عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

مشاہدے: 23485
ڈاؤنلوڈ: 3824


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23485 / ڈاؤنلوڈ: 3824
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 3

مؤلف:
اردو

ابو الحسن ملطی مزید کہتا ہے:

” سبائيوں کا دوسرا گروہ یہ عقيدہ رکھتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نہيں مرے ہيں بلکہ وہ بادلوں کے ایک ٹکڑے ميں قرار پائے ہيں لہذا جب وہ بادلوں کے ایک صاف و سفيد اور نورانی ٹکڑے کو رعد و برق ١ کی حالت ميں دیکھتے ہيں ، تو اپنی جگہ سے اٹھ کر اس ابر کے ٹکڑے کے مقابلہ ميں کھڑے ہو کردعا و تضرع ميں مشغول ہوتے ہيں اورکہتے ہيں :

اس وقت علی ابن ابيطالب عليہ السلام بادلوں ميں ہمارے سامنے سے گزرے“!

ابو الحسن ملطی اضافہ کرتا ہے:

” سبائيوں کا تيسرا گروہ وہ لوگ ہيں جو کہتے ہيں : علی عليہ السلام مر گئے ہيں ليکن قيامت کے دن سے پہلے مبعوث اور زندہ ہوں گے ، اور تمام اہل قبور ان کے ساتھ زندہ ہوں گے تا کہ وہ دجال کے ساتھ جنگ کریں گے اس کے بعد شہر و گاؤں ميں لوگوں کے درميان عدل و انصاف بر پا کریں گے اور اس گروہ کے لوگ عقيدہ رکھتے ہيں کہ علی عليہ السلام خدا ہیں اور رجعت پر بھی عقيدہ رکھتے ہيں “

ا بو الحسن ملطی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

” سبائيوں کے چوتھے گروہ کے لوگ محمد بن علی ( محمد حنفيہ ) کی امامت کے معتقد ہيں اور کہتے ہيں : وہ رضوی نامی پہاڑ ميں ایک غار ميں زندگی گذار رہے ہيں ایک اژدها اور ایک شير ان کی حفاظت کررہا ہے ، وہ وہی “ صاحب الزمان” ہیں جو ایک دن ظہور کرےں گے اور دجال کو قتل موت کے گھاٹ اتاریں گے ! اور لوگوں کو ضلالت اور گمراہی سے ہدایت کی طرف لے جآئیں گے اور روئے زمين کو مفاسد سے پاک کریں گے“

ابو الحسن ملطی اپنی بات کے اس حصہ کے اختتام پر کہتا ہے:

” سبائيوں کے یہ چاروں گروہ “بداء ” کے معتقد ہيں ! اور کہتے ہيں : خدا کيلئے کاموں ميں بداء حاصل ہوتا ہے یہ گروہ توحيد اور خدا شناسی کے بارے ميں اور بھی باطل بيانات اور عقائد رکھتے ہيں کہ ميں اپنے آپ کو یہ اجازت نہيں دے سکتا ہوں کہ خدا کے بارے ميں ان کے ان ناشائستہ عقائد کو اس کتاب ميں وضاحت کروں اور نہ یہ طاقت رکھتا ہوں کہ خدا کے بارے ميں ا یسی باتوں کو زبان پر لاؤں مختصر یہ کہ یہ سب گروہ اور پارٹياں کفر کے فرقے ہيں “

ا بو الحسن ملطی اسی کتاب کے باب “ ذکر الروافض و اجناسهم و مذاهبہم ” ميں سبائيوں کے بارے ميں دوبارہ بحث و گفتگو کرتا ہے اور اس دفعہ “ ابو عاصم ” سے یوں نقل کرتا ہے کہ:

____________________

١۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بنيادی طور پر سفيد ، صاف اور روشن بادل رعد و برق ایجاد نہيں کرتے ہيں بلکہ یہ سياہ بادل ہے جو رعد و برق پيدا کرتا ہے

” عقيدہ کے لحاظ سے رافضی پندرہ گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں اور یہ پندرہ گروہ خداکی طرف سے اختلاف اور پراگندگی کے عذاب ميں مبتلا ہو کر اور مزید بہت سے گروہوں اور پارٹيوں ميں تقسيم ہوگئے ہيں :

اول) ان ميں سے ایک گروہ خدا کے مقابلے ميں علی ابن ابيطالب کی الوہيت اور خدا ئی کے قائل ہے ”۔ یہاں تک کہتا ہے “ ان ہی ميں سے عبد الله بن سبا تھا جو یمن کے شہر صنعا کا رہنے والا تھا اور علی عليہ السلام نے اسے ساباط جلا وطن کيا“

دوم ) ان ميں سے دوسرا گروہ جسے “ سبيئہ ” کہتے ہيں ان کا کہنا ہے کہ : علی عليہ السلام نبوت ميں پيغمبر کے شریک و سہيم ہیں ، پيغمبر اپنی زندگی ميں مقدم تھے اور جب وہ دنيا سے رحلت کر گئے تو علی ان کی نبوت کے وارث بن گئے اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی جبرئيل ان کيلئے پيغام لے کر آتے تھے۔ اس کے بعد کہتا ہے : یہ دشمن خدا ہيں اور جھوٹ بولتے ہيں ، کيونکہ محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم خاتم الانبياء تھے اور ان کے بعد نبوت رسالت وجود نہيں رکھتی ہے ۔

سوم ) ان کے ایک دوسرے گروہ کو “منصوریہ ” کہتے ہيں وہ اس بات کے معتقد ہيں کہ علی نہيں مرے ہيں بلکہ بادلوں ميں زندگی گذار رہے ہيں “

اس طرح رافضيوں کے پندرہ گروہوں کو اپنے خيال و زعم ميں معين کرکے ان کے عقائد کی وضاحت کرتا ہے ۔

ابن سبا ، ابن سودا اور سبائيوں کے بارے ميں عبدا لقاهر بغدادی کا بيان

و هذه الطائفة تزعم ان المهدی المنتظر هو علیّ

گروہ سبئيہ کا یہ عقيدہ ہے کہ مہدی منتظر وہی علی ہے ۔ بغدادی عبدا لقاہر بغدادی ( وفات ۴ ٢٩ هء ) اپنی کتاب “ الفرق بين الفرق ” کے فصل “ عقيدہ سبئيہ اور ا س گروہ کے خارج از اسلام ہونے کی شرح کے باب ” ميں کہتا ہے:

” گروہ سبيئہ اسی عبدا لله بن سبا کے پيرو ہيں کہ جنہوں نے علی ابن ابيطالب عليہ کے بارے ميں غلو کيا ہے اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ وہ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ہے ۔ اس کے بعد اس کی الوہيت و خدائی کے معتقد ہوئے اور کوفہ کے بعض لوگوں کو اپنے عقيدہ کی طرف دعوت دی ۔ جب اس گروہ کی خبر علی عليہ السلام کو پہنچی ، تو انکے حکم سے ان ميں سے بعض لوگوں کو دو گڑهوں ميں ڈال کر جلادیا گيا ، حتی بعض شعراء نے اس رودادکے بارے ميں درج ذیل اشعار بھی کہے ہيں :

لترم بی الحوادث حيت شاءَ ت

اذا لم ترم بی فی الحفرتين

”حوادث اور واقعات ہميں جہاں بھی چاہيں ڈال دیں صرف ان دو گڑهوں ميں نہ ڈاليں “

چونکہ علی عليہ السلام اس گروہ کے باقی افراد کو جلانے کے سلسلے ميں اپنے ماننے والوں کی مخالفت اور بغاوت سے ڈر گئے ، اس لئے ابن سبا کو مدائن کے ساباط ميں جلا وطن کيا ۔ جب علی عليہ السلام مارے گئے تو ابن سبا نے یوں اپنے عقيدہ کا اظہار کيا :

جو مارا گيا ہے وہ علی عليہ السلام نہيں بلکہ شيطان تھا جو علی کے روپ ميں ظاہر ہوا تھا اور خود کو لوگوں کے سامنے مقتول جيسا ظاہر کيا ، اس لئے کہ علی عليہ السلام حضرت عيسی کی طرح آسمان کی طرف بلا لئے گئے ہيں ۔

اس کے بعد عبد القاہر کہتا ہے:

اس گرو کا عقيدہ ، جس طرح یہود و نصاریٰ قتل حضرت عيسیٰ کے موضوع کے بارے ميں ایک جھوٹااور خلاف واقع دعوی کرتے ہيں ، ناصبی اور خوارج نے بھی علی عليہ السلام کے قتل کے موضوع پر ایک جھوٹے اور بے بنياد دعوی کا اظہار کيا ہے ۔ جس طرح یہود و نصاریٰ نے ایک مصلوب شخص کو دیکھا اور اسے غلطی سے عيسیٰ تصورکرگئے اسی طرح علی کے طرفداروں نے بھی ایک مقتول کو علی کی صورت ميں دیکھا اور خيال کيا کہ وہ خود علی ابن ابيطالب عليہ السلام ہيں ، جب کہ علی آسمان پر بلا لئے گئے ہيں اور مستقبل ميں پھر سے زمين پر اتریں گے اور اپنے دشمنوں سے انتقام ليں گے“

عبدا لقاہر کہتا ہے:

” گروہ سبئيہ ميں سے بعض لوگ خيال کرتے ہيں کہ علی بادلوں ميں ہيں ۔رعد کی آواز وہی علی کی آواز ہے ۔ آسمانی بجلی کا کڑکنا ان کا نورانی تازیانہ ہے جب کبھی بھی یہ لوگ رعد کی آواز سنتے ہيں توکہتے ہيں : عليک السلام یا امير المؤمنين!

عامر بن شراحيل شعبی(۱) سے نقل کيا گيا ہے کہ ابن سبا سے کہا گيا:

علی عليہ السلام مارے گئے ، اس نے جواب ميں کہا :

____________________

١۔ عامر بن شراحيل کی کنيت ابو عمر تھی و وہ قبيلہ ہمدان سے تعلق رکھتا ہے اور شعبی کے نام سے معروف ہے ( اور حميری و کوفی ) وہ عمر کی خلافت کے دوسرے حصہ کے وسط ميں پيدا ہوا ہے اور دوسری صدی ہجری کے اوائل ميں فوت ہو چکا ہے اس نے بعض اصحاب رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم ، جيسے امير المؤمنين عليہ السلام سے احادیث نقل کی ہيں ، جبکہ علمائے رجال واضح طورپر کہتے ہيں کہ اس نے جن اصحاب سے احادیث ( ۶۵ ۔ ۶٩ / نقل کی ہيں ، انهيں بچپن ميں دیکھا ہے اور ان سے کوئی حدیث ہی نہيں سنی ہے ( تہذیب التہذیب ۵علمائے رجال کی یہ بات شعبی کے احادیث کے ضعيف ہونے کی ایک محکم اور واضح دليل ہے خاص طور پر شعبی کے احادیث کے ضعيف ہونے کے بارے ميں دوسرے قرائن یہ ہيں کہ وہ ١٠٩ هء ميں فوت ہوا ہے اور بغدادی ۴٢٩ هء ميں فوت ہوا ہے اس طرح ان دو افراد کے درميان آپس ميں تيں سو سال کا فاصلہ ہے زمانے کے اتنے فاصلہ کے باوجود بغدادی کس طرح شعبی سے روایت نقل کرتا ہے اگر اس کی نقل بالواسطہ تھی تو یہ واسطے کون ہيں ؟ کيوں ان کا نام نہيں ليا گيا ہے

اگر ان کے مغز کو ایک تھيلی ميں ہمارے لئے لاؤ گے پھر بھی ہم تمہاری بات کی تصدیق نہيں کریں گے کيونکہ وہ نہيں مریں گے یہاں تک آسمان سے اتر کر پوی روئے زمين پر سلطنت کریں گے“

عبدا لقاہر کہتا ہے :”یہ گروہ تصور کرتا ہے کہ “مهدی منتظر ” وہی علی ابن ابيطالب ہيں کوئی دوسرا شخص نہيں ہے اسحاق بن سوید عدوی(۱) نے اس گروہ کے عقائد کے بارے ميں درج ذیل اشعار کہے ہيں :

ميں گروہ خواج سے بيزاری چاہتا ہوں اور ان ميں سے نہيں ہوں ، نہ گروہ غزال سے ہوں اور نہ ابن باب کے طرفداروں ميں سے، اور نہ ہی اس گروہ سے تعلق رکھتا ہوں کہ جب وہ علی کو یاد کرتے ہيں تو سلام کا جواب بادل کو دیتے ہيں ليکن ميں دل و جان سے برحق پيغمبر اور ابوبکر کو دوست رکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ یہی راستہ درست اور حق ہے۔

اس الفت و دوستی کی بنا پر قيامت کے دن بہترین اجر و ثواب کی اميد رکھتا ہوں(۲) ۔

من الغزال منهم و ابن باب

ومن قوم اذا ذکروا عليا

یردون السلام علی السحاب

و لکنی احب بکل قلبی

واعلم ان ذاک من الصواب

رسول الله و الصدیق حقا

به ارجو غداً حسن الثواب

یہاں پر عبدا للہ بن سبا اور گروہ سبئيہ کے بارے ميں بغدادی کی گفتگو اختتام کو پہنچی ، اب وہ عبد الله بن سودا کے بارے ميں اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہے اور اس کے بارے ميں یوں کہتا ہے:

عبدا لله بن سودا نے سبئيہ گروہ کی ان کے عقيدہ ميں مدد کی ہے اور ان کا ہم خيال رہا۔ وہ بنيادی طور پر حير ہ کے یہودیوں ميں سے تھا ليکن کوفہ کے لوگوں ميں مقام و ریاست حاصل کرنے کيلئے ظاہراً اسلام لایا تھا اور کہتا تھا : ميں نے توریت ميں پڑها ہے کہ ہر پيغمبر کا ایک خليفہ اور وصی ہے اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے وصی علی عليہ السلام ہيں “

____________________

١۔ اسحاق بن سوید عدوی تميمی بصری کی موت ١٣١ ئه ميں طاعون کی بيماری کی وجہ سے ہوئی ہے ۔وہ حضرت علی عليہ السلام کی مذمت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ميں ان سے الفت نہيں رکھتا ہوں ۔

٢۔برئت من الخوارج لست منهم

بغدادی کہتا ہے:

جب علی عليہ السلام کے شيعوں نے ابن سودا کی یہ بات سنی تو انہوں نے علی سے کہا کہ وہ آپ کے دوستداروں اور محبت کرنے والوں ميں ہے لہذا علی کے پاس ابن سوداد کا مقام بڑه گيا اور وہ ہميشہ اسے اپنے منبر کے نيچے اور صدر مجلس ميں جگہ دیتے تھے،

ليکن جب علی نے بعد ميں اس کے غلو آميز مطالب سنے تو اس کے قتل کا فيصلہ کيا ،

ليکن ابن عباس نے علی کے اس فيصلہ سے اختلاف کيا اور انهيں آگاہ کيا کہ کيا شام کے لوگوں سے جنگ کرنا چاہتے ہيں آپ کو اس نازک موقع پر لوگوں کی حمایت کی ضرورت ہے اور مزید سپاہ و افراددر کار ہيں اگر ایسے سخت موقع پر ابن سودا کو قتل کر ڈاليں گے ، تو آپ کے اصحاب و طرفدار مخالفت کریں گے اور آپ ان کی حمایت سے محروم ہوجائيں گے علی نے ا بن عباس کی یہ تجویز قبول کی اور اپنے دوستداروں کی مخالفت کے ڈر سے ابن سوداء کے قتل سے صرف نظر کيا،اور اسے مدائن ميں جلا وطن کر دیا ليکن علی کے قتل کئے جانے کے بعد بعض لوگ ابن سودا کی باتوں کے فریب ميں آگئے کيونکہ وہ لوگوں کو اس قسم کے مطالب سے منحرف کرتااور کہتا تھا خداکی قسم مسجد کوفہ کے وسط ميں علی کيلئے دو چشمے جاری ہوں گے ان ميں سے ایک سے شہد اور دوسرے سے تيل جاری ہوگا اور شيعيان علی اس سے استفادہ کریں گے اس کے بعد بغدادی کہتا ہے:

”اہل سنت کے دانشور اور محققين معتقد ہيں کہ اگر چہ ابن سودا ظاہراً اسلام قبول کرچکا تھا ليکن علی عليہ السلام اور ان کی اولاد کے بارے ميں ا پنی تاویل و تفسيروں سے مسلمانوں کے عقيدہ کو فاش کرکے ان ميں ا ختلاف پيدا کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ مسلمان علی عليہ السلام کے بارے ميں اسی اعتقاد کے قائل ہوجائيں جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں قائل تھے(۱)

اس کے بعد بغدادی کہتا ہے:

____________________

١۔ یہ مطالب سيف کی عبد الله بن سبا کے بارے ميں روایت کا مفہوم ہے کہ بغدادی نے انهيں مشوش اور درہم برہم صورت ميں نقل کيا ہے اور خيال کيا ہے کہ ابن سودا علاوہ بر ابن سبا کوئی دوسرا شخص ہے اور یہ دو شخص جدا ہيں اور ابن سودا حيرہ کے یہودیوں ميں سے تھا جبکہ سيف نے ابن سبا کو یمن کے صنعا علاقہ کا دکھایا ہے اور اسے ابن سوداء کے طور پر نشاندہی کی ہے۔کتاب مختصر الفرق کے ناشر فليب حتی عيسائی نے بغدادی کی اس بات کا مذاق اڑادیا ہے اور اسے اس کے فاسد مقصد کے نزدیک دیکھتا ہے اس کتاب کے حاشيہ ميں لکھتا ہے : یہ روداد اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گوناگون اسلامی فرقے وجود ميں لانے ميں یہودی مؤثر تھے اس کے بعد کہتا ہے :بغدادی کی سبئيہ کے بارے ميں کی گئی بحث مکمل ترین و دقيق ترین بحث ہے جو اس بارے ميں عربی کتابوں ميں آئی ہے ۔

مرموز ابن سودا نے مسلمانوں ميں بغاوت ، اختلاف وفساد اور ان کے عقائد و افکار ميں انحراف پيدا کرنے کيلئے مختلف اسلامی ممالک کا سفر کيا جب اس نے دیگر گروہوں کی نسبت رافضيوں کو کفر و گمراہی اور نفسانی خواہشات کی پيروی کرنے ميں زیادہ مائل پایا تو انهيں عقيدہ سبئيہ کی تعليم و تربيت دی اس طریقے سے اس عقيدہ کی ترویج کی اور اسے مسلمانوں ميں پھيلایا“

مختار کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بغدادی کہتا ہے:” سبيئہ جو غاليوں اور رافضيوں کا ایک گروہ ہے اس نے مختار کو فریب دیا اور ان سے کہا تم زمانے کی حجت ہو ،اس فریبکارانہ بات سے اسے مجبور کيا تا کہ نبوت کا دعوی کرےں ا نهوں نے بھی اپنے خاص اصحاب کے درميان خود کو پيغمبر متعارف کيا“بغدادی لفظ “ ناووسيہ ” کی تشریح ميں کہتا ہے:

” اور سبيئہ کا ایک گروہ “ ناووسيہ ” سے ملحق ہوا وہ سب یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جعفر (ان کا مقصود امام صادق عليہ السلام ہيں ) جميع دینی علوم و فنون اعم از شرعيات و عقليات کے عالم ہيں “

ی ہ تھے بغدادی کے گروہ “ سبيئہ ” کے بارے ميں ا پنی کتاب ‘ ‘ الفرق ” ميں درج کئے گئے تار پود اس گروہ کے عقائد و افکار کے بارے ميں دیکھے گئے اس کے خواب اور اس کيلئے جعل کئے گئے اس کے عقائد اس کے بعد اس خيالی اور جعلی گروہ کی گردن پر یہ باطل اور بے بنياد عقائد و افکار ڈالنے کيلئے اس نے داد سخن دیا ہے اور ان خرافات پر مشتمل عقائد کو مسترد کرنے کيلئے ایک افسانہ پيش کرکے اس کی مفصل تشریح کی ہے ۔

حقيقت ميں اس سلسلہ ميں بغدادی کی حالت اس شخص کی سی ہے جو تاریکی ميں ایک سایہ کا تخيل اپنے ذہن ميں ا یجاد کرنےکے بعد تلوار کھينچ کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے ۔

عبد القاہر بغدادی کے بعد ، ابو المظفر اسفرائينی ( وفات ۴ ٧١ ئه) آیا اور جو کچھ بغدادی نے گروہ سبيئہ کے بارے ميں نقل کيا تھا ، اس نے اسے خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب “ التبصير ” ميں نقل کيا ہے ۔

پھر بغدادی کے اسی بيان کو سيد شریف جرجانی(وفات ٨١ ۶ هء)نے اپنی کتاب “التعریفات” ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔فرید وجدی ( وفات ١٣٧٣ ئه ) نے بھی اپنے “ دائرة المعارف” ميں لغت “ عبدا لله بن سبا”کے سلسلے ميں بغدادی کی باتوں کو من و عن اورانهيں الفاظ ميں کسی قسم کی کمی بيشی کے بغير نقل کيا ہے ۔

ا بن حزم (وفات ۴۵۴ ئه) اپنی کتاب “ الفصل فی الملل و الاهواء و النحل” ميں کہتا ہے:” غاليوں کا پہلا فرقہ جو غير خد اکی الوہيت اور خدائی کا قائل ہوا ہے عبدا لله ابن سبا حميری (خدا کی لعنت اس پر ہو--)کے ماننے والے ہيں اس گروہ کے افراد علی ابن ابيطالب کے پاس آئے اور آپ کی خدمت ميں عرض کيا: تم وہی ہو ۔

ا نهوں نے پوچھا : “ وہی ”سے تمہارا مقصود کون ہے ؟ انہوں نے کہا: تم خدا ہو-” یہ بات علی کيلئے سخت گراں گزری اور حکم دیا کہ آگ روشن کی جائے اور ان سب کو اس ميں جلادیا جائے اس گروہ کے افراد جب آگ ميں ڈال دئے جاتے تھے تو وہ علی کے بارے ميں کہتے تھے ، اب ہمارے لئے مسلم ہوگيا کہ وہ وہی خدا ہے کيونکہ خدا کے علاوہ کوئی لوگوں کو آگ سے معذب نہيں کرتا ہے اسی وقت علی ابن ابيطالب نے یہ اشعار پڑهے:

لما رایت الامر امراً منکراً

اججت ناری ودعوت قنبراً

”جب ميں لوگوں ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو اپنی مدد کيلئے بلاتا ہوں “

ابن حزم فرقہ کيسانيہ کے عقائد کے بارے ميں کہتا ہے:”بعض اماميہ رافضی جو “ممطورہ ” کے نام سے معروف ہيں موسی بن جعفر کے بارے ميں یہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ وہ نہيں مرے بلکہ زندہ ہيں اور وہ نہيں مریں گے یہاں تک کہ ظلم و ناانصافی سے پر دنيا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔اس کے بعد کہتا ہے:

”گروہ ” ناووسيہ کے بعض افراد امام موسیٰ کاظم کے والد یعنی “جعفر ابن محمد ” کے بارے ميں یہی عقيدہ رکھتے ہيں اور ان ميں سے بعض دوسرے افراد امام موسیٰ کاظم عليہ السلام کے بھائی اسماعيل بن جعفر کے بارے ميں اسی عقيدہ کے قائل ہيں “

اس کے بعد کہتا ہے:

” سبيئہ جو عبدا لله بن سبا حميری یہودی کے پيرو ہيں علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں بھی اسی قسم کا عقيدہ رکھتے ہيں اس کے علاوہ کہتے ہيں کہ وہ بادلوں ميں ہے ،یہاں تک کہتا ہے :

جب علی کے قتل ہونے کی خبر عبد الله بن سبا کو پہنچی تو اس نے کہا: اگر ان کے سر کے مغز کو بھی ميرے سامنے لاؤ گے پھر بھی ان کی موت کے بارے ميں یقين نہيں کروں گ ابو سعيد نشوان حميری ( وفات ۵ ٧ ۴ ئه ) اپنی کتاب “ الحور العين ” ميں کہتا ہے:” سبيئہ وہی عبدا لله بن سبا اور اس کے عقائد کے پيرو ہيں “

اس کے بعد ان کے عقائد کو بيان کرنے کے ضمن ميں ا مير المؤمنين کی موت سے انکار کرنے کی روداد کو بيان کرتے ہوئے کہتا ہے:

” جب ابن سبا کا عقيدہ ابن عباس کے پاس بيان کيا گيا تو انہوں نے کہا: اگر علی نہيں مرے ہوتے تو ہم ان کی بيویوں کی شادی نہ کرتے اوران کی ميراث کو وارثوں ميں تقسيم نہيں کرتے ”(۱)

____________________

١۔ الحور العين : ص ١۵۶

ابن سبا اور سبئيہ کے بارے ميں شہرستانی اور اس کے ماننے والوں کا بيان

و اما السبئية فهم یزعمون ان علياً لم یمت و انه فی السحاب

سبائی معتقد ہيں کہ علی نہيں مرے ہيں اور وہ بادلوں ميں ہيں صاحب البدء و التاریخ شہرستانی ( وفات ۵۴ ٨ هء) اپنی “ ملل و نحل ” ميں ابن سبا اور سبائيوں کے بارے ميں محدثين اور مؤرخين کے بيانات کو خلاصہ کے طور پر درج کرنے کے بعد یوں کہتا ہے :

”عبد الله بن سبا پہلا شخص ہے جس نے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی امامت کو واجب جانا ، اور یہی غاليوں کے دیگر گروہوں کيلئے اس عقيدہ کا سرچشمہ بنا کہ علی نہيں مریں گے اور وہ زندہ ہيں ۔ وہ کہتے ہيں : خداوند عالم کے ایک حصہ نے اس کے وجود ميں حلول کيا ہے اور کوئی ان پر برتری حاصل نہيں کرسکتا وہ بادلوں ميں ہیں اور ایک دن زمين پر آئیں گے۔

یہاں تک کہتا ہے:

”ابن سبا یہی عقيدہ خود علی کی زندگی ميں بھی رکھتا تھا ، ليکن اس نے اس وقت اظہار کيا جب علی کو قتل کر دیا گيا، اس وقت بعض افراد بھی اس کے گرد جمع ہوکر اس کے ہم عقيدہ ہو گئے، یہ وہ پہلا گروہ ہے جو علی اور ان کی اولاد ميں امامت کے محدود و منحصر ہونے کا قائل ہے اور غيبت اور رجعت کا معتقد ہوا ہے اس کے علاوہ اس بات کا بھی معتقد ہوا کہ خداوند عالم کا ایک حصہ تناسخ کے ذریعہ علی کے بعد والے ائمہ ميں حلول کرچکا ہے اصحاب اور یاران پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم بخوبی جانتے تھے اس لئے وہ ابن سبا کے عقيدہ کے مخالف تھے ، ليکن وہ علی عليہ السلام کے بارے ميں اس مطلب کو اس لئے کہتے تھے کہ جب علی عليہ السلام نے خانہ خدا کی بے حرمتی کرنے کے جرم ميں حرم ميں ایک شخص کی آنکھ نکالی تھی یہ واقعہ جب خليفہ دوم عمر کے پاس نقل کيا گيا تو عمر نے جواب ميں یہ جملہ کہا: “ ميں اس خدا کے ہاتھ کے بارے ميں کيا کہہ سکتا ہوں جس نے حرم خدا ميں کسی کو اندها کيا ہو؟

دیکھا آپ نے کہ عمر نے اپنے اس کلام ميں خدا کے ایک حصہ کے علی عليہ السلام کے پيکر ميں حلول کرنے کا اعتراف کيا ہے اور ان کے بارے ميں خداکا نام ليا ہے(۱)

یہ تھا ان افرا د کے نظریات و بيانات کا خلاصہ جنہوں نے “ ملل و نحل ” کے بارے ميں کتابيں لکھی ہيں دوسری کتابوں کے مؤلفين بھی ان کے طریقہ کا رپر چل کر بيہودہ اور بے بنياد مطالب کو گڑه کر اس باطل امور ميں ان کے قدم بقدم رہے ہيں ، مثلاً البدء و التاریخ کا مؤلف کہتا ہے:

ليکن “ سبئيہ ” جسے کبھی‘ ‘ طيارہ ” بھی کہتے ہيں خيال کرتے ہيں کہ ہرگز موت ان کی طرف آنے والی نہيں ہے اور وہ نہيں مریں گے حقيقت ميں ان کی موت اندهيری رات کے آخری حصہ ميں پرواز کرنا ہے اس کے علاوہ یہ لوگ معتقد ہيں کہ علی ابن ابيطالب نہيں مرے ہيں بلکہ بادلوں ميں موجود ہيں لہذا جب رعد کی آواز سنتے ہيں تو کہتے ہيں علی غضبناک ہو گئے ہيں ”۔

اس کے علاوہ کہتا ہے:

” گروہ طيارہ کے بعض افراد معتقد ہيں کہ روح القدس جس طرح عيسیٰ ميں موجود تھا اسی طرح پيغمبر اسلام ميں بھی موجود تھا اور ان کے بعدعلی ابن ابيطالب عليہ السلام ميں منتقل ہوگياعلی سے ان کے فرزند حسن اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے باقی اماموں ميں منتقل ہوتا رہا سبيئہ کے مختلف گروہ ارواح کے تناسخ اور رجعت کے قائل ہيں اور سبيئہ کے ایک گروہ کے افراد اعتقاد رکھتے ہيں کہ ائمہ عليہم السلام خدا سے منشعب شدہ نور ہيں اور وہ خدا کے اجزاء ميں سے ایک جزو ہيں اس عقيدہ کے رکھنے والوں کو “حلاجيہ ”(۲) کہتے ہيں ابو طالب صوفی بھی یہی اعتقاد رکھتا تھا اور اس نے انهيں باطل عقائد کے مطابق درج ذیل اشعار کہے ہيں :

قریب ہے کہ وہ وگا اگر کوئی ربوبيت نہ ہوتی تو وہ بھی نہ ہوتا کيا نيک آنکھيں غيبت کيلئے فکرمند ہيں (چشم براہ ہيں )یہ آنکھيں پلک و مژگان والی آنکھيں جيسی نہيں ہيں ۔

خدا سے متصل آنکھيں نور قدسی رکھتی ہيں ، جو خدا چاہے گا وہی ہوگا نہ ہی خيال کی گنجائش ہے اور نہ چالاکی کا کوئی محل۔

وہ سایوں کے مانند ہيں جس دن مبعوث ہوں گے ليکن نہ سورج کے سایہ کے مانند اور نہ گھر کے سایہ کے مانند ____________________

١۔ اس نقل کی بنا پر عمراولين شخص ہے جس نے علی کے بارے ميں غلو کيا ہے اور اس عقيدہ کی بنياد ڈالی ہے اسی طرح وہ پہلے شخص تھے جس نے عقيدہ رجعت کو اس وقت اظہار کيا جب رسول خدا نے رحلت فرمائی تھی جب اس نے کہا: خدا کی قسم پيغمبر نہيں مرے ہيں اور واپس لوٹيں گے اسی کتاب کی جلد اول حصہ سقيفہ ملاحظہ ہو ليکن حقيقت یہ ہے کہ شہرستانی بھی اپنی نقليات ميں تمام علمائے ادیان اور ملل و نحل کے مولفين کے مانند بعض مطالب کو لوگوں سے سنتا ہے اورانهيں بنيادی مطالب اور سو فيصد واقعی صورت ميں اپنی کتاب ميں درج کرتا ہے بغير اس کے کہ اپنی نقليات کی سند کے بارے ميں کسی قسم کی تحقيق و بحث کرے ہم ان مطالب کے بارے ميں اگلے صفحات ميں بيشتر وضاحت پيش کریں گے ۔

۲۔ حلاجيہ حسين بن منصور حلاج سے منسوب ہيں حسين بن حلاج ایک جادو گر اور شعبدہ باز تھا شہروں ميں پھرتا تھا ہرشہر ميں ایک قسم کے عمل اور مسلک کو رائج کرتا تھاا ور خود کو اس کا طرفدار بتاتا تھا ۔مثلاً معتزليوں ميں معتزلی ، شيعوں ميں شيعہ اور اہل سنت ميں خود کو سنی بتاتا تھا ۔

کادوا یکونون لو لا ربوبية لم تکن فيالها اعينا بالغيب ناظرةليست کاعين ذات الماق و الجفن انوار قدس لها بالله متصل کما شاء بلا وهم و لا فظن وهم الاظلة والاشباح ان بعثوالا ظل کالظل من فيئی و لا سکن

ا بن عساکر ( وفات ۵ ٧١ هء ) نے اپنی تاریخ ميں عبدا لله بن سبا کے حالات کی تشریح ميں سيف کی نقل کی گئی روایت (اور ان روایتوں کے علاوہ کہ جن کے بعض مضامين ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد(۱) اور بعض کو گزشتہ صفحات ميں درج کيا ہے)مزید چه روایتں حسب ذیل نقل کی ہيں :

١۔ ابو طفيل سے نقل ہوا ہے:

’ ميں نے مسيب بن نجبہ کو دیکھا کہ ابن سودا کے لباس کو پکڑ کر اسے گھسيٹتے ہوئے علی ابن ابيطالب کے پاس --- جب وہ منبر پر تھے ---لے آیا ،علی نے پوچھا : کيا بات ہے ؟ مسيب نے کہا: یہ شخص ابن سودا خدا او رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر جھوٹ کی نسبت لگاتا ہے“

٢۔ ایک دوسری روایت ميں آیاہے کہ علی ان ابيطالب عليہ السلام نے فرمایا:

مجھے اس خبيت سياہ چہرہ سے کيا کام ہے ؟ آپ کی مراد ابن سبا تھا جو ابوبکر اور عمر کے بارے ميں برا بھلا کہتا تھا۔

٣۔ اور ایک روایت ميں آیا ہے:

مسيب نے کہا: ميں نے علی ابن ابيطالب کو منبر پر دیکھا کہ ابن سودا کے بارے ميں فرما رہے ہيں :

____________________

١۔ ج / ١ فصل پيدائش افسانہ عبدا لله بن سبا

”کون ہے جو اس سياہ فام (جو خدا اور رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر جھوٹ کی نسبت دیتا ہے)خدا اس کو مجھ سے دور کرے۔ اگر مجھے یہ ڈرنہ ہوتا کہ بعض لوگ اس کی خوانخواہی ميں شورش برپا کریں گے جس طرح نہروان کے لوگوں کی خونخواہی ميں بغاوت کی گئی تھی تو ميں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیتا“

۴ ۔ ایک دوسری روایت ميں مسيب کہتا ہے:

ميں نے علی ابن ابيطالب سے سنا کہ “ عبد الله بن سبا” کی طرف مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے افسوس ہو تم پر! خداکی قسم پيغمبر خدا نے مجھ سے کوئی ایسا مطلب نہيں بيان کيا ہے جو ميں نے لوگوں سے مخفی رکھا ہو“

۵ ۔ ایک دوسری روایت ميں مسيب کہتا ہے:

” علی ابن ابيطالب کو خبر ملی کہ ابن سودا ابوبکراور عمر کی بدگوئی کرتا ہے ۔ علی عليہ السلام نے اسے اپنے پاس بلایا اور تلوار طلب کی تا کہ اسے قتل کر ڈالےں ۔ یا یہ کہ جب یہ خبر انهيں پہنچی انهوں نے فيصلہ کيا کہ اسے قتل کر ڈالےں ۔ ليکن اس کے بارے ميں کچھ

گفتگو ہوئی اور یہ گفتگو حضرت کو اس فيصلہ سے منصرف ہونے کا سبب بنی ،ليکن فرمایا کہ جس شہر ميں ، ميں رہتا ہوں اس ميں ابن سبا کو نہيں رہنا چاہئے اس لئے اسے مدائن جلاوطن کر دیا ۔

۶ ۔ ابن عساکر کہتا ہے:

”ایک روایت ميں ا مام صادق عليہ السلام نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے جابر سے نقل کيا ہے کہ : جب لوگوں نے علی عليہ السلام کی بيعت کی، حضرت نے ایک تقریر کی، اس وقت عبدا لله بن سبا اٹھا اور حضرت سے عرض کی : تم “ دابة الارض” ہو ۔ علی عليہ السلام نے فرمایا ؛ خدا سے ڈرو! ابن سبانے کہا: تم پروردگا ہو اور لوگوں کو رزق دینے والے ہو، تم ہی نے ان لوگوں کو خلق کيا ہے اور انهيں رزق دیتے ہو ۔ علی (عليہ السلام )نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے ، ليکن رافضيوں نے اجتماع کيا اور کہا؛ یا علی! اسے قتل نہ کریں بلکہ اسے ساباط مدائن جلاوطن کردیں کيونکہ اگر اسے مدینہ ميں قتل کر ڈاليں گے تو اس کے دوست اور پيرو ہمارے خلاف بغاوت کریں گے یہی سبب بنا کہ علی عليہ السلام اس کو قتل کرنے سے منصرف ہوگئے اور اسے ساباط جلاوطن کردیا، کہ وہاں پر “قرامطہ ” اور رافضيوں کے چندگروہ زندگی گذار رہے تھے، جابر کہتا ہے: اس کے بعد گيارہ افراد پر مشتمل سبائيوں کا ایک گروہ اٹھا اور علی عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی کے بارے ميں ا بن سبا کی باتوں کو دهرایا، علی عليہ السلام نے ان کے جواب ميں فرمایا :

اپنے عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور توبہ کرو کہ ميں پروردگا و خالق نہيں ہوں بلکہ ميں علی ابن ابيطالب ہوں تم ميرے ماں باپ کو جانتے ہو اور ميں محمد کا چچيرا بھائی ہوں ۔ انہوں نے کہا: ہم اس عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوں گے تم جو چاہتے ہو ، ہمارے بارے ميں انجام دو اور ہمارے حق ميں جو بھی فيصلہ کرنا چاہتے ہو کرو لہذا علی عليہ السلام نے ان لوگوں کو جلا دیا اور ان کی گيارہ قبریں صحرا ميں مشہور و معروف ہيں ۔

اس کے بعد جابر کہتا ہے : اس گروہ کے بعض دوسرے افراد نے اپنے عقائد کاہمارے سامنے اظہار نہيں کيا تھا ، اس روداد کے بعد انہوں نے کہا: کہ علی ہی خدا ہیں اور اپنے عقيدہ اور گفتار پر ابن عباس کی باتوں سے استناد کرتے تھے کہ انهوں نے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کياتها: خدا کے علاوہ کوئی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرے گا۔

جابر کہتا ہے : جب ابن عباس نے ان کے اس استدلال کو سنا ، تو کہا: اس لحاظ سے تمہيں ابوبکر کی بھی پرستش کرنا چاہئے اور ان کی الوہيت کے بھی قائل ہونا چاہئے ، کيونکہ انهوں نے بھی چند افراد کو آگ کے ذریعہ سزا دی ہے ۔

عبدالله بن سبا کے بارے ميں ادیان و عقائد کے علماء کا نظریہ

عبدالله بن سبا من غلاة الزنادقة ضال و مضل

عبدا لله بن سبا انتہا پسند زندیقيوں ميں سے ہے اور وہ گمراہ کنندہ ہے ذہبی

متقدمين کانظریہ :

ہم نے عبد الله بن سبا ، سبئيہ اور ابن سودا کے بارے ميں ادیان اور عقائد کی کتابوں کے بعض متقدم مؤلفين کے بيانات اور نظریات کو گزشتہ فصول ميں ذکر کيا اب ہم ان ميں سے بعض دوسروں کے نظریات اس فصل ميں ذکر کریں گے اس کے بعد اس سلسلہ ميں متاخرین کے نظریات بيان کریں گے ۔

ذہبی (وفات ٧ ۴ ٨ هء) اپنی کتاب “ ميزان الاعتدال ” ميں عبدالله بن سبا کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے:

” وہ زندیقی اور ملحد غاليوں ميں سے تھا ۔ وہ ایک گمراہ اور گمراہ کنندہ شخص تھا ۔

ميرے خيال ميں علی عليہ السلام نے اسے جلا دیا ہے ” اس کے بعد کہتا ہے: جو زجانی نے عبد الله کے بارے ميں کہا ہے کہ وہ خيال کرتا تھا موجودہ قرآن اصلی قرآن کا نواں حصہ ہے اور پورے قرآن کو صرف علی عليہ السلام جانتے ہيں اور انهيں کے پاس ہے عبد الله بن سبا اس طرح علی ابن ابيطالب کی نسبت اظہار دلچسپی کرتا تھاليکن علی عليہ السلام اسے اپنے سے دور کرتے تھے ”(۱)

____________________

١۔ جوزجانی وہی ابراہيم بن یعقوب بن اسحق سعدی ہے اس کی کنيت ابو اسحاق تھی نواحی بلخ ميں جوزجان ميں پيدا ہوا ہے بہت سے شہروں اور ممالک کا سفر کيا ہے دمشق ميں رہائش پذیر تھا حدیث نقل کرتا تھا“ الجرح و التعدیل ” ، “الضعفاء ” اور“ المترجم ” اس کی تاليفات ہيں ۔

ذہبی اپنی کتاب ‘ ‘ تذکرة الحفاظ” ميں اس کے حالات کی تشریح ميں کہتا ہے : جوزجانی علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں انحرافی عقيدہ رکھتا تھا مزید کہتا ہے : وہ علی عليہ السلام کے خلاف بد گوئی کرتا تھا ۔

ابن حجر ( وفات ٨ ۵ ٢ هء) بھی اپنی کتاب “ لسان الميزان ”ميں عبد الله بن سبا کے بارے ميں ذہبی کے اسی بيان اور ابن عساکر کے پہلے والے بعض نقليات کو نقل کرنے کے بعدکہتا ہے:

”اما م نے ابن سبا کو کہا: خدا کی قسم پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے مجھے کوئی ایسا مطلب نہيں بتایا ہے کہ ميں نے” معجم البلدان” ميں لفط جوزجان ميں آیا ہے کہ جوزجانی نے کسی سے چاہا کہ اس کےلئے ایک مرغ ذبح کرے اس شخص نے نہيں مانا جوزجانی نے کہا: ميں تعجب کرتا ہوں کہ لوگ ایک مرغ کو ذبح کرنے کيلئے آمادہ نہيں ہوتے ہيں جبکہ علی ابن ابيطالب نے تنہا ایک جنگ ميں ستر ہزار افرد کو قتل کيا جوزجانی ٢ ۵ ٩٣١ / هء ميں فوت ہوا ہے )( تذکرة الحفاظ ترجمہ ۵۶ ٩ ، تاریخ ابن عساکر و تاریخ ابن کثير ١١ملاحظہ ہو(

اسے لوگوں سے مخفی رکھا ہو ميں نے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے : قيامت سے پہلے، تيس افرا دکذاب اور جھوٹے پيدا ہوں گے اس کے بعد فرمایا:

ابن سبا تم ان تيس افراد ميں سے ایک ہوگے۔

ابن حجر مزید کہتا ہے:

” سوید بن غفلہ ، علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی خلافت کے دوران ، ان کی خدمت ميں حاضر ہوا ور عرض کی : ميں نے بعض لوگوں کو دیکھا جن ميں عبد الله بن سبا بھی موجود تھا ، وہ ابوبکر اور عمر پر سخت تنقيد کرتے تھے اور انهيں برا بهلا کہتے تھے اور وہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ بھی ان دو خليفہ کے بارے ميں باطن ميں بدگمان ہيں “

ابن حجر اضافہ کرتا ہے :

”عبد الله بن سبا پہلا شخص تھاجس نے خليفہ اول و دوم کے خلاف تنقيد اور بدگوئی کا آغازکيا اور اظہار کرتا تھا کہ علی بن ابی طالب ان دو خليفہ کے بارے ميں بدگمان تھے اور اپنے دل ميں ان کے بارے ميں عداوت رکھتا ہے ۔ جب علی نے اس سلسلہ ميں عبدا لله بن سبا کے اظہارات کو سنا ، کہا: مجھے اس خبيث سياہ چہرے سے کيا کام ہے ؟ ميں خدا سے پناہ مانگتا ہوں اگر ان دو افرادکے بارے ميں ميرے دل ميں کسی قسم کی عداوت ہو، اس کے بعد ابن سبا کو اپنے پاس بلایا اور اسے مدائن جلا وطن کردیا اور فرمایا: اسے قطعاً ميرے ساتھ ایک شہر ميں ز ندگی نہيں کرنی چاہئے اس کے بعدلوگوں کے حضور ميں منبر پر گئے اورابن سباکی روداد اور خليفہ اول و دوم کی ثنا بيان کی ۔ اپنے بيانات کے اختتام پر فرمایا: اگر ميں نے کسی سے سنا کہ وہ مجھے ان دو خليفہ پر ترجيح دیتا ہے اور ان سے مجھے برتر جانتا ہے تو ميں ا س پر افترا گوئی کی حد جاری کروں گا اس کے بعد کہتا ہے:

” عبد الله بن سبا کے بارے ميں ر وایتيں اور روداد تاریخ کی کتابوں ميں مشہور ہيں ليکن خدا کا شکر ہے کہ اس سے کوئی روایت نقل نہيں ہوئی ہے اس کے ماننے والے “سبائيوں ”

کے نام سے مشہور تھے جو علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی الوہيت کے معتقد تھے علی عليہ السلام نے انهيں آگ ميں ڈال کر جلا دیا اور انهيں نابود کردیا ۔(۱)

____________________

١۔ مؤلف کہتا ہے : اس داستان کو جعل کرنے والا ، شاید امام کے ان خطبوں کو فراموش کرگيا ہے جو امام نے ان دو افراد کے اعتراض اور شکایت کے موقع پر جاری کيا تھا۔ جيسے حضرت کا خطبہ شقشقيہ جو نہج البلاغہ کا تيسرا خطبہ ہے۔