دو قبيلوں کے اتحاد کے پيمان کا سبب قبائل ربيعہ کے افراد یمنی سبئی قبائل کی مانند علی عليہ السلام کے شيعوں اور ناصروں ميں تھے ان دو قبيلوں نے جنگ جمل اور دوسری جنگوں ميں علی عليہ السلام کی نصرت اور مددميں اپنی شجاعتوں کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کيا ہے۔
امير المؤمنين عليہ السلام نے ان دو قبيلوں کے درميان درج ذیل عہد نامہ لکھ کر اتحاو و یکجہتی کے پيمان کی تاکيد فرمائی ہے ۔
عہد نامہ درج ذیل پيمان پر قبائل یمن کے شہر نشين اور صحرا نشين اور قبائل ربيعہ کے شہر نشين اور صحرا نشين نے اجماع واتفاق کيا ہے کہ دونوں قبيلوں کے افراد کتاب خدا پر ایمان و اعتقاد رکھيں گے او رلوگوں کواس کی طرف دعوت دیں گے اور اس پر عمل کرنے کا حکم کریں گے اور ان کی بات کو قبول کریں گے جو انهيں قرآن پر عمل کرنے کی دعو ت دیں گے کسی بھی قيمت پر قرآن مجيد کو نہيں چھوڑدیں گے کسی بھی چيز کوقرآن مجيد کی جگہ پر قبول نہيں کریں گے ان دو قبيلوں کے افراد پرضروری ہے کہ ایک دوسرے کی مدد وپشت پناہی کریں جو اس نظام العمل کی مخالفت کریں گے اور انهيں ترک کریں گے ان کے خلاف بھی متحد ہو کر ایک دوسرے کی نصرت کریں گے ۔
اس پيمان کو آپسی رنجش اور اختلاف نيز ایک دوسرے کو ذليل کرنے کے بہانے اور سب و شتم کی بناء پر نہيں توڑیں گے دونوں گروہوں کے تمام افراد حاضر و غائب دانشور ،عقلمند اور عام لوگ اس پيمان کے مطابق متعہد اور ملتزم ہيں اور اس عہد نامہ پر عمل کرنے کيلئے اپنے خدا سے محکم عہد و پيمان باندهاہے اور خداکے پيمان کے بارے ميں جواب طلبی ہوگی ( عہد نامہ کو لکھنے والے علی ابن ابيطالب عليہ السلام (ا مير المؤمنين کے ہاتھوں تنظيم و مرتب ہوئے اس عہد نامہ کے بعد قبيلہ ربيعہ ، قبائل سبائيہ یمن ميں شمار ہوئے قبائل سبائيہ جو عراق اورا س سے وابستہ سرزمينوں ميں زندگی گذارتے ہيں اور دونوں قبيلے ایک قبيلہ کی صورت ميں تشکيل پائے اپنے مخالفوں کے مقابلہ ميں متحد ہوتے تھے اس پيمان کے بعد مختلف اور گوناگوں حوادث ميں ربيعہ کا نام قبائل یمن کے ساتھ کہ عراق ميں تھے ، دکھائی دیتے ہيں اسی لئے تاریخ ميں انهيں گاہی قبائل یمن کہتے ہيں اور اس لفظ سے قبائل سبائيہ اور ان کے ہم پيماں کو مراد ليتے ہيں اور کبھی دونوں قبيلوں کے نام ذکر کرتے ہيں اور کہتے ہيں قبائل یمن اور ان کے ہم پيمان ربيعہ و غير ربيعہ عقدے کهل جاتے ہيں زیاد بن ابيہ کی احساس کمتری اور اس کی قریش خاص کر خاندن اميہ کی بے حد و حساب حمایت اور ان کے مخالفوں سے عداوت کے محرک کی حقيت معلوم ہونے اور اسی طرح ربيعہ اور سبائيوں کے عہد وپيمان کے عيان ہونے کے بعد ہمارے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ :
زیاد--- ابو سفيان کاناجائز فرزند اور خاندان اميہ سے وابستہ --- ميں پائی جانے والی احساس کمتری اسے شعوری یا غير شعوری طور پرا س بات پر مجبور کرتی تھی کہ قبائل سبائيہ کی --
علی عليہ السلام سے ان کی خاص محبت اور عام طور سے قریش اور بالخصوص خاندن اميہ سے ان کی عداوت کی بناپر ---سرزنش اور عيب جوئی کرے اور اس زمانے کے سماج ميں سبائيہ لقب کو مذمت و بدگوئی کے عنوان سے پيش کرے اور اسے ایک مبتذل و شرم ناک لقب کے طور پرقبائل سبائيہ کے علاوہ ان کے ہم پيمان دوسرے قبائل پر بھی لگائے اس طرح تمام وہ افراد جو علی عليہ السلام کی طرفداری اور خانداں بنی اميہ کی مخالفت ميں سبائيوں کے ساتھ تعاون اور ہم فکری رکھتے تھے ان سب پرسبئيہ کا ليبل لگادے ا س کا م کو عربی زبان ميں “ تغليب” کہتے ہيں اور یہ عربی اصطلاحات ميں کافی استعمال ہوتا ہے ، مثلاً “ شمس و قمر ” سے کبھی تغليب کے طور پر “ قمر ین ” یعنی دو چاند ، اور کبھی “ شمسين ” یعنی دو سورج تعبير کرتے ہيں ۔ زیاد بن ابيہ نے بھی عربی الفاظ ميں رائج اسی تغليب کو لفط “ سبئيہ ” ميں استعمال کيا ہے اس کا اس لفط “ سبئيہ ” ميں تغليب و تصرف سے اسکے علاوہ کوئی او رمقصد نہيں تھا کہ وہ اس لفظ کے معنی کو وسعت بخش کر یمنيوں کے مختلف قبائل اور دوسرے قبائل کے افراد جوان کے ساتھ ہم پيمان تھے اور اتحاد و یکجہتی رکھتے تھے کو ایک ناشائستہ مقصد رکھنے والی ملت و جماعت کے عنوان سے پہچنوائے اس کے ضمن ميں اس کے نسب کی ایک اجتماعی سرزنش بھی انجام دے اور اپنے اندر پائی جانے والی احساس کم تری کی آگ جو غيرشعوری طورپر اس ميں بھڑکی تھی کو بجھا دے ۔
ہماری اس بات کا گواہ وہی جھوٹ اور بے بنياد شہادت نامہ ہے جو اس نے ان افرادکی دشمنی ميں اور انہيں قتل و نابودکرنے کيلئے تنظيم و مرتب کيا اس طرح اس نے اپنے خيال ميں بہت سے جرائم اور ناقابل عفو گناہوں کو اس شہادت نامہ ميں ا نکی گردن پر ڈالدیا جہاں تک ممکن ہوسکا ہے ان کے خلاف بر ابهلا کہنے ميں کوتاہی نہيں کی ہے یہاں تک کہ ان کے جرائم کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے اور ان کی جانوں کو خطرہ ميں ڈالنے کيلئے معاویہ کو لکھا کہ : یہ افراد خليفہ کے خلاف کھلم کھلا بد گوئی کرتے ہيں اور لوگوں کو اس سے جنگ کرنے کيلئے اکساتے ہيں (اظهرواشتم الخليفة و دعوا الی حربه
)
ان کے عقائد و افکار بيان کرتے ہوئے اس جملہ کو لکھا کہ:“ یہ لوگ خلافت کو خاندان ابوطالب سے مخصوص جانتے ہيں ابو تراب کو ( علی عليہ السلام ) عثمان کے خون ميں معذور اور بے گناہ جانتے ہيں اور اس پر درود بھيجتے ہيں ” چونکہ یہ شہادت نامہ اس کی انتقام جوئی اور احساس کم تری کی آرزو کو پورا نہيں کرتا تھا اسلئے ایک دوسرا شہادت نامہ مرتب کيااور اس ميں ا ن افراد کے جرائم اس صورت ميں بيان کئے تھے :“ یہ لوگ خليفہ کی اطاعت سے انکار کرتے ہيں ،اس لحاظ سے مسلمانوں کی جماعت سے جداہوئے ہيں اور لوگوں کو خليفہ سے جنگ کرنے پر اکساتے ہيں انہوں نے اسی مقصد سے کئی لوگوں کو اپنے گرد جمع کررکھا ہے اور اپنی بيعت کو توڑ کر اميرالمؤمنين (معاویہ ) کو خلافت سے معزول کيا ہے“
بنی اميہ کے منہ بولے اس بيٹے کے عقيدہ کے مطابق یہ گواہ معاویہ کو خلافت سے معزول کرنے کی وجہ سے کفر وا رتداد ميں چلے گئے ہيں زیاد بن ابيہ نے اس شہادت نامہ ميں ان کے خلاف ہرطرح کی نسبت دینے ميں کوئی کسر باقی نہيں رکھی ہے اور ان افراد کے عقيدہ ميں انحراف ظاهر کرکے اسلام سے خارج ہوتے دکھایا ہے اس سلسلہ ميں ا سکی دليل صرف یہ تھی کہ انہوں نے معاویہ کو خلافت سے معزول کيا ہے
تحقيق کا نتيجہ
ا ن تاریخی حوادث ؛کی تحقيق سے یہ نتيجہ نکلتا ہے کہ یہی زیاد بن ابيہ امير المؤمنين کے زمانے ميں ابتدا ء ہی سے ان کے شيعوں سے مکمل رابطہ رکھتا تھا حضرت کے بعد بھی کوفہ کے شيعوں کا حاکم بنا اورعلی عليہ السلام کے تمام شيعوں کو بخوبی جانتا تھا اور ان کے عقائد و افکار سے مکمل آشنائی رکھتا تھا زیاد بن ابيہ نے قسم کهائی کہ حجر ابن عدی سے انتقام لے کر اس کی زندگی کا خاتمہ کردے اس روداد کا زمانہ ۵ ٠ هء یا ۵ ١ هء یعنی حکومت امير المومنين کے دس سال بعد تھا زیاد بن ابيہ ابتداء سے شيعوں سے قربت اور نزدیکی کے با وجود حاکم اور امير بننے کے بعد ان کا جانی دشمن تھا ۔
اگر یہی زیاد بن ابيہ جانتا کہ کوفہ ميں علی عليہ السلام کے شيعوں ميں بعض ایسے افراد موجود ہيں جو علی عليہ السلام کے بارے ميں ا لوہيت اور خدائی کے قائل ہيں یا دوسرے ایسے عقائد کے قائل ہيں جن کا سيف کی روایتوں ميں ذکر ہوا ہے ا ور ملل و نحل کے دانشوروں نے انهيں اپنی کتابوں ميں نقل کيا ہے تو وہ خود ان سے خبردار ہوتا اور حجر اور ان کے ساتھيوں کا خون بہانے کيلئے اس کے لئے بہترین بہانہ پيدا ہوجاتا جبکہ اس نے ا ن کے خلاف جرم ثابت کرنے ميں انواع و اقسام کے جھوٹ اور تہمت لگانے ميں کوئی کسر باقی نہيں رکھی تھی تو ان باطل عقائد اور خرافت پرمشتمل بيانات کے ا س زمانہ کے معاشرہ ميں موجود ہونے کا پورا پورا فائدہ اٹھاتا اور ان عقائد کو حجر اور ا سکے ساتھيوں سے منسوب کرنے ميں کوتاہی نہ کرتا بلکہ ان نسبتوں کو اپنے مقصد تک پہچنے کی راہ ميں بہترین وسيلہ قرار دیتا۔
اس کے علاوہ یہی عقائد اور باتيں خود معاویہ کيلئے بھی ان کی خونریزیوں کی توجيہ کيلئے بہترین وسيلہ قرار پآئیں اورا ن تہمتوں سے اپنے اعمال پر بہتر ین صورت ميں پردہ ڈال سکتا تھا اور ان افرادکا خون بہانے ميں یوں بہانہ تراشی اور توجيہ کرتا :“ چونکہ یہ لوگ سبئيہ تھے اور خلاف اسلام عقائد جيسے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی الوہيت کے قائل تھے لہذا ن کو قتل کرنا واجب ہے“
ليکن ہم دیکھتے ہيں کہ خود معاویہ اور اس کے آلہ کار زیاد نے ان لوگوں کو اس عقيدہ کے بارے ميں متہم نہيں کيا ہے اور ا س قسم کی نسبت ان کونہيں دی ہے ۔
لہذا یہ تاریخی حقيقت اس بات کی دليل ہے کہ اس زمانے ميں یہ عقائد اور باتيں مسلمانوں ميں بالکل وجود نہيں رکھتی تھيں اس زمانے ميں اس قسم کے مذہبی گروہ کو ان خصوصيات و عقائد کے ساتھ کہ ملل ونحل کے علماء نے چند صدیوں کے بعد اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے ،کوئی نہيں جانتاتھا حقيقت ميں اس زمانے ميں اس قسم کے کسی مذہبی گروہ کا روئے زمين پر بالکل ہی وجو دنہيں تھا بلکہ اس زمانے ميں لفظ “ سبائی ” کا ایسا معنی و مفہوم ہی نہيں تھا اور پہلی بار جس شخص نے اس لفظ ميں تحریف ایجاد کی اور اسے وسعت دیدی اور تمام دوستداران علی عليہ السلام کے بارے ميں اسے استعمال کيا ، وہ وہی زیاد بن ابيہ ہے جس نے حجر اوران کے ساتھيوں کے خلاف ترتيب دئے گئے شہادت نامہ ميں اس لفظ کو پہلی بار تحریف کرکے درج کيا اس کے بعد دوسروں نے زیاد کے اس غلط اور سياسی استعمال کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے جعل کئے گئے اور بے بنياد مذاہب کے ماننے والوں کيلئے اس لفظ کا استعمال کيا ہے اس موضوع کے بارے ميں اگلی فصل ميں بيشتر وضاحت کی جائے گی۔
لغت “سبئی ”ميں تحریف کاجائزہ
هذه النصوص تدل علی ان السبئية کانت نبزاً بالالقاب
تاریخ کی یہ صریح عبارت اس پر دلالت کرتی ہے کہ لفط “ سبئيہ ” تحریف ہونے کے بعد چند لوگوں کی سرزنش کے علاوہ کسی دوسرے معنی ميں استعمال نہيں ہوتا تھا۔
مؤلف اس سے قبل گزشتہ فصلوں ميں ہم نے بيان کيا کہ لفط ‘سبائی” پہلے قبائل یمن کا نام تھا بعد ميں سياسی وجوہات کی بناء پر تحریف کرکے ایک دوسرے معنی ميں بدل دیا گيا اور علی عليہ السلام کے شيعوں اور ان کے تمام دوستوں کی سرزنش اور ملامت کے طورپر ا ستعمال کيا گيا یہ تحریف مندرجہ ذیل چند مراحل ميں انجام پائی ہے۔
١۔ زیاد کے دوران
لفظ“ سبئی ” ميں پہلی تحریف زیاد کے دوران اسی کے توسط سے اس وقت انجام پائی جب اس نے حجر اور ان کے ساتھيوں کے خلاف شہادت نامہ لکھا ہم نے گزشتہ فصلوں ميں ا س روداد کی اس کے نفسياتی اور سياسی علل و محرکات کے پيش نظر تشریح کی ۔
٢۔ مختار کے د وران
مختار نے ابراہيم بن اشتر ہمدانی سبائی کی سرکردگی ميں قبائل سبئيہ کی مدد اور حمایت سے کوفہ پر قبضہ کيا اور حسين بن علی عليہ السلام کے بعض قاتلوں کو ، جيسے:عمر بن سعد قرشی ، شمر بن ذی الجوشن صبائی ، حرملہ بن کاہل اسدی ، منقذ بن مرہ عبدی اور کئی دیگر افراد،جو سب کے سب قبائل عدنان سے تھے کو کيفر کردار تک پہنچا کر قتل کردیا ۔
مختار اور اس کا سرکردہ حامی ابراہيم یہ دونوں ہی ان افرادکے ساتھ اس عنوان و دليل سے لڑتے تھے کہ وہ پيغمبر کے نواسے کے قاتل تھے اور اسی بات سے ان کے خلاف تبليغ کرتے تھے اور لوگوں کو ان کے خلاف اکساتے تھے ۔
ليکن اس دور کے بعد ایک دوسرے دورکاآغاز ہوتا ہے کہ اس دور ميں مختار کے دشمن اس کے خلاف بغاوت کرکے تلوار ، تبليغ اور جھوٹی افواہوں کے ذریعہ اس کے ساتھ جنگ کرتے ہيں اور بے بنياد مطالب کے ذریعہ اس پر تہمت لگاتے ہيں اور لوگوں کو اس کے خلاف شورش پر اکساتے ہيں اور اس کے طرفداروں کو نابودکرتے ہيں ۔
مختارپر تہمت لگاتے ہيں کہ وہ مقام نبوت او نزول وحی کا مدعی ہے ! اس کے ماننے والے اور ساتھيوں کو “ سبئيہ ” کہتے ہيں ان کا مقصود یہ تھا کہ مختار کے ساتھی اہل یمن اور قبائل سبا سے تھے جنہوں نے مختار اور اس کے طرز عمل پر ایمان لاکرا س کی جھوٹی دعوت اور دعویٰ کو قبول کيا ہے۔ طبری نے اس روداد کو اس طرح نقل کيا ہے۔
” شبث بن ربعی”
نے مختار کے لشکر کے ساتھ لڑتے ہوئے اس ميں سپاہيوں کے دو سپاہی حسان بن یخدج،اور سعر بن ابی سعر حنفی اور خليد کہ جو آزاد کردہ حسان بن یخدج تھا، کو اسير بنایا شبث نے خليد سے پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا: حسان بن یخدج ذهلی کا آزادکردہ خليدہوں ۔
شبث نے کہا: اے متکاء
کے بيٹے ! کوفہ کے گھور پر نمک چهڑکی ہوئی مچھياں بيچنے کو ترک کرکے باغيوں سے جاملے ہو ؟ کيا تجھے آزاد کرنے والوں کی جزا یہی تھی کہ تلوار اٹھا کر ان کے خلاف بغاوت کرو گے اور ان کے سر تن سے جدا کرو گے ؟ اس کے بعد شبت نے حکم دیا کہ اس کی اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کردیں او را سی لمحہ اسے قتل کردیا گيا ۔
پھر شبث نے سعد حنفی کے چہرہ پر نظر ڈالی اور اسے پہچان کر کہا: کيا تم خاندان حنفيہ سے ہو؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ۔ شبث نے کہا: افسوس ہو تم پر ! ان سبائيوں کی پيروی کرنے اور ان سے ملحق ہونے ميں تيرا مقصد کيا تھا ؟ بے شک کتنے تنگ نظر ہو تم اس کے بعد حکم دیا اور اسے آزاد کيا گيا ۔
جيسا کہ ہم نے کہاکہ یہ گفتگو صراحت سے اس مطلب کو واضح کرتی ہے کہ تعبير “سبئيہ ” صرف قبائل “سبائيہ” کی متابعت و پيروی کرنے کے مفہوم ميں ا ستعمال ہوتا تھاا ور اس تعبير کے علاوہ کسی اور معنی و مفہوم ميں استعمال نہيں ہوتا تھا کيونکہ شبث بن ربيعہ قبيلہ تميم کے خاندان یربوع سے تھا اورسعر بن ابی سعر بھی قبيلہ بکر کے خاندان حنفيہ بن لجيم سے تھا اور دونوں قبيلے عدنان سے منسوب تھے ۔ شبث بن ربعی نے باوجود اس کے کہ سعر عدنانی ہے ليکن مختار کے پيرو یمنی سبائيوں کی پيروی کرنے کی وجہ سے ان کی سرزنش اور ملامت کرتاہے اور اسے بھی سرزنش کے عنوان سے سبئيہ کہتا ہے:
مختار کی شکست کهانے کے بعد ان کے دشمنوں او رمخالفين --جو قبيلہ عدنان سے تھے --- نے حکومت کی باگ و ڈور سنبھالی اور لوگوں پر مسلط ہوگئے عراق کے تمام شہروں ميں سرگرم ہوئے اور اپنی حکومت اور تسلط کو مضبوط کردیا ، ليکن اس کے باوجود اپنے دشمنوں اور ان کی فکروں کو بالکل سے نابود نہيں کرسکے جو قبائل سبئيہ سے تھے وہ اکثر علی عليہ السلام کے شيعہ او ران کے دوستدار تھے بلکہ انہوں نے کبھی سپاہ توابين کے نام پر سليمان بن صرد خزاعی کی سرکردگی ميں مختار سے پہلے بغاوت کی ،اور کبھی علویوں کے پر چم تلے مختار کے بعد اپنے مخالفين سے جنگ کی ۔
____________________