عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

مشاہدے: 23532
ڈاؤنلوڈ: 3829


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23532 / ڈاؤنلوڈ: 3829
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 3

مؤلف:
اردو

”خدا کی قسم فرزند ابو قحافہ نے پيراہن خلافت پہن ليا حالانکہ وہ ميرے بارے ميں ا چھی طرح جانتا تھاکہ مير اخلافت ميں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کيل کا ہوتا ہے ميں وہ کوہ بلند ہوں جس پر سے سيلاب کا پانی گزر کر نيچے گرتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہيں مارسکتا ميں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکادیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کيا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بهيانک تيرگی پر صبر کرلوں کہ جس ميں سن رسيدہ بالکل ضعيف اور بچہ بوڑها ہوجاتاہے اور مومن اس ميں جد و جہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے مجھے اسی اندهيرے پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا لہذا ميں نے صبر کيا حالانکہ ميری آنکھوں ميں خس و خاشاک اور گلے ميں ہڈی پهنسی ہوئی تھی۔ ميں اپنی ميراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابن خطاب کودے گيا تعجب ہے کہ و ہ زندگی ميں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتاتھا ليکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنياد دوسرے کيلئے استوا رکرتا گيا بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تهنوں کو آپس ميں بانٹ ليا اس نے خلافت کو ایک سخت اور ناہموار جگہ پر رکھ دیا اس کی جراحتيں کاری تھيں اور اس کا چھونا خشن تھا جہاں بات بات ميں ٹھوکر کهانا اورپھر عذر کرنا تھا جس کااس سے سابقہ پڑے وہ ایساہے۔

مقریزی ( وفات ٨ ۴ ٨ هء ) اپنی کتاب “ خطط” کی فصل “ذکر الحال فی عقائد اهل الاسلام ” ميں عبدا لله بن سباکے بارے ميں کہتا ہے: “ اس نے علی ابن ابيطالب کے زمانے ميں بغاوت کی اور یہ عقيدہ ایجاد کيا کہ پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے علی عليہ السلام کو مسلمانوں کی امامت اور پيشوائی کيلئے معين فرمایا اورپيغمبر کے واضح فرمان کے مطابق آپ کے بعد علی آپ کے وصی، جانشين اور امت کے پيشوا ہيں اس کے علاوہ یہ قيد بھی ایجاد کيا کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام ور رسول خدا اپنی وفات کے بعد رجعت فرمائيں گے یعنی دوبارہ دنيا ميں تشریف لائيں گے ان کے عقيدہ کے مطابق علی ابن ابيطالب نہيں مرے ہيں بلکہ وہ زندہ اور بادلوں ميں ہيں اور خداوند عالم کا ایک جز ان ميں حلول کرچکا ہے(۱)

مقریزی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے یہاں تک کہتا ہے:

”اس ابن سبا سے غاليوں اور رافصيوں کے کئی گروہ وجود ميں آئے ہيں کہ وہ سب جيسے کہ کوئی سرکش اونٹ پر سوار کہ مہار کھينچتا ہے تو اس کی ناک کا درميانی حصہ شگافتہ ہوجاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہوجائے گا اور اگر باگ کو ڈهيلا چھوڑدیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ ہلاکتوں ميں پڑجائے گا۔ خدا کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی ميں مبتلا ہوگئے، ميں نے اس طویل مدت اورشدید مصيبت پر صبر کي دوسری جگہ بھی ان فرمائشات کے مانند بيان فرمایا ہے ۔

____________________

١۔ تعجب کا مقام ہے کہ مقریزی اپنی بات ميں تناقض کا شکار ہوا ہے اپنے گذشتہ بيان پر توجہ کئے بغير مقریزی کہتا ہے: ابن سبا کے عقيدہ کے مطابق علی عليہ السلام اپنی وفات کے بعد رجعت کریں گے اس کے بعد بلافاصلہ کہتا ہے ابن سبا معتقد ہے کہ علی - نہيں مرے ہيں اور ا بھی زندہ ہيں ۔

امر امامت ميں “ توقف ” کے قائل ہيں کہتے ہيں : مقام امامت معين افراد کيلئے مخصوص اور منحصر ہے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس مقام پر فائز نہيں ہوسکتا ہے ۔

رافضيوں نے رجعت کے عقيدہ کو اسی ابن سبا سے حاصل کيا ہے اور کہا ہے: امام مرنے کے بعد رجعت یعنی دوبارہ دنيا ميں آئيں گے یہ عقيدہ وہی عقيدہ ہے کہ اماميہ ابھی بھی “ صاحب سرداب” کے بارے ميں یہی عقيدہ رکھتے ہيں کہ حقيقت ميں یہ تناسخ ارواح کے علاوہ کوئی اور عقيدہ نہيں ہے ۔

اس کے علاوہ رافضيوں نے حلول کا عقيدہ بھی اسی عبدا لله بن سبا سے حاصل کيا ہے اور کہا ہے: خدا کا ایک جزو علی عليہ السلام کے بعد آنے والے ائمہ ميں حلول کر گيا ہے اور یہ لوگ اسی وجہ سے مقام امامت کے حقدار ہيں ، جس طرح حضرت آدم ملائکہ کے سجدہ کے حقدار تھے۔

مصر ميں خلفائے فاطميين کے بيانات اور دعوی بھی اسی اعتقاد کی بنياد پر تھے جس کا خاکہ اسی عبدا لله بن سبا نے کھينچا تھا ۔

مقریزی اپنی بات کو یوں جاری رکھتاہے: “ابن سبا یہودی ہے جس نے عثمان کے تاریخی فتنہ وبغاوت کو برپا کرکے عثمان کے قتل کا سبب بنا“

مقریزی ابن سبا اور اس کے عالم اسلام اور مسلمانوں کے عقائد ميں ایجاد کردہ مفاسد کی نشاندہی کے بعد گروہ “ سبيئہ ” کا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے:

” پانچواں گروہ بھی “ سبئيہ”ہی سے ہے اور وہ عبدا لله بن سبا کے ماننے والے ہيں کہ اس نے علی ا بن ابيطالب کے سامنے واضح اور کھلم کھلا کہا تھا کہ “ تم خدا ہو“

متاخرین کا نظریہ یہاں تک ہم نے ابن سبا اور گروہ سبيئہ کے بارے ميں عقائد و ادیان کے دانشوروں ،مؤرخين اورادیان کی کتابيں لکھنے والے مؤلفين کے نظریات بيان کئے اور ہم نے مشاہدہ کيا کہ ان علماء کی یہ کوشش رہی ہے کہ ان اقوال اور نظریات کو دورہ اول کے راویوں سے متصل و مربوط کریں اور ان سے نقل قول کریں اور من وعن انہيں مطالب کو بعد والے مؤلفين اور متاخرین نے آ کر تکرار کی ہے اور بحث و تحقيق کے بغير اپنے پيشرؤں کی باتوں کو اپنی کتابوں ميں ثبت کر دیا ہے ، جيسے:

١۔ ابن ابی الحدید ( وفات ۶۵۵ هء) شرح خطبہ ٢٧ از شرح نہج البلا غہ ۔

٢۔ ابن کثير ( وفا ٧٧ ۴ هء ) نے اپنی تاریخ ميں ۔

٣۔ بستانی ( وفات ١٣٠٠ هء) نے بھی جو کچھ عبد الله بن سبا کے بارے ميں اسی لفظ

کے ضمن ميں اپنے دائرة المعارف ميں درج کيا ہے اسے مقریزی اور ابن کثير سے نقل کيا ہے ۔

۴ ۔ دوسروں ، جيسے ابن خلدون نے بھی اس روش پر عمل کيا ہے اور مطالب کو تحقيق کئے بغير اپنے پيشواؤں سے نقل کيا ہے بہر حال اس قسم کے مولفين نے بعص اوقات سيف کے بيانات کو بالواسطہ نقل کرکے اس کی پيروی کی ہے اور کبھی اس قسم کے مطالب نقل کرنے والوں کی پيروی کی ہے اور ان مطالب کو ان سے نقل کرکے دوسروں تک پہنچایا ہے اس قسم کے افراد بہت ہيں مانند مقریزی کہ وہ اپنے مطالب کو سيف کی روایتوں اور “ ملل ونحل”

کی کتابيں لکھنے والے مؤلفين سے نقل کرتا ہے اور بستانی “ ملل و نحل ” کے مؤلفين کے بيانات کو اسی مقریزی اور سيف کی روایتوں کو ابن کثير سے نقل کرتا ہے اور تمام مؤلفين نے بھی اس روش کی پيروی کی ہے ۔

عبدا لله بن سبا کے بارے ميں ہمار ا نظریہ

انهم تنافسوا فی تکثير عدد الفرق فی الاسلام

ادیان کی کتابيں لکھنے والے مؤلفين نے اسلامی فرقوں کی تعداد بڑهانے ميں مقابلہ کيا ہے ۔

انهم یدونون کل ما یدور علی السنة اهل عصرهم

ادیان کی کتابيں لکھنے والوں نے اپنے وقت کے کوچہ و بازار کے لوگوں کے عاميانہ مطالب کو اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے. مؤلف یہ تھا عبدالله بن سبا، سبيئہ اور اس سے مربوط روایتوں کے بارے ميں قدیم و جدید علمائے ادیان ، عقائد اور مؤرخين کا نظریہ جو گزشتہ پنجگانہ فصلوں ميں بيان کيا گيا ہے اور اس سلسلہ ميں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ان بيانات اور نظریات ميں سے کوئی ایک بھی مضبوط اور پائيدار نہيں ہے کيونکہ ان کی بنياد بحث و تحقيق پر نہيں رکھی گئی ہے کيوں کہ اصل ميں عبدا لله بن سباسے مربوط روایتيں سيف بن عمر سے نقل کی گئی ہيں ہم نے اس کتاب کی ابتداء ميں اور کتاب “ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ” ميں سيف کی روایتوں اور نقليات کی حيثيت کو واضح کردیا ہے اور ثابت کيا ہے کہ وہ ایک خیالی اور جھوٹا افسانہ ساز شخص تھا کہ اس کی روایتيں اور نقليات افسانوی بنیادوں پر استوار ہيں ۔

ملل و مذہبی فرقوں سے متعلق کتابوں کے مؤلف انہوں نے بھی مذاہب اور اسلامی فرقوں کی کثرت اور تعداد کو بڑهانے ميں ایک دوسرے سے مقابلہ کيا ہے اور مختلف گروہوں کی تعداد زیادہ دکھانے ميں ایک دوسرے سے سبقت لينے کی کوشش کی ہے اسلام ميں گوناگوں فرقے اور گروہ وجو دميں لائے ہيں اور ان کی نامگذاری بھی کرتے ہيں تاکہ وہ اس راہ سے جدت کا مظاہر کریں اور جدید مذاہب کے انکشاف ميں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کریں اس محرک کے سبب مجہول اور گمنام تو کبھی خیالی ا فسانوی اور ایسے فرقے اپنی کتابوں ميں درج کردیاہے ہيں جس کا حقيقت ميں کہيں وجو دہی نہيں ہے جيسے : ناووسيہ ، طيارہ ، ممطورہ ، سبئيہ ، غرابيہ ، معلوميہ و مجہوليہ(۱) وغيرہ۔

ا سکے بعد ان مؤلفين نے ان ناشناختہ یا جعلی فرقوں اور گروہوں کے نظریا ت اور عقائد کے بارے ميں مفصل طور پر روشنی ڈالی ہے ہر مؤلف نے اس بارے ميں دوسرے مؤلف پر سبقت لينے کی سرتوڑ کوشش کی ہے اور ہر ایک نے تلاش کی ہے کہ اس سلسلہ ميں جالب تر مطالب اور عجےب و غریب عقائد ان مصروف گروهوں سے منسوب کریں ۔

یہ مؤلفين اور مصنفين اس خود نمائی، فضل فروشی اور غيرو اقعی مطالب لکھنے اور مسلمانوں کی طرف گوناگوں باطل عقائد کی تہمت لگانے ميں ---جن کی کوئی حقيقت نہيں ہے --- ایک بڑے ظلم کے مرتکب ہوئے ہيں ۔

اگر یہ طے پاجائے کہ ہم کسی دن اسلام کے مختلف فرقوں کے بارے ميں کوئی کتا ب لکھيں تو ہم مذکورہ گروہوں ميں ‘ موجدین ” کے نام سے ایک اور گروہ کا اضافہ کریں گے ۔ اس کے بعد اس فرقہ کی یوں نشاندہی کریں گے “ موجدیہ ” اسلام ميں صاحبان ملل و نحل اور عقائد و نظریات پر کتابيں لکھنے والے مؤلفين کا وہ گروہ ہے جن کاکام مسلمانوں ميں نئے نئے فرقے ایجاد کرنا ہے ان کو “ موجدیہ ” اسلئے کہا جاتاہے کہ وہ اسلام ميں فرقے ایجاد کرنے کا کمال رکھتے ہيں اور جن فرقوں کو وہ جعل کرتے ہيں ان کی عجيب و غریب نامگذاری بھی کرتے ہيں ۔

اس کے بعد جعل کئے گئے فرقوں کے لئے افسانوں اور خرافات پرمشتمل عقائدبھی جعل کرتے ہيں ۔

ہمارے اس دعوی کی بہترین دليل اور گویا ترین شاہد وہی مطالب ہيں جو شہرستانی کی “ ملل و نحل ” بغدادی کی الفرق بين الفرق ” اور ابن حزم کی “ الفصل ” کے مختلف ابواب اور فصلوں ميں درج ہوئے ہيں اگر ہم ان کی اچھی طرح تحقيق کریں تو مجبوراً اس نتيجہ پرپہنچيں گے کہ ان کتابوں کی بنياد علم ، تحقيق اور حقيقت گوئی پر نہيں رکھی گئی ہے اور مختلف فرقوں اور گروہوں کو نقل کرنے اور ان کے عقائد و نظریات بيان کرنے ميں ان کتابوں کے اکثر مطالب حقيقت نہيں رکھتے اور ان کے بيشتر نقليات بے بنياد اور خود ساختہ ہيں ۔

محرکا ت ہماری نظر ميں ان مؤلفين کی اس تباہ کن اور علم و تحقيق کی مخالف روش انتخاب کرنے ميں درج ذیل دو عامل میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے :

ا ول :جيسا کہ ہم نےپہلے اشارہ کيا ہے ادیان و مذاہب کی کتابيں لکھنے والے مذکورہ مؤلفين نے ان بے بنياد مطالب ، بيہودہ عقائد اور ان افسانوی اور نامعلوم فرقوں کو فضيلت اور سبقت حاصل کرنے کيلئے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے تا کہ اس کے ذریعہ اپنی جدت پسندی اور ندرت بیانی کرسکيں اور اس کے ساتھ ہی اپنے علم و فضيلت کے مقام کو دوسروں سے برتر ، معلومات کو زیادہ وسيع تر اپنی تاليف کردہ کتابوں کو دوسرو ں کی کتابوں سے تازہ تر اور ہماری اصطلاح ميں تحقيقی تر اور جدید تر اور عجيب تر مطالب والی کتابيں دکھائيں اور اس طرح اسلامی گروہوں کے انکشاف ميں دوسروں سے سبقت حاصل کرليں ۔

دوم : اگر ہم ان مؤلفين کے بارے ميں حسن ظن رکھيں اورےہ نہ کہيں کہ وہ اپنی تاليفات ميں بد نيتی ندرت جوئی ، برتری طلبی اور جدت پسندی رکھتے تھے کم از کم یہ کہنے پر مجبور ہيں کہ ان مؤلفين نے اپنی کتابوں کے مطالب کو اپنے زمانے کے لوگوں کی افواہوں اور گلی کوچوں کے عاميانہ مطالب سے لے کر تاليف کيا ہے ۔

اور خرافات پر مشتمل تمام وہ افسانے ان کے زمانے کے لوگوں کے درميان رائج اور دست بہ دست نقل ہوئے تھے کو جمع کرکے اپنی تاليفات ميں بھر دیا ہے اس لحاظ سے ان کتابوں کو ان مؤلفين کے زمانے کے عاميانہ افکار کی عکاسی کرنے والا آئينہ کہا جاسکتا ہے اور ان کتابوں سے یہ معلوم کيا جاسکتا ہے کہ ان مؤلفين کے زمانے ميں عام لوگ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے بارے ميں بے بنياد تصورات رکھتے تھے ، جيساکہ ہم اپنے زمانے ميں ان چيزوں کا کثرت سے مشاہدہ کرتے ہيں ۔ مثلاً بعض شيعہ عوام سنی بهائيوں کے بارے ميں یہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ ان کے ایک دم ہوتی ہے اور وہ اس دم کو اپنے لباس کے نيچے چهپا کے رکھتے ہيں اور اہل سنت کے عوام بھی شيعوں کے بارے ميں یہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ وہ ایک دم رکھتے ہيں ۔

اس لحاظ سے اگر کسی دن ہم بھی ملل و نحل ،عقائد اور نظریات پر کوئی کتاب لکھنا چاہيں تو اسميں مذکورہ مؤلفين کے طریقہ کار کی پيروی کرناچاہيں تو ہميں ان مؤلفين کی کتابوں ميں درج کئے گئے گوناگون فرقوں ميں ایک اور فرقے کا اضافہ کرنا چاہئيے ، اور کہنا چاہئے کہ: ایک اور فرقہ جو مسلمانوں ميں موجود ہے اس کا نام فرقہ “ دُنبيہ ” ہے اور اس فرقہ کے افراد بعض حيوانات کے مانند صاحب دم ہيں اور اس دم کو اپنے لباس کے نيچے مخفی رکھتے ہيں !!

افسانہ نسناس(۱)

هيهات لن یخطی القدر من القضاء این المفرّ ؟

تقدیر کا تير خطا کرکے کتنا دور چلا گيا قضا سے بچنے کی کوئی راہ فرار نہيں ہے .نسناس جيسا کہ ہم نے گزشتہ فصل ميں اشارہ کيا کہ ملل و نحل اور ادیان و عقائد کی کتابيں لکھنے والے مؤلفين کسی دليل ، سند اور ماخذکے ذکر کرنے کی ضرورت کا احساس کئے بغير ہر جھوٹے مطلب اور افسانے کو اپنی کتابوں ميں نقل کرتے ہيں اور اگر بعضوں نے سند و ماخذکا ذکرکيا بھی ہے تو وہ سند و مآخذ صحيح نہيں ہيں کيونکہ افسانوں کيلئے سند جعل کرنا بذات خود ایک دلچسپ کارنامہ ہے جو اس افسانہ کے صحيح یا غلط ہونے پر کسی طرح دلالت نہيں کرتا ہے اگر گزشتہ روایتوں کا آپس ميں موجود تناقض اور ان کے مضمون و متون کا من گڑهت اور ناقابل قبول ہونا ---جيسا کہ گزشتہ صفحات ميں ا ن کی نشاندہی کی گئی ---ان کے جعلی اور جھوٹ ہونے کو ثابت کرنے ميں کافی نہ ہوں اور انهيں بے اعتبار نہ کرسکيں تو ہم آنے والی فصل ميں گزشتہ روایتوں کے مانند چند دوسری جھوٹی روایتوں کو نقل کریں گے جو مسلسل اور متصل سندکے ساتھ صاحب خبر تک پہنچتی ہيں تا کہ اسی قسم کی افسانوی روایتوں کی سندوں کی قدر و قيمت بيشتر واضح ہو سکے ، اور معلوم ہوجائے کہ ان روایتوں کا ظاہر طور پر مستند ہونا ان کے صحيح اور حقيقی ہونے کی دليل نہيں ہوسکتی ہے ،

کيونکہ بہت سی جعلی اور افسانوی روایتےں مسلسل سند کے ساتھ اصلی ناقل تک پہنچتی ہيں ليکن ہرگز صحيح اور واقعی نہيں ہوتيں ۔

افسانہ نسناس کی با سند روایتيں اب ہم ان روایتوں کا ایک حصہ اس فصل ميں ذکر کرتے ہيں جو سند کے ساتھ نقل ہوئی ہيں ليکن پھر بھی صحيح اور واقعی نہيں ہيں اس کے بعد والی فصلوں ميں ان پر بحث و تحقيق کریں گے نتيجہ کے طور پر اس حقيقت تک پہنچ جائيں گے کہ صرف سند نقل کرنا روایت کے صحيح اور اصلح ہونے کی دليل نہيں ہے۔

١۔ مسعودی ، عبد الله بن سعد بن کثير بن عفير مصری سے اور وہ اپنے باپ سے اور وہ یعقوب بن حارث بن نجم سے اور وہ شبيب بن شيبہ تميمی سے نقل کرتا ہے کہ : ميں “ شحر ١ ميں اس علاقہ کے ”

____________________

١۔شحر، بحرالہند کے ساحل پرےمن کی طرف ایک علاقہ ہے (معجم البلدان(

رئيس و سرپرست کا مہمان تھا ، گفتگو کے ضمن ميں “ نسناس” کی بات چهڑگئی ميزبان نے اپنے خدمت گذاروں کو حکم دیا کہ اس کيلئے ایک “ نسناس ” شکار کریں ۔ جب ميں دوبارہ اس کے گھر لوٹ کرآیا تو ميں نے دیکھا کہ خدمت گذار ایک نسناس کو پکڑلائے ہيں نسناس نے ميری طرف مخاطب ہوکر کہا : تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں ميرے حال پر رحم کرنا ميرے دل ميں بھی اس کيلئے ہمدردی پيدا ہوئی ،ميں نے اپنے ميزبان کے نوکروں سے کہا کہ اس نسناس کو آزاد کردوتا کہ چلا جائے انہوں نے مير ی درخواست پر نسناس کو آزاد کردیا ۔ جب کهانے کيلئے دستر خوان بچها ، ميزبان نے سوال کيا کيا نسناس کو شکار نہيں کيا ہے ؟ انہوں نے جواب ميں کہا: کيوں نہيں ؟

ليکن تيرے مہمان نے اسے آزاد کر دیا ، اس نے کہا: لہذا تيار رہنا کل نسناس کو شکار کرنے کيلئے جآئیں گے دوسرے دن صبح سویرے ہم شکار گاہ کی طرف روانہ ہوئے اچانک ایک نسناس پيدا ہوا اور اچهل کود کر رہا تھا ، اسکا چہرہ اور پير انسان کے چہرہ اور پير جيسا تھا ،

اس کی ٹهڈی پر چند بال تھے اور سينہ پر پستان کے مانند کوئی چيز نمودار تھی دو کتے اس کا پيچها کررہے تھے او وہ کتوں سے مخاطب ہوکر درج ذیل اشعار پڑه رہا تھا :

ا فسوس ہے مجھ پر ! روزگار نے مجھ پر غم و اندوہ ڈال دیا ہے۔

ا ے کتوں ! ذرا ميرا پيچها کرنے سے رک جاؤ اور ميری بات کو سن کرےقےن کرو۔

ا گر مجھ پر نيند طاری نہ ہوتی توتم مجھے ہر گز پکڑنہيں سکتے تھے ، یا مرجاتے یا مجھ

سے دور ہوجاتے ۔

ميں کمزور اور ڈرپوک نہيں ہوں اور ایسا نہيں ہوں جوخوف و ہراس کی وجہ سے دشمن سے پيچھے ہٹتا ہے ۔

ليکن یہ تقدیر الٰہی ہے کہ طاقتور اور سلطان کو بھی ذليل و خوار کردیتا ہے(۱)

شبےب کہتا ہے کہ آخر کار ان دو کتوں نے نسناس کے پاس پہنچ کر اسے پکڑليا ۔

٢۔ حموی معجم البلدان ميں اس داستان کو شبيب سے نقل کرکے بيشتر تفصيل سے بيان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شبيب نے کہا:

” ميں شحر ” ميں خاندان “ مہر” کے ایک شخص کے گھر ميں داخل ہوا یہ اس علاقہ کا رئيس اور محترم شخص تھا ميں کئی روز اس کا مہمان تھا اور ہر موضوع پر بات کرتا تھا اس اثناء ميں ميں نے اس سے نسناس اور اس کی کيفيت کے بارے ميں سوال کيا اور اس نے کہا: جی ہاں نسناس اس علاقہ ميں ہے اور ہم اسکا شکار کرتے ہيں اور اس کا گوشت

____________________

١ الویل لی مما به دهانی

دهری من الهموم و الاخزان

قفا قليلاً ایها الکلبان

استمعا قولی و صدقانی

انکما حين تحاربانی

الفيتما حضرا عنانی

لو لا سباتی ما ملکتمانی

حتٰی تموتا او تفارقانی

لست بخوار و لا جبان

و لابنکس رعش الجنان

لکن قضاء الملک الرحمان

یذل ذا القوة و السلطان

کهاتے ہيں مزید کہا : نسناس ایک ایسا حيوان ہے جس کے ایک ہاتھ اور ایک پير ہیں اور اس کے تمام اعضا یعنی کان ، آنکھ ایک سے زیادہ نہيں ہيں اور اس کا نصف چہرہ ہوتا ہے ۔

شبيب کہتا ہے : خدا کی قسم دل چاہتا ہے کہ اس حيوان کو نزدیک سے دیکھ لوں ،

اس نے اپنے نوکروں کو حکم دیاکہ ایک نسناس کا شکار کریں ۔ ميں نے دوسرے دن دیکھا کہ اس کے نوکروں نے اس حيوان کو پکڑ لیا جس کا چہرہ انسان کے جيسا تھا ، ليکن نہ پورا چہرہ بلکہ نصف چہرہ اس کے ایک ہاتھ تھا وہ بھی اس کے سينہ پر لٹکا ہوا تھا اسی طرح اس کا پير بھی ایک ہی تھاجب نسناس نے مجھے دیکھا تو کہا؛ ميں خدا کی اور تيری پناہ چاہتا ہوں ميں نے نوکروں سے کہا کہ اسے آزاد کردو انہوں نے ميرے جواب ميں کہا: اے مرد! یہ نسناس تجھے فریب نہ دے کيونکہ یہ ہماری غذا ہے ليکن ميرے اصرار اور تاکيد کے نتيجہ ميں انہوں نے اسے آزاد کردیا ۔ اور نسناس بهاگ گيا اور طوفان کی طرح چلا گيا اور ہماری آنکھوں سے غائب ہوگيا جب دوپہر کے کهانے کا وقت آیا اور دسترخوان بچهایاگياتو ميزبان نے اپنے نوکروں سے سوال کيا : کيا ميں نے کل تمہيں نہيں کہا تھا کہ ایک نسناس کا شکار کرنا ؟

انہوں نے کہا: ہم نے ایک کو شکار کيا تھا ليکن تيرے مہمان نے اسے آزاد کردیا ميزبان نے ہنس کر کہا: لگتا ہے کہ نسناس نے تجھے فریب دیا ہے کہ تم نے اسے آزاد کيا ہے اس کے بعد نوکروں کو حکم دیا کہ کل کيلئے ایک نسناس کا شکار کریں شبيب کہتا ہے : ميں نے کہا اجازت دو گے کہ ميں بھی تيرے غلاموں کے ہمراہ شکار گاہ جاؤں اور نسناس کو شکار کرنے ميں ان کی مدد کروں ؟ اس نے کہا : کوئی مشکل نہيں ہے ،ہم شکاری کتوں کے ہمراہ شکار گاہ کی طرف روانہ ہوئے اور رات کے آخری حصہ ميں ایک بڑے جنگل ميں پہنچے ، اچانک ایک آواز سنی جيسا کہ کوئی فریاد بلند کررہا تھا: اے ابو مجمر ! صبح ہوچکی ہے ، رات نے اپنا دامن سميٹ لیاہے ، شکاری سر پر پہونچ چکا ہے لہذا جلدی سے اپنے آپ کو کسی پنا گاہ ميں پہنچا دو(۱) !

دوسرے نے جواب ميں کہا: کلی و لا تراعی “ کهاو اور ناراض مت ہو“

راوی کہتا ہے : ميں نے دیکھا کہ “ ابو مجمر ” کو دو کتوں نے محاصرہ کيا ہے اور وہ یہ اشعار پڑه رہا ہے :الویل لی مما دهانی تا آخر اشعار ( کہ گزشتہ روایت ميں ملاحظہ فرمایا(

شبيب کہتا ہے : آخر کار وہ دو کتے “ ابو مجمر ” کے نزدیک پہنچے اور اسے پکڑ ليا ۔

جب دوپہر کا وقت آیا نوکروں نے اسی ابو مجمر کا کباب بنا کر ميزبان کے دستر خوان پر رکھا۔

٣۔ پھر یہی حموی ، حسام بن قدامہ اور وہ اپنے باپ سے اور وہ بھی اپنے باپ سے نقل کرتا ہے : ميرا ایک بھائی تھا ، اس کا سرمایہ ختم ہوا تو وہ تنگ دست ہوگے

ا۔ سرزمين ‘ ‘ شحر ”ميں ہمارے چند چچيرے بھائی تھے ۔ ميرا بھائی اس اميد سے کہ چچيرے بھائی اس کی کوئی مالی مدد کریں گے “ شحر ” کی طرف روانہ ہوا ۔ چچيرے بهائيوں نے اس کی آمد کو غنيمت سمجھ کر اس کا استقبا ل کيا اور اس کی مہمان

____________________

١۔ یا ابا مجمر! ان الصبح قد اسفر ، و الليل قد ادبر و القنيص قد حضر فعليک بالوزر ۔

نوازی اور خاطر تواضع کرنے ميں کوئی کسر باقی نہ رکھی ۔ ایک دن اسے کہا کہ اگر ہمارے ساتھ شکار گاہ آجاؤ گے توتيرے لئے یہ سےر و سياحت نشاط و شادمانی کا سبب ہوگی ۔

مہمان نے کہا اگر مصلحت سمجھتے ہيں تو کوئی حرج نہيں ہے اور ان کے ساتھ شکار گاہ کی طرف روانہ ہوا یہاں تک ایک بڑے جنگل ميں پہنچے اسے ایک جگہ پرٹھہرا کر خود شکار کرنے کيلئے جنگل ميں داخل ہوئے ۔ وہ مہمان کہتا ہے : ميں ایک کنارے پر بيٹها تھا کہ اچانک دیکھا کہ ایک عجيب الخلقہ مخلوق جنگل سے باہر آئی ظاہری طور پر یہ مخلوق انسان سے شباہت رکھتی تھی اس کے ایک ہاتھ اور ایک پير تھا اور ایک آنکھ اور نصف ریش یہ جانور فریاد بلند کررہا تھا :الغوث ! الغوث! الطریق الطریق عافاک الله ( مدد ! مدد! راستہ چھوڑو ! راستہ چھوڑو ! خدا تجھے سلامت رکھے داستان کا راوی کہتا ہے : ميں اسکے قيافہ اور ہيکل کو دیکھ کر ڈر گيا اور بهاگ کھڑا ہوا اور متوجہ نہيں ہوا کہ یہ عجيب مخلوق وہی شکار جس کے بارے ميں ميرے ميزبان نے گفتگو کی تھی ، وہ جانور جب اچهلتے کودتے ہوئے ميرے نزدیک سے گزرا تھا تو درج ذیل مضمون کے اشعار پڑه رہا تھا ۔

صياد کی صبح ہوئی شکاری کتوں کے ہمراہ شکار پر نکل پڑے ہیں آگاہ ہوجاؤتمہارےلئے نجات کا راستہ ہے۔

ليکن موت سے کہاں فرار کيا جاسکتا ہے ؟ مجھے خوف دلایا جاتا اگر اس خوف دلانے ميں کوئی فائدہ ہوتا!مقدر کے تير کا خطا ہونا بعيد ہے تقدیر سے بهاگنا ممکن نہيں(۱)

جب وہ مجھ سے دور چلا گيا، تو فوراً ميرے رفقاء جنگل سے باہر آگئے اور مجھ سے کہا : ہمارا شکار کہاں گيا جسے ہم نے تيری طرف کوچ کيا تھا ؟ ميں نے جواب ميں کہا: ميں نے کوئی شکار نہيں دیکھا ، ليکن ایک عجيب الخلقة اور حيرت انگيز انسان کو دیکھا کہ جنگل سے باہر آیا اور تيزی کے ساتھ بهاگ گيا ۔ ميں نے اس کے قيافہ کے بارے ميں تفصيلات بتاتی تو

____________________

١غدا القنيص فابتکر

باکلب وقت السحر

لک النجا وقت الذکر

ووزر و لا وزر

این من الموت المفر ؟

حذّرت لو یغنی الحزر

هيهات لن یخطی القدر

من القضاء این المفر؟ !

ا نہوں نے ہنس کر کہا: ہمارے شکار کو تم نے کھودیا ہے ميں نے کہا؛ سبحان الله کيا تم لوگ آدم خور ہو ؟ جس کو تم اپنا شکار بتاتے ہو وہ تو آدم زاد تھا باتيں کرتا تھا اور شعر پڑهتا تھا ۔ انہوں نے جواب ميں کہا: بھائی ! جس دن سے تم ہمارے گھر ميں داخل ہوئے ہو صرف اسی کا گوشت کهاتے ہو ، کبھی کباب کی صورت ميں تو کبھی شوربے دار گوشت کی صورت ميں ۔ ميں نے کہا: افسوس ہو تم پر ! کيا ان کا گوشت کهایا جاسکتاہے اور حلال ہے ؟ انہوں نے کہا؛ جی ہاں چونکہ یہ پيٹ والے ہيں اور جگالی بھی کرتے ہيں لہذا ان کا گوشت حلال ہے ۔

۴ ۔ پھر سے حموی -- “ ذ غفل ” نسابہ(۲) سے اور وہ ایک عرب شخص سے نقل کرتا ہے کہ ميں چند لوگو کے ہمراہ “ عالج ” کے صحرا ميں چل رہے تھے کہ ا تفاق سے ہم راستہ بهول گئے یہاں تک سمندر کے ایک ساحل پر واقع جنگل ميں پہنچ گئے اچانک دیکھا کہ اس جنگل سے ایک بلند قامت بوڑها باہر آیا ۔ اس کے سروصورت انسان کے مانند تھےليکن بوڑها تھا ایک ہی آنکھ رکھتا تھا اور تمام اعضاء ایک سے زیادہ نہ تھے جب اس نے ہميں دیکھا تو بڑی تيزی سے تيز رفتار گھوڑے سے بھی تيز تر رفتار ميں بهاگ گيا ، اسی حالت ميں اس مضمون چند اشعار بھی پڑهتا جارہاتھا:

خارجی مذہب والوں کے ظلم سے تيزی کے ساتھ فرار کررہا ہوں چونکہ بهاگنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہيں ہے ۔

ميں جوانی ميں بڑا طاقت ور اور چالاک تھا ليکن آج کمزور اور ضعيف ہوگیا ہوں ١

۵ ۔ پھر حموی کہتا ہے : یمن کے لوگوں کی روایتوں ميں آیا ہے کہ کچھ لوگ نسناس کے شکار کيلئے گئے لشکر گاہ ميں انہوں نے تين نسناسوں کودیکھا ان ميں سے ایک کو شکار کيا ۔ باقی دونسناس درختوں کی پيچھے چهپ گئے اور شکاری انهيں ڈهونڈ نہ سکے ۔

ایک شکار ---جس نے نسناس کا شکار کيا تھا ---نے

____________________

٢۔ ذغفل ، حنطلہ بن زید کا بيٹاہے ابن ندیم کہتا ہے؛ ذغفل کا اصل نام حجر ہے اورذغفل اس کا لقب ہے اس نے عصر پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کو درک کيا ہے ليکن اس کا صحابی ہونا علماء تراجم کے یہاں اختلافی مسئلہ ہے قول صحيح یہ ہے کہ اسے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے صحابی ہونے کا افتخار ملا ہے معاویہ کی خلافت کے دوران اس کے پاس گيا معاویہ نے اس سے ادبيات ، انساب عرب اورعلم نجوم کے بارے ميں چندسوال کئے اس کی معلومات کی وسعت اسے بہت پسند آئی حکم دیا تا کہ اس کے بيٹے کو علم انساب ،نجوم ، اورادبيات سکهائے ، دغفل جنگ ازارقہ ميں ۶٠ هء سے پہلے دولاب فارس ميں ڈوب گيا ۔ فہرست ابن ندیم ٢٣۶ رجوع کيا جائے ۔ / ۴۶۴ نمبر ٢٣٩٩ اور تقریب التہذیب ١ / ١٣٢ اصابہ ١ / ١٣١ ، و المحجر ۴٧٨ ، اسدا لغابہ ٢

١ فررت من جود الشراة شدا اذ لم اجد من القرار بدا

قد کنت دهراً فی شبابی جلدا فها انا اليوم ضعيف جدا

کہا: خداکی قسم جسے ہم نے شکار کيا ہے بہت ہی چاق اور سرخ خون والا ہے جب اسکی آواز کو درختوں ميں چهپے نسناسيوں نے سنی تو انميں سے ایک نے بلند آواز ميں کہا: چونکہ اس نے “ صرو ” ١

کے دانے زیادہ کهائے تھے لہذا چاق ہوا ہے جب شکاریوں نے اس کی آواز سنی اس کی طرف دوڑے اور اسے بھی پکڑ ليا ۔ ایک شکاری نے ۔ جس نے اس نسان کا سر کاٹا تھا۔ کہا:

خاموشی اور سکوت کتنی اچھی چيز ہے ؟ اگر یہ نسناس زبان نہ کهولتا ہم اس کی مخفی گاہ کو پيدا نہيں کرسکتے اور اسے پکڑ نہيں سکتے تھے اسی اثناء ميں درختوں کے بيچ ميں تيسرے نسناس کی آواز بھی بلند ہوئی اور اس نے کہا: دیکھئے ميں خاموش بيٹها ہوں اور زبان نہيں کهولتا ہوں ۔ جب اس کی آواز کو شکاریوں نے سنا تو اسے بھی پکڑ ليا اس طرح تينوں نسناسوں کو پکڑ کر ذبح کيا اور ان کا گوشت کها ليا۔

یہ تھا ان روایتوں کا ایک حصہ جنہيں سند کے ساتھ نسناس کے بارے ميں نقل کيا گيا ہے اگلی فصل ميں اور بھی کئی روایتيں نسناس کے وجود کے بارے ميں نقل کرکے ان پر بحث و تحقيق کریں گے۔

نسناس کے پائے جانے اور اسکے معنی کے بارے ميں نظریات

انّ حيّاً من قوم عاد عصوا رسولهم فمسخهم الله ن سناساً

قوم عاد کے ایک گروہ نے اپنے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی نافرمانی کی تو خدا نے انهيں نسناس کی صورت میں مسخ کردے(۱) ۔ ( بعض لغات کی کتابيں )

ہم نے گزشتہ فصل ميں نسناس کے بارے ميں کئی روایتيں نقل کيں ۔ اب ہم اس فصل ميں نسناس کے وجود اورتعارف کے بارے ميں کئی دوسری روایتيں نقل کریں گے اور اس کے بعد ان روایتوں پر بحث و تحقيق کریں گے ۔

١۔ حموی نے احمد بن محمد ہمدانی ١ کی کتاب سے نسناس کے وجود کے بارے ميں يوں نقل کيا ہے:” آدم ” کی بيٹی “ وبار ” ہر سال صنعا ميں “شحر ” اور ‘ تخوم ” کے درميان واقع ایک وسيع اورسرسبز

____________________

١۔ احمد بن محمد بن اسحاق ، معروف بہ ابن الفقيہ ہمدانی صاحب ایک کتاب ہے جو ملکوں اور شہروں کی شناسائی پر ہے اوریہ کتاب دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس کی وفات ٣۴٠ ه ء ميں واقع ہوئی ہے فہرست ابن ندیم ٢١٩ اور هدیة العارفين ۔

شاداب محل ميں کچھ مدت گزاری تھی چونکہ یہ علاقہ روئے زمين پر پر برکت ترین ،سر سبز و شاداب ترین علاقہ تھا اور دنيا کے دوسرےحصوں کی نسبت یہاں پر بيشتر درخت ، باغات ، ميوہ اور پانی جيسی نعمتيں تھيں ، اس لئے تمام علاقوں سے مختلف قبائل وہاں جاکر جمع ہوتے تھے بہت سی زمينيں آباد کی گئيں تھی اور ان کی ثروت دن بہ دن بڑهتی جا رہی تھی ، اس لئے ان لوگوں نے تدریجاً عياشی اور خوش گزارانی کے لئے اپنا ٹهکانابناليا تھا اور کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگئے تھے اور طغيانی و بغاوت پر اتر آئے تھے خداوند عالم نے بھی ان کی اس نافرمانی اور بغاوت کے نتيجہ ميں ان کی تخلےق و قيافہ کو مسخ کرکے انهيں نسناس کی صورت ميں تبدیل کردیاتا کہ ان کے زن و مرد نصف سر و صورت اور ایک آنکھ ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ والے ہوجآئیں ، وہ اس قيافہ و ہيکل کی حالت ميں سمندر کے کنارے نيزاروں (جهاڑیوں ) ميں پھر تے تھے اومویشيوں کی طرح چرا کرتے تھے ۔

٢۔ طبری نسناس کے نسب کو ابن اسحاق سے یوں نقل کرتا ہے:

’ اميم بن لاوذ بن سام بن نوح کی اولاد صحرائے “ عالج ” ميں “ وبار” کے مقام پر رہائش پذیر تھے ۔ نسل کی افزائش کی وجہ سے ان کی آبادی کافی حد تک بڑه گئی اور وہ ثروت مند ہوگئے اس کے بعد ایک گناہ کبيرہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے خدا کی طرف سے ان پر بلا نازل ہوئی کہ اس بلا کے نتيجے ميں وہ سب ہلاک ہوگئے صرف ان ميں سے معدود چندافراد باقی بچے ليکن وہ دوسری صورت ميں مسخ ہوئے کہ اس وقت نسناس کے نام سے مشہور ہيں ۔

٣۔ پھر سے طبری ابن کلبی(۱) سے نقل کرتا ہے : “ابرهة بن رائش بن قيس صفی بن سبا بن یشجب کے بيٹے یمن کے پادشاہ نے ملک مغرب کی انتہا پر ایک جنگ لڑی اور اس جنگ ميں اس نے فتح پائی ایک بڑی ثروت کو غنيمت کے طورپر حاصل کيا ان غنائم کو نسناسوں کے ساتھ لے آیا ۔ وہ وحشتناک قيافہ رکھتے تھے لوگوں نے وحشت ميں پڑ کر پادشاہ کو “ ذو الاذاعر”’ نام رکھا یعنی رعب ووحشت والے

۴ ۔ کراع(۲) کہتا ہے: نسنا س نون پر زبر یا زیر سے --- نقل ہوا ہے کہ ---- وحشی حيوانوں ميں سے ایک حيوان ہے کہ اسے شکار کرتے ہيں اور اس کا گوشت کهاتے ہيں ۔ ان کا قيافہ انسانوں کا سا ہے اور انسانوں کی طرح گفتگو کرتے ہيں البتہ ایک آنکھ ، ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ رکھتے ہيں ۔ ۵ ۔ ازهری ٣ نسناس کی یوں نشان دہيکرتا ہے:

____________________

١۔ ابن کلبی : ہشام بن محمد کلبی نسابہ کے نام سے معروف ہے ٢٠۴ هف یا ٢٠۶ ه ميں وفات پائی ہے ۔

٢۔ کراع النمل : وہی ابو الحسن علی بن حسن ہنائی عضدی مصری ہے کہ چھوٹے قد کی وجہ سے “ کراع النمل ”سے معروف تھا ۔ لغت عرب ميں وسيع معلومات رکھتا تھا اور صاحب تاليفات بھی تھا اس نے ٣٠٩ ئه کے بعد / ١١٢ ) اور انباء الرواہ القفطی ( ٢ وفات پائی ہے اس کی زندگی کے حالات کے بارے ميں ا رشاد الاریب حموی ( ۵٢۴٠ کی طرف رجوع کيا جائے ۔