اس تبدیلی او رتغيرکی تشریح سيف بن عمرو دوسری صدی کے اوائل ميں کوفہ ميں ساکن تھا اس نے اپنے افسانوں کو اسی زمانہ ميں جعل کيا ہے اس جھوٹ اور افسانہ سازی ميں اس کا محرک درج ذیل دو چيزی تھيں :
١۔ قبائل قحطانی یمنی سے س کا شدید تعصب کہ جو قبائل عدنانی کے مقابلہ ميں تھا اورخود بھی قبائل قحطانی سے منسوب تھا۔
٢۔ زندیقی ، بے دینی اور اسلام سے عداوت رکھنے کی بنا پر تاریخ اسلام کو مشوش اور درہم برہم کرنا۔
وضاحت :
علی ابن ابيطالب کے دوستدار او رشيعہ قبائل قحطانی یمنيوں پرمشتمل تھے ۔ یہ قبائل بھی وہی سبئيہ ہيں کہ عدنانيوں کے مقابلے ميں قرار پائے تھے اور علی عليہ السلام کے زمانہ سے بنی اميہ کی حکومت کے زمانہ تک ہميشہ دقت کی ظالم حکومتوں کے ساتھ کھلم کھلا مخالفت کرتے تھے ۔
خاص کر خاندان اميہ کی حکومت کی ---سيف ذاتی طورپر اس حکومت کا حامی تھا ---
عدنانيوں کے بالکل برعکس قبائل سبئی معتقد تھے کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کو اپنا وصی معين فرمایا ہے یہ تھی کلی طور پر عدنانی قبيلوں کے مقابلے ميں قحطانی یاسبائی قبيلوں کی اعتقادی خصوصيات اور سياسی موقعيت دوسری طرف سيف بن عمر اپنے شدید خاندانی تعصب و عداوت اور زندیقی ہونے کی وجہ سے قبائل سبئی قحطان کو لوگوں ميں منحرف خود غرض مرموز اور نادان کے طو رپر تعارف کراتا ہے اور ایسے مسائل و موضوعات ميں ان کے عقيدہ کو بے اعتبار اور بے بنياد دکھاتا ہے ۔
سيف نے اسی مقصد کے پيش نظر عبدالله بن سبا کے افسانہ کو جعل کيا ہے اسے صنعا کا باشندہ بتایا ہے اور کہاہے : علی عليہ السلام کی وصایت کا بانی اور سرچشمہ وہی عبد لله بن سبا تھا نہ پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم “سبئيہ ” یہ وہی گروہ ہے جو اس عقيدہ ميں عبدالله بن سبا کی پيروی کرتے ہيں سيف نے افسانہ کو جعل کرنے کے بعد مسلمانوں کے ذہن ميں انحراف و بدبينی ایجاد کی اوراپنے افسانہ ميں اکثر بزرگ اصحاب جو علی عليہ السلام کے شيعہ تھے کو اپنے جعل کئے گئے تازہ مذہبی گروہ سے مربوط دکھایا اور ابوذر ، عمار یاسر، حجر بن عدی ، صعصعہ بن صوحان عبدی ، مالک اشتر ، کميل بن زیاد ، عدی بن حاتم ، محمد بن ابی بکر ، محمد بن ابی حذیفہ اور دیگر مشہور و معروف افراد کو اس گروہ کے اعضاء اور سردار کے طور پر پيش کيا ہے۔
اگر خود سيف کے زمانہ ميں کوفہ ميں لفط “ سبئيہ ” کامعنی و مفہوم علی عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی ہوتا تو سيف ہرگز اسے نقل کرنے ميں کوتاہی نہيں کرتا اور اسے اس صور ت ميں ضرورت ہی نہيں تھی تا کہ ایک نيا افسانہ گڑه کر علی عليہ السلام کے بارے ميں پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی وصيت کے موضوع ميں اپنے مد نظر افراد کی سرزنش کرنے کيلئے سبائيوں کے عقيدہ ميں شامل کرتا ،کيونکہ علی عليہ السلام کی الوہيت کے عقيدہ کا مسئلہ تنقيد اور سرزنش کے طورپر علی ابن ابيطالب کی خلافت و وصایت کے مسئلہ کے مقابلے ميں بيشتر مؤثر اور کارگر ثابت ہوتا۔
یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے تيسری صدی ہجری کے اواخر تک کسی کتاب ميں لفظ سبئيہ کے بارے ميں قبائل یمانی سے منسوب ہونے اور افسانہ عبدالله بن سبا ميں ذکر کئے گئے معنی ----یعنی سبئيہ ایک ایساگروہ ہے جوعلی عليہ السلام کی وصایت و خلاقت کے قائل ہيں ----کے علاوہ کوئی اور معنی نہيں پایا ۔
ليکن تيسری صدی کے اواخر او رچوتھی صدی کے اوائل کے بعدعلمائے ادیان و عقائد کی ملل و نحل کے عنواں سے لکھی گئی کتابوں اور تاليفات ميں درج کيا گيا ہے کہ عبدالله بن سبا اور اس کے پيرو ---جو سبئيہ کے نام سے معروف ہيں ---معتقد ہيں کہ علی عليہ السلام قتل نہيں کئے گئے ہيں بلکہ وہ کبھی نہيں مریں گے وہ خد ارہيں ۔ اور حضرت نے عبد الله بن سبا یا اس کے طرفداروں کو اسی عقيدہ کی وجہ سے آگ ميں جلادیا ۔
پس جيسا کہ ملاحظہ فرمارہے ہيں سبئيہ کے مفہوم و معنی نے قبائل یمن سے تدریجا بعض افراد کيلئے سرزنش کے مفہوم ميں تغير دیا اور اس کے بعد ایک نئے مذہبی گروہ سے منسوب معنی ميں تبدیل ہوا ہے کہ علی عليہ السلام کی وصایت و خلافت کے قائل ہيں پھر ایک دوسرے مذہبی گروہ کے مفہوم ميں تبدیل ہو اکہ علی عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی کے قائل ہيں اور اس کے بعد “ سبيئہ ” اور “ابن سبا ” کے سلسلہ ميں بہت سے افسانے پائے گئے ہيں ۔
جعل کا محرک اور ترویج کا عامل
دیکھنا چاہئے یہ تغير و تحول کيسے وجو د ميں آیا ہے ؟ یہ بے بنيا دمطالب کيوں گڑه
لئے گئے ہيں ؟ ! اور یہ مطالب مسلمانوں کی کتابو ں ميں کس طرح رواج پائے ہيں ؟!
ا ن مطالب کی وضاحت ميں ہميں کہنا چاہئے کہ : سيف بن عمر نے افسانہ “ سبئيہ ”
اور دوسرے افسانوں کو جعل کرکے یہ چاہا ہے کہ اپنے قبائل کے سرداروں اور بزرگوں ---عدنان جوہر دور ميں صاحب اقتدارا ور حکومت تھے --خلفائے راشدین سے لے کر امویوں تک سب کی حمایت و دفاع کرے اور انہيں ان پر کئے گئے اعتراضات سے بری الذمہ قرار دے او اس کے مقابلے ميں تمام برائيوں اور گناہوں کو قبائل قحطان سبئی کے افراد کے سر تهونپنے اور انهيں دبانے جو عدنانيوں اور وقت کی حکومتوں کا مخالف محاذ تشکيل دیتے تھے سيف نے اس طریقہ سے اپنے قبيلہ عدنان او ر صاحبان اقتدار و سطوت کی توجہ اور تائيد حاصل کی ہے اور انهيں اپنی افسانہ سازی کے ذریعہ راضی او رخوشحال کياہے اور اپنے افسانوں کے ذریعہ صاحب اقتدار و حکومت اصحاب کو دفاع و بچاؤ کا لباس زیب تن کيا ہے اس کے علاوہ اپنے افسانوں کو اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی طرفداری کے زیور سے مزین کيا ہے ا س طرح اسلام کی پہلی صدی کے مشاہير اور صاحب قدرت اصحاب پر کی جانے والی تنقيد اور اعتراضات کا دفاع کيا ہے لهذااس روش کی وجہ سے اس کے افسانے ہر زمانے ميں عام لوگوں ميں قابل قبول پسندیدہ قرار پائے ہيں اور قدرتی طور پر عوام کی طرف سے اپنے افسانوں کے بارے ميں طرفداری اور حمایت حاصل کرنے ميں کامياب ہوا ہے سيف نے ا س طرح اپنے افسانوں کی ترویج کی ضمانت فراہم کی ہے اور وقت کے گزرنے کے ساتھ جعليات کی اشاعت کيلئے بنيادی تحفظ حاصل کرنے ميں بھی کامياب ہوا ہے۔
یہی سبب ہے کہ سيف کی کتاب ‘ ‘ جمل ” جس ميں افسانہ عبدالله بن سبا ہے ،
شائع ہونے کے بعد ہاتھوں ہاتھ منتشر ہوئی اور اس کے افسانے وسيع پيمانے پر نقل ہوئے اور قلم بھی حرکت ميں آئے اور ان افسانوں کو اس کی کتاب سے نقل کرکے دوسری کتابوں ميں درج کيا گيا اور اس کے بعد جو کچھ افسانہ “ سبئيہ ” کے بارے ميں طبری جيسے مورخين نے اپنی تاریخ کی کتابوں ميں درج کيا تھا اسی کمی وبيشی کے بغيراسی صور ت ميں باقی رہا اور بعد والی نسلوں تک منتقل ہوا۔
افسانہ سبئيہ ميں تغيرات
افسانہ عبدالله بن سبا جس صورت ميں لوگوں کی زبانوں پر رائج اور عام ہواتھا وہ ایک عاميانہ صورت کا افسانہ تھا اس نے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ رشد و پروورش پائی اور اپنے لئے ایک وسيع تر ین دائرہ کا آغاز کيا او ر اس ميں کافی تبدیلياں ہوگئيں یہاں تک کہ افسانہ ابن سبا دو افسانوں کی صور ت اختيار کرگيا۔
پہلا: وہ افسانہ ، جسے سيف نے جعل کياتهاا ور کتابوں ميں درج ہوچکا تھا۔
دوسرا: وہ افسانہ جو سيف کے افسانہ ميں تغيرات ایجاد ہونے کے بعد لوگوں کی زبانوں پر جاری تھا یہ اس زمانے سے مربوط ہے کہ ملل و نحل کے علماء نے لوگوں کے عقائد و مذاہب کے بارے ميں کتابيں لکھنا شروع کی تھيں يہ علما ء فرقوں اور مذہبی گروہوں کی تعداد بيان کرنے ميں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے ميں بڑی دلچسپی رکھتے تھے اپنی کتابوں ميں جو کچھ مذہبی فرقوں کے بارے ميں لکھتے تھے ان کے مآخذ وہی ہوتے تھے جو ان کے زمانہ کے عام لوگ تصور کرتے تھے عقيدوں کے بارے ميں جو کچھ یہ مصنفين لوگوں سے سنتے تھے ان گروہوں اور فرقوں کے حالات کی تشریح ميں حقائق کی صورت ميں ا ن ہی مطالب کو اپنی کتابوں ميں درج کرتے تھے اور اس طرح مذہبی گروہوں اور عقائد اسلام ميں تحریف و نقليات کے بارے ميں کسی قسم کی تحقيق اور تجسس کئے بغير اضافہ کرتے تھے اس کے بعد لغت کے مؤلفين ، جيسے: ابن قتيبہ ، ابن عبدربہ پيدا ہوئے اور ادب کی مختلف فنون اور تاریخ پر کتابيں لکھيں ۔
ان مؤلفين نے مذہبی فرقوں کے بارے ميں عام لوگوں سے جمع کرکے ملل و نحل کی کتابوں ميں درج کی گئی روایتوں کو نقل کرکے اپنی کتابوں ميں ثبت کيا ہے اور ان کی سند و متن کے بارے ميں کسی قسم کی کوئی تحقيق نہيں کی ہے ۔
ا ن کے بعد والے مؤلفيں ، جيسے ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ نے مذکورہ کتابوں سے ان مطالب کوکسی تحقيق و تصدیق کے بغيراپنی کتابوں ميں نقل کيا ہے اسی سليقہ اور روش کے مطابق بعض مؤلفين نے سبيئہ کی داستان کو لوگوں کی زبانی سنی سنائی صورت ميں حاصل کرکے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے اور اس طرح یہ افسانے لوگوں کی زبان سے کتابوں ميں داخل ہوئے ہيں ا ور ایک کتاب سے دوسری کتا ب ميں منتقل ہوئے ہيں اس طرح عبدالله بن سبا کا افسانہ جو ایک افسانہ تھا رفتہ رفتہ دو افسانہ بن گيا:
پہلا: سيف کا افسانہ جو اپنی پہلی حالت ميں باقی ہے ۔
دوسرا: وہ افسانہ جو عام لوگوں کی زبانوں پرتها،وقت گزرنے کے ساتھ نقل و انتقال کی تکرار سے تغير پيدا کرکے نشو نما پاچکا ہے اور افسانہ عبدالله بن سبا ميں اس تغير و تحول کے نيتجہ ميں جو تبدیلياں رونما ہوئی ہيں ا س کے پيش نظر خود عبدالله ابن سبا بھی دو شخصيتوں کے طور پر ابهرکرسامنے آیاہے اس طرح مؤلفين کے لئے غلط فہمی اور تشویش کا سبب بنا ہے انشاء الله ہم اگلی فصل ميں اس پر روشنی ڈاليں گے۔
عبدلله ابن سبا کون ہے ؟
ولم نجد فی کتاب نسب عبدالله بن سبا
ہم نے ہزاروں کتابيں چهان ليں ليکن عبدالله بن سبا کے نسب کے بارے ميں کوئی نام و نشان نہيں پایا۔
مؤلف
ہ م نے اپنے بيان کے آغاز ميں کہاہے کہ کتاب کے اس حصہ ميں تين لفظوں کے بارے ميں تحقيق کریں گے:
”سبئيہ” ، “ عبدالله بن سبا ’ اور “ ابن سودا“
ہم گذستہ فصلوں ميں “ سبئيہ ” کی حقيقت اور اس کلمہ کے معنی ميں مختلف ادوار ميں تغير و تحول اور اس کے اصلی معنی سے سياسی معنی ميں اور سياسی معنی سے مذہبی معنی ميں اسکی تحریف سے آگاہ ہوئے اب ہم اس فصل ميں عبدالله بن سباکی حقيقت پر تحقيق کرنا چاہتے ہيں تاکہ اس افسانوی سورما کو اچھی طرح پہچان سکيں ۔
عبدالله بن سبا کا نسب ،پہلے مرحلہ کی کتابوں ميں :
لفط “ عبدالله بن سبا” چار لفظوں : “ عبد” ، “الله” ،“ ابن ”، و “ سبا” پر مشتمل ہے ۔ یہ چاروں لفظ عربی زبان سے مخصوص ہيں ۔ یہ ایک مضبوط دليل ہے کہ یہ باپ بيٹے یعنی ‘ ‘
عبدالله ” و “سبا” دونوں عرب ہيں ۔ اس افسانہ کو جعل کرنے والا یعنی سيف بن عمر بھی عبدالله بن سبا کو واضح طورپر اہل صنعا (یمن) ہی بتاتاہے اور تمام مؤرخين اور مولفين نے ابن سبا کی سرگرميوں اور نشاط کا دور عثمان بن عفان اور علی ابن ابيطالب عليہ السلام کا زمانہ معين و محدود کياہے اس کيلئے جس سرگرمی اور فعاليت کے زمانے کا ذکر کيا گيا ہے وہ پہلی صدی ہجری کی چوتھی دہائی سے بيشتر نہيں ہے اور عبدالله ابن سباکے بارے ميں جتنے بھی افسانے اور داستانيں ملتی ہيں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کا معروف و مشہور شخص تھا۔
ان تين تمہيدات کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ عبدالله بن سبا ایک عرب اور ایک عرب کا بيٹا تھا اورپہلی صدی ہجری کی چوتھی دہائی کے دوران حضرت عثمان اورعلی عليہ السلام کے زمانے ميں جزیرة العرب ميں زندگی گزارتا تھا اور مسلمانوں کے سياسی اور دینی مسائل ميں نمایاں سرگرمی انجام دیتا تھا، اسی لئے وہ اس زمانے کا ایک معروف و مشہور شخص تھا۔
یہاں پر ایک ناقابل حل مشکل پيش آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جزیرة العرب ميں اسلام کی پہلی صدی ميں اموی خلافت کے زمانے تک کوئی ایسا عرب مرد تاریخ ميں نہيں ملتا ہے کہ اس کا نام ، اس کے باپ کا نام ااور رہائش کی جگہ کا نام اور اس کی سرگرمياں معلوم ہوں ،معروف و مشہور اور لوگوں کا فکری قائد بھی ہو ، ليکن اس کے جد اور شجرہ نسب نامعلوم ہو!
کيونکہ عرب اپنے شجرہ نسب کے تحفظ ميں اتنی غير معمولی سرگرمی اور دلچسپی دکھاتے تھے کہ ان کی یہ سرگرمی غلو اور افراط کی حد تک بره گئی تھی ، یہاں تک کہ نہ صرف افرادکے انساب کے بارے ميں خود دسيوں کتابيں تاليف کرچکے ہيں بلکہ اپنے گھوڑوں کے انساب کے تحفظ کے سلسلے ميں بھی خاص توجہ رکھتے تھے کہ یہاں تک بعض دانشوروں نے گھوڑوں کے شجرہ نسب کے بارے ميں کتابيں لکھی ہيں جيسے : ابن کلبی ( وفات ٢٠ ۴ هء)
گھوڑوں کے نسب کے بارے ميں اس کی کتاب “ انساب الخيل ” موجود ہے اس وقت اسلام کے اس زمانے کی تاریخ ،تشریح ، انساب اورتمام فنون وادب کے بارے ميں ہزاروں جلد قلمی اور مطبوع کتابيں ہمارے اختيار ميں ہيں اور ان کتابوں ميں سے کسی ایک ميں بھی عبدالله بن سبا کے شجرہ نسب کے بارے ميں کوئی نام و نشان نہيں ملتا ہے ۔
پس عبدالله بن سباکون ہے ؟ اس کے جد کا نام کيا ہے ؟ اس کے آباء و اجداد کون ہيں ان کا شجرہ نسب کس سے ملتا ہے ؟ اور وہ کس قبيلہ اور خاندان سے تعلق رکھتا تھا؟
ا تنے علماء اور دانشوروں اور مؤلفين نے عبدالله بن سبا سے متعلق افسانوں اور داستانوں کو درج کرنے ميں نمایاں اہتمام کيا ہے ليکن کيا وجہ ہے کہ اس کے باوجود مذکورہ موضوع کے بارے ميں انہوں نے خاموشی اختيار کی ہے اورا س کے شجرہ نسب کے بارے ميں کسی قسم کا اشارہ تک نہيں کيا ہے اور نہ اس کے بارے ميں کوئی مطلب لکھا ہے ؟!
ہم جو دسيوں سال سے مختلف اسلامی موضوعات کے بارے ميں مدارک و مآخذ کے سلسلہ ميں تحقيق و تفتيش کررہے ہيں ، تا بہ حال اس سوال کا جواب کہيں نہيں پایااور عبد الله بن سبا کا اس موضوع کے بارے ميں کہيں کوئی نام و نشان نہيں ملا ہے ۔
عبدالله بن سبا کون تھا؟
ابن قتيبہ ( وفات ٢٧ ۶ ء ه) کی کتاب ‘ الامامة و السياسة ” ميں آیا ہے:
فقام حجر بن عدی و عمر بن الحمق الخزاعی و عبدالله بن وهب الراسبی علی علی فاسئلوہ عن ابی بکر و عمر ”
اور ثقفی -( وفات ٢٧٣ هء) اپنی کتاب “ الغارات” ميں لکھتا ہے :
____________________