عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے11%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25290 / ڈاؤنلوڈ: 4541
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

”سبئيہ ” ، سيف بن عمر کے دوران

حرّف سيف کلمة السبئية

جب سيف کا زمانہ آیا تولفظ “ سبئيہ ” کو تحریف کرکے اس کے اصلی معنی سے ایک دوسرے معنی ميں تبدیل کردیا ۔مؤلف

بنی ا ميہ کے دورکے آخری ایام ميں عدنانيوں اور قحطانيوں کے اختلافات عروج پر پہنچ چکے تھے۔ دونوں طرف کے ادیب اور شعراء اپنے قبائل کی مدح ميں ا ور دشمنی کی مذمت وسرزنش ميں شعر و قصيدہ لکھتے تھے اسی زمانے ميں کوفہ ميں سيف بن عمر تميمی پيدا ہوا ۔ اس نے تاریخ اسلام ميں دو بڑی کتابيں “ الرد و الفتوح ” اور “ الجمل و مسير علی و عائشہ ” لکھيں ۔ اس نے ان دونوں کتابوں کو گوناگوں تحریفات ، جعليات ، توہمات پرمشتمل روایتوں سے بھر دیا ۔ اس نے دسيوں بلکہ سيکڑوں شعراء احادیث، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے راوی ، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے اصحاب ، تابعين اسلامی جنگوں ،کے سورما اور فاتح اور بہت سے دیگر افراد کو اپنے ذہن سے جعل کيا جن کا دنيا ميں در حقيقت کہيں وجود ہی نہيں تھا ۔ اس کے بعد ان ميں سے ہر ایک کی نام گزاری کرکے خاص عنوان دیا ، ان کے نام پر داستانيں ، تاریخی وقائع ، کثير روایتيں ، اشعاراورا حادیث جعل کيں ۔ ا ن تمام چيزوں کو اسنے جعل کئے ہوئے نام و نشان اور خصوصيات کے ساتھ اپنی مذکورہ دو کتابو ں ميں درج کيا ۔

دوسرا خطرناک کام جو سيف نے ان دو کتابوں ميں انجام دیا وہ یہ تھا کہ اس نے تمام خوبيوں فضائل ، مجاہدتوں اور نيکيوں کو قبائل عدنان کے نام پر درج کيا اور تمام عيوب ، نواقص ،برائياں ، اور مفاسد کو قبائل قحطان و سبئی سے نسبت دیدی انکے بارے ميں جتنا ممکن ہوسکا دوسروں کی عيوب و نواقص کو بھی جعل کيا اہم ترین مطلب جو اس نے ان کی مذمت او رسرزنش ميں جعل کياوہی ‘ ‘افسانہ سبئيہ ” تھا کہ اس افسانہ ميں “ سبئيہ ” کو ایک یہودی اور سياہ فام کنيز کے بيٹے عبدالله بن سباکے پيرو کے طور پر پہچنوایا ہے اسی طرح اس نے لفط “سبئيہ ” کو اپنے اصلی مفہوم ---کہ قبيلہ کی نسبت کے طو پر قبائل سبائی اور ان کے ہم پيمانوں کی سرزنش کے عنوان سے استعمال ہوتا تھا ---سے تحریف کرکے ایک مذہبی مفہوم ميں تبدیل کيا اور کہا: سبئيہ ایک منحرف مذہبی گروہ ہے جوگمنام اور منحرف یمانی الاصل یہودی عبدالله بن سبا کے پيرو و معتقد ہيں ، اس کے بعد عصر عثمان اور امير المؤمنين کے دور کے تمام جرم و جنایات کو ان کے سر پر تهونپ کر کہتا ہے کہ:اسی فرقہ سبئيہ کے افراد تھے ۔جو ہميشہ حکومتوں سے عداوت اور مخالفت کرتے تھے ۔

ان کے بارے ميں طعنہ زنی اور عيب جوئی کرتے تھے لوگوں کوان کے خلاف اکساتے تھے ، یہاں تک ان پر یہ تہمت بھی لگائی ہے کہ انہوں نے متحد ہوکر مسلمانوں کے خليفہ عثمان کو مدینہ ميں قتل کيا اور عبد لله بن سبا سے منسوب اسی سبيئہ گروہ کو جنگ جمل کے شعلے بهڑکانے کا بھی ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

سيف نے اپنے اس بيان سے قبائل عدنان کے بزرگوں اور سرداروں جن ميں سے خود بھی ایک تھاکو ہر جرم ، خطا اور لغزش سے پاک و منزہ قرار دیا ہے اور سبئيہ کو جنگ جمل اور اس ميں ہوئی برادر کشی کا ذمہ دار قرار دیا ہے سيف نے اپنی باتوں سے ان تمام فتنوں کو ایجاد کرنے والے ، جسے: مروان ، سعيد ، وليد، معاویہ ، عبدالله بن سعد بن ابی سرح ،طلحہ ، زبير ، عائشہ اور قبائل عدنان کے دسيوں دیگر افرادکو بے گناہ ثابت کيا ہے ، جنہوں نے علی عليہ السلام کی عدل و انصاف پر مبنی اور تفریق سے عاری حکومت کے خلاف جنگ جمل بهڑکائی ۔ اس طرح تمام جرائم و گناہ و ظلم و بربریت کو گروہ سبئيہ کے سر تهونپا ہے ۔ سيف نے اپنے کام ميں اپنے وقت کے تمام ادیبوں اور مؤلفين خواہ وہ عدنانی ہوں یا قحطانی ، پر سبقت حاصل کی ہے کيونکہ ان ميں ہر ایک ادیب یا شاعر تھا جس نے اپنے قبيلہ کی مدح ميں یا اپنے مد مقابل قبيلہ کی مذمت ميں کچھ لکھا یاکہا ہوگا ليکن سيف نے دسيوں شاعراور ادیب جعل کئے ہيں کہ ان ميں سے ہر ایک نے اپنے قبيلہ کی مدح اور اپنے مد مقابل کی مذمت ميں سخن آفرینی کی ہے۔

ا ن سب چيزوں سے اہم تر یہ کہ سيف اپنے افسانوں کو حقيقی رنگ و روپ دینے ميں کامياب ہوا،اس نے اپنے جعل کئے ہوئے شاعروں کے نام پر کہے اشعار اوراپنے جعل کئے ہوئے جعلی اصحاب کے نام فتح و معجزہ اور حدیث گڑه کر ان کو تاریخی حوادث اور اشخاص کی صورت ميں پيش کيا ہے ، اور اس طرح اپنے تمام افسانوں کو دوسری صدی ہجری سے آج تک مسلمانوں ميں تاریخ لکھنے کے نام پر بے مثال رواج دیا اس نے اپنے تمام چھوٹے بڑے افسانوں کيلئے روایتوں کے مانند سند مآخذ جعل کرکے اپنے جعلی راویوں سے روایت نقل کی ہے ۔

سيف کی سبقت حاصل کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ لفظ سبيئہ کو قبيلہ کی نسبت اور قبائل یمانی اور ان کے ہم پيمانوں کی سرزنش کے معنی و مفہوم سے ایک نئے مذہبی معنی ميں تحریف کرنا اور خوارج کے سردار عبدالله بن وہب سبائی و عبدالله بن سبا یہودی ميں تبدیل کرکے اسے سبائيوں کے نئے مذہبی فرقہ “ سبئيہ ” کا بانی بتانےميں کامياب ہوا ہے!!

حقيقت ميں سيف نے افسانہ “ سبئيہ ’ کو تاریخ کے عنوان سے جعل کيا ہے ، ایک موذی شخص کو اس افسانہ کا ہيرو بنایا ہے اور اس کا نام عبدالله بن سبا رکھا ہے اس کے بعد اس کو چالاکی او رخاص مہارت سے تاریخ کے بازار ميں پيش کيا ہے پھر یہ افسانہ تاریخ لکھنے والوں کے مزاج کے مطابق قابل قبول قرار پایا ہے اس وجہ سے “ افسانہ سبئيہ ” نے خلاف توقع اشاعت اورشہرت پائی اس افسانہ کے خيالی ہيرو عبدالله سبا نے بھی کافی شہرت حاصل کی جس کے نتيجہ ميں عبدالله بن وهب فراموشی کا شکار ہوگياجبکہ علی عليہ السلام کے دوران لفط سبئی اسی عبدالله بن وهب سبائی سے منسوب تھا کہ جو فرقہ خوارج کا رئيس تھا سيف کے افسانہ کو اشاعت ملنے کے بعد یہ لفظ اپنے اصلی معنی سے تحریف ہوکر ایک تازہ پيدا شدہ مذہبی فرقہ ميں ا ستعمال ہوا ہے جس کا بانی بقول سيف عبدا لله سبا نامی ایک یہودی تھا ،اس جدید معنی ميں اس لفظ نے شہرت پائی، اورعبد الله بن وهب سبائی بھی عبدالله سبائی یہودی ميں تبدیل ہوگیا اس تاریخ کے بعد رفتہ رفتہ لفط “سبئيہ ” کا قبيلہ سے نسبت کے طورپر استعمال ہونا متروک ہوگیا،خاص طورپر عراق کے شہروں اور عراق کے گرد و نواح شہروں اور افسانہ عبدالله بن سبا اور فرقہ سبائيہ کی پيدائش کی جگہميں اس کا اصلی معنی ميں استعمال مکمل طور پر فراموشی کی نظرہوگيا یہاں تک کہ ہم نے اپنے مطالعات ميں اس کے بعد کسی کو نہيں دیکھا جو ان شہروں ميں سبا بن یشجب سبئی سے منسوب ہواہو ليکن یمن، مصر اور اندلس ميں دوسری اور تيسری صدی ہجری ميں کبھی یہ لفط اسی اصلی معنی ميں استعمال ہوتا تھا ،بعض افراد جو فرقہ “ سبئيہ ”’ کے بانی عبدالله بن سبا سے اصلا کوئی ربط نہيں رکھتے تھے سبا بن یشجب اور قبيلہ قحطان سے منسوب ہونے کے سبب سبئيہ کہے جاتے تھے صحاح کی کتابوں کے مولفين نے بھی حدیث ميں ان سبئی افراد کوبعنوان حدیث کے قابل اعتماد راویوں کے طورپر ذکر کيا ہے ليکن بعد ميں ان شہروں ميں بھی زمانہ کے گزرنے کے ساتھ سبئيہ کا استعمال بعنوان قبيلہ بالکل نابود ہوگيا اور اس طرح اس لفظ نے تمام شہروں اور اقطاع عالم ميں ایک مذہبی فرقہکے نام سے شہر ت پائی ہم اگلی فصل ميں اسی کی وضاحت کریں گے ۔

تاریخ ، ادیان اور عقائد کی کتابوں ميں عبدالله بن سبا

هم الذین یقولون ان عليّاً فی السحاب وان الرعد صوته و البرق سوطه

گروہ سبائيہ معتقد ہيں کہ علی“ عليہ السلام ”بادلوں ميں ہيں اور رعد ان کی آواز اور برق ان کا تازیانہ ہے علمائے ادیان و عقائد

تاریخ ميں عبدالله سباکی متضاد تصویریں

سيف نے افسانہ عبدالله سبا وسبئيہ کو جعل کرکے اپنی کتابوں ميں تاریخی حوادث کے طور پر ثبت کيا ہے ، اس کے بعد طبری اور دوسرے مورخين نے اس کی دو کتابوں سے اس افسانہ اور سيف کے دوسرے افسانوں کو نقل کرکے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے خاص کر افسانہ سبئيہ کو مسلمانوں ميں پہلے سے زیادہ منتشر کيا اس افسانہ کے منتشر ہونے کے بعد لفظ “ سبئيہ ” تمام نقاط ميں اور تمام لوگوں کی زبانوں پر عبدالله بن سبا کے ماننے والوں کيلئے استعمال ہوا اور اس معنی ميں خصوصيت پيدا کر گيا اس کے بعدا س کااپنے اصلی معنی ميں ---کہ قبيلہ قحطان اور سبا بن یشجب سے منسوب ہونا --- استعمال متروک ہوگيا ہے۔

ليکن بعد ميں سبئی کا مفہوم اس معنی سے بھی تغير پيدا کرگيا اور اس ميں ا یک تبدیلی آگئی اور یہ لفظ مختلف صورتيں اختيار کرگيا اس کا جعل کرنے والا بھی متعدد قيافوں اور عنوانوں سے ظاہر ہوا ، مثلاً : دوسری صدی ہجر ی کے اوائل ميں سيف کی نظر ميں “ سبئی ”

اس کو کہا جاتا تھا جو علی عليہ السلام کی وصایت کا معتقد ہو ليکن تيسری صدی کے اواخر ميں ‘ سبئی ” اس کو کہتے تھے جو علی عليہ السلام کی الوہيت کا معتقد ہو اسی طرح عبدالله بن سبا سيف کی نظر اور اسکے زمانے ميں وہی ابن سودا تھاليکن پانچویں صدی ہجری کے اوائل ميں عبدالله بن سبا ، ابن سودا کے علاوہ کسی اور شخصيت کی حيثيت سےپہچاناگيا بلکہ یہ الگ الگ دو افراد پہچانے گئے کہ ہر ایک اپنی خاص شخصيت کا مالک تھا اور وہ افکار و عقائد بھی ایک دوسرے سے جدا رکھتے تھے کلی طور پر جو مطالب پانچویں صدی ہجری کے اوائل ميں عبدالله سبا کے بارے ميں ذکر ہوئے ہيں ان سے یوں استفادہ کيا جاسکتا ہے عبدالله سبا چنداشخاص تھے، اور ہر ایک کےلئے اپنی مخصوص داستان تھی:

اول: عبدالله بن وهب سبائی جو علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے زمانے ميں زندگی کرتا تھا وہ خوارج گروہ کا سردار تھا ليکن علماء کی ایک مخصوص تعداد کے علاوہ اسے کوئی نہيں جانتا ۔

دوم: وہ عبدالله بن سبا جو ابن سودا کے نام سے مشہور تھا سيف کے کہنے کے مطابق یہ عبد الله سبا فرقہ “ سبائيہ ” کا بانی کہ جو علی عليہ السلام کی رجعت اور وصایت کا معتقد تھا اس نے اکثر اسلامی ممالک اور شہروں ميں فتنے اور بغاوتيں برپا کی ہيں ، لوگوں کو گورنروں اور حکمرانوں کے خلاف اکساتا تھا نتيجہ کے طورپر سبائی مختلف شہروں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پر جمع ہونے کے بعد مسلمانوں کے خليفہ عثمان کو قتل کر ڈالا یہ وہی تھے جنہوں نے جنگ جمل کی آگ بهڑکا ئی اور مسلمانوں ميں ایک زبردست قتل عام کرایا ۔

سوم : عبدالله سبائی ، غالی ، انتہا پسند تيسرا عبدالله سبا ہے وہ فرقہ سبئيہ کا بانی تھا جو علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کرکے انکی الوہيت کا قائل ہوا تھا ۔

پہلا عبدالله سبائی حقيقت ميں وجود رکھتا تھا اور علی ابن ابيطالب کے زمانہ ميں زندگی بسر کرتا تھا اپنے حقيقی روپ ميں کم و بيش تاریخ کی کتابوں ميں درج ہو اہے دوسرا عبدلله بن سبا وہ ہے جسے بنی اميہ کی حکومت کے اواخر ميں سيف کے طاقتور ہاتھوں سے جعل کيا گيا ہے اس کی زندگی کے بارے ميں روایتيں اسی صورت ميں تاریخ کی کتابوں ميں ہيں جيسے سيف نے اسے جعل کياہے ۔

ليکن تيسرا عبدالله بن سبا ، جو تيسری صدی ہجری ميں پيدا ہوا ہے اس کے بارے ميں روایتيں دن بہ دن وسيع سے وسيع تر ہوتی گئی ہيں اور اسکے بارے ميں مختلف داستانيں و مطالب مفصل طورپر نقل کئے گئے ہيں کہ تاریخ ، رجال او رمخصوصاً ادیان و عقائد کی کتابيں ان سے بھری پڑی ہيں ۔

ایک مختصر بحث و تحقيق کے پيش نظر شاید اس روداد کی علت اور راز یہ ہو کہ عبدالله بن وهب سبائی یا پہلا عبدالله چونکہ حقيقت ميں وجود رکھتا تھا اس کے بارے ميں سر گزشت اور روایتيں جس طرح موجود تھيں اسی طرح تاریخ ميں آگئی ہيں اور اسی مقدار کے ساتھ اختتام کو پہنچی ہيں ليکن دوسرا عبدالله بن سبا ، چونکہ اس کو خلق کرنے والا سيف بن عمر ہے اس لئے اس نے اس افسانہ کو حسب پسند اپنے خيال ميں تجسم کرکے جعل کيا ہے اس کے بعد اسے اپنی کتاب ميں درج کيا ہے اور بعد والے مؤرخين نے بھی اسی جعل کردہ افسانہ کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں ميں درج کياہے اس لحاظ سے ان دو عبد الله بن سبا کے بارے ميں اخبار رو روایتوں ميں زمانہ اور صدیاں گزرنے کے باوجو دکوئی خاص فرق نہيں آیا ہے ۔

ليکن ، تيسرا عبدالله سبا چونکہ مؤرخين اور ادیان و عقائد کے علماء نے اس کے بارے ميں روایتوں اور داستانوں کو عام لوگوں اور گلی کوچوں سے ليا ہے اور عام لوگوں کی جعليات ميں بھی ہر زمانے ميں تبدیلياں رونما ہوتی ہيں ۔ اس لئے تيسرے عبدالله بن سبا کے افسانہ ميں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وسعت پيدا ہوکر تغيرات آگئے ہيں تيسری صدی ہجری کے آواخر سے نویں صدی ہجری تک کتابوں ميں عبدالله بن سبا کی شناخت یوں کرائی گئی ہے؛

ا لف ) عبدالله سبا وہی ہے جو علی عليہ السلام کی خلافت کيلئے بيعت کے اختتام پر حضرت کی تقریر کے بعد اٹھا اور بولا: “ یاعلی ! تم کائنات کے خالق ہو اور رزق پانے والوں کو رزق دینے والے ہو !” امام عليہ السلام اس کے اس بيان سے بے چين ہوئے اور اسے مدینہ سے مدائن جلا وطن کيا اس کے بعد ان کے حکم کے مطابق ان کے ‘ سبئيہ ” نامی گيارہ ماننے والوں کو گرفتار کرکے آگ ميں جلادیا ، ان گيارہ افراد کی قبریں اسی سرزمين صحرا ميں معروف ہيں ۔

ب) عبدالله بن سبا ، وہی ہے جس نے امام علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کيا ہے اور انہيں پناہ خدا تصور کيا، لوگوں کو اپنے اس باطل عقيدہ کی طرف دعوت دی ،ایک گروہ نے اس کی اس دعوت کو قبول کيا ،علی عليہ السلام نے بھی اس گروہ ميں سے بعض افراد کو آگ کے دو گڑهوں ميں ڈال کرجلا دیا یہاں پر بعض شعراء نے کہاہے:

لترم بی الحوادث حيث شاءَ ت

اذا لم ترم فی الحضرتين

یعنی : حوادث روزگار ہميں جس خطرناک عذاب ميں ڈال دیں ،ہميں اس کی کوئی پرواہ نہيں ہے مگر ہميں علی عليہ السلام آگ کے ان دو گڑهوں ميں نہ ڈالےں ۔

علی عليہ السلام نے جب ابن سبا کے اس غلو و انحراف کا مشاہدہ کيا تو اسے مدائن ميں جلاوطن کردیا وہ علی عليہ السلام کی رحلت کی خبر سننے تک مدائن ميں تھا ،اس خبر کو سننے کے بعد اس نے کہا: علی عليہ السلام نہيں مرے ہیں ، جو مرگيا ہے وہ علی عليہ السلام نہيں تھے بلکہ شيطان تھا ، جو علی عليہ السلام کے روپ ميں ظاہر ہوا تھا کيوں کہ علی عليہ السلام نہيں مرےں گے بلکہ انهوں نے عيسیٰ کے مانند آسمانوں کی طرف پرواز کی ہے اور ایک دن زمين پر اترکر دشمنوں سے انتقام ليں گے!

ج) عبدالله سبا وہی ہے جس نے کہا: علی خدا ہیں اور ميں ان کا پيغمبر ہوں علی عليہ السلام نے اسے گرفتار کرکے جيل ميں ڈال دیا ۔ عبدالله بن سبا تين دن رات تک اسی زندان ميں رہا ،اس مدت کے دوران اس سے درخواست کرتے تھے کہ توبہ کرے اور اپنے باطل عقيدہ کو چھوڑدے ،ليکن اس نے توبہ نہيں کی ،علی عليہ السلام نے اسے جلادیا اس روداد کے بارے ميں علی نے یہ شعرپڑها :

لما رایت الامر منکرا اوقدت ناری و دعوت قنبراً

” جب ميں نے ناشائستہ عمل دیکھا، اپنی آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلایا“

د) عبدالله بن سبا وہی تھا جب امام علی بن ابيطالب عليہ السلام نے اسکے سامنے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے تو اس نے امام پر اعتراض کيا اورکہا؛ کيا خدائے تعالیٰ ہر جگہ پر نہيں ہے؟!! کيوں دعا کے وقت اپنے ہاتھ کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہو ؟

ه ) عبدالله بن سبا وہی ہے جو اپنے ماننے والوں کے ہمراہ امام کی خدمت ميں آ کر کہنے لگا: اے علی عليہ السلام تم خدا ہو ! علی عليہ السلام نے بھی ان کی کفر آميز باتوں کے جرم ميں ان سب کو آگ ميں جلادیا ،ان کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے وقت وہ کہتے تھے :اب ہميں یقين ہوگيا کہ علی عليہ السلام ہی خدا ہیں ، کيونکہ خدا کے علاوہ کوئی اور کسی کو آگ سے معذّب نہيں کرتا ہے!

ز) عبدالله بن سبا پہلا شخص تھا جس نے ابوبکر، عمر، عثمان، اورپيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے تمام اصحاب کی مذمت و سرزنش کی اور ان سے بيزاری کی ، مسيب بن نجيہ نے اسے گرفتار کيا اور گھسيٹتے ہوئے امام کے پاس لے آیا ،حضرت نے پہلے ابو بکر و عمر کی ثنا خوانی کی اور ان کااحترام کيا، اس کے بعد فرمایا: جو بھی مجھے ان سے برتروافضل جانے گا ميں اس پر افتراء کی حد جاری کروں گا ، اس کے بعد اسے مدائن جلا وطن کردیا۔

ح) عبدالله بن سبا ، وہی تھا کہ علی کو مرنے کے بعد بھی زندہ جانتا تھا جب وہ مدائن ميں جلاوطنی کے دن گزاررہاتھااور اس سے علی عليہ السلام کی رحلت کی خبر دی گئی ،تو اس نے اس خبر کو قبول نہيں کيا جس نے یہ خبر دی تھی اسے کہا: اے دشمن خدا ! خدا کی قسم تو جھوٹ بول رہاہے ،اگر علی عليہ السلام کے سر کی کهوپڑی بھی ميرے سامنے لاؤ گے اور ستر عادل مومن گواہی دیں گے کہ علی عليہ السلام وفات کرگئے ہيں پھر بھی ميں تيری بات کی تصدیق نہيں کروں گا کيونکہ ميں جانتاہوں کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نہيں مریں گے اور نہ قتل کئے جائيں گے یہاں تک کہ پوری دنيا پر حکمرانی کریں گے،اس کے بعد عبدالله بن سبا اسی دن اپنے ساتھيوں کے ہمرا ہمدائن سے کوفہ کی طرف روانہ ہوگيا وہ علی کے گھر کے دروازے پر پہنچے دوروازہ پر کھڑے ہو کر جس طرح کسی زندہ انسان سے گھر ميں داخل ہونے کی اجازت چاہتے ہيں علی عليہ السلام سے اجازت طلب کی ،امام کے خاندان والوں نے ان کی رحلت کی خبر دی ، انہوں نے علی کی وفات کو قبول نہيں کيا اورا مام کی رحلت کے بارے ميں امام کے اہل بيت عليہم السلام کی بات کو ماننے سے انکار کيا اور اسے جھوٹ کہا:

یہ تھا ان مطالب کا ایک خلاصہ جو تيسرے عبدالله سبا کے بارے ميں کہے گئے ہيں اور اسکی زندگی کے حالات اورعقيدہ کے طور پر کتابوں ميں ثبت ہوکر رائج ہوئے ہيں اسی کے بارے ميں مزید کہا گيا ہے: عبدالله بن سبا وہی ابن سودا ہے یعنی ایک سياہ فام کنيز کا بيٹا ، اس کے باوجود معروف یہ ہے ابن سبااور ابن السوداء دوا فراد اور الگ الگ دوشخصيتيں ہيں ۔

اور کہا گيا ہے کہ : دوسرا عبدالله بن سباحير ہ کے یہودیوں ميں سے تھا ، اس نے علی عليہ السلام اور اس کی اولاد کے بارے ميں تاویلات کرکے مسلمانوں کے دین کو فاسد و منحرف کرنا چاہا تا کہ مسلمان علی عليہ السلام اور ان کے فرزندوں کے بارے ميں وہی اعتقاد پيدا کریں جو عيسائی حضرات عيسیٰ کے بارے ميں رکھتے ہيں اس کے علاوہ وہ کوفہ کے لوگوں پرریاست اور سرپرستی کرنا چاہتا تھا ۔ اس لئے اس نے کوفہ کے لوگوں ميں افواہ پھيلائی کہ توریت ميں آیا ہے “ ہر پيغمبر کا ایک وصی ہے اور علی عليہ السلام بھی محمد خاتم النبيين صلی اللهعليہ و آلہ وسلم کے وصی ہيں ” لوگوں نے یہ بات اس سے سن کر علی عليہ السلام کو پہنچا دی کہ ابن سوداء آپ کے دوستدا روں اور چاہنے والوں ميں سے ہے ، علی( عليہ السلام )نے اس کا کافی احترام کرتے اور اسے اپنے منبر کے نيچے بٹھاتے تھے ليکن جس دن علی عليہ السلام کے بارے ميں عبدالله کا غلو ظاہر ہواا ور حضرت تک پہنچا تو حضرت نے اس کو قتل کرنے کا فيصلہ کيا، ليکن چونکہ حضرت اس کے ماننے والوں کے فساد و بغاوت سے ڈر گئے اس لئے اس کے قتل سے منصرف ہوئے اور عبدالله بن سبا کو مدائن جلاوطن کيا جب اس نے مدائن ميں گروہ رافضہ سبيئہ کو کفر و بے دینی ميں شدیدترین اور منحرف ترین افراد پایا تووہ ان کے ساتھ جاملا ۔

گروہ سبئيہ جن کا بانی یہی تيسرا عبدالله سبا تھا،کہتے تھے :

علی عليہ السلام بادلوں ميں ہے ، رعد اس کی آواز اور برق اس کا تازیانہ ہے اور جب بھی رعد کی آواز ان کے کانوں تک پہنچتی ہے اس کے مقابلے ميں کھڑے ہوکر تعظيم و احترام کے ساتھ کہتے ہيں :

السلام عليک یا امير المؤمنين

یہ گروہ سبئيہ وہی ہيں جو کہتے ہيں : امام علی ابن ابيطالب وہی مہدی موعود ہيں کہ دنيا اس کے انتظار ميں ہے وہ تناسخ کا اعتقاد رکھتے ہيں اور کہتے ہيں : ائمہ اہل بيت عليہم السلام خداکا جزء ہيں ۔

وہ کہتے ہيں : ‘ خدا کے ایک جز ء نے علی عليہ السلام ميں حلول کيا ہے“

وہ کہتے ہيں : “ ہمارے ہاتھ ميں جو قرآن ہے وہ حقيقی قرآن کے نو حصوں ميں سے ایک حصہ ہے کہ اس کا پورا علم علی عليہ السلام کے پاس ہے۔

وہ “ ناووسيہ ” سے متحد ہيں اور کہتے ہيں : جعفر بن محمد عليہما السلام تمام تعاليم اور احکام دین کے عالم ہيں ۔

انہوں نے ہی مختار کو نبوت کا دعویٰ کرنے پر مجبور کيا ۔

یہ وہی فرقہ “ طيارہ ” ہے جو کہ کہتے ہيں : ان کی موت ان کی روح کا عالم بالا کی طرف پرواز کے علاوہ کچھ نہيں ہے ،مزید کہتے ہيں : روح القدس عيسیٰ سے محمد ميں منتقل ہوا ہے اور محمد سے علی ميں اور ان سے حسن و حسين عليہما السلام ميں اور ان سے دیگر ائمہ ميں جو ان کی اولاد ہيں ۔

وہ اسی عمر ابن حرث کندی کے اصحاب ہيں جس نے اپنے ماننے والوں کو دن رات کے اندر سترہ ( ١٧ ) نمازیں واجب کيں کہ ہر نمازپندرہ رکعت کی تھی یہ گروہ اعتقاد رکھتاتهاکہ علی نہيں مرے ہيں بلکہ اپنی مخلوق سے ناراض ہو کرکے ان سے غائب ہوگئے ہيں اور ایک دن ظہور کریں گے وہ ، وہی خشبيہ فرقہ ہے جو مختار کا ماننے والا ہے ۔ وہ ، وہی گروہ ممطورہ ہيں ۔

ا سی طرح وہ دوسرے دسيوں گروہ ہيں !جو تيسرے عبدالله بن سبا کے پيرو گروہ “

سبئيہ” کے بارے ميں نقل ہوئے ہيں ۔

ہم نے جعل کئے گئے فرقہ سبائی کے بارے ميں ان بيہودگيوں ، بہتانوں ، ملاوٹوں اور تحریفات کو دیکھا ۔ اگلی فصلوں ميں ان کے بانی عبدلله سبائی پر بحث و تحقيق کریں گے ۔

جعل و تحریف کے محرکات

انها کانت تدمغ ائمة اهل البيت فی جميع العصور

یہ جعليات اور افسانے تمام زمانوں ميں شيعوں کو نقصان پہنچانے اور انهيں کچلنے کيلئے تھے۔مؤلف

اگر ہم تمدن اسلامی کے بعض مواقع کے بارے ميں ایجاد کی گئی تحریفات اور تغيرات پر دقيق بحث و تحقيق کریں گے تو ہميں معلوم ہوگا کہ ان تحریفا ت ميں سے بعض مؤلفين کی غلطيوں کی وجہ سے وجود ميں آئی ہيں ان غلطيوں سے دوچار ہونے والے افراد ، انکی اشاعت کرنے ميں شاید سياسی محرک یا خاندانی تعصب یا مذہبی تعصب کار فرما نہيں تھا ۔

ليکن افسانہ عبدالله بن سبا اور سبئيہ کے جعل و نشر ميں عام طور پر ملوث افراد اور خصوصی طورپر وقت کی حکومتيں مختلف عزائم اور محرکات رکھتی تھےں ، کيونکہ:

١ (افسانہ عبد الله بن سبا ، اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم پر ہونے والے اعتراضات اور تنقيدوں پر پردہ پوشی کرتاہے اور انہيں ان اعتراضات سے پاک ، منزہ اور مبرا کرتا ہے یہ ایک بہت نازک اور سياسی مطلب ہے جو تمام ادوار ميں لوگوں کے مختلف طبقات اور صاحب قدرت اور حکومتوں کا پسندیدہ تھا ۔

٢۔ یہ افسانہ اسلام کی ابتدائی صدیوں کے تمام تاریخی مظالم ، عيوب ، خطاؤں اور گناہوں کو قبائل قحطان کی گردن پر ڈالتا ہے اور اس کے مقابلہ ميں تمام فضائل و تاریخی کارناموں کو قبائل عدنان سے نسبت دیتا ہے چونکہ خاندان عباسی کے اواخر تک حکومتيں قبيلہ قریش اور عدنانيوں ميں رہی ہيں ،یہ لوگ قحطانيوں اور سبائيوں سے عداوت اور شدید مخالفت رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اس افسانہ کی اشاعت اور ترویج ميں جو ان حکومتوں کے حق ميں اور ان کے دشمنوں کے نقصانات ميں تھا ۔ تمام قدرت اور پوری طاقت کے ساتھ ہر ممکن کوشش کی ۔

٣۔ ان سب سے اہم یہ کہ یہ افسانہ خلفاء کی حکومت کے مخالفوں ---جو خاندان عصمت کے شيعہ تھے ----پر کفر و الحاد د کا الزام لگا کر انہيں دین و مذہب سے خارج کرتا ہے کيونکہ یہ لوگ خلفای عثمانی کے دور تک تمام ادوار ميں حتی آج تک وقت کی حکومتوں کے مخالف تھے ۔ خود یہی افسانہ ہے جس نے گزشتہ زمانہ ميں وقت کی حکومتوں کيلئے شيعوں پر حملہ کرنے کا راستہ ہموار کيا ہے اور شيعوں پر ہم قسم کے دباؤ ، مشکلات ، اور دشواریاں ایجاد کرنے کيلئے حکومتوں کيلئے قوی سہار ااور مضبوط دستا ویز کا کام کياہوا ہے بالکل واضح ہے کہ وقت کی حکومت اس قسم کی فرصت سے فائدہ اٹھانے کی پوری پوری کوشش کرتی اور اس قسم کے وسيلہ کی تائيد و تثبيت کرنے کيلے پوری طاقت اور قدرت کو بروئے کار لائی ہے۔

خود یہی محرک اور اس کے علاوہ دوسرے محرکات تھے جس نے اس افسانہ کو وجودبخشانيز اس کو اشاعت اورشہرت دی اور اس سلسلے ميں علماء و محققين پر بحث و تحقيق کے دروازے مسدودکردئيے یہاں تک خداوند عالم نے اس پر بحث و تحقيق کرنے کی توفيق ہميں عنایت فرمائی ولله الحمد و المنة

سيف کی دوسری تحریفات اور جعليات

سيف کی جعليات و تحریفات صرف افسانہ عبدالله بن سبا تک ہی محدود نہيں تھيں بلکہ اس سے پہلے اشارہ کئے گئے محرکات کے علاوہ اپنے الحاد اور زندقہ کے محرکات کے پيش نظر بھی فراوان افسانے جعل کئے ہيں اور ان افسانو ں کيلئے سورما بھی خلق کئے ہيں جن کی تحقيق کيلئے ہم نے کئی کتابيں جيسے : “خمسون و ماة صحابی مختلق ”یعنی “ایک سو پچاس جعلی اصحاب” “ رواة مختلقون ” یعنی “جعلی راوی ” اور “ عبدالله بن سبا’ ’تاليف کی ان کتابوں ميں ضمنی طو رپر ان سوالات کا جواب بھی آیا ہے کہ:یہ تاریخ اسلام ميں یہ تحریفات ، تبدیلياں اور جعليات کيوں اور کيسے وجود ميں آئے ہيں ؟!تاریخ اور حدیث کے علماء نے اس کے مقابلہ ميں کيوں بالکل خاموشی اختيار کی ہے اور گزشتہ کئی صدیوں کے دوران اس سلسلہ ميں کسی قسم کی تحقيق اورجانچ پڑتال نہيں کی گئی ہے ؟!اس کے علاوہ ہم نے کتاب “ عبد الله بن سبا”(۱) کی فصل “ تحریف و تبدیل ”ميں اس بات کی طرف اشارہ کيا ہے کہ سيف بن عمر نے امير المؤمنين حضرت علی عليہ السلام کے قاتل عبدالرحمان ابن ملجم کے نام کو کيسے خالد بن ملجم ميں تحریف کرکے اسے علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کرنے والے فرقہ “ سبئيہ ” کی ایک بزرگ شخصيت دکھا یا ہے اس کے علاوہ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے مشہور صحابی “ خزیمة بن ثابت انصاری ” کو کيسے دو اشخاص : ایک “ ذو الشہادتين ” کے نام سے اور دوسرے کو “غير ذو الشہادتين ”کے نام سے پيش کيا ہے اسی طرح “ سماک بن خرشہ انصاری ” کو دو اشخاص دکھائے ہيں ایک معروف بہ ابو دجانہ اور دوسرا غير ابودجانہ ، اور عبدالله بن سباکو بھی دو اشخاص دکھانے ميں کامياب ہوا ہے ایک ابن وهب سبائی جو علی عليہ السلام کی خلافت کے دوران گروہ خوارج کا سردار تھا اور دوسرا ابن سبا جس کا حقيقت ميں کوئی وجود ہی نہيں تھا اوراس نے کسی ماں سے جنم ہی نہيں ليا تھا بلکہ یہ سيف کے ذہن کی پيدا وار تھا اس لحاظ سے تاریخ اسلام ميں جعل ، تحریف او رتخليق سيف کی باضابطہ ہنر مندی اور معمول کے مطابق پيشہ تھا اور اس ميں کسی قسم کے چون و چرا اور تعجب و حيرت کی بالکل گنجائش نہيں ہے پھر بھی ان تحریفات و جعليات کے مقابلہ ميں علماء کی خاموشی تازہ نہيں تھی اور افسانہ عبدالله بن سبا سے ہی مخصوص نہيں تھی کہ جو ایک فرد محقق کيلئے بُعد اور ناقابل قبول اور ناقابل حل دکھائی دے ۔

____________________

١۔ اس کتاب کی جلد دوم فارسی ترجمہ ١٩٢ و ٢٠۴ ملاحظہ ہو۔

پانچ جعلی اصحاب یاددہانی کے طور پر سيف کے سورماؤں کو تخليق کرنے کے کارنامے اور ان کارناموں کے نمونے پيش کرنے کے لئے یہا ں پر مناسب ہے درج ذیل پانچ افسانوی اصحاب کی طرف اشارہ کریں ۔

١۔ قعقاع بن عمر و بن مالک تميمی اسيدی:

سيف نے اسے ایک زبردست اور الہام شدہ شاعر، پيغمبر کا صحابی اور لشکر اسلام کے کمانڈر کی حيثيت سے پہچنوایا ہے سنی اور شيعہ علماء نے بھی اس کی زندگی کے حالات پر تفصيل سے روشنی ڈالی ہے ہم نے بھی اپنی کتاب“ ١ ۵ ٠ جعلی اصحاب ” ميں ١ ۴ ٠ صفحات پر اس کے افسانہ پر بحث و تحقيق کی ہے ۔

٢۔ عاصم بن عمر و، قعقاع کا بھائی

٣۔ نافع بن سود بن قطبة بن مالک تميمی اسيدی ،قعقاع کا چچيرا بھائی ۔

۴ ۔زیاد بن حنظلہ تميمی ۵ ۔ طاہر بن ابیہالہ خدیجہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی بيوی کا بيٹا ۔

اس قسم کے افسانوی افراد بہت زیاد ہيں جنہيں سيف نے اپنے تصوراور خيال ميں خلق کياہے ا ور انہيں بعنوان : راوی ،شاعر ،صحابی یا جنگی سورما وغيرہ کی صورت ميں پيش کياہے ۔ اسلامی تمدن کی حسب ذیل شيعہ و سنی کتابوں ميں ان کا ذکر آیا ہے:

اہل سنت علماء کی کتابيں

١۔ سيف بن عمر تميمی ( وفات تقریباً ١٧٠ هء) نے اپنی دو کتابوں :“الجمل ’‘ اور “الفتوح ” ميں ۔

٢۔ طبری ( وفات ٣١٠ هء) نے اپنی “تاریخ” ميں ۔

٣۔ بغوی ( وفات ٣١٧ هء) نے اپنی“ معجم الصحابہ” ميں ۴ ۔ رازی ( وفات ٣٢٧ هء) نے اپنی “الجرح و التعدیل ”ميں ۵ ۔ ابن سکن ( وفات ٣ ۵ ٣ هف) نے اپنی “حروف الصحابہ” ميں ۔

۶ ۔ اصفہانی ( وفات ٣ ۵۶ هء) نے اپنی “اغانی ”ميں ٧۔ مرزبانی (وفات ٣٧ ۴ هء) نے اپنی “ معجم الشعراء ” ميں ٨۔ دار قطنی ( وفات ٣٨ ۵ هء) نے اپنی کتاب “ المؤتلف و المختلف ” ميں ٩۔ ابو نعيم ( وفات ۴ ٣٠ هء) نے اپنی “تاریخ اصفہان” ميں ١٠ ۔ ابن عبد البر (وفات ۴ ٣٠ هء) نے اپنی“ استيعاب” ميں ۔

١١ ۔ابن ماکولا ( وفات ۴ ٧ ۵ هء) نے “الاکمال ”ميں ۔

١٢ ۔ ابن بدرون ( وفات ۵۶ ٠ هء) نے“ شرح قصيدہ ابن عبدون” ميں ١٣ ۔ ابن عساکر ( وفات ۵ ٧١ هء) نے اپنی “تاریخ دمشق ”ميں ١ ۴ ۔ حموی وفات ( ۶ ٢ ۶ ئه) نے “ معجم البلدان ”ميں ۔

١ ۶ ۔ ابن اثير (وفات ۶ ٣٠ ئه ) نے “الکامل التاریخ” ميں ١٧ ۔ابن اثير (وفات ۶ ٣٠ ئه ) نے “اسد الغابہ” ميں ۔

١٨ ۔ ذہبی ( وفات ٧ ۴ ٨ ئة نے “النبلاء” ميں ۔

١٩ ۔ ذہبی ( وفات ٧ ۴ ٨ ئة نے “تجرید الاسماء الصحابہ” ميں ٢٠ ۔ ابن کثير ( وفات ٧٧٠ هء) اپنی“ تاریخ ”ميں ٢٠ ۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ ئه) نے اپنی“ تاریخ” ميں ٢١ ۔ حميری ( وفات ٨٢ ۶ هء) نے اپنی“ روض المعطار” ميں ۔ اس کتاب کی تاریخ تاليف ٨٢ ۶ ئه ہے۔

٢٢ ۔ ابن حجر ( ٨ ۵ ٢ ئه) نے اپنی “اصابہ” ميں ۔

٢٣ ۔ ابن بدان ( وفات ١٣ ۴۶ ئه) نے اپنی“ تہذیب تاریخ ابن عساکر” ميں ۔

شيعہ علماء کی کتابيں

بعض شيعہ علماء(۱) اور مؤرخين نے اہل سنت کی کتابو ں پر اعتماد کی وجہ سے ان ہی افسانوی افراد کے نام اور ان کی رواتيوں اور داستانوں کو اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے ،

جيسے:

١۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ هء) اس کے اپنی کتابوں ميں درج کئے بعض مطالب ميں سے بعض کو اپنی کتاب “ وقعة الصفين ” ميں نقل کيا ہے ۔

٢۔ شيخ طوسی ( وفات ۴۶ ٠ ) نے اپنی “ رجال ميں ۔

٣۔ قہبائی نے “ مجمع الرجال ” ميں ١٠١ ۶ ئه ميں ا س کی تاليف سے فارغ ہو اہے ۔

۴ ۔ اردبيلی ( وفات ١١٠١ هء) نے “ جامع الرواة ميں ۔

____________________

١۔ علمائے شيعہ نے فقہ کے علاوہ تمام موضوعات جيسے : تفسير ، سيرت پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ،رجال اور تاریخ ميں علمائے سنی سے کثرت سے نقل کيا ہے ۔

۵ ۔ مامقانی ( وفات ١٣ ۵ ٢ ئه) نے “ تنقيح المقال ”ميں ۔

۶ ۔ سيد عبدالحسين شر ف ا لدین ( ١٣٧٧ هء) نے “الفصول المہمة”ميں ٧۔ تستری “معاصر قاموس الرجال” ميں

نتيجہ اس بحث و گفتگو سے جو نتيجہ حاصل کيا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ : تاریخ اسلام ميں پيدا ہوئے یہ تمام جعليات ، تحریفات اور اختلافات علماء ، اور مؤلفيں کيلئے پوشيدہ اور ناشناختہ رہے ہيں اسلئے انہوں نے تحقيق و تجسس کے بغير ان جعلی افراد اور ان کی جھوٹی افسانوی داستانوں اور روایتوں کواپنی کتابوں ميں درج کيا ہے اوریہی امر اس بات کی علامت ہے کہ عبدالله بن سبا کا افسانہ بھی مؤرخين اور مؤلفين اور علم رجال و ادیان کے علماء سے پوشيدہ اور غير معروف رہ گيا ہے ۔

عبد الله سبائی کی عبدالله بن سبا سے تحریف

ليس غریبا من سيف هذا الدس و التحریف و الاختلاق

سيف جيسے شخص سے اس قسم کی ملاوٹ ، تحریف اور جعل بعيد اور تعجب آور نہيں ہے ۔

مؤلف

ہم نے گزشتہ فصل ميں کہا کہ اسلامی لغات ميں عبدالله بن سبا تين مختلف چہروں ،

قيافوں اور شخصيات ميں پایا جاتاہے اور ہر قيافہ وشخصيت کيلئے مخصوص روایتيں اور داستانيں نقل کی گئی ہيں خاص کر تيسرے عبدالله سبا کيلئے بڑی مفصل روایتيں اور داستانيں درج کی گئی ہيں ۔

مذکورہ تين عبدالله بن سبا ميں سے صرف پہلا عبدالله بن وهب سبائی وجود رکھتا تھا باقی افسانہ کے علاوہ کچھ نہيں تھے ۔

عبدالله بن وهب سبائی جو حقيقت ميں وجود رکھتا تھا کی داستان کا خلاصہ یوں ہے:

وہ علی عليہ السلام کے زمانے ميں زندگی بسرکرتا تھا اور پہلے حضرت کے طرفداروں ميں سے تھا ليکن اس نے جنگ صفين ميں حَکَميت کے بارے ميں علی عليہ السلام پر اعتراض کيا اور اس کے بعد اس کی علی سے عداوت اور مخالفت شروع ہوگئی ا س کے ہم فکر علی کے بعض مخالفين اس سے جا ملے اور اجتماعی طور پر حضرت علی عليہ السلام کے خلاف

____________________

١۔ مصنف کی کتاب “ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ” اس افسانوی صحابی کے حالات ملاحظہ ہوں ۔

ابو الحسن ملطی مزید کہتا ہے:

” سبائيوں کا دوسرا گروہ یہ عقيدہ رکھتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نہيں مرے ہيں بلکہ وہ بادلوں کے ایک ٹکڑے ميں قرار پائے ہيں لہذا جب وہ بادلوں کے ایک صاف و سفيد اور نورانی ٹکڑے کو رعد و برق ١ کی حالت ميں دیکھتے ہيں ، تو اپنی جگہ سے اٹھ کر اس ابر کے ٹکڑے کے مقابلہ ميں کھڑے ہو کردعا و تضرع ميں مشغول ہوتے ہيں اورکہتے ہيں :

اس وقت علی ابن ابيطالب عليہ السلام بادلوں ميں ہمارے سامنے سے گزرے“!

ابو الحسن ملطی اضافہ کرتا ہے:

” سبائيوں کا تيسرا گروہ وہ لوگ ہيں جو کہتے ہيں : علی عليہ السلام مر گئے ہيں ليکن قيامت کے دن سے پہلے مبعوث اور زندہ ہوں گے ، اور تمام اہل قبور ان کے ساتھ زندہ ہوں گے تا کہ وہ دجال کے ساتھ جنگ کریں گے اس کے بعد شہر و گاؤں ميں لوگوں کے درميان عدل و انصاف بر پا کریں گے اور اس گروہ کے لوگ عقيدہ رکھتے ہيں کہ علی عليہ السلام خدا ہیں اور رجعت پر بھی عقيدہ رکھتے ہيں “

ا بو الحسن ملطی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

” سبائيوں کے چوتھے گروہ کے لوگ محمد بن علی ( محمد حنفيہ ) کی امامت کے معتقد ہيں اور کہتے ہيں : وہ رضوی نامی پہاڑ ميں ایک غار ميں زندگی گذار رہے ہيں ایک اژدها اور ایک شير ان کی حفاظت کررہا ہے ، وہ وہی “ صاحب الزمان” ہیں جو ایک دن ظہور کرےں گے اور دجال کو قتل موت کے گھاٹ اتاریں گے ! اور لوگوں کو ضلالت اور گمراہی سے ہدایت کی طرف لے جآئیں گے اور روئے زمين کو مفاسد سے پاک کریں گے“

ابو الحسن ملطی اپنی بات کے اس حصہ کے اختتام پر کہتا ہے:

” سبائيوں کے یہ چاروں گروہ “بداء ” کے معتقد ہيں ! اور کہتے ہيں : خدا کيلئے کاموں ميں بداء حاصل ہوتا ہے یہ گروہ توحيد اور خدا شناسی کے بارے ميں اور بھی باطل بيانات اور عقائد رکھتے ہيں کہ ميں اپنے آپ کو یہ اجازت نہيں دے سکتا ہوں کہ خدا کے بارے ميں ان کے ان ناشائستہ عقائد کو اس کتاب ميں وضاحت کروں اور نہ یہ طاقت رکھتا ہوں کہ خدا کے بارے ميں ا یسی باتوں کو زبان پر لاؤں مختصر یہ کہ یہ سب گروہ اور پارٹياں کفر کے فرقے ہيں “

ا بو الحسن ملطی اسی کتاب کے باب “ ذکر الروافض و اجناسهم و مذاهبہم ” ميں سبائيوں کے بارے ميں دوبارہ بحث و گفتگو کرتا ہے اور اس دفعہ “ ابو عاصم ” سے یوں نقل کرتا ہے کہ:

____________________

١۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بنيادی طور پر سفيد ، صاف اور روشن بادل رعد و برق ایجاد نہيں کرتے ہيں بلکہ یہ سياہ بادل ہے جو رعد و برق پيدا کرتا ہے

” عقيدہ کے لحاظ سے رافضی پندرہ گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں اور یہ پندرہ گروہ خداکی طرف سے اختلاف اور پراگندگی کے عذاب ميں مبتلا ہو کر اور مزید بہت سے گروہوں اور پارٹيوں ميں تقسيم ہوگئے ہيں :

اول) ان ميں سے ایک گروہ خدا کے مقابلے ميں علی ابن ابيطالب کی الوہيت اور خدا ئی کے قائل ہے ”۔ یہاں تک کہتا ہے “ ان ہی ميں سے عبد الله بن سبا تھا جو یمن کے شہر صنعا کا رہنے والا تھا اور علی عليہ السلام نے اسے ساباط جلا وطن کيا“

دوم ) ان ميں سے دوسرا گروہ جسے “ سبيئہ ” کہتے ہيں ان کا کہنا ہے کہ : علی عليہ السلام نبوت ميں پيغمبر کے شریک و سہيم ہیں ، پيغمبر اپنی زندگی ميں مقدم تھے اور جب وہ دنيا سے رحلت کر گئے تو علی ان کی نبوت کے وارث بن گئے اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی جبرئيل ان کيلئے پيغام لے کر آتے تھے۔ اس کے بعد کہتا ہے : یہ دشمن خدا ہيں اور جھوٹ بولتے ہيں ، کيونکہ محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم خاتم الانبياء تھے اور ان کے بعد نبوت رسالت وجود نہيں رکھتی ہے ۔

سوم ) ان کے ایک دوسرے گروہ کو “منصوریہ ” کہتے ہيں وہ اس بات کے معتقد ہيں کہ علی نہيں مرے ہيں بلکہ بادلوں ميں زندگی گذار رہے ہيں “

اس طرح رافضيوں کے پندرہ گروہوں کو اپنے خيال و زعم ميں معين کرکے ان کے عقائد کی وضاحت کرتا ہے ۔

ابن سبا ، ابن سودا اور سبائيوں کے بارے ميں عبدا لقاهر بغدادی کا بيان

و هذه الطائفة تزعم ان المهدی المنتظر هو علیّ

گروہ سبئيہ کا یہ عقيدہ ہے کہ مہدی منتظر وہی علی ہے ۔ بغدادی عبدا لقاہر بغدادی ( وفات ۴ ٢٩ هء ) اپنی کتاب “ الفرق بين الفرق ” کے فصل “ عقيدہ سبئيہ اور ا س گروہ کے خارج از اسلام ہونے کی شرح کے باب ” ميں کہتا ہے:

” گروہ سبيئہ اسی عبدا لله بن سبا کے پيرو ہيں کہ جنہوں نے علی ابن ابيطالب عليہ کے بارے ميں غلو کيا ہے اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ وہ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ہے ۔ اس کے بعد اس کی الوہيت و خدائی کے معتقد ہوئے اور کوفہ کے بعض لوگوں کو اپنے عقيدہ کی طرف دعوت دی ۔ جب اس گروہ کی خبر علی عليہ السلام کو پہنچی ، تو انکے حکم سے ان ميں سے بعض لوگوں کو دو گڑهوں ميں ڈال کر جلادیا گيا ، حتی بعض شعراء نے اس رودادکے بارے ميں درج ذیل اشعار بھی کہے ہيں :

لترم بی الحوادث حيت شاءَ ت

اذا لم ترم بی فی الحفرتين

”حوادث اور واقعات ہميں جہاں بھی چاہيں ڈال دیں صرف ان دو گڑهوں ميں نہ ڈاليں “

چونکہ علی عليہ السلام اس گروہ کے باقی افراد کو جلانے کے سلسلے ميں اپنے ماننے والوں کی مخالفت اور بغاوت سے ڈر گئے ، اس لئے ابن سبا کو مدائن کے ساباط ميں جلا وطن کيا ۔ جب علی عليہ السلام مارے گئے تو ابن سبا نے یوں اپنے عقيدہ کا اظہار کيا :

جو مارا گيا ہے وہ علی عليہ السلام نہيں بلکہ شيطان تھا جو علی کے روپ ميں ظاہر ہوا تھا اور خود کو لوگوں کے سامنے مقتول جيسا ظاہر کيا ، اس لئے کہ علی عليہ السلام حضرت عيسی کی طرح آسمان کی طرف بلا لئے گئے ہيں ۔

اس کے بعد عبد القاہر کہتا ہے:

اس گرو کا عقيدہ ، جس طرح یہود و نصاریٰ قتل حضرت عيسیٰ کے موضوع کے بارے ميں ایک جھوٹااور خلاف واقع دعوی کرتے ہيں ، ناصبی اور خوارج نے بھی علی عليہ السلام کے قتل کے موضوع پر ایک جھوٹے اور بے بنياد دعوی کا اظہار کيا ہے ۔ جس طرح یہود و نصاریٰ نے ایک مصلوب شخص کو دیکھا اور اسے غلطی سے عيسیٰ تصورکرگئے اسی طرح علی کے طرفداروں نے بھی ایک مقتول کو علی کی صورت ميں دیکھا اور خيال کيا کہ وہ خود علی ابن ابيطالب عليہ السلام ہيں ، جب کہ علی آسمان پر بلا لئے گئے ہيں اور مستقبل ميں پھر سے زمين پر اتریں گے اور اپنے دشمنوں سے انتقام ليں گے“

عبدا لقاہر کہتا ہے:

” گروہ سبئيہ ميں سے بعض لوگ خيال کرتے ہيں کہ علی بادلوں ميں ہيں ۔رعد کی آواز وہی علی کی آواز ہے ۔ آسمانی بجلی کا کڑکنا ان کا نورانی تازیانہ ہے جب کبھی بھی یہ لوگ رعد کی آواز سنتے ہيں توکہتے ہيں : عليک السلام یا امير المؤمنين!

عامر بن شراحيل شعبی(۱) سے نقل کيا گيا ہے کہ ابن سبا سے کہا گيا:

علی عليہ السلام مارے گئے ، اس نے جواب ميں کہا :

____________________

١۔ عامر بن شراحيل کی کنيت ابو عمر تھی و وہ قبيلہ ہمدان سے تعلق رکھتا ہے اور شعبی کے نام سے معروف ہے ( اور حميری و کوفی ) وہ عمر کی خلافت کے دوسرے حصہ کے وسط ميں پيدا ہوا ہے اور دوسری صدی ہجری کے اوائل ميں فوت ہو چکا ہے اس نے بعض اصحاب رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم ، جيسے امير المؤمنين عليہ السلام سے احادیث نقل کی ہيں ، جبکہ علمائے رجال واضح طورپر کہتے ہيں کہ اس نے جن اصحاب سے احادیث ( ۶۵ ۔ ۶٩ / نقل کی ہيں ، انهيں بچپن ميں دیکھا ہے اور ان سے کوئی حدیث ہی نہيں سنی ہے ( تہذیب التہذیب ۵علمائے رجال کی یہ بات شعبی کے احادیث کے ضعيف ہونے کی ایک محکم اور واضح دليل ہے خاص طور پر شعبی کے احادیث کے ضعيف ہونے کے بارے ميں دوسرے قرائن یہ ہيں کہ وہ ١٠٩ هء ميں فوت ہوا ہے اور بغدادی ۴٢٩ هء ميں فوت ہوا ہے اس طرح ان دو افراد کے درميان آپس ميں تيں سو سال کا فاصلہ ہے زمانے کے اتنے فاصلہ کے باوجود بغدادی کس طرح شعبی سے روایت نقل کرتا ہے اگر اس کی نقل بالواسطہ تھی تو یہ واسطے کون ہيں ؟ کيوں ان کا نام نہيں ليا گيا ہے

اگر ان کے مغز کو ایک تھيلی ميں ہمارے لئے لاؤ گے پھر بھی ہم تمہاری بات کی تصدیق نہيں کریں گے کيونکہ وہ نہيں مریں گے یہاں تک آسمان سے اتر کر پوی روئے زمين پر سلطنت کریں گے“

عبدا لقاہر کہتا ہے :”یہ گروہ تصور کرتا ہے کہ “مهدی منتظر ” وہی علی ابن ابيطالب ہيں کوئی دوسرا شخص نہيں ہے اسحاق بن سوید عدوی(۱) نے اس گروہ کے عقائد کے بارے ميں درج ذیل اشعار کہے ہيں :

ميں گروہ خواج سے بيزاری چاہتا ہوں اور ان ميں سے نہيں ہوں ، نہ گروہ غزال سے ہوں اور نہ ابن باب کے طرفداروں ميں سے، اور نہ ہی اس گروہ سے تعلق رکھتا ہوں کہ جب وہ علی کو یاد کرتے ہيں تو سلام کا جواب بادل کو دیتے ہيں ليکن ميں دل و جان سے برحق پيغمبر اور ابوبکر کو دوست رکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ یہی راستہ درست اور حق ہے۔

اس الفت و دوستی کی بنا پر قيامت کے دن بہترین اجر و ثواب کی اميد رکھتا ہوں(۲) ۔

من الغزال منهم و ابن باب

ومن قوم اذا ذکروا عليا

یردون السلام علی السحاب

و لکنی احب بکل قلبی

واعلم ان ذاک من الصواب

رسول الله و الصدیق حقا

به ارجو غداً حسن الثواب

یہاں پر عبدا للہ بن سبا اور گروہ سبئيہ کے بارے ميں بغدادی کی گفتگو اختتام کو پہنچی ، اب وہ عبد الله بن سودا کے بارے ميں اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہے اور اس کے بارے ميں یوں کہتا ہے:

عبدا لله بن سودا نے سبئيہ گروہ کی ان کے عقيدہ ميں مدد کی ہے اور ان کا ہم خيال رہا۔ وہ بنيادی طور پر حير ہ کے یہودیوں ميں سے تھا ليکن کوفہ کے لوگوں ميں مقام و ریاست حاصل کرنے کيلئے ظاہراً اسلام لایا تھا اور کہتا تھا : ميں نے توریت ميں پڑها ہے کہ ہر پيغمبر کا ایک خليفہ اور وصی ہے اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے وصی علی عليہ السلام ہيں “

____________________

١۔ اسحاق بن سوید عدوی تميمی بصری کی موت ١٣١ ئه ميں طاعون کی بيماری کی وجہ سے ہوئی ہے ۔وہ حضرت علی عليہ السلام کی مذمت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ميں ان سے الفت نہيں رکھتا ہوں ۔

٢۔برئت من الخوارج لست منهم

بغدادی کہتا ہے:

جب علی عليہ السلام کے شيعوں نے ابن سودا کی یہ بات سنی تو انہوں نے علی سے کہا کہ وہ آپ کے دوستداروں اور محبت کرنے والوں ميں ہے لہذا علی کے پاس ابن سوداد کا مقام بڑه گيا اور وہ ہميشہ اسے اپنے منبر کے نيچے اور صدر مجلس ميں جگہ دیتے تھے،

ليکن جب علی نے بعد ميں اس کے غلو آميز مطالب سنے تو اس کے قتل کا فيصلہ کيا ،

ليکن ابن عباس نے علی کے اس فيصلہ سے اختلاف کيا اور انهيں آگاہ کيا کہ کيا شام کے لوگوں سے جنگ کرنا چاہتے ہيں آپ کو اس نازک موقع پر لوگوں کی حمایت کی ضرورت ہے اور مزید سپاہ و افراددر کار ہيں اگر ایسے سخت موقع پر ابن سودا کو قتل کر ڈاليں گے ، تو آپ کے اصحاب و طرفدار مخالفت کریں گے اور آپ ان کی حمایت سے محروم ہوجائيں گے علی نے ا بن عباس کی یہ تجویز قبول کی اور اپنے دوستداروں کی مخالفت کے ڈر سے ابن سوداء کے قتل سے صرف نظر کيا،اور اسے مدائن ميں جلا وطن کر دیا ليکن علی کے قتل کئے جانے کے بعد بعض لوگ ابن سودا کی باتوں کے فریب ميں آگئے کيونکہ وہ لوگوں کو اس قسم کے مطالب سے منحرف کرتااور کہتا تھا خداکی قسم مسجد کوفہ کے وسط ميں علی کيلئے دو چشمے جاری ہوں گے ان ميں سے ایک سے شہد اور دوسرے سے تيل جاری ہوگا اور شيعيان علی اس سے استفادہ کریں گے اس کے بعد بغدادی کہتا ہے:

”اہل سنت کے دانشور اور محققين معتقد ہيں کہ اگر چہ ابن سودا ظاہراً اسلام قبول کرچکا تھا ليکن علی عليہ السلام اور ان کی اولاد کے بارے ميں ا پنی تاویل و تفسيروں سے مسلمانوں کے عقيدہ کو فاش کرکے ان ميں ا ختلاف پيدا کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ مسلمان علی عليہ السلام کے بارے ميں اسی اعتقاد کے قائل ہوجائيں جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں قائل تھے(۱)

اس کے بعد بغدادی کہتا ہے:

____________________

١۔ یہ مطالب سيف کی عبد الله بن سبا کے بارے ميں روایت کا مفہوم ہے کہ بغدادی نے انهيں مشوش اور درہم برہم صورت ميں نقل کيا ہے اور خيال کيا ہے کہ ابن سودا علاوہ بر ابن سبا کوئی دوسرا شخص ہے اور یہ دو شخص جدا ہيں اور ابن سودا حيرہ کے یہودیوں ميں سے تھا جبکہ سيف نے ابن سبا کو یمن کے صنعا علاقہ کا دکھایا ہے اور اسے ابن سوداء کے طور پر نشاندہی کی ہے۔کتاب مختصر الفرق کے ناشر فليب حتی عيسائی نے بغدادی کی اس بات کا مذاق اڑادیا ہے اور اسے اس کے فاسد مقصد کے نزدیک دیکھتا ہے اس کتاب کے حاشيہ ميں لکھتا ہے : یہ روداد اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گوناگون اسلامی فرقے وجود ميں لانے ميں یہودی مؤثر تھے اس کے بعد کہتا ہے :بغدادی کی سبئيہ کے بارے ميں کی گئی بحث مکمل ترین و دقيق ترین بحث ہے جو اس بارے ميں عربی کتابوں ميں آئی ہے ۔

مرموز ابن سودا نے مسلمانوں ميں بغاوت ، اختلاف وفساد اور ان کے عقائد و افکار ميں انحراف پيدا کرنے کيلئے مختلف اسلامی ممالک کا سفر کيا جب اس نے دیگر گروہوں کی نسبت رافضيوں کو کفر و گمراہی اور نفسانی خواہشات کی پيروی کرنے ميں زیادہ مائل پایا تو انهيں عقيدہ سبئيہ کی تعليم و تربيت دی اس طریقے سے اس عقيدہ کی ترویج کی اور اسے مسلمانوں ميں پھيلایا“

مختار کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بغدادی کہتا ہے:” سبيئہ جو غاليوں اور رافضيوں کا ایک گروہ ہے اس نے مختار کو فریب دیا اور ان سے کہا تم زمانے کی حجت ہو ،اس فریبکارانہ بات سے اسے مجبور کيا تا کہ نبوت کا دعوی کرےں ا نهوں نے بھی اپنے خاص اصحاب کے درميان خود کو پيغمبر متعارف کيا“بغدادی لفظ “ ناووسيہ ” کی تشریح ميں کہتا ہے:

” اور سبيئہ کا ایک گروہ “ ناووسيہ ” سے ملحق ہوا وہ سب یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جعفر (ان کا مقصود امام صادق عليہ السلام ہيں ) جميع دینی علوم و فنون اعم از شرعيات و عقليات کے عالم ہيں “

ی ہ تھے بغدادی کے گروہ “ سبيئہ ” کے بارے ميں ا پنی کتاب ‘ ‘ الفرق ” ميں درج کئے گئے تار پود اس گروہ کے عقائد و افکار کے بارے ميں دیکھے گئے اس کے خواب اور اس کيلئے جعل کئے گئے اس کے عقائد اس کے بعد اس خيالی اور جعلی گروہ کی گردن پر یہ باطل اور بے بنياد عقائد و افکار ڈالنے کيلئے اس نے داد سخن دیا ہے اور ان خرافات پر مشتمل عقائد کو مسترد کرنے کيلئے ایک افسانہ پيش کرکے اس کی مفصل تشریح کی ہے ۔

حقيقت ميں اس سلسلہ ميں بغدادی کی حالت اس شخص کی سی ہے جو تاریکی ميں ایک سایہ کا تخيل اپنے ذہن ميں ا یجاد کرنےکے بعد تلوار کھينچ کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے ۔

عبد القاہر بغدادی کے بعد ، ابو المظفر اسفرائينی ( وفات ۴ ٧١ ئه) آیا اور جو کچھ بغدادی نے گروہ سبيئہ کے بارے ميں نقل کيا تھا ، اس نے اسے خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب “ التبصير ” ميں نقل کيا ہے ۔

پھر بغدادی کے اسی بيان کو سيد شریف جرجانی(وفات ٨١ ۶ هء)نے اپنی کتاب “التعریفات” ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔فرید وجدی ( وفات ١٣٧٣ ئه ) نے بھی اپنے “ دائرة المعارف” ميں لغت “ عبدا لله بن سبا”کے سلسلے ميں بغدادی کی باتوں کو من و عن اورانهيں الفاظ ميں کسی قسم کی کمی بيشی کے بغير نقل کيا ہے ۔

ا بن حزم (وفات ۴۵۴ ئه) اپنی کتاب “ الفصل فی الملل و الاهواء و النحل” ميں کہتا ہے:” غاليوں کا پہلا فرقہ جو غير خد اکی الوہيت اور خدائی کا قائل ہوا ہے عبدا لله ابن سبا حميری (خدا کی لعنت اس پر ہو--)کے ماننے والے ہيں اس گروہ کے افراد علی ابن ابيطالب کے پاس آئے اور آپ کی خدمت ميں عرض کيا: تم وہی ہو ۔

ا نهوں نے پوچھا : “ وہی ”سے تمہارا مقصود کون ہے ؟ انہوں نے کہا: تم خدا ہو-” یہ بات علی کيلئے سخت گراں گزری اور حکم دیا کہ آگ روشن کی جائے اور ان سب کو اس ميں جلادیا جائے اس گروہ کے افراد جب آگ ميں ڈال دئے جاتے تھے تو وہ علی کے بارے ميں کہتے تھے ، اب ہمارے لئے مسلم ہوگيا کہ وہ وہی خدا ہے کيونکہ خدا کے علاوہ کوئی لوگوں کو آگ سے معذب نہيں کرتا ہے اسی وقت علی ابن ابيطالب نے یہ اشعار پڑهے:

لما رایت الامر امراً منکراً

اججت ناری ودعوت قنبراً

”جب ميں لوگوں ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو اپنی مدد کيلئے بلاتا ہوں “

ابن حزم فرقہ کيسانيہ کے عقائد کے بارے ميں کہتا ہے:”بعض اماميہ رافضی جو “ممطورہ ” کے نام سے معروف ہيں موسی بن جعفر کے بارے ميں یہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ وہ نہيں مرے بلکہ زندہ ہيں اور وہ نہيں مریں گے یہاں تک کہ ظلم و ناانصافی سے پر دنيا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔اس کے بعد کہتا ہے:

”گروہ ” ناووسيہ کے بعض افراد امام موسیٰ کاظم کے والد یعنی “جعفر ابن محمد ” کے بارے ميں یہی عقيدہ رکھتے ہيں اور ان ميں سے بعض دوسرے افراد امام موسیٰ کاظم عليہ السلام کے بھائی اسماعيل بن جعفر کے بارے ميں اسی عقيدہ کے قائل ہيں “

اس کے بعد کہتا ہے:

” سبيئہ جو عبدا لله بن سبا حميری یہودی کے پيرو ہيں علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں بھی اسی قسم کا عقيدہ رکھتے ہيں اس کے علاوہ کہتے ہيں کہ وہ بادلوں ميں ہے ،یہاں تک کہتا ہے :

جب علی کے قتل ہونے کی خبر عبد الله بن سبا کو پہنچی تو اس نے کہا: اگر ان کے سر کے مغز کو بھی ميرے سامنے لاؤ گے پھر بھی ان کی موت کے بارے ميں یقين نہيں کروں گ ابو سعيد نشوان حميری ( وفات ۵ ٧ ۴ ئه ) اپنی کتاب “ الحور العين ” ميں کہتا ہے:” سبيئہ وہی عبدا لله بن سبا اور اس کے عقائد کے پيرو ہيں “

اس کے بعد ان کے عقائد کو بيان کرنے کے ضمن ميں ا مير المؤمنين کی موت سے انکار کرنے کی روداد کو بيان کرتے ہوئے کہتا ہے:

” جب ابن سبا کا عقيدہ ابن عباس کے پاس بيان کيا گيا تو انہوں نے کہا: اگر علی نہيں مرے ہوتے تو ہم ان کی بيویوں کی شادی نہ کرتے اوران کی ميراث کو وارثوں ميں تقسيم نہيں کرتے ”(۱)

____________________

١۔ الحور العين : ص ١۵۶

ابن سبا اور سبئيہ کے بارے ميں شہرستانی اور اس کے ماننے والوں کا بيان

و اما السبئية فهم یزعمون ان علياً لم یمت و انه فی السحاب

سبائی معتقد ہيں کہ علی نہيں مرے ہيں اور وہ بادلوں ميں ہيں صاحب البدء و التاریخ شہرستانی ( وفات ۵۴ ٨ هء) اپنی “ ملل و نحل ” ميں ابن سبا اور سبائيوں کے بارے ميں محدثين اور مؤرخين کے بيانات کو خلاصہ کے طور پر درج کرنے کے بعد یوں کہتا ہے :

”عبد الله بن سبا پہلا شخص ہے جس نے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی امامت کو واجب جانا ، اور یہی غاليوں کے دیگر گروہوں کيلئے اس عقيدہ کا سرچشمہ بنا کہ علی نہيں مریں گے اور وہ زندہ ہيں ۔ وہ کہتے ہيں : خداوند عالم کے ایک حصہ نے اس کے وجود ميں حلول کيا ہے اور کوئی ان پر برتری حاصل نہيں کرسکتا وہ بادلوں ميں ہیں اور ایک دن زمين پر آئیں گے۔

یہاں تک کہتا ہے:

”ابن سبا یہی عقيدہ خود علی کی زندگی ميں بھی رکھتا تھا ، ليکن اس نے اس وقت اظہار کيا جب علی کو قتل کر دیا گيا، اس وقت بعض افراد بھی اس کے گرد جمع ہوکر اس کے ہم عقيدہ ہو گئے، یہ وہ پہلا گروہ ہے جو علی اور ان کی اولاد ميں امامت کے محدود و منحصر ہونے کا قائل ہے اور غيبت اور رجعت کا معتقد ہوا ہے اس کے علاوہ اس بات کا بھی معتقد ہوا کہ خداوند عالم کا ایک حصہ تناسخ کے ذریعہ علی کے بعد والے ائمہ ميں حلول کرچکا ہے اصحاب اور یاران پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم بخوبی جانتے تھے اس لئے وہ ابن سبا کے عقيدہ کے مخالف تھے ، ليکن وہ علی عليہ السلام کے بارے ميں اس مطلب کو اس لئے کہتے تھے کہ جب علی عليہ السلام نے خانہ خدا کی بے حرمتی کرنے کے جرم ميں حرم ميں ایک شخص کی آنکھ نکالی تھی یہ واقعہ جب خليفہ دوم عمر کے پاس نقل کيا گيا تو عمر نے جواب ميں یہ جملہ کہا: “ ميں اس خدا کے ہاتھ کے بارے ميں کيا کہہ سکتا ہوں جس نے حرم خدا ميں کسی کو اندها کيا ہو؟

دیکھا آپ نے کہ عمر نے اپنے اس کلام ميں خدا کے ایک حصہ کے علی عليہ السلام کے پيکر ميں حلول کرنے کا اعتراف کيا ہے اور ان کے بارے ميں خداکا نام ليا ہے(۱)

یہ تھا ان افرا د کے نظریات و بيانات کا خلاصہ جنہوں نے “ ملل و نحل ” کے بارے ميں کتابيں لکھی ہيں دوسری کتابوں کے مؤلفين بھی ان کے طریقہ کا رپر چل کر بيہودہ اور بے بنياد مطالب کو گڑه کر اس باطل امور ميں ان کے قدم بقدم رہے ہيں ، مثلاً البدء و التاریخ کا مؤلف کہتا ہے:

ليکن “ سبئيہ ” جسے کبھی‘ ‘ طيارہ ” بھی کہتے ہيں خيال کرتے ہيں کہ ہرگز موت ان کی طرف آنے والی نہيں ہے اور وہ نہيں مریں گے حقيقت ميں ان کی موت اندهيری رات کے آخری حصہ ميں پرواز کرنا ہے اس کے علاوہ یہ لوگ معتقد ہيں کہ علی ابن ابيطالب نہيں مرے ہيں بلکہ بادلوں ميں موجود ہيں لہذا جب رعد کی آواز سنتے ہيں تو کہتے ہيں علی غضبناک ہو گئے ہيں ”۔

اس کے علاوہ کہتا ہے:

” گروہ طيارہ کے بعض افراد معتقد ہيں کہ روح القدس جس طرح عيسیٰ ميں موجود تھا اسی طرح پيغمبر اسلام ميں بھی موجود تھا اور ان کے بعدعلی ابن ابيطالب عليہ السلام ميں منتقل ہوگياعلی سے ان کے فرزند حسن اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے باقی اماموں ميں منتقل ہوتا رہا سبيئہ کے مختلف گروہ ارواح کے تناسخ اور رجعت کے قائل ہيں اور سبيئہ کے ایک گروہ کے افراد اعتقاد رکھتے ہيں کہ ائمہ عليہم السلام خدا سے منشعب شدہ نور ہيں اور وہ خدا کے اجزاء ميں سے ایک جزو ہيں اس عقيدہ کے رکھنے والوں کو “حلاجيہ ”(۲) کہتے ہيں ابو طالب صوفی بھی یہی اعتقاد رکھتا تھا اور اس نے انهيں باطل عقائد کے مطابق درج ذیل اشعار کہے ہيں :

قریب ہے کہ وہ وگا اگر کوئی ربوبيت نہ ہوتی تو وہ بھی نہ ہوتا کيا نيک آنکھيں غيبت کيلئے فکرمند ہيں (چشم براہ ہيں )یہ آنکھيں پلک و مژگان والی آنکھيں جيسی نہيں ہيں ۔

خدا سے متصل آنکھيں نور قدسی رکھتی ہيں ، جو خدا چاہے گا وہی ہوگا نہ ہی خيال کی گنجائش ہے اور نہ چالاکی کا کوئی محل۔

وہ سایوں کے مانند ہيں جس دن مبعوث ہوں گے ليکن نہ سورج کے سایہ کے مانند اور نہ گھر کے سایہ کے مانند ____________________

١۔ اس نقل کی بنا پر عمراولين شخص ہے جس نے علی کے بارے ميں غلو کيا ہے اور اس عقيدہ کی بنياد ڈالی ہے اسی طرح وہ پہلے شخص تھے جس نے عقيدہ رجعت کو اس وقت اظہار کيا جب رسول خدا نے رحلت فرمائی تھی جب اس نے کہا: خدا کی قسم پيغمبر نہيں مرے ہيں اور واپس لوٹيں گے اسی کتاب کی جلد اول حصہ سقيفہ ملاحظہ ہو ليکن حقيقت یہ ہے کہ شہرستانی بھی اپنی نقليات ميں تمام علمائے ادیان اور ملل و نحل کے مولفين کے مانند بعض مطالب کو لوگوں سے سنتا ہے اورانهيں بنيادی مطالب اور سو فيصد واقعی صورت ميں اپنی کتاب ميں درج کرتا ہے بغير اس کے کہ اپنی نقليات کی سند کے بارے ميں کسی قسم کی تحقيق و بحث کرے ہم ان مطالب کے بارے ميں اگلے صفحات ميں بيشتر وضاحت پيش کریں گے ۔

۲۔ حلاجيہ حسين بن منصور حلاج سے منسوب ہيں حسين بن حلاج ایک جادو گر اور شعبدہ باز تھا شہروں ميں پھرتا تھا ہرشہر ميں ایک قسم کے عمل اور مسلک کو رائج کرتا تھاا ور خود کو اس کا طرفدار بتاتا تھا ۔مثلاً معتزليوں ميں معتزلی ، شيعوں ميں شيعہ اور اہل سنت ميں خود کو سنی بتاتا تھا ۔

کادوا یکونون لو لا ربوبية لم تکن فيالها اعينا بالغيب ناظرةليست کاعين ذات الماق و الجفن انوار قدس لها بالله متصل کما شاء بلا وهم و لا فظن وهم الاظلة والاشباح ان بعثوالا ظل کالظل من فيئی و لا سکن

ا بن عساکر ( وفات ۵ ٧١ هء ) نے اپنی تاریخ ميں عبدا لله بن سبا کے حالات کی تشریح ميں سيف کی نقل کی گئی روایت (اور ان روایتوں کے علاوہ کہ جن کے بعض مضامين ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد(۱) اور بعض کو گزشتہ صفحات ميں درج کيا ہے)مزید چه روایتں حسب ذیل نقل کی ہيں :

١۔ ابو طفيل سے نقل ہوا ہے:

’ ميں نے مسيب بن نجبہ کو دیکھا کہ ابن سودا کے لباس کو پکڑ کر اسے گھسيٹتے ہوئے علی ابن ابيطالب کے پاس --- جب وہ منبر پر تھے ---لے آیا ،علی نے پوچھا : کيا بات ہے ؟ مسيب نے کہا: یہ شخص ابن سودا خدا او رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر جھوٹ کی نسبت لگاتا ہے“

٢۔ ایک دوسری روایت ميں آیاہے کہ علی ان ابيطالب عليہ السلام نے فرمایا:

مجھے اس خبيت سياہ چہرہ سے کيا کام ہے ؟ آپ کی مراد ابن سبا تھا جو ابوبکر اور عمر کے بارے ميں برا بھلا کہتا تھا۔

٣۔ اور ایک روایت ميں آیا ہے:

مسيب نے کہا: ميں نے علی ابن ابيطالب کو منبر پر دیکھا کہ ابن سودا کے بارے ميں فرما رہے ہيں :

____________________

١۔ ج / ١ فصل پيدائش افسانہ عبدا لله بن سبا

”کون ہے جو اس سياہ فام (جو خدا اور رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر جھوٹ کی نسبت دیتا ہے)خدا اس کو مجھ سے دور کرے۔ اگر مجھے یہ ڈرنہ ہوتا کہ بعض لوگ اس کی خوانخواہی ميں شورش برپا کریں گے جس طرح نہروان کے لوگوں کی خونخواہی ميں بغاوت کی گئی تھی تو ميں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیتا“

۴ ۔ ایک دوسری روایت ميں مسيب کہتا ہے:

ميں نے علی ابن ابيطالب سے سنا کہ “ عبد الله بن سبا” کی طرف مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے افسوس ہو تم پر! خداکی قسم پيغمبر خدا نے مجھ سے کوئی ایسا مطلب نہيں بيان کيا ہے جو ميں نے لوگوں سے مخفی رکھا ہو“

۵ ۔ ایک دوسری روایت ميں مسيب کہتا ہے:

” علی ابن ابيطالب کو خبر ملی کہ ابن سودا ابوبکراور عمر کی بدگوئی کرتا ہے ۔ علی عليہ السلام نے اسے اپنے پاس بلایا اور تلوار طلب کی تا کہ اسے قتل کر ڈالےں ۔ یا یہ کہ جب یہ خبر انهيں پہنچی انهوں نے فيصلہ کيا کہ اسے قتل کر ڈالےں ۔ ليکن اس کے بارے ميں کچھ

گفتگو ہوئی اور یہ گفتگو حضرت کو اس فيصلہ سے منصرف ہونے کا سبب بنی ،ليکن فرمایا کہ جس شہر ميں ، ميں رہتا ہوں اس ميں ابن سبا کو نہيں رہنا چاہئے اس لئے اسے مدائن جلاوطن کر دیا ۔

۶ ۔ ابن عساکر کہتا ہے:

”ایک روایت ميں ا مام صادق عليہ السلام نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے جابر سے نقل کيا ہے کہ : جب لوگوں نے علی عليہ السلام کی بيعت کی، حضرت نے ایک تقریر کی، اس وقت عبدا لله بن سبا اٹھا اور حضرت سے عرض کی : تم “ دابة الارض” ہو ۔ علی عليہ السلام نے فرمایا ؛ خدا سے ڈرو! ابن سبانے کہا: تم پروردگا ہو اور لوگوں کو رزق دینے والے ہو، تم ہی نے ان لوگوں کو خلق کيا ہے اور انهيں رزق دیتے ہو ۔ علی (عليہ السلام )نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے ، ليکن رافضيوں نے اجتماع کيا اور کہا؛ یا علی! اسے قتل نہ کریں بلکہ اسے ساباط مدائن جلاوطن کردیں کيونکہ اگر اسے مدینہ ميں قتل کر ڈاليں گے تو اس کے دوست اور پيرو ہمارے خلاف بغاوت کریں گے یہی سبب بنا کہ علی عليہ السلام اس کو قتل کرنے سے منصرف ہوگئے اور اسے ساباط جلاوطن کردیا، کہ وہاں پر “قرامطہ ” اور رافضيوں کے چندگروہ زندگی گذار رہے تھے، جابر کہتا ہے: اس کے بعد گيارہ افراد پر مشتمل سبائيوں کا ایک گروہ اٹھا اور علی عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی کے بارے ميں ا بن سبا کی باتوں کو دهرایا، علی عليہ السلام نے ان کے جواب ميں فرمایا :

اپنے عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور توبہ کرو کہ ميں پروردگا و خالق نہيں ہوں بلکہ ميں علی ابن ابيطالب ہوں تم ميرے ماں باپ کو جانتے ہو اور ميں محمد کا چچيرا بھائی ہوں ۔ انہوں نے کہا: ہم اس عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوں گے تم جو چاہتے ہو ، ہمارے بارے ميں انجام دو اور ہمارے حق ميں جو بھی فيصلہ کرنا چاہتے ہو کرو لہذا علی عليہ السلام نے ان لوگوں کو جلا دیا اور ان کی گيارہ قبریں صحرا ميں مشہور و معروف ہيں ۔

اس کے بعد جابر کہتا ہے : اس گروہ کے بعض دوسرے افراد نے اپنے عقائد کاہمارے سامنے اظہار نہيں کيا تھا ، اس روداد کے بعد انہوں نے کہا: کہ علی ہی خدا ہیں اور اپنے عقيدہ اور گفتار پر ابن عباس کی باتوں سے استناد کرتے تھے کہ انهوں نے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کياتها: خدا کے علاوہ کوئی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرے گا۔

جابر کہتا ہے : جب ابن عباس نے ان کے اس استدلال کو سنا ، تو کہا: اس لحاظ سے تمہيں ابوبکر کی بھی پرستش کرنا چاہئے اور ان کی الوہيت کے بھی قائل ہونا چاہئے ، کيونکہ انهوں نے بھی چند افراد کو آگ کے ذریعہ سزا دی ہے ۔

عبدالله بن سبا کے بارے ميں ادیان و عقائد کے علماء کا نظریہ

عبدالله بن سبا من غلاة الزنادقة ضال و مضل

عبدا لله بن سبا انتہا پسند زندیقيوں ميں سے ہے اور وہ گمراہ کنندہ ہے ذہبی

متقدمين کانظریہ :

ہم نے عبد الله بن سبا ، سبئيہ اور ابن سودا کے بارے ميں ادیان اور عقائد کی کتابوں کے بعض متقدم مؤلفين کے بيانات اور نظریات کو گزشتہ فصول ميں ذکر کيا اب ہم ان ميں سے بعض دوسروں کے نظریات اس فصل ميں ذکر کریں گے اس کے بعد اس سلسلہ ميں متاخرین کے نظریات بيان کریں گے ۔

ذہبی (وفات ٧ ۴ ٨ هء) اپنی کتاب “ ميزان الاعتدال ” ميں عبدالله بن سبا کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے:

” وہ زندیقی اور ملحد غاليوں ميں سے تھا ۔ وہ ایک گمراہ اور گمراہ کنندہ شخص تھا ۔

ميرے خيال ميں علی عليہ السلام نے اسے جلا دیا ہے ” اس کے بعد کہتا ہے: جو زجانی نے عبد الله کے بارے ميں کہا ہے کہ وہ خيال کرتا تھا موجودہ قرآن اصلی قرآن کا نواں حصہ ہے اور پورے قرآن کو صرف علی عليہ السلام جانتے ہيں اور انهيں کے پاس ہے عبد الله بن سبا اس طرح علی ابن ابيطالب کی نسبت اظہار دلچسپی کرتا تھاليکن علی عليہ السلام اسے اپنے سے دور کرتے تھے ”(۱)

____________________

١۔ جوزجانی وہی ابراہيم بن یعقوب بن اسحق سعدی ہے اس کی کنيت ابو اسحاق تھی نواحی بلخ ميں جوزجان ميں پيدا ہوا ہے بہت سے شہروں اور ممالک کا سفر کيا ہے دمشق ميں رہائش پذیر تھا حدیث نقل کرتا تھا“ الجرح و التعدیل ” ، “الضعفاء ” اور“ المترجم ” اس کی تاليفات ہيں ۔

ذہبی اپنی کتاب ‘ ‘ تذکرة الحفاظ” ميں اس کے حالات کی تشریح ميں کہتا ہے : جوزجانی علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں انحرافی عقيدہ رکھتا تھا مزید کہتا ہے : وہ علی عليہ السلام کے خلاف بد گوئی کرتا تھا ۔

ابن حجر ( وفات ٨ ۵ ٢ هء) بھی اپنی کتاب “ لسان الميزان ”ميں عبد الله بن سبا کے بارے ميں ذہبی کے اسی بيان اور ابن عساکر کے پہلے والے بعض نقليات کو نقل کرنے کے بعدکہتا ہے:

”اما م نے ابن سبا کو کہا: خدا کی قسم پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے مجھے کوئی ایسا مطلب نہيں بتایا ہے کہ ميں نے” معجم البلدان” ميں لفط جوزجان ميں آیا ہے کہ جوزجانی نے کسی سے چاہا کہ اس کےلئے ایک مرغ ذبح کرے اس شخص نے نہيں مانا جوزجانی نے کہا: ميں تعجب کرتا ہوں کہ لوگ ایک مرغ کو ذبح کرنے کيلئے آمادہ نہيں ہوتے ہيں جبکہ علی ابن ابيطالب نے تنہا ایک جنگ ميں ستر ہزار افرد کو قتل کيا جوزجانی ٢ ۵ ٩٣١ / هء ميں فوت ہوا ہے )( تذکرة الحفاظ ترجمہ ۵۶ ٩ ، تاریخ ابن عساکر و تاریخ ابن کثير ١١ملاحظہ ہو(

اسے لوگوں سے مخفی رکھا ہو ميں نے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے : قيامت سے پہلے، تيس افرا دکذاب اور جھوٹے پيدا ہوں گے اس کے بعد فرمایا:

ابن سبا تم ان تيس افراد ميں سے ایک ہوگے۔

ابن حجر مزید کہتا ہے:

” سوید بن غفلہ ، علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی خلافت کے دوران ، ان کی خدمت ميں حاضر ہوا ور عرض کی : ميں نے بعض لوگوں کو دیکھا جن ميں عبد الله بن سبا بھی موجود تھا ، وہ ابوبکر اور عمر پر سخت تنقيد کرتے تھے اور انهيں برا بهلا کہتے تھے اور وہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ بھی ان دو خليفہ کے بارے ميں باطن ميں بدگمان ہيں “

ابن حجر اضافہ کرتا ہے :

”عبد الله بن سبا پہلا شخص تھاجس نے خليفہ اول و دوم کے خلاف تنقيد اور بدگوئی کا آغازکيا اور اظہار کرتا تھا کہ علی بن ابی طالب ان دو خليفہ کے بارے ميں بدگمان تھے اور اپنے دل ميں ان کے بارے ميں عداوت رکھتا ہے ۔ جب علی نے اس سلسلہ ميں عبدا لله بن سبا کے اظہارات کو سنا ، کہا: مجھے اس خبيث سياہ چہرے سے کيا کام ہے ؟ ميں خدا سے پناہ مانگتا ہوں اگر ان دو افرادکے بارے ميں ميرے دل ميں کسی قسم کی عداوت ہو، اس کے بعد ابن سبا کو اپنے پاس بلایا اور اسے مدائن جلا وطن کردیا اور فرمایا: اسے قطعاً ميرے ساتھ ایک شہر ميں ز ندگی نہيں کرنی چاہئے اس کے بعدلوگوں کے حضور ميں منبر پر گئے اورابن سباکی روداد اور خليفہ اول و دوم کی ثنا بيان کی ۔ اپنے بيانات کے اختتام پر فرمایا: اگر ميں نے کسی سے سنا کہ وہ مجھے ان دو خليفہ پر ترجيح دیتا ہے اور ان سے مجھے برتر جانتا ہے تو ميں ا س پر افترا گوئی کی حد جاری کروں گا اس کے بعد کہتا ہے:

” عبد الله بن سبا کے بارے ميں ر وایتيں اور روداد تاریخ کی کتابوں ميں مشہور ہيں ليکن خدا کا شکر ہے کہ اس سے کوئی روایت نقل نہيں ہوئی ہے اس کے ماننے والے “سبائيوں ”

کے نام سے مشہور تھے جو علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی الوہيت کے معتقد تھے علی عليہ السلام نے انهيں آگ ميں ڈال کر جلا دیا اور انهيں نابود کردیا ۔(۱)

____________________

١۔ مؤلف کہتا ہے : اس داستان کو جعل کرنے والا ، شاید امام کے ان خطبوں کو فراموش کرگيا ہے جو امام نے ان دو افراد کے اعتراض اور شکایت کے موقع پر جاری کيا تھا۔ جيسے حضرت کا خطبہ شقشقيہ جو نہج البلاغہ کا تيسرا خطبہ ہے۔


6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17