عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے17%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25244 / ڈاؤنلوڈ: 4519
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

مؤلف:
اردو

مثال کے طور پر مغيرة بن سعيد کی تشریح ميں کشی ، یونس سے نقل کرتا ہے کہ ہشام بن حکم کہتا تھا :

ميں نے امام صادق عليہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے تھے : مغيرہ بن سعيد عملی طور پر بعض جھوٹے مطالب کو ميرے والد سے نسبت دیتا تھا اور انهيں انکے اصحاب کی روایتوں ميں قرار دیتا تھا تا کہ ان کے مضمون کو شيعوں ميں منتشر کریں ۔

یونس کہتا ہے : ميں عراق ميں داخل ہوا اور وہاں پر امام باقر عليہ السلام کے بہت سے اصحاب کو دیکھا ۔ اور ان سے کئی احادیث سنی اور ميں نے ان کی کتابوں کی نسخہ براداری کی ۔ اس کے بعد اپنے نسخوں کو حضرت امام رضا عليہ السلام کی خدمت ميں پيش کيا امام عليہ السلام نے اصحاب امام صادق عليہ السلام کی کتابوں سے نسخہ برداری کی گئی بہت سے روایتوں کو اعتبار سے گرادیا

نتيجہ:

اس قسم کی روایتيں صحيح ہوں یا غلط ، البتہ یہ حقيقت واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ غلط اورجعلی روایتيں متون کی کتابوں ميں جيسے رجال کشی وغيرہ ميں داخل ہوئی ہيں کيونکہ اگر یہ روایتيں صحيح ہوں تو ایسی کتابوں ميں غلط روایتوں کی موجودگی کی خبر دیتی ہيں اور اگر غلط ہوں تو ، وہ خود جعلی اور غلط روایتيں ہيں جو“ رجال کشی ’ ميں داخل ہوئی ہيں اور کشی نے غلطی سے صحيح ہونے کے گمان کے باوجود اپنی کتاب ميں نقل کيا ہے پس دونوں صورتوں ميں ان روایتوں کی موجودگی ،جنہيں ہم نے یہاں پر رجال کشی سے نقل کيا ہے ان کتابوں کے مطالب کے درميان پائی جاتی ہيں بے بنياد اور بے اساس ہيں اور اس پر قطعی دليل بھی موجود ہے۔

خلاصہ:

اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ: عبدا لله بن سبا اور مرتدوں کے احراق سے مربوط روایتيں ، جو ہماری بحث و گفتگو کا موضوع ہيں ، اسی قسم کی ہيں ،کہ شيعوں کے صحيح اور ابتدائی متون کے نابود ہونے کی وجہ سے گزشتہ صفحات ميں وضاحت کی گئی راہوں سے شيعوں کی کتابوں اور مآخذ ميں پہنچ گئی ہيں اور شيعہ علماء کی غيرفقہی روایتوں کے بارے ميں غفلت کی وجہ سے یہ کام انجام پایا ہے اور چونکہ ان مطالب کے بارے ميں بحث و تحقيق نہيں ہوئی ہے اس لئے صحيح روایتوں کو جعليات اور جھوٹ سے جدا نہيں کيا گيا ہے ، نتيجہ کے طور پر یہ جعلی اور جھوٹی روایتيں شيعہ کتابوں اور مآخذ ميں موجود ہيں اور صدیاں گزرنے کے بعد دوسری کتابوں ميں بھی منتقل ہوئی ہے۔

احراق مرتد کی داستان کے حقيقی پہلومن الجائز ان یحرق الامام جثة مرتد خشية ان یتخذ قبره وثنا امام کے لئے جائز ہے کہ مرتدکی لاش کو جلادیں تاکہ اس کے پيرو اس کی قبر کا احترام نہ کریں

مؤلف ہم نے گزشتہ فصلوں ميں احراق مرتد سے مربوط روایتوں کو بيان کيا اور ان پر بحث و تحقيق کی ۔ ان کے ضعيف اور بے بنياد ہونے کے ابعاد کو واضح کيا اور کہا کہ ان روایتوں کی بنياد مضبوط نہيں ہوسکتی ہے اور یہ صحيح اور حقيقی نہيں ہوسکتی ہيں بلکہ یہ ایک افسانہ ہے جو مختلف اغراض ومقاصد کی وجہ سے جعل کيا گيا ہے ۔

اگر کوئی صدر اسلام ميں جزیرة العرب کے اجتماعی حالات کا مطالعہ و تحقيق کرے ،

تو وہ واضح طورپر اس حقيقت کو محسوس کر لے گا کہ ، اسلام نے اس علاقہ ميں توحيد اور یکتاپرستی کيلئے جو خاص نفوذ اور طاقت پيدا کی تھی ، بت پرستی نيز ،کلی طورپر ہر نوع مخلوق کی پرستش اور غير خالق کے سامنے تسليم ہونے کے خلاف جو مسلسل کوشش کی تھی کہ جس کے نتيجہ ميں یہگنجائش و فرصت باقی نہ رہ گئی تھی کہ ایک انسان پھر سے بت پرست ہو جائے یا کسی بشر کی الوہيت کا معقتد بن جائے اجتماع نقيضين ، محال اور ناممکن جيسے ان خاص شرائط ميں اس روداد ( پرستش مخلوق ) کی کوئی فرد عاقل تائيد نہيں کرسکتا ہے ۔

ليکن یہ ممکن تھا کہ کوئی زندیق اور منکر خدا ہو اور اسے بصرہ سے اسلامی مملکت کےحدودميں لایا جائے ۔ کيوں کہ زندیق اور پروردگار کے منکر ، قبل از اسلام وجود ميں آئے تھے ،

اس قسم کے افراد بصرہ کے پڑوس کے علاقوں ميں جو بعد ميں مسلمانوں کے ذریعہ فتح ہوا موجود تھے ۔ اس بنا پر بعيد نہيں ہے کہ اميرالمومنين عليہ السلام کے زمانے ميں ان ميں سے کچھ لوگ بصرہ ميں داخل ہوکر مسلمانوں سے ان کے روابط کے نتيجہ ميں ان کے کفر و الحادکا پتہ چلا ہواور انهيں حضرت کی خدمت ميں لایا گيا ہوگا۔ اور حضرت علی عليہ السلام نے بھی ان کے خلاف اسلام کا حکم نافذ کرکے انهيں قتل کياہوگا ۔

پھر بھی جيسا کہ بعض زیر بحث روایتوں ميں آیا ہے ممکن ہے ایک شخص عيسائی اسلام کو قبول کرے اس کے بعد دوبارہ عيسائيت کی طرف پلٹ جائے اور اسلام سے خارج ہوجائے اور اسے علی عليہ السلام کے حضور لایا جائے اور حضرت عليہ السلام اس کے خلاف اسلام کا حکم نافذ فرمائيں ۔

جی ہاں ، جو کچھ اوپر بيان ہوا وہ سب صحيح ہوسکتا ہے ليکن حضرت علی عليہ السلام کے توسط سے انهيں نذر آتش کرنا اور جلانا صحيح اور واقعی نہيں ہوسکتا ہے یہ ایک روشن ضمير اور آگاہ محقق کيلئے قابل قبول نہيں ہوسکتا ہے کيونکہ قضيہ کے مذہبی پہلو سے قطع نظر ہرگز اميرالمؤمنين عليہ السلام جيسے نامدار کے لئے ان شرائط و حالات ميں ا یک انسان کو زندہ جلانا مطابقت نہيں رکھتا ہے خاص کر جبکہ اس سے پہلے ابوبکر نے “ فجائيہ سلمی ” کو نذر آتش کرکے مسلمانوں کی مخالفت مول لی تھی اور خود خليفہ نے بھی اس عمل پر اظہار ندامت اور پشيمانی کی تھی ۔ ان حالات کے پيش نظر معنی نہيں رکھتا ہے کہ اميرالمؤمنين ایک انسان یا کئی انسانوں کو نذر آتش کرکے عام مسلمانوں کی مخالفت مول ليں (جيسا کہ گزشتہ بعض روایتوں ميں آیا ہے) اس سلسلہ ميں اس حد تک قبول اور یقين کيا جاسکتا ہے کہ حضرت عليہ السلام ایک مرتد پر حد نافذ کرنے کے بعد ، اس احتمال اور ڈر سے کہ کہيں اس کے پيرو بت کے مانند اس کی قبر کی پوجا نہ کریں اور آنے والی نسلوں کيلئے فساد کا سبب نہ بنے، لہذا حضرت نے اسے جلا کر خاکستر کر دیاہو۔ یہ تھا ، زیر بحث داستان کے واقعی پہلوؤں کے بارے ميں ہمارے نظریہ و عقيدہ کا خلاصہ اور وہ تھے اس داستان کے افسانوی اور جھوٹے پہلو جو گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوئے اگر کوئی ہماری بيان کردہ بات پر مطمئن نہ ہو سکے اور اس داستان کے صحيح ہونے ميں اسی حد تک اکتفا کرے اور ان روایتوں کے مضمون کو ہمارے بيان کے علاوہ قبول کرے تو اسے چاہئے ہمارے دوش بہ دوش آئے اور کتاب کے اگلے حصہ ميں بھی ہمارے ساتھ سفر کرے اور ملل و نحل کی کتابوں ميں عبدالله بن سبا اور سبئيہ کے بارے ميں دانشوروں کا نظریہ سنے ۔ اس کے بعد اس موضوع کے بارے ميں بيشتر آگاہی کے ساتھ فيصلہ کرے اور ہم بھی آگے بڑهنے کيلئے اپنے پروردگا سے مدد چاہتے ہيں ۔

مباحث کا خلاصه اور نتيجه ان الزنادقة کانت تدس فی کتب الشيوخ

زندیقی، اساتذہ کی کتابوں ميں اپنی طرف سے حدیث اور روایتيں وارد کرتے تھے ۔ مؤلف علی نے کن لوگوں کو جلایا ؟

گزشتہ فصلوں ميں ہم نے عبدا لله ابن سبا اور مرتدافراد کے احراق کے بارے ميں روایتوں کی مکمل طور پر تحقيق اور جانچ پڑتال کی ان کے جعلی ہونے ، یہ روایتيں کيسے شيعوں کی کتابوں ميں داخل ہوئيں اور آج تک اپنے وجود کو حفظ کرسکيں اور یہ روایتيں کس حد تک صحيح ہوسکتی ہيں ، ایسے مسائل تھے جن پر ہم نے گزشتہ فصلوں ميں تحقيق کی اب ہم اس فصل ميں بھی گزشتہ مطالب کے خاتمہ اور نتيجہ گيری کے عنوان سے کہتے ہيں :

روایاتِ احراق اس امر کی حکایت کرتی ہيں کہ علی عليہ السلام نے ان کے بارے ميں غلو کرنے والوں اور ان کی الوہيت کے قائل افراد کو نذر آتش کيا ہے ليکن ان روایتوں کے مقابلے ميں ایک دوسری روایت بھی موجود ہے جو کہتی ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان لوگوں کو جلایا جو ملحد و زندیق تھے نہ غالی چنانچہ امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا گيا ہے : کچھ زنادقہ اور ملحدوں کو بصرہ سے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا علی عليہ السلام نے انهيں اسلام کی دعوت دی ، ليکن انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کي صحيح بخاری ميں آیا ہے کہ چند کافروں کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا اور حضرت نے انهيں جلادیا۔ ابن حجر فتح الباری ميں نقل کرتا ہے کہ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے زندیقيوں کو نذر آتش کر دیا یعنی مرتدوں کو احمد بن حنبل سے نقل کيا گيا ہے : بعض زندیقيوں کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس لایا گيا کہ ان کے ہمراہ کچھ کتابيں بھی تھيں امير المؤمنين عليہ السلام کے حکم سے آگ تيار کی گئی اس کے بعد انهيں ان کی کتابوں کے ہمراہ جلا دیا گيا ۔

اس عمل کا محرک کيا تھا ؟

اس قسم کی ضد و نقيض روایتيں سے یہ حقيقت معلوم ہوتی ہے کہ جلانے کی روداد ميں ایک حقيقت موجود تھی کہ حسبِ ذیل جيسی بعض روایتيں اس کی وضاحت کرتی ہيں ۔

امام صادق عليہ السلام نے اپنے والد امام باقر عليہ السلام اور انہوں نے امام سجاد عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخض امير المومنين عليہ السلام کے پاس لایا گيا جو پہلے عيسائی تھا بعد ميں مسلمان ہوا اس کے بعد دوبارہ عيسائيت کی طر ف چلا گيا۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ اعرضوا عليہ الهوان ثلاثة ایام- ( اسے تين دن مہلت دو اور اسے ذلت کی حالت ميں رکھو) اور ان تين دنوں کی مدت تک حضرت عليہ السلام اسے اپنے پاس سے کهانا بھيجتے تھے ، چوتھے دن زندان سے اپنے پاس بلایا اور اسے اسلام کی دعوت دی ، ليکن وہ اسلام قبول کرنے پر حاضر نہيں ہوا امام نے اسے ( مسجد کے صحن ميں قتل کر دیا۔ عيسائی جمع ہوئے اور حضرت سے درخواست کی کہ ایک لاکه درہم کے ساتھ مقتول کی لاش کو ان کے حوالہ کر دیں ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے قبول نہيں کيا اور حکم دیا کہ اس کے جسد کو نذر آتش کردیا جائے اس کے بعد فرمایا : ميں ہرگز ان کا اس امر ميں تعاون نہيں کروں گا کہ شيطان جنهيں حکم دیتا ہو ۔

ایک دوسری روایت ميں آیا ہے کہ حضرت عليہ السلام نے اس جملہ کا بھی اضافہ کيا :

ميں ان ميں سے نہيں ہوں جو کافر کو جسد بيچ ڈالتے ہيں ۔ بعض روایتوں ميں آیا ہے کہ امام عليہ السلام نے مرتدوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے اجساد کو نذر آتش کر دیا۔

بہر حال جو روایتيں ہم نے اوپر نقل کی ہيں ان سے امير المؤمنين عليہ السلام کے طریقہ کار کا راز ان افرادکے بے روح اجساد کو جلانے کی علت واضح ہوجاتی ہے اوریہ معلوم ہوتا ہے:

ا ولاً: جو لوگ علی عليہ السلام کے حکم سے جلائے گئے ہيں ، ملحد یا مرتد تھے ، نہ غلو کرنے والے افراد۔

ثانياً: ان کو قتل کرنے کے بعد انکے بے جان بدن جلائے گئے ہيں نہ قتل کرنے سے پہلے انهيں ارتدادکی حد کے طور پر جلایا گيا ہے ۔

ثالثا : علی عليہ السلام کے اس عمل کا محرک اس امر کو روکنا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ملحد و مرتد افرادکی قبریں ان کے حاميوں اور طرفداروں کی طرف سے مورد احترام قرار پائيں اور بصورت بت ان کی پوجا کی جائے ۔ پھر بھی ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ پھيلانے والوں نے ان روایتوں ميں تحریف کرکے انهيں افسانوں کی صورت ميں پيش کيا ہے کہ عقل جسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے ۔

دو متضاد قيافے عبد الله بن سباکے بارے ميں شيعہ کتابوں ميں نقل ہوئی روایتيں دو حصوں ميں تقسيم ہوتی ہيں عبدا لله بن سبا ان دو قسم کی روایتوں ميں دو مختلف قيافوں کی صورت ميں ظاہر ہوتا ہے : ایک جگہ پر ایک ایسے قيافہ ميں رونما ہوتا ہے کہ علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کر کے ان کی الوہيت اور خدائی کا قائل ہوا ہے اور دوسر ی جگہ پر ایک ایسے شخص کے قيافہ ميں ظاہر ہوا ہے جس نے پروردگار کے منزہ اور مقدس ہونے کے بارے ميں غلو کيا ہے ۔

اور خوارج کے مانند جو خود اس کے گمان ميں حریم قدس ربوبيت کے بارے ميں سزاوار نہيں ہے اس سے انکار کرتا ہے ۔

یہ دو قسم کی روایتيں ایک دوسرے کی متناقض اور مخالف ہيں اور ان کی ایک قسم دوسری قسم کو جھٹلاتی ہے ان روایتوں کی پہلی قسم صرف رجال کشی اور اس سے نقل کی گئی کتابوں ميں ملتی ہيں ہم نے گزشتہ صفحات ميں رجال کشی اور اس کتاب کی حيثيت کے بارے ميں علماء کی رائے اور ان کا عقيدہ نقل کيا ہے اب ہم عبد لله بن سبا کے بارے ميں اس کے ان دو متضاد قيافوں کے ساتھ اپنا نظریہ پيش کرتے ہيں :

عبد الله بن سبا کے بارے ميں ہمارا آخری نظریہ:

عبدا لله بن سبا قيافہ اول ميں :

اس سلسلہ ميں ہمارے نظریے اور عقيدے کا خلاصہ یہ ہے کہ اس قسم کا شخص یا قيافہ کبھی وجود نہيں رکھتا تھا ان روایتوں کے حصہ ميں ذکر ہوئے قيد و شرط و خصوصيات کے ساتھ عبد الله بن سبا نامی کسی شخص کی کوئی حقيقت نہيں ہے بلکہ مسموم افکار نے اس قسم کی شخصيت کو خلق کيا ہے اور مرموز و ظالم ہاتھوں نے اس افسانہ کو تاریخ اسلام ميں جعل کيا ہے اور بعدميں لوگوں نے نقل کرکے اسے پرورش و وسعت بخشی ہے یہاں تک اس نے ایک تاریخی حقيقت کی صورت اختيار کرلی ہے اور نا قابل انکار حقيقت کے روپ ميں منتشر ہوا ہے جس مؤلف نے بھی اس افسانہ کو اپنی کتاب ميں درج کيا ہے اس نے انهيں دو مآخذ یعنی افکار مسمو م اور عوام کے افواہ سے نقل کيا ہے۔

عبدلله ابن سبا قيافہ دوم ميں :

انشاء الله اگلی فصل ميں اس سلسلہ ميں حقيقت کے رخ سے پردہ اٹھا کر بيشتر وضاحت کریں گے

غاليوں کی احادیث کی تحقيق کا خلاصہ :

جو کچھ ہم نے کہا وہ ان احادیث ور روایتوں کے بارے ميں تھا جن ميں عبد الله بن سبا کا نام آیا ہے ليکن، وہ احادیث جو غاليوں کے بارے ميں ہيں اور ان ميں عبدا لله بن سبا کا نام نہيں ایا ہے ان ميں سے ایک رجال کشی ميں ہے اور وہ وہی آٹھویں حدیث ہے کہ کہتا ہے : امام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے کہ کئی غاليوں کو انکی خدمت ميں لایا گيا۔

اس روایت کے ضعف و جعلی ہونے ميں ا تنا ہی کافی ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم نے کہاکہ کسی رجال شناس ، حالات کی شرح لکھنے والے ، کسی مؤرخ و حدیث شناس نے اميرالمؤمنين کيلئے قبيلہ “عنزیہ ” کی “ ام عمرو” نامی بيوی نہيں ذکر کيا ہے تا کہ غاليوں کو اس وقت لایا جاتا جب حضرت اپنی اس بيوی کے پاس تھے !!

ان روایتوں ميں سے ایک اورر وایت ایک مرد سے نقل کی گئی ہے کہ ا س مرد کا نام ذکر نہيں ہوا ہے اور در حقيقت اس روایت کا راوی اور ناقل معلوم نہيں ہے تا کہ اس کے اعتبار یا عدم اعتبار اور صحيح یا غلط ہونے کے سلسلے ميں گفتگو کی جاسکے ۔ اس کے علاوہ خود یہ روایتيں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہيں اور ایک کا مضمون دوسرے کے مضمون کو ایسے جھٹلاتا ہے کہ تهوڑی سی توجہ اور دقت کرنے سے ان کے مضمون کا بے بنياد اور باطل ہونا واضح ہوجاتا ہے ۔

ان کے علاوہ ان روایتوں کا مجموعی مضمون ان روایتوں سے تناقض و اختلاف رکھتا ہے جو مرتد کی سز اوار حد قتل کو معين کرتی ہيں نہ ان کے جلانے اور نذر آتش کرنے کو ۔

اس سے بالاتر یہ ہے کہ اگر یہ روایتيں اور یہ تاریخی حوادث اس اہميت کے ساتھ حقيقت ہوتے تو مشہور و معروف مورخين سے کيسے مخفی رہ گئے ہيں اور انہوں نے ان کے بارے ميں کسی قسم کا اشارہ تک نہيں کيا ہے جبکہ ان سب نے ابوبکر کی طرف سے ‘ ‘

فجائيہ سلمی ” کو نذر آتش کرنے کے حکم کے بارے ميں نقل کيا ہے ۔

شيعوں کی کتابوں ميں ابن سبا اور غاليوں کی احادیث کی پيدائش کا خلاصہ جو کچھ ہم نے گزشتہ صفحات او ر سطروں ميں بيان کيا اس سے واضح اور قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عبد الله بن سبا اور غاليوں کے بارے ميں روایتيں جو ہمارے بحث و گفتگو کاموضوع تھيں ، کلی طور پر جعلی اور جھوٹی روایتيں ہيں کہ جو ہماری کتابوں ميں داخل ہوئی ہيں اور ہماری صحيح روایتوں سے ممزوج ہوچکی ہيں اور ان جھوٹی روایتوں کی پيدائش اور ان کے شيعوں کی کتابوں ميں وارد ہونے کے بارے ميں ہم نے اس سے پہلے اشارہ کيا ہے کہ غير متدین افراد نے اساتذہ اور شيخ کی کتابوں ميں جعلی رایتوں کو بعض اوقات مخلوط کيا ہے اور انهيں قابل اعتماد کتابوں کے ذریعہ اپنے چھوٹے اور بے بنياد مطالب کو لوگوں کے درميان منتشر کيا ہے اور دوسری جانب سے شيعہ علماء اور دانشوروں نے فقہ اور احکام کے علاوہ دیگر موضوعات سے مربوط روایتوں کی طرف خاص توجہ نہيں دی ہے اور اس قسم کی روایتوں کی بحث وتحقيق نہيں کی ہے اور دوسری طرف سے فتنوں اور بغاوتوں کی وجہ سے اور سيرت تاریخ ، تشریح اور علوم و فنون اور علمی آثار ميں عدم توجہ کی وجہ سے ان کے نابود ہونے کے نتيجہ ميں اصلی کتابوں کی جگہ ناقابل اعتماد مطالب آ گئے ہيں ۔

یہ تھا، رجال و احادیث کی کتابوں ميں عبدا لله بن سبا کا قيافہ اور اس کے بارے ميں روایتوں کا خلاصہ ، کتاب کے اگلے حصہ ميں ہم ادیان و عقائد (ملل و نحل) ميں اس کے قيافہ کا مشاہدہ کریں گے ۔

حصہ اول کے مآخذ

١۔ اختيار رجال کشی : (ص ١٠ ۶ ۔ ١٠٨ ) عبد الله بن سبا کے بارے ميں کشی کی پنجگانہ روایتيں ۔

٢۔ مصفی المقال : ترجمہ رجال کشی : ص ٣٧ ۵ ۔

٢٨٨ / ٣۔ حاشيہ الذریعہ : ۴

٣٨ ۵/ ۴ ۔ الذریعہ : ٣

٢ ۴ ٩ ۔ ٢ ۵ ١ باب نفی الغلو فی النبی و الائمہ / ۵ ۔ بحار الانوار : طبع کمپانی ٧

۴۵۶ ۔ باب حکم الغلاة و القدریہ / ۶ ۔ وسائل : ٣

٢ ۶۴ باب الرد علی الغلاة و القدریہ / ٧۔ مناقب : ١

٨۔ رجال نجاشی : ص ٢٨٨

٩۔ مصفی المقال : شرح حال حائری ١٠ ۔ رجال نجاشی : ٢٧٠

٢١٣ ، خصال، / ١١ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ : بطور مرسل از امير المؤمنين عليہ السلام ١ ۴

٣٢٢ حدیث ١٧١ ، وسائل نقل از من لا یحضرہ الفقيہ و تہذیب و / ص ۶ ٢٨ حدیث ۴ ٠٠ / تہذیب ٢

۵ ١١ / ١١٨ ، و حدائق ٨ / علل باب ٢٨ از ابواب تعقيب ۴ ٨١ وافی در باب فضل تعقيب ۵

۶ ٣ ۵ شيخ طوسی کی امالی کی نقل کے مطابق اور ابن / ١٢ ۔ بحار : طبع کمپانی ١٩

حجر نے بھی ‘ لسان الميزان ” ميں عبد الله بن سبا کے حالات کی تشریح ميں ،ميسب کی بات تک ( وہ کہتا ہے خدا و پيغمبر سے جھوٹ کی نسبت دیتا تھا ) اور بقيہ مطلب کو نا قص چھوڑا ہے ۔

١٣ ۔ غيبت نعمانی : ص ١ ۶ ٧ ۔ ١ ۶ ٨ باب ذکر جيش الغضب ١ ۴ ۔اختيار معرفة الرجال : ص ٣٠٧ ۔ ٣٠٨ حدیث ۵۵۶ اور ص ٧٢ پر حدیث ١٢٧ خلاصہ کے طور پر ۔

٢ ۵ ٩ ۔ ٢ ۶ ٠ حدیث ٢٣ باب مرتد ، من لا یحضرہ / ١ ۵ ۔ اختيار معرفة الرجال : ١٠٩ و کافی ٧

٢ ۵ ٠ باب نفی الغلو و حکم قتال کے باب / ٧٠ باب حد مرتد ، بحار ٧ / ٩٠ ، ووافی : ٩ / الفقيہ ٣

ميں رجال کشی ميں آیا ہے۔

٢ ۵۴ / ١٣٨ و استبصار ۴ / ١ و تہذیب ١ ٢ ۵ ٧ اور حدیث ٨ / ١ ۶ ۔ کافی : باب حد المرتد ، ٧

٢ ۴ ٩ ، و مستدرک وسائل / ٢ ۶۵ ، و بحار طبع کمپانی : ٧ / ١٧ ۔ مناقب ابن شہر آشوب : ١

٢ ۴۴ ۔ /٣

١ ۴ ٠ حدیث ١٣ باب حد مرتد / ٩١ ، تہذیب ١٠ / ١٨ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ : ٣

٢٠٢ / ١٩ ۔ تاریخ اسلام ، ذہبی : ٢

٢٢١ حدیث اول / ٢١٧ و ٢٨٢ حدیث ٢ ۵۵ ٢ و سنن ابی داؤد ٢ / ٢٠ ۔ مسند احمد حنبل : ١

از باب “حکم من ارتداد” کتاب حدود ٢٣٢ / ٢١ ۔ سيرة اعلام النبلاء ذہبی ، ابن عباس کی شرح ميں ٣

٢ ۴ ٣ باب حکم الغلاة و القدریہ اس نے کتاب عيون المعجزات سے / ٢٢ ۔ صحيح ترمذی : ۶

نقل کيا ہے ۔

٢ ۴۴ فضائل ابن شاذان سے نقل کيا ہے ۔ / ٢ ۴ ۔ مستدرک وسائل الشيعہ : ٣

١١ ۵ ، کتاب الجہاد باب لایعذب بعذاب الله / ٢٩ ۵ ، صحيح بخاری : ٢ / ٢ ۵ ۔ بدایة المجتہد : ٢

٨ ۴ ٨ حدیث ٢ ۵ ٣ ۵ باب / ١٣٠ از صحيح بخاری باب استتابة المرتد ین و سنن ابن ماجہ : ٢ / و ١ ۴

٢ ۴ ٢ ميں بھی آیا ہے ۔ / المرتد من دینہ از کتاب حدود و سنن ترمذی : ۶

١٣٨ ، حدیث ١٧ باب /١٠، ١٣٨ / ٢ ۵ ٨ حدیث ١٧ باب حد مرتد ، تہذیب ١٠ / ٢ ۶ ۔ کافی : ٧

٢ ۵۵ حدیث ۶ ۔ / حد مرتد و استبصار : ۴

۵ ۴ ٨ / ٢٧ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ : ٣

١٣٧ حدیث ۴/ باب حد مرتد، / ٢ ۵۶ حدیث ٣/ باب حد مرتد ، تہذیب : ١٠ / ٢٨ ۔ کافی : ٧

١٩ ابواب حد مرتد۔ / ٢ ۵ ٣ حدیث ۴ باب حد مرتد ، وافی ٧٠ / استبصار ۴

٢ ۵۴ و / ١٣٩ ، حدیث ١٠ استبصار : ۴ / ٢ ۵۶ باب حد المرتد ، تہذیب ١٠ / ٢٩ ۔ کافی ٧

٧٠ / وافی ٩

١٣٩ ، حدیث ١١ / ٩١ ، تہذیب ١٠ / ٣٠ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ ٣

٧٠ / باب حد مرتد ، وافی ٩

٧٠ / ٢ ۵ ٨ ح ۵ باب حد مرتد و صفحہ ٢ ۵ ٧ ح ۶ خلاصہ کے طور پر ، وافی ٩ / ٣١ ۔ کافی : ٧

٣٢ صفين طبع مصر : ۴ ٣

١٢ ۶ سے نقل کرکے۔ / ٣٣ ۔ التعریف : تاليف وحيد بہبانی ( وفات ١٢ ۵ ٩ ) الذریعہ ٢

٣ ۴ ۔ معجم البلدان : تحت لغت “ بين السورین ” یہ کتاب شيخ طوسی کے ہاتھ ميں تھی، انهوں نے فتنہ و حادثہ کے بعد نجف مہاجرت کی اور وہاں کے حوزہ علميہ کا ادارہ کيا جو آج تک برقرار ہے ۔

٣ ۵ ۔ یہ دو روایتيں اختيار معرفة الرجال ص ٢٢ ۴ ۔ ٢٢ ۵ نمبر ۴ ٠١ و ۴ ٠٢ ميں آئی ہيں ۔

٢ ۴ ٣ نے دعائم الاسلام و جعفریات سے نقل کيا ہے ۔ / ٣ ۶ ۔ مستد ک وسائل الشيعہ : ٣

١٣٠ باب حکم المرتد ، کتاب استتابة المرتدین ۔ / ٣٧ ۔ صحيح بخاری : ۴

۴ ٩١ حدیث لا یعذب بعذاب الله کی شرح ميں ۔ / ٣٨ ۔ فتح الباری : ۶

٣٢٢ پر درج / ٢٨٢ نمبر ٢ ۵۵ ١ مسند احمد ١ / ۴ ٩٢ ، مسند احمد ١ / ٣٩ ۔ فتح الباری : ۶

ہوا ہے ۔

٢ ۴ ٣ حدیث ٢ باب “ ان المرتد یستتاب بثلاثة ایام ” جعفریات سے / ۴ ٠ ۔ مستد رک وسائل : ٣

نقل کيا ہے ۔

٢ ۴ ٣ حدیث ۴/ باب “حکم الزندیق و الناصب ” دعائم الاسلام / ۴ ١ ۔ مستد رک وسائل : ٣

سے نقل کيا ہے ۔

۴ ٢ ۔ ہماری کتاب“ خمسون ماة صحابی مختلق ” فصل “ زندقہ ” ميں مقدماتی اور ابتدائی بحث کی طرف رجوع کيا جائے ۔

دوسری فصل

عبدا لله بن سبا ، ملل اور فرق کی نشاندہی کرنے والی کتابوں ميں عبدالله بن سبا اور ابن سودا ملل و فرق کی کتابوں ميں ۔

ملل و فرق کی کتابوں ميں سبائيوں کے گروہ۔

ا بن سبا، ابن سودا اور سبيہ کے بارے ميں بغدادی کا بيان۔

ا بن سبا و سبيئہ کے بارے ميں شہرستانی اور اسکے تابعين کا بيان ۔

عبدا لله بن سبا کے بارے ميں ادیان و عقاید کے علماء کا نظریہ ۔

عبدالله بن سبا کے بارے ميں ہمارا نظریہ۔

نسناس کا افسانہ۔

ن سناس کی پيدائش اور اس کے معنی کے بارے ميں نظریات ۔

مباحث کا خلاصہ و نظریہ ۔

ا س حصہ کے مآخذ۔

عبد الله بن سبا و ابن سودا ملل اور فرق کی نشاندهی کرنے والی کتابوں ميں

یرسلون الکلام علی عواهنه

ادیان کی بيوگرافی پر مشتمل کتابيں لکھنے والے سخن کی لگام قلم کے حوالے کرتے ہيں اور کسی قيد و شرط کے پابند نہيں ہيں ۔

مؤلف

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد کے حصہ “ پيدائش عبدا لله بن سبا ” ميں مؤرخين کے نظر ميں عبدالله بن سبا کے افسانہ کا ایک خلاصہ پيش کيا گزشتہ حصہ ميں بھی ان اخبار و روایتوں کو بيان کرکے بحث و تحقيق کی جن ميں عبدا لله بن سباکا نام آیا ہے ۔

ہم نے اس فصل ميں جو کچھ ملل و فرق کی نشاندہی کرنے والی کتابوں ميں عبدا لله بن سبا ، ابن سوداء اور سبيہ کے بارے ميں بيان کرنے کے بعد ان مطالب کو گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران اسلامی کتابوں اورمآخذ ميں نقل ہوئے ان کے مشابہ افسانوں سے تطبيق و موازنہ کيا ہے اس کے بعد گزشتہ کئی صدیوں کے دوران ان تين الفاظ کے معنی و مفہوم ميں ایجاد شدہ تغير و تبدیليوں کے بارے ميں بھی ایک بحث و تحقيق کرکے اس فصل کو اختتام تک پہنچایا ہے۔

علمائے ادیان کا بيان سعد بن عبد الله اشعری قمی ( وفات ٣٠١ هء) اپنی کتاب “ المقالات و الفرق ” ميں عبد الله بن سبا کے بارے ميں کہتا ہے:

”وہ پہلا شخص ہے جس نے کھلم کھلا ابوبکر ، عمر ، عثمان ، اور اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم پر تنقيد کی اور ان کے خلاف زبان کهولی اور ان سے بيزاری کا اظہار کيا اس نے دعوی کيا کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نے اسے یہ طریقہ کار اپنانے کا حکم دیا اور کہا کہ اس راہ ميں کسی قسم کی سہل انگاری اور تقيہ سے کام نہ لے اور سستی نہ دکھائے جب یہ خبر علی ابن ابيطالب عليہ السلام کو پہنچی تو انہوں نے حکم دیا کہ اسے پکڑ

کر ان کے پاس حاضر کيا جائے جب اسے ان کے پاس لایا گيا تو روداد کے بارے ميں اس سے سوال کيا اور اس کے اپنائے گئے طریقہ کار اور دعوی کے بارے ميں ا س سے وضاحت طلب کی ،جب ابن سبا نے اپنے کئے ہوئے اعمال کا اعتراف کيا تو امير المؤمنين عليہ السلام نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ اس وقت ہر طرف سے حضرت علی عليہ السلام پراعتراض کی صدائيں بلند ہوئيں کہ اے امير المؤمنين! کيا اس شخص کو قتل کر رہے ہيں جو لوگوں کو آپ اور آپ کے خاندان کے ساتھ محبت اور آپ کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کی دعوت دیتا ہے ؟ جس کی وجہ سے حضرت علی عليہ السلام نے اس کے قتل سے چشم پوشی کی اور اسے مدائن ميں جلا وطن کر دیا“

اس کے بعد اشعری کہتا ہے:

” اور بعض مؤرخيں نے نقل کيا ہے کہ عبد الله بن سبا ایک یہودی تھا اس کے بعد اس نے اسلام قبول کيا اور علی عليہ السلام کے دوستداروں ميں شامل ہو گيا وہ اپنے یہودی ہونے کے دوران حضرت موسی کے وصی “ یوشع بن نون ” کے بارے ميں شدید اور سخت عقيدہ رکھتا تھا(۱)

ا شعری اپنی بات کو یوں جاری رکھتا ہے : “ جب علی عليہ السلام کی وفات کی خبر مدائن ميں عبدالله بن سبا اور اس کے ساتھيوں نے سنی تو انہوں نے مخبر سے مخاطب ہوکر کہا؛ اے دشمن خدا ! تم جھوٹ بولتے ہو کہ علی عليہ السلام وفات کر گئے۔ خدا کی قسم اگر ان کی کهوپڑی کو ایک تھيلی ميں رکھ کر ہمارے پاس لے آؤا ور ستر ( ٧٠ ) آدمی عادل ان کی موت کی شہادت دیں تب بھی ہم تيری بات کی تصدیق نہيں کریں گے کيونکہ ہم جانتے ہيں کہ علی عليہ السلام نہيں مریں گے نہ ہی مارے جائيں گے۔ جی ہاں ! وہ اس وقت تک نہيں مریں گے جب تک کہ تمام عرب اور پوری دنيا پر حکومت نہ کریں ”۔

____________________

١۔ اشعری سے وہی اشعری مقصود ہے کہ مؤرخين نے سيف بن عمر ( وفات ١٧٠ ه ) سے ليا ہے اور ہم نے اس مطلب کو اسی کتاب کی جلد اول کے اوائل ميں تحقيق کی ہے ۔

عبدا لله بن سبا اور اس کے ماننے والے فوراً کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے مرکبوں کو علی کے گھر کے باہر کھڑا کر دیا اس کے بعد حضرت کے گھر کے دروازے پر ایسے کھڑے رہے جيسیان کے زندہ ہونے پر اطمينان رکھتے ہوں اور ان کے حضور حاضر ہونے والے ہوں اور اس کے بعد داخل ہونے کی اجازت طلب کی ۔ علی عليہ السلام کے اصحاب اور اولاد ميں سے جو اس گھر ميں موجود تھے ، نے ان افرادکے جواب ميں کہا؛ سبحان الله ! کيا تم لوگ نہيں جانتے ہو کہ اميرالمؤمنين مارے گئے ہيں ؟ انہوں نے کہا: نہيں بلکہ ہم یقين رکھتے ہيں کہ وہ مارے نہيں جآئیں گے اور طبيعی موت بھی نہيں مریں گے یہاں تک وہ اپنی منطق و دليل سے تمام عربوں کو متاثر کر کے اپنی تلوار اور تازیانوں سے ان پر مسلط ہوں گے وہ اس وقت ہماری گفتگو کو سن رہے ہيں اور ہمارے دلوں کے راز اور گھروں کے اسرار سے واقف ہيں اور تاریکی ميں صيقل کی گئی تلوار کے مانند چمکتے ہيں “

اسکے بعد اشعری کہتا ہے : “ یہ ہے “ سبيئہ ” کا عقيدہ اور مذہب اور یہ ہے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں “حرثيہ ” کا عقيدہ “ حرثيہ ” عبد الله بن حرث کندی کے پيرو ہيں ۔ وہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں معتقد تھے کہ وہ کائنات کے خدا ہيں اپنی مخلوق سے ناراض ہو کر ان سے غائب ہو گئے ہيں اور مستقبل ميں ظہور کریں گے“

ميں اشعری کی اسی بات کی طرف / ابن ابی الحدید بھی شرح نہج البلاغہ ( ١ ۴ ٢ ۵ )

اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :

”اصحاب مقالات نے نقل کيا ہے کہ“

اشعری نے اپنی کتاب ميں “ سبيئہ ” کے بارے ميں ا س طرح داستان سرائی کی ہے ،

قبل اس کے کہ اپنی بات کے حق ميں کوئی دليل پيش کرے اور اپنے افسانہ کيلئے کسی منبع و مآخذ کا ذکر کرے۔

نجاشی ، اشعری کے حالات کی تشریح ميں کہتا ہے:

”اس نے اہل سنت سے کثرت سے منقولات اور روایتيں اخذ کی ہيں اور روایات اور احادیث کو حاصل کرنے کی غرص سے اس نے سفر کئے ہيں اور اہل سنت کے بزرگوں سے ملاقاتيں کی ہيں “

بہر حال اشعری نے اپنی کتاب مقالات ميں ا بن سبا کے بارے ميں جو کچھ درج کيا ہے اسکے بارے ميں کوئی مآخذ و دليل پيش نہيں کيا ہے۔

اسی طرح مختلف اقوام و ملل کے - ملل ونحل کے عقائد و ادیان کے بارے ميں کتاب لکھنے والوں کی عادت و روش یہ رہی ہے کہ وہ اپنی گفتگو کی باگ ڈور کو آزاد چھوڑ کر قلم کے حوالے کر دیتے ہيں اور اپنی بات کے سلسلہ ميں سند و مآخذ کے بارے ميں کسی قسم کی ذمہ داری کا احساس نہيں کرتے ہيں مآخذ اور دليل کے لحاظ سے اپنے آپ کو کسی قيد و شرط کا پابند نہيں سمجھتے ہيں اپنے آپ کو کسی بھی منطق و قواعد کا پابند نہيں جانتے ہيں چنانچہ ملاحظہ فرمایا : اشعری نے ایک اور گروہ کو “ حربيہ ” یا “ حرثيہ ” کے نام سے عبدا لله بن حرث کندی سے منسوب کرکے گروہ سبئيہ ميں اضافہ کيا ہے ۔

ابن حزم عبدالله بن حرث کے بارے ميں کہتا ہے:

حارثيہ جو رافضيوں کا ایک گروہ ہے اس کے افراد اس سے منسوب ہيں وہ ایک غالی و کافر شخص تھا اس نے اپنے ماننے والوں کے ليے دن را ت کے دوران پندرہ رکعت کی سترہ نمازیں واجب قرار دی تھيں اس کے بعد توبہ کرکے اس نے خوارج کے عقيدہ “ صفریہ ” کو اختيار کيا ”۔

نوبختی ( وفات ٣١٠ هء) نے بھی اپنی کتاب “ فرق الشيعہ ” ميں اشعری کی اسی بات کو درج کيا ہے کہ جسے ہم نے پہلے نقل کيا ۔ البتہ اشعری کے بيان کے آخری دو حصے ذکر نہيں کئے ہيں جس ميں وہ کہتا ہے: امام کی رحلت کی خبر کی تحقيق کيلئے سبائی ان کے گھر کے دروازے پر گئے ” اس کے علاوہ اپنی بات کا مآخذ جو کہ “ مقالات اشعری ” ہے ، کا بھی ذکر نہيں کيا ہے ۔

علی ابن اسماعيل ( وفات ٣٣٠ هء) اپنی کتاب “ مقالات اسلاميين ” ميں کہتا ہے:

” سبائيوں کا گروہ ، عبدالله بن سبا کے ماننے والے ہيں کہ ان کے عقيدہ کے مطابق علی ابن ابيطالب عليہ السلام فوت نہيں ہوئے ہيں ، اور وہ قيامت سے پہلے دوبارہ دنيا ميں واپس آئيں گے اور ظلم و بے انصافی سے پُر، کرہ ارض کو اس طرح ، عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے لبریز ہو گی اور نقل کيا گيا ہے کہ ابن سبا نے علی ابن ابيطالب عليہ السلام سے کہا: تم وہی ہو (انت انت )

علی بن اسماعيل اضافہ کرتا ہے کہ سبائيوں کا گروہ ، رجعت کا معتقد ہے اور “ سيد حميری ” سے نقل ہوا ہے کہ اس نے اپنا معروف شعر اسی عقيدہ کے مطابق کہاہے ، جہاں پر کہتا ہے:

الی یوم یؤوب الناس فيه

الی دنياهم قبل الحساب

ميں اس دن کے انتظار ميں ہوں کہ لوگ اس دن پھر سے ان دنيا ميں واپس آئيں گے ،

اس سے قبل کہ حساب اور قيامت کا دن آئے اس کے بعد کہتا ہے :

”یہ لوگ جب رعد و برق کی آواز سنتے ہيں تو کہتے ہيں :

السلام عليک یا امير المؤمنين “!

ملل و نحل کی کتابوں ميں سبائيوں کے فرقے

وهولاء کلهم احزاب الکفر

سبائی، سب اہل کفر کے گروہوں ميں سے ہيں ۔

علمائے ادیان ا بو الحسن ملطی ( وفات ٣٧٧ هء) اپنی کتاب “ التنبہ و الرد ” کی فصل “ رافضی اور ان کے عقاید ” ميں کہتا ہے:

” سبائيوں اور رافضيوں کا پہلا گروہ ، غلو کرنے والا اور انتہا پسند گروہ ہے ،بعض اوقات انتہا پسند رافضی سبائيوں کے علاوہ بھی ہوتے ہيں انتہا پسند اور غلو کرنے والے سبائی ،عبدا لله بن سباکے پيرو ہيں کہ انہوں نے علی عليہ السلام سے کہا: تم وہی ہو ! علی عليہ السلام نے ان کے جواب ميں فرمایا: ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا: وہی خدا اور پروردگار ! علی عليہ السلام نے ان سے توبہ کا مطالبہ کيا ليکن انہوں نے توبہ قبول کرنے سے انکار کيا ۔ اس کے بعد حضرت علی عليہ السلام نے ایک بڑی آگ آمادہ کی اور انهيں اس ميں ڈال کر جلا دیا ،

اور ان کو جلاتے ہوئے یہ رجز پڑهتے تھے :

لما رایت الامر امراً منکراً

اججت ناری و دعوت قنبراً

جب ميں کسی برے کام کا مشاہدہ کرتا تو آگ کو جلا کر قنبر کو بلاتا تھا تا آخر ابيات ابو الحسن ملطی اس کے بعدکہتا ہے :

اس گروہ کے آج تک کچھ لوگ باقی بچے ہيں کہ یہ لوگ زیادہ تر قرآن مجيد کی اس آیت کی تلاوت کرتے ہيں :

( اِنَّ علَينَا جَمعَْهُ وَ قُر نَْاٰهُ فَاِذَا قَرَانَْاهُ فَاتَّبِع قُر نَْاٰهُ ) (۱)

یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑهوائيں ، پھر جب ہم پڑهادیں تو آپ اس کی تلاوت کو دهرائيں ۔

اور یہ گروہ معتقد ہے کہ علی ان ابيطالب عليہ السلام نہيں مرے ہيں اور انهيں موت نہيں آسکتی ہے اور وہ ہميشہ زندہ ہيں اور کہتے ہيں : جب علی عليہ السلام کی رحلت کی خبر ان کو ملی تو انہوں نے کہا: علی عليہ السلام نہيں مریں گے، اگر اس کے مغز کو ستر تھيلوں ميں بھی ہمارے پاس لاؤ گے ، تب بھی ہم ان کی موت کی تصدیق نہيں کریں گے ! جب ان کی بات کو حسن ابن علی عليہ السلام کے پاس نقل کيا گيا تو انہوں نے کہا: اگر ہمارے والد نہيں مرے ہيں تو ہم نے کيوں ان کی وراثت تقسيم کی اور ان کی بيویوں نے کيوں شادی کی ؟

____________________

١۔ سورہ قيامت : آیت ١٧ و ١٨ ۔

پہلی مجلس

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ )

سورہ نحل، آیت ۱۶

اور علامات معین کردیں اور لوگ ستاروں سےبھی راستے دریافت کرلیتے ہیں۔

امام علی نقی (ع)زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَكُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ كُنْهَكُمْ؛

اے ہمارے پیشوا، آپ کی تعریف کا احصاء نہیں ہو سکتا اور میں مدح میں آپ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ۔

شیعوں کا سب اہم وظیفہ امام معصوم کی پہچان ہےاور یہ صرف شیعوں کا وظیفہ نہیں بلکہ تمام انسانوں کا وظیفہ ہے۔ ا س روایت کےمطابق جو رسول اکرم (ص) سےمنقول ہے، جسےتمام شیعہ اور سنی علماء نےبیان کیا، جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔ رسول اکر م (ص) فرماتے ہیں:

مَنْ مَاتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة؛

بحارالانوار جلد ۳۲ ، صفحہ ۳۳۱ ینابیع المودہ، جلد ۳ صفحہ ۳۷۲

اگر امام کی معرفت نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

جاہلیت کا زمانہ، خدا کےانکار، نبوت اور رسالت کی نفی، وحشی گری، بت پرستی، بے حیائی اور کفرکا زمانہ تھا ۔

زیارت جامعہ، امام کی معرفت کا درس

اس کےباوجود کہ امام علی نقی(ع) نے ۳۴ چونتیس سال امامت کی، امام کا زمانہ انتہائی ظلم و جورکا زمانہ شمار ہوتا ہے۔ امام کےدور میں بنی عباس کےخبیث ترین خلیفہ متوکل عباسی کی حکومت تھی، جس نےامام کو لوگوں سےدور کرنےکیلئے سامرا جلا وطن کیا اور وہاں امام کا محاصرہ کیا، لیکن امام ہادی ؑنےکمال امامت کےساتھ وہ کام کیا کہ ہر شیعہ کو حیرانی اور پریشانی سےنجات بخشی۔

اگر امامت کےموضوع پر کوئی آیت اور روایت نہ ہوتی تو بھی زیارت جامعہ امام کی معرفت کیلئے کافی تھی ۔ امام علی نقی (ع) اس زیارت کےذریعے قیامت تک کےانسانوں کو امام کی معرفت کا درس دیتے ہیں ۔ مرحوم سید عبد الہادی شیرازی

(نجف اشرف کےعظیم مرجع تقلید)اس بارے میں فرماتے ہیں: زیارت جامعہ، امام کا کلام ہونےکی وجہ سےہمارے افکار کی تصحیح کرتی ہے۔

زیارت جامعہ کی سند

ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی فضائل ائمہ معصومین(ع) والی روایتوں کی سند کےبارے میں تحقیق کی جاتی ہےکہ اس روایت کی سند ضعیف ہےیا قوی؟ اس لحاظ سےہم چاہتے ہیں کہ پہلے زیارت جامعہ کی سند پر تحقیق پیش کریں تاکہ اس کی صحت کا اطمنان پیدا ہو جا ئے اور کوئی بھی اس پر اعتراض نہ کرسکے۔ اس تحقیق میں ہم زیارت جامعہ پر چند زاویوں سےنظر ڈالتے ہیں۔

۱ ۔ قوت متن

کچھ روایتوں پہ نظر پڑتے ہی ان کی صحت اور صداقت کا یقین ہو جاتا ہے؛ کیونکہ ان کا متن ہی ان کےسچے اور کلام امام ہونےکی تصدیق کرتا ہےان میں سےایک زیارت جامعہ ہے۔

ہمارے استاد مرحوم شیخ عبدالکریم حامد فرماتے تھے: بعض لوگ کہتےہیں: مناجات خمسہ عشر کی سند ضعیف ہے۔ تم سےجو بھی یہ بات کہےاس کو جواب میں کہو: تمہاری عقل ضعیف ہے۔ معصوم کےعلاوہ کوئی بھی اللہ تعالی سےاس قسم کی مناجات نہیں کر سکتا کیونکہ معصوم کےعلاوہ کوئی ایسی معرفت نہیں رکھتا ۔

جیسےکچھ لوگ حدیث کساکےبارے میں بحث کرتے ہیں کہ: اسکی صحیح سند موجود ہےیا نہیں؟

جنگ کےزمانےمیں آیت اللہ بہاء الدین اپنےچند دوستوں کےساتھ درود (ایران کا ایک شہر )میں تھے۔ ان کےساتھ ہمارے استاد حاج آقا سوشتری بھی موجودتھے، جو اس وقت شہر (درود) کےامام جمعہ تھے۔

انہوں نےآیت اللہ بھاء الدین سےسوال کیا: دشمن اس جگہ پرمسلسل بمباری کر رہا ہےآپ کیا حکم دیتے ہیں؟

آیت اللہ بھاء الدین نےجواب دیا: میری ماں زہرا(س) نےمجھ سےکہا ہےکہ لوگوں سےکہو:حدیث کساء پڑھیں۔

لوگوں نےحدیث کسا پڑھنا شروع کردی اس دن کےبعد درود میں کبھی بم کا دھماکہ نہیں ہوا ۔

وہ فرماتے ہیں: اس وقت ہم نےدشمن کےایک پائلٹ کو پکڑا۔ اس سےبات چیت کی میں نےخود وہ بات چیت سنی۔ اس سےپوچھا گیا: تمہاری ڈیوٹی کہاں تھی ؟

پائلٹ نےجواب میں کہا: میری ڈیوٹی درود میں تھی۔ جب میں یہاں آیا میں نےشہر( درود)کو دیکھا۔

لیکن جب نزدیک آیا تو مجھے ایک دریا نظر آیا، اس لئے میں نےاس پر بمباری نہیں کی اور کہیں اور بمباری کی۔

جب ہم نےتحقیق کی توپتاچلاحدیث کساپڑھنےکےبعدیہ واقعہ پیش آیاتھا۔اس دلیل کےہوتےہوئےکوئی اسکی صحت میں شک کرسکتا ہے؟ کیا یہ حدیث من بلغ (کافی، ج ۲ ، ص ۸۷) سےکمتر ہےجس پر مستحبات اور مکروہات پر عمل کیا جاتا ہے؟

اسی طرح کچھ لوگ سوال کرتے ہیں جمکران کی سند ہےیا نہیں ؟حالانکہ بہت زیادہ افرادنےوہاں امام زمانہ(ع) کی زیارت کی ہےاور وہاں سےاپنی مرادیں پائی ہیں۔ ہم اپنےدوستوں کےساتھ آیت اللہ بھاء الدین کی خدمت میں تھے، جب جمکران کی بات آئی۔

تو انہوں نےفرمایا: کتنی ہی بار ایسا ہوا ہےکہ جب ہم جمکران کےقریب جاتے ہیں تو ہماری حالت تبدیل ہو جاتی ہے۔

احادیث من بلغ سےمراد وہ احادیث ہیں جن کا مضمون یہ ہےکہ اگر تمہارے پاس کوئی روایت پہنچے جس میں کسی عمل کا ثواب ذکر ہوا ہو اور تم اطاعت کرتے ہوئے اس پر عمل کرع تو اتنا ثواب تمہیں ملے گا اگرچہ وہ روایت ضعیف ہو، البتہ اس حدیث پر زیادہ تر عمل مستحبات اور مکروہات میں کیا جاتا ہے۔

۲ ۔ معتبر کتابوں میں نقل ہونا

زیارت جامعہ کو اکثر بزرگوں نےاپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ شیعوں کےپاس قرآن کےبعد چار کتابیں معتبر ہیں جن کو کتب اربعہ کہا جاتا ہے۔ جو کہ شیعوں کی بنیادی کتابیں ہیں۔ان میں سےایک کتاب، اصول اور فروع کافی ہے۔ جس کو شیخ کلینی نےلکھا ہے۔ دوسری کتاب من لا یحضر ہ الفقیہ ہےجس کو رئیس المحدثین شیخ صدوق نےلکھا ہے، ج کہ و امام زمانہ (ع)کی دعا سےپیدا ہوئے۔ بعض بزرگان فرماتے ہیں : امام زمانہ(ع) بعض اوقات ان کی قبر پر جاتے ہیں۔تیسری اور چوتھی کتاب تہذیب اور استبصار ہے۔جس کےمصنف شیخ طوسی ہیں ۔

شیخ طوسی تہذیب الاحکام، جلد ۶ ، صفحہ ۹۵ میں اورشیخ صدوق من لا یحضرہ الفقیہ، جلد ۲ ، صفحہ ۶۰۹ میں زیارات کےباب میں اس دعا کو ذکر کرتے ہیں مخصوصا شیخ صدوق اپنی کتاب کی ابتدا میں فرماتے ہیں: میں اس کتاب میں نقل کردہ تمام روایات کی صحت اورصدق کااعتقادرکھتا ہوں اور اسکی صحت اور صدق کا فتوی دیتا ہوں۔

آپ لوگو ں نےملاحظہ کیا کہ تین معتبر کتابوں کےدو بزرگوار عالم اپنی کتابوں میں اس زیارت کو نقل کرتے ہیں ۔

ائمہ معصومین(ع)کی تائید

دوسرےعلماءبھی جیسےعلامہ محمدتقی مجلسی اپنی کتابوں میں زیارت جامعہ کی تصدیق کرتےہیں اورروضہ المتقین کی پانچویں جلدمیں فرماتے ہیں: مجھے خواب میں امام رضا (ع) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ میں نےدیکھا کہ: جب مجھے امام رضا(ع) کی زیارت نصیب ہوئی تو میں زیارت جامعہ پڑھ رہاتھا۔

امام نےفرمایا : احسنت، احسنت یعنی بہت خوب۔ امام (ع)نےزیارت جامعہ کی تعریف کی اور زیارت جامعہ پڑھنےپرمیری بھی تعریف کی۔

روضة المتقین، جلد ۵ ، صفحہ ۴۵۱

اس کےبعد وہ فرماتے ہیں : جب میں امام علی(ع) کی خدمت میں تہذیب اور ریاضت میں مشغول تھا۔ مجھے رواق عمرا ن میں ایک مکاشفہ ہوا۔ میں نےدیکھا کہ: میں سامرا میں امام زمانہ (ع)کی خدمت میں کھڑے ہو کر زیارت جامعہ کی تلاوت میں مشغول ہوں۔ جب زیارت تمام ہوئی امام زمانہ (ع)نےارشاد فرمایا : نعمت الزیارۃ۔ یہ بہترین زیارت ہے۔

اس مکاشفہ کےذکر کےبعد علامہ مجلسی فرماتے ہیں:

والحاصل لا شک لی انه من انشائات امام الهادي(ع)

مجھے یقین ہےکہ زیارت جامعہ، امام علی نقی (ع) سےوارد ہوئی ہے۔ ہم ہمیشہ حرم اور غیر حرم میں جب کسی معصوم (ع) کی زیارت پڑھتے ہیں تو زیارت جامعہ کی تلاوت کرتے ہیں۔

روضة المتقین، جلد ۵ ، صفحہ ۴۵۲

علامہ نےاپنی کتاب روضہ المتقین کی پانچویں جلدمیں زیارت جامعہ کی سندکےسلسلےمیں بحث کی ہےاوراسےقابل اعتمادقراردیاہے۔

علامہ مجلسی کےکلام میں زیارت جامعہ کی خصوصیات

مرحوم علامہ محمدباقرمجلسی، علامہ محمدتقی مجلسی کےفرزند اپنےنورانی کتاب بحارالانوارمیں فرماتے ہیں:

إنما بسطت الكلام في شرح تلك الزيارة قليلا و إن لم أستوف حقها حذرا من الإطالة لأنها أصح الزيارات سندا و أعمها موردا و أفصحها لفظا و أبلغها معنى و أعلاها شأنا ۔

بحارالانوار جلد۹۹، صفحہ ۱۴۴

ہم نےزیارت جامعہ کو کچھ تفصیل سےبیان کیا ہے۔ اگر چہ اس کاحق ادا نہیں کر سکےکیونکہ زیارت جامعہ سند کےلحاظ سےصحیح ترین زیارت ہے، اور لفظ کےلحاظ سےفصیح ترین زیارت ہے، معنی کےلحاظ سےموثر ترین زیارت ہےاور اس زیارت کی شان بہت بلند ہے۔

جب میں نےزیارتوں کو نقل کرنا چاہا اور بات زیارت جامعہ تک پہنچی تو میں نےمندرجہ ذیل دلائل کی وجہ سےاس کو شرح کی ہے:

الف) زیارت جامعہ شیعوں کی زیارتوں میں سےصحیح ترین زیارت ہے۔ زیارت امین اللہ بھی صحیح ہےاور زیارت امام رضا اور حضرت معصومہ بھی صحیح ہے۔ لیکن صحیح ترین اور سند کےلحاظ سےمحکم ترین زیارت، زیارت جامعہ ہے۔

ب) زیارت جامعہ کےعلاوہ تمام زیارتیں کسی ایک مقام اور کسی ایک امام یا چند مقام اور چند اماموں کےساتھ مخصوص ہیں۔ صرف زیارت جامعہ ہی ہےجو تمام اماموں اورمعصومین کی زیارت میں پڑھی جا سکتی ہے۔

ج )عبارت کےلحاظ سےزیارت جامعہ بہت ہی بلند، فصیح اور خوبصورت ہےکوئی کلام اتنا بلند، فصیح اور خوبصورت نہیں ہو سکتا ۔

د)تمام زیارتیں بلاغت کا نمونہ ہیں۔ لیکن ان زیارتوں میں کچھ عبارتیں بہت مشکل ہیں جو ہر ایک کو اچھی طرح سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ لیکن زیارت جامعہ معنی کےلحاظ سےاور مطلب کو پہنچانےمیں عجیب تاثیر رکھتی ہے۔ بلاغت کا بے نظیر نمونہ ہےجس کو ہر ایک آسانی سےسمجھ سکتا ہے۔

ھ)دوسری زیارتوں میں ائمہ معصومین (ع) کےچند ایک فضائل اور منصب ذکر ہوئے ہیں۔ لیکن زیارت جامعہ وہ تنہا زیارت ہےجس میں امامت اور ولایت کےتمام مسائل تفصیل سےبیان ہوئے ہیں ۔

علامہ مجلسی فرماتے ہیں: ان پانچ اسباب کی بنیاد پر میں نےچاہا کہ زیارت جامعہ پر ایک مختصر شرح لکھوں ۔

حکایت سیدرشتی

جن بزرگوں نےزیارت جامعہ کو نقل کیا ہےان میں سےایک مرحوم شیخ عباس قمی ہیں۔ وہ اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں زیارت جامعہ کےباب میں سیدرشتی کی حکایت کو ذکرکرتے ہوئے فرماتےہیں:مرحوم سیدرشتی اپنےقافلے سےبچھڑ گیا اوربہت پیچھے رہ گیا تو ان کو امام زمانہ(ع)کی زیارت کاشرف نصیب ہوا، امام زمانہ(ع)نےان کوتین چیزوں کی سفارش کی۔

امام زمانہ (ع) فرماتے ہیں: تم لوگ نافلہ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ نافلہ، نافلہ، نافلہ ۔تم لوگ زیارت عاشورا کیوں نہیں پڑھتے؟ عاشورا، عاشورا، عاشورا۔ تم لوگ زیارت جامعہ کیوں نہیں پڑھتے؟ جامعہ، جامعہ، جامعہ

اس حکایت میں ایک اہم نکتہ یہ ہےکہ : بھلا گم ہونےکا زیارت جامعہ سےکیا واسطہ؟ واسطہ یہ ہےکہ: اگر ظاہری چیز گم ہو جائےامام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اگرمعنوی چیز گم ہو جائے!معنوی مسئلےمیں حیران اور پریشان ہوں، اگرتمہیں پتا نہ چلے کہ اللہ تعالی سےکیسےرابطہ رکھیں تو بھی امام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اب ہرچیز کیلئے امام زمانہ(ع)کو پکاریں لیکن امام زمانہ(ع) کی معرفت حاصل کرنےکیلئےکیا کریں؟امام زمانہ کی معرفت کیلئےزیارت جامعہ پڑھیں۔جس کی معرفت میں اضافہ ہوگاوہی امام کویا اباصالح المہدی کہہ کر بلائےگااورامام بھی اس کی فریادکوآئےگااوراس مسئلہ حل کرےگا ۔

ہمارےایک استادعقائدپر درس دےرہےتھے۔ میں بھی پہلےتوحید، امامت اورولایت کےبارےمیں وسوسےکاشکارتھا۔ میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی خدمت میں گیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوں نےارشاد فرمایا: تمہیں چاہیے لگاتار زیارت جامعہ کی تلاوت کرو۔ میں نےاس بات پرعمل کیا نہ صرف وسوسےدور ہوگئے بلکہ مجھےکچھ معنوی مقامات بھی نصیب ہوئے ۔

یہ تمام چیزیں مقدمہ تھیں تاکہ ہم اصل بحث میں داخل ہوسکیں ۔

اللہ تعالی سےدعا ہےکہ ہمیں توفیق نصیب ہو کہ ہمارا روزبروز دعائوں اورزیارتوں سےتعلق گہراہوتا جائے۔انشاء اللہ

دوسری مجلس

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَفِيهَا اسْمُهُ )

سورہ نور، آیت ۳۶ ۔

یہ چراغ ان گھروں میں ہےجن کےبارے میں خدا کاحکم ہےکہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اوران میں اس کےنام کا ذکر کیا جائے۔

امام علی نقی(ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

كَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِكُمْ

میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں؟!

زیارت جامعہ کی نظر میں امامت کےمسائل،

اس بحث میں داخل ہونےسےپہلےہم کچھ نکات بیان کرنا چاہتے ہیں۔

پہلا نکتہ : فضائل کامجموعہ

زیارت جامعہ حقیقت میں ائمہ معصومین(ع)کےفضائل کا مجموعہ ہے۔جس میں ائمہ معصومین(ع) کےفضائل کی سیکڑوں حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔ اگرکوئی ائمہ معصومین(ع)کےفضائل جانناچاہتاہے، اسےسالوں لگ جائیں گےہزاروں کتاب ڈھونڈنےپڑیں گے۔ لیکن امام علی نقی(ع)نےان تمام فضائل کو جمع کردیاہے۔

اب کہا جاسکتا ہے: زیارت جامعہ حقیقت میں ائمہ معصومین(ع) کےفضائل کی وہ کتاب ہےجو لاکھوں صفحات پرمشتمل ہے۔ تمام شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود آئمہ معصومین(ع) کےفضائل ایک طرف اور زیارت جامعہ دوسری طرف، ان تمام کی برابری کرتی ہےبلکہ ان تمام پر برتری رکھتی ہے۔

دوسرا نکتہ: تکبیرکا فلسفہ

مرحوم محمدتقی مجلسی، مرحوم محمد باقرمجلسی، مرحوم شیخ عباس قمی اور بہت سارے بزرگوں نےفرمایا ہے: زیارت جامعہ پڑھنےکا طریقہ یہ ہےکہ: حرم میں داخل ہو جائیں اور زیارت جامعہ پڑھنےسےپہلے تیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں۔ پھر ضریح کی طرف چند قدم آگے بڑھیں، پھر تیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں۔ پھر ضریع کی طرف چند قدم آگے بڑہیں پھر چالیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں اور ضریح کےبلکل نزدیک ہو جائیں۔ جب ۱۰۰ سو تکبیریں پوری ہو جائیں تو زیارت جامعہ کی تلاوت شروع کریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ: ان تکبیرات کا فلسفہ کیا ہے؟ ان تکبیروں کا فلسفہ یہ ہےکہ: جب انسان زیارت جامعہ کی تلاوت کرے تو ممکن ہےاس کو غلو کی بو آئے اور وہ سوچنےلگے کہ یہ تو خدائی صفات ہیں۔ کیونکہ بعض ضعیف عقیدہ افرادکو زیارت جامعہ غلو لگتی ہے۔ اس لئے پہلے سو بار، اللہ اکبر کہہ کر اعلان کریں کہ اللہ تعالی اس سےبھی بلندہے۔

مجھ حقیرکی نظرمیں، ان تکبیروں کاایک اورفلسفہ بھی ہوسکتا ہے۔وہ یہ کہ: زیارت جامعہ کی تعلیم امام علی نقی(ع)نےدی ہے۔اگر اس میں غلو ہوتا تو امام تعلیم نہ فرماتے۔بلکہ ائمہ معصومین(ع)کا مقام اس سےبھی بلند ہے۔امام علی نقی(ع) کا منظورہمیں سمجھانا تھا، اس لئے زیارت جامعہ میں اسان انداز اپنایا۔ اگر ہماری عقلیں سمجھ سکتیں تو ائمہ معصومین(ع) کی معرفت اس سےکہیں زیادہ بلند ہے۔ امام علی نقی(ع) اس سےبہتر انداز میں بیا ن کرتے۔

زیارت جامعہ میں تدبر

ہم جب کسی امام (ع) کی خدمت میں زیارت جامعہ کی تلاوت کرتےہیں تو اس نا آشنا کی طرح ہوتے ہیں جو کسی کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ اس لئے ہم سےکہا جاتا ہےہمیں مخاطب کر کےکلام کرو۔اس لئے ہم کہتے ہیں:

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

یہ تمام سلام، اہلبیت(ع) کو مخاطب کر کےہیں۔ کیونکہ ہم پہلے مہمان کی طرح ہیں۔ اس لئے اہلبیت (ع)نہیں چاہتے کہ کو ئی مہمان نا امید ہو۔ اس لئے ہمیں مخاطبانہ کلام کی اجازت دیتے ہیں! پھر جب انسان متوجہ ہوتا ہےکہ وہ کس سےکلام کر رہا ہے؟ تو ارشاد ہوتا ہے: اب دوبارہ پلٹ جاؤ اور غائبانہ طور پر ہم سےکلام کرو اور کہو:

السَّلامُ عَلَى أَئِمَّةِ الْهُدَى وَ مَصَابِيحِ الدُّجَى وَ

سلام ہو ہدایت کےائمہ پر اور تاریکیوں کےچراغ پر!

اس حصے میں زائر، ائمہ معصومین(ع)سےغائبانہ کلام کرتا ہےتو اہلبیت(ع) فرماتے ہیں: ہم سےغائبانہ کلام کرچکےاور ہمیں کسی حد تک پہچان لیا۔ اس لئے ہم سےدوبارہ مخاطبانہ کلام کرو۔ زائر کہتا ہے:

أَشْهَدُأَنَّكُمُ الْأَئِمَّةُ الرَّاشِدُونَ الْمَهْدِيُّونَ

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سب ائمہ ہادی اور مہدی ہیں۔

یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ:آپ ائمہ معصومین، آپ اہلبیت (ع) ہدایت کرنےوالے ہیں!

غائبانہ کلام سےمخاطبانہ کلام کی طرف آنےکو بلاغت میں التفات کہتے ہیں۔ زیارت جامعہ میں یہ انداز کس لئے ہے؟ اس انداز کا مطلب یہ سمجھانا ہےکہ حقیقیت میں اہلبیت(ع) اس سےبھی بہت زیادہ بلند ہیں۔ یہ زیارت جامعہ میں بیان شدہ صفتیں تو کچھ بھی نہیں۔ اہلبیت (ع) ان صفتوں کےعلاوہ بھی ہزاروں عظیم صفتوں کےمالک ہیں ۔ آپ لوگ صرف یہ نہ سمجھیں کہ: اللہ تعالی نےاہلبیت(ع) کو پیدا کیا اور فقط یہ فضائل اور کمالات ان کےنام کردئے۔ نہیں! اہلبیت(ع) کی ایک اور صفت بھی ہے۔ جو زیارت جامعہ میں بیان نہیں ہوئی۔ وہ یہ ہےکہ: اہلبیت (ع) کا وہ بلند مقام ہےکہ: جس کو سمجھنا ممکن نہیں۔ کیونکہ ہماری عقلیں اتنی سمجھ نہیں رکھتیں۔ اس لئے اس نورانی مقام کو بیان نہیں کیا گیا۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں: اہلبیت(ع) کےمقام کو ایک لطیف نکتے کےذریعے سمجھنےکی کوشش کی جاسکتی ہے۔ وہ نکتہ یہ ہےکہ: اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرمایا ہے:

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

سورہ ذاریات، آیت ۵۶۔

اورمیں نےجنات اورانسانوں کوصرف اپنی عبادت کےلئے پیداکیاہے۔

عبادت کی بہت فضیلت ہے۔ لیکن معرفت کا درجہ اس سےبھی بلند ہے۔ تو اللہ تعالی نےیہ کیوں نہیں فرمایا کہ: انسانوں اور جنوں کو معرفت کیلئے پیدا کیا گیا ہے؟ وہ بزرگ فرماتے ہیں: عبادت بندے کا کام ہےاور معرفت اللہ تعالی کا کام ہے۔ معرفت بندے کےبس کی بات نہیں کہ اللہ تعالی مقصد خلقت، معرفت کو قرار دے۔ معرفت ایسی بلند چیز ہےجس کو انسان خود حاصل نہیں کر سکتا بلکہ معرفت دینا اللہ تعالی کا کام ہے۔ اس لئے ارشاد ہوتا ہے:

أَنَّ الْمَعْرِفَةَ مِنْ صُنْعِ اللَّه‏

کافی، ج ۲ ، ص ۲۱۲ ۔

معرفت دینا اللہ تعالی کاکام ہے۔ اس لئے اللہ تعالی انسانوں اور جنوں کی خلقت کیلئے عبادت کو مقصد قرار دیتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ دینا اللھ تعالی کا کام ہے۔ اس لئے ہم پڑھتے ہیں:

اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ رَسُولَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِ

(حوالہ:مفاتیح الجنان، غیبت کےدورمیں امام زمانہ (ع)کی دعاکاایک حصہ) ۔

پروردگارامجھےاپنی معرفت عطا فرما۔اگرتومجھےاپنی معرفت عطانہ کرےگاتومیں تیرےرسول کی معرفت حاصل نہ کرپاوںگا۔

پروردگارا مجھے اپنےرسول کی معرفت عطافرما؛ کیونکہ اگر تو نےمجھے اپنےرسول کی معرفت عطا نہ کی تو میں تیری حجت کی معرفت حاصل نہ کر پاؤں گا۔ پروردگارا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو نےمجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ کی تو میں اپنےدین سےگمراہ ہوجاؤں گا۔

تیسرا نکتہ: بے انتہا فضائل

ائمہ معصومین (ع)کی زندگی، ائمہ معصومین(ع)کی خصوصیتیں، ائمہ معصومین(ع)کےاخلاق حسنہ کابیان ایک زاویہ یادس زاویوں یاسوزاویوں میں محدودنہیں ہو سکتا۔ہماری تعبیرکےمطابق ائمہ معصومین(ع) اللہ تعالی کی نسبت متناہی اورمحدود ہیں۔لیکن ہم انسانوں کی نسبت نا متناہی اورغیر محدود ہیں۔ اب جب ائمہ معصومین(ع) غیر متناہی صفتوں کےمالک ہیں تو کیسےممکن ہےہم ائمہ معصومین(ع) کےبارے میں مکمل گفتگو کر سکیں !

زیارت جامعہ میں بھی دو مقامات پر اس نکتے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

پہلا مقام: اس عبارت میں

مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَكُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ كُنْهَكُمْ وَ مِنَ الْوَصْفِ قَدْرَكُمْ

دوسرا مقام:

كَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِكُمْ

میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں۔

یہ سچی بات ہےکہ ہم زیارت جامعہ کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں لیکن ائمہ معصومین (ع) کی ذات کو اور خصوصیات کو کو ئی شمار نہیں کر سکتا ۔ رسول اکرم(ص) امام علی(ع) کےبارے میں فرماتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ لِأَخِي علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَضَائِلَ لَا تُحْصَى كَثْرَةً ؛

بحار، ج ۲۶ ، ص ۲۲۲۹ ۔

اللہ تعالی نےمیرے بھائی علی کیلئے اتنی فضیلتیں رکھی ہیں کہ جن کی تعداد کو کوئی شمار نہیں کر سکتا۔

بحارالانوار، ج ۲۶ ، و ۲۲۹ ۔

ممکن ہےیہاں کوئی اعتراض کرے کہ : حضرت علی (ع) کی فضیلتیں ایک فرد شمار نہ کر سکتا ہو یہ ممکن ہےلیکن کیسےممکن ہےتمام مخلوقات مل کر بھی حضرت علی (ع) کی فضیلتیں شمار نہ کر سکیں؟

رسول اکرم(ص) ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

لَوْ أَنَّ الرِّيَاضَ أَقْلَامٌ وَ الْبَحْرَ مِدَادٌ وَ الْجِنَّ حُسَّابٌ وَ الْإِنْسَ كُتَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛

بحار، ج ۳۸ ، ص ۱۹۷ ۔

اگرتمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا سیاہی بن جائیں اورتمام جن شمارکرنےبیٹھیں اورتمام انسان لکھنےبیٹھیں تو بھی امام علی (ع) کےفضائل نہیں لکھ سکتے۔

بحار، ج ۳۸ ، ص ۱۹۷ ۔

امام صادق (ع) ایک روایت میں فرماتے ہیں :

لَا يَقْدِرُ الْخَلَائِقُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل‏؛

تمام مخلوقات جس طرح اللہ تعالی کاحق ہےاللہ تعالی کی ایسی معرفت حاصل نہیں کرسکتیں۔

بحار، ج ۶۴ ، ص ۶۵ ۔

جیسا کہ یہ قرآنی آیت بھی اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے:

( وَ ما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِه‏؛ )

سورہ انعام، آیت ۲۱ ۔

اس کےبعد امام (ع) نےارشاد فرمایا :

فَكَمَا لَا يَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَكَذَلِكَ لَا يَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ ؛

جس طرح تمام مخلوقات اللہ تعالی کی معرفت حاصل نہیں کرسکتیں اسی طرح تمام مخلوقات رسول اکرم(ص) کی صفتوں کو شمار نہیں کر سکتیں اور رسول اکرم(ص) کی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں۔

اس کےبعد امام (ع) نےفرمایا : جس طرح تمام مخلوقات رسول اکرم(ص) کی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں اسی طرح ائمہ معصومیں (ع) کی بھی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح ایک حقیقی مومن کی معرفت بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس لئے اللہ تعالی نےارشاد فرمایا ہے:

( وَ ما أُوتيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَليلا )

سورہ اسرا، آیت ۸۵ ۔

یعنی اللہ تعالی کےبارے میں، امامت اور ائمہ معصومین (ع) کی فضیلتوں کےبارے میں تمہارا علم بہت کم ہے۔

چوتھا نکتہ: ائمہ معصومین (ع)کی توصیف سےانسان کی عاجزی

اگر ہم ائمہ معصومین (ع) کی چند صفتیں جانتے بھی ہیں تو بھی اس طرح نہیں جانتے جیسےجاننےکا حق ہےیعنی ائمہ معصومین (ع)کی بےشمارصفتیں ہیں اورہرصفت کےبےشمارپہلو ہیں۔

امام رضا (ع) اپنےعظیم الشان خطبہ میں ۔ جو انہوں نےامامت کےبارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں :

ضَلَّتِ الْعُقُولُ وَ تَاهَتِ الْحُلُومُ وَ حَارَتِ الْأَلْبَابُ وَ حَسَرَتِ الْعُيُونُ وَ تَصَاغَرَتِ الْعُظَمَاءُ وَ تَحَيَّرَتِ الْحُكَمَاءُ وَ تَقَاصَرَتِ الْحُلَمَاءُ وَ حَصِرَتِ الْخُطَبَاءُ وَ جَهِلَتِ الْأَلِبَّاءُ وَ كَلَّتِ الشُّعَرَاءُ وَ عَجَزَتِ الْأُدَبَاءُ وَ عَيِيَتِ الْبُلَغَاءُ عَنْ وَصْفِ شَأْنٍ مِنْ شَأْنِهِ أَوْ فَضِيلَةٍ مِنْ فَضَائِلِه‏؛

کافی، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ۔

لوگوں کی عقلیں گمراہ ہو گئیں ہیں، فہم اور ادراک سرگشتہ اور پریشان ہیں، عقہل حیران ہیں، آنکھیں ادراک سےقاصر ہیں، عظیم المرتبت لوگ اس امر میں حقیر ثابت ہوئے، حکماء حیران ہو گئے، ذی عقل چکرا گئے، خطیب لوگ عاجز ہو گئے، عقول پر جہالت کا پردہ پڑ گیا، شعرا تھک کر رہ گئے، اہل ادب عاجز ہوگئے، صاحبان بلاغت عاجز آگئے، امام کی کسی ایک شان کو بیان نہ کر سکےاور اس کی ایک فضیلت کی تعریف نہ کر سکے۔

یعنی اگر کائنات کی تمام عقلین اتحاد کریں، تمام علماء اور دانشمند مل بیٹھیں، تمام تاریخ دان اور لکھنےوالے جمع ہوں اور ائمہ معصومین (ع) کی کسی ایک صفت کو کماحقہ بیان کرنےکی کوشش کریں تو اس ایک صفت کو بھی کما حقہ بیان نہیں کر سکتے۔

کافی، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ۔

مثال کےطور پر زیارت جامعہ میں ائمہ معصومین (ع) کی ایک صفت خزان العلم بیان ہوئی ہے۔ کیاہم اپنی عقل، فکر اور دانش کی بنیاد پر ائمہ معصومین (ع) کےعلم کو جان سکتے ہیں؟ کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) کےعلم کی حد کیا ہے؟

اگر کوئی تاجر اپنا پورا کاروبار کسی کےحوالے کرنا چاہےتو ضروری ہےکہ سامنےوالابھی اس کاروبار سےواقف ہوتاکہ اس کاروبار کو مناسب طریقے سےچلا سکے۔ یا اگر کسی کےحوالے پورا ملک کرنا ہو تو ضروری کہ وہ جانتا ہو کہ اس ملک میں کیا ہےاوراس ملک کو کیسےچلایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالی نےاپنےعلم کا خزانچی اہلبیت کو قرار دیا ہےلیکن اللہ تعالی کا علم، قدرت اور صفتیں غیر محدود ہیں :

لَيْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ وَ لَا نَعْتٌ مَوْجُود

نہج البلاغہ، خطبہ اول۔

اس کی ذات کیلئے نہ کوئی معین حد ہےاور نہ توصیفی کلمات۔

اس بنا پر کوئی کیسےجان سکتا ہےکہ ائمہ معصومین (ع) کا علم کتنا ہے؟ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) اللہ تعالی کےعلم کےخزانچی ہیں اس بنا پر ائمہ معصومین (ع) کا علم بھی غیر محدود ہوا۔

ابن عباس فرماتے ہیں : میں ایک رات امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں تھا امیرالمومنین (ع) سورج کےغروب ہونےسےسورج کےطلوع ہونےتک الحمد للہ کی الف کےبارے میں بتاتے رہےلیکن میں زیادہ مطالب کو فراموش کر چکا ہوں اور مجھے یاد نہیں رہےاور آخر میں ارشاد فرمایا : اے ابن عباس! اگر میں چاہوں تو سورہ حمد کی تفسیر میں اتنا بیان کروں کہ ستر اونٹ بھی اس وزن کو نہ اٹھا سکیں۔

بحار، ج ۴۰ ، ص ۱۵۷ ۔

اللہ تعالی سےدعاءہےکہ اہلبیت علیہم السلام کےمتعلق ہماری معرفت میں روزبروزاضافہ فرمائےانشاءاللہ۔

تیسری مجلس

اہلبیت نبوت

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا )

سورہ حشر، آیت ۷ ۔

اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسےلے لو اور جس چیز سےمنع کردے اس سےرک جاؤ۔

امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

ہماراموضوع زیارت جامعہ کی نظرمیں ائمہ معصومین (ع)کامقام ہےہم اپنی بحث کی ابتدا میں مقام امامت اورائمہ معصومین(ع)کا مقام نبوت اورانبیاءسےمقایسہ کریں گے ۔

زیارت جامعہ کا سب سےپہلا جملہ یہ ہے:

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

یہاں اہلبیت نبوت کہا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النبی

اس جملےسےسمجھ میں آتاہےکہ رسول اکرم(ص)کےدوگھرہیں: ایک ظاہری اورمادی گھردوسراباطنی، روحانی اورمعنوی گھر،ظاہری اورنسبی لحاظ سےتو بحث کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں حضرت زہرا(ع)اورائمہ معصومین(ع)، رسول اکرم(ص) کےنسبی فرزند ہیں۔

رسول اکرم(ص) کےدوسرے گھر سےمراد مقام نبوت اور مقام خاتمیت ہےکہ جس گھر کا سامان اللہ تعالی کےنام اور صفتیں ہیں یعنی نبوت کا گھر اللہ تعالی کی قدرت مطلقہ، حیات مطلقہ اور اللہ تعالی کی ملکوتی اور جبروتی صفتوں سےبنایا گیا ہے۔ ایک بزرگ نےاس بارے میں بہترین تعبیر استعمال کی ہےوہ فرماتے ہیں : نبوت کےگھر کےدو، دروازے ہیں ایک دروازہ عالم وحدت، عالم توحید اور اللہ تعالی کی طرف کھلتا ہےاور دوسرا دروازہ عالم کثرت اور عالم خلق کی طرف کھلا ہو ا ہے۔ رسول اکرم(ص) عالم توحید سےعلم، رحمت، حیات، اور تمام کمالات لیتے ہیں اور دوسرے دروازے سےرسول اکرم(ص) وہ علم، رحمت، حیات، اور تمام کمالات، پوری مخلوق کےحوالے کرتے ہیں یہاں تک کہ انبیاء اور فرشتوں کو بھی فیض آپ کےدروازے سےملتا ہے۔

شرح زیارت جامعہ فخر المحققین، شیخ الاسلام شیرازی، ج ۱ ، ص ۲۶ ۔

مثال کےطورپرہمارےپاس بجلی کا ایک آلہ ہےجسےہم فیوزکہتے ہیں اسکاکام یہ ہےکہ وہ آگےسےبجلی لیتاہےاورگھرکےتمام بجلی والےسامان کوجیسےلائٹیں وغیرہ سب کو ان کےحساب اورظرفیت جتنی بجلی دیتا ہے۔ اسی طرح رسول اکرم(ص) بھی اللہ تعالی سےبرکتوں اور رحمتوں کو لیتےہیں اورہرانسان اورہرموجود کواس کی ظرفیت کےلحاظ سےدیتے ہیں۔

قرآن میں بھی اس کی مثال موجود ہےجو گذشتہ مثال سےبھی بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )

سورہ آل عمران، آیہ ۱۰۳ ۔

اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سےپکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو ۔

یعنی قرآن نےحضرت علی(ع) اور ائمہ معصومین(ع) کو ایک رسی سےتشبیہ دی ہے۔

تفسیر صافی، ج ۱ ، ص ۳۶۵ ۔

اب سوال یہ پیداہوتاہےکہ قرآن نےحضرت علی(ع)اورائمہ معصومین(ع)کورسی سےتشبیہ کیوں دی ہے؟ہم اس سوال کےچند جواب دیتے ہیں :

پہلا:

کیونکہ رسی اوپر سےنیچے کی طرف لٹکتی ہے۔ اللہ تعالی بھی یہی سمجھانا چاہتا ہےکہ جیسےہم نےقرآن کو اوپر سےتمہاری طرف نازل کیا ہےاسی طرح اہلبیت(ع) کوبھی عالم بالا اور عالم معنی سےتمہاری ہدایت کیلئے تمہاری طرف بھیجا ہے۔

دسرا:

رسی کےدو، سرے ہوتے ہیں ایک سرا نیچے کی طرف اور دوسرا، سرا، اوپر کی طرف ہوتا ہےائمہ معصومین(ع) بھی اسی طرح دو شخصیتوں کےمالک ہیں : ایک شخصیت بشری اور دوسری شخصیت نور الاہی والی ہے۔ ائمہ معصومین(ع) رسی کےاوپر والے حصے کےذریعے، اپنی نور والی شخصیت کےذریعے اللہ تعالی سےمتصل ہیں اور عالم وحدت اور عالم توحیدسےرازونیاز کرتے ہیں۔ اور رسی کےدوسرے حصے کےذریعے، یعنی اپنی بشری شخصیت کےذریعے اس دنیا میں آئے ہیں تاکہ ہم دنیا تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچا سکیں اورہمیں دنیاکےکنویں، پستی اور تہ سےاللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچائیں۔

ائمہ معصومین(ع) میں رسول اکرم(ص)کی خوبیاں

اس بناپرکہ ائمہ معصومین(ع)، اہل بیت نبوت ہیں تووہ نہ صرف نبی کےگھروالےہیں بلکہ نبوت کےگھروالےبھی ہیں۔وہ تمام صفات جورسول اکرم(ص) کےباطنی اورمعنوی گھرمیں ہیں وہ اہل بیت بھی میں پائی جا تی ہیں۔اس مطلب کی تائیدکیلئےہم چندروایتوں کی طرف اشارہ کرتےہیں :

پہلی روایت:

امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

مَاجَاءَ بِهِ علی ع آخُذُ بِهِ وَمَا نَهَى عَنْهُ أَنْتَهِي عَنْهُ جَرَى لَهُ مِنَ الْفَضْلِ مَاجَرَى لِمُحَمَّدٍ ص وَ لِمُحَمَّدٍ ص الْفَضْلُ عَلَى جَمِيعِ مَنْ خَلَقَ اللَّهُ؛

جس کا حضرت علی(ع) حکم دیتے ہیں ہم انجام دیتے ہیں اور جس سےحضرت علی(ع) روکتے ہیں ہم رک جاتے ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ جتنےفضائل اور کمالات کےمالک رسول اکرم(ص) ہیں اتنےفضائل اور کمالات حضرت علی(ع) میں بھی پائے جاتے ہیں۔

اس بنا پر جب قرآن فرماتا ہے:

( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا )

سورہ حشر، آیت۷۔

اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسےلے لو اور جس چیز سےمنع کردے اس سےرک جاؤ۔

یعنی جو رسول اکرم(ص) دے دے اسےلے لو اور جس سےمنع کرے اس سےرک جاؤ یہ روایت اس کےساتھ لگائیں تو اس طرح ہو جائے گا :

وَمَا آتَاكُمُ علی فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا

سورہ حشر، آیت ۷ ۔

اورجوکچھ بھی حضرت علی(ع)تمہیں دیدے اسےلےلواورجس چیزسےمنع کردےاسسےرک جاؤ۔ کیونکہ رسول اکرم(ص)اورحضرت علی(ع)دونوں کےفضائل اورکمالات برابرہیں۔رسول اکرم(ص)تمام مخلوق سےافضل ہیں حضرت علی(ع)،رسول اکرم(ص)کےبرابر ہیں اس سےیہ نتیجہ نکلتا ہےکہ حضرت علی(ع) بھی رسول اکرم(ص) کی طرح تمام مخلوق سےافضل ہیں۔ روایت اس سےآگے بڑھتی ہےاور ارشاد ہوتا ہےکہ :

و کذلک یجری لائمة الهدی واحد بعد واحد؛

یہ رسول اکرم(ص)کی برابری والاحکم اورتمام مخلوق سےافضلیت والاحکم ایک کےبعددوسرےتمام ائمہ معصومین(ع)میں پایاجاتاہے۔

ہم یہاں پر ایک دلچسپ نکتہ بیان کرنےکیلئے ایک سوال پیش کرتےہیں : اللہ تعالی نےاپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں مباہلہ والی آیت

سورہ آل عمران، آیت ۶۱ ۔

میں جمع کا صیغہ کیوں ارشاد فرمایاہے؟ حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ۔ یا جب

( الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ )

سورہ مائدہ، آیت ۵۵ ۔

وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نےمسجد میں نماز کےاندر حالت رکوع میں حضرت علی(ع) کی سخاوت کا تذکرہ کیاہےتو جمع کا صیغہ کیوں ارشاد فرماتا ہے؟ حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کہ جب ان تمام آیتوں میں حضرت علی(ع) اکیلے مراد ہیں تو قرآن نےجمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے؟

زمحشری جو کہ اہلسنت کےعلماء میں سےہیں فرماتے ہیں : یہ آیت درس دینےکیلئے ہےتربیت کرنےکیلئے ہےکہ آپ لوگ بھی اس کام کوانجام دیں۔ لیکن یہ بات غلط ہےکیونکہ دوسرےافراد لاکھوں انگوٹھیاں بھی دیں تو بھی کوئی آیت نازل نہ ہوگی۔ یہ واقعہ مخصو ص ہےشان امامت کےساتھ کہ اللہ تعالی ان کےہر کام کیلئے آیت نازل کرتاہے۔

یا جہاں قرآن نےحضرت علی(ع) کےرسول اکرم(ص) کےبستر پر سونےکا اور اپنی جان کو رسول اکرم(ص) کی جان پر فدا کرنےکا تذکرہ کیا ہےتو جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیاہے؟

سورہ بقرہ، آیت ۲۰۷ ۔

حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہےکہ : ان آیتوں کےمصداق تمام ائمہ معصومین(ع) ہیں کیونکہ تمام ائمہ معصومین(ع) کی حققیت ایک ہےاللہ تعالی نےچاہا کہ تمام ائمہ معصومین(ع) کو ایک ساتھ بیان کرے ۔ اس لئے اللہ تعالی نےقرآن میں جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔

اب دوسرا سوال یہ وجود میں آتا ہےکیسےممکن ہےحضرت علی(ع) کےکام کو اللہ تعالی تمام ائمہ معصومین(ع) کی طرف نسبت دے؟ تو اس بات کا جواب خود قرآن مجید میں موجود ہےجہاں اللہ تعالی نےحضرت علی(ع) کو رسول اکرم(ص) کا نفس قرار دیا ہےاور حضرت علی(ع) کےفعل کو رسول اکرم(ص) کا فعل قرار دیاہے۔ اب جب ان کا نفس ایک ہےتو اس بات سےان کا اتحاد ثابت ہوگا اور ان کا فعل بھی ایک ہوگا اب یہ صرف حضرت علی(ع) کا فعل شمار نہ ہوگا بلکہ تمام ائمہ معصومین(ع) کا فعل ہوگا مثلا اگر حضرت علی (ع) نےانگو ٹھی دی تو ہم کہہ سکتے ہیں امام صادق(ع) نےنماز کی حالت رکوع میں انگوٹھی دی۔

ہم اس بات کی تائید کیلئے ایک مطلب کو بیان کرتے ہیں جو امام صادق(ع)نےارشاد فرمایا،جس کومفضل نےنقل کیا ہےجو بہت تفصیلی روایت ہےتقریبا تیس صفحوں کی روایت ہے۔ اس میں امام(ع) ارشاد فرماتے ہیں : جب امام زمانہ(ع) ظہور فرمائیں گے پہلے اور دوسرے کو ان کی قبروں سےباہر نکالیں گے اور ان کو تازیانےماریں گے۔

نوائب الدھور، ج ۳ ، ص ۱۳۲ ۔

دوسری طرف امام محمد تقی(ع) جب تین یاچار سال کےتھے تو انہوں نےارشاد فرمایا :اللہ تعالی کی قسم میں پہلے اور دوسرے کو ان کی قبروں سےنکال کر جلاو ٔں گا اور ان کی مٹی کو ہوا میں اڑاؤں گا۔

بیت الاحزان، ص ۱۲۴ ۔

اب ان دو روایتوں کو کیسےجمع کیا جائے؟ اب اس کام کو کون انجام دے گا امام زمانہ(ع) یا امام محمد تقی(ع) ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہےکہ : ان دونوں میں کوئی فرق نہیں امام زمانہ(ع) انجام دیں یا امام محمد تقی(ع) بات ایک ہی ہےکیونکہ ان کی حقیقت ایک ہےتوان کا فعل بھی ایک ہےاسلئے ایک کےکام کو دوسرے کا کام کہا جا سکتا ہے۔

دوسری روایت

امام علی(ع) فرماتے ہیں :

إِنِّي وَ إِيَّاهُ لَعَلَى سَبِيلٍ وَاحِدٍ إِلَّا أَنَّهُ هُوَ الْمَدْعُوُّ بِاسْمِه‏

بحار، ج ۲۵ ، ص ۳۵۴ ۔

میں اور رسول اکرم(ص) ایک راستے پر ہیں فرق صرف یہ ہےرسول اکرم(ص) کو ان کےنام سےپکا را جاتا ہے۔

یعنی ہم میں کوئی فرق نہیں فرق صرف یہ ہےمیرا نام علی (ع) ہےاور رسول اکرم(ص) کا نام محمد ہےمجھے نبی نہیں کہا جاتا اور ان کو نبی کہا جاتا ہےوہ نبی ہیں اور میں وصی ہوں۔ حضرت علی(ع) فرمانا چاہتے ہیں کہ : مجھے بنی نہیں پکار ا جاتا لیکن نفس نبوت اور حقیقت نبوت میرے اندرموجود ہے۔

لقمان اورنبوت

حضرت لقمان کا قصہ بھی ایسا ہےاللہ تعالی نےحضرت لقمان کی طرف فرشتے کو پیغام دے کر بھیجا لقمان سےپوچھو کیا میں تمہیں لوگوں کی ہدایت کیلئے نبی مقرر کروں ؟ لقمان نےفرشتے سےپوچھا : یہ حکم ہےیا میری مرضی پر ہے؟ اللہ تعالی کا جواب آیا : تیری مرضی پر ہے۔ تو لقمان نےعرض کیا : پروردگارا ! اگر میری مرضی پر ہےتو میں اس ذمیداری کو اٹھانا نہیں چاہتا۔

تفسیر صافی، ج ۴ ، ص ۱۴۱

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ :اگر لقمان نبوت کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کیا اللہ تعالی اس پر ابلاغ نہیں کرتا ؟ اس واقعے کی بنیاد پر حضرت لقمان نبی نہیں تھے۔ لیکن شان نبوت رکھتے تھے اور کئی نبیوں سےافضل تھے ۔ قرآن مجید میں بہت سارے نبیوں کےنام پر سورتیں ہیں جیسےآدم، ابراہیم، یوسف، نوح اور تمام نبیوں کےنام پہ ایک سورت، سورت انبیاء آئی ہےاور حضرت لقمان کےنام پہ ایک سورت نازل ہوئی ہےاس سےحضرت لقمان کی منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس بناپر ممکن ہےکوئی ظاہرا نبی اور رسول نہ ہو لیکن نبوت اور رسالت والا مرتبہ، صلاحیت اور شان رکھتا ہو جیسا کہ کہا جا تا ہےرسول اکرم(ص) کی امت کےعلماء بنی اسرائیل کےنبیوں سےافضل ہیں۔

المزار شیخ مفید، ص ۶ ۔

اس بات پر تعجب نہ کریں کیونکہ اس دور میں نبوت نہیں ہےورنہ بہت سارے افراد نبوت والی شان رکھتے ہیں (لیکن کوئی بھی نہ رسول اکرم(ص) جتنی شان رکھتا ہےنہ ائمہ معصومین(ع) جتنی لیاقت )

تیسری روایت :

ایک دن ابوذر، سلمان کےپاس آئے اورعرض کیا : اے سلمان! امیرالمومنین(ع) کی معرفت کیسی ہے؟ سلمان بھی ہوشیار آدمی تھا ۔ اس نےجواب میں کہا : خود امیرالمومنین(ع) سےپوچھتے ہیں ؟ وہ دونوں امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں آئے اور سوال کیا مولا آپ کی معرفت کیسی ہے؟ حضرت علی(ع) نےجواب میں فرمایا :

مَعْرِفَتِي بِالنُّورَانِيَّةِ مَعْرِفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مَعْرِفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَعْرِفَتِي بِالنُّورَانِيَّة

بحارالانوار، ج۲۶، ص ۲

جس نےہماری نورانی معرفت کو سمجھا اسےاللہ تعالی کی معرفت حاصل ہوئی اور جسےاللہ تعالی کی معرفت ملی اسےہماری نورانی معرفت حاصل ہوگی۔

اب یہاں دو چیزیں نہیں بلکہ ایک چیز ہے۔ ہماری معرفت، اللہ تعالی کی معرفت ہےاور اللہ تعالی کی معرفت، ہماری معرفت ہے۔ اس کےبعد امیرالمومنین نےفرمایا :

أَنَا مُحَمَّدٌ وَ مُحَمَّدٌ أَنَا وَ أَنَا مِنْ مُحَمَّدٍ وَ مُحَمَّدٌ مِنِّي‏؛

میں، محمد ہوں اور محمد، علی ہے۔ میں محمدمیں سےہوں اور محمد، مجھ سےہے۔ اس کےبعد امیرالمومنین(ع) نےفرمایا:

أَنَا الَّذِي حَمَلْتُ نُوحاً فِي السَّفِينَةِ بِأَمْرِ رَبِّي وَ أَنَا الَّذِي أَخْرَجْتُ يُونُسَ مِنْ بَطْنِ الْحُوتِ بِإِذْنِ رَبِّي‏ وَ أَنَا الَّذِي أَخْرَجْتُ إِبْرَاهِيمَ مِنَ النَّارِ بِإِذْنِ رَبِّي‏ َنَا أُحْيِي وَ أُمِيتُ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا أُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا عَالِمٌ بِضَمَائِرِ قُلُوبِكُم‏؛

نوح(ع)، کو غرق ہونےسےبچانےوالا میں ہوں ۔ یونس(ع)، کو مچھلی کےپیٹ سےنجات دینےوالے میں ہوں ۔ ابراہیم(ع)، کو فرعون کی آگ سےبچانےوالا ۔اللہ تعالی کےحکم سے۔ میں ہوں ۔ میں اللہ تعالی کےحکم سےزندہ کرتا ہوں، میں اللہ تعالی کےحکم سےمارتا ہوں، میں لوگوں کےگھروں اور دلوں کےحال بتاتا ہوں، میں تم لوگوں کےباطن سےآگاہ ہوں۔

امیرالمومنین(ع) کلام کرتے رہےیہاں تک کہ ارشاد فرمایا :

وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ أَوْلَادِي ع يَعْلَمُونَ وَ يَفْعَلُون‏؛

یہ خصوصیتیں تمام ائمہ معصومین(ع) کی ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ ہم ایک نور سےہیں اور لانا کلنا محمد؛ ہم سب کےسب محمد ہیں ۔

أَوَّلُنَامُحَمَّدٌوَآخِرُنَامُحَمَّدٌوَأَوْسَطُنَامُحَمَّدٌوَكُلُّنَامُحَمَّدٌفَلَاتَفَرَّقُوابَيْنَنَاوَنَحْنُ إِذَاشِئْنَاشَاءَاللَّهُ وَإِذَا كَرِهْنَا كَرِهَ اللَّه‏؛

ہم میں سےپہلا بھی محمد ہےاور آخری بھی محمد ہےاور بیچ والا بھی محمد ہے۔ ہم میں کوئی فرق نہیں اگر ہم چاہتے ہیں تو اللہ تعالی بھی چاہتا ہے۔ اگر ہم کسی چیز کو پسند نہیں کرتے تو اسےاللہ تعالی بھی پسند نہیں کرتا ۔

ان تمام باتوں سےنتیجہ نکلا کہ ائمہ معصومین(ع) تمام فضائل اور کمالات میں رسول اکرم(ص) کےبرابرہیں اور تمام ائمہ معصومین (ع) بھی تمام فضائل اور کمالات میں مشترک ہیں ۔

چوتھی مجلس

رسول اکرم(ص)اورامیرالمومنین(ع)کی مشترک خصوصیتیں

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( فَسْئَلُواأَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُون ‏)

سورہ نحل، آیت ۴۳ ۔

اگرتم نہیں جانتے ہو تو جاننےوالوں سےدریافت کرو۔

امام علی(ع) نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

ہماری گفتگو زیارت جامعہ کےمتعلق تھی جو یہاں تک پہنچی کہ : بہت ساری حدیثوں سےاور روایتوں سےپتا چلتا ہےکہ ائمہ معصومین(ع) تمام فضائل اور کمالات میں رسول اکرم(ص) کےبرابرہیں اور تمام ائمہ معصومین (ع) بھی تمام فضائل اور کمالات میں مشترک ہیں ۔ جو بھی رسول اکرم(ص) کا کمال ہےوہ حضرت علی(ع) کا کمال ہےاور تمام ائمہ معصومین(ع) کا کمال ہےاس بات کی زیادہ وضاحت کیلئے ہم یہاں رسول اکرم(ص) اور امیرالمومنین(ع) کی چند مشترک خصوصیتیں بیان کرتے ہیں۔ ان مشترک خصوصیتوں کو اہلسنت کےدو بزرگ عالموں نےبیان کیا ہےایک کا نام سلمان بلخی ہےجنہوں نےاپنی کتاب ینابیع المودہ میں بیان کیا ہے۔ دوسرے بزرگ عالم کا نام میر سید علی ہمدانی ہےجنہوں نےاپنی کتاب مودہ القربی میں نقل کیا ہے۔

اخلاق حسنہ اورصفتوں میں برابری

رسول اکرم(ص)ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

اشبه خلقک خلقی و اشبه خلقی خلقک؛

اے علی ! تیرا، اخلاق، صفتیں اور رفتار میری طرح ہےاور میرا، اخلاق، صفتیں اور رفتار تمہاری طرح ہے۔

قادتنا کیف نعرفھم، ج ۱ ، ص ۳۳۳ ۔

رسول اکرم(ص) اس حدیث میں صرف چند صفتوں کی بات نہیں کر رہےبلکہ رسول اکرم (ص) کا فرمان تمام اخلاق اور صفتوں کےبارے میں ہے۔ قرآن کا فرمان ہےکہ:

( وَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظيم )

سوره قلم، آیت۴

رسول اکرم(ص) خلق عظیم کےمالک ہیں۔ حضرت علی (ع)کا اخلاق رسول اکرم(ص) کےاخلاق کی طرح ہےیعنی اے علی! انک لعلی خلق عظیم؛ حضرت علی (ع)بھی خلق عظیم کےمالک ہیں۔ یہاں دلچسپ نکتہ یہ ہےکہ رسول اکرم(ص) نےصرف حضرت علی (ع)کو خود سےتشبیہ نہیں دی بلکہ خود کو بھی حضرت علی (ع)سےتشبیہ دی ہےتاکہ یہاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اصل اور فرع کی بات ہےنہیں! یہاں برابری ہےحضرت علی (ع)کو رسول اکرم(ص) جیسا کہیں یا، رسول اکرم(ص) کو حضرت علی (ع)جیسا کہیں کوئی فرق نہیں بات ایک ہی ہے۔

اللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلَاء والی دعا میں ہم پڑہتے ہیں یامحمد یاعلی، یاعلی یا محمد، علی کی جگہ محمد کا نام رکھتے ہیں اور محمد کی جگہ علی کا نام رکھتے ہیں ۔ ایک کی جگہ دوسرے کا نام رکھنا کس بات کی خبردیتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہےکہ رسول اکرم(ص) کا نام پہلے لو یا حضرت علی (ع)کا بات ایک ہےکیونکہ یہ دونوں تمام کمالات میں برابر ہیں۔

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ لَوْلا فَضْلُ اللَّهِ علیكُمْ وَ رَحْمَتُه )

سورہ نور، آیت ۲۱

اوراگرتم پر اللہ کافضل اوراس کی رحمت نہ ہوتی۔

اس آیت کی تفسیرمیں موجود روایتوں میں آیا ہےکہ: فضل اللہ سےمراد رسول اکرم(ص) ہیں اور رحمتہ سےمراد حضرت علی (ع)ہیں۔

البرھان، ج ۱ ، ص ۳۹۸ ۔

یا دوسری روایت کےمطابق فضل اللہ سےمراد حضرت علی (ع)ہیں اور رحمتہ سےمراد رسول اکرم(ص) ہیں۔

ان روایتوں کا مقصد یہ ہےکہ فضل اللہ سےمراد رسول اکرم(ص) لیں یا حضرت علی (ع)بات ایک ہےاسلئے رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :

يَا علی أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْك‏؛

مناقب ابن شھر آشوب، ج ۲ ، ص ۳۳ ۔

اے علی ! تو مجھ سےہےاور میں تم سےہوں۔

اوپر والی روایت (شباہت والی روایت ) سےیہ بات بھی سمجھ میں آتی ہےکہ ہم قیامت تک رسول اکرم(ص) اور حضرت علی (ع)کی شباہتوں کو شمار کرتے رہیں پھر بھی ختم نہ ہونگی۔اس لئے جس سنی عالم نےاس روایت کو ذکر کیا ہےوہ عالم فرماتے ہیں : رسول اکرم(ص) اور حضرت علی (ع)کی شباہتیں آسمان کےستاروں اور صحراء میں موجود ریت کےذروں سےبھی زیادہ ہیں۔

خلقت میں برابری

رسول اکرم(ص) نےعبداللھ بن مسعود سےارشاد فرمایا:

كُنْتُ أَنَا وَ علی نُوراً بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَام‏

بحار، ج ۳۵ ، ص ۲۴ ۔

میں اورعلی،خداکےسامنےایک ہی نورتھےخدا کےآدم کوپیداکرنےسےچودہ ھزارسال پہلے، پھرآدم کےصلب میں منتقل ہوئےپھراسی طرح ایک ہی نورکی صورت میں صلب ابراھیم میں قرارپائےیہاں تک کہ اس نورکےدو ٹکڑےہوےآدھ عبداللہ کےصلب میں اورآدھاابو طالب کےصلب میں منتقل ہوا۔خدانےفرمایا:میں اس نورکےدوحصےکرتاہوں پیغمب کونبوت اورامیرالمومنین (ع)کووصایت عطا کرتا ہوں۔

چودہ ہزارسال سےمرادشاید یہ ہوکہ خداوندنےحضرت آدم کوپیداکرنےسےپہلےچودہ معصومین کےنورکوپیداکیا۔

اخوت اوربرادری

ایک سنی عالم کا کہنا ہے:خداوندمتعال نےرسول اللہ کوحکم دیا کہ اپنےاورعلی کےدرمیان عقد اخوت پڑھے۔رسول اکرم(ص)نےجب ہجرت کےبعدمسلمانوں کےدرمیان عقد اخوت جاری کیا تو اس کام کو انجام دیا۔ اس برادری کا مطلب یہ تھا کہ کمالات، صفات اورمسئولیت کےاعتبار سےیہ دونوں معنوی برادر ایک جیسےہیں۔

اسی طرح رسول اللہ سےحدیث معراج میں منقول ہےکہ آپ نےفرمایا: جب میں معراج پر گیا تو کسی نےحجاب کےاس طرف سےندادی:

نِعْمَ الْأَبُ أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ وَنِعْمَ الْأَخُ أَخُوكَ علی‏ فاستوص به

طرائف، ص ۴۱۴ ۔

اچھے باپ حضرت ابراہیم ہیں اوراچھےبھائی علی ہیں اپنی امت کواسی کی وصیت کرنا اسےاپنا وصی بنانا۔

جن روایات کوشیعہ اورسنی دونوں نےنقل کیاہے،ان میں آیاہےکہ رسول اکرم(ص)نےجان کنی اوراحتضارکےوقت فرمایا:میرےبھائی کوکہوکہ میرےپاس آئےعائشہ اورحفصہ نےابوبکرکوبلانےکےلئےکہاجب وہ آئےتوپیغمبرنےفرمایا:میں نےکہاکہ میرےبھائی کوبلاوپھران دونوں نےعمرکو بلانےکیلئے کسی کوبھیجا۔ جب وہ آیا تو آنحضرت نےفرمایا: میں نےکہا کہ میرےبھائی کوبلاؤ۔ تیسری بارعثمان کوبلانےکیلئےکسی کوبھیجنا چاہاتو ام سلمہ نےچیخ کرکہا، کسی کوعلی کوبلانےکیلئےبھیجو کیاتمہیں پتانہیں کہ پیغمبرکابھائی علی ہے؟پھرمجبورامولاکوبلوانےکیلئےکسی کوبھیجا،جب امیرالمومنین تشریف لائے تو لوگوں کی طرف پیٹھ کر کےرسول اللہ سےباتیں کرنےلگےبعدجب حضرت سےپوچھا گیا کہ جب آپ لوگوں کی طرف پیٹھ کرکےبیٹھےتورسول اللہ نےآپ کوکیا فرمایا؟جواب دیا:رسول اللہ نےمجھےہزارباب کی تعلیم دی اور پھر ہر باب میں سےمیرے لئے دو ہزار باب کھولے

کافی، ج ۱ ، ص ۲۹۶ ؛ میزان الاعتدال، ج ۲ ، ص ۴۸۳ ۔

امام خمینی اس قضیہ کو بڑی اچھی تعبیرسےبیان کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے:علم کےوہ ہزارچشمے ان علوم میں سےنہیں ہیں جو ہم تک پھنچے ہیں مطلب یہ کہ علم فقہ، اصول، کلام وغیرہ نہیں ہیں بلکہ ان سےما فوق اور بڑہ کر ہیں ان کےپاس ایسےعلوم ہیں جن کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس قسم کےعلوم ہیں۔

صحیفہ نور، ج ۱۹ ، ص ۷ ۔

مدت عمرمیں برابری

رسول اکرم(ص)اورامام علی کی تیسری شباہت یہ ہےکہ ان دونوں کی مدت عمر ۶۳ سال تھی۔ ان سب میں کوئی رازہے۔منقول ہےکہ حضرت کی خدمت میں فالودہ لے کر آئے تو حضرت نےتناول نہیں کیا اور ارشاد فرمایا: میرے حبیب نےتناول نہیں کیا تو میں بھی نہیں کھاونگا۔

بحار، ج ۴۰ ، ص ۳۲۷ ۔

یعنی ان دو ہستیوں کا آپس میں اتنا گہرا رابطہ تھا یا یہ جو منقول ہےکہ حضرت علی (ع)کبھی بھی مکہ میں سوئے نہیں جب حضرت سےسوال کیا گیا کہ کیوں آپ مکےمیں سوئے نہیں، رات کو اتنی مشقت اٹھاتے ہیں کہ مکےسےباھر جا کر سوئیں؟ فرمایا: کیوں کہ میرے حبیب کو مکہ سےجلا وطن کیا گیا، میں نہیں چاہتا اس میں آرام کروں۔

علل الشرایع، ج ۲ ، ص ۳۱۱

بشرکی بنسبت اولی ہونا

وہ سنی عالم، احکام اور قوانین میں سب انسانوں کےبنسبت رسول اکرم(ص) اور علی کےاولی ہونےکیلئے اس آیت کو پیش کرتا ہے:

( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهيمَ لَلَّذينَ اتَّبَعُوهُ وَ هذَا النَّبِي‏؛ )

سوره آل عمران، آیت۶۸

یقینا ابراہیم علیہ السّلام سےقریب تر ان کےپیرو ہیں۔

ابراہیم کےنزدیک وہی لوگ ہیں جو ایک تو حضرت ابراہیم کی اطاعت کریں اور دوسرا یے کہ اس رسول کو مانتے ہوں البتہ یہاں ابراہیم کی اطاعت سےرسول اللہ کی استثنا کی گئی ہے۔

پھر دوسری آیت لے آتا ہے:

( النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم )

سوره احزاب، آیت ۶ ۔

بیشک نبی تمام مومنین سےان کےنفس کےبہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔

جالب یہ ہےکہ یہ نہیں فرمایامِنْ فسِهِم بلکہ فرمایاہےمِنْ أَنْفُسِهِم کیونکہ مقصد یہ ہےکہ رسول اکرم(ص)لوگوں کی جان کی بنسبت،شخص و شخصیت کی بنسبت اولویت رکھتے ہیں،اولویت کا سبب یہ ہےکہ رسول اکرم(ص)وہی خداوالاحکم رکھتے ہیں،یعنی جس طرح خداکائنات پرحاکم ہے،رسول اللہ بھی حاکم ہیں۔اگرکہا جائےکہ کیوں حضرت خضرن جرم سےپہلے قصاص لیا اوراس جوان کو قتل کردیا؟ جواب میں ہم کہیں گے کہ جو کام نبی خدا سےصادر ہو وہ وہی ہےجو خدا سےصادر ہو۔

( مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ‏ اللَّه )

سورہ نسا ، آیت ۸ ۔

جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نےاللہ کی اطاعت کی

( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ؛ )

سورہ فتح، آیت۱۸۔

یقیناخداصاحبانِ ایمان سےاس وقت راضی ہوگیاجب وہ درخت کےنیچےآپ کی بیعت کررہےتھے

بریدہ نقل کرتا ہے: میں حضرت علی (ع)کےزیر رکاب یمن میں جھاد کر رہا تھا میں نےعلی میں کچھ دیکھا جب میں نےوہ بات رسول اللہ کو بتائی اور علی پر اعتراض کیا میں نےدیکھا کہ رسول اللہ کا مبارک چہرا سرخ ہو گیا اور آپ نےفرمایا:

أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِم‏

اے بریدہ کیا میں مومنین کی بنسبت ان سےزیادہ حق نہیں رکھتا ؟ میں نےعرض کیا جی ہاں آپ نےفرمایا:

فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعلی مَوْلَاهُ؛

یعنی جس طرح میں تم پر حق رکھتا ہوں میرے بعدعلی بھی تم سب پر زیادہ حق رکھتے ہیں۔

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۰۶ ۔

پہلےمسلمان

قرآن مجید میں ایک آیت ہےجو پہلے مسلمان کو بیان کر رہی ہے:

( لا شَريكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمين )

سورہ انعام، آیت۱۶۳۔

اس کا کوئی شریک نہیں ہےاور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہےاور میں سب سےپہلا مسلمان ہوں۔

یہ آیت رسول اللہ کےبارے میں ہےآپ ارشاد فرماتے ہیں : پہلا مسلمان اور خدا کےسامنےپہلا تسلیم ہونےوالا میں ہوں پھر وہ سنی عالم کہتا ہے:

أَنَّ علیاً أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۹۱

بتحقیق سب سےپہلےاسلام قبول کرنےوالےعلی ہیں اسی طرح رسول اکرم(ص)جو پہلے مسلمان ہیں، حضرت علی (ع)کیلئے فرمارہےہیں :

هَذَا أَفْضَلُكُمْ حِلْماً وَ أَعْلَمُكُمْ عِلْماً وَ أَقْدَمُكُمْ سِلْما علی حلم

بحار، ج ۳۸ ، ص ۸۸ ۔

میں تم سب سےافضل ہیں، علم میں تم سب سےبڑےعالم ہیں،اسلام میں تم سب پرسبقت کرنےوالےہیں۔ یعنی جس طرح پیغمبرپہلےمسلمان ہیں علی بھی پہلے مسلمان ہیں، خدا و رسول کےآگےتسلیم ہیں۔

پیغمبر و علی کےسائے تلے

وہ کہتاہے: ایک شخص رسول اکرم(ص)کی خدمت میں آیا، عرض کرنےلگا: یا رسول اللہ آپ انبیاءکےدرمیان کونسا منصب رکھتے ہیں ؟ حضرت نےفرمایا:

آدَمُ وَ مَنْ دُونَهُ تَحْتَ لِوَائِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۶۳ ۔

آدم اور اس کےبعد آنےوالے (چاہےنبی ہوں یا امتی) قیامت کےدن میرے پرچم تلے ہونگے۔ حضرت علی (ع)کےبارے میں بھی رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں :

بِيَدِهِ لِوَاءُ الْحَمْد؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۷۰ ۔

حق کا پرچم علی کےہاتھ میں ہوگا۔ اس جملے کی یہ معنی نہیں ہےکہ مولا کےہاتھوں میں ایک علم ہوگا جس کےسائے میں سب ہونگے بلکہ آپ تو ایک تکوینی اورحقیقی مطلب کو بیان کرنا چاہتے ہیں مطلب یہ کہ لوائےحمد کی حقیقت خود مولا علی ہےکیونکہ مولا علی کا فرمان ہے: بسم اللہ کی "با" کےنیچے والا نقطہ میں ہی ہوں

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۱۳ ۔

اور بشرسےصادر ہونےوالا پہلا حرف "با "ہےجیسا کہ اس آیت میں ہے

( أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى )

سورہ اعراف، آیت ۱۷۲۔

کیا میں تمھارا خدا نہیں ہوں تو سب نےکہا بیشک ہم اس کےگواہ ہیں۔

اس لئے خدا نےحرف با کا انتخاب کیا اور بسم اللہ میں اسےلے آئے۔

رسالات الاسلامیہ، ص ۸۹ ۔

پس علی کا ہاتھ یداللھ ہےوہ بھی ایسا ہاتھ جو تمام حقائق و معارف رکھتا ہےجو کچھ خدا کےہاتھ میں ہےوہ سب امیرالمومنین (ع) کےہاتھ میں ہے۔

پیغمبر کو ستانا، علی کو ستانا ہے

ستانےکےبارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے:

( إِنَّ الَّذينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهينا )

سورہ احزاب، آیت۵۷

یقیناجولوگ خدا اور اس کےرسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہےاور خدا نےان کےلئے رسواکن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے۔یہ ایک سنی عالم کہہ رہا ہے: رسول اللہ نےارشاد فرمایا:

مَنْ آذَى علیاً فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّه‏؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۱۰۱ ۔

جس نےبھی علی کو تکلیف دی اس نےمجھے تکلیف دی جس نےمجھے ستایا اس نےخدا کو ستایا ۔

علی سےجدا ہونا

وہی سنی عالم، حضرت علی (ع)سےجدا ہونےکےبارے میں کہہ رہاہے:

مَنْ فَارَقَ علیاً فَقَدْ فَارَقَنِي و مَنْ فَارَقَنِي فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ ؛

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۷۳

علی سےمفارقت رسول اللہ سےمفارقت اورجدائی ہےکیونکہ رسول اللہ کاارشادہے:جوبھی علی سےجدا ہوا وہ مجھ سےجدا ہوا اورجومجھ سےجدا ہوا وہ خداسےجدا ہوا۔

ولایت علی

رسول اکرم(ص)اورمولا علی کی شباہتوں میں سےایک ولایت کامسئلہ ہےیعنی جس طرح رسول اکرم (ص) مومنین پرولایت رکھتےہیں اور ان کی ولایت قبول کئے بغیر کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی بالکل اسی اطرح مولا علی بھی ولایت رکھتے ہیں رسول اکرم(ص)نےفرمایا:

مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعلی مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَه‏

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۹۸

رسول اکرم(ص)کس کےمولا ہیں؟ تمام انبیا، فرشتوں کےبلکہ پوری کائنات کےمولا ہیں یعنی رسول اکرم(ص)فرما رہےہیں : خدایا میں جس کابھی مولا ہوں، درجہ اورمرتبہ کوکم زیادہ کئےبغیر علی بھی اس کےمولا ہیں۔

پہلی مجلس

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ )

سورہ نحل، آیت ۱۶

اور علامات معین کردیں اور لوگ ستاروں سےبھی راستے دریافت کرلیتے ہیں۔

امام علی نقی (ع)زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَكُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ كُنْهَكُمْ؛

اے ہمارے پیشوا، آپ کی تعریف کا احصاء نہیں ہو سکتا اور میں مدح میں آپ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ۔

شیعوں کا سب اہم وظیفہ امام معصوم کی پہچان ہےاور یہ صرف شیعوں کا وظیفہ نہیں بلکہ تمام انسانوں کا وظیفہ ہے۔ ا س روایت کےمطابق جو رسول اکرم (ص) سےمنقول ہے، جسےتمام شیعہ اور سنی علماء نےبیان کیا، جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔ رسول اکر م (ص) فرماتے ہیں:

مَنْ مَاتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة؛

بحارالانوار جلد ۳۲ ، صفحہ ۳۳۱ ینابیع المودہ، جلد ۳ صفحہ ۳۷۲

اگر امام کی معرفت نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

جاہلیت کا زمانہ، خدا کےانکار، نبوت اور رسالت کی نفی، وحشی گری، بت پرستی، بے حیائی اور کفرکا زمانہ تھا ۔

زیارت جامعہ، امام کی معرفت کا درس

اس کےباوجود کہ امام علی نقی(ع) نے ۳۴ چونتیس سال امامت کی، امام کا زمانہ انتہائی ظلم و جورکا زمانہ شمار ہوتا ہے۔ امام کےدور میں بنی عباس کےخبیث ترین خلیفہ متوکل عباسی کی حکومت تھی، جس نےامام کو لوگوں سےدور کرنےکیلئے سامرا جلا وطن کیا اور وہاں امام کا محاصرہ کیا، لیکن امام ہادی ؑنےکمال امامت کےساتھ وہ کام کیا کہ ہر شیعہ کو حیرانی اور پریشانی سےنجات بخشی۔

اگر امامت کےموضوع پر کوئی آیت اور روایت نہ ہوتی تو بھی زیارت جامعہ امام کی معرفت کیلئے کافی تھی ۔ امام علی نقی (ع) اس زیارت کےذریعے قیامت تک کےانسانوں کو امام کی معرفت کا درس دیتے ہیں ۔ مرحوم سید عبد الہادی شیرازی

(نجف اشرف کےعظیم مرجع تقلید)اس بارے میں فرماتے ہیں: زیارت جامعہ، امام کا کلام ہونےکی وجہ سےہمارے افکار کی تصحیح کرتی ہے۔

زیارت جامعہ کی سند

ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی فضائل ائمہ معصومین(ع) والی روایتوں کی سند کےبارے میں تحقیق کی جاتی ہےکہ اس روایت کی سند ضعیف ہےیا قوی؟ اس لحاظ سےہم چاہتے ہیں کہ پہلے زیارت جامعہ کی سند پر تحقیق پیش کریں تاکہ اس کی صحت کا اطمنان پیدا ہو جا ئے اور کوئی بھی اس پر اعتراض نہ کرسکے۔ اس تحقیق میں ہم زیارت جامعہ پر چند زاویوں سےنظر ڈالتے ہیں۔

۱ ۔ قوت متن

کچھ روایتوں پہ نظر پڑتے ہی ان کی صحت اور صداقت کا یقین ہو جاتا ہے؛ کیونکہ ان کا متن ہی ان کےسچے اور کلام امام ہونےکی تصدیق کرتا ہےان میں سےایک زیارت جامعہ ہے۔

ہمارے استاد مرحوم شیخ عبدالکریم حامد فرماتے تھے: بعض لوگ کہتےہیں: مناجات خمسہ عشر کی سند ضعیف ہے۔ تم سےجو بھی یہ بات کہےاس کو جواب میں کہو: تمہاری عقل ضعیف ہے۔ معصوم کےعلاوہ کوئی بھی اللہ تعالی سےاس قسم کی مناجات نہیں کر سکتا کیونکہ معصوم کےعلاوہ کوئی ایسی معرفت نہیں رکھتا ۔

جیسےکچھ لوگ حدیث کساکےبارے میں بحث کرتے ہیں کہ: اسکی صحیح سند موجود ہےیا نہیں؟

جنگ کےزمانےمیں آیت اللہ بہاء الدین اپنےچند دوستوں کےساتھ درود (ایران کا ایک شہر )میں تھے۔ ان کےساتھ ہمارے استاد حاج آقا سوشتری بھی موجودتھے، جو اس وقت شہر (درود) کےامام جمعہ تھے۔

انہوں نےآیت اللہ بھاء الدین سےسوال کیا: دشمن اس جگہ پرمسلسل بمباری کر رہا ہےآپ کیا حکم دیتے ہیں؟

آیت اللہ بھاء الدین نےجواب دیا: میری ماں زہرا(س) نےمجھ سےکہا ہےکہ لوگوں سےکہو:حدیث کساء پڑھیں۔

لوگوں نےحدیث کسا پڑھنا شروع کردی اس دن کےبعد درود میں کبھی بم کا دھماکہ نہیں ہوا ۔

وہ فرماتے ہیں: اس وقت ہم نےدشمن کےایک پائلٹ کو پکڑا۔ اس سےبات چیت کی میں نےخود وہ بات چیت سنی۔ اس سےپوچھا گیا: تمہاری ڈیوٹی کہاں تھی ؟

پائلٹ نےجواب میں کہا: میری ڈیوٹی درود میں تھی۔ جب میں یہاں آیا میں نےشہر( درود)کو دیکھا۔

لیکن جب نزدیک آیا تو مجھے ایک دریا نظر آیا، اس لئے میں نےاس پر بمباری نہیں کی اور کہیں اور بمباری کی۔

جب ہم نےتحقیق کی توپتاچلاحدیث کساپڑھنےکےبعدیہ واقعہ پیش آیاتھا۔اس دلیل کےہوتےہوئےکوئی اسکی صحت میں شک کرسکتا ہے؟ کیا یہ حدیث من بلغ (کافی، ج ۲ ، ص ۸۷) سےکمتر ہےجس پر مستحبات اور مکروہات پر عمل کیا جاتا ہے؟

اسی طرح کچھ لوگ سوال کرتے ہیں جمکران کی سند ہےیا نہیں ؟حالانکہ بہت زیادہ افرادنےوہاں امام زمانہ(ع) کی زیارت کی ہےاور وہاں سےاپنی مرادیں پائی ہیں۔ ہم اپنےدوستوں کےساتھ آیت اللہ بھاء الدین کی خدمت میں تھے، جب جمکران کی بات آئی۔

تو انہوں نےفرمایا: کتنی ہی بار ایسا ہوا ہےکہ جب ہم جمکران کےقریب جاتے ہیں تو ہماری حالت تبدیل ہو جاتی ہے۔

احادیث من بلغ سےمراد وہ احادیث ہیں جن کا مضمون یہ ہےکہ اگر تمہارے پاس کوئی روایت پہنچے جس میں کسی عمل کا ثواب ذکر ہوا ہو اور تم اطاعت کرتے ہوئے اس پر عمل کرع تو اتنا ثواب تمہیں ملے گا اگرچہ وہ روایت ضعیف ہو، البتہ اس حدیث پر زیادہ تر عمل مستحبات اور مکروہات میں کیا جاتا ہے۔

۲ ۔ معتبر کتابوں میں نقل ہونا

زیارت جامعہ کو اکثر بزرگوں نےاپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ شیعوں کےپاس قرآن کےبعد چار کتابیں معتبر ہیں جن کو کتب اربعہ کہا جاتا ہے۔ جو کہ شیعوں کی بنیادی کتابیں ہیں۔ان میں سےایک کتاب، اصول اور فروع کافی ہے۔ جس کو شیخ کلینی نےلکھا ہے۔ دوسری کتاب من لا یحضر ہ الفقیہ ہےجس کو رئیس المحدثین شیخ صدوق نےلکھا ہے، ج کہ و امام زمانہ (ع)کی دعا سےپیدا ہوئے۔ بعض بزرگان فرماتے ہیں : امام زمانہ(ع) بعض اوقات ان کی قبر پر جاتے ہیں۔تیسری اور چوتھی کتاب تہذیب اور استبصار ہے۔جس کےمصنف شیخ طوسی ہیں ۔

شیخ طوسی تہذیب الاحکام، جلد ۶ ، صفحہ ۹۵ میں اورشیخ صدوق من لا یحضرہ الفقیہ، جلد ۲ ، صفحہ ۶۰۹ میں زیارات کےباب میں اس دعا کو ذکر کرتے ہیں مخصوصا شیخ صدوق اپنی کتاب کی ابتدا میں فرماتے ہیں: میں اس کتاب میں نقل کردہ تمام روایات کی صحت اورصدق کااعتقادرکھتا ہوں اور اسکی صحت اور صدق کا فتوی دیتا ہوں۔

آپ لوگو ں نےملاحظہ کیا کہ تین معتبر کتابوں کےدو بزرگوار عالم اپنی کتابوں میں اس زیارت کو نقل کرتے ہیں ۔

ائمہ معصومین(ع)کی تائید

دوسرےعلماءبھی جیسےعلامہ محمدتقی مجلسی اپنی کتابوں میں زیارت جامعہ کی تصدیق کرتےہیں اورروضہ المتقین کی پانچویں جلدمیں فرماتے ہیں: مجھے خواب میں امام رضا (ع) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ میں نےدیکھا کہ: جب مجھے امام رضا(ع) کی زیارت نصیب ہوئی تو میں زیارت جامعہ پڑھ رہاتھا۔

امام نےفرمایا : احسنت، احسنت یعنی بہت خوب۔ امام (ع)نےزیارت جامعہ کی تعریف کی اور زیارت جامعہ پڑھنےپرمیری بھی تعریف کی۔

روضة المتقین، جلد ۵ ، صفحہ ۴۵۱

اس کےبعد وہ فرماتے ہیں : جب میں امام علی(ع) کی خدمت میں تہذیب اور ریاضت میں مشغول تھا۔ مجھے رواق عمرا ن میں ایک مکاشفہ ہوا۔ میں نےدیکھا کہ: میں سامرا میں امام زمانہ (ع)کی خدمت میں کھڑے ہو کر زیارت جامعہ کی تلاوت میں مشغول ہوں۔ جب زیارت تمام ہوئی امام زمانہ (ع)نےارشاد فرمایا : نعمت الزیارۃ۔ یہ بہترین زیارت ہے۔

اس مکاشفہ کےذکر کےبعد علامہ مجلسی فرماتے ہیں:

والحاصل لا شک لی انه من انشائات امام الهادي(ع)

مجھے یقین ہےکہ زیارت جامعہ، امام علی نقی (ع) سےوارد ہوئی ہے۔ ہم ہمیشہ حرم اور غیر حرم میں جب کسی معصوم (ع) کی زیارت پڑھتے ہیں تو زیارت جامعہ کی تلاوت کرتے ہیں۔

روضة المتقین، جلد ۵ ، صفحہ ۴۵۲

علامہ نےاپنی کتاب روضہ المتقین کی پانچویں جلدمیں زیارت جامعہ کی سندکےسلسلےمیں بحث کی ہےاوراسےقابل اعتمادقراردیاہے۔

علامہ مجلسی کےکلام میں زیارت جامعہ کی خصوصیات

مرحوم علامہ محمدباقرمجلسی، علامہ محمدتقی مجلسی کےفرزند اپنےنورانی کتاب بحارالانوارمیں فرماتے ہیں:

إنما بسطت الكلام في شرح تلك الزيارة قليلا و إن لم أستوف حقها حذرا من الإطالة لأنها أصح الزيارات سندا و أعمها موردا و أفصحها لفظا و أبلغها معنى و أعلاها شأنا ۔

بحارالانوار جلد۹۹، صفحہ ۱۴۴

ہم نےزیارت جامعہ کو کچھ تفصیل سےبیان کیا ہے۔ اگر چہ اس کاحق ادا نہیں کر سکےکیونکہ زیارت جامعہ سند کےلحاظ سےصحیح ترین زیارت ہے، اور لفظ کےلحاظ سےفصیح ترین زیارت ہے، معنی کےلحاظ سےموثر ترین زیارت ہےاور اس زیارت کی شان بہت بلند ہے۔

جب میں نےزیارتوں کو نقل کرنا چاہا اور بات زیارت جامعہ تک پہنچی تو میں نےمندرجہ ذیل دلائل کی وجہ سےاس کو شرح کی ہے:

الف) زیارت جامعہ شیعوں کی زیارتوں میں سےصحیح ترین زیارت ہے۔ زیارت امین اللہ بھی صحیح ہےاور زیارت امام رضا اور حضرت معصومہ بھی صحیح ہے۔ لیکن صحیح ترین اور سند کےلحاظ سےمحکم ترین زیارت، زیارت جامعہ ہے۔

ب) زیارت جامعہ کےعلاوہ تمام زیارتیں کسی ایک مقام اور کسی ایک امام یا چند مقام اور چند اماموں کےساتھ مخصوص ہیں۔ صرف زیارت جامعہ ہی ہےجو تمام اماموں اورمعصومین کی زیارت میں پڑھی جا سکتی ہے۔

ج )عبارت کےلحاظ سےزیارت جامعہ بہت ہی بلند، فصیح اور خوبصورت ہےکوئی کلام اتنا بلند، فصیح اور خوبصورت نہیں ہو سکتا ۔

د)تمام زیارتیں بلاغت کا نمونہ ہیں۔ لیکن ان زیارتوں میں کچھ عبارتیں بہت مشکل ہیں جو ہر ایک کو اچھی طرح سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ لیکن زیارت جامعہ معنی کےلحاظ سےاور مطلب کو پہنچانےمیں عجیب تاثیر رکھتی ہے۔ بلاغت کا بے نظیر نمونہ ہےجس کو ہر ایک آسانی سےسمجھ سکتا ہے۔

ھ)دوسری زیارتوں میں ائمہ معصومین (ع) کےچند ایک فضائل اور منصب ذکر ہوئے ہیں۔ لیکن زیارت جامعہ وہ تنہا زیارت ہےجس میں امامت اور ولایت کےتمام مسائل تفصیل سےبیان ہوئے ہیں ۔

علامہ مجلسی فرماتے ہیں: ان پانچ اسباب کی بنیاد پر میں نےچاہا کہ زیارت جامعہ پر ایک مختصر شرح لکھوں ۔

حکایت سیدرشتی

جن بزرگوں نےزیارت جامعہ کو نقل کیا ہےان میں سےایک مرحوم شیخ عباس قمی ہیں۔ وہ اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں زیارت جامعہ کےباب میں سیدرشتی کی حکایت کو ذکرکرتے ہوئے فرماتےہیں:مرحوم سیدرشتی اپنےقافلے سےبچھڑ گیا اوربہت پیچھے رہ گیا تو ان کو امام زمانہ(ع)کی زیارت کاشرف نصیب ہوا، امام زمانہ(ع)نےان کوتین چیزوں کی سفارش کی۔

امام زمانہ (ع) فرماتے ہیں: تم لوگ نافلہ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ نافلہ، نافلہ، نافلہ ۔تم لوگ زیارت عاشورا کیوں نہیں پڑھتے؟ عاشورا، عاشورا، عاشورا۔ تم لوگ زیارت جامعہ کیوں نہیں پڑھتے؟ جامعہ، جامعہ، جامعہ

اس حکایت میں ایک اہم نکتہ یہ ہےکہ : بھلا گم ہونےکا زیارت جامعہ سےکیا واسطہ؟ واسطہ یہ ہےکہ: اگر ظاہری چیز گم ہو جائےامام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اگرمعنوی چیز گم ہو جائے!معنوی مسئلےمیں حیران اور پریشان ہوں، اگرتمہیں پتا نہ چلے کہ اللہ تعالی سےکیسےرابطہ رکھیں تو بھی امام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اب ہرچیز کیلئے امام زمانہ(ع)کو پکاریں لیکن امام زمانہ(ع) کی معرفت حاصل کرنےکیلئےکیا کریں؟امام زمانہ کی معرفت کیلئےزیارت جامعہ پڑھیں۔جس کی معرفت میں اضافہ ہوگاوہی امام کویا اباصالح المہدی کہہ کر بلائےگااورامام بھی اس کی فریادکوآئےگااوراس مسئلہ حل کرےگا ۔

ہمارےایک استادعقائدپر درس دےرہےتھے۔ میں بھی پہلےتوحید، امامت اورولایت کےبارےمیں وسوسےکاشکارتھا۔ میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی خدمت میں گیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوں نےارشاد فرمایا: تمہیں چاہیے لگاتار زیارت جامعہ کی تلاوت کرو۔ میں نےاس بات پرعمل کیا نہ صرف وسوسےدور ہوگئے بلکہ مجھےکچھ معنوی مقامات بھی نصیب ہوئے ۔

یہ تمام چیزیں مقدمہ تھیں تاکہ ہم اصل بحث میں داخل ہوسکیں ۔

اللہ تعالی سےدعا ہےکہ ہمیں توفیق نصیب ہو کہ ہمارا روزبروز دعائوں اورزیارتوں سےتعلق گہراہوتا جائے۔انشاء اللہ

دوسری مجلس

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَفِيهَا اسْمُهُ )

سورہ نور، آیت ۳۶ ۔

یہ چراغ ان گھروں میں ہےجن کےبارے میں خدا کاحکم ہےکہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اوران میں اس کےنام کا ذکر کیا جائے۔

امام علی نقی(ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

كَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِكُمْ

میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں؟!

زیارت جامعہ کی نظر میں امامت کےمسائل،

اس بحث میں داخل ہونےسےپہلےہم کچھ نکات بیان کرنا چاہتے ہیں۔

پہلا نکتہ : فضائل کامجموعہ

زیارت جامعہ حقیقت میں ائمہ معصومین(ع)کےفضائل کا مجموعہ ہے۔جس میں ائمہ معصومین(ع) کےفضائل کی سیکڑوں حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔ اگرکوئی ائمہ معصومین(ع)کےفضائل جانناچاہتاہے، اسےسالوں لگ جائیں گےہزاروں کتاب ڈھونڈنےپڑیں گے۔ لیکن امام علی نقی(ع)نےان تمام فضائل کو جمع کردیاہے۔

اب کہا جاسکتا ہے: زیارت جامعہ حقیقت میں ائمہ معصومین(ع) کےفضائل کی وہ کتاب ہےجو لاکھوں صفحات پرمشتمل ہے۔ تمام شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود آئمہ معصومین(ع) کےفضائل ایک طرف اور زیارت جامعہ دوسری طرف، ان تمام کی برابری کرتی ہےبلکہ ان تمام پر برتری رکھتی ہے۔

دوسرا نکتہ: تکبیرکا فلسفہ

مرحوم محمدتقی مجلسی، مرحوم محمد باقرمجلسی، مرحوم شیخ عباس قمی اور بہت سارے بزرگوں نےفرمایا ہے: زیارت جامعہ پڑھنےکا طریقہ یہ ہےکہ: حرم میں داخل ہو جائیں اور زیارت جامعہ پڑھنےسےپہلے تیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں۔ پھر ضریح کی طرف چند قدم آگے بڑھیں، پھر تیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں۔ پھر ضریع کی طرف چند قدم آگے بڑہیں پھر چالیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں اور ضریح کےبلکل نزدیک ہو جائیں۔ جب ۱۰۰ سو تکبیریں پوری ہو جائیں تو زیارت جامعہ کی تلاوت شروع کریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ: ان تکبیرات کا فلسفہ کیا ہے؟ ان تکبیروں کا فلسفہ یہ ہےکہ: جب انسان زیارت جامعہ کی تلاوت کرے تو ممکن ہےاس کو غلو کی بو آئے اور وہ سوچنےلگے کہ یہ تو خدائی صفات ہیں۔ کیونکہ بعض ضعیف عقیدہ افرادکو زیارت جامعہ غلو لگتی ہے۔ اس لئے پہلے سو بار، اللہ اکبر کہہ کر اعلان کریں کہ اللہ تعالی اس سےبھی بلندہے۔

مجھ حقیرکی نظرمیں، ان تکبیروں کاایک اورفلسفہ بھی ہوسکتا ہے۔وہ یہ کہ: زیارت جامعہ کی تعلیم امام علی نقی(ع)نےدی ہے۔اگر اس میں غلو ہوتا تو امام تعلیم نہ فرماتے۔بلکہ ائمہ معصومین(ع)کا مقام اس سےبھی بلند ہے۔امام علی نقی(ع) کا منظورہمیں سمجھانا تھا، اس لئے زیارت جامعہ میں اسان انداز اپنایا۔ اگر ہماری عقلیں سمجھ سکتیں تو ائمہ معصومین(ع) کی معرفت اس سےکہیں زیادہ بلند ہے۔ امام علی نقی(ع) اس سےبہتر انداز میں بیا ن کرتے۔

زیارت جامعہ میں تدبر

ہم جب کسی امام (ع) کی خدمت میں زیارت جامعہ کی تلاوت کرتےہیں تو اس نا آشنا کی طرح ہوتے ہیں جو کسی کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ اس لئے ہم سےکہا جاتا ہےہمیں مخاطب کر کےکلام کرو۔اس لئے ہم کہتے ہیں:

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

یہ تمام سلام، اہلبیت(ع) کو مخاطب کر کےہیں۔ کیونکہ ہم پہلے مہمان کی طرح ہیں۔ اس لئے اہلبیت (ع)نہیں چاہتے کہ کو ئی مہمان نا امید ہو۔ اس لئے ہمیں مخاطبانہ کلام کی اجازت دیتے ہیں! پھر جب انسان متوجہ ہوتا ہےکہ وہ کس سےکلام کر رہا ہے؟ تو ارشاد ہوتا ہے: اب دوبارہ پلٹ جاؤ اور غائبانہ طور پر ہم سےکلام کرو اور کہو:

السَّلامُ عَلَى أَئِمَّةِ الْهُدَى وَ مَصَابِيحِ الدُّجَى وَ

سلام ہو ہدایت کےائمہ پر اور تاریکیوں کےچراغ پر!

اس حصے میں زائر، ائمہ معصومین(ع)سےغائبانہ کلام کرتا ہےتو اہلبیت(ع) فرماتے ہیں: ہم سےغائبانہ کلام کرچکےاور ہمیں کسی حد تک پہچان لیا۔ اس لئے ہم سےدوبارہ مخاطبانہ کلام کرو۔ زائر کہتا ہے:

أَشْهَدُأَنَّكُمُ الْأَئِمَّةُ الرَّاشِدُونَ الْمَهْدِيُّونَ

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سب ائمہ ہادی اور مہدی ہیں۔

یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ:آپ ائمہ معصومین، آپ اہلبیت (ع) ہدایت کرنےوالے ہیں!

غائبانہ کلام سےمخاطبانہ کلام کی طرف آنےکو بلاغت میں التفات کہتے ہیں۔ زیارت جامعہ میں یہ انداز کس لئے ہے؟ اس انداز کا مطلب یہ سمجھانا ہےکہ حقیقیت میں اہلبیت(ع) اس سےبھی بہت زیادہ بلند ہیں۔ یہ زیارت جامعہ میں بیان شدہ صفتیں تو کچھ بھی نہیں۔ اہلبیت (ع) ان صفتوں کےعلاوہ بھی ہزاروں عظیم صفتوں کےمالک ہیں ۔ آپ لوگ صرف یہ نہ سمجھیں کہ: اللہ تعالی نےاہلبیت(ع) کو پیدا کیا اور فقط یہ فضائل اور کمالات ان کےنام کردئے۔ نہیں! اہلبیت(ع) کی ایک اور صفت بھی ہے۔ جو زیارت جامعہ میں بیان نہیں ہوئی۔ وہ یہ ہےکہ: اہلبیت (ع) کا وہ بلند مقام ہےکہ: جس کو سمجھنا ممکن نہیں۔ کیونکہ ہماری عقلیں اتنی سمجھ نہیں رکھتیں۔ اس لئے اس نورانی مقام کو بیان نہیں کیا گیا۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں: اہلبیت(ع) کےمقام کو ایک لطیف نکتے کےذریعے سمجھنےکی کوشش کی جاسکتی ہے۔ وہ نکتہ یہ ہےکہ: اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرمایا ہے:

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

سورہ ذاریات، آیت ۵۶۔

اورمیں نےجنات اورانسانوں کوصرف اپنی عبادت کےلئے پیداکیاہے۔

عبادت کی بہت فضیلت ہے۔ لیکن معرفت کا درجہ اس سےبھی بلند ہے۔ تو اللہ تعالی نےیہ کیوں نہیں فرمایا کہ: انسانوں اور جنوں کو معرفت کیلئے پیدا کیا گیا ہے؟ وہ بزرگ فرماتے ہیں: عبادت بندے کا کام ہےاور معرفت اللہ تعالی کا کام ہے۔ معرفت بندے کےبس کی بات نہیں کہ اللہ تعالی مقصد خلقت، معرفت کو قرار دے۔ معرفت ایسی بلند چیز ہےجس کو انسان خود حاصل نہیں کر سکتا بلکہ معرفت دینا اللہ تعالی کا کام ہے۔ اس لئے ارشاد ہوتا ہے:

أَنَّ الْمَعْرِفَةَ مِنْ صُنْعِ اللَّه‏

کافی، ج ۲ ، ص ۲۱۲ ۔

معرفت دینا اللہ تعالی کاکام ہے۔ اس لئے اللہ تعالی انسانوں اور جنوں کی خلقت کیلئے عبادت کو مقصد قرار دیتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ دینا اللھ تعالی کا کام ہے۔ اس لئے ہم پڑھتے ہیں:

اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ رَسُولَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِ

(حوالہ:مفاتیح الجنان، غیبت کےدورمیں امام زمانہ (ع)کی دعاکاایک حصہ) ۔

پروردگارامجھےاپنی معرفت عطا فرما۔اگرتومجھےاپنی معرفت عطانہ کرےگاتومیں تیرےرسول کی معرفت حاصل نہ کرپاوںگا۔

پروردگارا مجھے اپنےرسول کی معرفت عطافرما؛ کیونکہ اگر تو نےمجھے اپنےرسول کی معرفت عطا نہ کی تو میں تیری حجت کی معرفت حاصل نہ کر پاؤں گا۔ پروردگارا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو نےمجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ کی تو میں اپنےدین سےگمراہ ہوجاؤں گا۔

تیسرا نکتہ: بے انتہا فضائل

ائمہ معصومین (ع)کی زندگی، ائمہ معصومین(ع)کی خصوصیتیں، ائمہ معصومین(ع)کےاخلاق حسنہ کابیان ایک زاویہ یادس زاویوں یاسوزاویوں میں محدودنہیں ہو سکتا۔ہماری تعبیرکےمطابق ائمہ معصومین(ع) اللہ تعالی کی نسبت متناہی اورمحدود ہیں۔لیکن ہم انسانوں کی نسبت نا متناہی اورغیر محدود ہیں۔ اب جب ائمہ معصومین(ع) غیر متناہی صفتوں کےمالک ہیں تو کیسےممکن ہےہم ائمہ معصومین(ع) کےبارے میں مکمل گفتگو کر سکیں !

زیارت جامعہ میں بھی دو مقامات پر اس نکتے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

پہلا مقام: اس عبارت میں

مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَكُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ كُنْهَكُمْ وَ مِنَ الْوَصْفِ قَدْرَكُمْ

دوسرا مقام:

كَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِكُمْ

میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں۔

یہ سچی بات ہےکہ ہم زیارت جامعہ کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں لیکن ائمہ معصومین (ع) کی ذات کو اور خصوصیات کو کو ئی شمار نہیں کر سکتا ۔ رسول اکرم(ص) امام علی(ع) کےبارے میں فرماتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ لِأَخِي علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَضَائِلَ لَا تُحْصَى كَثْرَةً ؛

بحار، ج ۲۶ ، ص ۲۲۲۹ ۔

اللہ تعالی نےمیرے بھائی علی کیلئے اتنی فضیلتیں رکھی ہیں کہ جن کی تعداد کو کوئی شمار نہیں کر سکتا۔

بحارالانوار، ج ۲۶ ، و ۲۲۹ ۔

ممکن ہےیہاں کوئی اعتراض کرے کہ : حضرت علی (ع) کی فضیلتیں ایک فرد شمار نہ کر سکتا ہو یہ ممکن ہےلیکن کیسےممکن ہےتمام مخلوقات مل کر بھی حضرت علی (ع) کی فضیلتیں شمار نہ کر سکیں؟

رسول اکرم(ص) ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

لَوْ أَنَّ الرِّيَاضَ أَقْلَامٌ وَ الْبَحْرَ مِدَادٌ وَ الْجِنَّ حُسَّابٌ وَ الْإِنْسَ كُتَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛

بحار، ج ۳۸ ، ص ۱۹۷ ۔

اگرتمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا سیاہی بن جائیں اورتمام جن شمارکرنےبیٹھیں اورتمام انسان لکھنےبیٹھیں تو بھی امام علی (ع) کےفضائل نہیں لکھ سکتے۔

بحار، ج ۳۸ ، ص ۱۹۷ ۔

امام صادق (ع) ایک روایت میں فرماتے ہیں :

لَا يَقْدِرُ الْخَلَائِقُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل‏؛

تمام مخلوقات جس طرح اللہ تعالی کاحق ہےاللہ تعالی کی ایسی معرفت حاصل نہیں کرسکتیں۔

بحار، ج ۶۴ ، ص ۶۵ ۔

جیسا کہ یہ قرآنی آیت بھی اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے:

( وَ ما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِه‏؛ )

سورہ انعام، آیت ۲۱ ۔

اس کےبعد امام (ع) نےارشاد فرمایا :

فَكَمَا لَا يَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَكَذَلِكَ لَا يَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ ؛

جس طرح تمام مخلوقات اللہ تعالی کی معرفت حاصل نہیں کرسکتیں اسی طرح تمام مخلوقات رسول اکرم(ص) کی صفتوں کو شمار نہیں کر سکتیں اور رسول اکرم(ص) کی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں۔

اس کےبعد امام (ع) نےفرمایا : جس طرح تمام مخلوقات رسول اکرم(ص) کی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں اسی طرح ائمہ معصومیں (ع) کی بھی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح ایک حقیقی مومن کی معرفت بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس لئے اللہ تعالی نےارشاد فرمایا ہے:

( وَ ما أُوتيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَليلا )

سورہ اسرا، آیت ۸۵ ۔

یعنی اللہ تعالی کےبارے میں، امامت اور ائمہ معصومین (ع) کی فضیلتوں کےبارے میں تمہارا علم بہت کم ہے۔

چوتھا نکتہ: ائمہ معصومین (ع)کی توصیف سےانسان کی عاجزی

اگر ہم ائمہ معصومین (ع) کی چند صفتیں جانتے بھی ہیں تو بھی اس طرح نہیں جانتے جیسےجاننےکا حق ہےیعنی ائمہ معصومین (ع)کی بےشمارصفتیں ہیں اورہرصفت کےبےشمارپہلو ہیں۔

امام رضا (ع) اپنےعظیم الشان خطبہ میں ۔ جو انہوں نےامامت کےبارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں :

ضَلَّتِ الْعُقُولُ وَ تَاهَتِ الْحُلُومُ وَ حَارَتِ الْأَلْبَابُ وَ حَسَرَتِ الْعُيُونُ وَ تَصَاغَرَتِ الْعُظَمَاءُ وَ تَحَيَّرَتِ الْحُكَمَاءُ وَ تَقَاصَرَتِ الْحُلَمَاءُ وَ حَصِرَتِ الْخُطَبَاءُ وَ جَهِلَتِ الْأَلِبَّاءُ وَ كَلَّتِ الشُّعَرَاءُ وَ عَجَزَتِ الْأُدَبَاءُ وَ عَيِيَتِ الْبُلَغَاءُ عَنْ وَصْفِ شَأْنٍ مِنْ شَأْنِهِ أَوْ فَضِيلَةٍ مِنْ فَضَائِلِه‏؛

کافی، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ۔

لوگوں کی عقلیں گمراہ ہو گئیں ہیں، فہم اور ادراک سرگشتہ اور پریشان ہیں، عقہل حیران ہیں، آنکھیں ادراک سےقاصر ہیں، عظیم المرتبت لوگ اس امر میں حقیر ثابت ہوئے، حکماء حیران ہو گئے، ذی عقل چکرا گئے، خطیب لوگ عاجز ہو گئے، عقول پر جہالت کا پردہ پڑ گیا، شعرا تھک کر رہ گئے، اہل ادب عاجز ہوگئے، صاحبان بلاغت عاجز آگئے، امام کی کسی ایک شان کو بیان نہ کر سکےاور اس کی ایک فضیلت کی تعریف نہ کر سکے۔

یعنی اگر کائنات کی تمام عقلین اتحاد کریں، تمام علماء اور دانشمند مل بیٹھیں، تمام تاریخ دان اور لکھنےوالے جمع ہوں اور ائمہ معصومین (ع) کی کسی ایک صفت کو کماحقہ بیان کرنےکی کوشش کریں تو اس ایک صفت کو بھی کما حقہ بیان نہیں کر سکتے۔

کافی، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ۔

مثال کےطور پر زیارت جامعہ میں ائمہ معصومین (ع) کی ایک صفت خزان العلم بیان ہوئی ہے۔ کیاہم اپنی عقل، فکر اور دانش کی بنیاد پر ائمہ معصومین (ع) کےعلم کو جان سکتے ہیں؟ کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) کےعلم کی حد کیا ہے؟

اگر کوئی تاجر اپنا پورا کاروبار کسی کےحوالے کرنا چاہےتو ضروری ہےکہ سامنےوالابھی اس کاروبار سےواقف ہوتاکہ اس کاروبار کو مناسب طریقے سےچلا سکے۔ یا اگر کسی کےحوالے پورا ملک کرنا ہو تو ضروری کہ وہ جانتا ہو کہ اس ملک میں کیا ہےاوراس ملک کو کیسےچلایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالی نےاپنےعلم کا خزانچی اہلبیت کو قرار دیا ہےلیکن اللہ تعالی کا علم، قدرت اور صفتیں غیر محدود ہیں :

لَيْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ وَ لَا نَعْتٌ مَوْجُود

نہج البلاغہ، خطبہ اول۔

اس کی ذات کیلئے نہ کوئی معین حد ہےاور نہ توصیفی کلمات۔

اس بنا پر کوئی کیسےجان سکتا ہےکہ ائمہ معصومین (ع) کا علم کتنا ہے؟ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) اللہ تعالی کےعلم کےخزانچی ہیں اس بنا پر ائمہ معصومین (ع) کا علم بھی غیر محدود ہوا۔

ابن عباس فرماتے ہیں : میں ایک رات امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں تھا امیرالمومنین (ع) سورج کےغروب ہونےسےسورج کےطلوع ہونےتک الحمد للہ کی الف کےبارے میں بتاتے رہےلیکن میں زیادہ مطالب کو فراموش کر چکا ہوں اور مجھے یاد نہیں رہےاور آخر میں ارشاد فرمایا : اے ابن عباس! اگر میں چاہوں تو سورہ حمد کی تفسیر میں اتنا بیان کروں کہ ستر اونٹ بھی اس وزن کو نہ اٹھا سکیں۔

بحار، ج ۴۰ ، ص ۱۵۷ ۔

اللہ تعالی سےدعاءہےکہ اہلبیت علیہم السلام کےمتعلق ہماری معرفت میں روزبروزاضافہ فرمائےانشاءاللہ۔

تیسری مجلس

اہلبیت نبوت

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا )

سورہ حشر، آیت ۷ ۔

اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسےلے لو اور جس چیز سےمنع کردے اس سےرک جاؤ۔

امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

ہماراموضوع زیارت جامعہ کی نظرمیں ائمہ معصومین (ع)کامقام ہےہم اپنی بحث کی ابتدا میں مقام امامت اورائمہ معصومین(ع)کا مقام نبوت اورانبیاءسےمقایسہ کریں گے ۔

زیارت جامعہ کا سب سےپہلا جملہ یہ ہے:

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

یہاں اہلبیت نبوت کہا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النبی

اس جملےسےسمجھ میں آتاہےکہ رسول اکرم(ص)کےدوگھرہیں: ایک ظاہری اورمادی گھردوسراباطنی، روحانی اورمعنوی گھر،ظاہری اورنسبی لحاظ سےتو بحث کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں حضرت زہرا(ع)اورائمہ معصومین(ع)، رسول اکرم(ص) کےنسبی فرزند ہیں۔

رسول اکرم(ص) کےدوسرے گھر سےمراد مقام نبوت اور مقام خاتمیت ہےکہ جس گھر کا سامان اللہ تعالی کےنام اور صفتیں ہیں یعنی نبوت کا گھر اللہ تعالی کی قدرت مطلقہ، حیات مطلقہ اور اللہ تعالی کی ملکوتی اور جبروتی صفتوں سےبنایا گیا ہے۔ ایک بزرگ نےاس بارے میں بہترین تعبیر استعمال کی ہےوہ فرماتے ہیں : نبوت کےگھر کےدو، دروازے ہیں ایک دروازہ عالم وحدت، عالم توحید اور اللہ تعالی کی طرف کھلتا ہےاور دوسرا دروازہ عالم کثرت اور عالم خلق کی طرف کھلا ہو ا ہے۔ رسول اکرم(ص) عالم توحید سےعلم، رحمت، حیات، اور تمام کمالات لیتے ہیں اور دوسرے دروازے سےرسول اکرم(ص) وہ علم، رحمت، حیات، اور تمام کمالات، پوری مخلوق کےحوالے کرتے ہیں یہاں تک کہ انبیاء اور فرشتوں کو بھی فیض آپ کےدروازے سےملتا ہے۔

شرح زیارت جامعہ فخر المحققین، شیخ الاسلام شیرازی، ج ۱ ، ص ۲۶ ۔

مثال کےطورپرہمارےپاس بجلی کا ایک آلہ ہےجسےہم فیوزکہتے ہیں اسکاکام یہ ہےکہ وہ آگےسےبجلی لیتاہےاورگھرکےتمام بجلی والےسامان کوجیسےلائٹیں وغیرہ سب کو ان کےحساب اورظرفیت جتنی بجلی دیتا ہے۔ اسی طرح رسول اکرم(ص) بھی اللہ تعالی سےبرکتوں اور رحمتوں کو لیتےہیں اورہرانسان اورہرموجود کواس کی ظرفیت کےلحاظ سےدیتے ہیں۔

قرآن میں بھی اس کی مثال موجود ہےجو گذشتہ مثال سےبھی بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )

سورہ آل عمران، آیہ ۱۰۳ ۔

اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سےپکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو ۔

یعنی قرآن نےحضرت علی(ع) اور ائمہ معصومین(ع) کو ایک رسی سےتشبیہ دی ہے۔

تفسیر صافی، ج ۱ ، ص ۳۶۵ ۔

اب سوال یہ پیداہوتاہےکہ قرآن نےحضرت علی(ع)اورائمہ معصومین(ع)کورسی سےتشبیہ کیوں دی ہے؟ہم اس سوال کےچند جواب دیتے ہیں :

پہلا:

کیونکہ رسی اوپر سےنیچے کی طرف لٹکتی ہے۔ اللہ تعالی بھی یہی سمجھانا چاہتا ہےکہ جیسےہم نےقرآن کو اوپر سےتمہاری طرف نازل کیا ہےاسی طرح اہلبیت(ع) کوبھی عالم بالا اور عالم معنی سےتمہاری ہدایت کیلئے تمہاری طرف بھیجا ہے۔

دسرا:

رسی کےدو، سرے ہوتے ہیں ایک سرا نیچے کی طرف اور دوسرا، سرا، اوپر کی طرف ہوتا ہےائمہ معصومین(ع) بھی اسی طرح دو شخصیتوں کےمالک ہیں : ایک شخصیت بشری اور دوسری شخصیت نور الاہی والی ہے۔ ائمہ معصومین(ع) رسی کےاوپر والے حصے کےذریعے، اپنی نور والی شخصیت کےذریعے اللہ تعالی سےمتصل ہیں اور عالم وحدت اور عالم توحیدسےرازونیاز کرتے ہیں۔ اور رسی کےدوسرے حصے کےذریعے، یعنی اپنی بشری شخصیت کےذریعے اس دنیا میں آئے ہیں تاکہ ہم دنیا تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچا سکیں اورہمیں دنیاکےکنویں، پستی اور تہ سےاللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچائیں۔

ائمہ معصومین(ع) میں رسول اکرم(ص)کی خوبیاں

اس بناپرکہ ائمہ معصومین(ع)، اہل بیت نبوت ہیں تووہ نہ صرف نبی کےگھروالےہیں بلکہ نبوت کےگھروالےبھی ہیں۔وہ تمام صفات جورسول اکرم(ص) کےباطنی اورمعنوی گھرمیں ہیں وہ اہل بیت بھی میں پائی جا تی ہیں۔اس مطلب کی تائیدکیلئےہم چندروایتوں کی طرف اشارہ کرتےہیں :

پہلی روایت:

امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

مَاجَاءَ بِهِ علی ع آخُذُ بِهِ وَمَا نَهَى عَنْهُ أَنْتَهِي عَنْهُ جَرَى لَهُ مِنَ الْفَضْلِ مَاجَرَى لِمُحَمَّدٍ ص وَ لِمُحَمَّدٍ ص الْفَضْلُ عَلَى جَمِيعِ مَنْ خَلَقَ اللَّهُ؛

جس کا حضرت علی(ع) حکم دیتے ہیں ہم انجام دیتے ہیں اور جس سےحضرت علی(ع) روکتے ہیں ہم رک جاتے ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ جتنےفضائل اور کمالات کےمالک رسول اکرم(ص) ہیں اتنےفضائل اور کمالات حضرت علی(ع) میں بھی پائے جاتے ہیں۔

اس بنا پر جب قرآن فرماتا ہے:

( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا )

سورہ حشر، آیت۷۔

اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسےلے لو اور جس چیز سےمنع کردے اس سےرک جاؤ۔

یعنی جو رسول اکرم(ص) دے دے اسےلے لو اور جس سےمنع کرے اس سےرک جاؤ یہ روایت اس کےساتھ لگائیں تو اس طرح ہو جائے گا :

وَمَا آتَاكُمُ علی فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا

سورہ حشر، آیت ۷ ۔

اورجوکچھ بھی حضرت علی(ع)تمہیں دیدے اسےلےلواورجس چیزسےمنع کردےاسسےرک جاؤ۔ کیونکہ رسول اکرم(ص)اورحضرت علی(ع)دونوں کےفضائل اورکمالات برابرہیں۔رسول اکرم(ص)تمام مخلوق سےافضل ہیں حضرت علی(ع)،رسول اکرم(ص)کےبرابر ہیں اس سےیہ نتیجہ نکلتا ہےکہ حضرت علی(ع) بھی رسول اکرم(ص) کی طرح تمام مخلوق سےافضل ہیں۔ روایت اس سےآگے بڑھتی ہےاور ارشاد ہوتا ہےکہ :

و کذلک یجری لائمة الهدی واحد بعد واحد؛

یہ رسول اکرم(ص)کی برابری والاحکم اورتمام مخلوق سےافضلیت والاحکم ایک کےبعددوسرےتمام ائمہ معصومین(ع)میں پایاجاتاہے۔

ہم یہاں پر ایک دلچسپ نکتہ بیان کرنےکیلئے ایک سوال پیش کرتےہیں : اللہ تعالی نےاپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں مباہلہ والی آیت

سورہ آل عمران، آیت ۶۱ ۔

میں جمع کا صیغہ کیوں ارشاد فرمایاہے؟ حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ۔ یا جب

( الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ )

سورہ مائدہ، آیت ۵۵ ۔

وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نےمسجد میں نماز کےاندر حالت رکوع میں حضرت علی(ع) کی سخاوت کا تذکرہ کیاہےتو جمع کا صیغہ کیوں ارشاد فرماتا ہے؟ حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کہ جب ان تمام آیتوں میں حضرت علی(ع) اکیلے مراد ہیں تو قرآن نےجمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے؟

زمحشری جو کہ اہلسنت کےعلماء میں سےہیں فرماتے ہیں : یہ آیت درس دینےکیلئے ہےتربیت کرنےکیلئے ہےکہ آپ لوگ بھی اس کام کوانجام دیں۔ لیکن یہ بات غلط ہےکیونکہ دوسرےافراد لاکھوں انگوٹھیاں بھی دیں تو بھی کوئی آیت نازل نہ ہوگی۔ یہ واقعہ مخصو ص ہےشان امامت کےساتھ کہ اللہ تعالی ان کےہر کام کیلئے آیت نازل کرتاہے۔

یا جہاں قرآن نےحضرت علی(ع) کےرسول اکرم(ص) کےبستر پر سونےکا اور اپنی جان کو رسول اکرم(ص) کی جان پر فدا کرنےکا تذکرہ کیا ہےتو جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیاہے؟

سورہ بقرہ، آیت ۲۰۷ ۔

حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہےکہ : ان آیتوں کےمصداق تمام ائمہ معصومین(ع) ہیں کیونکہ تمام ائمہ معصومین(ع) کی حققیت ایک ہےاللہ تعالی نےچاہا کہ تمام ائمہ معصومین(ع) کو ایک ساتھ بیان کرے ۔ اس لئے اللہ تعالی نےقرآن میں جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔

اب دوسرا سوال یہ وجود میں آتا ہےکیسےممکن ہےحضرت علی(ع) کےکام کو اللہ تعالی تمام ائمہ معصومین(ع) کی طرف نسبت دے؟ تو اس بات کا جواب خود قرآن مجید میں موجود ہےجہاں اللہ تعالی نےحضرت علی(ع) کو رسول اکرم(ص) کا نفس قرار دیا ہےاور حضرت علی(ع) کےفعل کو رسول اکرم(ص) کا فعل قرار دیاہے۔ اب جب ان کا نفس ایک ہےتو اس بات سےان کا اتحاد ثابت ہوگا اور ان کا فعل بھی ایک ہوگا اب یہ صرف حضرت علی(ع) کا فعل شمار نہ ہوگا بلکہ تمام ائمہ معصومین(ع) کا فعل ہوگا مثلا اگر حضرت علی (ع) نےانگو ٹھی دی تو ہم کہہ سکتے ہیں امام صادق(ع) نےنماز کی حالت رکوع میں انگوٹھی دی۔

ہم اس بات کی تائید کیلئے ایک مطلب کو بیان کرتے ہیں جو امام صادق(ع)نےارشاد فرمایا،جس کومفضل نےنقل کیا ہےجو بہت تفصیلی روایت ہےتقریبا تیس صفحوں کی روایت ہے۔ اس میں امام(ع) ارشاد فرماتے ہیں : جب امام زمانہ(ع) ظہور فرمائیں گے پہلے اور دوسرے کو ان کی قبروں سےباہر نکالیں گے اور ان کو تازیانےماریں گے۔

نوائب الدھور، ج ۳ ، ص ۱۳۲ ۔

دوسری طرف امام محمد تقی(ع) جب تین یاچار سال کےتھے تو انہوں نےارشاد فرمایا :اللہ تعالی کی قسم میں پہلے اور دوسرے کو ان کی قبروں سےنکال کر جلاو ٔں گا اور ان کی مٹی کو ہوا میں اڑاؤں گا۔

بیت الاحزان، ص ۱۲۴ ۔

اب ان دو روایتوں کو کیسےجمع کیا جائے؟ اب اس کام کو کون انجام دے گا امام زمانہ(ع) یا امام محمد تقی(ع) ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہےکہ : ان دونوں میں کوئی فرق نہیں امام زمانہ(ع) انجام دیں یا امام محمد تقی(ع) بات ایک ہی ہےکیونکہ ان کی حقیقت ایک ہےتوان کا فعل بھی ایک ہےاسلئے ایک کےکام کو دوسرے کا کام کہا جا سکتا ہے۔

دوسری روایت

امام علی(ع) فرماتے ہیں :

إِنِّي وَ إِيَّاهُ لَعَلَى سَبِيلٍ وَاحِدٍ إِلَّا أَنَّهُ هُوَ الْمَدْعُوُّ بِاسْمِه‏

بحار، ج ۲۵ ، ص ۳۵۴ ۔

میں اور رسول اکرم(ص) ایک راستے پر ہیں فرق صرف یہ ہےرسول اکرم(ص) کو ان کےنام سےپکا را جاتا ہے۔

یعنی ہم میں کوئی فرق نہیں فرق صرف یہ ہےمیرا نام علی (ع) ہےاور رسول اکرم(ص) کا نام محمد ہےمجھے نبی نہیں کہا جاتا اور ان کو نبی کہا جاتا ہےوہ نبی ہیں اور میں وصی ہوں۔ حضرت علی(ع) فرمانا چاہتے ہیں کہ : مجھے بنی نہیں پکار ا جاتا لیکن نفس نبوت اور حقیقت نبوت میرے اندرموجود ہے۔

لقمان اورنبوت

حضرت لقمان کا قصہ بھی ایسا ہےاللہ تعالی نےحضرت لقمان کی طرف فرشتے کو پیغام دے کر بھیجا لقمان سےپوچھو کیا میں تمہیں لوگوں کی ہدایت کیلئے نبی مقرر کروں ؟ لقمان نےفرشتے سےپوچھا : یہ حکم ہےیا میری مرضی پر ہے؟ اللہ تعالی کا جواب آیا : تیری مرضی پر ہے۔ تو لقمان نےعرض کیا : پروردگارا ! اگر میری مرضی پر ہےتو میں اس ذمیداری کو اٹھانا نہیں چاہتا۔

تفسیر صافی، ج ۴ ، ص ۱۴۱

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ :اگر لقمان نبوت کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کیا اللہ تعالی اس پر ابلاغ نہیں کرتا ؟ اس واقعے کی بنیاد پر حضرت لقمان نبی نہیں تھے۔ لیکن شان نبوت رکھتے تھے اور کئی نبیوں سےافضل تھے ۔ قرآن مجید میں بہت سارے نبیوں کےنام پر سورتیں ہیں جیسےآدم، ابراہیم، یوسف، نوح اور تمام نبیوں کےنام پہ ایک سورت، سورت انبیاء آئی ہےاور حضرت لقمان کےنام پہ ایک سورت نازل ہوئی ہےاس سےحضرت لقمان کی منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس بناپر ممکن ہےکوئی ظاہرا نبی اور رسول نہ ہو لیکن نبوت اور رسالت والا مرتبہ، صلاحیت اور شان رکھتا ہو جیسا کہ کہا جا تا ہےرسول اکرم(ص) کی امت کےعلماء بنی اسرائیل کےنبیوں سےافضل ہیں۔

المزار شیخ مفید، ص ۶ ۔

اس بات پر تعجب نہ کریں کیونکہ اس دور میں نبوت نہیں ہےورنہ بہت سارے افراد نبوت والی شان رکھتے ہیں (لیکن کوئی بھی نہ رسول اکرم(ص) جتنی شان رکھتا ہےنہ ائمہ معصومین(ع) جتنی لیاقت )

تیسری روایت :

ایک دن ابوذر، سلمان کےپاس آئے اورعرض کیا : اے سلمان! امیرالمومنین(ع) کی معرفت کیسی ہے؟ سلمان بھی ہوشیار آدمی تھا ۔ اس نےجواب میں کہا : خود امیرالمومنین(ع) سےپوچھتے ہیں ؟ وہ دونوں امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں آئے اور سوال کیا مولا آپ کی معرفت کیسی ہے؟ حضرت علی(ع) نےجواب میں فرمایا :

مَعْرِفَتِي بِالنُّورَانِيَّةِ مَعْرِفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مَعْرِفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَعْرِفَتِي بِالنُّورَانِيَّة

بحارالانوار، ج۲۶، ص ۲

جس نےہماری نورانی معرفت کو سمجھا اسےاللہ تعالی کی معرفت حاصل ہوئی اور جسےاللہ تعالی کی معرفت ملی اسےہماری نورانی معرفت حاصل ہوگی۔

اب یہاں دو چیزیں نہیں بلکہ ایک چیز ہے۔ ہماری معرفت، اللہ تعالی کی معرفت ہےاور اللہ تعالی کی معرفت، ہماری معرفت ہے۔ اس کےبعد امیرالمومنین نےفرمایا :

أَنَا مُحَمَّدٌ وَ مُحَمَّدٌ أَنَا وَ أَنَا مِنْ مُحَمَّدٍ وَ مُحَمَّدٌ مِنِّي‏؛

میں، محمد ہوں اور محمد، علی ہے۔ میں محمدمیں سےہوں اور محمد، مجھ سےہے۔ اس کےبعد امیرالمومنین(ع) نےفرمایا:

أَنَا الَّذِي حَمَلْتُ نُوحاً فِي السَّفِينَةِ بِأَمْرِ رَبِّي وَ أَنَا الَّذِي أَخْرَجْتُ يُونُسَ مِنْ بَطْنِ الْحُوتِ بِإِذْنِ رَبِّي‏ وَ أَنَا الَّذِي أَخْرَجْتُ إِبْرَاهِيمَ مِنَ النَّارِ بِإِذْنِ رَبِّي‏ َنَا أُحْيِي وَ أُمِيتُ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا أُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا عَالِمٌ بِضَمَائِرِ قُلُوبِكُم‏؛

نوح(ع)، کو غرق ہونےسےبچانےوالا میں ہوں ۔ یونس(ع)، کو مچھلی کےپیٹ سےنجات دینےوالے میں ہوں ۔ ابراہیم(ع)، کو فرعون کی آگ سےبچانےوالا ۔اللہ تعالی کےحکم سے۔ میں ہوں ۔ میں اللہ تعالی کےحکم سےزندہ کرتا ہوں، میں اللہ تعالی کےحکم سےمارتا ہوں، میں لوگوں کےگھروں اور دلوں کےحال بتاتا ہوں، میں تم لوگوں کےباطن سےآگاہ ہوں۔

امیرالمومنین(ع) کلام کرتے رہےیہاں تک کہ ارشاد فرمایا :

وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ أَوْلَادِي ع يَعْلَمُونَ وَ يَفْعَلُون‏؛

یہ خصوصیتیں تمام ائمہ معصومین(ع) کی ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ ہم ایک نور سےہیں اور لانا کلنا محمد؛ ہم سب کےسب محمد ہیں ۔

أَوَّلُنَامُحَمَّدٌوَآخِرُنَامُحَمَّدٌوَأَوْسَطُنَامُحَمَّدٌوَكُلُّنَامُحَمَّدٌفَلَاتَفَرَّقُوابَيْنَنَاوَنَحْنُ إِذَاشِئْنَاشَاءَاللَّهُ وَإِذَا كَرِهْنَا كَرِهَ اللَّه‏؛

ہم میں سےپہلا بھی محمد ہےاور آخری بھی محمد ہےاور بیچ والا بھی محمد ہے۔ ہم میں کوئی فرق نہیں اگر ہم چاہتے ہیں تو اللہ تعالی بھی چاہتا ہے۔ اگر ہم کسی چیز کو پسند نہیں کرتے تو اسےاللہ تعالی بھی پسند نہیں کرتا ۔

ان تمام باتوں سےنتیجہ نکلا کہ ائمہ معصومین(ع) تمام فضائل اور کمالات میں رسول اکرم(ص) کےبرابرہیں اور تمام ائمہ معصومین (ع) بھی تمام فضائل اور کمالات میں مشترک ہیں ۔

چوتھی مجلس

رسول اکرم(ص)اورامیرالمومنین(ع)کی مشترک خصوصیتیں

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( فَسْئَلُواأَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُون ‏)

سورہ نحل، آیت ۴۳ ۔

اگرتم نہیں جانتے ہو تو جاننےوالوں سےدریافت کرو۔

امام علی(ع) نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

ہماری گفتگو زیارت جامعہ کےمتعلق تھی جو یہاں تک پہنچی کہ : بہت ساری حدیثوں سےاور روایتوں سےپتا چلتا ہےکہ ائمہ معصومین(ع) تمام فضائل اور کمالات میں رسول اکرم(ص) کےبرابرہیں اور تمام ائمہ معصومین (ع) بھی تمام فضائل اور کمالات میں مشترک ہیں ۔ جو بھی رسول اکرم(ص) کا کمال ہےوہ حضرت علی(ع) کا کمال ہےاور تمام ائمہ معصومین(ع) کا کمال ہےاس بات کی زیادہ وضاحت کیلئے ہم یہاں رسول اکرم(ص) اور امیرالمومنین(ع) کی چند مشترک خصوصیتیں بیان کرتے ہیں۔ ان مشترک خصوصیتوں کو اہلسنت کےدو بزرگ عالموں نےبیان کیا ہےایک کا نام سلمان بلخی ہےجنہوں نےاپنی کتاب ینابیع المودہ میں بیان کیا ہے۔ دوسرے بزرگ عالم کا نام میر سید علی ہمدانی ہےجنہوں نےاپنی کتاب مودہ القربی میں نقل کیا ہے۔

اخلاق حسنہ اورصفتوں میں برابری

رسول اکرم(ص)ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

اشبه خلقک خلقی و اشبه خلقی خلقک؛

اے علی ! تیرا، اخلاق، صفتیں اور رفتار میری طرح ہےاور میرا، اخلاق، صفتیں اور رفتار تمہاری طرح ہے۔

قادتنا کیف نعرفھم، ج ۱ ، ص ۳۳۳ ۔

رسول اکرم(ص) اس حدیث میں صرف چند صفتوں کی بات نہیں کر رہےبلکہ رسول اکرم (ص) کا فرمان تمام اخلاق اور صفتوں کےبارے میں ہے۔ قرآن کا فرمان ہےکہ:

( وَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظيم )

سوره قلم، آیت۴

رسول اکرم(ص) خلق عظیم کےمالک ہیں۔ حضرت علی (ع)کا اخلاق رسول اکرم(ص) کےاخلاق کی طرح ہےیعنی اے علی! انک لعلی خلق عظیم؛ حضرت علی (ع)بھی خلق عظیم کےمالک ہیں۔ یہاں دلچسپ نکتہ یہ ہےکہ رسول اکرم(ص) نےصرف حضرت علی (ع)کو خود سےتشبیہ نہیں دی بلکہ خود کو بھی حضرت علی (ع)سےتشبیہ دی ہےتاکہ یہاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اصل اور فرع کی بات ہےنہیں! یہاں برابری ہےحضرت علی (ع)کو رسول اکرم(ص) جیسا کہیں یا، رسول اکرم(ص) کو حضرت علی (ع)جیسا کہیں کوئی فرق نہیں بات ایک ہی ہے۔

اللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلَاء والی دعا میں ہم پڑہتے ہیں یامحمد یاعلی، یاعلی یا محمد، علی کی جگہ محمد کا نام رکھتے ہیں اور محمد کی جگہ علی کا نام رکھتے ہیں ۔ ایک کی جگہ دوسرے کا نام رکھنا کس بات کی خبردیتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہےکہ رسول اکرم(ص) کا نام پہلے لو یا حضرت علی (ع)کا بات ایک ہےکیونکہ یہ دونوں تمام کمالات میں برابر ہیں۔

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ لَوْلا فَضْلُ اللَّهِ علیكُمْ وَ رَحْمَتُه )

سورہ نور، آیت ۲۱

اوراگرتم پر اللہ کافضل اوراس کی رحمت نہ ہوتی۔

اس آیت کی تفسیرمیں موجود روایتوں میں آیا ہےکہ: فضل اللہ سےمراد رسول اکرم(ص) ہیں اور رحمتہ سےمراد حضرت علی (ع)ہیں۔

البرھان، ج ۱ ، ص ۳۹۸ ۔

یا دوسری روایت کےمطابق فضل اللہ سےمراد حضرت علی (ع)ہیں اور رحمتہ سےمراد رسول اکرم(ص) ہیں۔

ان روایتوں کا مقصد یہ ہےکہ فضل اللہ سےمراد رسول اکرم(ص) لیں یا حضرت علی (ع)بات ایک ہےاسلئے رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :

يَا علی أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْك‏؛

مناقب ابن شھر آشوب، ج ۲ ، ص ۳۳ ۔

اے علی ! تو مجھ سےہےاور میں تم سےہوں۔

اوپر والی روایت (شباہت والی روایت ) سےیہ بات بھی سمجھ میں آتی ہےکہ ہم قیامت تک رسول اکرم(ص) اور حضرت علی (ع)کی شباہتوں کو شمار کرتے رہیں پھر بھی ختم نہ ہونگی۔اس لئے جس سنی عالم نےاس روایت کو ذکر کیا ہےوہ عالم فرماتے ہیں : رسول اکرم(ص) اور حضرت علی (ع)کی شباہتیں آسمان کےستاروں اور صحراء میں موجود ریت کےذروں سےبھی زیادہ ہیں۔

خلقت میں برابری

رسول اکرم(ص) نےعبداللھ بن مسعود سےارشاد فرمایا:

كُنْتُ أَنَا وَ علی نُوراً بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَام‏

بحار، ج ۳۵ ، ص ۲۴ ۔

میں اورعلی،خداکےسامنےایک ہی نورتھےخدا کےآدم کوپیداکرنےسےچودہ ھزارسال پہلے، پھرآدم کےصلب میں منتقل ہوئےپھراسی طرح ایک ہی نورکی صورت میں صلب ابراھیم میں قرارپائےیہاں تک کہ اس نورکےدو ٹکڑےہوےآدھ عبداللہ کےصلب میں اورآدھاابو طالب کےصلب میں منتقل ہوا۔خدانےفرمایا:میں اس نورکےدوحصےکرتاہوں پیغمب کونبوت اورامیرالمومنین (ع)کووصایت عطا کرتا ہوں۔

چودہ ہزارسال سےمرادشاید یہ ہوکہ خداوندنےحضرت آدم کوپیداکرنےسےپہلےچودہ معصومین کےنورکوپیداکیا۔

اخوت اوربرادری

ایک سنی عالم کا کہنا ہے:خداوندمتعال نےرسول اللہ کوحکم دیا کہ اپنےاورعلی کےدرمیان عقد اخوت پڑھے۔رسول اکرم(ص)نےجب ہجرت کےبعدمسلمانوں کےدرمیان عقد اخوت جاری کیا تو اس کام کو انجام دیا۔ اس برادری کا مطلب یہ تھا کہ کمالات، صفات اورمسئولیت کےاعتبار سےیہ دونوں معنوی برادر ایک جیسےہیں۔

اسی طرح رسول اللہ سےحدیث معراج میں منقول ہےکہ آپ نےفرمایا: جب میں معراج پر گیا تو کسی نےحجاب کےاس طرف سےندادی:

نِعْمَ الْأَبُ أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ وَنِعْمَ الْأَخُ أَخُوكَ علی‏ فاستوص به

طرائف، ص ۴۱۴ ۔

اچھے باپ حضرت ابراہیم ہیں اوراچھےبھائی علی ہیں اپنی امت کواسی کی وصیت کرنا اسےاپنا وصی بنانا۔

جن روایات کوشیعہ اورسنی دونوں نےنقل کیاہے،ان میں آیاہےکہ رسول اکرم(ص)نےجان کنی اوراحتضارکےوقت فرمایا:میرےبھائی کوکہوکہ میرےپاس آئےعائشہ اورحفصہ نےابوبکرکوبلانےکےلئےکہاجب وہ آئےتوپیغمبرنےفرمایا:میں نےکہاکہ میرےبھائی کوبلاوپھران دونوں نےعمرکو بلانےکیلئے کسی کوبھیجا۔ جب وہ آیا تو آنحضرت نےفرمایا: میں نےکہا کہ میرےبھائی کوبلاؤ۔ تیسری بارعثمان کوبلانےکیلئےکسی کوبھیجنا چاہاتو ام سلمہ نےچیخ کرکہا، کسی کوعلی کوبلانےکیلئےبھیجو کیاتمہیں پتانہیں کہ پیغمبرکابھائی علی ہے؟پھرمجبورامولاکوبلوانےکیلئےکسی کوبھیجا،جب امیرالمومنین تشریف لائے تو لوگوں کی طرف پیٹھ کر کےرسول اللہ سےباتیں کرنےلگےبعدجب حضرت سےپوچھا گیا کہ جب آپ لوگوں کی طرف پیٹھ کرکےبیٹھےتورسول اللہ نےآپ کوکیا فرمایا؟جواب دیا:رسول اللہ نےمجھےہزارباب کی تعلیم دی اور پھر ہر باب میں سےمیرے لئے دو ہزار باب کھولے

کافی، ج ۱ ، ص ۲۹۶ ؛ میزان الاعتدال، ج ۲ ، ص ۴۸۳ ۔

امام خمینی اس قضیہ کو بڑی اچھی تعبیرسےبیان کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے:علم کےوہ ہزارچشمے ان علوم میں سےنہیں ہیں جو ہم تک پھنچے ہیں مطلب یہ کہ علم فقہ، اصول، کلام وغیرہ نہیں ہیں بلکہ ان سےما فوق اور بڑہ کر ہیں ان کےپاس ایسےعلوم ہیں جن کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس قسم کےعلوم ہیں۔

صحیفہ نور، ج ۱۹ ، ص ۷ ۔

مدت عمرمیں برابری

رسول اکرم(ص)اورامام علی کی تیسری شباہت یہ ہےکہ ان دونوں کی مدت عمر ۶۳ سال تھی۔ ان سب میں کوئی رازہے۔منقول ہےکہ حضرت کی خدمت میں فالودہ لے کر آئے تو حضرت نےتناول نہیں کیا اور ارشاد فرمایا: میرے حبیب نےتناول نہیں کیا تو میں بھی نہیں کھاونگا۔

بحار، ج ۴۰ ، ص ۳۲۷ ۔

یعنی ان دو ہستیوں کا آپس میں اتنا گہرا رابطہ تھا یا یہ جو منقول ہےکہ حضرت علی (ع)کبھی بھی مکہ میں سوئے نہیں جب حضرت سےسوال کیا گیا کہ کیوں آپ مکےمیں سوئے نہیں، رات کو اتنی مشقت اٹھاتے ہیں کہ مکےسےباھر جا کر سوئیں؟ فرمایا: کیوں کہ میرے حبیب کو مکہ سےجلا وطن کیا گیا، میں نہیں چاہتا اس میں آرام کروں۔

علل الشرایع، ج ۲ ، ص ۳۱۱

بشرکی بنسبت اولی ہونا

وہ سنی عالم، احکام اور قوانین میں سب انسانوں کےبنسبت رسول اکرم(ص) اور علی کےاولی ہونےکیلئے اس آیت کو پیش کرتا ہے:

( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهيمَ لَلَّذينَ اتَّبَعُوهُ وَ هذَا النَّبِي‏؛ )

سوره آل عمران، آیت۶۸

یقینا ابراہیم علیہ السّلام سےقریب تر ان کےپیرو ہیں۔

ابراہیم کےنزدیک وہی لوگ ہیں جو ایک تو حضرت ابراہیم کی اطاعت کریں اور دوسرا یے کہ اس رسول کو مانتے ہوں البتہ یہاں ابراہیم کی اطاعت سےرسول اللہ کی استثنا کی گئی ہے۔

پھر دوسری آیت لے آتا ہے:

( النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم )

سوره احزاب، آیت ۶ ۔

بیشک نبی تمام مومنین سےان کےنفس کےبہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔

جالب یہ ہےکہ یہ نہیں فرمایامِنْ فسِهِم بلکہ فرمایاہےمِنْ أَنْفُسِهِم کیونکہ مقصد یہ ہےکہ رسول اکرم(ص)لوگوں کی جان کی بنسبت،شخص و شخصیت کی بنسبت اولویت رکھتے ہیں،اولویت کا سبب یہ ہےکہ رسول اکرم(ص)وہی خداوالاحکم رکھتے ہیں،یعنی جس طرح خداکائنات پرحاکم ہے،رسول اللہ بھی حاکم ہیں۔اگرکہا جائےکہ کیوں حضرت خضرن جرم سےپہلے قصاص لیا اوراس جوان کو قتل کردیا؟ جواب میں ہم کہیں گے کہ جو کام نبی خدا سےصادر ہو وہ وہی ہےجو خدا سےصادر ہو۔

( مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ‏ اللَّه )

سورہ نسا ، آیت ۸ ۔

جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نےاللہ کی اطاعت کی

( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ؛ )

سورہ فتح، آیت۱۸۔

یقیناخداصاحبانِ ایمان سےاس وقت راضی ہوگیاجب وہ درخت کےنیچےآپ کی بیعت کررہےتھے

بریدہ نقل کرتا ہے: میں حضرت علی (ع)کےزیر رکاب یمن میں جھاد کر رہا تھا میں نےعلی میں کچھ دیکھا جب میں نےوہ بات رسول اللہ کو بتائی اور علی پر اعتراض کیا میں نےدیکھا کہ رسول اللہ کا مبارک چہرا سرخ ہو گیا اور آپ نےفرمایا:

أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِم‏

اے بریدہ کیا میں مومنین کی بنسبت ان سےزیادہ حق نہیں رکھتا ؟ میں نےعرض کیا جی ہاں آپ نےفرمایا:

فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعلی مَوْلَاهُ؛

یعنی جس طرح میں تم پر حق رکھتا ہوں میرے بعدعلی بھی تم سب پر زیادہ حق رکھتے ہیں۔

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۰۶ ۔

پہلےمسلمان

قرآن مجید میں ایک آیت ہےجو پہلے مسلمان کو بیان کر رہی ہے:

( لا شَريكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمين )

سورہ انعام، آیت۱۶۳۔

اس کا کوئی شریک نہیں ہےاور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہےاور میں سب سےپہلا مسلمان ہوں۔

یہ آیت رسول اللہ کےبارے میں ہےآپ ارشاد فرماتے ہیں : پہلا مسلمان اور خدا کےسامنےپہلا تسلیم ہونےوالا میں ہوں پھر وہ سنی عالم کہتا ہے:

أَنَّ علیاً أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۹۱

بتحقیق سب سےپہلےاسلام قبول کرنےوالےعلی ہیں اسی طرح رسول اکرم(ص)جو پہلے مسلمان ہیں، حضرت علی (ع)کیلئے فرمارہےہیں :

هَذَا أَفْضَلُكُمْ حِلْماً وَ أَعْلَمُكُمْ عِلْماً وَ أَقْدَمُكُمْ سِلْما علی حلم

بحار، ج ۳۸ ، ص ۸۸ ۔

میں تم سب سےافضل ہیں، علم میں تم سب سےبڑےعالم ہیں،اسلام میں تم سب پرسبقت کرنےوالےہیں۔ یعنی جس طرح پیغمبرپہلےمسلمان ہیں علی بھی پہلے مسلمان ہیں، خدا و رسول کےآگےتسلیم ہیں۔

پیغمبر و علی کےسائے تلے

وہ کہتاہے: ایک شخص رسول اکرم(ص)کی خدمت میں آیا، عرض کرنےلگا: یا رسول اللہ آپ انبیاءکےدرمیان کونسا منصب رکھتے ہیں ؟ حضرت نےفرمایا:

آدَمُ وَ مَنْ دُونَهُ تَحْتَ لِوَائِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۶۳ ۔

آدم اور اس کےبعد آنےوالے (چاہےنبی ہوں یا امتی) قیامت کےدن میرے پرچم تلے ہونگے۔ حضرت علی (ع)کےبارے میں بھی رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں :

بِيَدِهِ لِوَاءُ الْحَمْد؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۷۰ ۔

حق کا پرچم علی کےہاتھ میں ہوگا۔ اس جملے کی یہ معنی نہیں ہےکہ مولا کےہاتھوں میں ایک علم ہوگا جس کےسائے میں سب ہونگے بلکہ آپ تو ایک تکوینی اورحقیقی مطلب کو بیان کرنا چاہتے ہیں مطلب یہ کہ لوائےحمد کی حقیقت خود مولا علی ہےکیونکہ مولا علی کا فرمان ہے: بسم اللہ کی "با" کےنیچے والا نقطہ میں ہی ہوں

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۱۳ ۔

اور بشرسےصادر ہونےوالا پہلا حرف "با "ہےجیسا کہ اس آیت میں ہے

( أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى )

سورہ اعراف، آیت ۱۷۲۔

کیا میں تمھارا خدا نہیں ہوں تو سب نےکہا بیشک ہم اس کےگواہ ہیں۔

اس لئے خدا نےحرف با کا انتخاب کیا اور بسم اللہ میں اسےلے آئے۔

رسالات الاسلامیہ، ص ۸۹ ۔

پس علی کا ہاتھ یداللھ ہےوہ بھی ایسا ہاتھ جو تمام حقائق و معارف رکھتا ہےجو کچھ خدا کےہاتھ میں ہےوہ سب امیرالمومنین (ع) کےہاتھ میں ہے۔

پیغمبر کو ستانا، علی کو ستانا ہے

ستانےکےبارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے:

( إِنَّ الَّذينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهينا )

سورہ احزاب، آیت۵۷

یقیناجولوگ خدا اور اس کےرسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہےاور خدا نےان کےلئے رسواکن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے۔یہ ایک سنی عالم کہہ رہا ہے: رسول اللہ نےارشاد فرمایا:

مَنْ آذَى علیاً فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّه‏؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۱۰۱ ۔

جس نےبھی علی کو تکلیف دی اس نےمجھے تکلیف دی جس نےمجھے ستایا اس نےخدا کو ستایا ۔

علی سےجدا ہونا

وہی سنی عالم، حضرت علی (ع)سےجدا ہونےکےبارے میں کہہ رہاہے:

مَنْ فَارَقَ علیاً فَقَدْ فَارَقَنِي و مَنْ فَارَقَنِي فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ ؛

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۷۳

علی سےمفارقت رسول اللہ سےمفارقت اورجدائی ہےکیونکہ رسول اللہ کاارشادہے:جوبھی علی سےجدا ہوا وہ مجھ سےجدا ہوا اورجومجھ سےجدا ہوا وہ خداسےجدا ہوا۔

ولایت علی

رسول اکرم(ص)اورمولا علی کی شباہتوں میں سےایک ولایت کامسئلہ ہےیعنی جس طرح رسول اکرم (ص) مومنین پرولایت رکھتےہیں اور ان کی ولایت قبول کئے بغیر کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی بالکل اسی اطرح مولا علی بھی ولایت رکھتے ہیں رسول اکرم(ص)نےفرمایا:

مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعلی مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَه‏

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۹۸

رسول اکرم(ص)کس کےمولا ہیں؟ تمام انبیا، فرشتوں کےبلکہ پوری کائنات کےمولا ہیں یعنی رسول اکرم(ص)فرما رہےہیں : خدایا میں جس کابھی مولا ہوں، درجہ اورمرتبہ کوکم زیادہ کئےبغیر علی بھی اس کےمولا ہیں۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17