عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے11%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25254 / ڈاؤنلوڈ: 4523
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۳

مؤلف:
اردو

تيرے پوشيدہ مقاصد سے بھی آگاہ ہوا اس کے بعد اپنے گھرچلے گئے گورنر کی طرف سے حجر کو بلانے کی خبران کے دوستوں او رشيعيان امير المؤمنين عليہ السلام کو پہنچی ، وہ اسکے گھر گئے اور انهےں بلایا اور گفتگو کی علت پوچھی حجر نے زیاد کی باتوں سے انهيں آگاہ کيا ۔ اس کے دوستوں نے کہا: زیاد کی باتيں تيرے لئے اصلاح و خير خواہی کا پہلو نہيں رکھتی ہيں ۔

طبری روایت کرتا ہے : زیاد پہلے دار الامارہ ميں داخل ہوا اس کے بعد ریشمی قبا زیب تن کئے ہوئے سبز عبا شانوں پر رکھ کر سر کے بالوں کو کنگھی کرکے مسجد کی طرف روانہ ہوا اور منبر پر گيا،اس وقت حجر اپنے ساتھيوں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ مسجد کے ایک کونے ميں بيٹھے ہوئے تھے ، زیاد نے حمد و ثنا کے بعد کہا؛ سر کشی اور گمراہی کا انجام خطرناک ہے یہ چونکہ آرام وآسائش ميں زندگی کرتے تھے اس لئے سر کش ہوئے ہيں اور اطمينان حاصل کرکے ميرے مقابلہ ميں جسارت کی ہے خداکی قسم ! اگر اپنی گمراہی سے دست بردار نہيں ہو ئے اور سيدهے راستے پر نہ آئے توميں تمہارے درد کا علاج جانتا ہوں اگر ميں کوفہ کے علاقہ کو حجر کے حملات سے محفوط نہ رکھ سکا اور اسے عبرتناک سزا نہ دے سکا تو ميری کوئی قدر و منزل نہيں ہے افسوس ہو تيری ماں کی حالت پر اے حجر ! کہ تم بهيڑیہ کا لقمہ ہوگئے ۔

طبری مزید نقل کرتا ہے : زیاد بن ابيہ نے ایک دن ایک لمبی چوڑی تقریر کی اور نمازميں تاخير کی حجر بن عدی نے زبان کهولی اور کہا؛ زیاد ! نماز کا خيال رکھنا ، نماز کا وقت گزر گيا ليکن زیاد بن ابيہ نے اس کی باتوں کی طرف توجہ نہيں کی اور اپنی تقریری جاری رکھی پھر سے حجر نے بلند آواز نماز ! نماز! زیاد نے پھر بھی اپنی تقریر کو جاری رکھا جب حجرکو وقت نمازکے گزرجانے کا خوف ہوا تو اس نے مسجد ميں موجود کنکریوں سے دونوں مٹهياں بھرکر پھينکا اور خود نماز کيلئے کھڑے ہوگئے لوگ بھی ان کے ساتھ نماز کيلئے اٹھ کھڑے ہوئے جب زیاد نے اس حالت کا مشاہد کيا تو فوراً منبر سے اتر کر نماز کيلئے کھڑا ہوگيا لوگوں نے بھی اس کے ساتھ نماز ادا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن ميں حجر کے حالات بھی منعکس کئے اور بہت سے دوسرے مطالب بھی اس کے خلاف لکھے۔

معاویہ نے زیاد کے خط کے جواب ميں لکھا : اس کی گردن ميں ایک بهاری زنجير بانده کر ميرے پاس بھيج دو ۔

استيعاب کا مؤلف اس داستان کو اس صورت ميں بيان کرتا ہے جب معاویہ نے زید کو عراق اور اس کے نواحی علاقوں کی گورنری سوپنی تو زیادنے اس علاقہ ميں برے سلوک او رسختی کا آغاز کيا اس وجہ سے حجر نے اس کی اطاعت کرنے سے انکار کيا ليکن معاویہ کی حکمرانی کی نافرمانی نہيں کی علی عليہ السلام کے شيعوں اور ان کے پيروں ميں سے بعض لوگوں نے زیاد کو معزول کرنے کے سلسلہ ميں حجر کی حمایت کی اورا ن کی پيروی کی ایک دن حجر نے زیاد کی طرف سے نماز ميں تاخير کرنے کی وجہ سے زیاد کی طرف پتهر پھينکے ۔

” اسد الغابہ ” اور ‘ الاصابہ ” کے مؤلفين نے بھی اس مطلب کی تائيد کی ہے ۔

طبری اس روداد کو ایک دوسری روایت ميں یوں نقل کرتاہے:

زیاد نے اپنی پوليس کو یہ آڈر جاری کيا کہ وہ حجر کو گرفتار کرکے اسکے پاس لے آئيں ،پوليس کے افراد جب حجر کے پاس پہنچے تو حجر کے ساتھيوں نے ان سے کہا : حجر ، کبھی زیاد کے پاس نہيں جآئیں گے ہم زیاد کيلئے کسی بھی قسم کے احترام کے قائل نہيں ہيں ۔

پوليس کے افسر نے دوسری بار چند مامورین کو بھيج دیا تا کہ حجر کو پکڑ کر اس کے پاس لے آئيں جب یہ مامورین حجر کے نزدیک پہنچے تو حجر کے ساتھيوں نے گاليوں اور بدگوئی سے ان کا جواب دیا ۔

حجر کے ساتھيوں کا متفرق ہونا:

زیادنے کوفہ کے بزرگوں اور اشراف کو اپنے پاس بلایا اور غضبناک حالت ميں ان سے مخاطب ہوکر بولا : اے کوفہ کے لوگو ! ایک ہاتھ سے سر پهاڑتے ہو اوردوسرے ہاتھ سے مرہم پٹی باندهتے ہو تمہارے جسم ميرے ساتھ اور دل حجر ،پاگل اور سراپا شر وفساد کے ساتھ ہيں تم لوگ ميرے ساتھ ہو ليکن تمہارے بھائی ، بيٹے اور قبيلہ کے افراد حجر کے ساتھ ہيں یہ ميرے ساتھ حيلہ اور فریب کے علاوہ کچھ نہيں ہے ۔ خدا کی قسم یا تم لوگ فوراً اس سے دوری اور بيزاری اختيار کروورنہ ایک ایسی قوم کو تمہارے شہر ميں بھيج دوں گا جو کہ تم کو سيدها کرکے رکھدیں گے۔

جب زیاد کی بات یہاں تک پہنچی تو حضار مجلس اٹھ کر کھڑے ہوئے اور کہا: ہم خداکی پنا ہ چاہتے ہيں کہ آپکے احکام کی پيروی کرنے اور امير لمؤمنين (معاویہ ) اور قرآن کی اطاعت کرنے کے علاوہ کوئی اور خيال نہيں رکھتے حجر کے بارے ميں جو بھی آپ کا حکم ہو ہم اطاعت کرنے کے لئے حاضر ہيں آپ مطمئن رہيں ۔

زیاد نے کہا: پس تم ميں سے ہر ایک شخص اٹھے گا اور اپنے بھائی ، فرزندں و رشتہ داروں اور قبيلہ کے لوگوں کو حجر کے گرد سے اپنی طرف بلائے اور تم ميں سے ہر شخص حتیٰ الامکان یہ کوشش کرے کہ حجر کے ساتھی متفرق ہوجائيں ۔

کوفہ کے سرداروں نے زیاد کے حکم پر عمل کيا اور حجر کے گرد جمع ہوئے اکثر لوگوں کو متفرق کردیاجب زیاد نے دیکھاکہ حجر کے اکثر ساتھی متفرق ہوگئے ہيں تو اس نے اپنے پوليس افسر کو حکم دیا کہ حجر کے پاس جائے اگر اس نے بات مانی اور اطاعت کی تو اپنے ساتھ ميرے پاس لے آو ورنہ اپنے سپاہےوں کو حکم دے کہ بازار ميں موجود لکڑی کے کهمبوں کو اکهاڑ کر ان پر حملہ کریں اور حجر کو ميرے پاس لائيں اورجو بھی اس راہ ميں رکاوٹ بنے اس کی پٹائی کریں ۔

پوليس افسر نے اپنے افراد کو حکم دیا کہ بازار کے لکڑیوں کے کهمبوں کو اکهاڑ کر حملہ کریں زیاد کی پوليس کے سپاہےوں نے ایساہی کيا اور ڈنڈوں کے ساتھ حجر کے ساتھيوں پر حملہ آ ور ہوئے ۔

عمير بن یزدی کندی جو خاندان هند سے تعلق رکھتا تھا اور “ ابو العمر طہ ” کے نام سے مشہور تھا ، نے کہا؛ اے حجر! تيرے ساتھيوں ميں ميرے سوا کسی کے پاس تلوار نہيں ہے اور ایک شخص تو کچھ کر ہی نہيں سکتا ہے حجر نے کہا:اب ميں کيا کروں مصلحت کيا ہے ؟

عمير نے کہا؛ تمہيں یہاں سے فوراً چلے جانا چاہئے اور اپنے قبيلہ کے افرادکے پاس پہنچنا چاہئے تا کہ وہ تيری حمایت اور نصرت کریں ۔

اس وقت زیاد منبر پر چڑه کر کھڑا مشاہدہ کررہا تھا کہ پوليس کے افراد ڈنڈوں سے حجر کے افرد پر حملہ کررہے تھے حمراء(۱) ميں سے بکر بن عبيہ عمودی نامی ایک شخص نے جو

____________________

١۔ حمراء ،ایک لقب تھا خلافت کے دربار ميں موجود عربوں نے اس لقب کو ایرانيوں کيلئے رکھا تھا۔

حجر کے ساتھيوں ميں سے تھا عمرو بن حمق ١ کے سر پر زور سے ایک ضرب لگائی وہ زمين پر گر گيا ليکن قبيلہ ازد کے دو افراد نے اسے اٹھا کر اس کے قبيلہ کے ایک شخص کے گھر لے گئے عمر وکچھ دن اس گھر ميں مخفی رہا اور ٹھيک ہونے کے بعد وہاں سے چلا گيا ۔طبری کہتا ہے : اس حملہ کے بعد حجر کے ساتھی مسجد کے کندہ نامی دروازے کی طر ف جمع ہوئے اس اثناء ميں ایک پوليس والے نے عبد الله بن خليفہ طائی پر ایک ڈنڈہ مارا وہ زمين پر گرگيا اور پوليس والا یہ رجز پڑ ه رہاتھا ۔

قد علمت یوم الهياج خلتی

انی اذا فئتی تولت

و کثرت عداتها او قلت

انی قتّال غداة بلت

ميرے دوست جانتے ہيں اگرميد ان کارزار ميں ميرا ہم رزم گروہ بهاگ جائے اور ہمارے دشمن زیادہ ہوں ميں اس کمی کے باوجود ایساقتل عام کروں گا کہ دوسرے فرار کر جائيں گے۔

حجر مخفی ہوجا تے ہيں :اس کے بعد حجر کے ساتھی مسجد کے ان دروازوں سے باہر نکلے جن کا نام کندہ تھا حجر گھوڑے پر سوارہو کر اپنے گھر کی طر ف چلے گئے پھر بھی اس کے بعض ساتھيو ں نے اس کے گھر ميں اجتماع کيا، جو قبيلہ کندہ کے افراد کی نسبت کم تھے اسی جگہ پر حجر کے سامنے زیاد کے مامورین اور حجر کے ساتھيوں کے درميان ایک جنگ چهڑ گئی حجر نے اپنے ساتھيوں سے مخاطب ہوکر کہا: افسوس ہے تم پر ! کيا کررہے ہو ؟ جنگ نہ کرو اور متفرق ہوجاؤ ۔ ميں بعض کوچوں ميں سے گزر کر قبيلہ بنی حرب کی طرف جاتا ہوں اس کے بعد حجر

____________________

١۔ طبری عبدا لله بن عوف سے نقل کرتاہے کہ وہ کہتا ہے کہ مصعب کے قتل ہونے کے ایک سال بعد کو فہ ميں داخل ہوا اتفاقاً راستہ ميں ایک احمری شخص کو دیکھا جس دن عمر بن حمق زخمی ہوا تھا اس دن سے اسے نہيں دیکھا تھا اور تصور نہيں کرتا تھا کہ اگر کبھی عمرو کے مارنے والے کو دیکھ لوں تو اسے پہچان سکوں ليکن چونکہ ميں نے اس کودیکھاتھا تو احتمال دیا کہ یہ عمرو کا مارنے والا ہوناچاہئے ميں نے سوچا کہ اگر موضوع کو سوال کی صورت ميں پيش کروں تو ممکن ہے بالکل انکار کرے۔ اس لئے ميں نے مسئلہ کو اس طرح پيش کيا : ميں نے تمہيں اس روز کے بعد آج تک نہيں دیکھا جب تم نے عمرو پر حملہ کرکے اس کے سر کو زخمی کردیا تھا ، اس نے جواب ميں کہا: تيری آنکھيں کتنی تيز بين اور تيری نظر کتنی رسا ہے ۔ جی ہاں جو کام اس دن مجھ سے سرزد ہوا ، اس کے بارے ميں آج تک پشيمان ہوں کيونکہ عمرو ایک لائق اور شائستہ شخص تھاجب ميرا گمان یقين ميں بدل گيا تو ميں نے اس سے کہا: خدا کی قسم جب تک نہ تجھ سے عمرو کا انتقام لے لوں تم سے دست بردار نہيں ہوں گا ۔ اس نے مجھ سے التماس اور درخواست کی کہ اسے معاف کردوں ليکن ميں نے اس کی بات کی طرف توجہ نہيں کی ۔ ميرا ایک غلام جو ایرانی اور اصفہانی تھا ، اس کے ہاتھ ميں ایک بهاری برچھی تھی ، اس نے اس سے لے ليا اور پوری زور سے اس شخص کے سر پر دے مارا کہ وہ زمين پر گرگيا اور اسی حال ميں چھوڑکر ميں چلا گيا ۔ ليکن بعد ميں اس کا زخم ٹھيک ہوگيا تھا کہ ایک بار پھر اس سے ملاقات ہوئی ہر بار جب وہ مجھے دیکھتا تھا تو کہتا تھا : ميرے اور تيرے درميان خدا فيصلہ کرے گا۔ اور ميں بھی اس کے جواب ميں کہتا تھا :خداتيرے اور عمرو بن حمق کے درميان فيصلہ کرے ۔

اسی طرف روانہ ہو گئے ا ور سليم بن یزد نامی بنی حرب کے ایک شخص کے گھر ميں داخل ہوئے زیاد کے مامور اور پوليس جو حجر کا پيچها کررہے تھے نے اس گھر کو تحت نظر رکھا اور اسے اپنے محاصرہ ميں قرار دیا سليم نے جب اپنے گھر کو زیاد کے مامورین کے محاصرہ ميں پایاتو اس نے اپنی تلوارکھينچ لی تاکہ زیادکے مامورین سے جنگ کرے اس کی بيٹيوں کے رونے کی آواز بلند ہوئی حجر نے پوچھا : سليم ! تم کيا کرنا چاہتے ہو ؟ اس نے جواب ميں کہا : ميں ان لوگوں سے درخواست کرنا چاہتاہوں تاکہ آپ سے دست بردار ہوکرچلے جائيں ، اور اگر انہوں نے ميری بات قبول نہ کی تو جب تک ميرے ہاتھ ميں یہ تلوار ہے ان سے لڑوں گا اورتمہارا دفاع کروں گا حجر نے کہا: لا ابا لغيرک --- تيرے علاوہ بن باپ کا ہے ميں نے تيری بيٹيوں کيلئے کيا مصيبت پےدا کی ہے ! سليم نے کہا: نہ ان کا رزق ميرے ہاتھ ميں ہے اور نہ ميں ان کا محافظ ہوں ان کا رزق اور ان کی حفاظت اس خداکے ہاتھ ميں ہے جو ہميشہ زندہ ہے اورمرگ و زوال اس کے لئے ہر گز نہيں ہے ميں کسی بھی قيمت پر اس ذلت کو برداشت نہيں کروں گا کہ وہ ميرے گھر ميں داخل ہوکر ميرے مہمان اورجا گزےن شخصکو گرفتار کریں اور جب تک ميں زندہ ہوں اور تلوار ميرے ہاتھ ميں ہے ہر گز اس کی اجازت نہيں دوں گا کہ تجھے ميرے گھر ميں گرفتار کيا جائے اور تجھے اسيرکرکے زنجيروں ميں جکڑا جائے مگر یہ کہ مجھے تيرے سامنے قتل کيا جائے اسکے بعد جو چاہيں کرےں حجر نے کہا: سليم ! تيرے اس گھر ميں کوئی سوراخ یا کہيں پست دیوار نہيں ہے ؟ تا کہ ميں راستہ سے خود کو باہر پہنچا دوں ؟ شاےد خدا وند عالم مجھے ان افراد کے شر سے اور تجھے جنگ و قتل سے نجات دے ؟ کيونکہ جب وہ مجھے تيرے پاس نہ پائيں گے تو تجھے کوئی ضررر نہيں پہنچائيں گے سليم نے کہا؛ کيوں ، یہ ایک سوراخ ہے یہاں سے نکل کر بنی عنبر اور دیگر قبيلوں کے ےہاں پہنچ سکتے ہو جو تيرے رشتہ دار ہيں حجر سليم کے گھر سے چلے گئیاور کوچوں کے پيچ و خم سے گزر کر قبيلہ نخ کے ےہاں پہنچ گئے اور اشتر کے بھائی عبدالله بن حارث کے گھر ميں داخل ہوئے حارث نے حجر کا استقبال کيا اور ان کی مہماں نوازی اور حمایت کی ذمہ داری لے لی جو عبد الله کے گھرميں تھا ایک دن اسے اطلاع ملی کہ زیاد کی پوليس اسے قبيلہ نخ ميں ڈهونڈ رہی ہے اور اس کا پيچها کررہی ہے اس کی سياہ فام کنيز نے پوليس والوں کو یہ اطلاع دی تھی حجر قبيلہ نخ ميں ہے جب پوليس والے اس سے مطلع ہوئے تو حجر عبدالله کے گھر سے بهيس بدل کررات کو نکل گئے اور خود عبد الله بھی سوار ہوکر اس کے ساتھ نکلا یہاں تک ربيعہ بن ناجد ازدی کے گھرے ميں داخل ہوگئے ایک دن اور رات وہاں پر ٹھہرے اس طرح سپاہی کافی تلاش کے باوجود حجر کو گرفتارنہ کرسکے اور نااميدی کے ساتھ زیاد کی طر ف واپس لوٹے پھر زیاد بن ابيہ نے حجر کو گرفتار کرنے کيلئے ایک دوسری راہ کا انتخاب کيا اور اس طرح حجر بن عدی کو گرفتار کيا گيا اگلی فصل ميں داستان کا باقی حصہ بيان کریں گے ۔

حجر بن عدی کی گرفتاری

والله لا حرصنّ علی قطع خيط رقبة

خدا کی قسم کوشش کرتا ہوں کہ اس کی گردن کی رگ کو کاٹ دوں زیاد بن ابيہ جيسا کہ ہم نے گزشتہ فصل ميں کہا کہ زیاد کے مامور حجر کو گرفتار نہ کرسکے اور نااميدی کی حالت ميں واپس آئے زیا دنے روداد کو جب اس حالت ميں دیکھا تو حجر کی گرفتار کيلئے دوسری راہ اختيار کی اور وہ یہ کہ : محمد بن اشعث کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا:

اے ابو ميثاء ! حجر جہاں بھی ہو اسے تمہيں تلاش کرنا ہوگا اور اسے تلاش کرکے ميرے حوالہ کرنا ، ورنہ خدا کی قسم تيرے تمام درختوں کو کاٹ دوں گا ، تيرے گھر کو مسمار کردوں گا اور تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالوں گا ۔

ابن اشعث نے کہا: امير ! مجھے مہلت چاہئے ۔ زیاد نے کہا: اس کا م کوانجام دینے کيلئے تجھے تين دن کی مہلت دیتا ہوں اگر تين دنوں کے اندر حجر کو لا سکے تو نجات پاؤ گے ورنہ اپنے آپ کو مردوں ميں شمار کرنا اس کے بعد حکم دیا محمد بن اشعث ---جس کا رنگ اڑگيا تھا اور حالت بگڑ گئی تھی --- کو گھسيٹتے ہوئے زندان کی طرف لے گئے ۔ حجر بن یزید کندی نے جب محمد کو اس حالت ميں دیکھا تو زیاد کے پاس آکر کہا؛ امير ! ميں محمد کيلئے ضمانت دیتاہوں اسے آزادکردو تا کہ حجر کو تلاش کرے کيونکہ اگر اسے زندان ميں ڈالنے کے بجائے آزاد چھوڑ دو تا کہ پورے انہماک اور لگن کے ساتھ اس کام کو انجام دے ۔ زیاد نے کہا: کيا تم اس کی ضمانت دوگے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ،ز یاد نے کہا: اے ابن یزید: باوجود اس کے کہ تم ميرے نزدیک بلند مقام و منزلت کے حامل ہو اگر محمد بن اشعث ہمارے چنگل سے فرار کر گيا تو تجھے موت کے حوالہ کرکے نابودکردوں گا ۔

حجر بن یزید نے کہا: محمد ہر گز مجھے ضمانت ميں پھنسا کر فرار نہيں کرے گا اس کے بعد زیاد نے محمد کو آزاد کرنے کا حکم دیا پھر زیاد نے قيس بن یزید کو اپنے پاس بلایا جو جيل ميں تھا اور اسے کہا؛ قيس ! ميں جانتا ہوں کہ حجر کے رکاب ميں تيرا جنگ کرنا خاندانی تعصب کی بناء پر تھا نہ عقيدہ اور ہم فکری کی وجہ سے ميں نے تيری اس خطا اور گناہ کو بخش دیا اور تجھے عفو کيا کيونکہ ميں نے جنگ جمل ميں معاویہ کے رکاب ميں تيری حسن رائے اور جانفشانی کے بارے ميں سنا ہے ليکن تجھے آزاد نہيں کروں گا جب تک کہ اپنے بھائی عمير کو ميرے پاس حاضر نہ کرو گے۔ قيس نے جواب دیا : انشاء الله جتنا جلد ممکن ہوسکا اسے تيرے حضورميں پيش کروں گا زیاد نے کہا: کوئی تيری ضمانت کرے تا کہ تجھے آزاد کردوں قيس نے کہا: یہی حجر بن یزید مير اضامن ہے حجر بن یزید نے کہا: جی ہاں ، ميں قيس کی ضمانت دیتاہو ، اس شرط پر کہ امير، ہمارے عمير کو امان دیدے اور اس کی طرف سے ان کی جان و مال پر کوئی نقصان نہ پہنچے زیاد نے کہا: ميں نے عمير کو امان دی۔

قيس اور حجر گئے اور عمير کو زخمی بدن اور خون آلود حال ميں زیاد کے پاس لے آئے اس نے حکم دیا کہ اس کی گردن پر ایک بهاری زنجير ڈالی دیں زنجير ڈال کرزیاد کے حکم کے مطابق بعض مامورین زنجير کو پکڑ کر اسے دیوار کی بلندی تک کھينچتے اورپھر زنجير کو چھوڑ

دیتے تھے کہ وہ زور سے زمين پر گرتا تھا دوبارہ اسے دیوار کی بلندی تک کھينچتے تھے اور زمين پر چھوڑتے تھے حجر بن یزید نے اعتراض کرتے ہوئے کہ؛ اے امير : کيا تم نے اسے امان نہيں دیا ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ميں نے اس کے مال و جان کو امان دی ہے نہ اس کے بدن کو ۔ميں نہ خون بہاتا ہوں اور نہ اس کے مال سے کچھ ليتا ہوں ، حجر نے کہا: وہ تو تيرے اس عمل سے مرنے کے قریب ہوجائے گا اس کے بعد حاضرےن بزم ميں سے ےمنی جماعت نے اٹھ کر زیاد سے گفتگو کی اور عمير کی آزادی کی درخواست کی ۔ زیاد نے کہا: اگر تم لوگ اس کی ضمانت کرو گے اوروعدہ کرو گے کہ اگر اس نے پھر سے ہماری سياست اور حکومت کے خلافت کوئی کاروائی کی تو تم لوگ تو خود اسے گرفتار کرکے ہمارے حوالہ کرو گے تو ميں اسے آزاد کردوں گا ۔ انہوں نے کہا:

جی ہاں ، اس تعہد و ضمانت کو قبول کرتے ہيں ۔ زیاد نے عمير کو آزاد کرنے کا حکم دیا ۔

حجر کا مخفی گاہ سے باہر آنا:

ا یک شب و روز تک ، حجر بن عدی، ربيعہ ازدی کے گھر ميں پناہ گزےن رہے اسی جگہ پر حجر مطلع ہوئے کہ زیاد نے محمد بن اشعث سے تعہد ليا ہے کہ حجر کو اس کے حوالہ کردے گا ورنہ اس کی ثروت پر قبضہ ، گھر کو مسمار اور خود اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گاحجر نے یہ خبر سننے کے بعد محمد بن اشعث کو پيغام بھيجا کہ تيرے بارے ميں اس ظالم اور ستم گر کی باتوں کو ميں نے سنا ، ليکن پریشان نہ ہونا کيونکہ ميں خود تيرے پاس آجاؤں گا ليکن تم بھی اپنے قبيلہ کے افراد کو جمع کرنا اور ان کے ہمراہ زیاد کے پاس جانا اور اس سے ميرے لئے امان کی درخواست کرناتاکہ مجھے کسی قسم کی تکليف نہ پہنچائے اور مجھے معاویہ کے پاس بھيج دے تا کہ ميرے بارے ميں خود وہ فيصلہ کرے ۔ جب یہ خبر محمد بن اشعث کو پہنچی تو وہ اٹھ کر حجر بن یزید، جریر بن عبد الله اور مالک اشتر کے بهتيجے عبدالله بن حارث کے گھر گيا اور ان سب کو اپنے ساتھ لے کر زیاد کے پاس گيا اور اس کے ساتھ حجر بن عدی کے بارے ميں گفتگو کی اور حجر کو امان دینے اور اسے معاویہ کے پاس بھيجنے کی درخواست کی ۔ زیادنے ان کی درخواست منظور کی اور حجر ابن عدی کو امان دی ۔

ا نہوں نے بھی حجر بن عدی کو اطلاع دیدی کہ زیاد نے تيری درخواست منظورکرلی ہے اور تجھے امان دیا ہے اب تم اپنی مخفی گاہ سے باہر آسکتے ہو،اور زیاد سے ملاقات کرسکتے ہو حجر بن عدی بھی ربيعہ کے گھر سے باہر آگئے اور دار الامارہ ميں گئے حجر پر زیاد کی نظر پڑتے ہی زیادنے کہا:

مرحبا ہو تم پر اے عبدالرحمان ، جنگ کے دنوں ميں جنگ و خونریزی اور صلح و آرام کے دنوں ميں بھی جنگ و خونریزی ؟ علی اهلها تجنی براقش(۱) حجر نے زیاد کے جواب ميں کہا:

ميں نے نہ اطاعت سے انکار کيا ہے اور نہ جماعت سے دوری اختيار کی ہے بلکہ ميں اپنی سابقہ بيعت معاویہ پر قائم ہوں ۔

زیاد نے کہا: هيئات ، هيئات ، ! بعيد ہے اے حجر ! تم ایک ہاتھ سے تھپڑ مارتے ہو اور دوسرے ہاتھ سے نوازش کرتے ہو تم چاہتے ہو کہ جب ہم تم پر کامياب ہوں تو اس وقت تجھ سے راضی ہوجائيں ! خدا کی قسم نہيں !

حجر نے کہا: کيا تم نے مجھے امان نہيں دی ہے تاکہ معاویہ کے پاس جاؤں اور جس طرح وہ چاہے ميرے ساتھ برتاؤ کرے ؟

____________________

١۔کہتے ہيں ایک عرب قبيلہ کے کتے کا نام ‘ براقش” تھا ، ایک رات کو اس کتے نے گھ وڑوں کے چلنے کی آوازسنی اور بهونکا ۔ان گھ وڑوں پر ڈاکو سوار تھے اس کتے کی آواز پر اس قبيلہ کے گھ ر شناسائی کرکے اس پر شب خون مارا اور تمام ثروت کو لے بهاگے اس روز کے بعد عربوں ميں یہ جملہ ضرب المثل بنا ہے : “ علی اهلها جنت براقش” یہ ضرب المثل اس وقت کہتے ہيں جب کوئی خود اپنے کام پر یاقبيلہ پر ظلم کرتا ہے براقش کتے نے اپنے ہی مالک پر ظلم کيا ۔

زیاد نے کہا: کيوں نہيں ، ميں نے ہی تجھے امان دی ہے اس کے بعد مامورین کی طرف رخ کرکے بولا : اسے زندان لے جاؤ جب حجر زندان کی طرف روانہ ہو ئے زیاد نے کہا :خدا کی قسم اگر اسے امان نہ دیا ہوتا تو یہيں پر ا س کا سر قلم کردیتا اور خدا کی قسم آرزو رکھتا ہوں کہ اس کا انتقام لے کر اس کی زندگی کاخاتمہ کرکے رکھدوں ۔ حجر نے بھی زندان کی طرف جاتے ہوئے بلند آواز ميں کہا: خدایا ! تو شاہد رہنا ميں اپنی بيعت اور عہد و پيمان پر باقی ہوں ميں نے اسے نہيں توڑا ہے اور نہ اسے توڑنے کا ارادہ رکھتا ہوں ! لوگو! سن لو!

اس وقت اس سرد ہوا ميں حجر کے سر پر صرف ایک ٹوپی تھی ، اسے دس دن کيلئے جيل بھيج د یا گيا۔

حجر کے ساتھيوں کی گرفتاری اس مدت کے دوران زیاد نے حجر کے ساتھيوں کو پکڑنے کے علاوہ کوئی کام نہيں کيا ۔

عمرو بن حمق اور رفاعہ بن شدا دجو حجر کے خاص ساتھی تھے نے کوفہ سے فرار کيا اور عراق کے موصل پہنچے اور وہاں پر ایک پہاڑ کے درميان مخفی ہوگئے اور ایک جگہ کو اپنے لئے پناہ گاہ قرار دیا ، جب علاقہ کے چودهری کو اطلاع ملی کہ دو ناشناس افراد پہاڑوں ميں ایک غار ميں مخفی ہوئے ہيں وہ ان کے بارے ميں شک ميں پڑگيا اور چند لوگوں کے ہمراہ انکی طرف بڑها ، جب کوہ کے دامن پر پہنچے تو وہ دونوں پہاڑ کے درميان سے باہر نکلے عمر بن حمق سن رسيدہ ہونے کی وجہ سے بہت تهک چکا تھا اوراب اس ميں فرار کی ہمت باقی نہيں رہی تھی اس لئے اس نے فرار اور مقابلہ کرنے پر ہتهيار ڈالنے کو ہی ترجيح دیا ليکن رفاعہ عمرکے لحاظ سے جوان اور جسم کے لحاظ سے قوی اور طاقتور تھا وہ گھوڑے پر سوار ہوا تا کہ عمرو بن حمق کا دفاع کرے اور اسے گرفتار ہونے سے بچالے عمرو نے اسے کہا : رفاعہ ! تيری جنگ اور مقابلہ کا کوئی فائدہ نہيں ہے اگر ہوسکے تو اپنے آپ کو ہلاکت سے بچالو اور اپنی جان کا تحفظ کرلو رفاعہ نے ان پر حملہ کيا اور ان کی صف کو توڑ کر بهاگنے اور اپنے آپ کو نجات دینے ميں کامياب ہوگيا ليکن عمرو بن حمق پکڑا گيا اس سے پوچھا گيا کہ تم کون ہو ؟ اس نے جواب ميں کہا: ميں وہ ہوں ، اگر مجھے آزاد کرو گے تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر قتل کرو گے تو تمہارے لئے گراں تمام ہوگااس نے صرف اسی جملہ پر اکتفا کيا اوراپنا تعارف کرانے سے اجتناب کيا لہذاا سے موصل کے حاکم عبدالرحمان بن عبد الله ثقفی معروف بہ ابن ام حکم ---معاویہ کے بهانجے ---کے پاس بھيجا عبدالرحمان نے عمرو کو پہچان ليا اس نے معاویہ کو ایک خط ميں اس کے فرار کرنے اور پکڑے جانے کی روئداد لکھی اور اس کے بارے ميں اپنا وظیفہ دریا فت کیا۔

معاویہ نے خط کے جواب ميں لکھا : عمرو بن حمق نے اپنے اعتراف کے مطابق عثمان کے بدن پر برچھی کے نو ضربيں لگآئیں ہم اس سے تجاوز کرنانہيں چاہتے لہذا جس طرح اس نے عثمان کے بدن پر نو ضرب لگائی ہيں اسی طرح تم بھی اس کے بدن پر برچھی سے نو ضرب لگاو۔

عبدالرحما ن نے عمرو کے بارے ميں معاویہ کے حکم پر عمل کيا پہلی یا دوسری بار جب اس کے بدن پر برچھی کی ضرب لگائی گئی تو اس نے جان دیدی ۔

عمرو بن حمق کون ہے ؟

عمرو بن حمق رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے اصحاب ميں سے تھے صلح حدیبيہ کے بعد آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوکر صحابی رسول بننے کی سعادت حاصل کی ۔ آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے کثیر تعداد ميں احادیث یاد کےں جب عمرو نے آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی خدمت ميں ایک گلاس پانی پيش کيا آنحضرت نے اس کيلئے یوں دعا کی:

خدایا : اسے جوانی سے بہرہ مند فرما :اللهم امتعه بشبابه

لہذا اسی ( ٨٠ )سال کی عمرميں بھی اُن کے چہرے پر جوانی کا نشاط نمایاں تھا ،

حتی اس کے سر و صورت کا ایک بال بھی سفيد نہيں ہوا تھا۔

وہ ان افراد ميں سے ہيں جنہوں نے عثمان کے خلاف بغاوت ميں شرکت کی عمرو بن حمق عثمان کے مظالم سے مقابلہ کرنے کيلئے کچھ لوگوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ان چار افراد ميں سے ایک ہيں جو عثمان کے گھر ميں داخل ہوئے ۔(۱) وہ امير المؤمنين علی عليہ السلام کے نزدیک ترین اصحاب ميں سے تھے علی عليہ السلام کی تمام جنگوں جنگ جمل، صفين اور نہروان ميں علی کی رکاب ميں شرکت کی ہے زیاد بن ابيہ سے ڈر کے مارے کوفہ سے بهاگ کر موصل فرار کر گئے موصل کے حاکم نے معاویہ کے حکم سے ان کا سر قلم کرکے معاویہ کے پاس بھيجدیا ۔

مؤرخين نے کہا ہے : اسلام ميں جو پہلا سر شہر بہ شہر لے جایا گيا عمرو بن حمق کا کٹا ہوا سر تھا ۔

جب اس کے سر کو معاویہ کے پاس لایا گيا اس نے حکم دیا اس کے سر کو اس کی بيوی ( آمنہ بنت شرید ) جو معاویہ کے حکم سے ایک مدت سے شام کے زندان ميں تھی کے پاس لے جائيں عمرو کے کٹے ہوئے سر کوزندان ميں اسکی بيوی کی آغوش ميں پھينک دیا گيا آمنہ اپنے شوہر کا کٹا سر دیکھ کر مضطرب اور وحشت زدہ ہوئی اس کے بعد کٹے ہوئے سر کو آغوش ميں لے کر اپنے ہاتھ کو اپنے شوہر کی پيشانی پر رکھا اسکے ہونٹوں کو چوما اور پھر کہا: “ ایک طولانی مدت تک اس نے مجھ سے جدا کردیا اور آج اس کا کٹا سر ميرے لئے تحفہ کے طورپر لائے ہو آفرین ہو اس تحفہ پر مرحبا

____________________

١۔ عثمان کے قتل ميں کن لوگوں نے براہ راست اقدام کيا اسکے بارے ميں مورخين ميں اختلاف ہے بعض کہتے ہيں محمد ابن ابی بکر نے ہاتھ ميں لئے ہوئے نيزہ سے ضرب لگائی اور اسے قتل کيا ليکن کچھ لوگ کہتے ہيں کہ محمد بن ابوبکر اسکے گھ ر ميں داخل ہوئے ليکن سودان بن حمران نامی ایک شخص نے اسے قتل کيا کچھ لوگ کہتے ہيں کہ محمد بن ابی بکر عثمان کی داڑهی کو پکڑ کرکھيچاجس پر عثمان نے کہا: ایک ایسے ریش کو کھينچ رہے ہو کہ تيرا باپ اس کا احترام کرتا تھا اور تيرا باپ تيرے اس کام سے راضی نہيں ہوگا محمد نے جب عثمان کا یہ جذباتی کلام سنا تو چھوڑ کر اس گھ رکے سے باہرنکل گئے۔

اس ہدیہ پر(۱) : عمرو بن حمق ۵٠ هء ميں شہيد ہوئے(۲)

حجر بن عدی اور ان کے ساتهيوں کا قتل

اللّٰهم انما نستعدیک علی امتن

خداوندا ! ہم اپنی ملت سے، کوفہ شام کے بظاہر ان مسلمانوں سے تيری بارگاہ ميں شکایت کرتے ہيں ! حجر ابن عدی طبری کہتا ہے : زیاد بن ابيہ نے حجر ابن عدی کے ساتھيوں کو گرفتار کرنے کی زبردست کوشش کی ان ميں سے ہرایک کسی نہ کسی طرف فرار کرتا رہا جہاں کہيں بھی ان ميں سے کسی کو پایا گرفتار کرليتا تھا ۔

صيفی کی گرفتاری طبری کہتا ہے : قيس بن عباد شيبانی، زیاد کے پاس گيا اور کہا : ہمارے قبيلہ ميں صيفی بن فسےل نامی خاندان ہمام کا ایک شخص ہے وہ حجر بن عدی کے ساتھيوں ميں ایک بزرگ شخصيت ، وہ تيرے شدید مخالفوں ميں سے ہے، زیاد نے ایک مامور کو بھيجا اور صيفی کو لایا گيا زیاد نے اس سے مخاطب ہوکر کہا: اے دشمن خدا ! ابو تراب کے بارے ميں تيرا عقيدہ کيا ہے ؟اس نے کہا: ميں ابو تراب کو نہيں جانتا ہوں زیاد نے کہا: تم اسے اچھی طرح جانتے ہو ! صيفی نے کہا: نہيں ، ميں ابو تراب کو نہيں جانتا ہوں ! زیاد نے کہا: کيا تم علی ابن ابيطالب عليہ السلام کو نہيں جانتے ہو ؟ اس نے کہا: کيوں نہيں ؟ زیاد نے کہا:وہی تو ابو تراب ہيں !

صيفی نے کہا؛ نہيں ، وہ ابو الحسن اور ابو الحسين ہيں ۔ زیاد کی پليس افسر نے صيفی کو دهمکی دیتے ہوئے کہا: کہ امير کہتا ہے وہ ا بو تراب ہيں اور تم کہتے ہو نہيں ؟ صيفی نے کہا:

اگر امير جھوٹ کہے تو کيا مجھے بھی اس کے جھوٹ کی تائيد کرنی چاہئے اور اسکے باطل اور بے بنياد مطالب پر گواہی دوں ؟! زیاد نے کہا: صيفی ! یہ بھی ایک دوسرا گناہ ہے ۔ حکم دیا ایک عصا لائيں ، اس کے بعد صيفی سے مخاطب ہوکر بولا : تم علی عليہ السلام کے بارے ميں کيا کہتے ہو؟ صيفی نے کہا: بہترین بات جو ایک بندہ خدا کيلئے زبان پر جاری کرسکتا ہوں وہی علی عليہ السلام کے بارے ميں کہوں گا زیاد نے حکم دیا کہ عصا سے اس کی گردن پر اس قدر ماریں تا کہ زمين پر گرجائے ۔ ظالموں نے ایسا ہی کيا ۔ زیاد نے کہا: اسے چھوڑ دو اس کے بعد سوال کيا: اب بتاؤ علی عليہ السلام کے بارے ميں کيا کہتے ہو؟ صيفی نے کہا: خدا کی قسم اگر مجھے چاقو سے ٹکڑے ٹکڑے کر دوتو علی عليہ السلام کے بارے ميں اس کے علاوہ کچھ نہيں سُن پاؤ گے ۔ زیاد نے کہا: علی پر لعنت کرو ورنہ تيرا سر قلم کردوں گا ۔ صيفی نے

____________________

١۔ غير قالية و مقلية

٢۔ ہم نے عمرو بن حمق کی زندگی کے حالات کو “ استيعاب ” ، اسد الغابہ اور اصابہ سے نقل کيا ہے ليکن کے کٹے سر کو اس کی بيوی کے پاس بھيجنے کی روایت کو صرف اسد الغابہ سے نقل کيا ہے ۔

مرتد کو جلانے کی روایتيں

انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر

جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔

ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،

علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :

١۔ کشی مزید کہتا ہے:

جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔

امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔

کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !

افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!

انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔

اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:

”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”

کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”

کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔

٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :

ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔

ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ

تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!

اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!

اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :

جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔

ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔

جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !

اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”

ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔

٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:

کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔

۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔

۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:

آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:

” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “

۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔

ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :

”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا

٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔

جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:

وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات ”۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔

اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !

امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!

مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،

حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟

-جی ہاں ۔

-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟

- نہيں ۔

- دین مسيح کے پيرو ہو؟

- نہيں ۔

- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟

- ہم مسلمان ہيں ۔

-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟

- نہيں ۔

- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔

-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔

اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟

-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔

-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔

- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔

-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!

-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔

پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔

انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا ۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔

اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔

راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔

امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔

اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟

ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟

علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟

رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!

علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!

سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔

حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:

اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔

یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!

امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔

اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:

” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “

ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١

٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:

اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟

” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔

یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔

ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔

یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔

روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات

علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔

اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:

اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔

اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛

یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔

یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔

ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔

ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔

ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“

یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ

شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم

مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔

” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟

ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل ” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔

امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔

گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔

پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،

فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١

ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔

بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،

قتل ہے نہ جلانا۔

اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17