عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے17%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24626 / ڈاؤنلوڈ: 4221
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

نتيجہ:

جو کچھ اس تحریر سے مجموعی طور پر معلوم ہوتا ہے اور لفط سبئی کے مختلف مراحل ميں استعمال ہونے سے استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ در حقيقت یہ لفظ یمن کے قبائل ميں سے ایک قبيلہ کا نام تھا ، اس کے بعد مختلف ادوار ميں وقت کی حکومتوں کے توسط سے ، وہ بھی کوفہ اور اسکے اطراف ميں تحریف ہوا ہے اور علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے شيعوں اور ان کے چاہنے والے گروہ کی سرزنش و ملامت کے عنوان سے استعمال ہوا ہے یہ لفط اس زمانے ميں کسی بھی قسم کا مذہبی مفہوم اور دلالت نہيں رکھتا تھا ، جيسا کہ بعد کے ادوار ميں اس قسم کا استدلال کيا گيا ہے بلکہ اس زمانے ميں اصلاً کوئی اس نام کے کسی مذہبی فرقے کو نہيں جانتا تھا ليکن بعد ميں ا س لفظ ميں ایک دوسری تحریف رونما ہوئی کہ اپنے اصلی اور پہلے معنی اور دوسرے معنی سے بھی ہٹ کر ایک تيسرے معنی ميں تحریف ہوکر ایک نئے مذہبی گروہ کے بارے ميں استعمال ہوا ہے اس قسم کے نئے مذہبی گروہ کا ان عقائد و افکار کے ساتھ اسلام ميں کہيں وجود ہی نہيں تھا ہم اگلی فصل ميں اسکے بارے ميں مزید وضاحت سے روشنی ڈاليں گے۔

سيف کے افسانہ ميں “ سبئيہ ” کے معنی

ان السبئيين اتباع عبدالله ابن سبا

سبئی ایک گروہ ہے جنہوں نے عبدالله بن سبا کے عقيدہ کی پيروی کی ہے

سيف بن عمر

افسانہ سبئيہ لفط “ سبئيہ ” کی حالت زیاد بن ابيہ کے دور سے لے کر دوسری صدی ہجری کے اوائل تک وہی تھی جسے ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بيان کيا ، یعنی یہ لفظ تنقيد او سرزنش کے عنوان کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہبی و اعتقادی مفہوم ميں استعمال نہيں ہوتا تھا اور وہ بھی صرف کوفہ اور اسکے اطراف ميں ، یہاں تک کہ دوسری صدی ہجری کے اوائل ميں کوفہ کا ایک باشندہ “ سيف بن عمر ، تميمی” نامی خاندان عدنان کے ایک شخص نے “ افسانہ سبئيہ ” جعل کيا اسی نے اپنے اعلی افسانہ ميں ‘ سبئيہ ” کے مفہوم اوردلالت کو قبيلہ کے نام سے --- تحریف کرکے عبدالله بن سباکی پيرو ی کرنے والے ایک مذہبی فرقہ سے منسوب کيا -

--عبدالله بن سبا کو بھی ایک ایسے شخص کے قيافہ ميں پيش کيا ہے کہ پہلے یہودی اور اہل یمن عثمان کی حکومت کے دوران اسلام قبول کيا ہے اور اس نے وصایت او ررجعت کاعقيدہ ایجاد کيا ہے۔

سيف نے اپنے جعل کئے گئے اس افسانہ ميں کہا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس افسانوی عبدالله بن سبا کی پيروی کی ہے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے بعض خاص اصحاب جو علی ابن ابيطالب کے پيرو اور شيعہ تھے نے ، علی عليہ السلام کے پيروکاروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ اس کی روش اور طریقہ کا رکو اپنایا، عبدالله بن سبا کی پيروی کرنے کی وجہ سے یہ سب لوگ “سبئيہ ” کہے جاتے ہيں ۔

سيف کے کہنے کے مطابق، عثمان کو قتل کرنے والے اور علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی بيعت کرنے والے بھی وہی “سبائی ” اور عبدالله بن سبا کے پيرو تھے ۔

بقول سيف یہی سبائی تھے جنہوں نے جنگ جمل ميں طرفين کے درميان انجام پانے والی صلح کو جنگ و آتش کے شعلوں ميں بدل دیا اور علی عليہ السلام و عایشہ کے فوجيوں کو آپس ميں ٹکرایا، ان تمام مطلب کو سيف نے اپنی کتاب“ الجمل و مسير علیّ عليہ السلام و عائشة ” ميں ثبت و درج کيا ہے یہ افسانہ دوسری صدی ہجری کے اوائل ميں سيف کے توسط سے جعل کيا گيا ہے چونکہ اس افسانہ کا نقل کرنے والا تنہا سيف تھا اسلئے اس نے اشاعت اور رواج پيدا نہيں کيا ،

یہاں تک کہ بزرگ مؤرخيں جيسے طبری ( وفات ٣١٠ هء) نے اس افسانہ کو سيف کی کتاب سے نقل کرکے اپنی تاریخ ميں درج کيا ہے تو اس کو بے مثال اشاعت اور شہرت ملی ۔

” سبئيہ ” کی تاریخ پيدائش ، شہرت اور جدید معنی:

عبدالله بن سبا اور گروہ “ سبئيہ ” کے بارے ميں سيف کے افسانہ کی شہرت اور رواج پانے سے پہلے یہ لفط صرف قبائل سبئی پر دلالت کرتا تھا جيسا کہ ہم نے اس مطلب کو صحاح ششگانہ کے مؤلفين سے نقل کی گئی روایتوں ميں مشاہدہ کيا۔

زیاد بن ابيہ ، مختار اور ابوالعباس سفاح کے زمانے ميں یہ لفط صرف کوفہ ميں کبھی قبائل سبئيہ --جو علی عليہ السلام کے شيعہ تھے --- سرزنش کے القا ب کے طور پر استعمال ہوا ہے ليکن سيف کے افسانہ کو اشاعت ملنے کے بعد یہ جملہ ایک نئے مذہبی گروہ سے منسوب ہوکر مشہور ہو اجس گروہ کا بانی عبد الله بن سبایہودی تھا۔ اس تاریخ کے بعد اس لفظ کا استعمال اپنے اصلی اور پہلے معنی جو قبائل سبائيہ سے منسوب تھا اور اسکے دوسرے معنی ميں کہ حکومت کے مخالفين کی سرزنش ميں استعمال ہوتا تھا رفتہ رفتہ متروک اور فراموش ہوا اور اسی جعلی مذہبی معنی ميں مخصوص ہو ااور اس معنی ميں شہرت پائی(۱) اور سيف نے اس حکم کو پہلے اپنے افسانہ ميں صرف ایک فرقہ کا نام رکھا تھا کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی وصایت اور خلافت بلا فصل کے قائل تھے ليکن بعد ميں اپنے دوسرے افسانوں ميں جنہيں اسی جعلی فرقہ اور گروہ کے بارے ميں گڑه ليا ہے ایک دوسرے معنی ميں تبدیل کرکے اس گروہ کيلئے استعمال کيا ہے جو علی عليہ السلام کے بارے ميں آپ کی الوهيت اور خدائی کے قائل ہيں ۔

____________________

١۔ اس تحقيق سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ‘ سبئيہ ” تين مرحلوں ميں تين مختلف معنی ميں استعمال ہوا ہے اس اصلی معنی یمن کے ایک قبائل کا نام تھا اس کا دوسر اور سياسی معنی حکومت زیاد ، ابن زیاد اور سفاح کے دوران صرف کوفہ ميں رائج تھا اور اس کا مذہبی معنی کہ ایک جدید مذہبی گروہ کا نام ہے سيف کے افسانہ کے شائع ہونے کے بعد رائج ہوا اور اسی نا م سے مشہور ہے

اس تبدیلی او رتغيرکی تشریح سيف بن عمرو دوسری صدی کے اوائل ميں کوفہ ميں ساکن تھا اس نے اپنے افسانوں کو اسی زمانہ ميں جعل کيا ہے اس جھوٹ اور افسانہ سازی ميں اس کا محرک درج ذیل دو چيزی تھيں :

١۔ قبائل قحطانی یمنی سے س کا شدید تعصب کہ جو قبائل عدنانی کے مقابلہ ميں تھا اورخود بھی قبائل قحطانی سے منسوب تھا۔

٢۔ زندیقی ، بے دینی اور اسلام سے عداوت رکھنے کی بنا پر تاریخ اسلام کو مشوش اور درہم برہم کرنا۔

وضاحت :

علی ابن ابيطالب کے دوستدار او رشيعہ قبائل قحطانی یمنيوں پرمشتمل تھے ۔ یہ قبائل بھی وہی سبئيہ ہيں کہ عدنانيوں کے مقابلے ميں قرار پائے تھے اور علی عليہ السلام کے زمانہ سے بنی اميہ کی حکومت کے زمانہ تک ہميشہ دقت کی ظالم حکومتوں کے ساتھ کھلم کھلا مخالفت کرتے تھے ۔

خاص کر خاندان اميہ کی حکومت کی ---سيف ذاتی طورپر اس حکومت کا حامی تھا ---

عدنانيوں کے بالکل برعکس قبائل سبئی معتقد تھے کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کو اپنا وصی معين فرمایا ہے یہ تھی کلی طور پر عدنانی قبيلوں کے مقابلے ميں قحطانی یاسبائی قبيلوں کی اعتقادی خصوصيات اور سياسی موقعيت دوسری طرف سيف بن عمر اپنے شدید خاندانی تعصب و عداوت اور زندیقی ہونے کی وجہ سے قبائل سبئی قحطان کو لوگوں ميں منحرف خود غرض مرموز اور نادان کے طو رپر تعارف کراتا ہے اور ایسے مسائل و موضوعات ميں ان کے عقيدہ کو بے اعتبار اور بے بنياد دکھاتا ہے ۔

سيف نے اسی مقصد کے پيش نظر عبدالله بن سبا کے افسانہ کو جعل کيا ہے اسے صنعا کا باشندہ بتایا ہے اور کہاہے : علی عليہ السلام کی وصایت کا بانی اور سرچشمہ وہی عبد لله بن سبا تھا نہ پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم “سبئيہ ” یہ وہی گروہ ہے جو اس عقيدہ ميں عبدالله بن سبا کی پيروی کرتے ہيں سيف نے افسانہ کو جعل کرنے کے بعد مسلمانوں کے ذہن ميں انحراف و بدبينی ایجاد کی اوراپنے افسانہ ميں اکثر بزرگ اصحاب جو علی عليہ السلام کے شيعہ تھے کو اپنے جعل کئے گئے تازہ مذہبی گروہ سے مربوط دکھایا اور ابوذر ، عمار یاسر، حجر بن عدی ، صعصعہ بن صوحان عبدی ، مالک اشتر ، کميل بن زیاد ، عدی بن حاتم ، محمد بن ابی بکر ، محمد بن ابی حذیفہ اور دیگر مشہور و معروف افراد کو اس گروہ کے اعضاء اور سردار کے طور پر پيش کيا ہے۔

اگر خود سيف کے زمانہ ميں کوفہ ميں لفط “ سبئيہ ” کامعنی و مفہوم علی عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی ہوتا تو سيف ہرگز اسے نقل کرنے ميں کوتاہی نہيں کرتا اور اسے اس صور ت ميں ضرورت ہی نہيں تھی تا کہ ایک نيا افسانہ گڑه کر علی عليہ السلام کے بارے ميں پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی وصيت کے موضوع ميں اپنے مد نظر افراد کی سرزنش کرنے کيلئے سبائيوں کے عقيدہ ميں شامل کرتا ،کيونکہ علی عليہ السلام کی الوہيت کے عقيدہ کا مسئلہ تنقيد اور سرزنش کے طورپر علی ابن ابيطالب کی خلافت و وصایت کے مسئلہ کے مقابلے ميں بيشتر مؤثر اور کارگر ثابت ہوتا۔

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے تيسری صدی ہجری کے اواخر تک کسی کتاب ميں لفظ سبئيہ کے بارے ميں قبائل یمانی سے منسوب ہونے اور افسانہ عبدالله بن سبا ميں ذکر کئے گئے معنی ----یعنی سبئيہ ایک ایساگروہ ہے جوعلی عليہ السلام کی وصایت و خلاقت کے قائل ہيں ----کے علاوہ کوئی اور معنی نہيں پایا ۔

ليکن تيسری صدی کے اواخر او رچوتھی صدی کے اوائل کے بعدعلمائے ادیان و عقائد کی ملل و نحل کے عنواں سے لکھی گئی کتابوں اور تاليفات ميں درج کيا گيا ہے کہ عبدالله بن سبا اور اس کے پيرو ---جو سبئيہ کے نام سے معروف ہيں ---معتقد ہيں کہ علی عليہ السلام قتل نہيں کئے گئے ہيں بلکہ وہ کبھی نہيں مریں گے وہ خد ارہيں ۔ اور حضرت نے عبد الله بن سبا یا اس کے طرفداروں کو اسی عقيدہ کی وجہ سے آگ ميں جلادیا ۔

پس جيسا کہ ملاحظہ فرمارہے ہيں سبئيہ کے مفہوم و معنی نے قبائل یمن سے تدریجا بعض افراد کيلئے سرزنش کے مفہوم ميں تغير دیا اور اس کے بعد ایک نئے مذہبی گروہ سے منسوب معنی ميں تبدیل ہوا ہے کہ علی عليہ السلام کی وصایت و خلافت کے قائل ہيں پھر ایک دوسرے مذہبی گروہ کے مفہوم ميں تبدیل ہو اکہ علی عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی کے قائل ہيں اور اس کے بعد “ سبيئہ ” اور “ابن سبا ” کے سلسلہ ميں بہت سے افسانے پائے گئے ہيں ۔

جعل کا محرک اور ترویج کا عامل

دیکھنا چاہئے یہ تغير و تحول کيسے وجو د ميں آیا ہے ؟ یہ بے بنيا دمطالب کيوں گڑه

لئے گئے ہيں ؟ ! اور یہ مطالب مسلمانوں کی کتابو ں ميں کس طرح رواج پائے ہيں ؟!

ا ن مطالب کی وضاحت ميں ہميں کہنا چاہئے کہ : سيف بن عمر نے افسانہ “ سبئيہ ”

اور دوسرے افسانوں کو جعل کرکے یہ چاہا ہے کہ اپنے قبائل کے سرداروں اور بزرگوں ---عدنان جوہر دور ميں صاحب اقتدارا ور حکومت تھے --خلفائے راشدین سے لے کر امویوں تک سب کی حمایت و دفاع کرے اور انہيں ان پر کئے گئے اعتراضات سے بری الذمہ قرار دے او اس کے مقابلے ميں تمام برائيوں اور گناہوں کو قبائل قحطان سبئی کے افراد کے سر تهونپنے اور انهيں دبانے جو عدنانيوں اور وقت کی حکومتوں کا مخالف محاذ تشکيل دیتے تھے سيف نے اس طریقہ سے اپنے قبيلہ عدنان او ر صاحبان اقتدار و سطوت کی توجہ اور تائيد حاصل کی ہے اور انهيں اپنی افسانہ سازی کے ذریعہ راضی او رخوشحال کياہے اور اپنے افسانوں کے ذریعہ صاحب اقتدار و حکومت اصحاب کو دفاع و بچاؤ کا لباس زیب تن کيا ہے اس کے علاوہ اپنے افسانوں کو اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی طرفداری کے زیور سے مزین کيا ہے ا س طرح اسلام کی پہلی صدی کے مشاہير اور صاحب قدرت اصحاب پر کی جانے والی تنقيد اور اعتراضات کا دفاع کيا ہے لهذااس روش کی وجہ سے اس کے افسانے ہر زمانے ميں عام لوگوں ميں قابل قبول پسندیدہ قرار پائے ہيں اور قدرتی طور پر عوام کی طرف سے اپنے افسانوں کے بارے ميں طرفداری اور حمایت حاصل کرنے ميں کامياب ہوا ہے سيف نے ا س طرح اپنے افسانوں کی ترویج کی ضمانت فراہم کی ہے اور وقت کے گزرنے کے ساتھ جعليات کی اشاعت کيلئے بنيادی تحفظ حاصل کرنے ميں بھی کامياب ہوا ہے۔

یہی سبب ہے کہ سيف کی کتاب ‘ ‘ جمل ” جس ميں افسانہ عبدالله بن سبا ہے ،

شائع ہونے کے بعد ہاتھوں ہاتھ منتشر ہوئی اور اس کے افسانے وسيع پيمانے پر نقل ہوئے اور قلم بھی حرکت ميں آئے اور ان افسانوں کو اس کی کتاب سے نقل کرکے دوسری کتابوں ميں درج کيا گيا اور اس کے بعد جو کچھ افسانہ “ سبئيہ ” کے بارے ميں طبری جيسے مورخين نے اپنی تاریخ کی کتابوں ميں درج کيا تھا اسی کمی وبيشی کے بغيراسی صور ت ميں باقی رہا اور بعد والی نسلوں تک منتقل ہوا۔

افسانہ سبئيہ ميں تغيرات

افسانہ عبدالله بن سبا جس صورت ميں لوگوں کی زبانوں پر رائج اور عام ہواتھا وہ ایک عاميانہ صورت کا افسانہ تھا اس نے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ رشد و پروورش پائی اور اپنے لئے ایک وسيع تر ین دائرہ کا آغاز کيا او ر اس ميں کافی تبدیلياں ہوگئيں یہاں تک کہ افسانہ ابن سبا دو افسانوں کی صور ت اختيار کرگيا۔

پہلا: وہ افسانہ ، جسے سيف نے جعل کياتهاا ور کتابوں ميں درج ہوچکا تھا۔

دوسرا: وہ افسانہ جو سيف کے افسانہ ميں تغيرات ایجاد ہونے کے بعد لوگوں کی زبانوں پر جاری تھا یہ اس زمانے سے مربوط ہے کہ ملل و نحل کے علماء نے لوگوں کے عقائد و مذاہب کے بارے ميں کتابيں لکھنا شروع کی تھيں يہ علما ء فرقوں اور مذہبی گروہوں کی تعداد بيان کرنے ميں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے ميں بڑی دلچسپی رکھتے تھے اپنی کتابوں ميں جو کچھ مذہبی فرقوں کے بارے ميں لکھتے تھے ان کے مآخذ وہی ہوتے تھے جو ان کے زمانہ کے عام لوگ تصور کرتے تھے عقيدوں کے بارے ميں جو کچھ یہ مصنفين لوگوں سے سنتے تھے ان گروہوں اور فرقوں کے حالات کی تشریح ميں حقائق کی صورت ميں ا ن ہی مطالب کو اپنی کتابوں ميں درج کرتے تھے اور اس طرح مذہبی گروہوں اور عقائد اسلام ميں تحریف و نقليات کے بارے ميں کسی قسم کی تحقيق اور تجسس کئے بغير اضافہ کرتے تھے اس کے بعد لغت کے مؤلفين ، جيسے: ابن قتيبہ ، ابن عبدربہ پيدا ہوئے اور ادب کی مختلف فنون اور تاریخ پر کتابيں لکھيں ۔

ان مؤلفين نے مذہبی فرقوں کے بارے ميں عام لوگوں سے جمع کرکے ملل و نحل کی کتابوں ميں درج کی گئی روایتوں کو نقل کرکے اپنی کتابوں ميں ثبت کيا ہے اور ان کی سند و متن کے بارے ميں کسی قسم کی کوئی تحقيق نہيں کی ہے ۔

ا ن کے بعد والے مؤلفيں ، جيسے ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ نے مذکورہ کتابوں سے ان مطالب کوکسی تحقيق و تصدیق کے بغيراپنی کتابوں ميں نقل کيا ہے اسی سليقہ اور روش کے مطابق بعض مؤلفين نے سبيئہ کی داستان کو لوگوں کی زبانی سنی سنائی صورت ميں حاصل کرکے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے اور اس طرح یہ افسانے لوگوں کی زبان سے کتابوں ميں داخل ہوئے ہيں ا ور ایک کتاب سے دوسری کتا ب ميں منتقل ہوئے ہيں اس طرح عبدالله بن سبا کا افسانہ جو ایک افسانہ تھا رفتہ رفتہ دو افسانہ بن گيا:

پہلا: سيف کا افسانہ جو اپنی پہلی حالت ميں باقی ہے ۔

دوسرا: وہ افسانہ جو عام لوگوں کی زبانوں پرتها،وقت گزرنے کے ساتھ نقل و انتقال کی تکرار سے تغير پيدا کرکے نشو نما پاچکا ہے اور افسانہ عبدالله بن سبا ميں اس تغير و تحول کے نيتجہ ميں جو تبدیلياں رونما ہوئی ہيں ا س کے پيش نظر خود عبدالله ابن سبا بھی دو شخصيتوں کے طور پر ابهرکرسامنے آیاہے اس طرح مؤلفين کے لئے غلط فہمی اور تشویش کا سبب بنا ہے انشاء الله ہم اگلی فصل ميں اس پر روشنی ڈاليں گے۔

عبدلله ابن سبا کون ہے ؟

ولم نجد فی کتاب نسب عبدالله بن سبا

ہم نے ہزاروں کتابيں چهان ليں ليکن عبدالله بن سبا کے نسب کے بارے ميں کوئی نام و نشان نہيں پایا۔

مؤلف

ہ م نے اپنے بيان کے آغاز ميں کہاہے کہ کتاب کے اس حصہ ميں تين لفظوں کے بارے ميں تحقيق کریں گے:

”سبئيہ” ، “ عبدالله بن سبا ’ اور “ ابن سودا“

ہم گذستہ فصلوں ميں “ سبئيہ ” کی حقيقت اور اس کلمہ کے معنی ميں مختلف ادوار ميں تغير و تحول اور اس کے اصلی معنی سے سياسی معنی ميں اور سياسی معنی سے مذہبی معنی ميں اسکی تحریف سے آگاہ ہوئے اب ہم اس فصل ميں عبدالله بن سباکی حقيقت پر تحقيق کرنا چاہتے ہيں تاکہ اس افسانوی سورما کو اچھی طرح پہچان سکيں ۔

عبدالله بن سبا کا نسب ،پہلے مرحلہ کی کتابوں ميں :

لفط “ عبدالله بن سبا” چار لفظوں : “ عبد” ، “الله” ،“ ابن ”، و “ سبا” پر مشتمل ہے ۔ یہ چاروں لفظ عربی زبان سے مخصوص ہيں ۔ یہ ایک مضبوط دليل ہے کہ یہ باپ بيٹے یعنی ‘ ‘

عبدالله ” و “سبا” دونوں عرب ہيں ۔ اس افسانہ کو جعل کرنے والا یعنی سيف بن عمر بھی عبدالله بن سبا کو واضح طورپر اہل صنعا (یمن) ہی بتاتاہے اور تمام مؤرخين اور مولفين نے ابن سبا کی سرگرميوں اور نشاط کا دور عثمان بن عفان اور علی ابن ابيطالب عليہ السلام کا زمانہ معين و محدود کياہے اس کيلئے جس سرگرمی اور فعاليت کے زمانے کا ذکر کيا گيا ہے وہ پہلی صدی ہجری کی چوتھی دہائی سے بيشتر نہيں ہے اور عبدالله ابن سباکے بارے ميں جتنے بھی افسانے اور داستانيں ملتی ہيں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کا معروف و مشہور شخص تھا۔

ان تين تمہيدات کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ عبدالله بن سبا ایک عرب اور ایک عرب کا بيٹا تھا اورپہلی صدی ہجری کی چوتھی دہائی کے دوران حضرت عثمان اورعلی عليہ السلام کے زمانے ميں جزیرة العرب ميں زندگی گزارتا تھا اور مسلمانوں کے سياسی اور دینی مسائل ميں نمایاں سرگرمی انجام دیتا تھا، اسی لئے وہ اس زمانے کا ایک معروف و مشہور شخص تھا۔

یہاں پر ایک ناقابل حل مشکل پيش آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جزیرة العرب ميں اسلام کی پہلی صدی ميں اموی خلافت کے زمانے تک کوئی ایسا عرب مرد تاریخ ميں نہيں ملتا ہے کہ اس کا نام ، اس کے باپ کا نام ااور رہائش کی جگہ کا نام اور اس کی سرگرمياں معلوم ہوں ،معروف و مشہور اور لوگوں کا فکری قائد بھی ہو ، ليکن اس کے جد اور شجرہ نسب نامعلوم ہو!

کيونکہ عرب اپنے شجرہ نسب کے تحفظ ميں اتنی غير معمولی سرگرمی اور دلچسپی دکھاتے تھے کہ ان کی یہ سرگرمی غلو اور افراط کی حد تک بره گئی تھی ، یہاں تک کہ نہ صرف افرادکے انساب کے بارے ميں خود دسيوں کتابيں تاليف کرچکے ہيں بلکہ اپنے گھوڑوں کے انساب کے تحفظ کے سلسلے ميں بھی خاص توجہ رکھتے تھے کہ یہاں تک بعض دانشوروں نے گھوڑوں کے شجرہ نسب کے بارے ميں کتابيں لکھی ہيں جيسے : ابن کلبی ( وفات ٢٠ ۴ هء)

گھوڑوں کے نسب کے بارے ميں اس کی کتاب “ انساب الخيل ” موجود ہے اس وقت اسلام کے اس زمانے کی تاریخ ،تشریح ، انساب اورتمام فنون وادب کے بارے ميں ہزاروں جلد قلمی اور مطبوع کتابيں ہمارے اختيار ميں ہيں اور ان کتابوں ميں سے کسی ایک ميں بھی عبدالله بن سبا کے شجرہ نسب کے بارے ميں کوئی نام و نشان نہيں ملتا ہے ۔

پس عبدالله بن سباکون ہے ؟ اس کے جد کا نام کيا ہے ؟ اس کے آباء و اجداد کون ہيں ان کا شجرہ نسب کس سے ملتا ہے ؟ اور وہ کس قبيلہ اور خاندان سے تعلق رکھتا تھا؟

ا تنے علماء اور دانشوروں اور مؤلفين نے عبدالله بن سبا سے متعلق افسانوں اور داستانوں کو درج کرنے ميں نمایاں اہتمام کيا ہے ليکن کيا وجہ ہے کہ اس کے باوجود مذکورہ موضوع کے بارے ميں انہوں نے خاموشی اختيار کی ہے اورا س کے شجرہ نسب کے بارے ميں کسی قسم کا اشارہ تک نہيں کيا ہے اور نہ اس کے بارے ميں کوئی مطلب لکھا ہے ؟!

ہم جو دسيوں سال سے مختلف اسلامی موضوعات کے بارے ميں مدارک و مآخذ کے سلسلہ ميں تحقيق و تفتيش کررہے ہيں ، تا بہ حال اس سوال کا جواب کہيں نہيں پایااور عبد الله بن سبا کا اس موضوع کے بارے ميں کہيں کوئی نام و نشان نہيں ملا ہے ۔

عبدالله بن سبا کون تھا؟

ابن قتيبہ ( وفات ٢٧ ۶ ء ه) کی کتاب ‘ الامامة و السياسة ” ميں آیا ہے:

فقام حجر بن عدی و عمر بن الحمق الخزاعی و عبدالله بن وهب الراسبی علی علی فاسئلوہ عن ابی بکر و عمر ”(۱)

اور ثقفی -( وفات ٢٧٣ هء) اپنی کتاب “ الغارات” ميں لکھتا ہے :

____________________

١۴٢ / ١۔ الامامة و السياسة ج ١

دخل عمرو بن الحمق و حبة العرنی و الحارث بن الاعور و عبدالله بن سبا علی امير المؤمنين بعدما افتتحت مصر و هو مغموم حزین فقالوا له: بين لنا ما قولک فی ابی بکر و عمر ” ٢

ان دو کتابں ميں آیا ہے کہ امير المؤمنين کے چند اصحاب حضرت کے پاس گئے اور حضرت ابوبکرو عمر کے بارے ميں سوال کيا ، کتاب الامامة و السياسة ميں ان افراد ميں عبدالله وهب راسبی کا ذکر کيا ہے اور ثقفی کی کتاب “ غارات” ميں عبدالله بن سباکا نام ليا گيا ہے کہ ظاہر ميں آپس ميں اختلاف رکھتے ہيں اور اس اختلاف کو بلاذری ( وفات ٢٧٩ هء) نے انساب الاشراف ميں جعل کيا ہے اس نے داستان کو یوں نقل کيا ہے:

حجر بن عدی الکندی و عمرو بن الحمق الخزاعی و حبة بن جوین الجبلی ثم العرنی وعبدالله بن وهب الهمدانی و هوابن سبا فاسئلوه عن بی ابی بکر و عمر ”(۱)

بلاذری اسی داستان کو بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : اور عبدالله بن وهب وہی ابن سبا ہے اس بنا پر عبدالله بن سبا، عبد الله بن وهب ہے ۔

سعد بن عبدالله اشعث ( وفات ٣٠٠ هء یا ٣٠١ هء) نے اپنی کتاب “ المقالات و الفرق”

ميں یہی بات بيان کی ہے جہاں پر غالی اورانتہا پسند گروہوں کے بارے ميں کہتا ہے : “ غلو کرنے والوں ميں پہلا گروہ جس نے افراط اور انتہا پسندی کا راستہ اختيار کيا اسے سبئيہ کہتے ہيں وہ عبدالله بن سبا کے پيرو ہيں کہ جو عبدالله بن وهب راسبی ہے“

مزید کہتا ہے : مذکورہ غالی گروہوں ميں سے ایک “ سبيئہ ” ہے اوروہ عبدالله بن سباکے پيرو ہيں ابن ماکولا ( وفات ۴ ٧ ۵ هء) اپنی کتاب “ الاکمال” ميں لفظ “ سبئی ” کے ضمن ميں سبائيوں کی تعداد کے بارے ميں لکھتا ہے کہ :“سبائيوں ” ميں سے ایک عبدا لله بن وهب سبئی ، رئيس خوارج ہے “ ذهبی ( وفات ٧ ۴ ٨ ئه اپنی کتاب “المشتبہ ” ميں لفط سبئی کے ضمن ميں کہتا ہے : “ عبدالله بن وهب سبئی خوارج کا رئيس اور سرپرستتھا “ذہبی اپنی دوسری کتاب “ العبر” ميں جہاں پر ٣٨ هء کے حوادث بيان کرتا ہے کہتا ہے : “اس سال علی عليہ السلام اور خوارج کے درميان جنگ نہروان چهڑ گئی اور اسی جنگ ميں خوارج کا رئيس و سردار عبدالله بن وهب سبائی قتل ہوا ۔

ابن حجر ( وفات ٨ ۵ ٢ هء )اپنی کتاب ‘ تبصير المتنبہ ” ميں کہتا ہے : “ سبائی ایک گروہ ہے ان ميں عبدالله بن وهب سبائی سرداراور سرپرست خوارج ہے“

____________________

)٣٠٢ / ٢۔ الغارات ، ثقفی ، انتشارات انجمن آثار ملی نمبر ١١۴ ( ج ١

٢٨٣ ) طبع مؤسسہ اعلمی بيروت ١٣٩۴ ئه۔ / ١۔ انساب الاشراف ج ٢

مقریزی ( وفات ٨ ۴ ٨ ئه) اپنی کتاب “ الخطط” ميں کہتا ہے :“علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے زمانے ميں “ عبدالله بن وهب بن سبا” معروف بہ “ ابن السوداء سبئی ” نے بغاوت کی اور اس عقيدہ کو وجود ميں لایا کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اپنے بعد علی ابن ابيطالب عليہ السلا م کو وصی وجانشين مقرر کيا اور انهيں امامت کيلئے معين فرمایا ہے اور پھر اس عبدالله بن سبا نے پيغمبر ا و ر علی عليہ السلام کی رجعت کا عقيدہ بھی مسلمانوں ميں ایجاد کرکے یوں کہا: علی ابن ابيطالب عليہ السلام زندہ ہيں اور خدا کا ایک جزء ان ميں حلول کرگيا ہے اور اسی “ ابن سبا” سے غالی ، انتہا پسند اور رافضيوں کے مختلف گروہ وجود ميں آئے ”۔

عبدالله بن سبا وہی عبدالله بن وهب ہے:

گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے مطالب کے پيش نظر یہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر یہ عبدالله کون ہے ؟ اس کا شجرہ نسب کہاں اور کس شخص تک پہنچتا ہے ؟ اور اس کی داستان کيا تھی ؟

جو کچھ تحقيق او ر جانچ پڑتال کے بعد ان سوالوں کے جواب ميں کہاجاسکتاہے وہ یہ ہے کہ:

وہ عبدالله بن وهب بن راسب بن مالک بن ميدعان بن مالک بن نصر الازدبن غوث بن بنت مالک بن زید بن کہلان بن سبا ہے ۔چونکہ اس کا نسب راسب ، ازد اور سبا تک پہنچتا ہے اسے سبائی و ازدی و راسبی کہا جاتا ہے:

عربی زبان ميں خاندان کی طرف نسبت دینا باپ سے نسبت دینے سے مترادف ہے کہتے ہيں : بنیہاشم و بنی اميہ ہاشم کے بيٹے اور ا ميہ کے بيٹے یہاں پر قبيلہ کے تمام افرادکو خاندان سے نسبت دی گئی ہےکبھی ایک نامور شخص کو خاندان سے نسبت دیتے ہيں جيسے پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کو کہتے ہيں “ ابن ہاشم” بجائے ا سکے کہ کہيں ابن عبدالله اور آنحضرت کو اپنے باپ سے نسبت دیتے ۔

اسی قاعدہ کے مطابق عبدالله بن وهب سبائی کو اپنے خاندان سے نسبت دیکر ابن سبا کہا ہے علمائے نسب شناس کا مقصود ابن سبا بھی یہی ہے کہ عبدالله بن وهب کے بارے ميں ذکرکيا ہے اب ہم تحقيق کریں گے کہ یہ عبدالله بن وهب راسبی سبائی جسے ابن سبا کہاگيا ہے کون تھا ؟

یہ عبدالله سبائی “ ذی الثفنات ”یعنی گھٹے دارکا لقب پایا ہے کيونکہ کثرت سجود کی وجہ سے اس کے ہاتھ اور زانو پر اونٹوں کے زانوں پر گھٹوں کے مانند گھٹے پڑگئے تھے ۔

یہ عبدالله سبائی علی ابن ابيطالب کی جنگوں ميں حضرت عليہ السلام کی رکاب ميں تھا جب جنگ صفين ميں حکميت کی رودا دپيش آئی اور خوارج کے بعض افراد نے علی عليہ السلام سے مخالفت کی اور ان کے مقابلہ ميں محاذ آرائی کی ، عبدالله بھی ان کے ساتھ تھا اس شخص کے دل ميں علی عليہ السلام کے خلاف اس قدر بغض و عداوت تھی کہ حضرت کو منکر خداجانتا تھا ، اور خوارج کے دوسرے افراد نے اس کے گھر ميں اجتماع کيا اور اس نے ان ميں ایک تقریر کی اور انہيں پرہيز گاری اور ترک دنيا کی حوصلہ افزائی کی اور آخرت کيلئے تلاش کرنے کيلئے ترغيب دیتے ہوئے کہا: بهائيوں ! جتنا جلد ممکن ہوسکے اس وادی ، سے جہا ں ظالم رہتے ہيں چلے جائيں اور دیہات اور کوہستانوں یا دوسرے شہروں ميں زندگی کریں ان گمراہ کنندہ بدعتوں سے انکار کریں تو بہتر ہے(۱) ان لوگوں نے ٣٧ هء ميں اسی عبدالله کی بيعت کی اور اسے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے خليفہ کے طور پر اپنا قائد و سرپرست منتخب کيا اور اس کے بعد ایک ایک کرکے چوری چهپے کوفہ سے باہر نکلے امام نے جب حالات کو یوں پایا تو اپنے سپاہيوں کے ہمرا ہ ان کا پيچها کيا اور دریائے نہروان سے پہلے ہی ان تک پہنچے اور ان سے جنگ کی، اس جنگ ميں عبدلله بن وهب سبائی راسبی ، ہانی بن زیاد خصفی اور زیاد بن خصفہ کے ہاتھوں قتل کيا گيا۔

تمام افراد جو عبدالله بن وهب کے ساتھ تھے قتل ہوئے صرف معدود چند افراد جن کی تعداد دس افراد سے زیادہ نہ تھی اس معرکہ سے زندہ بچ نکلے ۔

یہ تھا وہ عبدالله سبا جو عصر امام ميں تھا ،صحيح تاریخ نے اس زمانے ميں اس کے علاوہ کسی اور کو اس نام و نشان سے نہيں جاناہے اورنہہی کوئی نشان دہی کی ہے(۲)

آخری نتيجہ

جو کچھ عبدالله بن سباکے تعارف اور شناخت ميں کہا گيا ہے جو بھی روایت حادثہ یا داستان عبدالله کے نام سے نقل ہوئی ہے اگر اس عبدالله بن وهب سبائی سے تطبيق کرتی ہے تو اس کے واقع اور صحيح ہونے کا امکان ہے اور اگر اسکی تاریخ اور زندگی سے تطبيق نہ کرے تو اس قسم کی روایت اور داستان کا وجود نہيں ہے بلکہغلط اور جعلی ہے اوراس کی حقيقت ایک افسانہ سے زیادہ نہيں ہوسکتی کيونکہ اس زمانے ميں عبدالله بن وهب کے علاوہ کوئی دوسرا عبدالله بن سبا وجود نہيں رکھتا تھا اور یہ عبدالله وهب سبئی بھی امام علی عليہ السلام کی وصایت اور امامت کے عقيدہ کا بانی نہيں تھا اورنہ اس کا موجد تھا اور نہ علی عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی کا بانی تھا ، بلکہ وہ صرف خوارج کا سرپرست و سردار تھا جس نے حضرت علی عليہ السلام سے جنگ کی ۔

ا س لحاظ سے نہ تو جو سيف نے اس کے بارے ميں مطالب لکھے ہيں اور مؤرخين نے انہيں

____________________

١۔ ابن حزم کہتا ہے : عبدالله بن وهب المعروف “ ذو الثفنات ” پہلا شخص تھا جس نے جنگ نہروان ميں خوارج کی باگ ڈور سنبھالی اور اسی جنگ ميں قتل ہو اجبکہ اس سے قبل نيک تابعين ميں شمار ہوتا تھا ، بدانجامی سے ) خدا کی پناہ ( جمہرة الانساب ٣٨۶

۲۔ وہی عبدالله ابن وه ب سبئی ہے کہ لفط “ وهب ” کے حذف کرنے اور “ سبئی ” کی یا کے الف ميں تغير پيدا کرنے سے عبدالله بن سبا ميں تحریف ہوگيا ہے ورنہ کوئی بھی “ عبدالله بن سبا ” جيسا تاریخ و عقائد کی کتابوں ميں وجود نہيں رکھتا ہے اس تحریف کی کيفيت اگلے صفحات ميں ملاحظہ فرمائيں گے ۔

پیدائش سے پہلے

باایمان ماں کاانتخاب

آپ (ص)نے فرمایا: اپنے نطفوں کیلئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کرو۔پہلے ذکر کرچکا کہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بری۔ اسی لئے حضرت زہرا کی شھادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کرو۔تاکہ ابوالفضل جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں۔

دلہن باعث خیر و برکت

رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِذَا دَخَلَتِ الْعَرُوسُ بَيْتَكَ فَاخْلَعْ خُفَّيْهَا حِينَ تَجْلِسُ وَ اغْسِلْ رِجْلَيْهَا وَ صُبَّ الْمَاءَ مِنْ بَابِ دَارِكَ إِلَى أَقْصَى دَارِكَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْ بَيْتِكَ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْفَقْرِ وَ أَدْخَلَ فِيهِ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْبَرَكَةَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ سَبْعِينَ رَحْمَةً وَ تَأْمَنَ الْعَرُوسُ مِنَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ أَنْ يُصِيبَهَا مَا دَامَتْ فِي تِلْكَ الدَّارِ (۱)

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خد نے علی ابن ابی طالب نصیحت کی اور فرمایا : یا علی ! جب دلہن آپ کے گھر میں داخل ہوجائے تو اس کا جوتا اتارکر اس کے پاؤں دھلائیں ۔ اور اس پانی کو گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکائیں ۔ جب آپ ایسا کروگے تو خدا تعالی ستر قسم کے فقر اور مفلسی کو آپ کے گھر سے دور کرے گا ، اور ستر قسم کی برکات کو نازل کرے گا، اور دلہن بھی جب تک تیرے گھر میں ہوگی ؛دیوانگی، جزام او ر برص کی بیماری سے محفوظ رہےگی۔

دلہن کچھ چیزوں سے پرہیز کرے

وَ امْنَعِ الْعَرُوسَ فِي أُسْبُوعِهَا مِنَ الْأَلْبَانِ وَ الْخَلِّ وَ الْكُزْبُرَةِ وَ التُّفَّاحِ الْحَامِضِ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِأَيِّ شَيْ‏ءٍ أَمْنَعُهَا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ الْأَرْبَعَةَ قَالَ لِأَنَّ الرَّحِمَ تَعْقَمُ وَ تَبْرُدُ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ عَنِ الْوَلَدِ وَ لَحَصِيرٌ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَالُ الْخَلِّ تَمْنَعُ مِنْهُ قَالَ إِذَا حَاضَتْ عَلَى الْخَلِّ لَمْ تَطْهُرْ أَبَداً بِتَمَامٍ وَ الْكُزْبُرَةُ تُثِيرُ الْحَيْضَ فِي بَطْنِهَا وَ تُشَدِّدُ عَلَيْهَا الْوِلَادَةَ وَ التُّفَّاحُ الْحَامِضُ يَقْطَعُ حَيْضَهَا فَيَصِيرُ دَاءً عَلَيْهَا (۲)

دلہن کو پہلے ہفتے میں دودھ، سرکہ ،پودینہ اور ترش سیب کھانے سے منع کریں ۔ امیر المؤمنین نے عرض کیا : یا رسول اللہ کس لئے ان چار چیزوں کے کھانےسے اسے منع کروں؟! تو فرمایا: ان چار چیزوں کے کھانے سے اس کی بچہ دانی ٹھنڈی اور نازا ہوجاتی ہے،اور گھر کے کونے میں محصور ہوکر رہنا بھانج عورت سے بہتر ہے۔پھر امیرالمؤمنین نے سوال کیا یا رسول اللہ !سرکہ یا ترشی سے کیوں روکا جائے؟ تو فرمایا: اگر ترشی پر حیض آجائے تو کبھی حیض سے پاک نہیں ہوگی۔اور پودینہ تو حیض کو عورت کے پیٹ میں پھیلاتی ہےاور بچہ جننے میں سختی پیدا کرتی ہے۔اور ترش سیب حیض کو بند کردیتا ہے، جو عورت کے لئے بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

____________________

۱ ۔ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱۔

۲ ۔ ہمان۔

آداب مباشرت

آپ (ص)نے حضرت علی (ع)سےمخاطب ہوکر ایک طویل خطبہ دیا جس کا پہلا حصہ اوپر کے دو عناوین میں بیان ہوا اور بقیہ حصہ مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان آداب کی رعایت کا سختی سے حکم دیا گیا ہے:

مہینے کی تاریخوں کا خیال رکھے:

یا علی !یاد کرلو ھ سے میری وصیت کو جس طرح میں نے اسے میرے

بھائی جبرائیل سے یاد کیا ہے۔

ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ وَ وَسَطِهِ وَ آخِرِهِ فَإِنَّ الْجُنُونَ وَ الْجُذَامَ وَ الْخَبَلَ لَيُسْرِعُ إِلَيْهَا وَ إِلَى وَلَدِهَا ۔

اے علی! مہینے کی پہلی ،درمیانی اور آخری تاریخ کو اپنی بیوی کیساتھ مباشرت نہ کرو کیونکہ ان ایام میں ٹھہرا ہوا بچّہ پاگل، جزام اور ناقص الاعضاء پیدا ہوگا۔

* بعد از ظہر مباشرت ممنوع :يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بَعْدَ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَكُونُ أَحْوَلَ وَ الشَّيْطَانُ يَفْرَحُ بِالْحَوَلِ فِي الْإِنْسَانِ ۔ اے علی! ظہرین کے بعد ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس سے اگر حمل ٹھہرے تو وہ نامرد ہوگا ۔ اور شیطان انسانوں میں نامرد پیدا ہونے سے بہت خوش ہوتا ہے ۔

ذکر الہی میں مصروف رہے:

يَا عَلِيُّ لَا تَتَكَلَّمْ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَكُونَ أَخْرَسَ ۔

اے علی ! ہمبستری کرتے وقت باتیں نہ کرو ۔ اگر اس دوران بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ گونگا ہوگا۔

شرم گاہ کو نگاہ نہ کرے :

وَ لَا يَنْظُرَنَّ أَحَدٌ إِلَى فَرْجِ امْرَأَتِهِ وَ لْيَغُضَّ بَصَرَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّ النَّظَرَ إِلَى الْفَرْجِ يُورِثُ الْعَمَى فِي الْوَلَدِ(۳) اے علی ! مباشرت کرتے وقت شرم گاہ کو نہ دیکھو ۔ اس دوران اگر حمل ٹھہر جائے تو وہ اندھا پیدا ہوگا۔

اجنبی عورت کا خیال ممنوع :

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بِشَهْوَةِ امْرَأَةِ غَيْرِكَ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ أَنْ يَكُونَ مُخَنَّثاً أَوْ مُؤَنَّثاً مُخَبَّلًا يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ جُنُباً فِي الْفِرَاشِ مَعَ امْرَأَتِهِ فَلَا يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْهِمَا نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتُحْرِقَهُمَا قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ اللَّهُ يَعْنِي بِهِ قِرَاءَةَ الْعَزَائِمِ دُونَ غَيْرِهَا(۴) اے علی! اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرتے وقت کسی اور نامحرم کا خیال نہ آنے پائے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی بچہ حمل ٹھہر جائے تو وہ خنثیٰ پیدا ہوگا اور اگر بچی ہو تو وہ بھانج ہوگی۔

میاں بیوی الگ تولیہ رکھے:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ إِلَّا وَ مَعَكَ خِرْقَةٌ وَ مَعَ أَهْلِكَ خِرْقَةٌ وَ لَا تَمْسَحَا بِخِرْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَتَقَعَ الشَّهْوَةُ عَلَى الشَّهْوَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُعْقِبُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَكُمَا ثُمَّ يُؤَدِّيكُمَا إِلَى الْفُرْقَةِ وَ الطَّلَاقِ(۵) اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرتے وقت الگ الگ تولیہ رکھے ۔ ایک ہی تولیہ سے صاف نہ کرے کیونکہ ایک شہوت دوسری شہوت پر واقع ہوجاتی ہے جو میاں بیوی کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے اور بالآخرہ جدائی اور طلاق کا سبب بنتا ہے۔

کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا:

َیا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ مِن قِيَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الْحَمِيرِ فَإِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ كَانَ بَوَّالًا فِي الْفِرَاشِ كَالْحَمِيرِ الْبَوَّالَةِ فِي كُلِّ مَكَانٍ -(۶) اے علی! کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا کیونکہ یہ گدھے کی عادت ہے ۔ ایسی صورت میں اگر بچہ ٹھہر جائے تو وہ بستر میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائے گا ۔

شب ضحی کو مباشرت نہ کرو:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي لَيْلَةِ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ يَكُونُ لَهُ سِتُّ أَصَابِعَ أَوْ أَرْبَعُ(۷) اے علی ! عید الضحیٰ کی رات کو مباشرت کرے تو اگر بچہ ٹھہر جائے تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوگی۔

مضطرب حالت میں نہ ہو :

امام حسن مجتبی (ع) فرماتے ہیں:اگر آرامش ، سکون اور اطمنان قلب وغیر مضطرب حالت میں مباشرت کرے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کی شکل میں پیدا ہوگا –(۸) لیکن اگر مضطرب حالت میں ہو تو ماموں اور ننھیال کی شکل و صورت میں پیدا ہوگا۔

جب ایک عورت نے پیامبر(ص)کی خدمت میں آکر عدالت الہی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: کہ میں خدا کو عادل نہیں مانتی کیونکہ اس نے ہمیں نابینا بیٹا دیا ، میرے بیٹے اور میرے شوہر کا کیا قصور تھا؟آپ (ص)نے کچھ تأمل کرنے کے بعد فریایا: کیا تیرا شوہر تیرے پاس آتے وقت نشے کی حالت میں تو نہیں تھا؟ تو اس نے کہا : ہاں ایسا ہی تھا کہ وہ شراب پیا ہوا تھا۔ تو اس وقت فرمایا: بس تو اپنے آپ پر ملامت کرو۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مباشرت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ بچہ اندھا پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو جسمانی تأثیر ہے ۔روحانی تأثیر کے بارے میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِنْ كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة(۹)

اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی

کیساتھ مباشرت کرے اور اس کمرے میں چھوٹا بچہ جاگ رہا ہو اور انہیں دیکھ رہا ہو اور ان کی باتوں اور سانسوں کو سن رہا ہو تو کبھی بھی وہ نیک اولاد نہیں ہوگی، اگر بچہ ہو تو وہ زانی ہوگا اور اگر وہ بچی ہو تو وہ زانیہ ہوگی۔

____________________

۱ ۔ ہمان، مکارم الاخلاق،ص.١٢٩

۲ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔

۳ ۔ ہمان۔

۴ ۔ ہمان

۵ ۔ ہماان

۶ ۔ ہمان

۷ ۔ ہمان

۸ ۔ بحارالانوار۔

۹ ۔ وسائل الشیعہ ج۲۰، ص۱۳۳۔،الکافی،ج۵، ص۵۰۰۔

ہم فکرو ہم خیال بیوی

یعنی اعتقاد اور فکری لحاظ سے یک سو ہو۔ اور ایمان و عمل کے لحاظ سے برابر اور مساوی ہو۔ایک شخص نے امام حسن (ع) سے اپنی بیٹی کے رشتے کے بارے میں

رأے مانگی تو آپ نے فرمایا:زوّجها من رجل تقیّ فانّه ان احبّها اکرمها وان ابغضها لم یظلمها (۱)

اس کی شادی کسی پرہیزگار شخص کیساتھ کرو اگر وہ تیری بیٹی کو چاہتا ہے تو اس کا احترام کریگا ، اور اگر پسند نہیں کرتا ہے تو تیری بیٹی پر ظلم نہیں کریگا۔

____________________

۱. طبرسی، مکارم الاخلاق،ص۲۰۴۔

دلسوزاور مہربا ن ما ں

دلسوزاور مہربان ہونا پیامبر اسلام (ص) کا شیوہ ہے۔ چنانچہ آپ اس قدر اپنی امت پر دلسوز اور مہربان تھے کہ خدا تعالی کو کہنا پڑا :لعلّک باخع نفسک ۔ اے پیامبر ! تو اپنے آپ کو اپنی امت کے خاطر مت جلاؤ کیونکہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔

پیدائش کے بعد

کانوں میں اذان واقامت

امام حسن (ع) جب متولد ہوئے تو پیامبر اسلام (ص)نے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھی۔ اور علی سے فرمایا :یا علی (ع) اذا ولد لک غلام اوجاریة فاذّن فی اذنه الیمنی و اقم فی الیسری فانّه لا یضرّه الشیطان ابداً -(۱)

اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے۔اور فرمایا:من ساء خلقہ فاذّنوا فی اذنہ –(۲) اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو۔

اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ نوزائدہ بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہے۔ ماں کے دل کی دھڑکن جو بچے کیلئے دینا میں آنے کے بعد آرام کا سبب بنتی ہے۔ جب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصاً بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔اسی لئے اگر ماں حاملہ گی کے دوران قرآن سنا یا پڑھا کرے تو بچے میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی ۔ اس کی بہت ساری مثال دی جاسکتی ہے:

قم مقدس میں ایک قرآنی جلسے میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا سبب بنی کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قرآن بنا؟ تو

فرمایا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قرآن کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی۔

گذشتہ علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو ان میں بھی ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، ان میں سے ایک سید رضی اور سید مرتضی کا واقعہ ہے۔ خود سید مرتضی R فرماتے ہیں: جب اپنے استاد محترم شیخ مفید (رح)کے درس میں حاضر ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دروس پہلے سے ہی پڑھا ہوا ہے۔ جب اپنی مادر گرامی کے پاس آکر یہ ماجرا بیان کیا تو وہ کچھ تأمل کے بعد کہنے لگی: درست ہے جب آپ گہوارے میں تھے اس وقت آپ کے والد گرامی یہ دروس اپنے شاگردوں کو دیا کرتے تھے۔یہی ماں تھی کہ جب ان کو بیٹے کے مجتہد ہونے کی خبر دی گئی تو کہا : اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ میں نے کبھی بھی انہیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلائی ۔ اور یہی ماں جناب شیخ مفید (رح)کی خواب کی تعبیر تھی، جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کوخواب میں دیکھا تھا کہ آپ حسن و حسین کے ہاتھوں کو پکڑ کے آپ کے پاس لاتی ہیں اور فرماتی ہیں : اے شیخ میرے ان دو بیٹوں کو دینی تعلیم دو۔ جب خواب سے بیدار ہوا تو بڑا پریشان حالت میں ، کہ میں اور حسنین کو تعلیم؟!!!

جب صبح ہوئی تو سید رضی اور مرتضی کے ہاتھوں کو اسی طرح سے جیسے خواب میں دیکھا تھا ، ان کی مادر گرامی پکڑ کے لاتی ہیں اور کہتی ہیں : جناب شیخ ! آپ میرے ان دو بیٹوں کو فقہ کی تعلیم دیں۔

ایک عالم کہتا ہے کہ ایک صابئی نے مجھ سے کہاکہ مجھے اسلام کی تعلیم دو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ مجھے بچپنے سے ہی اسلام سے بہت لگاؤ ہے اور اسلام کا بہت بڑا شیدائی ہوں۔ اور جب بھی اذان کی آواز آتی ہے تو سکون ملتا ہے اور جب تک اذان تمام نہ ہو ، اذان کے احترام میں کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے اس کی ماں سے وجہ دریافت کی تو اس کی ماں نے کہا : درست ہے جب میرا بیٹا اس دنیا میں آیا تو ہمارے ہمسائے میں ایک مسلمان مولانا رہتا تھا جس نے

اسکے کانوں میں اذان و اقامت پڑہی تھی(۳)

____________________

۱. تحف العقول،ص١٦ ۔

۲ ۔ محاسن برقی ج٢،ص٤٢٤

۳ ۔ مجمع البحرین، ص ٥٩٠.

دودھ کی تأثیر

بچے کی شخصیت بنانے میں ماں کی دودھ کا بڑا اثر ہے۔ اسی لئے امام المتقین –(۱) نے فرمایا:فانظروا من ترضع اولادکم انّ الولد یشبّ علیہ۔

دیکھ لو کون تمھاری اولادوں کو دودھ پلارہی ہے؟ کیونکہ بچے کی پرورش اسی پر منحصر ہے۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں:عَنْ أُمِّهِ أُمِّ إِسْحَاقَ بِنْتِ سُلَيْمَانَ قَالَتْ نَظَرَ إِلَيَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا أُرْضِعُ أَحَدَ ابْنَيَّ مُحَمَّدٍ أَوْ إِسْحَاقَ فَقَالَ يَا أُمَّ إِسْحَاقَ لَا تُرْضِعِيهِ مِنْ ثَدْيٍ وَاحِدٍ وَ أَرْضِعِيهِ مِنْ كِلَيْهِمَا يَكُونُ أَحَدُهُمَا طَعَاماً وَ الْآخَرُ شَرَاباً (۲) ۔

اے ام اسحاق بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیا کرو کیونکہ ایک چھاتی کا دودھ روٹی اور دوسری چھاتی کا دودھ پانی کا کام دیتا ہے۔

بچپنے کا دور

قَالَ الصَّادِقُ ع: دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۳)

امام صادق(ع) : فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے ،

دوسرے سات سال اسے ادب سکھائیں پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادے۔

صَالِحُ بْنُ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيماً فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ إِلَّا هَكَذَا -(۴)

امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: اپنے بچوں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دو

تاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں۔

____________________

۱ ۔ وسائل،ج٢١،ص٤٥٣.

۲ ۔ ھمان

۳ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۴۹۲۔

۴ ۔ الکافی،ج۶، ص۵۱۔

پاک اور حلال غذا کی تأثیر

اگر بچوں کو لقمہ حرام کھلائیں گے تو فرزند کبھی صالح نہیں ہوگا۔کیونکہ حرام لقمہ کا بہت برا اثر پڑتا ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، چنانچہ امام حسین (ع) نے عاشور کے دن کئی مرتبہ فوج اشقیا کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہیں سنی توامام نے فرمایا:قد ملئت بطونکم من الحرام۔ تمہارے پیٹ لقمہ حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تم پر حق بات اثر نہیں کرتی۔ پس جو ماں باپ اپنے بچوں کو لقمہ حرام کھلائے وہ بچوں کی اصلاح کی امید نہ رکھیں۔

بچے کی کفالت

قَالَ الصادق : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ تُوُفِّيَ وَ لَهُ صِبْيَةٌ صِغَارٌ وَ لَيْسَ لَهُ مَبِيتُ لَيْلَةٍ تَرَكَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَ قَدْ كَانَ لَهُ سِتَّةٌ مِنَ الرَّقِيقِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُمْ وَ إِنَّهُ أَعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ مَا صَنَعْتُمْ بِهِ قَالُوا دَفَنَّاهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُهُ مَا تَرَكْتُكُمْ تَدْفِنُونَهُ مَعَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ تَرَكَ وُلْدَهُ صِغَاراً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ(۱)

حدیث میں ہے کہ اصحاب پیامبر(ص) میں سے ایک نے مرتے وقت زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کروایا۔ اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بالکل خالی ہاتھ چھوڑ دیا ، جو لوگوں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جب یہ خبر رسولخدا (ص) تک پہنچی تو آپ سخت ناراض ہوگئے اور پوچھا : اس کے جنازے کیساتھ کیا کیا؟ لوگوں نے کہا قبرستان میں دفن کیا گیا۔ پیامبر (ص)نےفرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے نہ دیتا۔کیونکہ اس نے اپنے بچوں کو دوسروں کا دست نگر بنادئے بچوں کا احترام بچوں کو جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہو تو میرے بیٹے کہہ کر بلاؤ۔ قرآن بچوں کی تربیت اور نصیحت پر بہت زور دیتا ہے ۔ ائمہ کی سیرت میں بھی ہمیں یہی چیز ملتی ہے۔ایک دن امام حسین (ع) نماز کے دوران پیامبر اسلام (ص)کے کندھوں پرسوار ہوئے تو رسولخدا (ص)نے انہیں نیچے اتارا ۔جب دوسرے سجدے میں گئے تو دوبارہ سوار ہوئے۔ یہ منظر ایک یہودی دیکھ رہا تھا،کہنے لگا آپ اپنے بچوں سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟ ہم اتنی محبت نہیں کرتے۔ تو آپ (ص)نے فرمایا: اگر تم خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے آتے تو تم بھی اپنے بچوں سے اسی طرح محبت کرتے ، اس شخص نے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا(۲)

امام حسن مجتبی (ع) اور بچے

ایک مرتبہ آپ کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں بچے کھیل کود میں مشغول تھے اور ایک روٹی ان کے پاس تھی اسے کھانے میں مصروف تھے۔ امام کو بھی دعوت دی ، امام نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔ پھر سارے بچوں کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو کھانا کھلایا اور لباس بھی دیا پھر فرمایا: ان بچوں کی فضیلت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ میرے لئے حاضر کئے،کہ ان کے پاس ایک روٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن میں نے جو بھی کھلایا،اس کے علاوہ میرے پاس اور بھی موجود ہے(۳)

امام زین العبدین (ع)نے ایک بار نماز جلدی جلدی پڑھ لی ۔ لوگوں نے سوال کیا مولا ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا : کیونکہ صفوں میں بچے بھی نماز پڑھ رہے تھے جن کی رعایت کرتے ہوئے نماز جلدی جلدی تمام کی۔

اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع)نے ایک یتیم بچے کو غمگین حالت میں دیکھا تو ان کو خوش کرنے کیلئے ان کیساتھ پیار سے باتیں کرنے لگے ، لیکن یتیمی کی اداسی کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوا تو امیر المؤمنین (ع) اپنے گٹھنے ٹیک کر بھیڑ کی آوازیں نکالنے لگے تو تب جا کر یتیم بچے کی چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، یہ منظر کسی نے دیکھ کر کہنے لگا مولا ! یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ایک حکومت اسلامی کا سربراہ چوپائیوں کی آوازیں نکالے!۔ تو میرے مولا نے فرمایا : کوئی بات نہیں اس کے بدلے میں ایک یتیم کو میں نے خوش کیا۔

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیموں کی پرورش اور دیکھ بھال ہوتی ہو۔ اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں کی اہانت ہوتی ہو۔مزید فرمایا:وَ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ وَ أَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَ الْوُسْطَى ومن مسح یده برأس یتیم رفقاً به جعل الله له فی الجنة لکل شعرة مرّت تحت یده قصراًاوسع من الدنیا بمافیها وفیها ماتشتهی الانفس وتلذّالاعین وهم فیها خالدون (۴)

اور جو بھی یتیموں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کرے گا وہ قیامت کے دن میرے

ساتھ ان دو انگلیوں کی مانند ہوگا۔اور جو بھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو خدا تعالی اس کیلئے ہربال جو اس کے ہاتھوں کے نیچے آئے ، کے بدلے بہشت میں ایک محل عطا کرے گا جو اس دنیا و مافیھا سے بھی بڑا ہوگا اور اس قصر میں وہ چیزیں ہونگی جنہیں نہ کسی نے چکھا ہوگا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا۔علامہ رضی نے اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھا ہے کہ آپ کی مراد کافل سے ابوطالب ہے(۵)

اسی طرح امام حسن مجتبی (ع) ایک دن دوش نبی پر سوار تھے۔ کوئی آکر کہنے لگا : اے حسن مجتبی !کتنی خوبصورت آپ کی سواری ہے؟ تو رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اسے نہ کہو کہ تیری سواری کتنی اچھی ہے بلکہ مجھ سے کہو کہ تیرا شہسوار کتنا اچھا ہے؟! صرف وہ فخر نہیں کرتا کہ اس نے دوش نبوت پر پاؤں رکھا ہے ،بلکہ میں بھی فخر کرتا ہوں کہ وہ میرے دوش پر سوار ہے۔

____________________

۱ ۔ بحار،ج١٠٠، ص١٩٧

۲ ۔ بحار،ج١٠، ص ٨٣۔

۳ ۔ شرح ابن ابی الحدید،ج١١،ص۔١٩.

۴ ۔ میزان الحکمہ ،باب الیتیم۔ح۶۸۱۱۔

۵ ۔ الاقبال ، ص۶۶۲۔

بچوں کو ان کے ا حترام کی یقین دہانی

اگر ماں باپ ان کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے اورنہ ان کی باتیں سنیں گے۔اگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوں کیلئے احترام کے قائل ہوں ۔اور ان سے مشورت مانگیں ،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں ۔ ہمارے لئے قرآن مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچے سے مشورہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!

بچوں کی تحقیر، ضد بازی کا سبب

ایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو ٹوک دیتے ۔ مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔ اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے ۔ اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوا ۔ اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگا۔ اور اپنے آپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگا ۔ اب جبکہ میں بڑاہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں ۔ اگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا ۔ اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی ۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعاً فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۱) اسی لئے امام باقر (ع)نے فرمایا:بچے کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح ، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو اور ان سے بھی مشورہ لیا کرو۔ اگر بچے احساس حقارت کرنے لگے تو نہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں ۔

ایک بچی کہتی ہے کہ :میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ امتحانات میں کم نمبر آنے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کی تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !ان کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گی۔ ماں نے کہا یہ ایسی ہے تو ویسی ہے۔ میری خالہ نے ماں سے اجازت لیکر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئی۔میری خالہ زاد بہن مہری میری ہمکلاس تھی ۔ان کے ساتھ تیاری کی تو مہری حسب سابق irst اور میں third آئی ۔جس پر مجھے خود یقین نہیں آرہی تھی۔

بچوں کی مختلف استعدادوں پر توجہ

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو آپ اس کو مجبور نہ کریں ، بلکہ دیکھ لیں کہ کس میدان (فیلڈ) میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ بہزاد نامی ایک شخص تھا۔جو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا ۔ یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا۔ لیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنے لگا۔ بہزاد خاموشی کے ساتھ ان کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی جو درخت پر بیٹھا ہے ۔ جب اس ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہے۔ اس شعبے سے ان کو لگاو اوردلچسپی ہے۔انہیں نقاشی کی کلاس میں بھیج دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دینا میں مشہور ہوا۔(۲)

تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہ

اگر آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو آپ ان کی تحقیر نہ کریں ۔ کیونکہ خدا تعالی نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہن۔ ایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھا۔میں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ و۔۔۔)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سی کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلا کراور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہے۔جب جنگلی اور وحشی جانوروں میں تشویق اس قدر مؤثر ہے تو کیا انسانوں میں مؤثر نہیں ہوگا؟!۔

بچوں سے محبت

اسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوں کو پیا رو محبت دیا کریں۔ رسول خدا (ص) ایک دن اپنے بچوں کو زانو پر اٹھائے پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا آدمی وہاں پہنچا ۔ اور کہامیرے دس بیٹے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی ایک بار بوسہ نہیں دیا۔یہ سن کر آپ (ص) سخت ناراض ہوگئے۔ اور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ اور فرمایا: من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور تیرے دل سے رحم نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!

ایک دفعہ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی (ع) کاندوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:حسن میرے کاندہے پر سوار ہوا تھا اور میں انہیں اتارنا نہیں چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اترآے(۳)

بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیاتو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل پر رسولخدا (ص) تأیید نہ کرے۔ میرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا :تو آپ نے فرمایا: کیا سب کو دئے؟ کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرو۔ اور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش آؤ۔میں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(۴)

____________________

۱ ۔ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی،ج۶، ص۴۶۔

۲ ۔ جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص١١.

۳ ۔ بحار،ج١٠، ص٨٤.

۴ میزان الحکمة،ج١٠،ص٧٠.

پیدائش سے پہلے

باایمان ماں کاانتخاب

آپ (ص)نے فرمایا: اپنے نطفوں کیلئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کرو۔پہلے ذکر کرچکا کہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بری۔ اسی لئے حضرت زہرا کی شھادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کرو۔تاکہ ابوالفضل جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں۔

دلہن باعث خیر و برکت

رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِذَا دَخَلَتِ الْعَرُوسُ بَيْتَكَ فَاخْلَعْ خُفَّيْهَا حِينَ تَجْلِسُ وَ اغْسِلْ رِجْلَيْهَا وَ صُبَّ الْمَاءَ مِنْ بَابِ دَارِكَ إِلَى أَقْصَى دَارِكَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْ بَيْتِكَ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْفَقْرِ وَ أَدْخَلَ فِيهِ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْبَرَكَةَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ سَبْعِينَ رَحْمَةً وَ تَأْمَنَ الْعَرُوسُ مِنَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ أَنْ يُصِيبَهَا مَا دَامَتْ فِي تِلْكَ الدَّارِ (۱)

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خد نے علی ابن ابی طالب نصیحت کی اور فرمایا : یا علی ! جب دلہن آپ کے گھر میں داخل ہوجائے تو اس کا جوتا اتارکر اس کے پاؤں دھلائیں ۔ اور اس پانی کو گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکائیں ۔ جب آپ ایسا کروگے تو خدا تعالی ستر قسم کے فقر اور مفلسی کو آپ کے گھر سے دور کرے گا ، اور ستر قسم کی برکات کو نازل کرے گا، اور دلہن بھی جب تک تیرے گھر میں ہوگی ؛دیوانگی، جزام او ر برص کی بیماری سے محفوظ رہےگی۔

دلہن کچھ چیزوں سے پرہیز کرے

وَ امْنَعِ الْعَرُوسَ فِي أُسْبُوعِهَا مِنَ الْأَلْبَانِ وَ الْخَلِّ وَ الْكُزْبُرَةِ وَ التُّفَّاحِ الْحَامِضِ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِأَيِّ شَيْ‏ءٍ أَمْنَعُهَا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ الْأَرْبَعَةَ قَالَ لِأَنَّ الرَّحِمَ تَعْقَمُ وَ تَبْرُدُ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ عَنِ الْوَلَدِ وَ لَحَصِيرٌ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَالُ الْخَلِّ تَمْنَعُ مِنْهُ قَالَ إِذَا حَاضَتْ عَلَى الْخَلِّ لَمْ تَطْهُرْ أَبَداً بِتَمَامٍ وَ الْكُزْبُرَةُ تُثِيرُ الْحَيْضَ فِي بَطْنِهَا وَ تُشَدِّدُ عَلَيْهَا الْوِلَادَةَ وَ التُّفَّاحُ الْحَامِضُ يَقْطَعُ حَيْضَهَا فَيَصِيرُ دَاءً عَلَيْهَا (۲)

دلہن کو پہلے ہفتے میں دودھ، سرکہ ،پودینہ اور ترش سیب کھانے سے منع کریں ۔ امیر المؤمنین نے عرض کیا : یا رسول اللہ کس لئے ان چار چیزوں کے کھانےسے اسے منع کروں؟! تو فرمایا: ان چار چیزوں کے کھانے سے اس کی بچہ دانی ٹھنڈی اور نازا ہوجاتی ہے،اور گھر کے کونے میں محصور ہوکر رہنا بھانج عورت سے بہتر ہے۔پھر امیرالمؤمنین نے سوال کیا یا رسول اللہ !سرکہ یا ترشی سے کیوں روکا جائے؟ تو فرمایا: اگر ترشی پر حیض آجائے تو کبھی حیض سے پاک نہیں ہوگی۔اور پودینہ تو حیض کو عورت کے پیٹ میں پھیلاتی ہےاور بچہ جننے میں سختی پیدا کرتی ہے۔اور ترش سیب حیض کو بند کردیتا ہے، جو عورت کے لئے بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

____________________

۱ ۔ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱۔

۲ ۔ ہمان۔

آداب مباشرت

آپ (ص)نے حضرت علی (ع)سےمخاطب ہوکر ایک طویل خطبہ دیا جس کا پہلا حصہ اوپر کے دو عناوین میں بیان ہوا اور بقیہ حصہ مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان آداب کی رعایت کا سختی سے حکم دیا گیا ہے:

مہینے کی تاریخوں کا خیال رکھے:

یا علی !یاد کرلو ھ سے میری وصیت کو جس طرح میں نے اسے میرے

بھائی جبرائیل سے یاد کیا ہے۔

ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ وَ وَسَطِهِ وَ آخِرِهِ فَإِنَّ الْجُنُونَ وَ الْجُذَامَ وَ الْخَبَلَ لَيُسْرِعُ إِلَيْهَا وَ إِلَى وَلَدِهَا ۔

اے علی! مہینے کی پہلی ،درمیانی اور آخری تاریخ کو اپنی بیوی کیساتھ مباشرت نہ کرو کیونکہ ان ایام میں ٹھہرا ہوا بچّہ پاگل، جزام اور ناقص الاعضاء پیدا ہوگا۔

* بعد از ظہر مباشرت ممنوع :يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بَعْدَ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَكُونُ أَحْوَلَ وَ الشَّيْطَانُ يَفْرَحُ بِالْحَوَلِ فِي الْإِنْسَانِ ۔ اے علی! ظہرین کے بعد ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس سے اگر حمل ٹھہرے تو وہ نامرد ہوگا ۔ اور شیطان انسانوں میں نامرد پیدا ہونے سے بہت خوش ہوتا ہے ۔

ذکر الہی میں مصروف رہے:

يَا عَلِيُّ لَا تَتَكَلَّمْ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَكُونَ أَخْرَسَ ۔

اے علی ! ہمبستری کرتے وقت باتیں نہ کرو ۔ اگر اس دوران بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ گونگا ہوگا۔

شرم گاہ کو نگاہ نہ کرے :

وَ لَا يَنْظُرَنَّ أَحَدٌ إِلَى فَرْجِ امْرَأَتِهِ وَ لْيَغُضَّ بَصَرَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّ النَّظَرَ إِلَى الْفَرْجِ يُورِثُ الْعَمَى فِي الْوَلَدِ(۳) اے علی ! مباشرت کرتے وقت شرم گاہ کو نہ دیکھو ۔ اس دوران اگر حمل ٹھہر جائے تو وہ اندھا پیدا ہوگا۔

اجنبی عورت کا خیال ممنوع :

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بِشَهْوَةِ امْرَأَةِ غَيْرِكَ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ أَنْ يَكُونَ مُخَنَّثاً أَوْ مُؤَنَّثاً مُخَبَّلًا يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ جُنُباً فِي الْفِرَاشِ مَعَ امْرَأَتِهِ فَلَا يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْهِمَا نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتُحْرِقَهُمَا قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ اللَّهُ يَعْنِي بِهِ قِرَاءَةَ الْعَزَائِمِ دُونَ غَيْرِهَا(۴) اے علی! اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرتے وقت کسی اور نامحرم کا خیال نہ آنے پائے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی بچہ حمل ٹھہر جائے تو وہ خنثیٰ پیدا ہوگا اور اگر بچی ہو تو وہ بھانج ہوگی۔

میاں بیوی الگ تولیہ رکھے:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ إِلَّا وَ مَعَكَ خِرْقَةٌ وَ مَعَ أَهْلِكَ خِرْقَةٌ وَ لَا تَمْسَحَا بِخِرْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَتَقَعَ الشَّهْوَةُ عَلَى الشَّهْوَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُعْقِبُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَكُمَا ثُمَّ يُؤَدِّيكُمَا إِلَى الْفُرْقَةِ وَ الطَّلَاقِ(۵) اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرتے وقت الگ الگ تولیہ رکھے ۔ ایک ہی تولیہ سے صاف نہ کرے کیونکہ ایک شہوت دوسری شہوت پر واقع ہوجاتی ہے جو میاں بیوی کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے اور بالآخرہ جدائی اور طلاق کا سبب بنتا ہے۔

کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا:

َیا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ مِن قِيَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الْحَمِيرِ فَإِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ كَانَ بَوَّالًا فِي الْفِرَاشِ كَالْحَمِيرِ الْبَوَّالَةِ فِي كُلِّ مَكَانٍ -(۶) اے علی! کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا کیونکہ یہ گدھے کی عادت ہے ۔ ایسی صورت میں اگر بچہ ٹھہر جائے تو وہ بستر میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائے گا ۔

شب ضحی کو مباشرت نہ کرو:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي لَيْلَةِ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ يَكُونُ لَهُ سِتُّ أَصَابِعَ أَوْ أَرْبَعُ(۷) اے علی ! عید الضحیٰ کی رات کو مباشرت کرے تو اگر بچہ ٹھہر جائے تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوگی۔

مضطرب حالت میں نہ ہو :

امام حسن مجتبی (ع) فرماتے ہیں:اگر آرامش ، سکون اور اطمنان قلب وغیر مضطرب حالت میں مباشرت کرے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کی شکل میں پیدا ہوگا –(۸) لیکن اگر مضطرب حالت میں ہو تو ماموں اور ننھیال کی شکل و صورت میں پیدا ہوگا۔

جب ایک عورت نے پیامبر(ص)کی خدمت میں آکر عدالت الہی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: کہ میں خدا کو عادل نہیں مانتی کیونکہ اس نے ہمیں نابینا بیٹا دیا ، میرے بیٹے اور میرے شوہر کا کیا قصور تھا؟آپ (ص)نے کچھ تأمل کرنے کے بعد فریایا: کیا تیرا شوہر تیرے پاس آتے وقت نشے کی حالت میں تو نہیں تھا؟ تو اس نے کہا : ہاں ایسا ہی تھا کہ وہ شراب پیا ہوا تھا۔ تو اس وقت فرمایا: بس تو اپنے آپ پر ملامت کرو۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مباشرت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ بچہ اندھا پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو جسمانی تأثیر ہے ۔روحانی تأثیر کے بارے میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِنْ كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة(۹)

اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی

کیساتھ مباشرت کرے اور اس کمرے میں چھوٹا بچہ جاگ رہا ہو اور انہیں دیکھ رہا ہو اور ان کی باتوں اور سانسوں کو سن رہا ہو تو کبھی بھی وہ نیک اولاد نہیں ہوگی، اگر بچہ ہو تو وہ زانی ہوگا اور اگر وہ بچی ہو تو وہ زانیہ ہوگی۔

____________________

۱ ۔ ہمان، مکارم الاخلاق،ص.١٢٩

۲ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔

۳ ۔ ہمان۔

۴ ۔ ہمان

۵ ۔ ہماان

۶ ۔ ہمان

۷ ۔ ہمان

۸ ۔ بحارالانوار۔

۹ ۔ وسائل الشیعہ ج۲۰، ص۱۳۳۔،الکافی،ج۵، ص۵۰۰۔

ہم فکرو ہم خیال بیوی

یعنی اعتقاد اور فکری لحاظ سے یک سو ہو۔ اور ایمان و عمل کے لحاظ سے برابر اور مساوی ہو۔ایک شخص نے امام حسن (ع) سے اپنی بیٹی کے رشتے کے بارے میں

رأے مانگی تو آپ نے فرمایا:زوّجها من رجل تقیّ فانّه ان احبّها اکرمها وان ابغضها لم یظلمها (۱)

اس کی شادی کسی پرہیزگار شخص کیساتھ کرو اگر وہ تیری بیٹی کو چاہتا ہے تو اس کا احترام کریگا ، اور اگر پسند نہیں کرتا ہے تو تیری بیٹی پر ظلم نہیں کریگا۔

____________________

۱. طبرسی، مکارم الاخلاق،ص۲۰۴۔

دلسوزاور مہربا ن ما ں

دلسوزاور مہربان ہونا پیامبر اسلام (ص) کا شیوہ ہے۔ چنانچہ آپ اس قدر اپنی امت پر دلسوز اور مہربان تھے کہ خدا تعالی کو کہنا پڑا :لعلّک باخع نفسک ۔ اے پیامبر ! تو اپنے آپ کو اپنی امت کے خاطر مت جلاؤ کیونکہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔

پیدائش کے بعد

کانوں میں اذان واقامت

امام حسن (ع) جب متولد ہوئے تو پیامبر اسلام (ص)نے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھی۔ اور علی سے فرمایا :یا علی (ع) اذا ولد لک غلام اوجاریة فاذّن فی اذنه الیمنی و اقم فی الیسری فانّه لا یضرّه الشیطان ابداً -(۱)

اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے۔اور فرمایا:من ساء خلقہ فاذّنوا فی اذنہ –(۲) اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو۔

اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ نوزائدہ بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہے۔ ماں کے دل کی دھڑکن جو بچے کیلئے دینا میں آنے کے بعد آرام کا سبب بنتی ہے۔ جب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصاً بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔اسی لئے اگر ماں حاملہ گی کے دوران قرآن سنا یا پڑھا کرے تو بچے میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی ۔ اس کی بہت ساری مثال دی جاسکتی ہے:

قم مقدس میں ایک قرآنی جلسے میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا سبب بنی کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قرآن بنا؟ تو

فرمایا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قرآن کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی۔

گذشتہ علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو ان میں بھی ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، ان میں سے ایک سید رضی اور سید مرتضی کا واقعہ ہے۔ خود سید مرتضی R فرماتے ہیں: جب اپنے استاد محترم شیخ مفید (رح)کے درس میں حاضر ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دروس پہلے سے ہی پڑھا ہوا ہے۔ جب اپنی مادر گرامی کے پاس آکر یہ ماجرا بیان کیا تو وہ کچھ تأمل کے بعد کہنے لگی: درست ہے جب آپ گہوارے میں تھے اس وقت آپ کے والد گرامی یہ دروس اپنے شاگردوں کو دیا کرتے تھے۔یہی ماں تھی کہ جب ان کو بیٹے کے مجتہد ہونے کی خبر دی گئی تو کہا : اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ میں نے کبھی بھی انہیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلائی ۔ اور یہی ماں جناب شیخ مفید (رح)کی خواب کی تعبیر تھی، جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کوخواب میں دیکھا تھا کہ آپ حسن و حسین کے ہاتھوں کو پکڑ کے آپ کے پاس لاتی ہیں اور فرماتی ہیں : اے شیخ میرے ان دو بیٹوں کو دینی تعلیم دو۔ جب خواب سے بیدار ہوا تو بڑا پریشان حالت میں ، کہ میں اور حسنین کو تعلیم؟!!!

جب صبح ہوئی تو سید رضی اور مرتضی کے ہاتھوں کو اسی طرح سے جیسے خواب میں دیکھا تھا ، ان کی مادر گرامی پکڑ کے لاتی ہیں اور کہتی ہیں : جناب شیخ ! آپ میرے ان دو بیٹوں کو فقہ کی تعلیم دیں۔

ایک عالم کہتا ہے کہ ایک صابئی نے مجھ سے کہاکہ مجھے اسلام کی تعلیم دو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ مجھے بچپنے سے ہی اسلام سے بہت لگاؤ ہے اور اسلام کا بہت بڑا شیدائی ہوں۔ اور جب بھی اذان کی آواز آتی ہے تو سکون ملتا ہے اور جب تک اذان تمام نہ ہو ، اذان کے احترام میں کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے اس کی ماں سے وجہ دریافت کی تو اس کی ماں نے کہا : درست ہے جب میرا بیٹا اس دنیا میں آیا تو ہمارے ہمسائے میں ایک مسلمان مولانا رہتا تھا جس نے

اسکے کانوں میں اذان و اقامت پڑہی تھی(۳)

____________________

۱. تحف العقول،ص١٦ ۔

۲ ۔ محاسن برقی ج٢،ص٤٢٤

۳ ۔ مجمع البحرین، ص ٥٩٠.

دودھ کی تأثیر

بچے کی شخصیت بنانے میں ماں کی دودھ کا بڑا اثر ہے۔ اسی لئے امام المتقین –(۱) نے فرمایا:فانظروا من ترضع اولادکم انّ الولد یشبّ علیہ۔

دیکھ لو کون تمھاری اولادوں کو دودھ پلارہی ہے؟ کیونکہ بچے کی پرورش اسی پر منحصر ہے۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں:عَنْ أُمِّهِ أُمِّ إِسْحَاقَ بِنْتِ سُلَيْمَانَ قَالَتْ نَظَرَ إِلَيَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا أُرْضِعُ أَحَدَ ابْنَيَّ مُحَمَّدٍ أَوْ إِسْحَاقَ فَقَالَ يَا أُمَّ إِسْحَاقَ لَا تُرْضِعِيهِ مِنْ ثَدْيٍ وَاحِدٍ وَ أَرْضِعِيهِ مِنْ كِلَيْهِمَا يَكُونُ أَحَدُهُمَا طَعَاماً وَ الْآخَرُ شَرَاباً (۲) ۔

اے ام اسحاق بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیا کرو کیونکہ ایک چھاتی کا دودھ روٹی اور دوسری چھاتی کا دودھ پانی کا کام دیتا ہے۔

بچپنے کا دور

قَالَ الصَّادِقُ ع: دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۳)

امام صادق(ع) : فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے ،

دوسرے سات سال اسے ادب سکھائیں پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادے۔

صَالِحُ بْنُ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيماً فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ إِلَّا هَكَذَا -(۴)

امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: اپنے بچوں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دو

تاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں۔

____________________

۱ ۔ وسائل،ج٢١،ص٤٥٣.

۲ ۔ ھمان

۳ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۴۹۲۔

۴ ۔ الکافی،ج۶، ص۵۱۔

پاک اور حلال غذا کی تأثیر

اگر بچوں کو لقمہ حرام کھلائیں گے تو فرزند کبھی صالح نہیں ہوگا۔کیونکہ حرام لقمہ کا بہت برا اثر پڑتا ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، چنانچہ امام حسین (ع) نے عاشور کے دن کئی مرتبہ فوج اشقیا کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہیں سنی توامام نے فرمایا:قد ملئت بطونکم من الحرام۔ تمہارے پیٹ لقمہ حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تم پر حق بات اثر نہیں کرتی۔ پس جو ماں باپ اپنے بچوں کو لقمہ حرام کھلائے وہ بچوں کی اصلاح کی امید نہ رکھیں۔

بچے کی کفالت

قَالَ الصادق : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ تُوُفِّيَ وَ لَهُ صِبْيَةٌ صِغَارٌ وَ لَيْسَ لَهُ مَبِيتُ لَيْلَةٍ تَرَكَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَ قَدْ كَانَ لَهُ سِتَّةٌ مِنَ الرَّقِيقِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُمْ وَ إِنَّهُ أَعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ مَا صَنَعْتُمْ بِهِ قَالُوا دَفَنَّاهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُهُ مَا تَرَكْتُكُمْ تَدْفِنُونَهُ مَعَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ تَرَكَ وُلْدَهُ صِغَاراً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ(۱)

حدیث میں ہے کہ اصحاب پیامبر(ص) میں سے ایک نے مرتے وقت زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کروایا۔ اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بالکل خالی ہاتھ چھوڑ دیا ، جو لوگوں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جب یہ خبر رسولخدا (ص) تک پہنچی تو آپ سخت ناراض ہوگئے اور پوچھا : اس کے جنازے کیساتھ کیا کیا؟ لوگوں نے کہا قبرستان میں دفن کیا گیا۔ پیامبر (ص)نےفرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے نہ دیتا۔کیونکہ اس نے اپنے بچوں کو دوسروں کا دست نگر بنادئے بچوں کا احترام بچوں کو جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہو تو میرے بیٹے کہہ کر بلاؤ۔ قرآن بچوں کی تربیت اور نصیحت پر بہت زور دیتا ہے ۔ ائمہ کی سیرت میں بھی ہمیں یہی چیز ملتی ہے۔ایک دن امام حسین (ع) نماز کے دوران پیامبر اسلام (ص)کے کندھوں پرسوار ہوئے تو رسولخدا (ص)نے انہیں نیچے اتارا ۔جب دوسرے سجدے میں گئے تو دوبارہ سوار ہوئے۔ یہ منظر ایک یہودی دیکھ رہا تھا،کہنے لگا آپ اپنے بچوں سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟ ہم اتنی محبت نہیں کرتے۔ تو آپ (ص)نے فرمایا: اگر تم خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے آتے تو تم بھی اپنے بچوں سے اسی طرح محبت کرتے ، اس شخص نے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا(۲)

امام حسن مجتبی (ع) اور بچے

ایک مرتبہ آپ کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں بچے کھیل کود میں مشغول تھے اور ایک روٹی ان کے پاس تھی اسے کھانے میں مصروف تھے۔ امام کو بھی دعوت دی ، امام نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔ پھر سارے بچوں کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو کھانا کھلایا اور لباس بھی دیا پھر فرمایا: ان بچوں کی فضیلت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ میرے لئے حاضر کئے،کہ ان کے پاس ایک روٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن میں نے جو بھی کھلایا،اس کے علاوہ میرے پاس اور بھی موجود ہے(۳)

امام زین العبدین (ع)نے ایک بار نماز جلدی جلدی پڑھ لی ۔ لوگوں نے سوال کیا مولا ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا : کیونکہ صفوں میں بچے بھی نماز پڑھ رہے تھے جن کی رعایت کرتے ہوئے نماز جلدی جلدی تمام کی۔

اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع)نے ایک یتیم بچے کو غمگین حالت میں دیکھا تو ان کو خوش کرنے کیلئے ان کیساتھ پیار سے باتیں کرنے لگے ، لیکن یتیمی کی اداسی کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوا تو امیر المؤمنین (ع) اپنے گٹھنے ٹیک کر بھیڑ کی آوازیں نکالنے لگے تو تب جا کر یتیم بچے کی چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، یہ منظر کسی نے دیکھ کر کہنے لگا مولا ! یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ایک حکومت اسلامی کا سربراہ چوپائیوں کی آوازیں نکالے!۔ تو میرے مولا نے فرمایا : کوئی بات نہیں اس کے بدلے میں ایک یتیم کو میں نے خوش کیا۔

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیموں کی پرورش اور دیکھ بھال ہوتی ہو۔ اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں کی اہانت ہوتی ہو۔مزید فرمایا:وَ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ وَ أَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَ الْوُسْطَى ومن مسح یده برأس یتیم رفقاً به جعل الله له فی الجنة لکل شعرة مرّت تحت یده قصراًاوسع من الدنیا بمافیها وفیها ماتشتهی الانفس وتلذّالاعین وهم فیها خالدون (۴)

اور جو بھی یتیموں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کرے گا وہ قیامت کے دن میرے

ساتھ ان دو انگلیوں کی مانند ہوگا۔اور جو بھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو خدا تعالی اس کیلئے ہربال جو اس کے ہاتھوں کے نیچے آئے ، کے بدلے بہشت میں ایک محل عطا کرے گا جو اس دنیا و مافیھا سے بھی بڑا ہوگا اور اس قصر میں وہ چیزیں ہونگی جنہیں نہ کسی نے چکھا ہوگا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا۔علامہ رضی نے اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھا ہے کہ آپ کی مراد کافل سے ابوطالب ہے(۵)

اسی طرح امام حسن مجتبی (ع) ایک دن دوش نبی پر سوار تھے۔ کوئی آکر کہنے لگا : اے حسن مجتبی !کتنی خوبصورت آپ کی سواری ہے؟ تو رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اسے نہ کہو کہ تیری سواری کتنی اچھی ہے بلکہ مجھ سے کہو کہ تیرا شہسوار کتنا اچھا ہے؟! صرف وہ فخر نہیں کرتا کہ اس نے دوش نبوت پر پاؤں رکھا ہے ،بلکہ میں بھی فخر کرتا ہوں کہ وہ میرے دوش پر سوار ہے۔

____________________

۱ ۔ بحار،ج١٠٠، ص١٩٧

۲ ۔ بحار،ج١٠، ص ٨٣۔

۳ ۔ شرح ابن ابی الحدید،ج١١،ص۔١٩.

۴ ۔ میزان الحکمہ ،باب الیتیم۔ح۶۸۱۱۔

۵ ۔ الاقبال ، ص۶۶۲۔

بچوں کو ان کے ا حترام کی یقین دہانی

اگر ماں باپ ان کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے اورنہ ان کی باتیں سنیں گے۔اگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوں کیلئے احترام کے قائل ہوں ۔اور ان سے مشورت مانگیں ،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں ۔ ہمارے لئے قرآن مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچے سے مشورہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!

بچوں کی تحقیر، ضد بازی کا سبب

ایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو ٹوک دیتے ۔ مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔ اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے ۔ اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوا ۔ اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگا۔ اور اپنے آپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگا ۔ اب جبکہ میں بڑاہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں ۔ اگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا ۔ اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی ۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعاً فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۱) اسی لئے امام باقر (ع)نے فرمایا:بچے کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح ، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو اور ان سے بھی مشورہ لیا کرو۔ اگر بچے احساس حقارت کرنے لگے تو نہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں ۔

ایک بچی کہتی ہے کہ :میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ امتحانات میں کم نمبر آنے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کی تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !ان کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گی۔ ماں نے کہا یہ ایسی ہے تو ویسی ہے۔ میری خالہ نے ماں سے اجازت لیکر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئی۔میری خالہ زاد بہن مہری میری ہمکلاس تھی ۔ان کے ساتھ تیاری کی تو مہری حسب سابق irst اور میں third آئی ۔جس پر مجھے خود یقین نہیں آرہی تھی۔

بچوں کی مختلف استعدادوں پر توجہ

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو آپ اس کو مجبور نہ کریں ، بلکہ دیکھ لیں کہ کس میدان (فیلڈ) میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ بہزاد نامی ایک شخص تھا۔جو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا ۔ یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا۔ لیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنے لگا۔ بہزاد خاموشی کے ساتھ ان کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی جو درخت پر بیٹھا ہے ۔ جب اس ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہے۔ اس شعبے سے ان کو لگاو اوردلچسپی ہے۔انہیں نقاشی کی کلاس میں بھیج دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دینا میں مشہور ہوا۔(۲)

تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہ

اگر آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو آپ ان کی تحقیر نہ کریں ۔ کیونکہ خدا تعالی نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہن۔ ایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھا۔میں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ و۔۔۔)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سی کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلا کراور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہے۔جب جنگلی اور وحشی جانوروں میں تشویق اس قدر مؤثر ہے تو کیا انسانوں میں مؤثر نہیں ہوگا؟!۔

بچوں سے محبت

اسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوں کو پیا رو محبت دیا کریں۔ رسول خدا (ص) ایک دن اپنے بچوں کو زانو پر اٹھائے پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا آدمی وہاں پہنچا ۔ اور کہامیرے دس بیٹے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی ایک بار بوسہ نہیں دیا۔یہ سن کر آپ (ص) سخت ناراض ہوگئے۔ اور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ اور فرمایا: من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور تیرے دل سے رحم نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!

ایک دفعہ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی (ع) کاندوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:حسن میرے کاندہے پر سوار ہوا تھا اور میں انہیں اتارنا نہیں چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اترآے(۳)

بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیاتو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل پر رسولخدا (ص) تأیید نہ کرے۔ میرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا :تو آپ نے فرمایا: کیا سب کو دئے؟ کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرو۔ اور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش آؤ۔میں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(۴)

____________________

۱ ۔ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی،ج۶، ص۴۶۔

۲ ۔ جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص١١.

۳ ۔ بحار،ج١٠، ص٨٤.

۴ میزان الحکمة،ج١٠،ص٧٠.


6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17