سے زیادہ لوگوں کی ریاست و قيادت کيلئے سزاوار ہيں اور خلافت کيلئے همارے خاندان سے لائق تر ہيں ۔

جيسا کہ ہم دیکھتے ہيں کہ ابو العباس سفاح اپنے مخالفين کو دبانے اور انہيں متہم کرنے ميں اس سے آگے نہيں بڑه سکا ہے “ وہ کسی دوسرے خاندان کو ہم سے لائق تر جانتے ہيں “

اگر سفاح اپنے مخالفوں کو دبانے کيلئے کوئی اور مطلب رکھتا قطعاً اس کے ذکر سے پرہيز نہيں کرتا اگر اپنے مخالفوں ميں کوئی عيب او رمشکل پاتا تو اسے اظہار کرنے ميں اپنا منہ بند نہيں کرتا ،مثلاً کہتا ہے : وہ گمراہ افراد ہيں جو دین اسلام سے خارج ہوئے ہيں اور ایک انسان کی الوہيت او رخدائی کے قائل ہوئے ہيں ” کيونکہ جو سفاح ابو سلمہ کو حيلہ وبہانہ سے قتل کرنے ميں دریغ نہيں کرتا ہے(۱) وہ اس پر ہر ممکن تہمت لگانے سے بھی گریز نہيں کرتا ۔

____________________

١۔ طبری اور دوسرے مؤرخيں نے تشریح کی ہے کہ سفاح نے کس طرح ابو سلمہ کو قتل کر ڈالا۔