ميں درج کيا ہے کہ قبيلہ بنی سليم کے کچھ لوگ اسلام سے منحرف ہوئے ابوبکر نے خالد بن وليد کو ان کی طرف روانہ کيا خالد نے ان ميں سے بعض مردوں کو گوسفند خانے ميں جمع کرکے انهيں آگ لگادی عمر ابن خطاب نے اس سلسلہ ميں ا بوبکر سے اعتراض کيااور کہا: تم نے ایک ایسے شخص کو ان لوگوں کی طرف روانہ کيا ہے کہ لوگوں کو خدا سے مخصوص عذاب سے سزا دیتا ہے اہل سنت علماء نے ابوبکر کے جلانے کے موضوع اور اس کے دفاع ميں بہت سے مطالب بيان کئے ہيں ۔ مثلاً فاضل قوشجی شرح تجرید ميں کہتا ہے ابو بکر کا فجائيہ کو نذر آتش کرنا ان کی اجتہادی غلطی تھی اور مجتہدوں کيلئے اجتہاد ميں غلطياں کثرت سے پيش آتی ہيں فاضل قوشجی ابوبکر کے دفاع ميں اپنی بات کو یوں جاری رکھتا ہے یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہماری بحث سے مربوط احادیث کے مطابق ہو یہ کہتے ہيں کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نے بہت سے افراد کو نذر آتش کيا ہے ایک جہت سے اس سے اہم تر ہيں جو ابوبکر کے بارے ميں نقل ہوئی ہيں ا ور دوسری جہت سے ابوبکر کے دفاع اور عذر کی بہترین راہ ہے کيونکہ ان روایتوں کے مضمون کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے بھی ان افراد کو نذر آتش کرنے ميں ا جتہاد کيا ہے اور اس اجتہاد ميں غلطی ہو گئی ہے اور اس روش کی بھی عبدالله ابن عبا س اور دوسرے تمام افرا د کی / طرف سے انکار ہوا ہے ، ليکن خود علی اور خالد بن وليد کی نظر ميں صحيح تھا فتح الباری ۶۴ ٩١ ) کتاب الجہاد ( باب لایعذب بعذاب الله ) کی طرف رجوع کيا جائے ۔کيونکہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نے بھی دوسری وجوہ کی بنا پر چند افراد کو جلا کر نابود کيا ہے۔
کيا با وجود اس کے کہ امام صراحتاً فرماتے ہيں کہ مرتد کی سزا قتل ہے ، عملاً اس حد کو نافذ نہيں کرتے اور مرتدوں کے ایک گروہ کو واقعاًجلا دیتے ہيں ؟!
ليکن جس شعر کو امام سے نسبت دی گئی ہے:
لما رایت الامر امراً منکراً
اوقدت ناری و دعوت قنبراً
کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے اس شعر کو ان حوادث کی مناسبت سے جس صورت ميں نقل ہوا ہے ، کہا ہے ، یا کہ ان اشعار کو جنگ صفين ميں ایک قصيدہ کے ضمن ميں یوں کہا ہے:
یا عجباً لقد سمعت منکراً
کذباً علی الله یشيب الشعراً
یہاں تک فرماتے ہيں :
انی اذا الموت دنا و حضرا
شمّرت ثوبی و دعوت قنبراً
لما رایت الموت موتاً احمراً
عبات همدان و عبوا حميراً
جب موت کا وقت نزدیک پہنچا تو اپنے لباس کو جمع کيا اور خود کو موت کيلئے آمادہ کر ليا اور قنبر کو بلایا ۔ جی ہاں ، اب سرخ موت کو اپنے سا منے دیکھتا ہوں ۔ قبيلہ ہمدان کی صف آرائی کرتا ہوں اور معاویہ بھی قبيلہ حمير کی“
ان تمام اشکالا ت اور اعتراضات ، جو احراق مرتدوں کی روایتوں ميں موجود ہيں کے باوجود پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ پر باقی ہے کہ کيا عبدا لله بن سبا علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کرتا تھا اور ان کی الوہيت کا قائل تھا ، جيسا کہ گزشتہ روایتوں ميں آیا ہے ؟ ! یا یہ کہ وہ خدا کے منزہ ہونے اور تقدس کے بارے ميں غلو کرتا تھا ۔
( اگر اس سلسلہ ميں یہ تعبير صحيح ہو ) جيسا کہ چهٹی حدیث ميں آیا ہے کہ عبد الله بن سبا دعا کے وقت آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانے کی مخالفت کرتا تھا اور اس عمل کو پروردگار سے دعا کرتے وقت ایک نامناسب عمل جانتا تھا ، حتی امام بھی جب اس سلسلہ ميں ا س کی راہنمائی کرتے ہوئے وضاحت فرماتے ہيں ، تو پھر بھی وہ امام کی وضاحت کو قبول نہيں کرتا ہے اور اظہار کرتا ہے کہ چونکہ خداوند عالم ہر جگہ موجود ہے اور کوئی خاص مکان نہيں رکھتا ہے لہذا معنی نہيں رکھتا کہ ہم دعا کے وقت آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کریں کيونکہ یہ عمل خدا کو ایک خاص جگہ اور طرف ميں جاننے اور اس کيلئے خاص مکان کے قائل ہونے کے برابر ہے اور یہ عقيدہ توحيد سے مطابقت نہيں رکھتا ہے ۔
کيا اس عبدا لله بن سبا نے مسئلہ توحيد ميں غلو اور افراط کا راستہ اپنایا ہے یا علی عليہ السلام کی الوہيت کا قائل ہوکر تفریط کی راہ پر چلا ہے ؟!
کيا امام نے عبد الله بن سبا کو عقيدہ ميں انحراف کی وجہ سے نذر آتش کيا ہے ؟ یا یہ کہ اس نے عقيدہ ميں ا نحراف نہيں کيا تھا بلکہ غيب کی خبر دیتا تھا اور اسی سبب سے اسے امام کے پاس لے آئے تھے اور امام نے اس کی پيشين گوئی اور کہانت کی تائيد کرکے اسے آزاد کرنے کا حکم دیا ہے ؟!
ا ن تمام سوالات اور جوابات کے باوجود بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کيا عبدا لله بن سبا بنيادی طور پر ( زط) اور ہندی تھا یا عرب نسل تھا ؟
ا گر وہ ہندی نسل سے تھا تو اس کا اور اس کے باپ کا نام کيسے چار عربی لفظ سے تشکيل پایا ہے : (عبد) ، (الله) اور ابن ، (سبا) اگر وہ عرب نسل سے تھا، تو کيا قدیم زمانے اور جاہليت کے زمانہ سے امام عليہ السلام کے زمانہ تک کہيں یہ سننے ميں آیا ہے کہ کسی عرب نے اپنے ہم عصر کسی انسان کو اپنا خدا جان کر اس کی الوہيت کا قائل ہوا ہو؟!!
دوسری مشکل یہ ہے کہ انسان کی پرستش کی عادت و روش اور ایک شخص معاصر کے الوہيت کا اعتقاد ، قدیم تہذیب و تمدن والی قوموں ،جيسے : روم ،ایران اور اسی طرح جاپان اور چين ميں پایا جاسکتا ہے ، ليکن اسی زمانہ کے جزیرہ نما عرب کا غير متمدن ایک صحرا نشين عرب ، جو دوسرے انسان کے سامنے تواضع اور انکساری دکھانے کيلئے آمادہ نہ تھا ،
اس کا کسی انسان کی پرستش کيلئے آمادہ ہونا دور کی بات تھی ، جی ہاں صحرا نشين بتوں کی پرستش کرتے ہيں اور جن و ملائکہ کی الوہيت کے معتقد ہوتے ہيں ليکن کبھی آمادہ نہيں ہوتے کہ اپنے ہم جنس بشر کے سامنے احترام بجا لائيں اور سجدہ کریں اور اپنے جيسے کسی شخص کے سامنے سر تسليم خم کریں ۔
ان تمام اعتراضات سے قطع نظر پھر بھی یہ مشکل باقی ہے کہ : جو انسان کسی دوسرے انسان کی بندگی اور عبودیت کو قبول کرتا ہے ، اور کسی شخص کے سامنے اپنے آپ کو حقير بناتا ہے اس عبودیت و بندگی اور اس خصو ع و خشوع ميں ا س کا مقصد یا مادی و دنيوی ہے کہ اس صورت ميں ا پنے اس عقيدہ و بيان ميں اس قدر ہٹ دهرمی اور اصرار نہيں کرسکتا ہے کہ اپنی جان سے بھیہاتھ دهوبيٹھے کيونکہ مرنے کے بعد مادی اور دنيوی مقاصد کو پانا معنی نہيں رکھتا ہے ان حالات کے پيش نظر کيسے تصور کيا جاسکتا ہے کہ اس قسم کا شخص کسی بھی قيمت پر اپنی بات سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہيں ہوتا یہاں تک کہ اسے زندہ آگ ميں جلادیا جائے اور وہ تمام مادی جہتوں کو ہاتھ سے گنوا دے ؟
یا یہ کہ حقيقت ميں وہ واقعی طور پر اس عبودیت و بندگی کا قائل ہے اس صورت ميں یہ کيسے یقين کيا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے معبود سے کہے کہ تو ميرا پرور دگار ہے ،تونے مجھے خلق کيا ہے، اور تومجھے رزق دیتا ہے اور اس کے مقابلہ ميں ا س کا معبود اس کی تمام باتوں کو جھٹلادے اور ا س کے عقيدہ کے بارے ميں اظہار بيزاری و تنفر کرے ليکن پھر بھی یہ شخص اس کے بارے ميں اپنے ایمان و عقيدہ سے دست بردار نہ ہو؟ !!
کيا ایک عقلمند انسان ایسے مطالب کی تصدیق کرسکتا ہے ؟ کيا اس قسم کے مطالب کی صدائے بازگشت یہ نہيں ہوسکتی کہ ایساشخص اپنے معبود سے کہتا ہے: اے ميرے پروردگار ! اے ميرے معبود ! تم اپنی الوہيت کا انکار کرکے غلطی کے مرتکب ہورہے ہو ، اپنی خدائی کا انکار کرکے اشتباہ کررہے ہو صحيح راستہ سے منحرف ہورہے ہو !! تم خدا ہو ، ليکن تم خود نہيں جانتے ہو! اور آخرکار تم خدا ہو اگر چہ خود اس مقام کو قبول بھی نہ کرو گے!!
کون عاقل اس قسم کے مطلب کی تصدیق کرسکتا ہے ؟ اور کيا تاریخ بشریت ميں اس قسم کی مثال پائی جاتی ہے ؟!
جی ہاں ، ممکن ہے کچھ لوگ کسی شخص کی الوہيت کے معتقد ہوجائيں ا ور وہ شخص اس نسبت سے راضی نہ ہواا ور وہ خود اس مقام کا منکر ہو ليکن ایک شخص کے بارے ميں ا س قسم کا عقيدہ کہ اس زندگی کے خاتمہ او رمرنے کے بعد ممکن ہے نہ اس کی زندگی ميں جيسے کہ عيسی بن مریم اور خود علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں ا ن کی حيات کے بعد ایسا واقعہ پيش آیا ہے ۔
ليکن کسی شخص کی الوہيت کے بارے ميں اس کی زندگی ميں عقيدہ رکھنا جبکہ وہ شخص اس عقيدہ اور بات سے راضی نہ ہو اور اسے جھٹلاتا ہو ، اپنے ماننے والوں کی ملامت و مذمت کرتا ہو ، اس قسم کی روداد نہ آج تک واقع ہوئی ہے اور نہ آئندہ واقع ہوگی ۔
آخری اعتراض
اس سلسلہ ميں آخری اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ اہم حوادث، حقيقت اور بنيادی طور پر صحيح ہوتے تو معروف مورخين سے کيوں مخفی رہتے ؟ مشہور ترین اور مثالی مورخين ميں سے چند ایک کے نام ہم ذیل ميں درج کرتے ہيں انہوں نے اپنی کتابوں ميں ان حوادث کے بارے ميں کسی قسم کا اشارہ نہيں کيا ہے اور ان افراد کے جلائے جانے کے بارے ميں معمولی سا ذکر تک نہيں کيا ہے ، جيسے :
١۔ ابن خياط وفات ٢ ۴ ٠ هء
٢۔ یعقوبی وفات ٢٨ ۴ هء
٣۔ طبری ، وفات ٣١٠ هء
۴ ۔ ،مسعودی ، وفات ٣٣ ۶ هء
۵ ۔ ابن اثير ، وفات ۶ ٣٠ هء
۶ ۔ ابن کثير ، وفات ٧ ۴۴ هء
٧۔ ابن خلدون ، وفات ٨٠٨ هء
حقيقت ميں ا س مقدمہ اور جواب طلبی کے سلسلے ميں مرتدین کو جلانے سے مربوط روایتوں کو نقل کرنے والوں اور ان کے حاميوں سے وضاحت طلب کی جاتی ہے کہ : اتنی اہميت کے باوجود یہ حوادث کيوں ان مؤرخين سے مخفی رہے ہيں اور انہوں نے اپنی تاریخ کی کتابوں ميں انکے بارے ميں اس کی قسم کا اشارہ کيوں نہيں کيا ؟! جب کہ ان تمام مؤرخين نے “ فجائيہ سلمی ” کو نذر آتش کرنے کی روداد کو کسی قسم کے اختلاف کے بغير اپنی کتابوں ميں تشریح اور تفصيل کے ساتھ درج کيا ہے ۔
گزشتہ فصل ميں جو کچھ بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ : عبد الله بن سبا سے مربوط روایتيں اور احراق مرتدین کے بارے ميں روایتيں جو مختلف عناوین سے نقل ہوئی ہيں اور ہم نے بھی ان کے ایک حصہ کو گزشتہ فصل ميں درج کيا مضبوط اور صحيح بنياد کی حامل نہيں ہيں اور یہ سب روایتيں خودغرضوں کے افکار کی جعل کی ہوئی ہيں ليکن یہاں پر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہ جعلی روایتيں کيسے شيعہ کتابوں ميں آ گئيں ؟ ہم اگلی فصل ميں اس کا جواب دینے کی کوشش کریں گے ۔
شيعوں کی کتابوں ميں احراقِ مرتدین کی روایتوں کی پيدائش و کان لاصحاب الائمة آلاف من الکتب فی مختلف العلوم و غيرا نها قد فقدت
ہمارے ائمہ کے شاگردوں نے مختلف علوم ميں ہزاروں کتابيں لکھی تھيں ، افسوس کہ ہماری دسترس ميں نہيں ہيں ۔
مؤلف گزشتہ فصل ميں بحث یہاں تک پہنچی کہ عبدا لله بن سبا اور احراق مرتدین کے بارے ميں روایتيں علم و تحقيق کے لحاظ سے جعلی ہيں اور مضبوط اور صحيح بنياد کی حامل نہيں ہيں ۔ اس بحث کے سلسلہ ميں ہم مجبور ہيں کہ اس حقيقت کی تحقيق کریں کہ یہ جعلی روایتيں کس طرح شيعوں کی کتابوں ميں داخل ہوکر معتبر روایتوں کی فہرست ميں قرار پائی ہيں ۔
نابود شدہ کتابيں اور اصول:
مکتب اہل بيت عليہم السلام کے شاگردوں نے مختلف علوم ميں متعدد اور متنوع کتابيں تدوین و تاليف کی تھيں ان تاليفات کے ایک حصہ کو “ اصول ” کہا جاتا تھا ، کہتے ہيں ان “ اصلوں ” کی تعداد چار سو تک پہنچی تھی ۔
یہ اصول دست بہ دست چوتھی ہجری ميں شيعہ علماء او ردانشوروں تک پہنچی تھيں اور مرحوم کلينی نے اپنی عظيم روائی کتاب یعنی “ کافی ” ميں ان اصلوں سے بہت زیادہ احادیث نقل کی ہيں ۔
اس کے علاوہ مرحوم ‘ ‘ صدوق ” نے اپنی کتاب “ من لا یحضرہ الفيقہ ” کو ان ہی اصلوں کی فقہی احادیث سے تدوین اور تاليف کی ہے ۔
اسی طرح مرحوم شيخ طوسی نے اپنی دو اہم و معروف کتابوں “ استبصار ”اور “التہذیب ” کو ان ہی “ اصلوں ” سے تاليف کيا ہے اس کے علاوہ اس زمانے کے دیگر علماء نے بھی اپنی کتابوں کو مذکورہ “اصلوں ” کی بنياد پر تدوین کيا ہے اور احادیث کا چہار گانہ مجموعہ ، یعنی : کافی ، من لا یحضرہ الفقيہ ، استبصار ، اور تہذیب اس زمانے سے آج تک فقہائے شيعہ کےلئے فقہی احکام کے لحاظ سے مرجع و مآخذ قرار پایا ہے ۔
رجال ميں بھی چار کتابيں اسی زمانے کے علماء کی آج تک باقی بچی ہيں کہ بعد کے علماء کی تاليفات کيلئے مرجع و ماخذ قرار پاتی ہيں یہ چار کتابيں عبارت ہيں : “ اختيار رجال کشی ” ، “ رجال ’ اور “فہرست ” کہ یہ تين کتابيں مرحوم شيخ طوسی کی تاليف ہيں اور چوتھی کتاب ‘ ‘ فہرست نجاشی ” ہے ۔
اصحاب ائمہ نے مذکورہ اصول چہارگانہ کے علاوہ مختلف علوم ميں ہزاروں جلد متنوع کتابيں تاليف کی تھی ، جيسے “ اخبار اوائل ” کی تاليفات ، اخبار فرزندان آدم و اصحاب کہف و قوم عاد و اس کے علاوہ “ اخبار جاہليت ” کے بارے ميں چند تاليفات مانند کتاب “ الخيل ” “السيوف ” ، “ الاصنام ” ، ایام العرب ، انساب العرب، نواقل القبائل ”
اور “ منافرات القبائل ”
تھيں ۔
اس کے علاوہ اصحاب ائمہ، شہروں ، زمينوں ، پہاڑوں ، اور دریاؤں کے اخبار کے بارے ميں کئی کتابيں تاليف کرچکے تھے علاوہ بر این طلوع اسلام کے نزدیک صدیوں کے عربوں ميں رونما ہوئے حوادث کے بارے ميں اخبار پر مشتمل کتابيں تاليف کی گئی ہيں جيسے: عہد ناموں کی خبریں ، ایام جاہليت ميں عربوں ميں واقع ہوئی گوناگوں ازدواج کی رودادیں یہاں تک عصر اسلام ميں رونما ہوئے حوادث و اخبار جيسے : روداد سقيفہ ، مرتدین ، جنگ جمل ، صفيں ،
حادثہ کربلا ،خروج مختار ، توابين اور ان سے پہلے اور ان کے بعد رونما ہونے والے واقعات ۔
____________________