عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

مشاہدے: 23497
ڈاؤنلوڈ: 3824


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23497 / ڈاؤنلوڈ: 3824
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 3

مؤلف:
اردو

سبا اور سبائی کے معنی ميں تحریف

ان السبئية دلت علی الانتساب الی الفرقة المذهبية بعد قرون

سبئےہ جو ایک قبيلہ کا نام تھا ، کئی صدیوں کے بعد تحریف ہوکے ایک نئے افسانوی مذہب ميں تبدیل ہوگیا ہے مؤلف

سبئی قبيلے جيساکہ ہم نے گزشتہ فصل ميں اشارہ کيا کہ گہری تحقيق اورجانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ “سبئی ” حقيقت ميں قحطان کے قبيلوں کاانتساب ہے کہ یہ قبيلے یمن ميں سکونت کرتے تھے ليکن بعد ميں بعض علل و عوامل کی وجہ سے جن کی تفصيل ہم اگلے صفحات ميں پيش کریں گے یہ لفط تحریف ہوکر ایک نئے مذہب سے منسوب ہوا اور اسی تحریف اور نئے استعمال کے نيتجہ ميں اسلام ميں ایک نيااور افسانوی مذہب پيدا ہوا ہے کہ حقيقت ميں اس قسم کا کوئی مذہب مسلمانوں ميں وجود نہيں رکھتا تھا ۔

اس سلسلہ ميں بيشتر تحقيق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تغير و تحول اور یہ تحریف اور الفاظ کا ناجائز فائدہ ان ادوار سے مربوط ہے جس ميں سبئی قبيلے یعنی قحطانيوں نے--- جو شيعان علی عليہ السلام کہے جائے تھے -- کوفہ ميں اجتماع کرکے جنگ جمل و صفين اور دوسری جنگوں ميں حضرت علی عليہ السلام کی نصرت کی ،جن کے سردار حسب ذیل تھے:

١۔ عمار بن یاسر قبيلہ عنس سبائی سے تھے ۔

٢۔ مالک اشتر اور کميل بن زیاد اور ان کے قبيلہ کے افراد دونوں ہی قبيلہ نخ و سبائی سے تھے

٣۔ حجر بن عدی کندی اورا ن کے قبيلہ کے افراد اورا ن کے دوست و احباب جوان کے ساتھ تھے سبائی تھے۔

۴ ۔ عدی بن حاتم طائی اورا ن کے قبيلہکے ا فراد سبائی تھے۔

۵ ۔ قيس بن سعد بن عبادہ خزرجی کہ قبائل سبائی کے خاندانوں ميں سے تھے اور دوسرے لوگ جو قبيلہ خزرج سے ان کے ساتھ تھے سبائی تھے۔

۶ ۔ خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتين اور حنيف کے بيٹے سہل و عثمان سب سبائيوں ميں سے تھے اسی طرح قبيلہ اوس کے افراد جوان کے ساتھ تھے سبائی تھے۔

٧۔ عبدالله بدیل ، عمرو بن حمق ، سليمان بن صرد اور انکے قبيلہ کے افراد وہ سب خزاعی سبائی تھے ۔

جی ہاں ، یہ لوگ اور ان کے قبيلوں کے دوسرے دسيوں ہزار افراد قبيلہ سبائی سے منسوب ہيں ، یہ لوگ خاندان اميہ کے سخت مخالف تھے عثمان کے دوران سے لےکر اميوں کی حکومت کے آخری دن تک یہ لوگ علی عليہ السلام اور ان کے خاندان کے دوستدار تھے ان لوگوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک حضرت علی عليہ السلام اور ان کے خاندان کی حمایت اور طرفداری کی ،اور اسی راہ ميں اپنی جان بھی نچھاور کرڈالی ۔

لفظ سبئی ميں تحریف کا آغاز

جيسا کہ ہم نے وضاحت کی کہ علی عليہ السلام کے اکثر چاہنے والے اور شيعہ،

قحطانی تھے اور یہ قحطانی “ سبا” سے منسوب تھے ۔ اسی نسب کی وجہ سے علی عليہ السلام کے دشمن پہلے دن سے زیاد بن ابيہ کی کوفہ ميں حکومت کے زمانہ تک نسبت کو ایک قسم کی برائی اور شرم ناک نسبت کے عنوان سے پيش کرتے تھے اور لفظ “ سبی” جو اس نسبت کی دلالت کرتا تھا سرزنش و ملامت کے وقت شيعہ علی کی جگہ پر حضرت علی عليہ السلام تمام پيرو و شيعوں کو “ سبا” سے نسبت دیتے تھے ۔ اس طرح اس لفظ کو اپنے اصلی معنی سے دور کرکے ایک دوسرے معنی ميں استعمال کرتے تھے ۔

مندرجہ ذیل خط ميں آپ ملاحظہ فرمائيں گے کہ زیاد بن ابيہ نے جو خط کوفہ سے معاویہ کو لکھا ہے ایسے افرادکے بارے ميں یہی لقب اورعنوان استعمال کيا ہے جو کبھی سبئی نہيں تھے حقيقت ميں یہ پہلاموقع تھا کہ لفظ“ سبئی” اپنے اصلی معنی ---جو یمن ميں ا یک قبيلہ کا نام تھا ---سے تحریف ہوا اور علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے تمام دوستداروں اور طرفداروں کيلئے استعمال ہونے لگا حقيقت ميں یہ روداد اس لفظ ميں تحریف کا آغاز ہے ملاحظہ ہو اس خط کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم

بندہ خدا معاویہ امير المؤمنين کے نام: اما بعد! خداوند عالم نے امير المؤمنين معاویہ پر احسان فرمایا اورا س کے دشمنوں کو کچل کے رکھ دیا اور جو اس کی مخالفت کرتے تھے انهيں بدبخت اور مغلوب کردیا ،ان “ ترابيہ ” اور“ سبائيہ ” ميں سے چند باغی و سرکشی افراد حجر بن عدی کی سردکردگی ميں امير المؤمنيں کی مخالف پر اتر آئے ہيں اور مسلمانوں کی صف سے جدا ہوکر ہمارے خلاف جنگ و نبرد آزمائی کاپرچم بلند کردیا ،ليکن خداوند عالم نے ہميں ان پر کامياب اور مسلط کردیا کوفہ کے اشراف و بزرگ اس سرزميں خير افراد اور متدین و نيکو کار لوگ جنہوں نے ان کے فتنہ و بغاوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ان کی کفر آميزباتوں کو سنا تھا ، کو ميں نے بلاکر ان سے شہادت طلب کی ، انہوں نے ان کے خلاف شہادت اور گواہی دی ۔ اب ميں اس گروہ کے افراد کو امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں بھيج رہا ہوں شہر کے جس متدین اور قابل اعتماد گواہوں نے ان کے خلاف شہادت دی ہے ميں نے ان کے دستخط کو اس خط کے آخر ميں ثبت کيا ہے“

ہم مشاہدہ کرتے ہيں کہ اس خط ميں زیاد نے حجر اور اُن اس کے ساتھيوں کو ترابيہ و سبائيہ نام سے یادکیا ہے اور ان کے ہمشہریوں سے انکے خلاف شہادت طلب کی ہے لهذا اُن ميں سے کئی افراد نے شہادت دیکر زیاد کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کی ہے ان کی اس شہادت کے مطابق ایک شہادت نامہ بھی مرتب کرکے معاویہ کے پاس بھيجا گيا ہے ۔

طبری کی روایت کے مطابق شہادت نامہ کا متن طبری نے زیاد کی طرف سے ریکارڈ اور شہادت نامہ مرتب کرنے کے بارے ميں یوں ذکر کيا ہے:

زیاد بن ابيہ نے حجر اور ان کے ساتھيوں کو زیر نظر رکھا ان ميں سے بارہ افرد کو گرفتار کرکے جيل بھيج دیا اس کے بعد قبائل کے سرداروں اور قوم کے بزرگوں کو دعوت دی اور ان سے کہا کہ جو کچھ تم لوگوں نے حجرکے بارے ميں دیکھا ان دنوں کوفہ ميں اہل مدینہ کا سردار “عمر بن حریث” تمےم اور ہمدان کے سردار “ خالد بن عرفہ” اور “قيس بن وليد بن عبد بن شمس بن سفےرہ ”ربيعہ اور کندہ کا سردار ابو بردة ابن ابی موسی اشعری تھا وہ اس کے علاوہ قبيلہ “مذحج و اسد ” کا بھی سردار تھا ۔

ان چار افراد نے ابن زیاد کی درخواست پر حسب ذیل شہادت دی:

” ہم شہادت دیتے ہيں کہ حجر بن عدی کئی افراد کو اپنے گرد جمع کرکے خليفہ (معاویہ ) کے خلاف کھلم کھلا دشنام اور بد گوی کرتا ہے لوگوں کو اس کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دیتا ہے نيزدعویٰ کرتا ہے کہ خاندان ابوطالب کے علاوہ کسی ميں خلافت کی صلاحيت نہيں ہے اس نے شہر کوفہ ميں بغاوت کرکے امير المؤمنين (معاویہ ) کے گورنر کو وہاں سے نکال باہر کيا ہے وہ ابو تراب ( علی عليہ السلام ) کی ستائش کرتا ہے اور کھلم کھلا اس پر درود بھيجتا ہے اور اس کے مخالفوں اور دشمنوں سے بيزاری کا اظہار کرتا ہے وہ افرادجن کو پکڑ کر جيل بھيج دیا گیا ہے وہ سب حجر کے اکابر اصحاب ميں ہيں اور اس کے ساتھ ہم فکر وہم عقيدہ ہيں “

طبری کہتا ہے:

” زیاد نے شہادت نامہ او ر گواہوں کے نام پر ایک نظر ڈال کر کہا: ميں گمان نہيں کرتا ہوں کہ یہ شہادت نامہ مير ی مرضی کے مطابق فيصلہ کن اور مؤثر ہوگا ميں چاہتا ہوں کہ گواہوں کی تعداد ان چار افراد سے بيشتر ہو اور اس کےمتن ميں بھی کچھ تبدیلياں کی جائيں ۔

اس کے بعد طبری ایک دوسرے شہادت نامہ کو نقل کرتا ہے جسے زیاد نے خود مرتب کرکے دستخط کرنے کيلئے گواہوں کے ہاتھ ميں دیا تھا اس کا متن حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم

ابو بردة ابن موسیٰ ، اس مطلب کی گواہی دیتا ہے اور اپنی گواہی پر خدا کو شاہد قراردےتا ہے کہ حجر بن عدی نے خليفہ کی اطاعت و پيروی کرنے سے انکار کيا ہے اور اس نے مسلمانوں کی جماعت سے دوری اختيار کی ہے وہ کھلم کھلا خليفہ پر لعنت بھيجتا ہے کئی لوگوں کو اپنے گرد جمع کرکے کھلم کھلا معاویہ کے ساتھ عہد شکنی اور اس کو خلافت سے معزول کرنے کيلئے دعوت دیتا ہے اور انهيں جنگ و بغاوت پر اکساتا ہے اس طرح خداوند عالم سے ایک بڑے کفر کا مرتکب ہوا ہے(۱)

زیاد نے اس شہادت نامہ کو مرتب کرنے کے بعد کہا: تم سب کو اسی طرح شہادت دینی چاہئے خدا کی قسم ميں کوشش کروں گا کہ اس احمق( حجر ) کا سر قلم کيا جائے ۔

اس لئے چار قبيلوں کے سرداروں نے اپنی شہادت بدل دی اور ابو بردة کے شہادت نامہ کے مانند ایک دوسر اشہادت نامہ مرتب کيا۔ اس کے بعد زیاد نے لوگوں کو دعوت دی اور حکم دیا کہ تم لوگوں کو بھی ان چار افردکی طرح شہادت دینا چاہئیاس کے بعد طبری کہتا ہے:

زیاد نے کہا ےہاں پر : پہلے قریش کے افراد سے شہادت لو ، اور پہلے ان لوگوں کا نام لکھنا کہ ہمارے نزدیک ( معاویہ ) عقيدہ کے لحاظ سے سالم اور خاندان اميہ کے ساتھ دوستی ميں مستحکم اور معرو ف ہيں ۔ زیاد کے حکم کے مطا بق ستر افراد کی گواہی کو حجر اور اُن کے اصحاب کے خلاف ثبت کيا گيا۔

ا س کے بعد طبری چندگواہوں کے نام ذکر کرتا ہے جوعبارت ہيں : عمر بن سعد،شمربن ذی الجو شن،ثبث بن ربعی اورزحر بن قيس۔

طبری مزید کہتا ہے : شداد ابن منذر بن حارث معروف بہ“ابن بزیعہ ” جسے اُس کی ماں سے نسبت دیا جاتا تھا،نے بھی اس شہادت نامہ پر دستخط کی ۔تو زیاد نے کہا :کيا اس کا کو ئی باپ نہ تھاجس کی طرف اس کی نسبت دی جاتی؟

اسے گواہوں کی فہرست سے حذف کردو انہوں نے کہا: یا امير! اس کا ایک بھائی ہے جس کا نام حضين بن منذر ہے اور باپ سے نسبت رکھتا ہے زیاد نے کہا : شداد کو بھی اس کے باپ سے نسبت دو اور کہو شداد بن منذر تو پھر کےوں اسے ابن بزیعہ کہتے ہو؟ یہ روداد جب ابن بزیعہ کے کانوں تک پہنچی تو وہ ناراض ہوا اوربے ساختہ بولا : امان ہو! زنا زادہ سے افسوس ہو! اس پر کيا اس کی ماں سميہ اس کے باپ سے زیادہ معروف نہيں تھی ؟ خدا کی قسم اسے اپنی ماں کی شہرت اور باپ سے نامعلوم ہونے کی وجہ سے ہميشہ اس کی ماں سے نسبت دی جاتی تھی اوروہ ابن سميہ سے معروف تھا ۔

شہادت نامہ کا جھٹلانا پھر سے طبری کہتا ہے:

” شہادت نامہ ميں موجود ناموں اور دستخطوں ميں ایک شریح بن حارث اور دوسرا شریح بن هانی تھا ليکن ان دونوں نے اپنے دستخط کو جھٹلایا ۔ شریح بن حارث کہتا ہے : زیاد نے حجر کے بارے ميں مجھ سے سوال کيا ميں نے اسے کہا: حجر ایسا شخص ہے جودن کو روزہ رکھتا ہے اور راتوں کو پروردگار کی عبادت ميں مشغول رہتا ہے ۔

____________________

١۔ ابو موسی کے بيٹے کے یہاں پر کفر سے مراد معاویہ کی بيعت کرنے سے انکار اور معاویة کو خلافت سے معزول کرنا ہے اس کے مانند ، حجاج کا بيان ہے جو اس نے ابن زبير کے بارے ميں اس کے قتل کے بعد اپنے خطبہ کے ضمن ميں کہا؛ لوگو ! عبد الله بن زبير پہلے اس امت کے نيک لوگوں ميں سے تھا یہاں تک کہ خلافت کا خواہشمند ہوا اور خلافت کے عہدہ داروں سے نبرد آزما ہوا اور حرم خدا ميں کفر و الحاد کا راستہ اختيار کيا خداوند ٣٣١ ) پھر حجاج نے ابن زبيرکی ماں سے / عالم نے بھی عذاب آتش کا مزہ اسے چکها دیا ( تاریخ ابن کثير ٨١٣۶ ) یہ بالکل / مخاطب ہوکر کہا؛ تمہار ابيٹا خانہ خدا ميں کفر و الحاد کا مرتکب ہو اہے ( تاریخ اسلام ذہبی ٣

واضح ہے کہ حرم الہی سے ابن زبير کے کفر و الحاد سے حجاج کا مقصد اس کی بنی اميہ کی منحوس خلافت سے مخالفت ہے۔

ليکن ، شریح بن ہانی کہتا ہے : جب ميں نے سنا کہ حجر بن عدی کے خلاف ميرے جعلی دستخط کئے گئے ہيں اور ميری شہادت بھی ثبت کی گئی ہے تو ميں نے اس شہادت نامہ کو جھٹلایا اور اسے جعل کرنے والوں کی مذمت کی ،شریح بن ہانی نے معاویہ کے نام ذاتی طور پر ایک خط بھی لکھا اورا سے وائل بن حجر کے توسط سے اس کے پاس بھيجا اور اس خط کا مضمون یہ تھا:

” معاویہ ! مجھے __________اطلاع ملی ہے کہ زیاد نے حجرکے خلاف اپنے خط ميں ميرے دستخط بھی ثبت کئے ہيں ، ليکن یہ شہادت اور دستخط جعلی ہيں ،حجر کے بارے ميں ميری صریح شہادت یہ ہے کہ وہ نماز پڑهتا ہے امر بمعروف و نہی عن المنکرکرتا ہے ، اسکی جان و مال محترم اور اسے قتل کرنا حرام ہے اب تم جانو چا ہے اسے قتل کرو یا آزاد“

جب معاویہ نے شریح کے خط کو پڑها تو اس نے کہا: شریح نے اس خط کے ذریعہ اس شہادت سے اپنے آپ کو الگ کيا ہے اس کے علاوہ ابن زیاد نے جن افراد کا نام شہادت نامہ ميں لکھا تھا ان ميں سری بن وقاص حارثی بھی تھا ، ليکن اس کو اس شہادت کے بارے ميں علم نہيں تھا۔

مغيرہ کے دوران حجر ابن عدی کا قيام

کان حجر من اعيان الصحابة یکثرالامر بالمعروف و النهی عن المنکر

حجر بن عدی پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے بزرگ صحابيوں ميں سے تھے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کثرت سے کرتے تھے ۔ مؤرخين گزشتہ فصل ميں حجر اور ان کے ساتھيوں کی بات چلی ہم نے کہا کہ زیاد بن ابيہ کی ان کے ساتھ گتهم گتھا ہوئی ،زیاد نے انهيں گروہ کو ‘ ‘ترابيہ و سبيئہ ” کا نام دیااور ان کے خلاف مقدمہ چلایا ان کے خلاف کئی لوگوں سے شہادت لی اور آخرکار افسوسناک اور دلخراش صورت ميں ا نهيں قتل کرڈالا ۔

اب ہم اس فصل ميں حجر ابن عدی کا تعارف کرائيں گے کہ وہ کون ہيں ؟ اور ان کے سبئی ہونے کا سر چشمہ کہاں سے ہے؟ زیاد بن ابيہ انهيں کيوں اور کيسے سبئی بتاتا ہے ؟

حجر کون ہيں ؟

حجر بن عدی بن معاویہ ، قبائل سبا بن یشجب کے خاندان معاویة بن کندہ سے تعلق رکھتے تھے رجال اور تشریح کی کتابوں ، جيسے : “ طبقات ابن سعد ” ، “ اسد الغابہ ” اور ‘ ‘اصابہ ” ميں ان کے بارے ميں یوں آیا ہے : حجر اور اس کے بھائی هانی مدینہ ميں داخل ہوئے اور پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حضور دین اسلام قبول کيا حجر نے جنگ “

قادسيہ ”(۱) ميں شرکت کی اور “ مرج عذرا ”(۲) انہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔

____________________

١۔ قادسيہ مسلمانوں کی ایرانيوں کے ساتھ ایک جنگ ہے یہ جنگ خلافت عمر ميں سعد بن ابی وقاص کی سپہ سالاری ميں عراق ميں واقع ہوئی ۔

٢۔ مرج عذرا دمشق کے نزدیک ایک بڑی آبادی تھی ۔

ا بن سعد طبقات ميں کہتا ہے :

”حجر اُن لوگوں ميں سے ہيں جنهوں نے دوران جاہليت و اسلام دونوں دیکھا ہے وہ ایک مؤثق اور قابل اعتماد شخص تھے حضرت علی عليہ السلام کے علاوہ کسی اورسے حدیث نقل نہيں کرتے تھے“

حاکم ، مستدرک ميں کہتا ہے:

”حجر ، پيغمبر اسلام کے اصحاب ميں سے ایک شائستہ صحابی تھے ، ان کا سالانہ وظيفہ دو ہزار پانچ سو تھا وہ اصحاب ميں ایک عادل اور تارک دنيا شخص تھے ”۔

صاحب استيعاب کہتا ہے:

”حجر پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے اصحاب ميں سے تھے وہ ایک ایسا شخص تھا جس کی دعا بارگاہ الہی ميں قبول ہوتی تھی وہ اصحاب کے درميان “ مستجاب الدعوہ ”

کے نام سے مشہور ہوچکے تھے“

صاحب اسد الغابہ کہتا ہے :

”حجر اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے درميان معروف ، باشخصيت اور با فضيلت اصحاب ميں سے تھے یہ جنگ صفين ميں امير المؤمنين علی عليہ السلام کی رکاب ميں قبيلہ کندہ کا پرچم انہی کے ہاتھ ميں تھا جنگ نہروان ميں بھی ميسرہ کی کمانڈ انہی کے ہاتھ ميں تھی جنگ جمل ميں بھی انهوں نے شرکت کی ہے حجر، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے بزرگ اصحاب ميں شمار ہوتے تھے ۔

اس کے بعد صاحب اسدا لغابہ اضافہ کرتا ہے:” وہ حجر خير کے نام سے معروف و مشہور ہيں ۔

سير اعلام النبلاء ميں آیا ہے:

”حجر ، ایک انتہائی شریف اور بزرگوار شخص تھے اپنے قبيلہ ميں انتہائی بااثر اور قابل اطاعت فردتھے امر بمعروف اور نہی عن المنکر کے موضوع کو کافی اہميت دیتے تھے اور اسے شجاعت ، شہامت اور کسی قسم کے خوف و ہراس کے بغير نافذ کرتے تھے ۔ نہی عن المنکر ميں تمام مسلمانوں سے پيش قدم تھے علی عليہ السلام کے نيک اور جانثار شيعوں ميں شمار ہوتے تھے جنگ صفين ميں علی عليہ السلام کے کمانڈروں ميں سے ایک تھے اپنے زمانہ کے صالح اور شائستہ اشخاص ميں شمار ہوتے تھے ۔

ذہبی کی ‘ تاریخ اسلام ” ميں آیا ہے:

حجر ، پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے صحابی اور “وفادت”(۱) کے افتخار سے سرفراز تھے وہ مدینہ آئے ، اپنی مرضی سے اسلام کی تعليمات کا نزدیک اور دقت سے مشاہدہ کيا ، اپنی فکر و تشخيص سے اسے پسند کيا اور اسے رضاکارانہ طو پر قبول کيا وہ پاک زاہد افراد ميں سے ایک تھے ہميشہ با طہارت اور با وضو رہا کرتے تھے امر بمعروف اور نہی عن المنکر پر دوسروں سے زیادہ عمل پيرا تھے“

ابن کثير اپنی تاریخ ميں کہتا ہے:

” حجر بن عدی اسلام قبول کرنے کيلئے مدینہ ميں رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوئے۔ وہ زاہد اور پرہيز گار ترین بندگان خدا ميں سے تھے، اور برا وبوالدتی کا مصداق اور شاہکار تھے ۔ وہ کثير الصلوٰة ا ور کثير الصوم تھے ان کا وضو کبھی باطل نہيں ہوتا تھا مگر یہ کہ وہ فوراً وضو کرتے تھے اورجب بھی وضو کرتے تھے اس کےبعد کوئی نماز بجالاتے تھے“ا صابہ ميں آیا ہے ؛”حجر ، علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے اصحاب اور شيعوں ميں سے تھے، ان کا علی عليہ السلام سے چولی دامن کا ساتھ تھا ابوذر کی وفات کے وقت ربذہ ميں ان کے سراہنے موجود تھے“صاحب اصابہ نے کہا ہے:

”جس وقت حجر کو شام لے جایا جارہاتھا انهےں غسل جنابت کے لئے پانی کی ضرورت پڑی اپنے مامور سے کہا: ميرے پينے کے پانی کے کل کے حصہ کو مجھے اس وقت دیدو تا کہطہارت کرلوں ( غسل کرلوں ) مامور نے کہا: ڈرتا ہوں کل پياس سے مرجاؤ گے اور معاویہ ہميں سرزنش کرکے سزادے گا ۔

صاحب اصابہ کا کہنا ہے : جب مامور نے پانی دینے سے انکار کيا تو حجر نے بارگاہ الہی ميں دعا کی اس کے بعد بادل کا ایک ٹکڑا سر پر نمودار ہوا اور اتنی بارش ہوئی کہ اس سے ان کی حاجت پوری ہوگئی اس کے ساتھيوں نے جب یہ روداد دیکھی تو کہا: حجر ! تم تو “

مستجاب الدعوة’ ’ ہو ، تمهاری دعا اس طرح بارگاہ الہی ميں قبول ہوتی ہے لہذا خداوند عالم سے دعا کرؤ تا کہ ہميں ظالموں سے نجات دے حجر نے کہا : “اَللّٰهم خر لنا” پروددگارا !جو کچھ

ہمارے لئے مصلحت ہو وہی عطا کر، کيونکہ ہم تيری چاہت کے خواہاں ہيں ۔

ی ہ تھے حجر اور ان کی شخصيت نيز ان کے سبائی ہونی کی داستان

مغيرہ کے خلاف حجر کا قيام طبری ۵ ١ هء کے حوادث کی پہلی فصل اور حجر اور اُن کے ساتھيوں کی روداد کی فصل ميں یوں نقل کرتا ہے:

____________________

١۔ وفادت : پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے زمانے ميں اگر کوئی شخص اسلام قبول کرنے کيلئے مدینہ ميں داخل ہوتا تھا اور اپنی مرضی و تشخيص سے اسلام کو قبول کرتا تھا سے “ وفادت ” کہتے تھے ۔ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے زمانے ميں یہ عمل ایک ممتاز اور بلند افتخار مانا جاتا تھا۔

جب ۴ ١ ئه کے ماہ جمادی ميں معاویہ نے مغيرہ بن شعبہ کو کوفہ کے گورنر کے طور پر انتخاب کرنا چاہا تواسے اپنے پاس بلایا اورکہا: مغيرہ ! ميں چاہتا تھا بہت سے مطالب کے بارے ميں تجھے یاددہانی کراؤں اور متعدد وصيتيں کروں ليکن اب ان باتوں کو نظر انداز کرتا ہوں کيونکہ تيری بصيرت اور کارکردگی پر کافی اعتماد و اطمينان رکھتا ہوں اورمجھے توقع ہے کہ جس ميں ہماری رضا مندی ہو اور جس چيز سے ہماری حکومت ترقی کرے گی اور رعيت کے امور کی مصلحت وابستہ ہو، اسے ہی انجام دو گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے، ليکن اس کے باوجود ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنے پر مجبور ہوں کہ جسے ہميشہ پيش نظر رکھنا اور اسے ميری اہم ترین وصيت سمجھ کر اس کی انجام دیہی ميں کسی قسم کی غفلت اور لا پروائی سے کام نہ لينا اور وہ یہ ہے کہ کسی وقت علی کی بد گوئی کرنے اور انهےں برا بهلا کہنے سے دست بردار نہ ہونا اور عثمان کی تعریف و توصيف ميں کوتاہی نہ کرنا، علی کے ماننے والوں کی عيب جوئی کرنے اور ان پراعتراض کرنے، اس کے شيعوں کی باتوں پر توجہ نہ دینے اور عثمان کے تابعےن سے پيار و محبت سے پيش آنے نيز ان کے تقاضوں اور مطالبا ت پر توجہ دینے کو اپنے پروگرام کا حصہ قرار دینا ۔

مغيرہ نے معاویہ کے جواب ميں کہا: ميں اپنے کام ميں تجربہ کار اور تربيت یافتہ ہوں تم سے پہلے دوسروں کی طرف سے بھی مختلف عہدوں پر فائز رہ چکا ہوں ميں نے ان کے لئے بھی شائستہ خدمات انجام دی ہيں اور مجموعی طور پر گذشتگان ميں سے کسی نے بھی ميرے کام کے سلسلہ ميں ميری سرزنش اور ملامت نہيں کی ہے کيونکہ جو بھی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی جاتی ہے اس کو انجام دینے ميں توقع سے زیادہ تلاش اور کوشش کرتا ہوں ،اب تم بھی ميرا امتحان لوگے اور دیکھ لو گے کہ ميں ا س امتحان ميں پاس ہوکر ستائش اور تجليل کا مستحق بن جاتا ہوں یا فيل ہوکر سرزنش اور ملامت کا حقدار ۔

معاویہ : جانتا ہوں تيری سر گرمی اور کارکردگی ہماری خوشنودی کا باعث ہوگی ۔

اس کے بعد طبری کہتا ہے : “ مغيرہ ، معاویہ کی طرف سے سات سال سے زیادہ عرصہ تک گورنری کے عہدہ پر فائز رہا ۔ اس مدت ميں اس نے ریاست اور حکمرانی کی بہترین روش کو اپنایا لوگوں کی مصلحت ، بہبودی اور آسائشکا خیال رکھتا تھا، ليکن اس مدت ميں معاویہ کے حکم کے مطابق ہر چيز سے بيشتر اس نکتہ پر خاص توجہ دیتا تھا اور ہر موضوع سے بيشتر اس ميں سعی و کوشش کرتا تھا کہ علی عليہ السلام کی مذمت کرنے اور ان کی بد گوئی کرنے ميں کوتاہی نہ کرے عثمان کے قاتلوں پرلعنت بھيجنے ميں ایک لمحہ بھی غفلت نہ کرے عثمان کيلئے دعا کرنے ميں ان کيلئے طلب رحمت و مغفرت کرنے ميں ان کی اور ان کے دوستوں کی تعریف و تمجيد کرنے ميں کسی قسم کا بخل نہ کرے ۔ جب حجر بن عدی مغيرہ کی علی عليہ السلام کے بارے ميں اس سخت سرزنش اور لعنت و نفرین کو سنتے تھے تو کہتے تھے۔ خداوند عالم تجھ پر لعنت اور سرزنش کرے نہ کہ علی عليہ السلام اور اُن کے ماننے والوں پر۔

ایک دن مغيرہ تقریر کررہا تھا اور شعلہ بيانی کے ساتھ بولتے بولتے علی عليہ السلام اور ان کے دوستداروں کی بد گوئی کرنے لگااور عثمان کی تعریف و تمجيد ميں مصروف ہوگيا حجر بن عدی لوگوں کے درمیان سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز ميں بولے کہ خداحکم دیتا ہے کہ انصاف کی رعایت کرو، سچی گواہی دو ، ميں شہادت دیتا ہوکہ جس کی تم سرزنش او ر بدگوئی کررہے ہو وہ فضيلت کا مستحق ہے اور جس کی تم تعریف و تمجيد کرتے ہو وہ مذمت اور سرزنش کيلئے سزاوار تر ہے ۔

مغيرہ نے جب حجر کا بيان سنا تو بولا: اے حجر ! جب تک ميں تيرا فرمانروا ہوں تم آسائش ميں ہو اے حجر افسوس ہے تم پرحاکم ---معاویہ ---کے خشم سے ڈرو ، اس کی طاقت اور غضب سے چشم پوشی نہ کرو کيونکہ سلطان کے خشم کی آگ کبھی تم جيسے بہت سے لوگوں کو اپنی لپيٹ ميں لے کر نگل جاتی ہے ۔

ا س طرح مغيرہ بعض اوقات حجر کو ڈراتا اوردهمکاتا تھا اور سختی اور سزا کے بارے ميں انهےں تہدید کرتا تھا اور کبھی کبھی اغماض اور چشم پوشی سے پيش آتا تھا یہاں تک کہ مغيرہ کی حکمرانی کے آخری ایام آپہنچے پھر سے ایک دن مغيرہ نے اپنی تقریر کے دوران علی عليہ السلام اور عثمان کے بارے ميں زبان کهولی اور یوں کہا؛ خداوندا! عثمان بن عفان پر اپنی رحمت نازل کرے اور اسے بخش دے اور اس کے نيک اعمال کی بہترین جزا دے کيونکہ اس نے تيری کتاب پر عمل کيا اور پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی سنت کی پيروی کی اور ہماری پراکندگی کو اتحاد وا تفاق ميں تبدےل کيا اور ہمارے خون کی حفاظت کی اور خود مظلوم اور بے گناہ مارے گئے پروردگارا !تو اسے ، اس کے ماننے والوں ، دوستوں اور خونخواہوں کو بخش دے ۔

مغيرہ نے اپنی تقریر کے اختتام پرعثمان کے قاتلوں پر لعنت بھيجی یہاں پر حجر اٹھ

کھڑے ہوئے اور مغيرہ پر ایسی فریادبلند کی کہ مسجد کے اندر اور باہر موجود سب لوگوں نے ان کی آواز سن لی ،انهوں نے مغيرہ سے مخاطب ہوکر چيختے پکارتے ہوئے کہا؛ تم اپنے بوڑهاپے کی وجہ سے سے نہيں سمجھتے ہو کہ کس کے ساتھ الجه رہے ہواور جھگڑا کررہے ہو؟ اے مرد ! حکم دے تا کہ بيت المال سے ميرا وظيفہ مجھے دیاجائے کيوں کہ تيرے حکم سے ميرا حق مجھ سے روکاگياہے ۔ جبکہ تجھے یہ اختيار نہيں ہے اورہمارے ساتھ تم نے ظلم کيا ہے۔ سابق گورنر ایسا نہيں کرتے تھے اور اس قسم کی جرات و جسارت نہيں کرتے تھے ۔ تم نے اب حد سے زیادہ تجاوز کيا ہے اور یہاں تک پہنچے ہو کہ امير المؤمنين علی عليہ السلام کی مذمت اورسرزنش کرتے ہو اور ظالموں کی مدح و ثنا کرتے ہو!!

حجر کے مقابل ميں مغيرہ کی سياست طبری کہتا ہے:

جب حجر کی بات یہاں تک پہنچی تو مسجد ميں دو تہائی لوگ کھڑے ہوگئے اور ایک آواز ميں کہا: جی ہاں ،صحيح ہے مغيرہ ! خداکی قسم حجر سچ کہتا ہے اور حق کا دفاع کررہا ہے تيری یہ باتيں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہيں رکھتی ہيں ، حکم دو تا کہ ہمارے حصہ کو بيت المال سے ادا کریں ا ور یہيں پر همارا حق دیدیں لوگوں نے مغيرہ کو ایسی باتيں بہت سنائيں اور شور و غل بر پا ہوگیا مغيرہ منبر سے نيچے اترا اور اپنے گھر چلا گيا اس کے طرفدار اجازت حاصل کرکے اس کے پاس گئے اور اس سے کہا: مغيرہ ! تم کيوں اس شخص کو اجازت دیتے ہو کہ یہ تيرے سامنے تيری حکومت کے بارے اس طرح گستاخانہ باتےں کرتاہے؟ تم نے اپنی اس روش کی وجہ سے اپنے لئے مشکل مول لی ہے اول یہ کہ : اپنی فرمانروائی کو کمزور کردیا ہے دوسرے یہ کہ معاویہ کی سرزنش اور غضب ميں اپنے آپ کو مبتلا کردیاہے ، کيونکہ اگر آج کی روئدادکی رپورٹ معاویہ تک پہنچے تو تيرے لئے معاویہ کی طرف سے حجر کی بے احترامی سے بد تر جسارت و سرزنش ہوگی“

طبری کہتا ہے :

مغيرہ نے ان کے جواب ميں کہا: ميں نے اپنی سياست اور نرم رویہ سے اسے موت کے نزدیک پہنچادیا ہے کيونکہ عنقریب ہی ایک نيا گورنر اس شہر ميں آنے والا ہے ۔ حجر اس کے ساتھ بھی ميرے جيسا سلوک کرے گا جس بے حيائی کا اس نے آج مظاہرہ کيا اور آپ نے بھی دیکھا ، اس گورنر کے سامنے بھی وہ اس کی تکرار کرے گا اور وہ پہلے ہی مرحلہ ميں حجر کو گرفتار کرکے بد ترین صورت ميں ا سے قتل کر ڈالے گا اور اب مير ی عمر آخر کو پہنچی رہی ہے اور ضعف و سستی سے دوچار ہوں ميں نہيں چاہتا ہوں اس شہر ميں دہشت گردی کا آغازميری وجہ سے ہوجائے اور ميرے ہاتھ اہل کوفہ کے نيک ترین اور متدین ترین شخصيتوں کے خون سے رنگيں ہوجائيں اوران کا خون بہایاجائے ا ور وہ اس طرح فيض سعادت کو پہنچيں اور ميرے نصيب شقاوت و بدبختی ہوجائے اور معاویہ اس دنيا ميں زیادہ سے زیادہ ریاست و عزت کا مالک بن جائے اور مغيرہ آخرت کی ذلت و بدبختی ميں مبتلا ہوجائے بطور کلی فی الحال ميری روش یہ ہے کہ جو بھی ميرے ساتھ ہے مجھ سے نيکی کرے ميں اس کی نيکی کا اجر اسے دوں گا اور جو کوئی ميرے ساتھ مخالفت اوردشمنی کرے اسے معاف کرکے اُس کے حال پر چھوڑ دوں گا ، برباد ، حليم اور خاموش طبع افرادکی ستائش کروں گا ۔ بے عقل ، نادان اورنکتہ چينی کرنے والوں کو نصيحت کروں گا تا کہ جس دن موت ميرے اور ان کے درميان جدائی و دوری ایجاد کرے ، اور اس صورت ميں جس دن کوفہ کے لوگ ميرے بعد نئے گورنر کی سخت روش کا مشاہدہ کریں گے تو اس وقت ميرے طریقہ کار کی ستائش کریں گے اور مجھے نيکی کے ساتھ یاد کریں گے ۔

زیاد بن ابيہ کے دوران حجر کاقيام

ویل امک یا حجر سقط العشاء بک علی سرحان

افسوس ہو تيری مال کی حالت پر اے حجر ! کہ تم بهيڑ یے کا لقمہ بن گئے زیاد بن ابيہ

حجر سے زیاد کی گفتگو مغيرہ ۴ ١ هء سے ۵ ١ هء تک کوفہ کا گورنر تھا ، اس نے ۵ ١ هء ميں وفات پائی، اس تاریخ کے بعد بصرے اور کوفہ کی فرمانروائی زیاد بن ابی سفيان کو سونپی گئی زیاد کوفہ کی طرف روانہ ہوا اور دار الامارہ ميں داخل ہوا ۔

ابن سعد کی “ طبقات” اور ذہبی کی “ سير اعلام النبلاء ”’ ميں آیا ہے:

”جب زیاد بن ابيہ گورنر کی حيثيت سے کوفہ ميں پہنچا اس نے حجر بن عدی کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا: حجر ! کيا تم جانتے ہو کہ ميں تجھے دوسروں سے بہتر پہچانتا ہوں جيسا کہ تم جانتے ہو کہ ميں اور تم دونوں ایک دن علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے محب اور دوستدار تھے ليکن آج حالات بدل گئے ہيں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کوئی ایسا کام انجام نہ دینا کہ تيرے خون کا ایک قطرہ ميرے ہاتھ پر گر جائے ، چنانچہ اگر مسئلہ یہاں تک پہنچا تو ميں تم سب کاخون بہادوں گا حجر ! اپنی زبان پر کنٹرول کرنا اور اپنے گھر کے ایک کونے ميں بيٹهنا کہ اےسی صورت ميں تيری جگہ یہ تخت حکمرانی ہوگی اور تيری تمام ضروریات پوری ہوں گی ۔

حجر ، تجھے تيری جان کيلئے خداکی قسم دیتاہوں کہ اپنا خيال رکھنا ميں تيری جلد بازی سے باخبرہوں اے ابو عبدا لرحمان ١ ا ن ذليل ، بد معاش ، جاہل اور نادان لوگوں سے دور رہنا ایسا نہ ہو کہ لوگ تيری فکر کو بدل ڈاليں اور تيرے عقيدہ کو منحرف کرڈالےں اگر تم اس کے علاوہ کچھ ثابت ہوئے اور بيوقوفوں کی راہ پرچلے تو تم نے ميری نظر ميں اپنے مقام کو پست و حقير بنادیا اور اپنی حيثيت کو گرادیا ہے حجر ! جان لو کہ اس صورت ميں آسانی کے ساتھ تم سے دست بردار نہيں ہوں گا اورتجھے سزا دینے ميں کسی بھی جسمانی اذیت سے دریغ نہيں کروں گا ۔

حجر نے زیاد بن ابيہ کے جواب ميں ا س مختصر جملہ پر اکتفا کيا : تيری بات کو ميں سمجھ گيا اور زیاد بن ابيہ کے خلاف حجر کی بغاوت اس طرح شيعہ حجر کے گھر آمد و رفت کرتے تھے اور ان کی ہمت افزائی کرتے تھے کہ تم ہمارے رئيس و سرپرست ہو ، دیگر لوگوں کی نسبت تمہيں زیاد کی اس ناشائستہ حرکتوں اور طریقہ کار کا زیادہ انکارکرنا چاہئے اور علی عليہ السلام کے خلاف اس کے لعن کے مقابلہ ميں کھڑا ہونا چاہئے جب حجر مسجد کی طرف جاتے تو شيعيان علی بھی ان کے ساتھ مسجد جاتے تھے یہاں تک کہ زیاد بصرہ چلا گيا اور عمرو ابن حریث کو اپنی جگہ پر جانشين مقر رکيا عمرو نے ایک شخص کو حجر کے پاس بھيجا تا کہ پوچهے کہ اس اجتماع کا سبب کيا تھا؟ اور کيوں یہ لوگ تيرے گرد جمع ہوئے تھے جبکہ تم نے اميرکے ساتھ عہد و پيمان باندها ہے اور اس سے مدد کا وعدہ کے(۱) ہے۔

حجر نے عمرو بن حریث کے قاصد کو کہا: کيا تم خود نہيں جانتے ہو کہ کيا کرتے ہو؟ دور ہوجاؤ ! عمرو بن حریث نے حجر کی باتوں کے بارے ميں زیاد بن ابيہ کو من و عن رپورٹ دی اور یہ جملہ بھی اضافہ کيا کہ : اگر کوفہ کی ضرورت رکھتے ہو تو فوراً خودکو کوفہ پہنچاو ۔

زیاد عمرو کے خط کو پڑهنے کے بعد فوراً کوفہ کی طرف روانہ ہوا ور شہر ميں داخل ہوگے

____________________

١۔ عربی زبان ميں اگر کسی کا احترام کرنا چاہتے ہيں تو ا س کی کنيت سے خطاب کرتے ہيں ۔