عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

مشاہدے: 21890
ڈاؤنلوڈ: 2882


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21890 / ڈاؤنلوڈ: 2882
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 3

مؤلف:
اردو

پيچھے مڑو ! علی عليہ السلام پيچھے مڑگئے ، اس کے بعد فرمایا: اے علی ! سامنے کی طرف مڑو پھر رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے آگے اور پيچھے سے علی عليہ السلام کے قيافہ او رہيکل پر ایک نظر ڈالی ، پھر فرمایا: فرشتوں کے تاج بھی ایسے ہی ہيں ۔

دوسری روایت کو مرحوم فيض نے اپنی کتاب “ وافی ”کے باب العمائم ميں اور حر عاملی نے اپنی کتاب “وسائل ”کے باب “ استحباب العمامة ” ميں ا ور مجلسی نے بھی بحار الانوار کی نویں جلد ميں درج کياہے ۔

ا ن روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اس عمل کو علی عليہ السلام کے بارے ميں کئی بار انجام دیا ہے ایک بار جنگ خندق ميں جيسا کہ اس کی روایت بيان کی گئی ، دوسری با غدیر خم کے دن جيسا کہ علی بن طاؤس ( وفات ۶۶۶ ئه) کتاب “ امان الاخطار ” ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے صحابی عبدالله بن بشر ١ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہيں :

رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی عليہ السلام کو اپنے پاس بلایا اور اپنے ہاتھ سے ان کے سر پر ایک عمامہ رکھا اس عمامہ کا ایک سرا ان کے شانہ پر لٹکادیا ،اس کے بعد فرمایا: خداوند عالم نے جنگ حنين ميں ميری مدد کيلئے کئی فرشتے کہ جن کے سر پر علی عليہ السلام کے عمامہ کے مانندعمامے تھے اوروہ ہمارے اور مشرکين کے درميان (دیوار) کے مانند حائل ہو گئے اس طرح مشرکين کے سپاہيوں کيلئے رکاوٹ بنے ۔

بحرانی ( وفات ١١٩٧ هء) نے کتاب “ غایة المراد ” کے سولہویں باب ميں حموینی کی ٧ ۴ روایتوں کو اہل سنت کی روایتوں کے ضمن ميں درج کيا ہے ۔

کلينی اپنی کتاب “ کافی ” کتاب “ کتاب ن u۱۵۷۵ الحجة باب ما عندالائمة من سلاح الرسول و متاعہ ” ميں یوں نقل کرتے ہيں کہ : رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اپنے مرض الموت ميں اپنی ذرہ ، علم ، لباس ، ذو الفقار ، ڈهال اور سحاب علی کو بخش دیا ۔ علل الشرائع ميں بھی اسی مضمون کی ایک روایت ذکر ہوئی ہے۔

خلاصہ اور نتيجہ:

ان روایتوں سے جو سنی اور شيعہ کتابوں ميں کثرت سے پائی جاتی ہيں “ سحاب”

اور جاء علی فی السحاب کے معنی مکمل طورپر واضح اورروشن ہوجاتے ہيں کہ “ سحاب سے ۔

____________________

١۔عبدالله بن بشر اہل حمس ميں سے ہے بغوی “معجم الصحابہ ”ميں عبدالله کا نام ذکر کرکے کہتا ہے یحيیٰ بن حمزہ نے عبيدہ حمسی سے اور اس نے عبدالله سے نقل کيا ہے کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے علی عليہ السلام کے سر پر ایک سياہ عمامہ رکھا اس کے ایک طرف کو سامنے یا سر کے پيچھے آویزان کيا پھر سے وہ علی عليہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے غدیر ٢۴٧ ۔ / کے دن اپنے ہاتھ سے ایک سياہ عمامہ ميرے سر پر رکھا ” شرح حال نمبر ۴۵۶۶ اصابہ : ٢

مراد بادل نہيں ہے بلکہ اس سے مراد پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا ایک خصوصی عمامہ ہے جس کا نام سحاب تھا اور آپ نے اسے علی بن ابيطالب عليہ السلام کو بخش دیا تھا ۔علی عليہ السلام بھی کبھی اسے اپنے سرپر باندهتے تھے جملہ “جاء علی فی السحاب ”سے مقصود بھی ےہی حقيقت ہے کہ علی عليہ السلام پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے مخصوص عمامہ کو سر پر رکھ کر آتے تھے ليکن تحریف کرنے والے اور انتقام جو افراد ، خاص کر شيعوں کے دشمنوں نے اس حقيقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس ميں شعوری یا غير شعوری طور پر تحریف کی ہے اور سحاب کو بادل کے معنی ميں استعمال کرکے اس تاریخی جملہ: جاء علی عليہ السلام فی السحاب کو علی بادل ميں ہیں کے معنی سے تشریح کی ہے ۔ اس طرح مضحکہ خيز اور خرافات پر مشتمل “ افسانہ علی ابر ميں ” کو وجود ميں لایا ہے اور کئی افراد کو ا س افسانہ کے ذریعہ مورد الزام قرار دیا ہے جس کی وضاحت گزشتہ فصل اور اگلی فصل ميں ہم اہل ملل ونحل کی افسانہ پر دازی کے ایک اور نمونہ کے ضمن ميں تحقيق کریں گے ۔

افسانہ ‘ ‘ خدا کے ایک جزء نے علی عليہ السلام ميں حلول کيا ہے“

شہرستانی نے کتاب “ ملل و نحل ” ميں فرقہ سبائيہ اور عبدالله بن سبا کے اس اعتقاد کے بارے ميں کہا علی (عليہ السلام )نہيں مرے ہیں کيونکہ ان ميں خدا کاایک جز ء حلول کرگيا ہے : اور اس پر کچھ نہيں ہوتا ہے ! کو بيان کرتے ہوئے سبائيوں کے بارے ميں کہتاہے:

وہ معتقد ہيں کہ خداکا ایک جزء علی (عليہ السلام )کے بعد ائمہ کے اندر حلول کر گيا ہے ا ور یہ ایسا مطلب ہے جسے اصحاب جانتے تھے اگر چہ وہ ابن سبا کے مقصود کے خلاف کہتے تھے ، یہ عمر ابن خطاب تھا کہ جس نے علی عليہ السلام کے بارے ميں کہا --- جب علی عليہ السلام نے ایک شخص کوحرم ميں ایک آنکھ کا کانا کردیاتو اس کے بعد اس کے پاس شکایت لے گئے تو --- ميں کيا کہہ سکتا ہوں خدا کے اس ہاتھ کے بارے ميں جس نے خدا کے حرم ميں کسی کی آنکھ نکال لی ہو؟ عمر نے اس پر خدا کا نام دیا ہے اس بنا پر کہ جو کچھ وہ ان کے بارے ميں جانتا تھا(۱)

ا بن ابی الحدید( وفات ۶۵۵ هء) یا ۶۵۶ ئه) نے اس مطلب کو یوں بيان کيا ہے “ بعض افراد نے ایک کمزور شبہہ کو دستاویز بنادیا ہے جيسے عمر کی اس بات پر جب علی عليہ السلام نے کسی کو حرم ميں بے

____________________

١۔عبدالله بن سبا کے عقيدہ کو بيان کرتے ہوئے کہاگيا ہے:

زعم ان عليا یمت ، ففيه الجزء الالهی ، ولا یجوز ان یستولی عليه انما اظهر عبدالله بن سبا هذه المقالة بعد انتقال علی عليه السلام و اجتمعت عليه جماعة و هم اول فرقة قالت بالتوقف ، والغيبة و الرجعة و قالت بتناسخ الجزء الالهی فی الائمه بعد علی عليه السلام و هذا المعنی ممّا کان یعرفه اصحابه و ان کانوا علی خلاف مراد هذا عمر بن الخطاب کان یقول فيه حين فقا عين واحد فی الرحم و رفعت القصة اليه : ما ذا اقول فی ید الله فقائت عينا فی حرم الله فاطلق عمر اسم الالهية عليه لما عرف منه

٢) فصل تعریف فرقة سبائيہ کے حاشيہ کی طرف رجوع کيا جائے ۔( / ذالک کتاب “ ملل و نحل ” ج ١١

احترامی اور بے دینی کرنے کے جرم ميں اس کو ایک آنکھ سے کانا کردیا تھا ، تو عمر نے کہا تھا: ميں خدا کے اس ہاتھ کے بارے ميں کيا کہوں جس نے خدا کے حرم ميں کسی کی آنکھ نکال لی ہو؟(۱)

ا بن ابی الحدید نے اپنا مآخذ ذکر نہيں کيا ہے شاید اسی شہرستان کی ملل ونحل سے نقل کيا ہوگا ۔و ہ توایک افسانہ ہے جسے نقل کيا گيا ہے اور اس افسانہ کی حقيقت وہی ہے جسے محب الدین طبری نے الریاض النضرة ميں يوں درج کيا ہے : عمر طواف کعبہ ميں مشغول تھے اور علی عليہ السلام بھی ان کے آگے آگے طواف ميں مشغول تھے اچانک ایک شخص نے عمر سے شکایت کی ، یا امير المؤمنين ! علی “عليہ السلام ”اور ميرے سلسلے ميں انصاف کرو!

عمر نے کہا؛ علی“ عليہ السلام” نے کيا کيا ہے ؟

اس نے کہا : اس نے ميری آنکھ پر ایک تھپڑ مارا ہے ۔

عمروہيں پر ٹھہرگئے یہاں تک کہ علی“ عليہ السلام” بھی طواف کرتے ہوئے وہاں پہنچے ان سے پوچھا اے ابو الحسن کيا اس شخص کی آنکھ پر تم نے تھپڑ مارا ہے ؟!

علی نے کہا: جی ہاں ،یا امير المؤمنين ۔

عمر نے کہا: کيوں ؟

علی “عليہ السلام” نے کہا: اسلئے کہ ميں نے اسے دیکھا کہ طواف کی حالت ميں مؤمنين کی عورتوں پر بری نگاہ سے دیکھ رہاتھا ۔

عمر نے کہا؛ احسنت یا ابا الحسن ! یہ تھی اس داستان کی حقيقت ، کتاب ملل و نحل ميں اس قسم کی اشتباہات اور خطائيں بہت زیادہ ہيں ليکن ہم اس کتاب ميں حقائق کی تحریف کو دکھانے کيلئے ان ہی چند افسانوں کی تحقيق پر اکتفا کرتے ہيں اس کے بعد گزشتہ بحثوں کا ایک خلاصہ پيش کریں گے ۔

____________________

)۴٢۶ / ١۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ( ج ١

چوتھے حصہ کے مآخذ و منابع

الف: افسانہ “علی ابر ميں ہے” کے مآخذ ١۔ المقالات و الفرق تاليف سعد بن عبدا لله اشعری، ص ٢٧

٨ ۵ / ٢۔ مقالات الاسلاميين ابو الحسن اشعری ١

٣۔ التنبہ و الراد ابو الحسن ملطی ، ص ٢ ۵

۴ ۔ الفرق بين الفرق بغدادی ، تحقيق محمد محی الدین مدنی ، طبع قاہرہ،

ص ٢٣٣

١٨ ۶/ ۵ ۔ الفصل ابن حزم، طبع اول، : ۴

١٢٩/ ۶ ۔ البداء و التاریخ : ۵

٧۔ التفسير فی الدین: ا سفرائينی : ص ١٠٨

٨۔ الملل و النحل ،شہرستانی : تحقيق عبدالعزیز طبع دارا لاتحاد مصر ١٣٨٧ ئه :

١٧ ۴ / ١

٩۔ الانساب، سمعانی : ل غت سبئی کے ذیل ميں ۔

١٠ ۔ شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، خطبہ ٢٧ کی شرح ميں ١١ ۔ التعریفات ، جرجانی : ص ١٠٣

١٢ ۔ مقدمہ ابن خلدون : ص ١٩٨

١٧ ۵ و ١٧٢ ۔ / ١٣ ۔ خطط ، مقریزی ، طبع نيل مصر : ١٣٢ ۴ هء : ۶

١ ۴ ۔ دائرة المعارف ، فرید وجدی ، لغت “ سبئيہ ” کے ذیل ميں ١ ۵ ۔ دائرة المعارف ، بستانی ، لغت عبدالله بن سبا ميں ب : سحاب’ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے عمامہ کا نام ہے:

اہل سنت کی کتابوں سے اس روایت کے مآخذ:

١۔ نہایة ابن اثير ، لغت سحاب ميں ۔

٢۔ لسان العرب ، ابن منظور ، لغت سحاب ميں ٣۔ تاج العروس ، زبيدی ، لغت سحاب ميں ۴ ٢٨ ۔ ۴ ٢٧ / ۴ ۔ مواهب الدنيہ ، قسطلانی : ١

۵ ۔ انوار المحمدیہ ، نبہانی : ص ٢ ۵ ١

ج : پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے عمامہ “ سحاب ” علی عليہ السلام کے سر پر باندها۔

۶ ٠ / ١۔ کنزا لعمال : متقی هندی : ۴

٢/ ٢۔ الریاض النضرة ، محب الدین طبری ، طبع دار التاليف مصر: ١٣٧٢ هء ،: ٢٩٨

د: ا س خبر کے مآخذ کہ کبھی علی عليہ السلام اسی عمامہ کے ساتھ نکلتے تھے اور رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم فرماتے تھے : “ علی سحاب ميں آئے ہیں “

١۔ وسائل الوصول الی شمائل الرسول : نبہانی : ٧٠

٢۔ السيرة النبی “ صلی الله عليہ و آلہ وسلم ” ، برہاں الدین حلبی ، پریس ٣٧٩ / مصطفی محمد ، قاہرہ : ٣

ه: سحاب کے بارے ميں شيعوں کی کتابوں کے مآخذ:

سحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے عمامہ کانام ہے:

٢١٣ ۔ / ١۔ مستدرک الوسائل ، نوری: ١

۴۶ ١ ۔ ۴۶ ٢ / ٢۔ فروع کافی ، کلينی ، ۶

٣۔ وافی ،فيض کاشانی جلد ١١ : ص ١٠١

٢٨ ۵ / ۴ ۔ وسائل الشعيہ ، شيخ حر عاملی : ١

و: جنگ خندق ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے عمامہ “ سحاب ” کو علی عليہ السلام کے سر پر باندها:

٣ ۴ ٣ / ١۔ مجمع البيان، طبرسی ، طبع صيدا، ٧

۵ ٢٩ / ٢۔ بحار الانوار ،مجلسی : ۶

٢١٣ / ٣۔ مستدرک ، نوری : ١

٢٧٩ لفظ “عم ” ميں / ۴ ۔ سفينة البحار ، قمی ، ٢

ز: کبھی علی عليہ السلام عمامہ “ سحاب” کو سر پر رکھتے تھے اور رسول خدا صلی الله

عليہ و آلہ وسلم فرماتے تھے، علی عليہ السلام عمامہ سحاب کے ساتھ تمہاری طرف آگئے۔

١۔ مکارم الاخلاق طبرسی : ٢١

١ ۵۵ / ٢۔ بحار الانوار ، مجلسی ، ۶

۶ ٠ ۴ لغت سحاب کے ذیل ميں / ٣۔ سفينة البحار ، قمی : ١

ح: رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ و سلم نے عمامہ ‘ ‘سحاب ” کو ایک خاص کيفيت کے ساتھ علی عليہ السلام کے سر پر رکھا:

١۔ کتاب “ کافی ” ، کلينی،

٢۔ کتاب وافی فيض کاشانی باب العمائم ميں ٣۔ وسائل ، حر عاملی : اباب استحباب التعمم ۶ ١ ۵ / ۴ ۔ بحارا لانوار ، مجلسی : ٩

٢٧٩ / ۵ ۔ سفينة البحار، قمی : ٢

ط: رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے عمامہ “ سحاب ” سے کئی بار علی عليہ السلام کی تاج پوشی کی ہے:

١۔ امان الاخطار ، علی بن طاؤس ٢۔ وسائل ، شيخ حر عاملی، باب التعلم ی : رسول اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے عمامہ “ سحاب ” کو اپنے مرض الموت ميں علی عليہ السلام کوہبہ کيا:

٢٣ ۶ / ١۔ کافی ، کلينی ، ١

٢۔ غایة المرام ، سيد ہاشم بحرانی ، ص ٨٧

٣۔ مقدمة ابن خلدون ، تيسرا اڈیشن بيروت ، ١٩٠٠ ءء ، ص ١٩٨

پانچواں حصہ

خلاصہ اور خاتمہ سبئيہ ، دوران جاہليت سے بنی اميہ تک۔

سبئيہ ، بنی اميہ کے دوران۔

سبئيہ ، سيف بن عمر کے دوران۔

تاریخ ، ادیان اور عقائد کی کتابوں ميں عبدالله سبا و سبئيہ l

عبد الله بن سبائی کی عبدالله بن سبا سے تحریف ۔

جعل و تحریف کے محرکات ۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ ۔

اس حصہ کے مآخذ۔

سبيئہ دوران جاہليت سے بنی اميہ تک

ان السبيئية مرادفة للقحطانية و اليمانية

سبئيہ ، قحطانيہ اور یمانيہ کے ہم معنی تھا اور قبيلہ پر دلالت کرتا تھا

. مؤلف

سبئيہ اسلام سے پہلے

سبئيہ ، کافی پرانا اور سابقہ دار لفظ ہے، جو قبل از اسلام دوران جاہليت ميں عربوں کی زبان پر رائج تھا اور قبيلہ کی نسبت پر دلالت کرتاتها، یہ لفظ قحطانيہ کا مترادف اور ہم معنی تھا یہ دونوں لفط سبئيہ و قحطانيہ سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطاان کی نسبت پر دلالت کرتے تھے، چونکہ ان کے باپ کا نام سبا تھاا س لئے انہيں سبائيہ یا سبئيہ کہتے ہيں اور چونکہ ان کے جد کا نام قحطان تھا اس لئے انہيں قحطانيہ کہتے ہيں چونکہ ان کا اصلی وطن یمن تھا اسلئے انہيں یمانی یا یمنيہ بھی کہتے تھے ۔ نتيجہ کے طور پر تينوں لفظ ایک ہی قسم کے قبائل پر دلالت کرتے ہيں انکے مقابلہ ميں عدنانيہ ، نزاریہ، ومضریہ تھے مضر بن نزار بن عدنان کے قبائل سے منسوب تھے اسماعيل ابن ابراہيم کی اولاد ميں سے تھے--- اور اسی پر دلالت کرتے ہيں ۔

ان دونوں قبيلے دوسرے قبائل سے بھی عہد و پيمان قائم کرتے تھے اور انهيں وہ اپنا ہم پيمان کہتے تھے اس طرح سبئيہ ، قحطانيہ اور یمانيہ ،کا نام نہ صرف سبا بن یشجب پر بلکہ ان کے ہم پيمان قبائل جيسے قبيلہ ربيعہ پر بھی استعمال ہوتا تھا ، اسی طرح “ عدنانيہ ”

مضریہ اور نزاریہ بھی مضر بن نزار قبائل اور ان کے ہم پيمانوں کے لئے استعمال ہوتا تھا ۔

سبئيہ ، اسلام کے بعد

اسلام کی پيدائش کے بعد ان دونوں قبيلوں کا، ایک ایک خاندان مدینہ ميں جمع ہوگيا اور رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی قيادت و زعامت ميں پہلا اسلامی معاشرہ تشکيل پایا ۔ سبائی یا قحطانی جو پہلے سے یمن سے آکر مدینہ ميں ساکن ہوئے تھے ، انهيں انصار کہا جاتا تھا ۔ عدنانی بھی پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے مدینہ ہجرت کے بعد مکہ اور دوسرے علاقوں سے مدینہ آئے تھے اور انهيں “ مہاجر ” کہا جاتاتھا ، بعض اوقات ان دو گروہوں کے درميان اختلافات اور جھگڑے بھی واقع ہوتے تھے ۔

پہلاجھگڑا اور اختلاف جو اسلام ميں ان دو گروہوں یعنی قحطانی کہ جو قبائل سبائيہ سے تھے اور عدنانی ، یا دوسرے لفظوں ميں مہاجر و انصار کے درميان واقع ہوا جنگ بنی المصطلق ميں “ مریسيع ” کے پانی پر تھا ۔ مہاجرین اور انصار کے ایک ایک کارگذار کے مابينپانی کھينچنے پر اختلاف اور جھگڑا ہوگيا تو مہاجرین کے کار گزار نے بلند آواز ميں کہا: یا للمهاجرین ! اے گروہ مہاجر مدد کرو ! اور انصار کے کارگذارنے بھی آواز بلندکی : یا للانصار ! اے گروہ انصار! ميری نصرت کرو ! اس طرح انصار اور مہاجر کے دو گروہ آپ ميں نبرد آزما ہوئے اور نزدیک تھاکہ ایک بڑا فتنہ کھڑا ہو جائے اس موقع پر منافقين کے سردار عبدالله بن ابيہ اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے اختلافات کو ہوا دینے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتے ہوئے بولا : اگر ہم مدینہ لوٹيں گے تو صاحبان اقتدار یعنی “ انصار ” ذليلوں یعنی مہاجرین کو ذلت و خواری کے ساتھ مدینہ سے نکال باہر کریں گے ١رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اس موقع پر کوچ کرنے کا حکم دیا ۔ اور سب کو آگے بڑهادیایہاں تک کہ نمازکا وقت آگيا نماز

پڑهنے کے بعد بھی رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے روانہ ہونے کا حکم دیا رات کے آخری حصہ تک چلتے رہے ۔ اس کے بعد جب پڑاؤ ڈالا تو تهکاوٹ کی وجہ سے سب سو گئے صبح ہونے پر بھی آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے روانہ ہونے کا حکم دیا ۔ اسی طرح چلتے رہے لهذا آنحضرت نے انهيں اس فتنہ کو پھر سے زندہ کرنے کی ہرگز فرصت نہيں دی یہاں تک یہ لوگ مدینہ پہنچ گئے اور اس طرح آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی حکمت عملی سے یہ فتنہ ختم ہوگيا۔

ان دو گروہوں کا دوسرا تصادم سقيفہ بنی ساعدہ ميں واقع ہوا جب پيغمبر خدا صلی الله عليہ وآلہ و سلم نے رحلت فرمائی انصار سقيفہ بنی ساعدہ ميں جمع ہوئے تا کہ سعد بن عبادہ انصاری سبائی کو پيغمبر کے خليفہ اور مسلمانوں کے قائد کے طورپر منتخب کریں مہاجرین نے بھی اپنے آپ کو سقيفہ پہنچادیاا ور ان کے مقابلہ ميں محاذ آرائی کی اور ابوبکر کی خلافت کو پيش کيا ،وہ اس نبرد اور جھگڑے ميں ان پر غالب ہوئے اور ابوبکر کو مسند

____________________

١۔ یہ داستان سورہ منافقين یوں آئی ہے :

)٨/ >یقولون لئن رجعنا الی المدینه ليخرجن الاعز منها الاذل >۔ سورہ منافقين ۶٣

خلافت پر بٹھادیا اور خلافت کو قریش ميں ثابت کردیا اور ۔ اس طرح ایک قریشی حکومت کی داغ بيل ڈال دی اس تاریخ کے بعد انصار کو حکومت اور تمام سياسی و اجتماعی امور سے محروم کرکے یا بہت کم اور استثنائی مواقع کے علاوہ نہ انهيں جنگوں ميں سپہ سالاری کے عہدہ پر فائز کرتے تھے اور نہ کسی صوبے کا گورنر حتی کسی شہر کے ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بھی انہيں نہيں سونپتے تھے(۱)

خلافت عثمان کے دوران

مسلمانوں کے حالات ميں اسی طرح حوادث پيدا ہوتے گئے اور زمانہ اسی طرح آگے بڑهتا گيا ، یہاں تک کہ عثمان کا زمانہ آگيا۔ اس زمانہ ميں کام اور حکومت کے حالات بالکل دگرگوں ہوگئے قریش کی حکومت اور اقتدار بدل کر خاندان بنی اميہ ميں منحصر ہوگئی ۔ اموی خاندان کے اراکين اور ان کے ہم پيمان قبائل نے تمام کليدی عہدوں پر قبضہ جماليا۔ یہ لوگ مصر،شام ، کوفہ ، بصرہ ، مکہ ، مدینہ اور یمن کے علاوہ اسلامی ممالک کے وسيع علاقوں کے گورنر اور حکمراں بن گئے اور اس طرح ان شہروں اور اسلامی مراکز ميں مطلق العنان اور غير مشروط حکمرانی اور فرمانروائی پر فائز ہوئے ۔خاندان اموی کی طرف سے مسلمانوں کے حالات پر مسلط ہونے کے بعد اذیت و آزار اور ظلم و بربریت کا آغازہو ااور اسلامی شہروں اور تمام نقاط ميں قساوت بے رحمی کا برتاؤ کرنے لگے ۔ مسلمانوں کے مال و جان پر حد سے زیادہ تجاوزہونے لگا ۔ ظلم و خيانت اورغنڈہ گردی انتہا کو پہنچ گئی یہاں تک کہ بنی اميہ کے خود سراور ظالم گورنروں اور فرمانرواؤں کے ظلم و ستم نے مسلمانون کے ناک ميں دم کر دیا اس موقع پر قریش کی نامور شخصيتوں ،جيسے ام المؤمنين عائشہ ، طلحہ ، زبير ، عمرو عاص اور دوسرے لوگوں نے عوام کی رہبری اور قيادت کی باگ ڈور سنبھالی اور بنی اميہ کے خلاف بغاوت کی ،اور تمام اطراف سے مدینہ کی طرف لوگآنے لگے آخرکاراموی خليفہ عثمان کو مدینہ ميں ان کے گھر ميں قتل کر دیا گيا عثمان کے قتل ہونے کے نتيجہ ميں ، بنی اميہ کے درميان ---جوکہ خود قریش تھے -- قریش کے دوسرے خاندانوں کے ساتھ سخت اختلافات پيدا ہوگيا ، اس طرح مسلمانوں پر قریش کا تسلط کم ہوا ، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد پہلی بار مسلمان اپنے اختيارات کے مالک بنے اور حکومت کی باگ ڈور قریش سے چھيننے ميں کامياب ہوئے ۔ یہ وہ وقت تھا کہ مسلمانوں نے کسی رکاوٹ کے بغير ایک دل اور ایک زبان ہوکر علی عليہ السلام کی طرف رخ کيا اور پوری دلچسپی اور محبت سے انهيں مسلمانوں پر حکومت کرنے کيلئے منتخب کيا۔ انتہائی اصرار کے ساتھ متفقہ طور پر ان کی بيعت کی اور حکومت کی باگ ڈور انکے لائق اور باصلاحيت ہاتھوں ميں سونپ دی۔

علی عليہ السلام نے اپنی حکومت کو اسلامی قوانين کی بنيادوں پر استوار کيا۔ عام مسلمانوں ميں برادری نيز مساوات اوربرابری کے منشور کا اعلان ہوا، ان پر عدل و انصاف کی حکومت کی ، بيت المال کو ان کے درميان یکسان اور مساوی طور پر تقسيم کيا۔ انصار کے لائق اور شائستہ افراد کو -- جنہيں گزشتہ حکومتوں ميں محروم کياگيا تھا---

____________________

١۔ چنانچہ ابو بکر ، عمر اور عثمان کے دوران امراء اور سپہ سالاروں کے بارے ميں تحقيق کرنے سے یہ حقيقت واضح اور روشن ہوتی ہے۔

اہم عہدوں پر فائز کيا اور انہيں مختلف شہروں اور اسلامی مراکز ميں گورنروں اور حکمرانوں کے طور پرمنصوب کيا ۔ مثلا : عثمان بن حنيف کو بصرہ ميں ، اس کے بھائی سہل کو مدینہ ميں ،

قيس بن سعد بن عبادہ کو مصر ميں ، شام کی طرف مسافرت کے دوران کوفہ ميں اپنی جگہ پر ابو مسعود انصاری کو اور مالک اشر سبئی کو جزیرة اور اس کے اطراف ميں بعنوان حکمراں اور گورنر منتخب فرمایا(۱)

حکومت کی اس روش سے“علی عليہ السلام” نے قریش کی گزشتہ حکومتوں کی تمام اجارہ داری کو منسوخ کرکے رکھ دیا۔

یہی وجہ تھے کہ قریش نے علی عليہ السلام کی سياست کو پسند نہيں کيا اور ان کے خلاف ایک وسيع پيمانہ پر بغاوت کا سلسلہ شروع کردیا یہاں تک کہ جنگِ جمل و صفين کو برپا کيا ، اسی لئے علی عليہ السلام ہميشہ قریش سے شکایت کرتے تھے اور ان کے بارے ميں ان کا دل شکوہ شکایتوں سے بھرا ہواتھا حضرت کبھی قریش کے بارے ميں شکوؤں کو زبان پر جاری فرماتے تھے اور ان کی عادلانہ روش کے مقابلہ ميں قریش کے سخت رد عمل پر صراحت کے ساتھ بيزاری اور نفرت کا اظہار کرتے تھے :

ایک ایسا درد مند ،جس کے زبان کهولنے سے در و دیوار ماتم کریں نہج البلاغہ ميں آیا ہے کہ علی عليہ السلام قریش کی شکایت کرتے ہوئے فرماتے تھے:

” خداوندا! ميں قریش اور اُن کے شریک جرم افراد کے خلاف تيری بارگاہ ميں شکایت کرتا ہوں کيوں کہ انہوں نے قطع رحم کيا ہے اور ہماری بزرگی اور مقام و منزلت کو حقير بنایا ہے حکومت کے معاملہ ميں جو مجھ سے مخصوص تھی ميرے خلاف بغاوت کی اور بالاتفاق ہميں اُس سے محروم کيا اور مجھ سے کہا کہ ہوشيا رہوجاؤ ! حق یہ ہے کہ اسے لے لو اور حق یہ ہے کہ اسے چھوڑ دو ۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ ميرے حق کے حدود کو معين کریں ۔ تجھے قریش سے کيا کام؟ خدا کی قسم جس طرح ميں ا ن کے کفر کے دوران ان سے لڑتا تھا آج بھی --چونکہ انہوں نے فتنہ و فساد کو اپنایا ہے-- ان سے جنگ کروں گا اس دن ميں ہی تھا جس نے ان سے جنگ کی اور آج بھی ميں ہی ہوں جو ان سے جنگ کررہا ہوں ۔

اپنے بھائی عقيل کے نام ایک خط کے ضمن ميں لکھا ہے :

قریش کو ، ان کے حملوں اور گمراہی کی راہ ميں اور وادی شقاوت و سرکشی ميں ان کے نمود و نام کو چھوڑدو ،انهيں حيرت وپریشانی کی وادی ميں چھوڑ دو ! قریش نے ميرے خلاف جنگ

____________________

١۔ابن اثير اپنی تاریخ ميں جلد ٣ صفحہ نمبر ٣٣۴ امير المؤمنين کے گورنر کے عنوان کے ذیل ميں کہتا ہے: مدینہ ميں علی(ع) کا گورنر ابوایوب انصاری اور بعض مورخين کے عقيدہ کے مطابق سہل بن حنيف تھا۔

کرنے ميں اتفاق کيا ہے اسی طرح کہ اس سے پہلے پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے ميں شریک جرم ہوئے تھے ۔ قریش مجھ پر کئے ظلم جس کی سزا وہ ضرور پائيں گے قریش نے ہمارے ساتھ قطع رحم کيا ہے حکومت کے ميرے پيدائشی حق کو مجھ سے چھين ليا ہے ۔

سبئيہ علی کے دوران علی

عليہ السلام کے زمانے کی تاریخ سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے--- جس کا ایک اجمالی خاکہ ان صفحات ميں پيش کيا گيا --- وہ یہ ہے کہ : عدنانی قریش نے پيغمبر صلی اللهعليہ و آلہ وسلم کے بعد علی ابن ابيطالب عليہ السلام سے دشمنی اور مخالفت مول لی اور ان کے خلاف متحد ہوکر اسلامی حکومت سے انهيں الگ کردیا جب حضرت لوگوں کی حمایت سے خلافت پر پہنچے تو اس وقت بھی وہی قریش تھے جنہوں نے ان کے خلاف فتنے او ر بغاوتيں کيں ليکن تمام حساس اور نازک مواقع پر قبائل سبئيہ --- کہ وہی قحطانی قبائل ہيں -- کے تمام دوست و مجاہدین ان کی رکاب ميں تھے۔ خاص کر قبائل سبائی کے سرکردہ اشخاص ، جيسے : مالک اشتر ہمدانی سبئی(۱) عبدا لله بدیل خزاعی سبئی ، حجر بن عدی کندی سبئی ،قيس بن سعد بن عبادہ سبئی انصاری اور قبائل سبئيہ کے بعض دیگر سردار جو علی عليہ السلام کے یار و غمخوار تھے،ان کے محکم اور ثابت قدم طرفداروں کے گروہ کو تشکيل دیتے تھے(۲) ليکن جنگ صفين اور حکميت اشعری کی روداد کے بعد اہل کوفہ و بصرہ کے عربوں نے جنکی اکثریت علی کے ماننے والوں کی تھی ، علی عليہ السلام کو حکميت کے نتيجہ کو قبول کرنے پر کافر سے تعبير کيا اور اس سبب سے اپنے آپ کو بھی کافرجانا اور کہا: ہم نے توبہ کيا اورکفر سے پھر اسلام کی طرف لوٹے ، اس کے بعد انہوں نے تمام مسلمانوں حتی خود علی عليہ السلام کی بھی تکفير کی انکے اور تمام مسلمانوں کے خلاف بغاوت کرکے ان پر تلوار کھينچی۔اس طرح اسلام ميں ایک گروہ کی ریاست و قيادت کی “عبدالله بن وهب سبائی ” نے ذمّہ داری لی تھی انہوں نے نہروان ميں امام سے جنگ کی ،عبدالله بن وهب سبائی اس جنگ ميں قتل کيا گيا ، اس کے بعد انہيں خوارج ميں سے ایک شخص کے ہاتھوں امير المؤمنين عليہ السلام محراب عبادت ميں شہيد ہوئے، علی “عليہ السلام” کی شہادت کے بعد تاریخ کا صفحہ پلٹ گيا اور قبائل سئبيہ ميں ایک دوسر ی حالت پيدا ہوگئی جس کی اگلی فصل ميں وضاحت کی جائے گی ۔

____________________

١۔ ابن خلدوں اپنی تاریخ٢/ ٢۶ ميں لکھتا ہے :جس دن اسلام کاظہور ہوا قبيلہ ہمدان کے افراد اسلامی ممالک ميں پهيل گئے اور ان ميں ایک گروہ یمن ميں رہا صحابہ کے درميان اختلاف او رکشمکش پيدا ہونے کے بعد قبيلہ ہمدان شيعہ ا ور علی عليہ السلام کے دوستدار تھے یہاں تک علی عليہا لسلام نے ان کے بارے ميں یہ شعر کہا ہے : ولو کنت بوا باً لابواب جنة لقلت لهمدانی ادخلی بسلام یعنی اگر ميں بہشت کا چوکيدار ہوں گا تو قبيلہ ہمدانی کے افراد سے کہوں گا کہ سلامت کے ساتھ بہشت ميں داخل ہوجاؤ۔)

۲۔ معاویہ شام ميں سکونت کرنے والے قبائل سبئيہ کے بعض گروہ کو عثمان کی خونخواہی کے بہانہ سے باقی قبائل سبئيہ سے جدا کرنے ميں کامياب ہوا اور خاص کر انہيں اپنی طرف مائل کردیا یہ گروہ اس زمانہ سے خلفائے بنی مروان تک وقت کے حکام کے پاس خاص حيثيت کے مالک ہوا کرتے تھے ليکن اس دوران کے بعد قبائل قحطانی و عدنانيوں کے درميان عمومی سطح پر شدیداختلافات رونما ہواجس کے نتيجہ ميں مروانی ، اموی حکومت گر گئی اور بنی عباسيوں نے حکومت کی باگ ڈو ر پر قبضہ کيا کتاب صفين تاليف نصر بن مزاحم ، مقدمہ سوم کتاب “ ١۵٠

جعلی اصحاب ” ملاحظہ ہوں

”سبئيہ” ،بنی اميہ کے دوران

اشتدت الخصومة بينها فی اخریات العهد الاموی

بنی اميہ کی حکومت کے اواخر ميں قبائل عدنان کی، قبائل سبائی سے خصومت انتہا کو پہنچی تھی ۔مولف امير المومنين کی شہادت کے بعد قریش نے گزشتہ کی نسبت زیادہ چوکس انداز ميں ا سلامی ممالک اور مسلمانوں کی رهبری کی باگ ڈور دوبارہ اپنے ہاتھ ميں لی انصاراور سبئيوں کو تمام امور سے بے دخل کيا ان کے ساتھ بے رحمانہ اور انتہائی سنگدلی سے برتاو کيا بنی اميہ کے منہ بولے بيٹے یعنی زیاد بن ابيہ ، اس کے بعد اسکے بيٹے ابن زیاد کے ذریعہ شہر کوفہ کے تمام علاقے اور اطراف ميں قبائل سبئيہ کے بزرگان ، ہر شيعہ علی عليہ السلام کہ جو غالباً سبئيہ سے تھے کو پکڑپکڑ کر انتہائی بے دردی سے قتل کيا جاتاتھا ، پهانسی پر لٹکایا جاتاتھا زندہ دفنایا جاتا تھا، اور ان کے گھروں کو ویران کيا جاتا تھا ! اور ان مظلوم اور ستم دیدہ مسلمانوں نے حسين ابن علی عليہ السلام کے یہاں پناہ لی !

ان سے مدد طلب کی اور بنی اميہ عدنانی ظالمانہ حکومت کے پنجوں سے اسلام و مسلمانوں کو نجات دلانے کيلئے اٹھ کھڑے ہوئے اس حالت ميں ا بن زیاد--- خاندان اميہ کے منہ بولے بيٹے کافرزند ---فریب کاری اور دهوکہ سے کوفہ ميں داخل ہوا اور حالات پر کنٹرول حاصل کيا ۔ امام حسين عليہ السلام کے نمائندہ اور سفير مسلم ابن عقيل کو گرفتار کرکے قبائل سبئيہ کے سردار ہانی بن عروہ کے ہمراہ قتل کر دیا اس کے بعد قبائل عدنان کے سرداروں او بزرگوں جيسے عمر سعد قرشی ، شبث بن ربعی تميمی ، شمر بن ذی الجوشن اور دیگر عدنانی ظالموں کو اپنے گرد جمع کيا اور ایک بڑی فوج تشکيل دی۔ کوفہ کے تمام جنگجوؤں کو مختلف راہوں سے قرشی خلافت کی فوج سے ملحق کيا وہ بھی اس طرح سے کہ کسی ميں ان کی نصرت کی جرات نہ ہو سکے اور تاب مقاومت باقی نہ رہے تا کہ زیاد بن ابيہ کی علنی طور پر مخالفت نہ کر سکے اور امام حسين عليہ السلام کے انقلاب کو تقویت بخشنے کيلئے کوشش و فعاليت نہ کرسکے نتيجہ کے طور پر قرشی خلافت نے خاندان پيغمبر“ صلی الله عليہ و آلہ وسلم” کو کربلا ميں اپنے اصحاب سميت خون ميں غلطان کرکے ان کے بے سر اجساد کو ميدان ميں برہنہ چھوڑنے ميں کامياب ہوئے ۔

پہاں پر قبائل عدنان کی قبائل قحطان سبئی پر کاميابی عروج کو پہنچی۔

سبئيہ قيام مختار ميں

کربلا کے جانکاہ حادثہ اور یزید بن معاویہ کی ہلاکت کے بعد کوفيوں کے دل بيدار ہوئے چونکہ امام حسين عليہ السلام کی نصرت کرنے ميں انہوں نے سخت کوتاہی کرکے کنارہ کشی کی تھی ، اس لئے انہوں نے ذہنی طور پر احساس ندامت و پشيمانی محسوس کی اور ان ميں سے “ توابين ” نام کی ایک فوج تشکيل پائی اس فوج نے ابن زیاد کی فوج سے جنگ کی یہاں تک سب شہيد کئے گئے اس کے بعد سبائی قبائل مختار ثقفی کے گرد جمع ہوئے اور حسين ابن علی عليہ السلام کی خونخواہی کيلئے اٹھ کھڑے ہوئے ان کی کمانڈ ابراہيم بن اشتر سبئی کررہے تھے ایک عظيم اور نسبتاًقوی فوج وجود ميں آگئی ابتداء ميں انہوں نے عمربن سعد عدنانی ،شمر بن ذی الجوشن ضبابی اور قبائل عدنان کے بہت سے دوسرے افراد جن کا امام حسين عليہ السلام کے قتل ميں مؤثر اقدام تھا کو قتل کيا ، ان کے مقابلہ ميں قبائل عدنان کے افراد مصعب بن زبير عدنانی کے گرد جمع ہوئے اور قبائل سبئی اور حسين عليہ السلام کے خونخواہوں سے مقابلہ کيلئے آمادہ ہوگئے ان سے ایک سخت جنگ کی ا ور ان پر غالب آگئے اور امام حسين عليہ السلام کے خونخواہوں کی رہبری کرنے والے مختار کو قتل کيا ۔

ان تمام کشمکش اورنزاعی مدت ميں کوفہ و بصرہ پر زیاد بن ابيہ کی حکومت جس ميں ایران بھی ان کی حکومت کے زیر اثرتھا تمام مشرقی اسلامی ممالک سے خلفائے بنی اميہ کی آخر ( ١٣٢ هء ہے) تک خلافت قرشی عدنانی اپنے مخالفوں سے ---جو خاندان پيغمبر صلی اللهعليہ و آلہ وسلم کے ددستداران و شيعہ تھے --- دو اسلحہ سے جنگ لڑتے تھے جيساکہ تمام جنگوں ميں یہ رسم ہے کہ گرم اسلحہ کے علاوہ سردا سلحہ یعنی پروپيگنڈااور افترا پردازی سے بھی استفادہ کرتے تھے اس نفسياتی جنگ ميں دربارِخلافت سے وابستہ تمام شعراء، مقررین، قلم کار ، محدثين ، اور دانشور تمام شيعوں ، بالخصوص سبائيہ قبائل کے خلاف منظم ہوگئے تھے دربار سے وابستہ یہ لوگ اس نفسياتی جنگ ميں مختارکے خلاف کہتے تھے: “مختار ” نے وحی اور نبوت کا دعویٰ کيا ہے ’ اس پروپيگنڈا پر اتنا زور لگایا گيا کہ یہ افتراء اس درجہ مشہورہوا کہ نسل در نسل نقل ہوتا رہا اور رواج پا گيا یہاں تک کہ بات زبان سے گزر کر سرکار ی کتابوں اور دیگراسناد ميں درج ہو گئی اورمختار کے خلاف اس نفسياتی جنگ نے اس کے حاميوں اور طرفداروں کو بھی اپنی لپيٹ ميں لے ليا ، جو اکثر سبئی تھے(۱)

سبئيہ بنی اميہ کے آخری ایام ميں

عدنانی او رسبئی قبائل کے در ميان یہ کشمکش اورٹکراؤ شروع شروع ميں مدینہ اور کوفہ تک محدود تھا ، بعد ميں یہ وسيع پيمانے پر پهيل کر تمام جگہوں تک پہنچ گيا ، یہاں تک تمام شہروں اور علاقوں ميں ا ن دو قبيلوں کے درميان اختلاف اور کشمکش پيدا ہوگئی اس راہ ميں کافی خون بہائے گئے انسان مارے گئے موافقين کے حق ميں اور مخالفين کی مذمت ميں شعر و قصيدے کہے گئے یہ عداوت و دشمنی اور نفرت و بيزاری بنی اميہ کی حکومت کے آخری ایام ميں شدید صورت اختيار کر کے عروج تک پہنچی گئی تھی۔

____________________

١۔ چنانچہ گزشتہ فصل ميں شبث بن ربعی کی سعد بن حنفی کے ساتھ روایت ميں بيان ہوا کہ مختار سے پہلے لفظ “ سئبہ ” سرزنش اور قبائل کی تعبير ميں ا ستعمال ہوتا تھا ا س عنوان سے کہ وہ علی کے شيعہ تھے جيساکہ داستان حجر ميں ا سکی وضاحت کی گئی ليکن مختار کی بغاوت کے بعد دشمن کی زبان پر “ سبئيہ ”قبائل یمانيہ کے ان افراد کو کہتے تھے جو قبائل عدنانی سے جنگ و پيکارکر کرتے تھے اور مختار ثقفی پر ایمان رکھتے تھے اس نام گزاری ميں بھی اشارہ اس کی طر ف تھا کہ مختار نے نبوت کا دعوی کيا ہے اور ان افرد نے اس کی دعوت کو قبول کيا ہے اور اس پر ایمان لایا ہے ليکن مختار اور اس کے پيرؤں کے بارے ميں یہ بات بھی ا فتراء اور بہتان کے علاوہ کچھ نہيں تھی ۔(