سبا اور سبائی کے معنی ميں تحریف
ان السبئية دلت علی الانتساب الی الفرقة المذهبية بعد قرون
سبئےہ جو ایک قبيلہ کا نام تھا ، کئی صدیوں کے بعد تحریف ہوکے ایک نئے افسانوی مذہب ميں تبدیل ہوگیا ہے مؤلف
سبئی قبيلے جيساکہ ہم نے گزشتہ فصل ميں اشارہ کيا کہ گہری تحقيق اورجانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ “سبئی ” حقيقت ميں قحطان کے قبيلوں کاانتساب ہے کہ یہ قبيلے یمن ميں سکونت کرتے تھے ليکن بعد ميں بعض علل و عوامل کی وجہ سے جن کی تفصيل ہم اگلے صفحات ميں پيش کریں گے یہ لفط تحریف ہوکر ایک نئے مذہب سے منسوب ہوا اور اسی تحریف اور نئے استعمال کے نيتجہ ميں اسلام ميں ایک نيااور افسانوی مذہب پيدا ہوا ہے کہ حقيقت ميں اس قسم کا کوئی مذہب مسلمانوں ميں وجود نہيں رکھتا تھا ۔
اس سلسلہ ميں بيشتر تحقيق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تغير و تحول اور یہ تحریف اور الفاظ کا ناجائز فائدہ ان ادوار سے مربوط ہے جس ميں سبئی قبيلے یعنی قحطانيوں نے--- جو شيعان علی عليہ السلام کہے جائے تھے -- کوفہ ميں اجتماع کرکے جنگ جمل و صفين اور دوسری جنگوں ميں حضرت علی عليہ السلام کی نصرت کی ،جن کے سردار حسب ذیل تھے:
١۔ عمار بن یاسر قبيلہ عنس سبائی سے تھے ۔
٢۔ مالک اشتر اور کميل بن زیاد اور ان کے قبيلہ کے افراد دونوں ہی قبيلہ نخ و سبائی سے تھے
٣۔ حجر بن عدی کندی اورا ن کے قبيلہ کے افراد اورا ن کے دوست و احباب جوان کے ساتھ تھے سبائی تھے۔
۴ ۔ عدی بن حاتم طائی اورا ن کے قبيلہکے ا فراد سبائی تھے۔
۵ ۔ قيس بن سعد بن عبادہ خزرجی کہ قبائل سبائی کے خاندانوں ميں سے تھے اور دوسرے لوگ جو قبيلہ خزرج سے ان کے ساتھ تھے سبائی تھے۔
۶ ۔ خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتين اور حنيف کے بيٹے سہل و عثمان سب سبائيوں ميں سے تھے اسی طرح قبيلہ اوس کے افراد جوان کے ساتھ تھے سبائی تھے۔
٧۔ عبدالله بدیل ، عمرو بن حمق ، سليمان بن صرد اور انکے قبيلہ کے افراد وہ سب خزاعی سبائی تھے ۔
جی ہاں ، یہ لوگ اور ان کے قبيلوں کے دوسرے دسيوں ہزار افراد قبيلہ سبائی سے منسوب ہيں ، یہ لوگ خاندان اميہ کے سخت مخالف تھے عثمان کے دوران سے لےکر اميوں کی حکومت کے آخری دن تک یہ لوگ علی عليہ السلام اور ان کے خاندان کے دوستدار تھے ان لوگوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک حضرت علی عليہ السلام اور ان کے خاندان کی حمایت اور طرفداری کی ،اور اسی راہ ميں اپنی جان بھی نچھاور کرڈالی ۔
لفظ سبئی ميں تحریف کا آغاز
جيسا کہ ہم نے وضاحت کی کہ علی عليہ السلام کے اکثر چاہنے والے اور شيعہ،
قحطانی تھے اور یہ قحطانی “ سبا” سے منسوب تھے ۔ اسی نسب کی وجہ سے علی عليہ السلام کے دشمن پہلے دن سے زیاد بن ابيہ کی کوفہ ميں حکومت کے زمانہ تک نسبت کو ایک قسم کی برائی اور شرم ناک نسبت کے عنوان سے پيش کرتے تھے اور لفظ “ سبی” جو اس نسبت کی دلالت کرتا تھا سرزنش و ملامت کے وقت شيعہ علی کی جگہ پر حضرت علی عليہ السلام تمام پيرو و شيعوں کو “ سبا” سے نسبت دیتے تھے ۔ اس طرح اس لفظ کو اپنے اصلی معنی سے دور کرکے ایک دوسرے معنی ميں استعمال کرتے تھے ۔
مندرجہ ذیل خط ميں آپ ملاحظہ فرمائيں گے کہ زیاد بن ابيہ نے جو خط کوفہ سے معاویہ کو لکھا ہے ایسے افرادکے بارے ميں یہی لقب اورعنوان استعمال کيا ہے جو کبھی سبئی نہيں تھے حقيقت ميں یہ پہلاموقع تھا کہ لفظ“ سبئی” اپنے اصلی معنی ---جو یمن ميں ا یک قبيلہ کا نام تھا ---سے تحریف ہوا اور علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے تمام دوستداروں اور طرفداروں کيلئے استعمال ہونے لگا حقيقت ميں یہ روداد اس لفظ ميں تحریف کا آغاز ہے ملاحظہ ہو اس خط کا متن:
بسم الله الرحمن الرحيم
بندہ خدا معاویہ امير المؤمنين کے نام: اما بعد! خداوند عالم نے امير المؤمنين معاویہ پر احسان فرمایا اورا س کے دشمنوں کو کچل کے رکھ دیا اور جو اس کی مخالفت کرتے تھے انهيں بدبخت اور مغلوب کردیا ،ان “ ترابيہ ” اور“ سبائيہ ” ميں سے چند باغی و سرکشی افراد حجر بن عدی کی سردکردگی ميں امير المؤمنيں کی مخالف پر اتر آئے ہيں اور مسلمانوں کی صف سے جدا ہوکر ہمارے خلاف جنگ و نبرد آزمائی کاپرچم بلند کردیا ،ليکن خداوند عالم نے ہميں ان پر کامياب اور مسلط کردیا کوفہ کے اشراف و بزرگ اس سرزميں خير افراد اور متدین و نيکو کار لوگ جنہوں نے ان کے فتنہ و بغاوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ان کی کفر آميزباتوں کو سنا تھا ، کو ميں نے بلاکر ان سے شہادت طلب کی ، انہوں نے ان کے خلاف شہادت اور گواہی دی ۔ اب ميں اس گروہ کے افراد کو امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں بھيج رہا ہوں شہر کے جس متدین اور قابل اعتماد گواہوں نے ان کے خلاف شہادت دی ہے ميں نے ان کے دستخط کو اس خط کے آخر ميں ثبت کيا ہے“
ہم مشاہدہ کرتے ہيں کہ اس خط ميں زیاد نے حجر اور اُن اس کے ساتھيوں کو ترابيہ و سبائيہ نام سے یادکیا ہے اور ان کے ہمشہریوں سے انکے خلاف شہادت طلب کی ہے لهذا اُن ميں سے کئی افراد نے شہادت دیکر زیاد کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کی ہے ان کی اس شہادت کے مطابق ایک شہادت نامہ بھی مرتب کرکے معاویہ کے پاس بھيجا گيا ہے ۔
طبری کی روایت کے مطابق شہادت نامہ کا متن طبری نے زیاد کی طرف سے ریکارڈ اور شہادت نامہ مرتب کرنے کے بارے ميں یوں ذکر کيا ہے:
زیاد بن ابيہ نے حجر اور ان کے ساتھيوں کو زیر نظر رکھا ان ميں سے بارہ افرد کو گرفتار کرکے جيل بھيج دیا اس کے بعد قبائل کے سرداروں اور قوم کے بزرگوں کو دعوت دی اور ان سے کہا کہ جو کچھ تم لوگوں نے حجرکے بارے ميں دیکھا ان دنوں کوفہ ميں اہل مدینہ کا سردار “عمر بن حریث” تمےم اور ہمدان کے سردار “ خالد بن عرفہ” اور “قيس بن وليد بن عبد بن شمس بن سفےرہ ”ربيعہ اور کندہ کا سردار ابو بردة ابن ابی موسی اشعری تھا وہ اس کے علاوہ قبيلہ “مذحج و اسد ” کا بھی سردار تھا ۔
ان چار افراد نے ابن زیاد کی درخواست پر حسب ذیل شہادت دی:
” ہم شہادت دیتے ہيں کہ حجر بن عدی کئی افراد کو اپنے گرد جمع کرکے خليفہ (معاویہ ) کے خلاف کھلم کھلا دشنام اور بد گوی کرتا ہے لوگوں کو اس کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دیتا ہے نيزدعویٰ کرتا ہے کہ خاندان ابوطالب کے علاوہ کسی ميں خلافت کی صلاحيت نہيں ہے اس نے شہر کوفہ ميں بغاوت کرکے امير المؤمنين (معاویہ ) کے گورنر کو وہاں سے نکال باہر کيا ہے وہ ابو تراب ( علی عليہ السلام ) کی ستائش کرتا ہے اور کھلم کھلا اس پر درود بھيجتا ہے اور اس کے مخالفوں اور دشمنوں سے بيزاری کا اظہار کرتا ہے وہ افرادجن کو پکڑ کر جيل بھيج دیا گیا ہے وہ سب حجر کے اکابر اصحاب ميں ہيں اور اس کے ساتھ ہم فکر وہم عقيدہ ہيں “
طبری کہتا ہے:
” زیاد نے شہادت نامہ او ر گواہوں کے نام پر ایک نظر ڈال کر کہا: ميں گمان نہيں کرتا ہوں کہ یہ شہادت نامہ مير ی مرضی کے مطابق فيصلہ کن اور مؤثر ہوگا ميں چاہتا ہوں کہ گواہوں کی تعداد ان چار افراد سے بيشتر ہو اور اس کےمتن ميں بھی کچھ تبدیلياں کی جائيں ۔
اس کے بعد طبری ایک دوسرے شہادت نامہ کو نقل کرتا ہے جسے زیاد نے خود مرتب کرکے دستخط کرنے کيلئے گواہوں کے ہاتھ ميں دیا تھا اس کا متن حسب ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحيم
ابو بردة ابن موسیٰ ، اس مطلب کی گواہی دیتا ہے اور اپنی گواہی پر خدا کو شاہد قراردےتا ہے کہ حجر بن عدی نے خليفہ کی اطاعت و پيروی کرنے سے انکار کيا ہے اور اس نے مسلمانوں کی جماعت سے دوری اختيار کی ہے وہ کھلم کھلا خليفہ پر لعنت بھيجتا ہے کئی لوگوں کو اپنے گرد جمع کرکے کھلم کھلا معاویہ کے ساتھ عہد شکنی اور اس کو خلافت سے معزول کرنے کيلئے دعوت دیتا ہے اور انهيں جنگ و بغاوت پر اکساتا ہے اس طرح خداوند عالم سے ایک بڑے کفر کا مرتکب ہوا ہے
زیاد نے اس شہادت نامہ کو مرتب کرنے کے بعد کہا: تم سب کو اسی طرح شہادت دینی چاہئے خدا کی قسم ميں کوشش کروں گا کہ اس احمق( حجر ) کا سر قلم کيا جائے ۔
اس لئے چار قبيلوں کے سرداروں نے اپنی شہادت بدل دی اور ابو بردة کے شہادت نامہ کے مانند ایک دوسر اشہادت نامہ مرتب کيا۔ اس کے بعد زیاد نے لوگوں کو دعوت دی اور حکم دیا کہ تم لوگوں کو بھی ان چار افردکی طرح شہادت دینا چاہئیاس کے بعد طبری کہتا ہے:
زیاد نے کہا ےہاں پر : پہلے قریش کے افراد سے شہادت لو ، اور پہلے ان لوگوں کا نام لکھنا کہ ہمارے نزدیک ( معاویہ ) عقيدہ کے لحاظ سے سالم اور خاندان اميہ کے ساتھ دوستی ميں مستحکم اور معرو ف ہيں ۔ زیاد کے حکم کے مطا بق ستر افراد کی گواہی کو حجر اور اُن کے اصحاب کے خلاف ثبت کيا گيا۔
ا س کے بعد طبری چندگواہوں کے نام ذکر کرتا ہے جوعبارت ہيں : عمر بن سعد،شمربن ذی الجو شن،ثبث بن ربعی اورزحر بن قيس۔
طبری مزید کہتا ہے : شداد ابن منذر بن حارث معروف بہ“ابن بزیعہ ” جسے اُس کی ماں سے نسبت دیا جاتا تھا،نے بھی اس شہادت نامہ پر دستخط کی ۔تو زیاد نے کہا :کيا اس کا کو ئی باپ نہ تھاجس کی طرف اس کی نسبت دی جاتی؟
اسے گواہوں کی فہرست سے حذف کردو انہوں نے کہا: یا امير! اس کا ایک بھائی ہے جس کا نام حضين بن منذر ہے اور باپ سے نسبت رکھتا ہے زیاد نے کہا : شداد کو بھی اس کے باپ سے نسبت دو اور کہو شداد بن منذر تو پھر کےوں اسے ابن بزیعہ کہتے ہو؟ یہ روداد جب ابن بزیعہ کے کانوں تک پہنچی تو وہ ناراض ہوا اوربے ساختہ بولا : امان ہو! زنا زادہ سے افسوس ہو! اس پر کيا اس کی ماں سميہ اس کے باپ سے زیادہ معروف نہيں تھی ؟ خدا کی قسم اسے اپنی ماں کی شہرت اور باپ سے نامعلوم ہونے کی وجہ سے ہميشہ اس کی ماں سے نسبت دی جاتی تھی اوروہ ابن سميہ سے معروف تھا ۔
شہادت نامہ کا جھٹلانا پھر سے طبری کہتا ہے:
” شہادت نامہ ميں موجود ناموں اور دستخطوں ميں ایک شریح بن حارث اور دوسرا شریح بن هانی تھا ليکن ان دونوں نے اپنے دستخط کو جھٹلایا ۔ شریح بن حارث کہتا ہے : زیاد نے حجر کے بارے ميں مجھ سے سوال کيا ميں نے اسے کہا: حجر ایسا شخص ہے جودن کو روزہ رکھتا ہے اور راتوں کو پروردگار کی عبادت ميں مشغول رہتا ہے ۔
____________________