مرتد کو جلانے کی روایتيں
انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر
جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔
ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،
علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :
١۔ کشی مزید کہتا ہے:
جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔
امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔
کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟
انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“
امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔
امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !
افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!
انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔
اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:
”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”
کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”
کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔
٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :
ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔
ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ
تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔
ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!
اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!
اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :
جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔
ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔
جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !
اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”
ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔
٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:
کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!
امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔
۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔
۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:
آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:
” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “
۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔
ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔
ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :
”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔
اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا
٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔
جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:
وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات
”۔
ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔
اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !
امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!
مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،
حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟
-جی ہاں ۔
-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟
- نہيں ۔
- دین مسيح کے پيرو ہو؟
- نہيں ۔
- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟
- ہم مسلمان ہيں ۔
-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟
- نہيں ۔
- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔
-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔
اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟
-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔
-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔
- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔
-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!
-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔
اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔
پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔
انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا
۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔
اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔
راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔
امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟
امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔
اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟
ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟
علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟
رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!
علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!
سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔
حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:
اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟
امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔
یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!
امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔
اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:
” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “
ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١
٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:
اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:
امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟
” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔
ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔
اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔
یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔
ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔
یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔
روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات
علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔
ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔
اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔
اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:
اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔
اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔
ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛
یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔
اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔
یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔
ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔
ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔
ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“
یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ
شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم
مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔
” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔
امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔
حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟
ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل
” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔
امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔
ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔
گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔
ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔
پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،
فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١
ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔
بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،
قتل ہے نہ جلانا۔
اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔
جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔