عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے17%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24625 / ڈاؤنلوڈ: 4221
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

مؤلف:
اردو

۵۔ ازہری : ابو منصور محمد بن احمد بن ازہر علمائے لغت ميں سے ہے کہتے ہيں لغت عربی کو جمع کرنے کيلئے ٣٨ / اس نے تمام عرب نشين علاقوں کا سفر کيا ہے ۔ ٣٧٠ ميں وفات پائی ہے اس کی زندگی کے حالات اللباب ١ميں آئے ہيں ۔

” نسناس ایک مخلوق ہے جو قيافہ اور ہيکل کے لحاظ سے انسان جيسے ہيں ليکن جنس بشر سے نہيں ہيں بعض خصوصيات ميں انسان سے مشابہ ہيں اور بعض دوسرے خصوصيات ميں انسان سے مشابہ نہيں ہيں ۔

۶ ۔ جوہری(۱) صحاح اللغة ميں یوں کہتا ہے : نسناس ایک قسم کی مخلوق ہے جو ایک ٹانگ پر چلتے اور اچهل کود کرتے ہيں ۔

٧۔ زبيدی نے ‘ ‘ ابی الدقيش ”(۲) سے “ التاریخ ” ميں یوں نقل کيا ہے کہ نسناس سام بن سام کی اولاد تھے جو قوم عاد و ثمود تھے ليکن نسناس عقل نہيں رکھتے ہيں اور ساحل هند کے نيزاروں (جهاڑیوں )ميں زندگی گذارتے ہيں عرب اور صحرا نشين انهيں شکار کرتے ہيں ا ور ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہيں نسناس عربی زبان ميں بات کرتے ہيں نسل کی نسل بڑهاتے ہيں اور شعر بھی کہتے ہيں ، اپنے بچوں کے نام عربی ميں رکھتے ہيں ۔

٨۔ مسعودی کہتا ہے : نسناس ایک سے زیادہ آنکھ نہيں رکھتے۔ کبھی پانی سے باہر آتے ہيں اور گفتگو کرتے ہيں اور اگر کسی انسان کو پاتے ہيں تو اسے قتل کر ڈالتے ہيں ۔

٩۔ نہایة اللغة ” ، ‘ ‘ لسان الميزان ” ، “ قاموس ” اور ‘ التاج” نامی لغت کی معتبر و قابل اعتماد چار کتابوں کے مؤلفيں نے لغت “نسناس” کے ضمن ميں اس روایت کو نقل کيا ہے کہ :قوم عاد کے ایک قبيلہ نے اپنے پيغمبر کی نافرمانی کی تو خداوند عالم نے انهيں مسخ کرکے نسناس کی صورت ميں تبدیل کر دیاکہ وہ ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ رکھتے ہيں اوروہ ا نسان کا نصف بدن رکھتے ہيں راستہ چلتے وقت پرندوں کی طرح اچهل کود کرتے ہيں اور کهانا کهاتے وقت بھی حيوانوں کی طرح چرتے ہيں ۔

١٠ ۔ قاموس اور شرح قاموس التاج ميں آیا ہے : کبھی کہتے ہيں کہ نسناس کی وہ نسل نابود ہوچکی ہے جو قوم عاد سے مسخ ہوئی تھی ۔

کيونکہ دانشوروں نے تحقيق کی ہے کہ مسخ شدہ انسان تين دن سے زیادہ زندہ نہيں رہ سکتا ہے ليکن اس قسم کے نسناس --- جنہيں بعض جگہوں پر عجيب قيافہ اور خلق ميں دیکھا گيا ہے --- کوئی اور مخلوق ہے اور شاےد نسناس تين مختلف نسل ہيں : ناس ،

نسناسی ، اور نسانس نوع آخر کی مؤنث اور جنس مادہ ہے!

١١ ۔پھر سے “ التاریخ ” ميں “ عباب ” سے نقل کرتا ہے کہ نسل نسناس نسل نسناس سے عزیز تر و شریف تر ہے پھر ابو ہریرہ سے نسناس کے بارے ميں ایک حدیث نقل کی ہے کہ

____________________

١۔ جوہری : ابو نصر اسماعيل بن حماد ہے ان کی نسب بلا د ترک کے فاراب سے ہے اس نے عراق اور حجاز کے سفر کئے ہيں تمام علاقوں کا دورہ کيا ہے اس کے بعد نيشابور آیا ہے اور اسی شہر ميں سکونت کی ہے لکڑی سے دو تختوں کو پروں کے مانند بنا کر انهيں آپس ميں ایک رسی سے باندها اور چهت پر جاکر آواز بلند کی لوگو! ميں نے ایک ایس چيز بنائی ہے جو بے مثال ہے ابھی ميں ان دو پروں کے ذریعہ پر وار کروں گا نيشابور کے لوگ تماشا دیکھنے کيلئے جمع ہوئے اس نے اپنے دونوں پروں کو ہلا کر فضا ميں چهلانگ لگادی ليکن ان مصنوعی دو پروں نے اس کی کوئی یاری نہيں کی بلکہ وہ چهت سے زمين پر ١٠ ) کی طرف رجوع فرمائيں ۔( / ٢۶٩ ) لسان الميزان ۴٠٠ /٢ گر کر مرگيا ۔ یہ روئداد ٣۴٣ هء ميں واقع ہوئی ۔ معجم الادباء ٠٧ ميں آیا ہے ۔

٢۔ ابو الدقيش : قناتی غنوی ہے کہ اس کے حالا ت کی شرح ميں فہرست ابن ندیم طبع مصر ص ٠

اس عجيب نسل سے گروہ “ ناس ” نابود ہوگئے ہيں ليکن گروہ “ نسناس ” باقی ہیں اور اس وقت بھی موجود ہيں

١٢ ۔ سيوطی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے نسناس کے بارے ميں یوں نظریہ پيش کيا ہے ” لےکن وہ معروف حيوان جسے لوگ نسناس کہتے ہيں ان ميں سے ایک نوع بندر کی نسل ہے اور وہ پانی ميں زندگی نہيں کرسکتے یہ حرام گوشت ہيں ليکن ان حيوانوں کی دوسری نوع جو دریائی ہيں اور پانی ميں زندگی بسر کرتے ہيں ، ان کا گوشت حلال ہونے ميں دو احتمال ہے “ رویانی ”(۱) اور بعض دوسرے دانشور کہتے ہيں : ان کاگوشت حلال اور خوردنی ہے ۔

١٣ ۔ شيخ ابو حامد غزالی(۲) سے نقل ہوا ہے کہ نسناس کا گوشت حلال نہيں ہے کيونکہ وہ خلقت انسان کی ایک مخلوق ہے ۔

١ ۴ ۔ مسعودی ‘ مروج الذہب ” ميں نقل کرتا ہے:

” متوکل نے اپنی خلافت کے آغاز ميں حنين بن اسحاق(۳) سے کہا کہ چند افرادکو“نسناس ”اور اس کے بعد مسعودی کہتا ہے:

” ہم نے اس روداد کی تفصيل اور تشریح اپنی کتاب “ اخبار الزمان ” ميں درج کی ہے ،

اور وہاں پر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان لوگوں کو “ عربد” لانے کيلئے “ یمامہ اور نسناس ” لا نے کيلئے “ شحر ” بھيجا گيا تھا ۔یہ تھيں افسانہ نسناس اور اس کے پائے جانے کے بارے ميں روایتيں جو نام نہاد معتبر اسلامی کتابوں ميں درج کی گئی ہيں اور یہ روایتيں سند اور راویوں کے سلسلہ کے ساتھ

____________________

١۔ رویانی رویان سے منسوب ہے اور رویان طبرستان کے پہاڑوں کے درميان ایک بڑا شہر ہے حموی نے رویان کی تشریح ميں کہا ہے رویان ایک شہر ہے علماء اور دانشوروں کا ایک گروہ اسی شہر سے منسوب ہے جيسے : ابو لمحاسن عبدالواحد بن اسماعيل بن محمد رویانی طبری جو قاضی اور مذہب شافعی کے پيشواؤں ميں سے ایک ہے اور اس شخص نے بہت سی کتابيں لکھی ہيں علم فقہ ميں بھی ایک بڑی کتا ب“ البحر ” تصنیف کی ہے سخت تعصب کی وجہ سے ۵٠٠ هء یا ۵٠١ هء ميں مسجد جامع آمل ميں اسے قتل کيا گيا ۔

٢۔ ابو حامد : محمد بن محمد بن محمدغزالی ہے ایک گاؤں سے منسوب ہے جس کا نام غزالہ ہے یا یہ کہ منسوب بہ غزل ہے وہ ایک فلاسفر اور صوفی مسلک شخص ہے اس نے حجة الاسلام کا لقب پایا ہے دو سو سے زیادہ کتابيں لکھی ہيں اور مختلف شہروں جيسے : نيشابور ، بغداد ، حجاز ، شام اور مصر کے سفر کئے ہيں اور وہاں سے اپنے شہر طابران واپس آیا ہے اور وہيں پر ۵٠۵ ئه ميں وفات پائی ہے ۔

٣۔ حنين بن اسحاق کا باب اہل حيرہ عراق تھا بغداد کے علماء کا رئيس تھا اس کی کنيت ابو زید اور لقب عبادی تھا ٢۶٠ هء ميں اس نے وفات پائی (وفيات الاعيان) ۔

”عربد” ١ لانے کيلئے یتار کرے ۔ کئی لوگ گئے ، ليکن انہوں نے جتنی بھی کوشش اور کاروائی کی صرف دونسناس کو متوکل کی حکومت کے مرکز “ سرمن رای” تک صحيح و سالم پہنچا سکے ۔

اصلی ناقل تک پہنچی ہيں ليکن اس کے باوجود یہ تمام روایتيں جھوٹ اور افسانہ کے علاوہ کچھ نہيں ہيں ۔ ان کی اسناد اور راویوں کا سلسلہ بھی جھوٹ کو مضبوط اور مستحکم کرنے کيلئے جعل کيا گيا ہے اگلی فصل ميں یہ حقيقت اور بھی واضح ہوگی ۔

بحث کا خلاصہ اور نتيجہ افسانہ نسناس کے اسناد ہم نے گزشتہ دو فصلوں ميں نسناس کے وجود اور پيدائش کے بارے ميں نقل کی گئی روایتوں کو انکے اسناد اور راویوں کے سلسلہ کے ساتھ ذکر کيا ہے اور دیکھا کہ یہ روایتيں ایسے افراد سے نقل کی گئی ہيں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے نسناس کو دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے ان کی گفتگو و اشعار اور ان کا قسم کهانا سنا ہے اسے دیکھا ہے کہ ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ اورایک آنکھ اور نصف صورت کے باوجود بظاہر شبيہ انسان طوفان کے مانند تيز رفتار گھوڑے سے بھی تيز تر دوڑتے تھے ۔

ا ن دو روایتوں کو ایسے افراد سے نقل کيا ہے کہ انہوں نے نسناس کا شکار کرنے اور اس کا گوشت کباب اور شوربہ دار گوشت کی صورت ميں کهانے ميں شرکت کی ہے ۔

ایسے افرادسے بھی روایت کی ہے کہ اس کے گوشت کے حلال ہونے ميں اشکال کيا ہے اور کہا ہے کہ چونکہ نسناس انسان کی ایک قسم ہے اور گفتگو و شعر کہتا ہے اس لئے حرام ہے اس کے مقابلہ ميں بعض دوسرے افراد نے کہا ہے کہ نسناس کا گوشت حلال ہے کيونکہ وہ پيٹ رکھتا ہے اور حيوانوں کے مانند جگالی کرتا ہے ۔

ان روایتوں کو ایسے افراد نے نقل کيا ہے کہ خود انہوں نے خليفہ عباسی متوکل کو دیکھا ہے کہ اس نے اپنے زمانے کے بعض حکماء کو بھيجا کہ اس کيلئے “ عربد” اور “ نسناس ” شکار کرکے لائيں اور ان کے توسط سے دو عدد نسناس سامراء پہنچے ہيں ۔

ایسے افراد سے ان روایتوں کو نقل کيا گيا ہے کہ وہ خود نسناس شناس ہيں ا ور انہوں نے نسناس کے شجرہ نسب کے بارے ميں تحقيق کی ہے اور اپنا نظریہ پيش کيا ے اور ان کا شجرہ نسب بھی مرتب کيا ہے اور اس طرح نسناس کی نسل حضرت نوح تک پہنچتی ہے وہ اميم بن لاوذبن سام بن نوح کی اولاد ہيں جب بغاوت کرکے معصيت و گناہ ميں حد سے زیادہ مبتلا ہوئے تو خداوند عالم نے انهيں مسخ کيا ہے ۔

ان تمام مسلسل اور باسند روایتوں کو علم تاریخ کے بزرگوں ،علم رجال کے دانشوروں اور علم انسان کے اساتذہ نے نقل کيا ہے ، جيسے:

١۔ عظيم ترین اور قدیمی ترین عرب نسب شناس ابن اسحاق ( وفات ۶ ٨ هء(

٢۔ مغازی اور تاریخ کے دانشوروں کا پيشوا ابن اسحاق ( وفات ١ ۵ ١ هء(

٣۔ نسب شناسوں کا امام و پيشوا : ابن کلبی ( وفات ٢٠ ۴ هء(

۴ ۔ مؤرخيں کے امام و پيشوا: طبری ( وفات ٣١٠ ئه(

۴ ۔ جغرافيہ دانوں کے پيش قدم : ابن فقيہ همدانی ( وفات ٣ ۴ ٠ هء(

۶ ۔ تاریخ نویسوں کے علامہ : مسعودی ( وفات ٣ ۴۶ هء(

٧۔ علم بلدان کے عظيم دانشور : حموی ( وفات ۶ ٢ ۶ ئه(

٨۔ مختلف علم کے علامہ و استاد : ابن اثير ( وفات ۶ ٣٠ ئه(

جی ہاں ہم نے گزشتہ صفحات ميں جتنے بھی مطالب نسناس کے بارے ميں بيان کئے ہيں ان کو مذکورہ ، تاریخ ،لغت ، اور دیگر علوم ميں مہارت اور تخصص رکھنے والے علماء نے اپنی کتابوں اور تاليفات ميں نقل کيا ہے ۔

ت عجب کی حد یہ ہے کہ کبھی اس افسانہ کو حدیث کی صور ت ميں نقل کيا گيا ہے اور اس کی سند کو معصوم تک پہنچادیا ہے : نسناس قوم عاد سے تھے اپنے پيغمبر کی نافرمانی کی تو خدا نے انهيں مسخ کردیا کہ ان ميں سے ہر ایک کا ایک ہاتھ ، ایک ٹانگ اور نصف بدن ہے اور پرندوں کی طرح اچهل کود کرتے ہيں ا ور مویشيوں کی طرح چرتے ہيں ۔

پھر روایت کی ہے کہ نسناس قوم عاد سے ہيں ۔ بحر ہند کے ساحل پر نيزاروں ميں زندگی کرتے ہيں اوران کی گفتگو عربی زبان ميں ہے ۔

اپنی نسل بھی بڑهاتے ہی شعر بھی کہتے ہيں اپنی اولاد کيلئے عربی ناموں سے استفادہ کرتے ہيں ۔

ا س کے بعد ان علماء نے نسناس کے گوشت کے حلال ہونے ميں اختلاف کيا ہے بعض نے اس کے حلال ہونے کاحکم دیاہے ا ور بعض دوسروں نے اسے حرام قرار دیا ہے ليکن جلال الدین سيوطی تفصيل کے قائل ہوئے ہيں اور صحرا کے نسناسوں کو حرام گوشت ليکن سمندری نسناسوں کو حلال گوشت جانا ہے ۔

یہ عقائد و نظریات اور یہ روایتيں اور نقليات بزرگ علماء اور دانشوروں کی ہيں کہ ان میں سے بعض کے نام ہم نے یبان کئے ہيں اور بعض دوسروں کے نام ذیل ميں درج کئے جاتے ہيں :

١۔ کراع ، “ التاج ” کی نقل کے مطابق : وفات ٣٠٩ هء

٢۔ ازہری : تهذےب کے مطابق : وفات ٣٧٠ هء

٣۔ جوہری : صحاح کے مطابق : وفات ٣٩٣ هء

۴ ۔ رویانی : “التاج” کے مطابق: وفات ۵ ٠٢ هء

۵ ۔ غزالی :“ التاج” کے مطابق: وفات ۵ ٠ ۵ ئه

۶ ۔ ابن اثير : نہایة اللغة کے مطابق : وفات ۶ ٠ ۶ هء

٧۔ ابن منظور : لسان العرب کے مطابق : وفات ٧١١ هء

٨۔ فيروز آبادی : قاموس کے مطابق : وفات ٨١٨ هء ٩

۔سيوطی : التاج کے مطابق : وفات ٩١١ هء

١٠ ۔ زبيدی : تاج العروس کے مطابق: وفات ١٢٠ ۵ هء

١١ ۔ فرید وجدی دائرة المعار ف کے مطابق: وفات ١٣٧٣ ئه

افسانہ سبيئہ اور نسناس کا موازنہ

کيا مختلف علوم کے علماء ودانشوروں کے نسناس کے بارے ميں ان سب مسلسل اور با سند روایتوں کا اپنی کتابوں اور تاليفات ميں درج کرنے اور محققين کی اس قدر دلچسپ تحقيقات اور زیادہ سے زیادہ تاکےد کے بعد بھی کوئی شخص نسناس کی موجودگی حتی ان کے نر ومادہ اور ان کی شکل و قيافہ کے بارے ميں کسی قسم کا شک و شبہہ کرسکتا ہے !؟

کيا کوئی “ نسناس” ، “ عنقاء” ، “ سعلات البر ” اور “ دریائی انسان ”(۱) جيسی مخلوقات کے بارے ميں شک کرسکتا ہے جبکہ ان کے نام ان کی داستانيں اور ان کے واقعات باسند اورمرسل طور پر علماء کی کتابوں ميں وافر تعداد ميں درج ہوچکی ہيں ؟

علماء اور دانشوروں کی طرف سے “ ناووسيہ ” ، “ غرابيہ ” ، “ ممطورہ ” “ طيارہ ” اور سبئےہ ” کے بارے ميں ا س قدر مطالب نقل کرنے کے بعد کيا کوئی شخص مسلمانوں ميں ان

____________________

١۔ عنقاء : کہا گيا ہے کہ عنقاء مغرب میں ایک پرندہ ہے جس کے ہر طرف چار پر ہيں اور اس کی صورت انسان جيسی ہے اس کا ہرعضو کسی نہ کسی پرندہ کے مانند ہے اور اس کے علاوہ مختلف حيوانوں سے بھی شباہت ٢١٢ نے عنقاء کے بارے / ٨۵ ، مسعودی مروج الذہب ٢ / رکھتا ہے کبھی انسانوں کو شکار کرتا ہے ابن کثير ١٣

ميں مفصل و مشروح روایت کی سند کے سلسلہ کے ساتھ نقل کيا ہے ‘ سعلات” عرب دیو کی مادہ کو“سعلات ١ ۵ ) صحرانشين عرب خيالی کرتے تھے کہ سعلات اور غول ( دیو ) دو زندہ مخلوق / ”کہتے ہيں (- تاج العروس ٨

ہيں کہ بيابانوں ميں زندگی گزارتے ہيں ا ور ان دونوں کے بارے ميں بہت سے اشعار اور حکایتں بھی نقل کی گئی ١٣ ۴ ۔ ١٣٧ /باب ذکر اقاویل العرب فی الغيلان) یہيں پر مسعودی عمر ابن خطاب سے نقل کرتا / ہيں مروج الذہب ( ٢ہے کہ اس نے شام کی طرف اپنے ایک سفر ميں ایک بيابان ميں ایک جن کو دیکھا تواس نے چاہا اس طرح اس کو بھی فریب دے جس طرح وہ لوگوں کو فریب دیتا ہے ليکن عمر نے اسے فرصت نہيں دی اور تلوار سے اسے قتل کيا۔

انسانی دریائی : عربوں اور غير عربوں ميں انسان دریائی کے بارے ميں داستانيں اور افسانے نقل ہوئے ہيں زبان زد عام وخاص ہيں ۔

گروہوں اور فرقوں کی موجودگی کے بارے ميں شک و شبہ کرسکتا ہے ؟ جی ہاں ، ہم دیکھتے ہيں کہ گروہ سبيئہ اور نسناس کے بارے ميں جو افسانے نقل ہوئے ہيں با وجود اس کے کہ علماء اوردانشوروں نے انهيں صدیوں تک سنااور سلسلہ راویوں کے ساتھ نقل کيا ہے آپس ميں کافی حد تک شباہت رکھتے ہيں ہماری نظر ميں صرف مطالعہ اور ان دو افسانوں کے طرز و طریقہ پر دقت کرنے سے ان کا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونے کو ہر فرد عاقل اور روشن فکر کيلئے ثابت کيا جاسکتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ افسانہ سبيئہ ميں موجود اختلافات و تناقض کوجو افسانہ نسناس ميں موجود نہيں ہيں اضافہ کيا جائے کہ خود یہ تناقص و اختلاف سبب بنے گا کہ یہ روایتيں ایک دوسرے کے اعتبار کو گرادیں گی اور اس طرح ان روایتوں پر کسی قسم کا اعتبار باقی نہيں رہے گااورا ن کی تحقيق و بحث کی نوبت ہی نہيں آئے گی ۔

اگرطے ہو کہ گروہ سئبيہ ، ابن سوداء اور ابن سبا کے بارے ميں بيشتر وضاحت پيش کریں اور طول تاریخ ميں ان کے تحولات پر بحث و تحقيق کریں تو کتاب کی مستقل حصہ کی ضرورت ہے ۔

یہاں پر اس کتاب کے اس حصہ کو اختتام تک پہنچاتے ہيں اور دوسرے ضروری مطالب کو اگلے حصہ پر چھوڑ تے ہيں ہم اس دینی اور علمی فریضہ کو انجام دینے ميں خداوند عالم سے مدد چاہتے ہيں ۔

دوسرے حصے کے مآخذ

١۔ اشعری : سعد بن عبدالله کتاب “المقالات و الفرق ” ٢٠ ۔ ٢١ ميں ٢۔ نوبختی : کتاب “ فرق الشيعہ ” ٢٢ ۔ ٢٣ ميں ٨ ۵ / ٣۔ اشعری : علی ابن اسماعيل ، کتاب “ مقالات اسلاميين ” ١

۴ ۔ ملطی : کتاب “ التنبيہ وا لرد ” ٢ ۵ ۔ ٢ ۶ و ١ ۴ ٨

۵ ۔ بغدادی : کتاب “ الفرق ” ١ ۴ ٣

١٨ و ٣٩ اور کتاب “ اختصار الفرق ” تاليف ، ١٣٨ ، ۶ ۔ بغدادی : کتاب الفرق ١٢٣

۵ ٧ ، ٢ ۵ ، ٢٢ ، ١ ۴ ٢، عبدالرزاق ١٢٣

١٨ ۶ اور / ١ ۴ ٢ اور طبع التمدن ۴ / ٧۔ ابن حزم : کتاب “ الفصل ” طبع محمد علی صبيح ۴

١٣٨ / ۴

١٢٩ ۔ ١٣٠ / ٨۔ البداء و التاریخ ۵

٩۔ ذہبی : کتاب “ ميزان الاعتدال ” شرح حال عبدالله بن سبا ، نمبر ۴ ٣ ۴ ٢

٢٨٩ شرح حال نمبر ١٢٢ ۵ ۔ / ١٠ ۔ ابن حجر کتاب “ لسان الميزان ” ٣

/ ١١ ۔ مقریزی : کتاب “ الخطط ” روافض کے نو گروہوں میں سے پانچویں گروہ ميں ۴

١٨ ۵ ۔ / ١٨٢ و ۴

١٢ ۔ ابن خلدون : مقدمہ ميں ١٩٨ طبع بيروت ميں کہتا ہے : فرقہ اماميہ ميں بھی جو گروہ وجود ميں آئے ہيں جو غالی اور انتہا پسندہيں انہوں نے ائمہ کے بارے ميں غلو کيا ہے اور دین اور عقل کے حدود سے تجاوز کرگئے ہيں اور ان کی الوہيت اور ربوبيت کے قائل ہوئے ہيں ليکن اس کے باوجود اس سلسلے ميں مبہم اور پيچيدہ بات کرتے ہيں جس سے معلوم نہيں ہوتا ہے کہ اس گروہ کے عقيدہ کے مطابق ائمہ بشر ہيں اور خدا کی صفات کے حامل ہيں یایہ کہ خداخود ہی ان کے وجود ميں حلول کرگيا ہے دوسرے احتمال کے بناء پر وہ حلول کے قائل ہيں جس طرح عيسائی حضرت علی عليہ السلام کے بارے ميں قائل تھے جبگہ علی ابن ابيطالب نے ان کے بارے ميں ا س قسم کا اعتقاد رکھنے والوں کو جلادیا ہے ۔

٢٠٨ ۔ ٢١٠ / ١٣ ۔ مسعودی : ٢

١ ۴ ۔ معجم البلدان : لفظ “ شحر ” کی تشریح ميں ۔

٨٩٩ ۔ ٩٠٠ / ١ ۵ ۔ معجم البلدان : لفظ “ وبار” کی تشریح ميں : ١ ۴

١ ۶ ۔ معجم البلدان : لفظ “ وبار ” کی تشریح ميں ١٧ ۔ معجم البلدان : لفظ “ وبار ” کی تشریح ميں ، مسعودی نے بھی اسی مطلب کو ٢٠٨ ۔ ٢١٠ درج کيا ہے ۔ / مختصر تفاوت کے ساتھ ‘ مروج الذہب ” ٢

١٨ ۔ معجم البلدان : لفظ “ شحر ” کی تشریح ميں اس کا خلاصہ “ مختصر البلدان ” ابن فقيہ ٣٨ ميں آیا ہ ے ۔

۵ ٨ / ٢١ ۴ ، ‘ ‘ ابن اثير ” ١ / ١٩ ۔ “ طبری ” ١

۴۴ ١ ۔ ۴۴ ٢ / ٢٠ ۔ طبری ١

٢١ ۔ لسان العرب ابن منظور و تاج العروس زبيدی لفط نسناس کی تشریح ميں ۔

٢٢ ۔ لسان لعرب ابن منظور و قاموس فيروز آباد ی، لفط نسناس کی تشریح میں ٢٣ ۔ نہایة اللغة : ابن اثير ١/ ٢ ۴ ۔ مروج الذہب ، ٢٢٢

٢١١ اس نے اسی جگہ پر نسناس سے مربوط روایتوں کو نقل کيا / ٢ ۵ ۔ مروج الذہب ، ٢

ہے پھر اس مخلوق کے وجود کے بارے ميں شک و شبہہ کيا ہے ۔

تيسری فصل

عبد الله بن سبا اور سبائی کون ہيں ؟

سبا اور سبئی کا اصلی معنی

لغت ميں تحریف مغيرہ کے دوران حجر بن عدی کاقا یم

حجر ابن عدی کی گرفتاری

حجر اور اُن کے ساتهيوں کا قتل

حجر کے قتل ہوجانے کا دلوں پر اثر

حجر کی روداد کا خلاصہ

لفظ سبئی ميں تحریف کا محرک

لفظ سبئی ميں تحریف کا سلسلہ

افسانہ سيف ميں سبيئہ کا معنی

عبدالله بن سبا کون ہے ؟

ابن سودا کون ہے؟

اس حصہ کے مآخذ

سبا و سبئی کا اصلی معنی

سبا بن یشجب بن یعرب سليل قحطان قریع العرب

سبا بن یشجب بن یعرب نسل قحطان اور عرب کا منتخب شدہ ہے ۔انساب سمعانی

کتاب کے اس حصہ ميں بحث کے عناوین ابن سبا اور سبئيہ کے بارے ميں جو تمام افسانے ہم نے گزشتہ فصلوں ميں نقل کئے اورا س کے بارے ميں جو روایتيں حدیث اور رجال کی کتابوں ميں درج ہوئی ہيں وہ سب کی سب درج ذیل تين ناموں کيلئے جعل کی گئی ہيں ۔

١۔ عبدالله بن سبا ۲. عبدالله بن سودا ٣۔ سبيئہ و سبائيہ حقيقت کو روشن کرنے کيلئے ہم مجبور ہيں کہ جہاں تک ہميں فرصت اجازت دے مذکورہ عناوین ميں سے ہر ایک کے بارے ميں الگ الگ بحث و تحقيق کریں ۔

سبئی کا معنی:

” سبائيہ ” و “ سبيئہ ” دو لفظ ہيں کہ از لحاظ لفط و معنی “یمانيہ ”و “یمنيہ ”کے مانند ہيں ۔

سمعانی ( وفات ۵۶ ٢ ئه ) اپنی انساب ميں مادہ “ السبئی ” ميں اس لفظ کی وضاحت ميں کہتا ہے: “ سبئی ” سين مہملہ پر فتحہ اور باء نقطہ دار سے “سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان ” سے منسوب ہے ۔

ا بو بکر حازمی ہمدانی ( وفات ۵ ٨ ۴ هء) کتاب “ عجالة المبتدی ” ميں مادہ “ سبئی ” ميں کہتا ہے : “سبئی ” سبا سے منسوب ہے کہ اس کا نام عامر بن یشجب بن یعرب بن قحطان ہے اس کتاب کے ایک نسخہ ميں آیا ہے کہ سبئی کے نسب کے بارے ميں درج ذیل اشعار بھی کہے گئے ہيں :

لسبا بن یشجب بن یعرب

سليل قحطان قریع العرب

نسب خير مرسل نبينا

عشرة الازد الاشعرینا

و حميرا و مذحجا و کنده

انما رسادسا لهم فی العدة

و قد تيامنوا من اشام له

غسان لخم جذام عامله(۱)

____________________

١۔بہترین پيغمبروں کو عرب کے دس قبيلوں سے نسبت دی گئی ہے کہ ان ميں سے سبا بن یشجب بن یعرب ہے جو قبيلہ قحطان سے ہے اور عربوں کا سردار ہے اور فرمایا ہے کہ ان ميں سے چه قبيلے دائيں طرف سفر پر چلے گئے وہ عبارت ہيں ازد ، اشعری ، حمير مذحج ، کندہ ،ا نمار ، اور دوسرے چار قبيلے شام کی طرف چلے گئے کہ عبارت ہيں غسان لخم ، جذام اور عاملہ ۔

ترمذی نے اپنی سنن ميں ، سورہ سبا کی تفسير ميں اورا سی طرح ابو داؤد نے اپنی سنن ميں کتاب “الحروف ” ميں بيان کيا ہے کہ : ایک شخص نے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سوال کيا “ سبا ” کيا ہے ؟ کسی محلہ کا نام ہے ؟ یا کسی عورت کا نام ہے ؟

پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب ميں فرمایا : سبا، نہ کسی محلہ یا مخصوص جگہ کا نام ہے اور نہ کسی عورت کا نام بلکہ سبا ایک شخص تھا جس کی طرف سے عربوں کے دس قبيلے منسوب ہيں ان ميں سے چه خاندان عبارت ہيں : اشعری ، ازد ، حمير ،مذحج، انمار ،اور کندہ جنہوں نے دائيں طر ف سفر کيا ہے اور دوسرے چار خاندان جنہوں نے شام کی طرف سفر کيا عبارت ہيں ؛ لخم ، جذام ، غسان اور عاملہ“

کتاب لساب العرب ميں لفظ سبا کے بارے ميں آیا ہے : “ سبا ’ ایک شخص کا نام ہے جس سے یمن کے تمام قبائل منسوب ہيں “

یاقوت حموی نے “معجم البلدان ” ميں لغت “ سبا” کے بارے ميں کہا ہے :“ سبا ” س اور ب پر فتح اور ہمزہ یا الف ممدودہ کے ساتھ یمن ميں ایک علاقہ کا نام ہے کہ اس علاقہ کا مرکزی شہر “ مارب” ہے مزید اضافہ کرتا ہے : اس علاقے کو اس لئے سباکہا گيا ہے کہ وہاں پر سبا بن یشجب کی اولاد سکونت کرتی تھی“

ابن حزم (- وفات ۴۵۶ ) اپنی کتاب “ جمہرة الانساب ” ميں جہاں پر یمانيہ کے نسب کی تشریح کرتا ہے ، کہتا ہے : تمام یمانيوں کی نسل قحطان کی فرزندوں تک پہنچتی ہے اس کے بعد “ سبا ” کے مختلف خاندانوں کا نام ليتا ہے اور ان خاندانوں ميں سے ایک کی تشریح ميں کہتا ہے وہ سبائی ہيں اور سبائی کے علاوہ اس خاندان کيلئے کوئی دوسری نسبت نہيں دی گئی ہے ۔

ابن خلدون ( وفات ٨٠٨ هء) اپنے مقدمہ ميں کہتا ہے : رہا اہل یمن، تو سبا کی اولاد اور نسل سے ہيں ا ورجب عربوں کے طبقہ دوم کی با ت آگئی تو مزید کہتا ہے : یہ طبقہ عربوں ميں یمنی اور سبائی کے نام سے معروف ہے قبائل قحطان کے شام اور عراق کی طرف کوچکرنے کے بعد انہيں یاد کرتے ہيں اور کہتے ہيں جو کچھ بيان ہوا وہ ان لوگوں کے حالات کی تشریح تھی جو قبائل سبا سے تھے اور یمن سے ہجرت کرکے عراق ميں سکونت اختيار کرگئے ہيں قبائل سبا کے چار گروہوں نے بھی شام ميں سکونت اختيار کی اور دوسرے چه گروہ اپنے اصلی وطن یمن ہی ميں رہے“

ابن خلدون مزید کہتا ہے: انصار سبا کی نسل سے ہيں خزاعہ ، اوس اور خزرج بھی وہی نسل ہيں ،

ذہبی ( وفات ٧ ۴ ٨ هء) المشتبہ ميں سباکے بارے ميں کہتا ہے : سبائی مصر ميں ایکہے ہيں ان ہی ميں سے کئی افراد ہيں جن کے نام حسب ذیل ہيں عبدالله بن هبيرہ معروف بہ ابو ہبيرہ ابن حجر ( وفات ٨ ۵ ٢ هء) اپنی کتاب “ تبصرة المتنبہ ” ميں لفظ سبا کے بارے ميں کہتا “ سبا” ایک قبيلہ کا باپ ہے اور “ سبئی ” کی شرح ميں کہتا ہے : “ سبا” ایک قبيلہ کانام ہے اس قبيلہ سے عبد الله بن هبيرہ سبائی معروف بہ ابو ہبيرہ ہے ۔ابن ماکولا ( وفات ۴ ٧ ۵ هء) ‘

الاکمال ”(۱)

ميں کہتا ہے : سبئی ایک قبيلہ سے منسوب ہے اسکے بہت سے افراد ہيں اور وہ مصر ميں آبادہيں ۔

سبئی راوی:

قبيلہ سبا اور “ سبيئہ ” کے معنی کو بيشتر پہچانے کيلئے ہم یہاں پر راویوں کے ایک گروہ کا ذکر کرتے ہيں جنہيں علمائے حدیث اور تاریخ نے سبا بن یشجب سے منسوب کيا ہے اور اسی لئے انهيں سبئی کہتے ہيں :

١۔ عبدالله بن هبيرہ :

یہ قبيلہ سبا کے راویوں ميں سے ایک معروف راوی ہے علمائے حدیث اور رجال نے اس کے نسب کی اپنی کتابوں ميں نشان دہی کی ہے چنانچہ : ابن ماکولا و سمعانی اپنی انساب ميں لفظ “ سبا” کی تشریح ميں سبا بن یشجب سے منسوب سبئی نام کے بعض حدیث کے راویوں کا نام ليتے ہوئے کہتے ہيں : سبیء راویوں ميں سے من جملہ عبدالله بن هبيرہ سبائی ہے ۔

ابن قيسرانی : محمد بن طاہر بن علی مقدسی ( وفات ۵ ٠٧ هء) نے بھی اسی ابو ہبيرہ کے حالات کے بارے ميں ا پنی کتاب “الجمع بین رجال الصحيحين” ميں درج کيا اور جہاں پر “صحيح مسلم “کے راویوں کے حالات پر روشنی ڈالتاہے عبدالله کے نام پر پہنچ کر اس کے بارے ميں کہتا ہے : عبدالله ابن هبيرہ سبائی مصری نے ابو تميم سے حدیث نقل کی ہے ۔

”تہذیب التہذیب ” ميں بھی اسی عبد الله اورا س کے تمام اساتذہ اور شاگردوں کا بھی مفصل طور پر ذکر کيا ہے ۔

ابن حجر اسی کتاب ميں کہتا ہے : علم حدیث کے علماء نے عبد الله بن هبيرہ کی توثيق اور تائيد کی ہے تمام علماء اس موضوع پر اتفاق نطر رکھتے ہيں اور اس کے بعد کہتے ہيں : ابن ھبيرہ کی پيدائش عام الجماعة یعنی ۴ ٠ هء ميں ا ور وفات ١٢٠ ميں واقع ہوئی ہے ۔

ن ےز ابن حجر تقریب التہذیب ميں کہتا ہے عبدالله بن ہبيرہ بن اسد سبائی حضرمی مصر کے لوگوں ميں سے تھا وہ علمائے حدیث کی نظر ميں طبقہ سوم کے راویوں ميں باوثوق اور قابل اعتماد شخص ہے اس نے ٨١ سال کی عمر ميں وفات پائی ہے ۔

ان دو کتابوں ميں “ تہذیب التہذیب ” اور “ تقریب التہذیب” ميں عبد الله بن ہبيرہ سبائی ان راویوں ميں شمار ہوا ہے جن سے صحاح کے مولفين ، سنن مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ،

نسائی اور ابن ماجہ نے حدیث روایت کی ہے اور احمد حنبل نے اپنی مسند کے باب مسند ابو نضرہ غفاری ميں اس سے حدیث نقل کيا ہے ۔

____________________

١۔ کتاب اکمال ميں راویوں کو ہر قبيلہ کے لغت ميں تعارف کراتے ہيں ۔

٢۔ عمارة بن شبيب سبئی :

وہ سبئی راویوں ميں سے ایک اور راوی ہےجس کا نام استيعاب ، اسدا لغابہ ، اور اصابہ ميں پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی فہرست ميں ذکر ہوا ہے۔

استيعاب کا مولف کہتا ہے : عمارة بن شبيب سبائی اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں شمار کيا گيا ہے اور ابو عبدالرحمان جبلی نے اس سے حدیث نقل کيا ہے ۔

ا سد الغابہ ميں بھی عمارة بن شبيب کے بارے ميں یہی مطالب لکھے گئے ہيں اور اس کے بعد اضافہ کيا گيا ہے : اس نے رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کيا ہے ۔ صاحب اسدالغابہ اس سلسلہ ميں بات کو اس بيان پر ختم کرتے ہيں کہ : سبیء جو “ س”

بدون نقطہ اور ایک نقطہ والے “ ب” سے لکھا جاتا ہے ، اس کو کہتے ہيں جو سبا سے منسوب ہو۔

صاحب “ الاصابہ” عمارة ابن شبيب کے حالات کی تشریح ميں کہتا ہے : وہ ۵ ٠ ئه ميں فوت ہوا ہے ۔

معروف کتاب صحيح بخاری کے مؤلف امام بخاری نے بھی اس کے حالات کی تشریح اور تفصيل اپنی رجال کی کتاب ‘ تاریخ الکبير ” ميں درج کی ہے اور اس کے بعد اس سے ایک روایت نقل کرکے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس خصوصی حدیث کو ضعيف شمار کيا ہے ۔

ابن حجر بھی اسی عمارة بن شبيب سبئی کو کتاب “ تہذیب التہذیب ” اور “ تقریب التہذیب ” ميں درج کرتے ہوئے کہتا ہے : ترمذی و نسائی نے اپنی سنن ميں ا س سے حدیث نقل کی ہے ۔

٣۔ ابو رشد بن حنش سبئی :

یہ سبئی راویوں ميں سے ایک اور راوی ہے کہ مسلم نے اپنی صحيح ميں اور نسائی و ترمذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے اپنی سنن ميں ا س سے حدیث نقل کی ہے چونکہ ابن حجر نے بھی اس کے نام کو کتاب “ تہذیب التہذیب ” ا ور “ تقریب التہذیب ” ميں درج کياہے اور اسکے بارے ميں اور ایک دوسرے سبئی راوی کے بارے ميں کہتا ہے : عمرو بن حنظلہ سبئی و ابو رشد بن صنعانی صنعا ، یمن کے رہنے والے تھے اور باوثوق اور قابل اعتماد ہيں ۔

ذہبی نے بھی انہيں مطالب کو اپنی تاریخ ميں درج کرتے ہوئے اضافہ کيا ہے کہ اس نے مغرب زمين کی جنگ ميں شرکت کی اور افریقہ ميں سکونت اختيار کی اور اسی وجہ سے اس کے بيشتر دوست او ر شاگرد اہل مصر ہيں اس نے افریقہ ميں ١٠٠ هء ميں محاذ جنگ پر رحلت کی ۔

ابن حکم اپنی کتاب “ فتوح افریقہ ” ميں کہتا ہے : جب مسلمانوں نے “ سردانيہ ” کو اپنے قبضہ ميں ليا ، تو جنگی غنائم سے متعلق بہت ظلم کيا اور واپسی پر جب کشتی ميں سوار ہوئے تو کشتی کے ڈوبنے کی وجہ سے سب دریا ميں غرق ہوگئے صرف ابو عبدالرحمان جبلی اور حنش بن عبدا لله سبئی بچ گئے کيونکہ ان دو افراد نے غنائم جنگی سے متعلق ظلم ميں شرکت نہيں کی تھی ۔

۴ ۔ ابو عثمان حبشانی : ١٢ ۶ ئه ميں فوت ہوا ہے ۔

۵ ۔ ازہر بن عبدا لله سبئی : ٢٠ ۵ ئه ميں مصر ميں فوت ہوا۔

۶ ۔ اسد بن عبدا لرحمان سبئی اندلسی : وہ علاقہ “ بيرہ” کا قاضی تھا یہ شخص ۵ ٠ ا هء کے بعد بھی زندہ تھا ۔

٧۔ جبلہ ابن زہير سبئی : یہ یمن کا رہنے والا تھا ۔

٨۔ سليمان بن بکار سبئی : وہ بھی اہل یمن تھا۔

٩۔ سعد سبئی : ابن حجر “ا صابہ” ميں اس کے حالات کی تشریح ميں کہتا ہے :

واقدی اسے ان لوگوں ميں سے جانتا ہے جنہوں نے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے زمانہ ميں ا سلام قبول کيا ۔

یہ تھے راویوں اور حدیث کے ناقلوں کے چند افراد کہ جن کو سمعانی اور ابن ماکو نے لفط “سبائی” کے بارے ميں چند دیگر سبئی کے ساتھ ان کے حالات لکھے ہيں اور ان کی اساتذہ اور شاگردوں کا تعارف کرایاہے ۔ اگر کوئی شخص رجال اور حدیث کی کتابوں ميں بيشتر تحقيق کرے تو مزید بہت سے راویوں کو پيدا کر ے گا جو قبلہ قحطان سے منسوب ہونے کی وجہ سے سبئی کہے جاتے ہيں ۔

نتيجہ کے طور پر یہ راوی اور دسيوں دیگر راوی سبا بن یشجب بن یعرب قحطان سے منسوب ہونے کی وجہ سے سبئی کہے جاتے ہيں ا ور اسی نسب سے ،معروف ہوئے ہيں علمائے حدیث و رجال نے ان کی روایتوں اور نام کو اسی عنوان او رنسبت سے اپنی کتابوں ميں درج کرکے ان کے اساتذہ اور شاگرودوں کے بارے ميں مفصل تشریح لکھی ہے اور یہ سبئی راوی دوسری صدی کے وسط تک اکثر اسلامی ملکوں ا ور شہروں ميں موجود تھے اور وہيں پر زندگی گذارتےتھے اور اسی عنوان اور نسبت سے پہچانے جاتے تھے یہ بذات خود لفط سبئی و سبيئہ کے اصلی اور صحيح معنی کی علامت ہے اور یہ اس بات کی ایک اور دليل ہے کہ ےہ لفظ تمام علماء اور مؤلفين کے نزدیک دوسری صدی ہجری کے وسط تک قبيلہ کی نسبت پر دلالت کرتا تھا نہ کسی مذہبی فرقہ کے وجود پر جو بعد ميں جعل کيا گيا ہے ۔

یہ سبئی راوی علمائے حدیث کی نظر ميں ا یسے معروف و شناختہ شدہ اور قابل اطمينان ہيں کہ حدیث کی صحاح ، سنن اور سند و دیگر صاحبان مآخذ و حدیث کے معتبر کتابوں کے مؤلفين نے بغےرکسی شک شبہ، کے ان سے احادیث نقل کی ہيں جبکہ یہی علماء اس زمانے ميں شيعہ راویوں کی روایتوں اور حدیثوں کو علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے شيعہ ہونے کے جرم ميں سختی سے ردکيا کرتے تھے اور اس قسم کے راویوں کو ضعيف اور ناقابل اعتبار جانتے تھے اور اپنی کتابوں ميں شيعہ راویوں سے ایک بھی حدےث نقل نہيں کرتے تھے اس زمانے ميں اس سبئی راویوں سے بغےرکسی رکاوٹ کے روایتيں اور احادیث نقل کرکے اپنی کتابوں ميں درج کرتے تھے اوریہ اس بات کی دليل ہے کہ سبئيہ ان کے زمانے اور نظر ميں قبيلگی نسبت کے علاوہ کسی اور معنی و مفہوم کی ضمانت پيش نہيں کرتا تھا اور یہ لفظ کسی بھی فرقہ و مذہبی گروہ پر دلالت نہيں کرتا تھاکہ جس کی وجہ سے ان سے احادیث قبول کرنے ميں کوئی رکاوٹ پيش آئے اور ان علماء کی نظر ميں ان سے نقل احادیث اعتبار کے درجہ سے گرجائے بلکہ یہ مفہوم بعد والے زمانے ميں وجود ميں آیا ہے چنانچہ خدا کی مدد سے ہم اگلے حصہ ميں ‘ ‘ تحریف سبيئہ ” کے عنوان سے اس حقيقت سے پردہ اٹھائيں گے ۔

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہو گا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ ) ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران: ۳۶) پھر بڑی ہو گئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ۔ اللہ کی طرف سے ہیں۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَة لِّلنَّاسِ وَرَحْمَة مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَة قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَة تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاة وَالزَّکَاة مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ ) ( أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہو گا۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم اس کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم: ۱۶ تا ۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اور بتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہار ہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اور وہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے۔تو میرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران : ۴۲ ۔ ۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَة مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرَاة ) ( وَالْإِنجِیْلَ ) ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران : ۴۵ ۔ ۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمۃ اللہ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز۔ طہارۃ و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خدا کی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَة شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله ) ( هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ) ۔

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور: ۱۱ تا ۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاة الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَة فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَة مُّبَیِّنَة یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّة الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاة وَآتِیْنَ الزَّکَاة وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه ) ۔

"اے نبی اپنی ازواج سے کہہ دیجئے۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرنا کہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳ ) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکا گیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت۔

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاة أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّة أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ) ۔

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور ) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار۔ خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ ( ۱۴) جناب خدیجۃ الکبریٰ (زوجۂ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدۂ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیۃ بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چار عورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع۔ مریم بنت عمران و ابنۃ مزاح، امراۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہوا کہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱ ۔ متبنی۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲ ۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّة الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ) ۔

"اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷ ۔ ۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیار اور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱ ۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں۔( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲ ۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْم بَعْدِه أَبَدًا ) ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو۔( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَة إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ) ۔ "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔ ۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جتھہ بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ۔( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجۂ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنا یہ ہو گا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

حضرت فاطمۃ الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمان۔ فاطمہ ہی ام ابیہا۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجۃ قلبی۔ دل کا ٹکڑا۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارۃ قرآن میں مذکور۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔ ۳۲) مرتضیٰ (جن، ۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) ۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اور ان کی اولاد کی محبت اجررسالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْم بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَة الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ )

(آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندۂ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پر ہوئی۔ فاطمہ ، بس فاطمہ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبوب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہا ہے۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأة عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اور باتوں سے آزاد ہو گا تو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سر پر ست بنا دیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ۳۷ ۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کام میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجا لاتے۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی۔ صرف ایک بیٹی۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جب ارشاد رب العزت ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل: ۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّة فِی الْقُرْبَی ) "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورۂ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے:( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ "( سورہ احزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمۃ وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھا بابا آپ کو ہم سے محبت ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اور اولاد پر شفقت ہے۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ و پائندہ بنا دیا۔ حق کو روز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین۔باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خدا ہے۔ عورت زوجہ شادی اور تزویج فطرت کی تکمیل ہے۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کا دین آدھا ہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے۔قرآن مجید نے دعا کی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّة أَعْیُنٍ ) "پروردگار ہماری ازواج اور ہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے:( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا اور اللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور: ۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز و ہے۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونوں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کا وجود لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد اور صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اور ایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہر رہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہو گا۔گویا عورت برات کا استقبال کر رہی ہے۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت و احترام کے ساتھ عورت کا ور ود مرد کے گھر میں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے۔

٭٭٭

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہو گا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ ) ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران: ۳۶) پھر بڑی ہو گئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ۔ اللہ کی طرف سے ہیں۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَة لِّلنَّاسِ وَرَحْمَة مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَة قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَة تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاة وَالزَّکَاة مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ ) ( أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہو گا۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم اس کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم: ۱۶ تا ۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اور بتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہار ہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اور وہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے۔تو میرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران : ۴۲ ۔ ۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَة مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرَاة ) ( وَالْإِنجِیْلَ ) ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران : ۴۵ ۔ ۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمۃ اللہ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز۔ طہارۃ و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خدا کی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَة شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله ) ( هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ) ۔

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور: ۱۱ تا ۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاة الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَة فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَة مُّبَیِّنَة یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّة الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاة وَآتِیْنَ الزَّکَاة وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه ) ۔

"اے نبی اپنی ازواج سے کہہ دیجئے۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرنا کہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳ ) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکا گیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت۔

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاة أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّة أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ) ۔

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور ) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار۔ خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ ( ۱۴) جناب خدیجۃ الکبریٰ (زوجۂ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدۂ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیۃ بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چار عورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع۔ مریم بنت عمران و ابنۃ مزاح، امراۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہوا کہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱ ۔ متبنی۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲ ۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّة الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ) ۔

"اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷ ۔ ۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیار اور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱ ۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں۔( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲ ۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْم بَعْدِه أَبَدًا ) ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو۔( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَة إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ) ۔ "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔ ۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جتھہ بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ۔( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجۂ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنا یہ ہو گا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

حضرت فاطمۃ الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمان۔ فاطمہ ہی ام ابیہا۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجۃ قلبی۔ دل کا ٹکڑا۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارۃ قرآن میں مذکور۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔ ۳۲) مرتضیٰ (جن، ۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) ۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اور ان کی اولاد کی محبت اجررسالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْم بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَة الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ )

(آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندۂ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پر ہوئی۔ فاطمہ ، بس فاطمہ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبوب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہا ہے۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأة عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اور باتوں سے آزاد ہو گا تو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سر پر ست بنا دیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ۳۷ ۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کام میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجا لاتے۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی۔ صرف ایک بیٹی۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جب ارشاد رب العزت ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل: ۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّة فِی الْقُرْبَی ) "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورۂ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے:( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ "( سورہ احزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمۃ وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھا بابا آپ کو ہم سے محبت ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اور اولاد پر شفقت ہے۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ و پائندہ بنا دیا۔ حق کو روز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین۔باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خدا ہے۔ عورت زوجہ شادی اور تزویج فطرت کی تکمیل ہے۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کا دین آدھا ہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے۔قرآن مجید نے دعا کی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّة أَعْیُنٍ ) "پروردگار ہماری ازواج اور ہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے:( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا اور اللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور: ۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز و ہے۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونوں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کا وجود لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد اور صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اور ایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہر رہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہو گا۔گویا عورت برات کا استقبال کر رہی ہے۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت و احترام کے ساتھ عورت کا ور ود مرد کے گھر میں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے۔

٭٭٭


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17